امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلامی اتحاد اور یکجہتی

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اسلامی اتحاد و یکجہتی کی بنیادیں، اقدار اور مقاصد
اتحاد ِامت ایک کثیر الجہات اور ہمہ گیر لائحہ عمل ہے جس کا موضوع  عالمِ رنگ بو سے مربوط ایک نظریاتی اور مقدس ہدف ہے لیکن مخصوص تاریخی اور معاشرتی حالات و حوادث  نے اسے ایک قسم کی محدودیت سے دوچار کیا ہے جس کے باعث اسلامی اتحاد ایک ایسی اصطلاح کی شکل اختیار کرگیا  جو محدود پیمانے پر مذہبی جہت اور مسلمانوں کے مذہبی روابط کی غماز بن گئی حالانکہ درحقیقت یہ ایک ہمہ گیر موضوع ہے جو اسلامی زندگی کے مختلف ثقافتی، سیاسی اور  معاشرتی جوانب کو حاوی ہے۔
یہ درست ہے کہ مذہب کے مسئلے  کو حل کرنا اسلامی اتحاد قائم کرنے میں بنیادی کردار کا حامل ہے لیکن نئے حالات کا تقاضا ہے کہ اتحاد کے دیگر زاویوں مثلاً سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی جہات کی اہمیت کو اس کی مذہبی جہت سے کمتر نہ سمجھا جائے۔
 اسی لئے حکومت کے اندرونی ڈھانچے اور مسلمانوں کے باہمی روابط کی سطح پر سیاسی اتحاد، قومی اور ملکی سطح پر معاشرتی اتحاد نیز جدید دور کے گوناگون جوانب و افکار کی سطح پر ثقافتی اتحاد وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کو قبول کیے بغیر اور جنہیں شایان شان طریقے سے عملی جامہ پہنائے بغیر اسلامی اتحاد و یکجہتی کے بارے میں گفتگو کرنا درست نہیں۔
یہ وہ حقیقت ہے جو اسلامی اتحاد کے بارے میں تحقیق و جستجو کے حدود کو وسیع تر کرنے نیز مذہبی ماہرین کے علاوہ سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی ماہرین کو بھی اس کام میں شریک کرنے کو ضروری بناتی ہے۔  اتحاد امت کےاہم تقاضوں کے بارے میں اب بھی ہر صاحبدل مسلمان کا دل سب سے پہلے دھڑکتا ہے۔ یہ تقاضے دیوار کی بنیاد کی طرح ہیں جو امت کی تعمیر نو کے لئےناگزیر ہیں یعنی اس ڈھانچے کی تعمیر نو کے لئے جس کے اندر فکری و اعتقادی اختلافات کی بنا پر دراڑیں پڑ چکی ہیں اور قسم قسم کے نظریات جنم لے چکے ہیں۔
ان سب کے باوجود اتحاد  و یکجہتی ایک ایسا لائحہ عمل ہے جو موثر اسباب و وسائل کی فراہمی کے بغیر دنیا میں حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتا۔ یہاں ہم اس موضوع پر تفصیلی اور تحقیقی بحث کو اسلامی مذاہب کے بارے میں گفتگو کے کسی اورموقع پر اٹھا رکھتے ہیں۔ ان مذاہب کے درمیان بعض علوم و معارف میں جو فاصلے پائے جاتے ہیں ان پر تجدید نظر کی ضرورت پر بحث کو بھی ہم کسی اور  موقع پر موکول کرتے ہیں۔بنابریں یہاں اتحاد و اخوت کے لائحۂ عمل کو ایک نئے اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ اس بارے میں ہمار ایمان ہے کہ فکری اتحاد مسلمانوں کے عملی اتحاد کی بنیاد ہے۔
اسلامی اتحاد کا حقیقی مفہوم جو تمام طبقاتی، نسلی، جغرافیائی اور دیگر امتیازات کی نفی کرتا ہے ایک ایسا خواب ہے جو آج دنیا کے چپے چپے کے مسلمانوں کے اذہان میں کروٹیں لے رہا ہے۔ یہ قرآن کا ایک پرخروش نعرہ ہے جو دنیا بھر کے غیرت مندوں کو اس منزل تک رسائی کی جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ عالمی استکباری طاقتوں کے لئے ایک خوفناک اور ڈراؤنا خواب ہے جو ان کی نیندیں اڑا دیتا ہے۔ اگرچہ یہ ہنوز ایک خواب ہی ہے لیکن یہی خواب دشمنوں کےبدن پر لرزہ طاری کردیتاہے ۔ اب اگر یہ خواب عملی جامہ پہن لے اور یہ سویا ہوا جن (جیسا کہ بعض استعماری دانشور اپنی تحریروں میں اسلام کو یہ نام دیتے ہیں) جو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک طاقت اور فتح کے جملہ عناصر اور ہراس انگیز طاقت کا حامل ہے خواب سے جاگ جائے تو نہ جانے کیا حال ہوگا۔
اسلامی سرزمینوں کا رقبہ ساڑھے تین کروڑ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اور مسلمانوں کی آبادی ایک ارب فداکار انسانوں سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں موت کو خوش بختی سمجھتے ہیں۔ عالم اسلام کے پاس مذکورہ تعداد میں سے پچیس کروڑ کی ماہر افرادی قوت موجود ہے۔ اس کی واضح عسکری قوت تقریباً ایک کروڑ تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں کے پاس مختلف سمندروں میں سو کار آمد بندرگاہیں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں تیل، تانبے، یورینیم اور دیگر معادن کے اکثر ذخائر مسلمانوں کے پاس ہیں۔
یہ مسلمانوں کے پاس موجود مادی وسائل ہیں۔ اس کے علاوہ اس امت کے پاس معنوی دولت کا جو خزانہ ہے اسے رہنے دیجئے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو ایک عظیم پیغام کی صورت میں جلوہ گر ہے ۔ اسلام عام بشریت کو درپیش مسائل کی پیچیدہ گرہیں کھولنے نیز انفرادی مفادات اور اجتماعی مفادات کے درمیان تضاد کو ختم کرنے کے لئے اسے ایک نسخہ کیمیا کے طور پر پیش کرتا ہے۔
انسانوں کے بنائے ہوئے تمام کھوکھلے نظام اس مقصد کی تکمیل سے عاجز ہیں البتہ ان نظاموں نے ان پیچیدگیوں کی سختی اور شدت میں اضافہ ضرور کیا ہے۔
ہمارا واضح عقیدہ ہے کہ ہمارا سیدھا راستہ اسلامی اتحاد کا یہی عظیم راستہ ہے۔ بنابریں ہم اس راستے کی طرف دعوت دینے سے نہیں اکتائیں گے۔ ہمارے اوپر  یورش میں جس قدر اضافہ ہوگاا سی قدر صراط مستقیم پر ہماری ثابت قدمی، درد کی سوزش پر ہمارے صبر اور قطعی فتح و پیروزی پر ہمارے ایمان میں  اضافہ ہی ہوگا۔ اس بات میں شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کے اعتقادات کا سرچشمہ ایک ہے۔ ان کی برگشت دو بنیادی سرچشموں یعنی قرآن و سنت کی طرف ہوتی ہے اور انہیں  یقین ہے کہ اسلام ہی زندگی گزارنے کا اصل راستہ ہے۔
اگر امت مسلمہ ان عظیم سرچشموں سے تمسک کرے اور ان پر ایمان کی عملی تعبیر پیش کرتے ہوئے مختلف میدانوں میں ایک مشترکہ مقصد پر متفق ہوجائیں تو یہ بہت ہی خوش بختی کی بات ہوگی۔
حقیقی اتحاد
قرآن کریم نے حقیقی اتحاد کی طرف اشارہ کیا ہے اور اتحاد کی ان جملہ صورتوں کو ردّ کیا ہے جن کا محور مادی و جسمانی اتحاد، مادی مفادات اور اس قسم کے دیگر سطحی مقاصد ہیں۔ اتحاد کی ان صورتوں کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے بطور مثال:
سیاسی مفادات پر مبنی اتحاد
قومی اور نسلی بنیادوں پر استوار اتحاد
قبائلی تعصبات پر مبنی اتحاد
جغرافیائی خصوصیات پرمبنی اتحاد
مشترکہ تاریخ پر مبنی اتحاد
 نیز اس طرح کی بنیادوں پر استوار اتحاد کی دیگر صورتیں۔
قرآن اتحاد کی ان اقسام میں سےکسی کو کامیابی کی حتمی ضمانت نہیں سمجھتا بلکہ اس کے برعکس دلوں کے اتحاد پر زور دیتا ہے۔ یہ وہ اتحاد ہے جس کے حصول کے لئے اگر ہم زمین کے سارے مادی خزانوں کو خرچ کرڈالیں تب بھی اس کا حصول ممکن نہیں۔آئیے دیکھیں کہ  اس (قلبی)اتحاد کی بنیادیں کیا ہیں۔
اس اتحاد کی بنیادوں کو ہم بطور اختصار درج ذیل دو باتوں سے عبارت قرار دے سکتے ہیں:
الف: حقیقی اور زندہ ایمان
ب: نظریاتی و اعتقادی بنیاد پر مبنی جذبہ
خالی ایمان یا اعتقاد خواہ وہ جس قدر مضبوط اور حقیقی ہو  دلوں کو یکجا کرنے اور الفت بخشنے سے عاجز رہے گا۔اسی طرح خالی جذبہ بھی اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکا م رہےگا۔ اگر یہ مقصد حاصل  ہو تو لمبی مدت میں ہم معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے مربوط اور نزدیک کرنے اور امت مسلمہ کو تعمیری اور مترقی انداز میں کمال کی جانب رہسپار ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
رہا اتحاد و یکجہتی کا حقیقی عامل تو وہ اس شعوری ایمان سے عبارت ہے جو جذبات پر غالب آتاہے، انسانی وجود کو اپنے ساتھ مخلوط کرتا ہے اور خدا جو عالم ِوجود کی سب سے بڑی حقیقت ہے کے ساتھ متصل ہوجاتا ہے۔ 
 أَ لَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ أَن تَخشَعَ قُلُوبهمْ لِذِكْرِ اللّهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الحقّ‏ وَ لا يَكُونُواْ كاَلَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيهْمُ الأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبهُمْ  وَ كَثِيرٌ مِّنهمْ فَاسِقُون‏۔ (۱)
