غیبت کی تعریف
-
- شائع
-
- مؤلف:
- مولانا سید بہادر علی زیدی قمی
- ذرائع:
- کتاب: غیبت امام عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)
غیبت کی تعریف
غیبت کی لغوی تعریف
لفظ "غیبت" ، مادۂ "غیب" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پوشیدہ ہونا، غائب ہونا ہے۔ مشہورومعروف لُغَوی راغب اصفہانی کا کہنا ہے:
"الغيب مصدر غابت الشمس وغيرها اذا استترت عن العين ؛
"غیب" مصدر ہے۔ سورج وغیرہ غائب ہوگیا، یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب یہ نگاہوں سے پوشیدہ اور غائب ہوجائیں۔ غابَ عنِّی کذا؛ میری نگاہوں سے پوشیدہ ہوگیا۔ قرآن کریم میں آیا ہے:
( اَم کان من الغایبین ) ؛
کیا وہ غائب ہوگیا ہے؟(۱) ؛ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہُد ہُد کے نہ دیکھنے پر کہا تھا"(۲) ۔
نیز راغب سے پہلے کہ بزرگ لُغَویّین جیسے ابن فارس (متوفی ۳۹۵ ہجری) اور بعد میں آنے والے جیسے ابن منظور (متوفی ۷۱۱ ہجری) اور فیومی (متوفی ۷۷۰ ہجری) وغیرہ کا کہنا ہے:
"الغیب کُلّ ما غاب عنک "۔
غیب یعنی ہر وہ چیز جو تم سے غائب ہو۔
پس غیب کے معنی پنہان و پوشیدہ اور ہر وہ چیز جو نگاہ یا علم سے مخفی و پوشیدہ ہو۔
صاحب مجمع البحرین رقمطراز ہیں:
"قوله تعالي :( وَأَلْقُوهُ فِي غَيابَة الْجُبِّ ) ،بفتح الغين، ای فی قعره. سمی به لغيبوبته عن أعين الناظرين، وکلّ شیء غيب عنک فهو غيابة ...، وما من غائبة أی ما من شیء شديد الغيبوبة و الخفاء . ..."(۳)
اور صاحب لسان العرب تحریر کرتے ہیں:
"والغيب أيضاً ما غاب عن العيون وإن کان محصّلاً فی القلوب، ويقال سمعت صوتاً من وراء الغيب أی من موضع لا أراه...، وقد تکرر فی الحديث ذکر الغيب وهو کلّ ما غاب عن العيون "(۴)
غیبت کی اصطلاحی تعریف
غیبت کی اصطلاحی معنی کے سلسلہ میں چند صورتیں متصور ہیں:
۱ ۔ امام علیہ السلام ایام غیبت میں ایک مخصوص جگہ پر ماسوا سے کنارہ کشی کرکے گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔
۲ ۔ امام علیہ السلام ہر جگہ موجود ہیں لوگوں کے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں البتہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب و پوشیدہ ہیں۔
۳ ۔ انھوں نے لوگوں سے رابطہ منقطع کرلیا ہے البتہ صرف ضروری موقع پر ارتباط قائم کرتے ہیں۔
حضرت سے مربوط روایات میں تین قسم کے الفاظ "ظہور" ، "خروج" اور "قیام" کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔ اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ظہور اور حضور میں فرق پایا جاتا ہے؛ ظہور یعنی اس طرح آشکار و ظاہر ہونا کہ دیکھا جاسکے جبکہ حضور اس سے اعم ہے،
یعنی حاضر ہونا چاہے دکھائی دے یا دکھائی نہ دے۔ جب یوں کہا جاتا ہے کہ حضرت غائب ہیں، ظاہر نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انکا فزیکل ظہور نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ حاضر بھی نہیں ہیں۔ بنابریں حضرت کو غائب اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپؑ ظاہر نہیں ہیں نہ یہ کہ حاضر بھی نہیں ہیں۔
بالفاظ دیگر حضرت کی غیبت کا مطلب انکا نامر ئی ہونا نہیں ہے اور نہ ہی یہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ عرصۂ غیبت کے دوران ظہور ہونے تک ایک وجود نامر ئی ہیں، لوگوں سے مکمل طورپر دور گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے سے بالکل الگ تھلگ ہوگئے ہیں؛ بلکہ روایات سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ امام علیہ السلام کوچہ و بازار میں آمد و رفت کرتے ہیں، لوگوں کی محافل میں شرکت کرتے ہیں لیکن پہچانے نہیں جاتے۔(۵)