جب ایمان اور ایمان سے لبریز جذبہ دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتے ہیں نیز اللہ کی توفیق اور مدد بھی ان کے شامل حال ہوتی ہے تو اتحاد و یکجہتی کی عمارت میں شکاف نہیں پڑ سکتا ۔ پھر یہی اتحاد محیر العقول اور غیر معمولی کارناموں کوجنم دیتا ہے جیسا کہ صدر ِاسلام میں پھر اسلامی و انقلابی سرزمین ایران میں اسلام کی بار دیگر واپسی کے دوران اتحاد کی قوت نے ایک بار پھر یہی معجزہ دکھایا۔
 
اتحاد بین المسلین کے محور
پہلا محور: قرآن کریم
قرآن کریم اسلامی اتحاد کو خوشایند اور پسندیدہ قراردینے کے بعد اس مقصد کے حصول کے لئے ایک جامع اور ہمہ گیر لائحۂ عمل بھی پیش کرتاہے۔ یہ لائحۂ عمل کئی بنیادوں پر مشتمل ہے جو اس آسمانی کتاب کی حیات آفرین اقدار سے اخذ کی گئی ہیں اور قرآن کا ان پر ایمان ہے۔
یہاں ہم اس تفصیلی لائحۂ عمل کی جزئیات میں نہیں جائیں گے بلکہ صرف یہ کوشش کریں گے کہ زیر نظر کتاب کے مطلوبہ ہدف تک رسائی کے لئے مذکورہ لائحۂ عمل کی صرف چند خصوصیات اور بنیادوں کی طرف اشارہ کریں۔
الف: اتحاد کے محور کا تذکرہ
یہ لائحۂ عمل اتحاد کے سب سے بنیادی اور واضح محور کو اور اس کے استحکام کے معیار کو بیان کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس میں کسی صورت  اور کسی بھی احتمالی زاویے سے تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں نیز یہ ٹکڑوں اور مختلف حصوں میں تقسیم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کی اصطلاح میں اس محور کا نام "حبل اللہ" ہے یعنی وہ ذریعہ جس کے ذریعے ہم اللہ کی خوشنودی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ یہ ’’حبل اللہ‘‘ در اصل وہی اسلام یا قرآن یا ہر وہ راستہ ہے جو لغزش سے محفوظ ہو:
 وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّهِ جَميعاً وَ لا تَفَرَّقُوا(۲)
ب: اتحاد کے ثمرات کی یاد دہانی
اتحاد و یکجہتی کے ثمرات کا تذکرہ اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ اتحاد کی ضرورت کا احساس ہمیشہ دلوں کے اندر زندہ اور تازہ رہے نیز یہ احساس وقتی اور عارضی اختلافات کو بھلانے کا موجب بنے۔
وَ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْداءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْواناً وَ كُنْتُمْ عَلى‏ شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْها كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔(۳)
ج: بنیاد، جادۂ عمل اور ہدف کی یگانگت کا تاکیدی تذکرہ
یہ لائحۂ عمل اس بات پر زور دیتا ہے کہ سب انسانوں کی بنیاد ایک ہے:
 خَلَقَكمُ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَة (۴)
اور اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ سب کا راستہ بھی یکسان ہے:
 شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصىَ‏ بِهِ نُوحًا وَ الَّذِى أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُوسىَ‏ وَ عِيسىَ  أَنْ أَقِيمُواْ الدِّينَ وَ لا تَتَفَرَّقُواْ فِيهِ (۵)
اس کے بعد اس بات کی بھی تاکیدی یاد دہانی فرماتا  ہےکہ سب کا ہدف بھی ایک ہے:
 وَ مَا خَلَقْتُ الجنَّ وَ الانسَ إِلاّ لِيَعْبُدُون‏۔(۶)
 یا أَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ ادْخُلُواْ فىِ السِّلْمِ كَافَّةً وَ لاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَان‏۔ (۷)
د: اخلاق حمیدہ سے لگاؤ اور ذاتی مفادات سے چشم پوشی کی دعوت
بدیہی بات ہے بہت سے انفرادی اور ذاتی مفادات سے چشم پوشی اور ان پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینا اتحاد اور مشترکہ مقاصد کی طرف حرکت کی بنیادی شرائط میں شامل ہیں۔ اسلام کا عظیم دستورِ حیات اجتماعی بحران (فردی مفاد اور اجتماعی مفاد کے ما بین ٹکراؤ کے بحران) کو حل کرنے کے واحد سرچشمے کو ایک پرشکوہ لائحۂ عمل کے ذریعے سامنے لاکر اتحاد کی بنیادیں مستحکم کرتا ہے۔
لوگوں کے دلوں میں اخلاقِ حمیدہ کا بیج بونا اسلام کے لائحۂ عمل کا ایک حصہ ہے۔ 
یہ لائحۂ عمل دلوں کے اندر:
 الف: جذبۂ ایثار: 
وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى‏ أَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَة(۸)
ب:راہ خدا میں جدوجہد کے جذبے:
إِنمَّا نُطْعِمُكمُ‏ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنكمُ‏ْ جَزَاءً وَ لا شُكُوراً (۹)
ج: رضائے الہی کی جستجو کے جذبے  کا بیج بوتا ہے۔
یقیناً جب انسان کے دل میں یہ جذبہ (اخلاق ِحمیدہ سے لگاو ٔ کا جذبہ) موجزن ہو تو یہ افتراق و  اختلاف اور گروہ بندی کے بہت سے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا موجب بنے  گا۔
ھ: بلند اہداف اور عظیم ذمہ داریوں کی نشاندہی
قرآن کریم کے اسالیب سے ایک یہ ہے کہ وہ امت کو اس کے بلند اہداف سے آشنا کرتا ہے اور مسلمانوں پر عظیم معاشرتی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
  كُنتُمْ خَيرْ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ،وَ كَذَالِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شهُدَاءَ عَلىَ النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (۱۰-۱۱)
واضح ہے کہ جب امت کے ذہن میں عظیم اہداف جلوہ گر ہوں گے تو وہ قدرتی طور پر اتحاد و یکجہتی اور اجتماعی کوششوں کی جاب متوجہ ہوگی کیونکہ عظیم ایداف کی تکمیل اس کے بغیر ممکن نہیں۔
بالکل اسی طریقے پر قرآن کریم لوگوں کے انجام کی یگانگت کو بھی واضح کرتا ہے،  چنانچہ ارشاد ہوتاہے: 
وَ اتَّقُواْ فِتْنَةً لَّا تُصِيبنَ‏ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَاصَّةً (۱۲)
و ۔ برتری اور امتیاز کےکھوکھلے معیاروں کی نفی
قبل ازیں ہم نے اتحاد کے ناقابلِ قبول معیاروں کی طرف اشارہ کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ بےبنیاد اور کھوکھلے معیار ہیں۔ جب اسلام ان امور کو اتحاد کے معیاروں کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا تو در حقیقت اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام معاشرتی امتیاز اور برتری پسندی کے معیاروں کو ردّ کرتے ہوئے ایک انسانی اور جامع معیار کی نشاندہی کرتا ہے ۔ یوں اسلام اتحاد قائم کرنے اور اسے زندہ و پائندہ رکھنے کےلئے ایک بہتر اور معقول فضا کی ضمانت دیتا ہے۔
پس برتری کا وہ معیار جس کی نشاندہی قرآن فرماتا ہے درج ذیل امور سے عبارت ہے:
۱۔ پرہیزگاری۔  إِنَّ أَكْرَمَكمُ‏ عِندَ اللّهِ أَتْقَیكُم(۱۳)
۲۔ علم و دانش۔  هَلْ يَسْتَوِي الَّذينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذينَ لا يَعْلَمُون‏ (۱۴)
۳۔ کوشش اور جہاد۔   فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلىَ الْقَاعِدِين‏ (۱۵)
واضح ہے کہ جب انسانی معاشرہ اس معیار کو عملی جامہ پہنائےگا تو معاشرتی ہماہنگی اور باہمی اتحاد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہےگا۔
ز: مشترکہ نقاط کی تقویت پر توجہ
یہ ایک خالص قرآنی اسلوب ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے درمیان بلکہ اسلام کے قریب ترین ادیان کو اختیار کرنے والوں یعنی اہل کتاب کے درمیان بھی نظر آتا ہے۔ یہ حکم کافروں کے ساتھ معاملات نمٹانے کی قرآنی حکمت عملی ہے:
قُلْ يَأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ  بَيْنَنَا وَ بَيْنَكمُ‏ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَ لَا نُشرْكَ بِهِ شَيْئاً وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُون‏ (۱۶)
اس اہم اور ناگزیر مقصد کی تکمیل کے لئے باہمی تفاہم اور حقیقت تک رسائی ضروری ہے جس کے لئے سازگار فضا اور مناسب ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طریقہ ٔکار کے ذریعے آگے بڑھیں تا کہ ہم اپنے مشترکہ نقاط اور اہداف کو مضبوط کریں اور جلد اس نتیجے تک پہنچیں کہ یہ حکم بغیر کسی شک و شبہ کے ہمارے تصور سے زیادہ کارگر ہے اور بلا مبالغہ تمام جوانب کو اپنے دامن سمیٹ لےگا۔
عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے بعض  لوگ ایک کافر کمیونسٹ کے ساتھ زندگی گزارنے پر تو آمادہ نظر آئیں گے اور اس کے ساتھ دوستانہ انداز میں گفتگو کریں گے لیکن ایک مسلمان کے ساتھ جس کے اور اس کے درمیان بعض فکری جزئیات میں اختلاف پایا جاتا ہے ملاقات کرنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوں گے۔ کیا یہ خدا کے دشمنوں کا کام نہیں ہے؟
ح: تعمیری گفتگو کی بنیاد پر تربیت
قرآن، دشمنوں کے ساتھ گفتگو میں ایک عجیب حقیقت پسندانہ روش کو مدنظر رکھتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ گفتگو کی روش کی تو بات ہی اور ہے۔ قرآن رسول اکرم ﷺکو یہ سکھاتا ہے کہ آپ اپنے عقائد پر محکم ایمان رکھنے کے باوجود کافروں سے یوں خطاب کریں:
 وَ إِنَّا اَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلىَ‏ هُدىً اَوْ فىِ ضَلالٍ مُّبِينٍ(۱۷)
یہ گفتگو کی ایک کامل اور حقیقت پسندانہ روش ہے  نیز مثبت نتیجہ حاصل کرنے کا ایک قیمتی نسخہ ہے۔ اس کے برعکس گالی گلوچ، سرزنش اور دھتکارنے وغیرہ کی روش نتائج کے لحاظ سے کسی صورت مفید نہیں ہیں۔ یہ روش نہ صرف یہ کہ بحث و گفتگو میں کسی قسم کا مثبت اثر مرتب نہیں کرتی بلکہ گاہے منفی اثر مرتب کرتی ہے جو ایک واضح امر ہے اور وضاحت سے مستغنی ہے۔
بنابریں اگر فریقین حقیقت کے متلاشی ہوں (اگرچہ یہ حقیقت ان کے سابقہ نظریات سے ہماہنگ نہ ہو) نیز خالص عقلی و منطقی دلائل و براہین کو تسلیم کرنے پر تیار ہوں تو ان کے درمیان دوستانہ، پرسکون اور حقیقت پسندانہ گفتگو بہت سے مواقع پر دو طرفہ خوشیوں کی ضمانت ثابت ہوتی ہے۔ یہ خوشیاں با ہمی اتحاد کی بنیاد ثابت ہوتی ہیں اور باہمی تعاون کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔
 اس میدان میں قرآن کے مختلف اسالیب دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر امتِ مسلمہ کی ان نشانیوں اور خصوصیات کا تذکرہ جو اس امت کو دیگر امتوں سے ممتاز کرتی ہیں نیز مشترکہ دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کے متحد ہونے کا تذکرہ اور مسلمانوں کو اس بات سے خبردار کرنا کہ ان کے دشمن متحد ہوچکے ہیں، نیز اس طرح کے دیگر اسالیب۔
دوسرا محور: سنت نبوی
یہ کہنا شاید غلط نہیں کہ کسی دین یا مذہب کو اس کی طویل  تاریخ میں مختلف زاویوں سے اور قسم قسم کے ممکنہ طریقوں سے مثلاً شمشیر و سنان سے، تہمتوں اور غلط پروپیگنڈوں سے، توہین اور جلاوطنی سے، بےبنیاد الزامات اور تحریفات سے نیز  ہر چیز میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے ذریعے سے (دشمنوں کے) بے رحمانہ اور ظالمانہ حملوں کا اس طرح سے سامنا نہیں رہا جس طرح اسلام کو سامنا رہا ہے۔ ان تمام حملوں کی اسلام کو پہلے سے توقع تھی۔ اسی لئے اس نے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ممکنہ وسائل کا اہتمام کرلیا اور ادھر اللہ کی مدد بھی شامل حال رہی۔ جو لوگ اسلام کی خاطر جدوجہد کرتے ہیں انہیں اس قسم کے حملوں اور نقصانات کی توقع رکھنی چاہیے اور ان کے مقابلے میں مقدور بھر تیاری کرلینی چاہیے کیونکہ یہ تاریخ کا ایک تکوینی اصول ہے:
وَ مَا اَرْسَلْنَا فىِ قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُترَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُون‏ (۱۸)
شاید ان حملوں میں سب سے خطرناک حملہ اس عظیم دین کے بنیادی مآخذ و منابع میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اس پر لوگوں کے اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش سے عبارت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مآخذ دلوں کے اندر اسلام کے حقیقی اور خالص تصور کو محکم اورعمیق بنانے نیز اس کی اصالت کو پابرجا کرنے کے لئے جو پسندیدہ راستے سامنے رکھتے ہیں ان کا خاطرخواہ اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ یہ وہ اصالت ہے جس کے سہارے یہ دین باطل کے مقابلے میں برسر پیکار ہوتا ہے، استقامت دکھاتا ہے، اپنی تعمیر کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ آج ہم عصر ِحاضر میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے ساتھ عملی نبرد آزمائی کے جس قدر درپے ہیں اس قدر تاریخی حوادث و عوامل کی نشاندہی کے درپے نہیں ہیں۔
اسلامی احکام اور تعلیمات کا سب سے پہلا بنیادی ماخذ (قرآن) شکوک و شبہات اور اعتراضات کے ایک طوفان سے روبرو ہوا۔ سب سے پہلے اس اعتراض کا سامنا کرنا پڑا کہ یہ کتاب آسمانی ہے یا نہیں؟ اس کے بعد قرآن کے حجت ہونے ،اس کے باطنی مفاہیم ،ان کے نقش و اثرات  اور دیگر تشریحات کے بارے میں اعتراضات سامنے آئےلیکن قرآن کا اعجاز آفرین پیغام ہر یورش سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا۔ جب بھی کوئی اعتراض سامنے آیا اس نے پسپائی اختیار نہیں کی اور اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہوا : 
 إِنَّا نحَنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لحَافِظُون‏ (۱۹)
 اور اب قرآن کو مشکوک بنانے کے  لئے ہلکی اور بے جان سی آواز کے علاوہ کوئی آواز بلند نہیں ہو رہی۔ اس بنا پر (قرآن کو مشکوک بنانے میں ناکامی کے باعث) اسلام کے دوسرے بنیادی مآخذ یعنی سنت نبوی پر حملوں میں شدت آگئی(جو آج تک جاری ہے۔) اس حملے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے سنت میں جعلسازی سے کام لیا جائے پھر تعارض اور جعلی ہونے کے بہانے سنتِ رسول کو بیان کرنے والی تمام احادیث کو مشکوک اور غیر معتبر قرار دیا جائے۔ یوں سنت کی قدر و قیمت کو مخدوش اور کم کیا جائے تا کہ سنت، اسلام کا اصلی چہرہ پیش کرنے کی طاقت سے عاری ہوجائے۔یہ حملہ سچ مچ خطرناک  اور مہلک ہے۔ اس قسم کی یاوہ سرائیوں اور پروپیگنڈوں سے چشم پوشی درست نہیں بلکہ بڑی ہوشیاری سے ان کا جائزہ لینے اور ان کے خطر آفرین پہلؤوں کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
سنت کی پیروی اور حدیث پر عمل کی مسلمہ حیثیت
اگر ہم یہ دعویٰ کریں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے ہاں علمی لحاظ سے یہ بات مسلّمہ ہے کہ قیامت تک سنتِ رسول کی پیروی لازمی ہے اور ان احادیث کی روشنی میں جو ہم تک پہنچی ہیں سنت پر عمل واجب ہے۔ بنابریں سنت کو مشکوک بنانے کی ہر کوشش در حقیقت مذکورہ مسلّمہ حقیقت کو مشکوک بنانے سے عبارت ہے۔ درحقیقت یہ شک وہاں پیدا کیا گیا ہے جو سنتِ نبوی سے مربوط ہے۔ اس کا نام "خبر" (حدیث/ روایت) ہے خاص کر وہ ’’خبر‘‘ جو علم و یقین کا موجب نہ اسے (علم حدیث کی) اصطلاح میں "خبرِ واحد" کہا جاتا ہے۔
لیکن اگر ہم ان دلائل میں غور کریں جو اس مسلّمہ حقیقت کو بیان کرتے ہیں تو ہر قسم کا شک و شبہ ختم ہوجاتا ہے  مثلاً اس آیت ِکریمہ:
 يَااَيُّها الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِن جَاءَكمُ‏ فَاسِقٌ  بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُواْ اَن تُصِيبُواْ قَوْماً بجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُواْ عَلىَ‏ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِين (۲۰)
اور اس کے مفہوم میں غور و فکر سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر راوی فاسق نہ ہو؛ تو تحقیق لازم نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر فاسق کی روایت حجت ہے۔
اسی طرح آیتِ شریفہ:
 وَ مَا كاَنَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَافَّةً  فَلَوْ لا نَفَرَ مِن كلُ‏ فِرْقَةٍ مِّنهْمْ طَائفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِى الدِّينِ وَ لِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيهْمْ لَعَلَّهُمْ يَحَذَرُون(۲۱)
نیز اس قسم کی دیگر آیات میں تدبّر سے  واضح ہوتا ہے کہ اگر ان کی بات حجت نہ ہوتی تو خوف کی ضرورت نہ ہوتی۔
مذکورہ دلائل کے علاوہ بہت سی روایات کے معنوی تواتر نیز مسلمانوں کی سیرت ِقطعیہ جو ثقہ کی روایت پر زور دیتی ہے، اگرچہ ثقہ کی روایت سے یقین حاصل نہ ہو اور اس طرح کے دیگر دلائل سے مجموعی طور پر ظاہر ہوتاہے کہ خبرِ واحد پر عمل ایک مسلّمہ اور بدیہی امر ہے۔
سنت کو مشکوک بنانے کی کوششوں کے محرکات
سنت نبوی میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرنے والوں نے جن محرکات کے باعث ایسا کیا ہے ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
پہلا محرک: فکری درآمدات کا دائرہ وسیع کرنا
اگر سنتِ شریفہ قرآن کے دوش بدوش قانون سازی اور اپنے مفاہیم کے میدان میں پابرجا رہے تو یہ ایک کامل اور جامع نظام زندگی کی جامع و کامل تصویر پیش کرسکے گی۔ اس صورت میں دیگر نظاموں کی طرف رجوع کرنے، ان سے بھیک مانگنے اور انہیں نافذ کرنے کی کوئی توجیہ باقی نہیں رہے گی۔ لیکن اگر سنت کو کنارے لگایا جائے تو درآمد شدہ افکار و رجحانات کے دروازے وسیع سطح پر کھل جائیں گے۔ یہ وہی بلائے عظیم ہے جس کے دام میں آج کل کے نام نہاد روشن فکر لوگ گرفتار  ہیں۔