پس اصطلاحی طور پر غیبت ظہور کے مدّ مقابل ہے، جس کے معنی نگاہوں سے مخفی او رپوشیدہ ہونا ہے، غیبت بمعنی عدم حضور نہیں ہے۔ یہ معنی لغوی معنی سے بھی سازگار ہیں اور روایات سے بھی انہی معنی کی تائید ہوتی ہے بطور نمونہ ہم یہاں دو مثالیں پیش کر رہے ہیں:
علی بن محمد سمری کے پاس آنے والی توقیع شریف میں وارد ہوا ہے:
"... فقد وقعت الغيبة التامّة ، فلا ظهور إلّا بعد إذن الله تعالي... ألا فمن ادّعی المشاهدة قبل خروج السفيانی والصيحة فهو کذّاب مفتر "(۶)
میری غیبت تامہ واقع ہوچکی ہے۔ اور جب اللہ کا حکم ہوگا اسی وقت ظہور ہوگا ۔۔۔ مگر جو خروج سفیانی اور صدائے آسمانی کے پیدا ہونے سے پہلے مجھے دیکھنے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔"
صادق آل محمد حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے عبید بن زرارہ نے روایت نقل کی ہے:
"يفقد الناس إمامهم فيشهدهم الموسم، فيراهم ولا يرونه "(۷)
"لوگ اپنے امام کو گم کردیں گے (امام غائب ہوجائیں گے) لیکن موسم حج میں وہ حاضر ہوں گے البتہ وہ لوگوں کو دیکھیں گے مگر لوگ انھیں نہیں دیکھیں گے"۔
ان روایات میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ امام عصر علیہ السلام ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ وہ حاضر بھی نہیں ہیں۔
پس احادیث مہدویت پر غور و فکر اور جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان روایات میں غیبت کے دو معنی ہیں۔
اول یہ کہ وہ ہمارے انسانی اجتماعات سے دو ر زندگی بسر کر رہے ہیں اور لوگوں کی دسترس سے اس طرح دور ہیں کہ لوگ ان کے دیدار یا ملاقات کے لئے ان کے پاس حاضر نہیں ہوسکتے۔ گویا جس طرح ایک عام آدمی کو دیکھا جاسکتا ہے ، کوئی اپنا ہو یا غیر، کوئی بھی انہیں نہیں دیکھ سکتا۔
دوئم یہ کہ آنجناب اپنی چاہت کے مطابق عام لوگوں سے مخفی ہیں، ان کی نگاہیں انھیں دیکھنے سے عاجز ہیں اور سوائے چند پرہیز گار و وارستہ انسانوں کے کوئی بھی انھیں دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ جس طرح ارواح، ملائکہ اور جن انسانی اجتماعات میں موجود ضرور ہیں لیکن سوائے چند مخصوص افراد کے کوئی بھی انھیں دیکھنے پر قادر نہیں ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملائکہ انبیاء کے علاوہ دیگر افراد کے لئے بھی ظاہر ہوئے ہیں اور انھیں بعض لوگوں نے اپنی نگاہوں سے دیکھا ہے جیسا کہ تاریخ کے صفحات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ جناب سارا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ جناب مریم کی مثال رقم ہے۔
حضور سرور کائنات جناب رسول اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے زمانہ میں جبرئیل علیہ السلام دحیہ کلبی نامی ایک صحابی کی شکل و صورت میں ظاہر ہوتے تھے جبکہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ دحیّہ ہیں۔ اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر بھی مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے سامنے فرشتے ظاہر ہوئے تھے۔(۸)
غیبت امام عصر (عج) پر ایمان کی اہمیت