دوسرا محرک: کم فہمی اور نا سمجھی
گاہے  کم فہمی،کوتہ اندیشی اور گہرائی سے عاری سطحی سوچ اس بات کی موجب بنتی ہے کہ شکوک پیدا کرنے والے سنت سے چشم پوشی کی سوچ کے طرفدار بن جائیں تا کہ (بزعِم خویش ) سنت  پر عمل کے عواقب سے بچ سکیں در صورتیکہ عین    ممکن ہے کہ ان کے یہی اعتراضات و تحفظات سنت کی طرف رغبت میں   موثر ثابت ہوں ۔
تیسرا  محرک :موقف کو یکساں بنانے کا زعم 
اسلامی موقف کی یکسانیت کی خواہش نے بعض لوگوں کے اندر حدیث سے چشم پوشی کی سوچ پیدا کی۔ انہوں نے یہ گمان کیا کہ وہ سب لوگوں کو قرآن حکیم کی جانب لا کر سب کو ایک ہی موقف پر جمع کر سکتے ہیں۔ان لوگوں کو کیا معلوم  کہ وہ ایسا کرکے "یک نشد دو شد" کے مصداق بن چکے ہیں کیونکہ وہ اپنی کج فہمی کی وجہ سے اتحاد و یکجہتی کا دامن پارہ پارہ کرنے کا موجب بنے ہیں۔
آخرمیں بعض اور محرکات کا بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
بعض تحفظات اور ان کے جوابات
یہاں ہم( سنت اور حدیث پر ہونے والے ) بعض اعتراضات و تحفظات کی طرف اشارہ کریں گے تا کہ ان کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہوجائے۔
۱۔ یہ لوگ کہتے ہیں: کچھ روایات ایسی ہیں جو کتابِ ِخدا کو کافی قرار دیتی ہیں یا حدیث کی کتابت سے منع کرتی ہیں۔
جواب: ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان روایات (اگر ان کی سند صحیح ہو) کا مقصد قرآن کی عظمت اور برتری کو بیان کرنا اور یہ بتانا ہے کہ جس کے ساتھ قرآن ہو اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ آسمانی کتاب بہترین ساتھی ہے۔ ان روایات کا مقصود یہ نہیں کہ اسلامی قانون اور شریعت کا ماخذ صرف قرآن ہے۔ یہ کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ خود قرآن مسلمانوں کو  دعوت دے رہا ہے کہ وہ پیغمبرﷺ کی پیروی کریں، آپ کا حکم مانیں اور ان احادیث پر عمل کریں جنہیں راویان ِحدیث اسلام اور سیرت ِنبوی کے بارے میں نقل کرتے ہیں۔
رہ گئی بات ان روایات کی جن میں یہ دعوی کیا گیا  ہے کہ صحابہ نے کتابتِ حدیث سے منع کیا تھا تو معلوم ہو کہ ان روایات کا احادیث پر عمل کی نفی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ بہت سے دانشوروں کا نظریہ ہے کہ ان روایات سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کتابت ِحدیث میں یہ احتیاط بر تتے تھے کہ حدیث اور قرآن با ہم مخلوط نہ ہوں۔علاوہ  ازیں اس احتیاط کی درستی یا عدم درستی  سےقطع نظر بھی ان روایات میں ایسی  کوئی دلالت موجود نہیں جس سے معترضین کا مدعا ثابت ہو،خاص کر اس وقت جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ کتابت ِحدیث سے روکنے والے  بذات ِ خود احادیث پر عمل کرنے والوں میں شامل تھے اور لوگوں کو سنتِ رسول پر عمل کی دعوت دیتےتھے ۔
2۔ان لوگوں کا کہنا ہے ،کچھ روایات ایسی ہیں جن کے در میان تعارض پایا جاتا ہے۔دوسری جانب سےیہ ممکن ہی نہیں کہ سنت میں تعارض اور تضاد پایا جائے۔پس مناسب یہی ہے تمام احادیث سے احتراز کیا جائے ۔
جواب: اس استدلال کاکھوکھلاپن  واضح ہے کیونکہ متعارض روایات کی تعداد بہت کم ہے۔پس اس احتراز کا دائرہ انہی متعارض احادیث کی حد تک محدود ہونا چاہیے،اس سے آگے نہیں۔
اس پر مستزادیہ کہ بہت سی روایات کا تعارض عارضی ہے یعنی بادی النظر میں تعارض نظر آتا ہے لیکن معمولی غور و فکر کے بعد یہ تعارض ختم ہوجاتاہے کیونکہ دو متعارض روایات کے تعارض کا علاج قاعدۂ ظہور اور جمع ِعرفی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ۔یہ"جمعِ عرفی"تخصیص،تقیید یا ایک روایت کے دوسری روایت پر تقدم کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔وہ یوں کہ جو روایت "قرینہ"ہے وہ ذو القرینہ روایت سے پہلے آئے یا یوں کہ ایک روایت(دوسری روایت کے) موضوع کو ہی ختم کردے یااس کے حکم میں تصرف کرے۔ اس کی مثال حدیث "لاضرر ولاضرار"ہے جو دیگر احکام اولیہ پر مقدم ہے۔
ہاں اگر تعارض پا بر جا اور نا قابل علاج ہو تو ہم ان دونوں متعارض روایات پر عمل کرنے سے احتراز کریں گے۔یہاں یہ یاد رہے کہ تعارض کا وقوع ایک قدرتی بات ہے۔در حقیقت تعارض احکام کے تدریجی بیان کا قدرتی نتیجہ ہے۔تعارض کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ راوی کی روایت میں کوئی بات رہ گئی ہو یا اس کے ذہن سے غائب ہوگئی ہو جس کے باعث روایت کا مفہوم بدل جائے ۔ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہےکہ ایک حدیث جعلی ہو لیکن ہمیں اس کے جعلی ہو نے کا علم نہ ہو اور ہمارا یہ خیال ہو کہ وہ حدیث ہمارے لئے حجت ہے۔
3۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بعض احادیث قرآن کے ساتھ متصادم ہیں۔(لہذا احادیث کا کیا بھروسہ ؟)
جواب یہ لوگ جن احادیث کی نشاندہی کرتےہیں وہ قلیل ہیں۔اس دعوے کے اثبات میں جن روایات کو پیش کیا جاتاہے ان میں سے بعض وہ ہیں جو مطلق آیات کے لئے مخصص  یا مقیّد کی حیثیت رکھتی ہیں اور بس۔یہ وہ چیز ہے جو مذکور ہ شروط کے ساتھ اپنے مقام پر ثابت ہے ۔البتہ اگر کوئی ایسی روایت مل جائے جو قرآن کے نفس ِمضمون کے ساتھ متصادم ہو اور اس کے ساتھ قابل ِجمع نہ ہو تو ہم اسے دورپھینک دیں گے۔ایسی روایت جھوٹ کےعلاوہ کچھ نہیں ہو سکتی۔
4۔کچھ معترض کہتے ہیں :یہ احادیث اپنے زمانے کے مخاطَبوں کے لئے تھیں۔لہذا یہ اس دور کے علاوہ کسی اور زمانے کے لئے حجت نہیں ہیں۔
جواب: یہ اعتراض بھی کمزورترین اعتراضات میں سے ایک ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کے اذہان میں راسخ اور سب کے ہاں مسلّمہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے رسول اکرمﷺ نے صرف اپنے زمانے کے لوگوں  کو مخاطب قرار نہیں دیا بلکہ آپ نے تمام زمانوں اور جملہ ادوار کے لوگوں سے گفتگو فرمائی ہے۔آپ نے جس چیز کو حلال قرار دیا ہے و ہ قیامت تک حلال ہے اور جسے حرام کہا ہے وہ قیامت تک حرام ہے۔آپ قیامت تک اسلام کی طویل تاریخ کے تمام مؤمنوں کے لئے بہترین نمونۂ عمل ہیں۔چونکہ سنت کا دائرہ تمام مسلمانوں کو محیط ہے اس لئے اُس دور کے مسلمانوں کے درمیان ’’قاعدۂ اشتراک‘‘ وجود میں آیا جس سے مراد یہ ہے کہ احکامِ شریعت کا دائرہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی شا مل ہے۔اسی لئے جب کسی حکم کے بارے میں شک ہوتا تھا کہ کیا وہ صرف مسلمانوں سے مختص ہے ،یا کسی حکم کے بارے میں شک ہوتا کہ کیا وہ صرف رسول اکرم ﷺسے مختص ہے یا دیگر مسلمانوں کو بھی شامل ہے تو اُس دور کے مسلمان "قاعدہ اشتراک "کے مطابق فیصلہ کر تے تھے۔
5۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مختلف زمانوں میں اصطلاحات کے مفاہیم دگرگوں ہوتے رہتے ہیں۔ بطورِمثال "وطن"،"اصالتِ معاشرہ"،"عوام"اور بعض دیگر اصطلاحات کے مفاہیم مکمل طور پر بدل گئے ہیں۔بنابریں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ ہم لوگ احادیث کے الفاظ سے جو کچھ مراد لیتے ہیں وہ ان کے حقیقی مفاہیم ہیں؟ 
جواب:ہمیں  اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بعض الفاظ کے ظاہری معانی مختلف لسانی اور فکری عوامل کے باعث نیزمخصوص تاریخی  اسباب کے باعث بدل جاتے ہیں۔یوں کسی لفظ کے صدور کے دوران اس لفظ کا جوظا ہری  مفہوم  تھا وہ دوسرے  زمانے میں   بدل جا تا ہے۔
 یہاں فیصلے کا معیار لفظ کا وہ ظاہری مفہوم ہوگا جو عصرِصدور میں ثابت تھا نہ کہ وہ ظاہری مفہوم  جو دوسرے زمانوں میں ظاہر اور ثابت ہو۔
ان سب سے قطع نظر عقلائے عالم کے ہاں ایک قطعی اور مسلّمہ قاعدہ ہے جس کی تائید شارع مقدس نےبھی کی ہے۔  اس اصول یا قاعدے کا نام "اصلِ عدمِ انتقال" یعنی "مفہوم کے نہ بدلنے کا قاعدہ "ہے۔عالمِ شہید سید محمد باقر الصدر نے اسے "اصالة الثُبات في اللفظ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ قاعدہ اس مسئلے میں راہکشا ہے اور عقلا ئے عالم اس قاعدے سے مدد لیتے ہیں۔