حقیقت یہ ہے کہ حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا لہ الفداء کی غیبت و ظہور کا مسئلہ صرف شیعہ اثنا عشری مذہب سے مختص نہیں ہے بلکہ ایک منجی عالم کی آمد فریقین کی کتب میں موجود قطعی دلائل سے قابل اثبات ہے۔ منجی عالم کے وجود کے معتقدین خصوصاً مسلمانوں میں شیعہ مذہب نے اس مسئلہ کو خاص اہمیت دی ہے۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق منجی عالم، حضور سرور کائنات پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کی پاک و پاکیزہ آل سے ہیں، کیونکہ یہ دنیا کبھی بھی ایک سچے اور برحق امام سے خالی نہیں ہوسکتی اور یہ بات بالکل روز روش کی طرح واضح ہے کہ ان صفات کا حامل امام صرف ائمہ شیعہ ہی میں ہے جن کا سلسلہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے شروع ہوا ہے اور حضرت مہدی موعود (عج) پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اسلام میں حضرت کے وجود و غیبت پر ایمان کو خاص اہمیت حاصل ہے اور فریقین کی روایات کے مطابق غیبت امام عصر پر ایمان کو غیبت پر ایمان کے مصادیق میں سے شمار کیا گیا ہے۔
قرآن کریم غیب پر ایمان کو متقین کی صفات میں شمار کرتے ہوئے فرماتا ہے:
( الم ٭ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ٭الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ) (۹) ؛
"الم، یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ، یہ ایسے صاحب ایمان اور پرہیزگاروں کے لئے مجسم ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں"۔
قرآن کریم کے بعد اب اس سلسلہ میں فریقین کی روایات پیش خدمت ہیں:
شیعہ نقطہ نظر
غیبت امام عصر پر ایمان کے سلسلہ میں شیعہ کتب میں کثرت سے ایسی روایات موجود ہیں جو اس مسئلہ پر نہایت تاکید کر رہی ہیں اور اس پر ایمان کی اہمیت کو بیان کر رہی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کا ارشاد گرامی ہے:
"القائم من ولدی اسمُه اسمی و کنیتُهُ کنیتی و شمائلُهُ شمائلی و سنّتُهُ سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی و یدعوهم الیٰ کتاب الله عزوجل من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی ومن انکره فی غیبته فقد أنکرنی و من کذّبه فقد کذّبنی و من صدّقه فقد صدقنی اِلی الله اشکو المکذبین لی فی أمره و الجاهدین لقولی فی شأنه و المُضلّین لأمتی عن طریقته ( وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون ) "(۱۰)
"قائم میری اولاد میں سے ہوگا، جس کا نام میرا نام، جس کی کنیت میری کنیت، جس کے شمائل میرے شمائل، جس کی سنت میری سنت ہوگی۔ جو لوگوں میں میرے طریقے اور شریعت کو قائم کرے گا، لوگوں کو کتاب الٰہی کی طرف دعوت دے گا، جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
جس نے اس کی غیبت کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا، جس نے اسے جھٹلایا اس نے مجھے جھٹلایا، جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی۔ میں اللہ سے ان لوگوں کی شکایت کروں گا جنہوں نے اس امر میں مجھے جھٹلایا اور اس کے بارے میں میرے قول کا انکار کیا اور اس کے راستے میں میری امت کو گمراہ کیا۔
( وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا اَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ) (۱۱)
اور جنہوں نے ظلم کیا عنقریب وہ جان لیں گے کہ کس کروٹ پلٹتے ہیں"۔
اہل سنت کا نقطۂ نظر
عقیدۂ مہدی علیہ السلام خود پیغمبر گرامی قدرصلىاللهعليهوآلهوسلم نے پیش کیا اور لوگوں کو اسکی تعلیم دی ہے۔ علمائے اہل سنت کی پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم سے نقل کردہ روایات و احادیث کے مضمون کے مطابق یہ عقیدہ ضروریات دین اسلام میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کا انکار کرنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس قول کی وضاحت اور تائید میں ذیل میں چند روایات بطور مثال پیش کی جا رہی ہیں:
۔ "من کذّب بالمهدیّ فقد کفر "(۱۲)
جس نے مہدی علیہ السلام کو جھٹلایا وہ کافر ہوگیا۔
۔ "من أنکر خروج المهدیّ فقد کفر "(۱۳)
جس نے خروج مہدی کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
۔"من أنکر خروج المهدیّ فقد کفر بما أنزل علی محمّد ومن أنکر نزول عيسي فقد کفر ومن أنکر خروج الدجّال فقد ک فر "(۱۴)
جس نے خروج مہدی کا انکار کیا اس نے (حضرت) محمدؐ پر نازل ہونے والی تمام چیزوں کا انکار کیا، جس نے نزول عیسیٰ کا انکار کیا وہ کافر ہوا اور جس نے خروج الدجال کا انکار کیا وہ کافر ہوگیا۔
اس قسم کی روایات کی بنا پر بعض علمائے اہل سنت خروج مہدی علیہ السلام پر ایمان کو واجب اور بعض اس کے منکرین کو کافر سمجھتے ہیں۔
احمد بن محمد بن صدیق کا کہنا ہے:"حضرت مہدی علیہ السلام کے خروج پر ایمان رکھنا واجب ہے اور پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تصدیق کی وجہ سے ان کے ظہور پر اعتقاد حتمی او رثابت ہے ۔۔"(۱۵)
سفارینی حنبلی(۱۶) ، ناصر الدین البانی(۱۷) اور عبد الحسین بن حمد العباد(۱۸) سے بھی یہ تعبیرات نقل کی گئی ہیں۔
فقیہ شافعی، ابن حجر تصریح کرتے ہیں:
"اگر انکار مہدی اصل و اساس سنت کے انکار کا سبب ہو تو کفر ہے اوراس کا مرتکب واجب القتل ہے اور اگر صرف ائمہ اسلام سے عناد و دشمنی کی وجہ سے انکار کرے تو علی الاعلان اس کی توہین کی جائے اور سزا دی جائے تاکہ وہ اس عمل سے رُک جائے ۔۔۔"(۱۹)
احمد بن محمد بن صدیق غماری ازھری احادیث مہدی ؑ کے بارے میں کہتے ہیں: "یہ احادیث متواتر ہیں اور انکا منکر بدعت گزار اور گمراہ ہے"۔(۲۰)
آئندہ فصل میں ہم بعض ایسےعلمائے اہل سنت کا تذکرہ کریں گے جو امام عصر (عج) کی غیبت کے قائل ہوئے ہیں۔ بنابریں جس مہدی علیہ السلام کی تکذیب اور انکار پیغمبر اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کی تکذیب اور کفر کا سبب ہے وہ حضرت مہدی حجت بن الحسن العسکری علیہ السلام ہی ہیں۔
تیسری فصل: ولادت امام عصر (عج) کے بارے میں اقوال علمائے اسلام
اگرچہ یہ بحث ہمارے رسالہ کے موضوع سے براہ راسست مرتبط نہیں ہے لیکن کیونکہ بعض محققین و صاحبان نظر یہ کہہ کر غیبت امام عصر (عج) کا انکار کردیتے ہیں کہ اصلاً ابھی تو انکی ولادت بھی نہیں ہوئی ہے اور جب ولادت ہی نہیں ہوئی تو پھر غیبت کا کیا سوال ۔ لہذا اس نقطۂ نظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے بطور مختصر اس موضوع کو بیان کردینا مناسب ہے۔
شیعہ علماء کا نقطہ نظر
شیعہ حضرات امام زمانہ (عج) کی ولادت کے بالکل اسی طرح معتقد ہیں جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی ولادت باسعادت پر اعتقاد و ایمان رکھتے ہیں۔
شیعہ عقیدہ کے مطابق امام عصر حضرت حجت بن الحسن العسکری شب نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری کو دنیا میں تشریف لائے(۲۱) اور آج تک بحکم خداوند عالم حضرت عیسیٰ کی طرح زندہ ہیں۔ شیعہ احادیث و تالیفات حضرت مہدی (عج) کی ولادت کو ایسے امور ثابت و مسلم میں شمار کرتی ہیں جس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے(۲۲) ۔ شیعہ حضرات اسی مناسبت سے طول تاریخ میں آج تک پندرھویں شعبان کی شب میں مساجد، امام بارگاہوں اور مقدس مقامات کے علاوہ اپنے گھروں پر جشن ولادت با سعادت امام مہدی علیہ السلام مناتے ہیں اور جگہ جگہ محافل و میلاد کا انعقاد کرتے ہیں۔
علمائے اہل سنت کا نقطۂ نظر
بعض علمائے اہل سنت کے نزدیک ولادت و غیبت امام زمانہ حضرت مہدی (عج) اثبات شدہ ہے، لیکن بعض کا خیال ہے کہ ابھی آپ کی ولادت ہی نہیں ہوئی ہے کہ غائب ہوں بلکہ آخری زمانے میں متولد ہوں گے۔
حضرت کی ولادت کا انکار کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر امام حسن عسکری ؑ کے یہاں مہدی نامی فرزند موجود ہوتا تو علمائے اہل سنت بھی اپنی کتابوں اور تحریروں میں اسکا ذکر کرتے،لیکن کیونکہ اہل سنت علماء نے اپنی تالیفات میں اس قسم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن عسکری ؑ کے اس قسم کا کوئی بیٹا موجود نہ تھا۔