اس کی  وجہ یہ ہے کہ لفظ کے مفہوم میں ہرقسم کی تبدیلی کا عمل اتنا کند ہوتا ہے جس کے پیش نظر عقلاء نے یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ یہ تبدیلی بعض استثنائی موارد میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔بنابریں جب بھی ہمیں شک ہو کہ کسی لفظ کا مفہوم تبدیل ہوا ہے یا نہیں تو ہم اس بات پر بنا رکھتے ہیں کہ تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اس بارے میں کسی صورت کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
6۔بعض لوگوں کا کہنا ہے:بہت سی جعلی اور خودساختہ احادیث کی موجودگی ثابت ہے۔بنابریں ہمیں احادیث کے صدور کے بارے میں اطمینان کیسے حاصل ہوگا ؟
جواب :ہمارے سابقہ بیان کی روشنی میں اس سوال کا جواب واضح ہوگا کیونکہ ہم قطعی روایات سےقطع نظریہ عرض کریں گے: شارع نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ثقہ راویوں سے  مروی "خبر واحد "پر عمل کریں اگر چہ ان احادیث کی دلالت قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے کیونکہ یہ روایات ظنی ہونے کی بنیاد پر حقیقت یا حکمِ واقعی  سے ناقص پردہ برداری کرتی ہیں۔شارع نے ان روایات کی ناقص دلالت کو  کامل دلالت کا درجہ دیا ہے ۔بنابریں اگر ہم ان روایات پر عمل کریں اور اتفاق سے وہ حقیقت کے بر خلاف ہوں ،تو ہمارا عذر قبول ہوگا اورکوئی گرفت نہیں ہوگی۔ یوں ہماری ذمہ داری ادا ہوجائے گی۔ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم روایات کی سند،دلالت اور متن کے بارے میں خوب تحقیق کریں۔تحقیق اور جائزہ مکمل ہونے کے بعد ہم خدا کے ہاں معذور اور بری الذمہ ہوں گے اگر چہ روایت حقیقت کے بر عکس ہو ۔روایت کے حجت ہونے کا مفہوم ہی یہی ہے۔
۷۔ کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ پیغمبر ﷺکی تعلیمات کو (خاص کر اجتماعی امور میں)جو حیثیت حاصل تھی وہ آپ کlے ولیٔ امر ہونے کی وجہ سے حاصل تھی نہ کہ شارعِ مقدس کا پیغام رساں ہونے کی حیثیت سے۔ ان لوگوں کا کم از کم یہ عقیدہ ہے کہ ایک طرف سے ولی امر ہونے کی حیثیت سے پیغمبر ﷺکی تعلیمات اور دوسری طرف سے قانون ِشریعت کا ترجمان ہونے کے لحاظ سے آپ کی تعلیمات، ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہوگئی ہیں۔
جواب: حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ سے حکومت ِاسلامی کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے جو تعلیمات صادر ہوتی تھیں وہ عارضی ہوتیں تھیں۔ اس کے باوجود یہ تمام تعلیمات قرائنِ لفظیہ یا قرائنِ حالیہ کی حامل ہیں جو علماء کے نزدیک شناختہ شدہ امور محسوب ہوتے ہیں، اگر چہ یہ شناخت ایک حالت کے کسی اور عام حالت پر قیاس کے نتیجے میں حاصل ہوگئی ہو۔ بطورمثال کیا کسی کو اس بات میں شک ہوسکتا ہے کہ خندق کھودنے کا حکم ایک وقتی و عارضی حکم تھا اور جنگ احزاب کے مخصوص حالات میں صادر ہوا تھا؟
۸۔ ایک خیال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺکے جو فرامین دائمی قوانین کی حیثیت نہیں رکھتے وہ آپ کے اجتہادات ہیں۔
جواب: ہمارا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺشریعت کے دائمی قوانین  آپ پر نازل ہونے والی وحی کے بغیر بیان نہیں فرماتے تھے ۔ علاوہ ازیں آپ روزمرہ کی اجتماعی تعلیمات  ولیٔ امر ہونے کی حیثیت میں بیان فرماتے تھے۔ انہی اجتماعی تعلیمات کے دائرے میں مشورت اور فیصلے کا صدور ہوتا تھا نہ کہ تعلیمات کی پہلی قسم میں۔ ان دو میدانوں کا فرق اہل دانش کے ہاں واضح ہے۔ 
پیغمبر اکرمﷺ اس بات کے پابند تھے کہ آپ سب سے پہلے تشریعی حقائق کو بیان فرمائیں اور اس میں اپنی رائے کو شامل نہ کریں کیونکہ آنحضرتﷺ وحی اور حقیقت سے مربوط تھے اور اپنی خواہشات کے تحت گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ آپ کی باتیں آپ کے اوپر نازل ہونے والی وحی کے علاوہ کچھ نہ تھیں۔
۹۔ جب سنت پر اعتراض کرنے والوں کو اپنی باتوں کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا تو وہ اس بات پر زور دینے لگے کہ خبر واحد سے ظن و گمان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ ظن و گمان انسان کو کسی صورت حقیقت سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔
جواب: یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ خبر ِواحد کی حجیت کے قطعی دلائل نے اس ظن و گمان  و غیرہ کو علم اور یقین کا درجہ بخشا ہے اور  انہیں ظن و گمان پر عمل نہ کرنے کے عمومی حکم سے مستثنی کرتے ہوئے شریعت تک رسائی کا قدرتی، عقلائی اور فطری راستہ قرار دیا ہے کیونکہ تمام اسلامی احکام و تعلیمات میں لوگوں کو یقین حاصل کرنے کا حکم دینا معقول اورممکن نہیں ہے۔
بنابریں یہ کہنا پڑے گا کہ جس ظن پر عمل سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد وہ ظن ہے جس کے معتبر ہونے پر کوئی قطعی دلیل قائم نہ ہو۔
۱۰۔ کچھ لوگ بعض روایات کی مثال دیتے ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ روایات عقل و دانش سے منافات رکھتی  ہیں۔ یوں یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تمام احادیث کی اہمیت اور قدر و قیمت کو کم کریں۔ 
جواب: ہم عقل کے ساتھ احادیث کی ناسازگاری کے بارے میں بہت کچھ سنتے رہتے ہیں لیکن ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایات بعض عقلا کے ذوق یا کسی عمومی میلان سے ہماہنگ نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ روایات عقلی بدیہیات یا مسلّمات سے قطعی منافات  رکھتی ہوں۔ البتہ اگر کوئی روایت عقل کے ساتھ قطعی منافات کے درجے تک پہنچی ہوئی ہو (جو بہت بعید ہے) تو اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
رہ گئی یہ بات کہ بعض احادیث سائنسی و علمی تحقیقات اور کاوشوں سے ہماہنگ نہیں ہیں تو اس بارے میں مناسب ہے کہ ہم ان عظیم تحولات اور تبدیلیوں کی طرف اشارہ کریں جو سائنسی و علمی تحقیقات اور کاوشوں کا دامن  تار تار کرتی ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علمی و سائنسی تحقیقات قطعی اور حرفِ آخر نہیں بلکہ  یہ وہ مفروضات ہیں جن میں تغیر و تبدل کا عمل جاری رہتا ہے۔خلاصہ یہ کہ احادیث اور سنت پر ہونے والے تمام اعتراضات تحقیق اور نقد کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکتے۔
دو اہم نکتے: 
 یہاں ہم دو اہم نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہیں گے جو یہ ہیں:
 پہلا نکتہ: ہم نے احادیث کی حیثیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کرنے والے معترضین کے خطرناک نظریات کو قبول نہیں کیا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں  کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو کچھ مروی ہے ان سب کو ہم ان کے متن اور سند کا تحقیقی جائزہ لیے بغیر آنکھیں بند کرکے قبول کرلیں۔ یہاں تک کہ ہم اس بات کو بھی درست نہیں سمجھتے کہ علماء اس سلسلے میں دیگر علماء کی تحقیق پر اعتماد کریں مگر یہ کہ کوئی دلیل موجود ہو۔
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ (احادیث پر عمل سے پہلے) احادیث کی اسناد اور ایک ایک راوی کا جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ مطلوبہ اعتماد حاصل ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ یہ روایات قرآن اور سنتِ قطعیہ سے منافات نہیں رکھتیں ۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم پیغمبر اکرم ﷺکے شاگر امام علیؑ کا ایک کلام نقل کریں۔ جب ایک شخص نے آپؑ سے جعلی احادیث اور عام لوگوں کے پا س موجود متعارض روایات کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:
بےشک لوگوں کے پاس حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ناسخ و منسوخ، عام و خاص واضح و مبہم اور حافظے کے حوالے شدہ محفوظات سب کچھ ہیں۔ ان میں وہ باتیں بھی ہیں جنہیں راویوں نے بزعم ِخویش حدیث خیال کیا تھا۔ عہدرسول میں ہی آنحضرت ﷺپر اس قدر جھوٹ باندھا گیا کہ آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا: جو کوئی جان بوجھ کر مجھ پر بہتان باندھے وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنالے۔ تمہارے پاس حدیث لانے والے چار طرح کے ہیں جن کا پانچواں نہیں۔ ایک وہ منافق جو ایمان کا اظہار کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع قطع اپنا لیتا ہے۔ وہ نہ کسی چیز کو گناہ سمجھتا ہے، نہ گناہ سے ڈرتا ہے۔ یہ ان چار لوگوں میں سے ایک ہے ۔ دوسرا وہ ہے جس نے رسول خدا سے کوئی چیز سن تو لی لیکن اسے صحیح طریقے سے یاد نہیں رکھا اور اس میں اسے اشتباہ ہوگیا۔ یہ شخص نادانستہ طور پر رسول اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پس وہ جو کچھ جانتا ہے اسے نقل کرتا ہے ، اس پر عمل کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے رسول خدا سے یوں سنا۔
اگر مسلمانوں کو علم ہوتا کہ اس نے اشتباہ کیا ہے تو وہ اس کی بات قبول نہ کرتے۔ اگر خود اسے بھی اپنی غلطی کا علم ہوجاتا تو اس سے اجتناب کرتا اور اس پر عمل نہ کرتا۔
تیسرا شخص وہ ہے جس نے رسول خدا کو کسی چیز کا حکم دیتے ہوئے سنا۔پھررسول نے کسی اور موقعے پر اس چیز سے منع فرمایا لیکن وہ (راوی) اس (حکم امتناعی) سے آگاہ نہیں ہوا یا اس نے پیغمبر کو کسی چیز سے منع کرتے ہوئے سنا ، بعد میں رسول نے اس چیز کی بجا آوری کا حکم دیا لیکن اس (راوی) کو اس کا علم نہیں ہوا۔ بنابریں اس نے (قولِ) منسوخ کو تو یاد رکھا لیکن (حدیثِ) ناسخ کو یاد نہیں کیا۔ اگر اسے علم ہوتا کہ پیغمبر نے اپنے پہلے قول کو منسوخ کردیا ہے تو وہ اسے ضرور چھوڑ دیتا۔ اسی طرح اگر دوسرےمسلمان بھی یہ جان لیتے کہ انہوں نے اس سے جو حدیث سنی ہے وہ تو منسوخ ہوچکی ہے تو وہ اس پر عمل نہ کرتے۔
چوتھا شخص وہ ہے جو خدا اور رسول خدا پر جھوٹ نہیں باندھتا۔ وہ خدا کے خوف سے اور عظمتِ رسول کےپیش نظر جھوٹ سے نفرت کرتا ہے۔اس کی یادداشت میں غلطی واقع نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے اُسی طرح یاد رکھتا اور نقل کرتا ہے۔ وہ نہ اس میں کسی چیز کا اضافہ کرتا ہے اور نہ کمی۔ بنابریں اس نے ناسخ حدیث کو یاد رکھا اور اس پر عمل کیا نیز حدیثِ منسوخ کو بھی یاد رکھا اور اس سے اجتناب برتا۔ اس نے عام و خاص نیز محکم و متشابہ کو پہچان لیا اور ہر حدیث کو اس کے مطلوبہ  مقام پر رکھا۔ (۲۲)
دیکھئے کہ رسولﷺ کا یہ شاگرد کس قدر باریک بینی کے ساتھ اپنے زمانے کے راویوں کا تعارف پیش کررہے ہیں ۔ یہ رسول اللہ ﷺکے دور سے قریب ترین دور تھا۔ پھر ہمارا حال کیا ہوگا جو عصر رسول سے اس قدر زیادہ فاصلہ رکھتے ہیں؟  (یعنی ہمیں احادیث کی صحت و سقم کے بارے میں زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے۔ مترجم)
یقیناً یہ ایک محنت طلب کام ہے تا کہ ہم اس میدان میں حتی المقدور سعی و تحقیق سے کام لیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمیں دوسرے نکتے کو اہمیت دینے کا راستہ دکھاتی ہے۔
دوسرا نکتہ: یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے جسے اہمیت دینا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے : ہم ایک طرف سے (سنت اور احادیث کی حجیت پر ہونے والے) مذکورہ اعتراضات کو رد کرتے ہیں اور دوسری طرف سے ہر قسم کی حدیث کو قبول کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کے بھی مخالف ہیں کہ سنت کی لگام (یہاں تک کہ اس سنت کی لگام بھی جس کی درستی کا ہمیں یقین حاصل ہو) کسی بھی حد تک ہر ایک کے حوالے کی جائے۔ ہم ہر شخص کو اتنی آزادی نہیں دے سکتے کہ وہ  اپنی مرضی کا نظریہ قائم کرے اور اسے اسلام سے منسوب کرے۔
یہ طریقہ اور نظریہ(ہر ایک کو قرآن و سنت سے استنباط کا اختیار دینا) نہایت خطر آفرین ہے اگر چہ آج عالم اسلام میں اس نظرئے کے داعی بہت ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلام تمام لوگوں کے لئے ہے۔ پس آپ اسلام کے اوپر معدودے چند لوگوں کی اجارہ داری کیوں قائم کررہے ہیں؟
در اصل یہ لوگ دو چیزوں کو آپس میں مخلوط کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام تمام انسانوں کے لئے ہے۔ ددسری چیز اسلامی شریعت کو سمجھنے اور قرآن و سنت سے احکامِ شریعت کے استنباط کی کیفیت سے عبارت ہے۔
ان لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو ہر خواہشمند فرد کو ایٹمی اسلحہ تھمائے تا کہ وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے اور وہ بھی اس بہانے کہ خدا نے ایٹم کو تمام لوگوں کے فائدے کے  لئے خلق کیا ہے۔
اگر ہماری گذشتہ معروضات میں غورو فکر کیا جائے نیز اس نکتے کو سمجھا جائے کہ کتاب و سنت کے ذریعے اسلامی تعالیم و احکام سے حقیقی آشنائی (اور ان کے استنباط) کے لئے زبان، علم ِاصول، فقہی احکام، تفسیر، رجال اور دیگر علوم میں مہارت و تخصص کے ساتھ تحقیق و تدقیق کی ضرورت ہے تو یہ قطعی نتیجہ سامنے آئےگا کہ تخصص اور مہارت کی نفی اور اربابِِ تخصص پر اعتماد نہ کرنے کا نظریہ باطل ہے۔ہم اس سوچ کے حامل لوگوں کو ان کے طرز ِتفکر کے خطرناک نتائج سے آگاہ کریں گے جو یہ ہیں :
الف:اس سے اسلام کے بارے میں ناقص فہم اور تصور رائج ہوجائے گا۔
ب: سنت کو ان چیزوں سے جو سنت نہیں الگ کرنے کے لئے جس عمیق اور اصیل علم و فہم کی ضرورت ہے وہ  عنقا ہوجائے گا۔
ج: اسلام کے اندر خواہشات کو داخل کرنے کا دروازہ کھل جائےگا اور اسلامی تعلیمات بازیچۂ اطفال بن جائیں گی۔
د: اس فکرکے نتیجے میں اسلام کی جو صورت سامنے آئے گی وہ (اسلام پر ہونے والے) اعتراضات اور تحفظات کا جواب دینے سے عاجز ہوگی۔
ان عواقب کے علاوہ ان لوگوں کے طرزِ تفکر کے نتیجےمیں اسلام کے اندر بے شمار مذاہب جنم لیں گے۔خدا امت مسلمہ کو اس قسم کا وحشتناک دن نہ دکھائے، جس دن ایک فوجی فتوا دینے لگے یا کوئی ملازم، کوئی سربراہ یا کوئی حاکم اسلام کے بارے میں نظریہ پیش کرنے لگے جبکہ وہ فہم و استنباط کی صلاحیت سے عاری ہوں۔
ہم ان سے پوچھیں گے: کیا آپ ہمیں کسی ایسے قاعدے کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو اسلام کی عمیق تعلیمات پر مبنی ہو لیکن تفحص سے بے نیاز ہو؟ ہمارا پکا عقیدہ ہے کہ لوگ اسلامی شریعت کے ماہرین اور ارباب ِتخصص یعنی  "فقہاء" کے محتاج ہیں جس کے بغیر چارہ نہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں عادل ہونا چائیے، نفسانی خواہشات کا تابع نہیں ہونا چاہئے نیز انہیں کسی ستمگر اور طاغوت کے آگے سر نہیں جھکانا چاہیے۔
تیسرا محور ۔ علم اور تفسیر میں اہل بیت کی مرجعیت و محوریت
مسلمانوں کی علمی مرجعیت سینکڑوں سال تک کشمکش اور بحث کا محور رہی۔مسلمان صدر اسلام بالخصوص نزولِ وحی کے زمانے اور سنتِ نبوی کی موجودگی کے زمانے سے جس قدر دور ہوتے جارہے ہیں اسی قدر اس موضوع کی اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی یکجہتی کے ایک اہم ترین محور کو زندہ کیا جائے۔
قرآن کریم اور سنتِ نبوی مسلمانوں کے اجتماعی تشخص کے دو بنیادی محور ہیں۔ بنابریں علمی مرجعیت و محوریت جو قرآن کی تفسیر کرتی ہے ، اس کے رموز کی پردہ کشائی کرتی ہے نیز اعتقادی اور فقہی زاویوں سے قرآنی احکام اور سنتِ نبوی کے بارے میں موجود اختلافات کو رفع کرتی ہے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے کیونکہ اختلاف، علمی زاویے سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا راستہ روکتا ہے۔
ہمارا ارادہ ہے کہ اس علمی مرجعیت کے بارے میں علمی گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں ، اس فرض کے ساتھ کہ یہ مرجعیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت علیہم السلام کے اندر جلوہ گر ہے کیونکہ یہاں اس نظرئے کا تذکرہ موضوع بحث کو ایک خاص دائرے میں محدود کرتا ہے جس کی نشانیاں آشکار ہیں۔ یہ امر بحث کے بنیادی موضوعات کو بکھرنے اور موضوعِ سخن کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچاتا ہے۔
یقیناً یہ موضوع (اہل بیت کی مرجعیت) مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ محقق حضرات ان بنیادوں اور دلیلوں کو ان تمام کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں جو قرآن و سنت کے حوالے سے مسلمانوں کی علمی مرجعیت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں کیونکہ قرآن و سنت دو مقدس سرچشمے ہیں اور سارے مسلمان اپنے تمامتر فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کے باوجود ان سے استدلال کرتے ہیں۔
اہل بیت کا علم، امت کے مفادات کا امین
تاریخ کے مختلف ادوار میں اہل بیت علیہم السلام کو سخت ترین تکالیف و مصائب کا سامنا رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے امت کے اتحاد اور مفادات کی حفاظت کے لئے جانفشانی سے کام لیا اور ان مفادات کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ یہ اس ذمہ داری کا حصہ تھا جو ان کے ذمے لگائی گئی تھی۔