لہذا اہل سنت حضرت مہدی (عج) کو امام حسن عسکری ؑ کا فرزند تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آنجناب آخر زمانہ میں پیدا ہوں گے۔
اس گروہ ثانی کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ حضرت مہدی (عج) کی ولادت کے مخفی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی ولادت سے کوئی بھی شخص مطلع ہی نہیں ہے اور یہ امر ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ امر شیعہ مکتب فکر کے مطابق امر مسلم و اثبات شدہ ہے۔ نیز اہل سنت کے علماء و مؤلفین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی اپنی کتابوں میں ۲۵۵ ہجری میں امام مہدی (عج) کی تاریخ ولادت ثبت کرتے ہوئے آپ کو امام حسن عسکری ؑ کا بلا واسطہ فرزند قرار دیا ہے۔
اس سلسلہ میں انجام شدہ تحقیق و جانچ پڑتال کے مطابق یہ موضوع سب سے پہلے اہل سنت کے قابل قدر دانشمند اور عالم دین شیخ سلیمان حنفی قندوزی بلخی مقیم قسطنطنیہ (متوفی ۱۲۹۴ ہجری) نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ینابی ع المودۃ میں بیان کیا ہے۔
تقریباً اسی دوران شیعہ نابغۂ زمان سید میر حامد حسین ہندی (متوفی ۱۳۰۶ ہجری) نے اپنی کتاب الاستقصاء الافحام میں ۔۔۔ ینابی ع المودہ میں ذکر شدہ افراد اور علماء کے اسماء میں ہندوستان وغیرہ کے دیگر بزرگ اہل سنت علماء (جنکی کتابوں کا انھوں نے مطالعہ کیا تھا) کے اسماء کا ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں انکے اقوال بھی ثبت کئے ہیں۔
عالی مقام محدث حاج میرزا حسین نوری (متوفی ۱۳۲۰ ہجری) نے اثبات غیبت امام عصر کے سلسلہ میں "کشف الاستار" نامی کتاب تالیف فرمائی جس میں آپ نے ان دو کتابوں (ینابی ع المودۃ اور استقصاء الافحام) سے استفادہ کرتے ہوئے چند دیگر افراد کے اسماء کا اضافہ کرتے ہوئے اہل سنت کے تقریباً چالیس ایسے علماء کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے اس موضوع پر خاص مطالب بیان کئے ہیں۔ امام زمانہ (عج) کے وجود مقدس کے بارے میں محدث اپنی دوسری ارزشمند کتاب نجم الثاقب میں ان میں سے بیس علماء کا تذکرہ کرتے ہیں۔
عصر گزشتہ کے بزرگ عالم مرحوم سید محسن امین عاملی مؤلف کتاب اعیان الشیعہ اپنی کتاب البرہان علی وجود صاحب الزمان، مرحوم شیخ علی یزدی اپنی کتاب الزام الناصب اور ان کے علاوہ کتاب الامام الثانی عشر، منتخب الاثر، ذرایع البیان اور الامام المہدی وغیرہ کے مؤلفین نے مذکورہ کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کتب میں دیگر افراد کے اسماء کا اضافہ کیا ہے اور کم و بیش اجمال و تفصیل کے ساتھ ان دانشمندوں اور علماء کے نام بیان کئے ہیں۔ ان میں سے کتاب منتخب الاثر کے مؤلف آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپائیگانی نے مجموعاً ۶۵ افراد کے اسماء بیان کئے ہیں۔(۲۳)
دانشمند معاصر حجۃ الاسلام جناب علی دوانی صاحب نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام دانشمندان عامہ ومہدی موعود ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں تمام ان افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید پچاس افراد کا اضافہ کیا ہے اور مجموعی طور پر ۱۲۰ افراد و علمائے اہل سنت کا تذکرہ کیا ہے۔
اس تعداد میں سے اکثر علماء نے متفقہ اور واضح طور پر کہا ہے کہ ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری ؑ متولد سامر ا ۲۵۵ ہجری یا سنوات دیگر وہی مہدی موعود ہیں جن کا تذکرہ اہل سنت کی معتبر اور صحیح السند روایات میں آیا ہے اور ان کے علاوہ یہ کوئی اور دوسرا شخص نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ تعداد ۱۲۰ افراد میں سے کچھ ایسے علماء ہیں جنہوں نے صرف امام حسن عسکری ؑ کے فرزند کا نام بیان کیا ہے یا فقط انکی ولادت کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ نہیں بیان کیا کہ یہی وہ مہدی موعود ہیں۔ لیکن انھیں مہدی موعود تسلیم کرنے کے لئے انکا فرزند امام حسن عسکری قبول کرلینا ہی کافی۔ بعض علماء مثلاً علاء الدولہ سمنانی، حافظ ذہبی اور ابن حجر مکی نے کہا ہے کہ ولادت کے بعد انکا انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انکا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو حضرت مہدی (عج) کو امام حسن عسکری کا فرزند تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جن لوگوں نے ولادت محمد بن الحسن ؑ کی خبر نقل کی ہے انھوں نے انکی شرح زندگانی اور سرنوشت بیان نہیں کی کہ وہ کہاں چلے گئے لہذا یہ چند افراد افکار شیعہ کو منحرف کرنے کے لئے کہنے لگے کہ حضرت مہدی (عج) کا انتقال ہوگیا ہے تاکہ شیعہ وغیرہ ان کے انتظار میں زندگی بسر نہ کریں۔(۲۴)
ہم یہاں اہل تحقیق اور مطالعہ سے شغف رکھنے والے حضرات کی اطلاع کے لئے بعض ایسے علمائے اہل سنت کا ذکر کر رہے ہیں جو امام عصر (عج) کی ولادت کے بھی قائل ہوئے ہیں اور انھوں نے حضرت کو حضرت امام حسن عسکری ؑ کا فرزند بھی تسلیم کیا ہے:
۱ ۔ علی بن حسین مسعودی (متوفی ۳۴۶ ہجری)
انھوں نے رحلت امام حسن عسکری ؑ کو ۲۶۰ ہجری کے حوادث میں قرار دیتے ہوئے امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کی تصریح کی ہے:"ابو محمد حسن عسکری بن علی نے ۲۶۰ ھ میں وفات پائی اور یہ مہدی منتطر امام شیعوں کے بارہویں امام ؑ کے والد بزرگوار ہیں۔"(۲۵)
۲ ۔ عز الدین ابن اثیر (متوفی ۶۳۹ ہجری)
یہ اہل سنت کے بزرگترین مؤرخ ہیں۔ اپنی معروف کتاب "الکامل" میں ۲۶۰ ہجری کے حوادث میں تحریر کرتے ہیں:"اس سال میں ابو محمد عسکری نے وفات پائی، وہ شیعہ مکتب کے مطابق ائمہ اثنا عشر میں سے ایک ہیں، ان کی ولات ۲۳۲ ہجری میں ہوئی اور یہی محمد ؑ کے والد ہیں جنہیں شیعہ، منتظر کہتے ہیں۔"(۲۶)
۳ ۔ سبط ابن جوزی (متوی ۶۵۴ ہجری)
یعنی اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ و واعظ شمس الدین ابو المظفر یوسف بن قزاوغلی بن عبد اللہ بغدادی حنفی امام حسن عسکری ؑ کے بیان احوال کے بعد رقمطراز ہیں: " انکے فرزند کا نام محمد، کنیت ابو عبد اللہ اور ابو القاسم ہے۔
یہی حجت ،صاحب الزمان، قائم اور منتظر ہیں اور یہی ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے آخری امام ہیں۔"(۲۷)
۴ ۔ محمد بن یوسف شافعی گنجی (متوفی ۶۵۸ ہجری)
اہل سنت کے یہ مشہور عالم امام حسن عسکری ؑ کی وفات کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "انکے صرف ایک ہی فرزند محمد تھے اوریہی امام منتظر ہیں۔"(۲۸)
۵ ۔ ابن خلکان اشعری شافعی (متوفی ۶۸۱ ہجری)
انکے قلم نے تحریر کیاہے: "ابو القاسم محمد بن الحسن العسکریؑ شیعوں کے بارہویں امام ہیں۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظر وقائم ہیں ۔۔۔ ان کی ولادت جمعہ کے دن نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں ہوئی اور والد کے انتقال کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی۔"(۲۹)
۶ ۔ ابو الفداء عماد الدین اسماعیل (متوفی ۷۳۴ ہجری)
یہ تحریر کرتے ہیں: "حسن عسکری ، قائم و منتظر اور صاحب سرداب کے والد ہیں اور یہ محمد منتظر شیعہ عقیدے کے مطابق بارہویں امام ہیں انھیں قائم و مہدی اور حجت بھی کہتے ہیں انکی ولادت ۲۵۵ ہجری میں ہوئی ہے۔"(۳۰)
۷ ۔ خواجہ محمد پارسا (متوفی ۷۲۲ ہجری)
یہ اپنی کتاب فصل الخطاب میں رقمطراز ہیں: "محمد فرزند حسن عسکری ؑ نیمہ شعبان ۲۵۵ ھ میں پیدا ہوئے۔ انکی والدہ کا نام نرجس تھا۔ جب انکی عمر پانچ سال تھی اس وقت ان کے والد کا انتقال ہوا اور یہ اس وقت سے آج تک غائب ہیں، یہی شیعوں کے امام منتطر ہیں ان کا وجود خواص اصحاب ثقہ افراد کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔ خداوند عالم نے انھیں خضر و الیاس کی طرح طول عمر عطا فرمائی ہے۔ "(۳۱)
۸ ۔ ابن صباغ مالکی (متوفی ۸۵۵ ہجری)
اپنی کتاب الفصول المھمہ میں امام حسن عسکریؑ سے متعلق فصل کے آخر میں تحریر کرتے ہیں:
"ابو محمد کے صرف ایک فرزند ہے وہ ہی حجت و قائم ہے اور سب لوگ اسی کی برحق حکومت کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں۔ خلیفہ وقت کے خوف، حالات کی تنگی و دشواریوں اور شیعوں کی قید و بند، اسیری سختیوں کی وجہ سے انکی ولادت مخفی اور ماجرا پوشیدہ رہا ہے۔(۳۲)
۹ ۔ میر خواند (متوفی ۹۰۳ ہجری)
یہ عالم اہل سنت اپنی کتاب روضۃ الصفاء میں یوں رقمطراز ہیں: "محمد ، حسن کے فرزند تھے۔ انکی کنیت ابو القاسم ہے۔ امامیہ والے انھیں حجت اور قائم مہدی سمجھتے ہیں۔ حضرت امام مہدی (رضی اللہ عنہ) کہ جنکا نام اور کنیت رسول گرامی کے نام اور کنیت پر ہے (عراق کے شہر) سُرَّمن رای (سامر ا) میں نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری میں پیدا ہوئے اور والد بزرگوار کے انتقال کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی۔ خداوند نےانھیں سن طفولیت میں اسی طرح حکمت عطا فرمائی جس طرح حضرت یحیٰ ؑ نبی کو عطا فرمائی تھی اور انھیں بچپن میں اسی طرح امام قرار دیا ہے جس طرح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بچپن میں نبی مرسل قرار دیا تھا۔"(۳۳)
۱۰ ۔ ابن حجر ہیثمی مکی (متوفی ۹۷۳ ہجری)
یہ اپنے زمانے کے بزرگترین عالم اہل سنت شمار ہوتے تھے۔ یہ نہایت متعصب عالم دین ہیں انھوں نے شیعہ اعتقادات کی ردّ میں مشہور کتاب "الصواعق المحرقہ" بھی تالیف کی ہے۔ وہ اپنی اس کتاب کے آغاز میں لکھتے ہیں:
"میں نے دیکھا کہ اس سال بہت کثرت سے رافضی (شیعہ) حج کے لئے مکہ آئے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ انکی کثرت سے آمد اہل سنت کے عقائد کو متزلزل کردے لہذا میں یہ کتاب لکھنے پر مجبور ہوگیا۔"
اگرچہ وہ حضرت مہدی منتظر اور انکی غیبت کے بارے میں شیعہ عقائد کو اپنی پوری سعی و کوشش کے ساتھ خطا اور غلط قرار دینا چاہتے ہیں لیکن جب ایک دوسرے مقام پر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اسماء کا ذکر کرتے ہیں تو حق و حقیقت انکے قلم پر جاری ہوجاتی ہے اور امام حسن عسکری ؑ کی شرح حال تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "انکے بعد انکا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام ابو القاسم محمد الحجۃ ہے۔ باپ کی وفات کے وقت انکی عمر پانچ سال تھی اور پروردگار عالم نے انھیں اسی عمر میں حکمت عطا فرمائی ۔ انھیں قائم منتظر کہا جاتا ہے۔"(۳۴)
۱۱ ۔ محی الدین ابن عربی (متوفی ۶۳۸ ہجری)
یہ اپنی کتاب فتوحیات مکیہ میں لکھتےہیں: "جب زمین ظلم و جور سے بھر جائےگی اس وقت مہدی خروج فرمائیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ آنجناب اولادِ رسول خدا اور نسل فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں۔ ان کے جد حسین ؑ ہیں اور والد گرامی حسن عسکری ؑ فرزند امام علی نقی ۔۔۔ فرزند حسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔ انکا نام رسول اللہؐ کے نام سے قرین ہے اور مسلمان رکن و مقام کے مابی ن انکی بیعت کریں گے۔"(۳۵)
شعرانی نے بھی اپنی کتاب الیواقیت الجواہر میں ابن عربی کے اسی قول کو نقل کیا ہے۔(۳۶)
۱۲ ۔ شیخ عبد اللہ بن محمد شبروای شافعی ( متوفی ۱۱۷۲ ہجری)
اپنی کتاب "الاتحاف فی حب الاشراف میں لکھتے ہیں:
"بارہویں امام، محمد حجت ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہی مہدی منتظر ہیں۔ امام محمد حجت پسر امام حسن عسکری ؑ نیمہ شعبان ۲۵۵ ہجری کو متولد ہوئے۔"(۳۷)
۱۳ ۔ محمد امین سویدی بغدادی (متوفی ۱۲۴۶ ہجری)
یہ اپنی کتاب سبائک الذہب فی معرفۃ قبائل العرب میں امام حسن عسکری ؑ و دیگر ائمہ علیہم السلام کے اسماء کا ذکر کرنے کے بعد امام حسن عسکری کے خط شجرہ میں تحریر کرتےہیں:
"محمد المہدی کی عمر اپنے والد گرامی کی رحلت کے وقت پانچ سال تھی۔ وہ متوسط القامہ (میانہ قد) تھے خوبصورت، خوبصورت بال ، ابھری ہوئی ناک اور روشن رخساوں کے مالک تھے۔"(۳۸)
۱۴ ۔ خیر الدین زرکلی (متوفی ۱۳۹۶ ہجری)
حضرت مہدی علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں یہ عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں: محمد بن الحسن العسکری بن علی الہادی ابو القاسم و صاحب الزمان و منتطر و حجت اور صاحب سرداب ہیں۔ یہ سامر ا میں پیدا ہوئے اور جب انکے والد کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر پانچ سال تھی۔"(۳۹)
____________________
۱۔ بحارالانوار، ج ۳۳، ص ۲۵۶۔
۲۔ سورہ تغابن(۶۴) آیت: ۷۔
۳۔ بحار الانوار، ج ۳۳، ص ۲۵۷۔
۴۔ جیمز ڈارمسٹیٹر، مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ہجری، ص ۱۳- ۱۸، ۲۱- ۲۵ و ۷۸۔
۵۔ فین فلوٹن، تاریخ شیعہ و علل سقوط بنی امیہ، ص ۱۶۳۔
۶۔ ایگناز گلدزیہر، العقیدہ و الشریعۃ فی الاسلام، ص ۲۱۷- ۲۱۸۔
۷۔ ڈوایٹ دونالڈسن، عقیدہ الشیعہ، ص ۲۳۱۔
۸۔ احمد کسروی، شیعی گری، ص ۳۰۔
۹۔ احمد امین مصری، ضحی الاسلام، ج ۳، ص ۲۴۳- ۲۴۴۔
۱۰۔ سعد محمد حسن، المہدیہ فی الاسلام، ص ۴۳ - ۴۴۔
۱۱۔ عبد ابن زید آل محمود، لامہدی ینتظر بعد الرسول خیر البشر، ص ۳۱، ۵۸ و ۸۵۔
۱۲۔ ویل ڈورینٹ، لذات فلسفہ، ص ۳۵۹۔
۱۳۔ ازدیدگاہ چرخ فلک، نشریہ پیام یونیسکو، ش ۲۴۱، ص ۲۳ - ۲۸۔
۱۴۔ ڈاکٹر الکسین کارل، راہ و رسم زندگی، ص ۴۴۔
۱۵۔ متقی ہندی، البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، ج ۲، ص ۵۳۲۔
۱۶۔ کمال الدین، ج ۲، باب ۴۳، ح ۱۹؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص ۳۵۔
۱۷۔ جیمز ڈار مسٹیٹر، مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ہجری، ص ۵ - ۷۔
۱۸۔ العقیدہ والشریعۃ فی الاسلام، ص ۲۱۵ و ۲۱۸۔
۱۹۔ بحار الانوار، ج۵۱، ص ۷۸۔
۲۰۔ سید رحمت اللہ موسوی، منجی حقیقی ، ص ۷۸۔
۲۱۔ امام بخاری، التاریخ الکبیر، ج ۶، ص ۴۴۔
۲۲۔ اصول مذہب الشیعہ، ج ۲، ص ۸۳۲۔
۲۳۔ سورہ یونس(۱۰) آیت ۳۶ و سورہ نجم (۵۳) آیت: ۲۸۔
۲۴۔ مہدی از صدر اسلام تا قرن سیزدہم ہجری، ص ۹۔
۲۵۔ لوٹروپ اسٹودار، حاضر العالم الاسلامی، ج ۱، ص ۲۹۳۔
۲۶۔ Encyclopedia Americana, Volume ۱۸, Page: ۱۱۷
۲۷۔سورہ نحل(۱۶) آیت: ۴۴۔
۲۸۔ سورہ احزاب(۳۳) آیت:۲۱۔
۲۹۔ سورہ نجم(۵۳) آیت: ۳ - ۴۔
۳۰۔ سورہ نور(۲۴) آیت: ۵۴۔
۳۱۔ سورہ حشر(۵۹) آیت: ۷۔
۳۲۔ المہدی والمہدویہ، ص ۴۱، ضحی الاسلام، ج ۳، ص ۲۷۷۔
۳۳۔ الامام الصادقؑ، ص ۲۳۸وص ۲۳۹۔
۳۴۔ سعد محمد حسن، المہدیہ فی الاسلام، ص ۶۹۔
۳۵۔ تراثناو موازین النقد، ص ۱۸۵ - ۱۸۷۔
۳۶۔ تفسیر المنار، ج ۹، ص ۴۹۹۔
۳۷۔ لامہدی ینتظر بعد الرسولؐ، ص ۶۔
۳۸۔ المہدی المنتظر فی الاحادیث الصحیحۃ۔
۳۹۔ مقدمہ ابن صلاح، ص ۲۱ و ۲۲۔