اس کےعلاوہ اہل بیت علیہم السلام  کا علم ایک ایسا چراغ تھا جو امت کو اس کے سیدھے راستے کی نشاندہی کرتا تھا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلا موضوعِ بحث مسئلہ خلافت تھا۔ وہی مسئلہ جس کے بارے میں امام علی علیہ السلام نے خاموشی اختیار کرلی اگرچہ آپ ؑنے اس منصب کے لئے دوسروں سے زیادہ اپنی اہلیت کو آشکاربھی کیا۔ امام علیہ السلام کی خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ آپؑ کو امت کے مفادات کی فکر تھی کیونکہ اس دوران امت ِمسلمہ اپنے اقدامات، فتوحات اور کارناموں کی بنیادیں مستحکم کرنے اور اسلامی حکومت کا دائرہ وسیع کرنے میں مصروف تھی۔ چنانچہ امام علیہ السلام نے ان عناصر کو جو پہلے سے تیار شدہ پلان کے مطابق امت کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے خلافت کا پتہ استعمال کرنے کے خواہاں تھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ان میں سے ایک ابوسفیان تھا جس نے سقیفہ کے واقعے کے کچھ وقت بعد امامؑ کو یہ پیشکش کی کہ آپؑ خلافت کا بیڑا اٹھائیں لیکن امامؑ نے  اسے دھتکاردیا اور اس کے منصوبے کو رسوا کیا۔ اس کے برعکس امام علیہ السلام نےخلفائے راشدین کو کسی قسم کا مشورہ دینے سے دریغ نہیں کیا۔
ان تمام حقائق سے آشنائی کے لئے  یہی بس ہے کہ ہم خطبہ شقشقیہ اور اس خط کا مطالعہ کریں جسے آپ نے مالک اشتر کے ہمراہ اہل مصر کی طرف بھیجا تھا۔(۲۳)
حضرت عمر بن خطاب کی خلافت کے دوران بھی امام علیہ السلام کی پالیسیاں اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں چنانچہ جب خلیفہ نے آپ سے مشورہ کیا کہ کیا خلیفہ کو بنفسِ نفیس رومیوں کے ساتھ جنگ کے لئے جانا چاہئے یا نہیں تو امام علی علیہ السلام نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ مرکزِ خلافت سے دور نہ جائیں کیونکہ مسلمانوں کا خلیفہ ان کےاتحاد کا محور ہے۔ (۲۴)
امام علیہ السلام نے دوسری بار بھی یہی موقف دہرایا جب حضرت عمر نے آپ ؑ سے مشورہ کیا کہ کیا وہ فتحِ ایران کے مشن پر جانے والے لشکر کی قیادت کے لئے خود مدینہ سے نکلیں یا نہ؟ تو امام نے انہیں یہ جواب دیا کہ ایک ایسے محور یا کھونٹے کا وجود ضروری ہے جس کے گرد چکی کا پتھر گھومتا ہے۔ مسلمانوں کے خلیفہ کاباہر نکلنا مسلمانوں کی پراکندگی کا موجب بنےگا۔(۲۵)
معاویہ کے ساتھ امام حسن علیہ السلام کی صلح بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ آپ ؑنے سخت استثنائی حالات میں( جن سے آپ روبرو تھے اور جن کی وجہ ؛سے امت مسلمہ تکلیف میں تھی) معاویہ کے ساتھ صلح کی تھی۔
امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی امت کےمفادات کی خاطر تھا ۔اس قیام میں آپ ؑنے اپنے عزیزوں،مددگاروں اور اہلِ خاندان کو قربان کیا ۔اس قیام کے ذریعے آپ نے امت مسلمہ کو مزید انحرافات کا شکار ہونے سے بچایا ۔
امام سجاد علیہ السلام نے مسلمانوں کے لشکر کے لئے جو دعا کی ہے اس کے باعث لوگوں کی نگاہیں آپ کی طرف اٹھ  جاتی ہیں حالانکہ یہ لشکر امویوں کا تابع قربان تھا ۔امویوں نے اہل بیت رسول علیہم السلام کو تلخیوں  کے بہت سے گھونٹ پلائے تھے ۔آپ ؑکی اس دعا کا نام "سرحدی محافظوں کی دعا ہے"جس میں آپ فرماتے ہیں:خدایا!محمدو آل محمد پر درود بھیج اور مسلمانوں کی سرحدوں کو اپنی نصرت کے ذریعے محکم بنا اور اپنی طاقت سے سرحدی محافظوں کی مدد فرما۔۔۔۔ان کی تعداد میں اضافہ فرما اور ان کے ہتھیاروں کو برّاں بنادے ۔۔۔۔انہیں متحد بنا اور تو خود ان کے کاموں کی تدبیر فرما۔ان کے رزق کے سرچشمےکو مسدود نہ فرما اور ان کی دشواریوں کو دور کردے ۔انہیں اپنی نصرت سے طاقت عطا کر اور صبر کرنے میں ان کی مدد فرما۔۔۔۔خدایا!ہر سرحد کے مسلمانوں کو وہاں کے مشرکوں کے ساتھ جنگ کے لئے تیار فرما اور فرشتوں کے ان دستوں کے ذریعے ان کی مدد فرما جو ایک دوسرے کے پیچھے اور پے در پے ان کی مدد کے لئے اترتے ہیں۔(۲۶)
امام باقر علیہ السلام کی بھی یہی روش تھی۔ چنانچہ آپؑ بھی مسلمانوں کی  حکوت کو اپنے علم و دانش سے مستفید فرماتے تھے ۔آپؑ ہی نے بنی امیہ کے دور میں  سکّے بنانےکامسئلہ حل فرما یا تھا  جب رومیوں نے یہ کام مسلمانوں پر ڈالا تھا۔پس امام نے عبدالملک بن مروان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے نام پرسکے ضرب کرے۔
اس کے بعد عباسیوں کے دور میں مسلمان فرقوں کے درمیان بر پا عظیم اختلافات کے حوالے سے امام صادق علیہ السلام کی پالیسیوں کی طرف اشارہ ضروری ہے ۔امام علیہ السلام اپنے ساتھیوں اور شیعوں کو دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کے ساتھ سلوک کے طریقوں سے آگاہ کرتے اور فرماتے تھے:ان کی نمازِ جماعت میں شرکت کرو،ان کے بیماروں کی عیادت کرو ،ان کے جنازوں کی تشییع اور آخری رسومات میں شرکت کرو،یہاں تک کہ وہ کہیں:خدا جعفر بن محمد پر رحمت کرے جس نے اپنے ساتھیوں کو ادب سکھایا ۔ 
پس تم لوگ ہمارے لئے باعث زینت بنو ،ہمارے لئے بدنامی اور قباحت کا ذریعہ نہ بنو۔(۲۷)
دیگر ائمہ کی بھی روش یہی تھی ۔ان (ائمہؑ) کے موقف سے آشنائی کے لئے قابل اعتماد تاریخی مآخذ اور ان کے سوانحِ حیات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ائمہ علیہم السلام  کی یہ پالیسیاں مجموعی طور پر امت ِمسلمہ کے مسائل کے بارے میں ائمہ علیہم السلام کے نقطۂ نظر کو جو انہی کا خاصہ ہے واضح کرتی ہیں نیز امت کے مفادات اور ان کی مصلحتوں کے حوالے سے ائمہ علیہم السلام کی دقیق تشخیص سے پردہ اٹھاتی ہیں ۔
نتائج 
گذشتہ معروضات کی روشنی میں بعض نتائج سامنے آتے ہیں جنہیں ہم اربابِ تحقیق اور  ماہرین کی نذر کرتے ہیں تاکہ با ہمی ڈائیلاگ ' گفتگو اور دوستانہ  مذاکرات کو ثمربخش اور شفاف بنایا جا سکے۔
1۔قرآن اور سنت نے مسلمانوں کے لئے اہل بیت علیہم السلام کی علمی اور معاشرتی مرجعیت و محوریت پر  خوب زور دیا ہے۔
2۔احادیثِ صحیحہ اور سنت ِشریفہ نے یہ  واضح کیا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کون ہیں نیز ان کی خصوصیات اور تعداد کو بھی بیان کیا ہے۔
3۔اہل بیت علیہم السلام اپنی علمی زندگی میں اپنے پیشرو معصوم کے علاوہ کسی کے محتاج نہیں ہیں۔
4۔خلفائے راشدین سے لے کر اب تک کے مسلمان فرقوں کے پیشوا ؤں کے بشمول امت ِمسلمہ کی نامور اور بزرگ ہستیوں نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ اہل بیت علیہم السلام علم و دانش میں سب لوگوں سے برتر ہیں نیز سارے مسلمان ان کی علمی مرجعیت کے محتاج ہیں ۔
5۔اہل بیت علیہم السلام نے سخت ترین حالات سے روبرو ہونے کے باوجود مسلمانوں کی خدمت اور ان کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے علم سے لوگوں کو مستفید کیا۔
6۔مذکورہ عرائض کی روشنی میں تمام مسلمانوں کی علمی مرجعیت اہل بیت علیہم السلام سے مختص ہے اور یہ مرجعیت کسی خاص زمانے یا جگہ سے مختص نہیں ۔ کم از کم امتِ مسلمہ کی وحدت   کےحوالےسے اہل بیت علیہم السلام کی محوریت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
بنابریں  اگر اہل بیت کی سیاسی قیادت پر مسلمانوں کا اختلاف ہو تب بھی اہل بیت کی علمی مرجعیت اور  محوریت پر (گذشتہ بیانات کی روشنی میں)تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔(۲۸)
 یہ ایک نہایت اہم پیشرفت ہے کیونکہ یہ حقیقت ایک  ایسے موضوع کے بارے میں امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتی ہے جسے مٹانے کے لئے حکمرانوں اور سیاسی طاقتوں نے صدیوں تک کوشش کی ہے۔
مذکورہ بالا تمام عرائض کا خلاصہ  یہ ہے کہ اگر امتِ مسلمہ اپنے اصلی اور خالص منابع  و مآخذ کے دائرے کو وسعت دینا چاہے، زندگی  کے بارے میں اٹھنے والے مختلف سوالوں کا سامنا کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہےنیز قرآن کریم اور سنتِ شریفہ کے نقطہ نظر کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہمآہنگ ہونا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس گرانقد ر ورثے کی طرف رجوع  اور اس  سے مدد حاصل کرے تا کہ اپنی تہذیب و ثقافت کی بنیادوں کو استوار کرسکے۔
یہاں اس بات کی یاد  دہانی مناسب ہے کہ اہل بیتِ رسول علیہم السلام کی علمی اور تفسیری مرجعیت و محوریت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صحابۂ کرام،تابعین اور مسلمان دانشوروں کے علمی و عملی ورثے کو اہمیت نہ دیں۔ان ہستیوں نے اپنا تزکیہ کیا نیز اسلام کی طویل تاریخ میں اسلامی علوم کی عظیم خدمات انجام دیں۔ان ہستیوں نے اسلامی تمدن کی پیشرفت میں زبردست مدد کی(خدا ان سے راضی ہو )،بلکہ اہل بیت کی مرجعیت سے ہماری مراد یہ ہے کہ اہل بیت ؑکی عظمت اور علمی میدان میں ان کے مرجع و محور ہونے کو ثابت کریں۔یہ وہ حقیقت ہے جسے سب درست تسلیم کرتے ہیں تا کہ اہل بیتؑ میدان ِعلم کےتیسرے محور کی حیثیت سے امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور انہیں مطلوبہ شکل میں  متحد و منظم کرنے کا باعث بن سکیں۔
یہاں ہم اہل بیت علیہم السلام کی علمی اور اجتماعی مرجعیت کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے ہیں اسی پر اکتفا کرتے ہیں  تاکہ ہم اپنے دور کی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں آج کے آشفتہ حال اور پراکندہ اسلامی معاشرے پر کچھ تبصرہ کر سکیں اور ان عوامل کا جائزہ لے سکیں جو اس پراکندگی میں سہیم رہے ہیں نیز   ان منفی عوامل سے نجات کی راہوں کا عملی جائزہ لے سکیں۔ 
امت مسلمہ کی پراکندہ حالی 
یہاں سب سے پہلے یہ سوال کیا جاتا ہے :آپ عالمِ اسلامی کی موجودہ صورتحال  کی ایسی تصویر کشی کیوں کر رہے ہیں جو بد گمانی ،بد بینی اور قنوطیت پر مشتمل ہے؟کیا عالم ِ اسلام عظیم اسلامی تنظیموں ،مشترکہ یونینز،اسلامی سر براہی کانفرنسوں ،مشترکہ پالیسیوں اور مختلف اسلامی انجمنوں سے مستفید نہیں ہو رہا ہے؟پس اس بد گمانی کی کیا وجہ ہے؟
جواب :حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے کیونکہ حد سے زیادہ خوش فہمی کا نقصان حد سےزیادہ بد بینی سے بڑھ کرہے۔اگر ہماری موجودہ نا گفتہ بہ اور آشفتہ صورتحال ایک حقیقت نہیں ہے تو  پھر عالم ِاسلام کے در میان اس اختلاف کی کیا علت ہے؟کیا وجہ ہے کہ ہم مسئلۂ فلسطین جیسے اہم مسئلے پر ہم خیال نہیں ہیں؟کیا وجہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک کے لوگ قوت لا یموت کو ترس رہے ہیں جبکہ بعض ممالک کے لوگوں کے پیٹ ناز و نعمت کی کثرت اور پرخوری کی وجہ سے پھولے ہوئے ہیں ؟کیا بات ہے کہ آج ہمارے اندر اس بےمثال ،یگانۂ روزگار،لوگوں پر گواہ اور بہترین امت کی نشانیاں مفقود ہیں جو لوگوں کی خاطر  خلق کی گئی ہے؟(کنتم خیر امۃ اخرجت للناس )
مسلمانوں کی یہ (بین اقوامی )تنظیمیں بعض چھوٹے اقدامات ہیں۔ممکن ہے کہ ان میں سے بعض سیاسی مقاصد یا حقائق میں ردّ و بدل  اورتسکیں کی خاطر وجود میں لائی گئی ہوں ۔
 کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ ہمارے در میان افتراق انگیز افکار و عوامل مثلا قوم پرستی ،وطن پرستی سرحدوں کی محدودیت ،  بےدینی اور اس قسم کے باطل پروپیگنڈوں کی ترویج کرتے ہیں؟
کیا وجہ ہے کہ ہم سارے مسلمان کم سےکم یہ کوشش بھی نہیں کرتے کہ عالم ِاسلام کے بڑے بڑے مسائل (مثلا فلسطین اور دیگر علاقوں کے مسائل)کی طرف توجہ دیں اور لا پروائی کی روش کو ترک کریں؟
کیا وجہ ہے کہ ہم سب نے ابھی تک یہ درک نہیں کیا کہ سوپر طاقتیں خاص کر امریکہ ہمارے لئے صرف اور  صرف برائی کے خواہاں ہیں؟
آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے کہ بعض اسلامی ممالک اسلام کے دشمن اسرئیل کی طرف ہاتھ پھیلانے کی کوشش میں لگے ہیں۔یقینا ہماری حالت پراکندہ ہے۔ہماری ذ؛مہ داری ہے کہ اپنی پراکندہ حالی اور افتراق کے عوامل کو پہچان لیں۔

۔۔۔۔۔

1.    حدید/ ۱۶۔ کیا ایمان لانے والوں کے لئے ہنوز وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے قلوب اللہ کی یاد اور (خدا کی جانب سے ) نازل ہونے والے برحق پیغام کے باعث خوفزدہ ہوں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جنہیں اس سے قبل کتاب دی گئی پھر ان پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے جبکہ ان میں سے بہت سے لوگ نافرمان تھے؟
2.    ۔ آل عمران/۱۰۳- تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لو اور آپس میں افتراق نہ کرو۔
3.    ۔ آل عمران/ ۱۰۳- اور تم لوگ اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے  تب اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور  اس کی نعمت سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر تمہارے لئے بیان کرتا ہے تا کہ تم ہدایت حاصل کرو۔
4.    ۔ نسا٫/ ۱- اللہ نے تمہیں ایک ذات (آدم) سے  پیدا کیا۔
5.    ۔ شوریٰ/ ۱۳- اللہ نے تمہارے لئے دین کا وہی دستور معین کیا جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی ہم تیری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم، موسی اور عیسی کو حکم دیا تھا کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں اختلاف نہ کرنا۔
6.    ۔ ذاریات/ ۵۶- اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔
7.    ۔ بقرہ/ ۲۰۸- اے ایمان لانے والو! تم سب کے سب امن و آشتی کے دائرے میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔
8.    ۔ حشر/ ۹- وہ(دوسروں کو)اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود تنگدستی میں مبتلا ہوں۔
9.    ۔ انسان/ ۹ ۔ ہم تمہیں صرف رضائے الہی کی خاطر کھلاتے ہیں۔ ہم تم سے کسی پاداش اور تشکر کے خواہاں نہیں ہیں۔
10.    ۔ آلعمران/ ۱۱۰۔ تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لئے پیدا کیے گئے ہو۔
11.    ۔ بقرہ/ ۱۴۳۔ یوں ہم نے تم لوگوں کو معتدل امت بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہے۔
12.    ۔ انفال/۲۵۔ اس فتنے سے ڈرو  جو تم میں سے صرف ظلم کرنے والوں کو ہی اپنی لپیٹ میں  نہیں لے گی (بلکہ سب کو لےگی۔)
13.    ۔ حجرات/ ۱۳ ۔ بے شک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
14.    ۔ زمر/ ۹۔ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں؟
15.    ۔ نسا٫/ ۹۵۔ اللہ نے جہاد  کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر برتری دی ہے۔
16.    ۔ آلعمران/ ۶۴۔ کہدے: اے اہل کتاب !اس موضوع کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔اس کے ساتھ کسی چیز   کو شریک قرار نہ دیں اور اللہ کے سوا  آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں۔ پس اگر وہ نہ مانیں تو ان سے کہدے: گواہ رہو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ 
17.    ۔ سبا/ ۲۴۔ درحقیقت یا ہم یا تم ہدایت کے راستے پر ہیں یا گمراہی میں مبتلا ہیں۔
18.    ۔ سبا/ ۳۴۔ ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیاشوں نے کہا: ہم اس چیز کے منکر ہیں۔
19.    حجر/ ۹۔ بے شک ہم نے خود اس قرآن کو  نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے  محافظ ہیں۔
20.    ۔ حجرات/ ۶۔ اے ایمان لانے والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اس کی چھان  بین کرو۔ کہیں ایسا نہ کہ تم نادانی میں کسی جماعت کو نقصان پہنچاؤ پھر اپنے کیے پر پشیمان ہوجاؤ۔
21.    ۔ توبہ/ ۱۲۲۔ اور یہ تو مناسب نہیں کہ سارے مومنین (جہاد کے لئے) کوچ کریں۔ پس کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت کوچ کرے تا کہ (باقی ماندہ لوگ)دین کی شناخت پیدا کریں اور اپنے لوگوں کو (جب وہ ان کے ہاں واپس آئیں ) ڈرائیں تا کہ وہ(عذابِ الہی سے) ڈریں۔
22.    ۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۲۱۰
23.    ۔ نہج البلاغہ، مکتوب۶۲
24.    ۔ ایضاً، خطبہ ۱۳۴
25.    ایضاً، خطبہ ۱۴۶
26.    ۔ صحفہ سجادیہ ،ستائیسویں دعا
27.    ۔الفصول المہمۃ فی تالیف الامۃ،ج ۱،ص۱۷۵ 
28.    ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے اسلامی مذاہب ایک ہی مذہب میں ڈھل جائیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ علمی مرجعیت کے حدود کو بیان کیا جائے تاکہ اسلامی مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذہب یا فرقے کے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے علم کے اس سرچشمے کے گرد جمع ہو جائیں اور اس سے خوب فیض حاصل کریں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک