امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امت ِمسلمہ کی پراکندگی کے اسباب

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

امت ِمسلمہ کی پراکندگی کے اسباب
آج امتِ مسلمہ کے ما بین افتراق کا سب سے؛ اہم سبب عالمی استکباری اور استعمار ی طاقتیں ہیں ۔یہ طاقتیں مسلمانوں کےاختلاف کا باعث بننے والے عوامل یعنی تعصب، جہالت اور مفاد پرستی  سے خوب استفادہ کر تی ہیں۔
آج عالمی سامراج یہ محسوس کر رہا ہے کہ امتِ مسلمہ کے پاس انقلاب اور دگرگونی کے سارے عوامل موجود ہیں اور اسلام کے پاس وہ پیغام ہے جو حقیقی اور انسانی پیغام ہے۔علاوہ ازایں اسلام کے پاس مادی و انسانی وسائل اور سچی قیادت کی قوت موجود ہے جس نے ایک حیرت انگیز تجربہ پیش کیا ہے ۔عالمی استکباری قوتوں کو خدا کی اس مدد کا علم ہے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے ۔انہیں اتحاد کے حقیقی سر چشموں کا پتہ ہے ۔چونکہ اتحاد  کے علاوہ انقلاب کا کوئی اور راستہ نہیں ہے اس لئے عالمی استکبار اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اپنی تمام کو ششوں اور سازشوں کو بروئے کار لاتا ہے ۔اس مقصد کے تحت (جیسا کہ ہم عرض کر چکے)وہ بعض مسلمانوں کی جہالت و نادانی سے،بعض لوگوں کے جذبۂ تعصب سے اور اس کی ظالمانہ سیاست کے آگے سر جھکانے والوں کے مفادات کے خوب استفادہ کرتا ہے ۔
عالمی استکبار اس مقصد کے حصول کے لئے پروپیگنڈا مشینری ،ذرائعِ ابلاغ، سازشی دماغوں اور علاقے میں اپنے ایجنٹوں سے جن میں دانشور ،جاسوس اور سیاسی لیڈر شامل ہیں بھر پور مدد لیتا ہے ۔پس ان حالات میں کیا کرنا چاہئے ؟
ہمارا  ایمان ہے کہ آج مسلمان اقوام ایک عظیم بیداری کے مرحلے سے گزر رہی ہیں نیز حقیقی اتحاد کے تصور کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا زبردست شوق رکھتی ہیں ۔یہ بیداری مقصد تک رسائی کی ایک اہم تمہید ہے۔
بنابریں ہمیں چاہئے کہ :
1۔عالمی استکباری و استعماری قوتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملادیں جو ایک آسان  کام ہے ۔اس سلسلے میں یہی کافی ہے کہ امریکہ کی بعض پالیسیوں کی نشاندہی کی جائے تا کہ امت ِمسلمہ حقیقتِ امر سے آشنا ہوجائے۔
۲-ہمیں اس حقیقت کی ترویج کرنی چاہئے کہ مسلمانوں کا موجودہ اتحاد حقیقی نہیں بلکہ کھوکھلا اور خود ساختہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کو  اس کھوکھلے پن سے آگاہ کریں۔
۳۔ بنابریں ہمیں قرآن سے کام کا آغاز کرنا چاہئے تا کہ ہم اتحاد کے لئے کارآمد قرآنی اسالیب میں سے ہر اسلوب کو امت کے ذہنوں میں عمیق اور راسخ کریں اور اتحادِ اسلامی کے محور کی یاد دہانی کرائیں۔
ہمیں چاہئے کہ حبل اللہ (اللہ کی رسی)اور اتحاد کے آثار کو برملا کریں نیز اس بات پر زور دیں کہ سب مسلمانوں  کا سرچشمہ، سب کا راستہ ، مذہب اور سب کا ہدفِ زندگی ایک ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی جانوں کے اندر عظیم اخلاق کا بیج بوئیں اور امت کے سامنے اس کے عظیم اہداف اور ذمہ داریوں کی تصویر کشی کریں، برتری کے حقیقی اور خالص معیاروں کی ترویج کریں، مشترکہ نقاط کا سہارا لیں،۔۔۔ تعمیری گفتگو اور مذاکرا ت میں مقصدیت کی روش اپنائیں اور آخر میں اس نقش یا کردار کو فراموش نہ کریں جو امت کا اتحاد فلسطین وغیرہ میں مسلمانوں کے مشترکہ مقاصد کی خاطر ادا کرسکتاہے۔
ہمارے پاس عقیدے، جذبات ، اخلاق اور اعمال کے میدانوں میں حقیقی اتحاد کے سارے وسائل موجود ہیں۔ بنابریں یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم معمولی فکری اور اجتہادی اختلافات کے باعث دشمنوں کے مقابلے میں اپنے اتحاد و اتفاق سے دستبردار ہوں۔
مذکورہ عرائض کے علاوہ یاد رہے کہ ہمارا موقف ایک ہے۔ لہذا عالمی استعمار کے مقابلے میں ہمارے سیاسی مفادات کو اس مشترکہ موقف پر مبنی ہونا چاہئے۔ان تمام عرائض کے بعد ہم یہ کہیں گے کہ: ہمارے عقائد، ہمارا سیاسی نظام اور ہمارے سیاسی مفادات سبھی ہمیں اسلامی اتحاد کی دعوت دے رہے ہیں۔
پس سستی کیسی؟ سرگردانی اور پریشان خیالی کس لئے ؟ اسلامی اتحاد کا یہ عظیم موقع ہے۔ پس آیئے قرآن کے پرچم تلے اتحاد کی جانب آگے بڑھیں، مسلمان پیشواؤں اور دانشوروں کی پاکیزہ دعوتوں پر کان دھریں اور ہر اس چیز سے آنکھیں موند لیں جو ہمارے اتحاد کو مخدوش کرے اور اس میں شگاف ڈال دے۔ یہ اس معیار تک  دسترسی کے بعد ہوگا جس کے ذریعے ہم ایک طرف سے مسلمانوں کے حقیقی پیشواؤں اور دوسری طرف سے دین کی سرپرستی کےجھوٹے اور نقلی دعویداروں میں فرق کو سمجھ لیں۔ یہ جھوٹے دعویدار کافر اور استعماری طاقتوں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہیں۔
اتحاد اور تفاہم کی حقیقت
ایک طائرانہ نگاہ سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ تفاہم ایک ایسا موضوع ہے جس کی طرف قرآن نے دعوت دی ہے۔ قرآن نے تفاہم کا اہتمام کیا ہے اور وہ بھی صرف مسلمانوں کے درمیان نہیں بلکہ تمام انسانوں کے درمیان,سوائے ان لوگوں کے جو ظلم و ستم اور جنگ و ستیز کا راستہ اپنائیں۔البتہ جب ہم اسلامی تعلیمات کی دنیا پر (جو برادری، اتحاد، عفوو درگذشت، اسلام کے بنیادی عقائد کے معتقدین کو قبول اور برداشت کرنے نیز فکری اختلافات کے مکمل ادراک کا نام ہے)نظر کرتے ہیں تو تفاہم کی جڑیں مزید پھیل جاتی ہیں کیونکہ اسلامی دنیا وہ ہے جہاں مسلمان بنیادی اصول و عقائد پر متفق ہوتے ہیں۔ اسی طرح زندگی گزارنے کے بہت سارے شرعی اصولوں پر بھی متحد و متفق ہوتے ہیں بلکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ بعض اسلامی اصولوں مثلاً اخلاقی اصولوں، تربیتی اصولوں نیز باہمی معا ملات اور شرعی سزاؤں سے مربوط اصولوں و غیرہ میں شاید اختلاف کا دائرہ بہت ہی محدود ہو یا بالکل ہی نہ ہو۔
جی ہاں، آیئے ہم اسلامی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔اس دنیا میں جہاں قرآن کا خطاب سب کے لئے یکساں ہے۔یا ایھا الذین آمنوا۔۔۔۔اسلامی دنیا کی امتیازی نشانیاں مذاہب کے چند ایک اختلافات کے باوجود ایک ہی سرچشمے سے سیراب ہوتی ہیں۔ اسلامی دنیا کا تشخص یکساں ہے اور اس کی ترجیحات بھی یکساں۔ جب ایسا ہو تو تفاہم اسلام کے بدیہی اور مسلّمہ اصولوں کا حصہ بن جاتا ہے جس کے لئے استدلال اور برہان کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بعض اعتراضات اور تحفظات کا تذکرہ
اتحاد و تفاہم کے حوالے سے بعض تحفظات، شبہات اور اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں جن میں سے بعض نیک نیتی پر  اور بعض بدنیتی پر مبنی ہیں۔ یہ تحفظات درج ذیل ہیں:
۱۔ اسلامی مذاہب کا باہمی اختلاف در اصل اسلام کے بنیادی اصولوں میں اختلاف سے عبارت ہے۔
۲۔ اسلامی مذاہب کا باہمی اختلاف در حقیقت ان مذاہب کے منابع و مآخذ میں اختلاف کا نتیجہ ہے۔
۳۔ ہر اسلامی مذہب دوسرے مذاہب پر دین میں بدعت کا الزام لگاتا ہے۔
۴۔ ہر مذہب اسلامی عقائد کے تقاضوں کی تشریح کرتے ہوئے دیگر مذاہب پر شرک کا الزام لگاتا ہے۔
۵۔ ہر مذہب دوسرے مذاہب پر نفاق اور سازش کا الزام لگاتا ہے۔
۶۔ مذاہب کے درمیان ڈایئلاگ، گفتگو اور تفاہم در اصل اپنے مذہب میں شک یا دوسرے مذاہب کے  نظریات کی ضمنی قبولیت کا نتیجہ ہیں۔ 
۷۔ اتحاد کا مقصد مذاہب کو مخلوط کرنے یا لوگوں کو ایک ہی مذہب قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ چونکہ یہ ایک باطل کام ہے اس لئے اتحاد کی کوشش بھی باطل ہے۔
۸۔ اتحاد و تفاہم ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرنے کے عمل کو آسان بناتا ہے جس سے مذاہب کے درمیان توازن بگڑجاتا ہے۔
۹۔ اتحاد و تفاہم ایک مذہب کی طرف سے دوسرے مذہب کے اندر نفوذ پیدا کرنے اور اس مذہب کے عقائد کے منافی عقائد کی تبلیغ کرنے نیز اس مذہب کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنے لئے ایک بہانے اور ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔
۱۰۔  اتحاد و تفاہم کی کوششوں کے پیچھے در اصل سیاسی مفادات کارفرما ہوتے ہیں اور ان میں دین کا عنصر مفقود ہوتاہے۔
ان اعتراضات کے علاوہ دیگر اعتراضات بھی کیے جاتے ہیں جن میں سے بعض وہ ہیں جن کے ساتھ راقم  کابراہِ راست واسطہ پڑاہے اور بعض کے بارے میں راقم نے بہت کچھ پڑھا ہے لیکن میں اپنی قلبی اور ذہنی کیفیت پر خدا کو گواہ ٹھہراتے ہوئے کہتاہوں کہ میری نظر میں مذکورہ اعتراضات اور تحفظات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ یہ صرف اعتراض کی حد تک ہیں ۔میری نظر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ کچھ لوگ ان اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیں اور ان کے کھوکھلے پن یا جھوٹ ہونے کو برملا کریں۔
 البتہ  میں یہاں درج ذیل حقائق کی طرف اشارہ کررہاہوں۔
۱۔ ہم نے مشرکوں اور اہل کتاب کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے بارے میں قرآن کی تاکید  سے آگاہی حاصل کی ہے پس ہم یہ کیسے تسلیم کریں کہ قرآن نے مسلمانوں کو باہمی تفاہم سے منع کیا ہے؟
۲۔ قرآن اور حدیث میں "مدارات" کے بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ہے اور اسے ایک مسلمان کی پسندیدہ خصوصیت اور اچھے طرزِعمل کے طور پر ذکر کیاگیا ہے جسے وہ دوسروں کے ساتھ روا رکھتا ہے لیکن یہاں اس کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔
۳۔ اسلامی مذاہب کے ائمہ اور پیشواؤں کی سیرت تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار تے تھے اور ان میں سے بعض دوسروں کو علم سکھاتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے بعض دوسرے کے پاس اپنی شاگردی  پر فخر کرتے تھے۔ وہ حقیقت سے آشنائی کو اپنے ساتھ مختص نہیں سمجھتے تھے جبکہ انہی پیشواؤں کے بعض پیروکار ایک دوسرے کے ساتھ تفاہم کی روش سےبھی دور رہتے تھے۔
۴۔ ہم نے پچاس کی دھائی میں الازہر یونیورسٹی کے اندر اتحاد بین المسلمین کے بارے میں ایک تحرّک کا مشاہدہ کیا۔ اس حرکت میں متعدد علماء اور بزرگان شریک تھے جن میں سے بعض یہ تھے:
۱۔ استاد ِاکبر شیخ مراغی
۲۔ استادِ اکبر ، شیخ مصطفی عبد الرزاق
۳۔ استاد اکبر، شیخ عبد المجید سلیم
۴۔ استاد اکبر شیخ محمود شلتوت
۵۔ بزرگ عالم شیخ محمد حسین کاشف الغطاء
۶۔ عظیم المرتبت عالم سید شرف الدین الموسوی
۷۔ عظیم پیشوا آیۃ اللہ بروجردی
۸۔ عظیم المرتبت استاد سید ہبۃ اللہ شہرستانی
۹۔ عالم و دانشور شیخ محمد تقی قمی
یہ اہل سنت اور اہل تشیع کے عالی مرتبت علماء تھے جنہوں نے اتحادِ امت کا پرچم اپنے ہاتھوں میں لیا۔ پس کیا مذکورہ اعتراضات ان علماء کی نظروں سے پوشیدہ تھے؟
جب الازہر یونیورسٹی نے ایک مستحسن قدم اٹھایا (یعنی اپنے سب سے بڑے فیکلٹیز میں سے ایک میں مذہب ِشیعہ امامیہ اور مذہب ِزیدیہ کی تدریس شروع کی) تو شیخ محمد مدنی نے اسے نیک فال قرار دیا۔ اسی دوران دانشکدہ ٔمعقول و منقول(دانشکدہ الہیات، تہران یونیورسٹی) ایران نے کرسیٔ فقہ ِاہلِ سنت کے نام سے فقہِ شافعی کا شعبہ کھولا۔
۵۔ اتحادِ امت کی تحریک نے آج وسیع سطح پر پیشرفت  اور عمومی مقبولیت حاصل کی ہے۔
اس سلسلے میں سب سے عمدہ نمونہ سب سے بڑے فقہی ادارے یعنی "مجمع فقہ اسلامی" کا اقدام ہے جس نے پوری سنجیدگی کے ساتھ "شعبۂ تقریب میان مذاہب"کے نام سے ایک تخصصی شعبہ قائم کیا۔ یوں اس ادارے نے اپنی عمومی نمایشگاہوں میں تمام طبقات کے اندر اتحاد و یکجہتی کا آزادانہ جذبہ پیدا کیا ہے۔ ان نمائشگاہوں نے عالمِ اسلام میں اسلامی مذاہب کے بردارانہ و دوستانہ رویوں نیز بنیادی منابع اور آراء و نظریات کی ہماہنگی سے پردہ اٹھایا ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران نے "مجمع تقریب مذاہب اسلامی" (اسلامی مذاہب کو قریب لانے کی عالمی تنظیم) کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے نے مختلف اسلامی مذاہب کے دانشوروں کو اپنی سپریم کونسل میں شامل کیا ہے نیز دانشگاہ مذاہب اسلامی (اسلامی مذاہب کی یونیورسٹی) قائم کرکے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
علاوہ از یں تعلیم، سائنس اور ثقافت کی عالمی اسلامی تنظیم "آ یسسکو" نے بھی اسلامی اتحاد کو اپنا مطمح نظر قرار دیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہے۔
اسی طرح ایتھوپیا، مصر، الجزائر، اردن، شام، لبنان۔ ایران، پاکستان، سوڈان، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ممالک کے علمی و دینی مراکز اسلامی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے کانفرنسوں اور نشستوں کا اہتمام کرچکے ہیں۔
۶۔ ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ "بنیادی اصولوں" سے ہماری کیا مراد ہے تاکہ ہمارے اس دعوے سے کہ "بنیادی اصولوں میں اختلاف موجود نہیں" ہمارا مقصود واضح ہو۔
اگر ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام و کفر کے درمیان فرق سے مربوط وسیع اور تفصیلی مباحث کا خلاصہ کریں تو یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ ان مباحث میں اسلام و کفر کے درمیان فرق کی درج ذیل حدود پر زور دیا گیا ہے:
الف: توحید یعنی اللہ کی یگانگت پر اجمالی ایمان۔
 ب: رسول اکرم ﷺ کی نبوت پر ایمان اور آپ کے تمام فرامین پر عمل کے لزوم کا عقیدہ۔
 ج: قرآن کریم پر ایمان اور قرآن کے تمام اوامر و نواہی پر عمل نیز جملہ قرآنی تعلیمات و مفاہیم کی درستی کا عقیدہ۔
 د: معاد پر اجمالی ایمان۔
ھ۔ اسلامی شریعت پر ایمان اور یہ عقیدہ کہ اسلامی شریعت لوگوں کے انفرادی و اجتماعی طرزِ عمل کو منظم و مربوط کرنے والے احکام کا مجموعہ ہے نیز ان کے عملی نفاذ کے لزوم پر ایمان۔
ان بنیادی اصولوں کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا اختلاف کسی صورت نظر نہیں آتا البتہ ان اصولوں کی جزئیات میں کچھ اختلافات نظر آتے ہیں۔ بطور ِنمونہ درج ذیل جزئی امور میں کچھ اختلافات دکھائی دیتے ہیں:
اولاً: صفاتِ خداوندی  میں اور ذاتِ الہی کے ساتھ ان صفات کے ربط کی کیفیت کے بارے میں۔
ثانیاً:  بعض فرعی اعتقادات مثلاً جبر و اختیار، قضا و قدر اور شفاعت و غیرہ کے بارے میں۔
ثالثاً: بعض روایات کی سند یا دلالت کے اثبات یا ردّ کے بارے میں۔
رابعاً:خلافت و امامت سے مربوط مسائل کے بارے میں۔
خامساً: بعض شرعی احکام کے معاملے میں۔
ان تمام اختلافات کے باوجود سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی چیز قرآن و سنت کی رو سے ثابت ہو تو اسے کسی قسم کے پس و پیش کے بغیر قبول کرنا چاہیے۔
البتہ یاد رہے کہ کچھ لوگ مخالف فریق کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
یہ لوگ پہلے، مخالف فریق کے ایک قول کو بطورِ نمونہ نقل کرتے ہیں پھر کہتے ہیں: اس بات کا لازمہ یہ ہےکہ جو اسے مانتا ہے  اسے دین ِاسلام کے دائرے سے خارج ہونا چاہیے۔
یہ طرز ِعمل غلط اور ناقابلِ قبول ہے کیونکہ مخالف فریق اس "تلازم" کا قائل نہیں ہے۔ اگر وہ اس تلازم کو قبول کرتا تو اس فرض کی روشنی میں کہ وہ اصولِ اسلام کا معتقدہے  اسے اپنے قول اور عقیدے سے دست بردار ہونا چاہیے تھا۔
بنابریں ہم کسی کو اس بہانے دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کا اختیار نہیں رکھتے کہ ہماری نظر میں اس کے فلان قول کا لازمہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا انکار ہے۔ یوں بدعت اور شرک کا الزام لگانے کا مسئلہ حل ہوجائےگا۔
۷۔ واضح ہے کہ تمام مسلمانوں کے ہاں اسلامی شریعت اور قوانین ِالہی کا سرچشمہ قرآن و سنت ہیں (اور ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مترجم) یہ عقیدہ ان اختلافات کے منافی نہیں (جو لوگوں کے اذہان میں پائے جاتے ہیں) مثلاً: 
الف۔قرآن اور سنت کے باہمی ربط کے بارے میں اختلاف اور یہ کہ کیا سنت کے ذریعے قرآنی عمومات کی تخصیص ہوسکتی ہے یا نہیں؟
ب۔وہ اختلاف جو گاہے سنت تک رسائی کے راستوں کے بارے میں پیش آسکتا ہے۔
ج۔پیغمبر اکرم ﷺ کی تقریر (اپنےطرزِ عمل کے ذریعے دوسروں کے کسی قول یا فعل کی تائید) کی دلالت میں اختلاف۔
د۔ فرمان رسول ﷺکے صدور کی  حیثیت کے بارے میں اختلاف مثلاً یہ کہ کیا رسول اللہﷺ نے حاکم ہونے کی حیثیت سے یہ حکم صادر فرمایا ہے یا پیغمبر ہونے کی حیثیت میں؟
(بہر حال ان اختلافات میں اور اس عقیدے میں کوئی منافات نہیں کہ اسلامی قانون کا منبع و مآخذ قرآن و سنت ہیں۔مترجم)
۸۔ الزام تراشی اور دوسرے مذاہب کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی روش غلط ہے۔ ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو اس طرزِ عمل سے منع کرتے ہیں۔
۹۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا، اسلامی اتحاد کی تحریک  کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ تمام اسلامی مذاہب کو ایک مذہب کے اندر منحل یا تبدیل کیا جائے۔ اس تحریک کا اس بات پر ایمان ہے کہ اسلامی مذاہب امت کا اور اسلامی تمدن کا سرمایہ اور خزانہ ہیں۔ تحریک کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ایک ہی مذہب کا تصور خیالی پلاؤ سے زیادہ کچھ نہیں۔
اتحاد امت: ایک اٹل اور ناگزیر ضرورت 
مسلمانوں کااتحاد امت مسلمہ کی ان خصوصیات میں سے ایک ہے جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔ وہ یوں کہ اگر امتِ مسلمہ اپنے اتحاد کو خیرباد کہہ دے تو اس کا تشخص ختم ہوجائےگا۔ اگر افراد کے درمیان محبت اور دوستی کے رشتے ختم ہوجائیں گے تو امت فتنہ و فساد کے گرداب میں غرق ہوجائےگی۔ بنابریں اسلامی اتحاد کی ضرورت کے بارے میں مزید گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ارشاد قرآنی ہے:
 وَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُن فِتْنَةٌ فىِ الأَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِير (۲۹)
اسلامی اتحاد کے خاص طریقے ہیں، اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے کچھ قواعد اور اصول ہیں اور اس کا اپنا لائحہ عمل ہے۔ اسلام نے مستحکم اور جامع شکل میں ان طریقوں کی تصویر کشی کی ہے جو اس مقصد تک رسائی کی ضمانت ہے۔ 
اسلامی اتحاد کی منزل تک رسائی کے راستوں میں سے ایک یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے میلانات اور افکار و نظریات کو قریب لایاجائے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو فاصلے بڑھ جائیں گے، دو ریوں کا دائرہ وسیعتر ہوگا اور اس کے بعد امت مسلمہ خانہ جنگی کا رخ کرےگی۔
یوں امت کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے گی اور اس میں شگاف آجائےگا نیز اس کے بعد امت اپنے استحکام سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور طوفانوں کی نذر ہوجائےگی۔
اتحاد امت کی کوشش کوئی جبری، مصنوعی اور سیاسی تحریک نہیں جس کے ذریعے ہم کسی کمزوری، کمی یا نقص پر پردہ ڈالنا چاہیں اور جس کے باعث دوسرے فریق سے حقیقت کو چھپانے کی ضرورت پڑے بلکہ یہ ایک فطری اور اصلی جد وجہد ہے۔ بہت سی حقیقتیں اس جدوجہد کا تقاضا کرتی ہیں جن میں سے بعض اہم حقائق درج ذیل ہیں:
۱۔ سوچ اور استنباط میں اختلاف ایک قدرتی بات ہے جو ہرگز غیر متوقع نہیں خاص کر اس وقت جب ہم گرانقدر نمونوں، شرعی تعالیم اور سیرت سے زندگی کا ایک کامل نظریہ اخذ کرنا چاہیں۔ یہ وہ کام ہے جس کے نتائج میں اختلافات کا ظہور ایک قدرتی بات ہے۔ یہ اختلاف اس وقت شدت اختیار کرجاتا ہے جب ہم نصوص اور کلام کے صدور کے دور سے صدیوں کے فاصلے پر واقع ہوں نیز ہمیں بعض دیگر مسائل کا بھی سامنا ہو مثلاً بہت سی احادیث کا ضائع ہوجانا، احادیث کی سند پر تحقیق کا ضروری ہونا، بیان کے اسالیب اور تفہیم کے قرائن میں تبدیلیوں کا وقوع، بات کو چھپانے والے ماحول یا فضا کی موجودگی، احادیث کی کتابوں میں جعلسازی اور دروغبافی و غیرہ۔ یہ وہ مسائل ہیں جو احادیث میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر اور تجزیہ و تحقیق سے کام لینے کی دعوت دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں انسانی زندگی میں رونما ہونے والی پیشرفت اور تبدیلیوں  نے بہت سے جدید حوادث و مسائل کو جنم دیا ہے جن کے بارے میں کوئی خاص نص یا بیان موجود نہیں ہوتا۔ بنابریں عمومی قواعد و ضوابط کی روشنی میں ان مسائل کے احکام کا استنباط کرنا ہوگا۔(۳۰)
۲۔ اجتہاد کے دروازے کو کھلا رکھنا ضروری ہے تا کہ انسانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے معاملے میں اسلام کی لچکدار حکمت عملی اور سہولت ثابث ہوں۔ البتہ اس کے نتیجے میں بہت سےاجتہادی اختلافات بھی جنم لیتے ہیں لیکن اسلام اپنی حقیقت پسندی کی بنا پر ان اختلافات کو قبول کرتا ہے۔
رہے وہ متون یانصوص جو اختلاف سے منع کرتے ہیں تو ان سے مراد فکری و اجتہادی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ نصوص مسلمانوں کو عملی اختلافات سے روکتے ہیں:
وَ لا تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تذْهَبَ رِيحُكُم ‏(۳۱)
اگر کہیں قرآن نے مسلمانوں کو فکری اختلاف سے روکا ہے تو اس کا تعلق فکر کے اس حصے سے ہے جو اختلاف اور شکوک سے مبرا ہے نیز اس میں فکری لغزش کی گنجائش نہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں اختلاف اور فقہی اجتہاد کی بھی گنجائش نہیں۔ قرآن نےاسے ’’حبل اللہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ بنابریں وہ قرآن جو ہر گزند اور لغزش سے منزہ ہے نیز وہ سنت جو سند اور دلالت کے لحاظ سے قطعی ہو ’’حبل اللہ‘‘ ہیں۔ ان میں کشمکش ، اختلاف اور جھگڑے کی کوئی گنجائش نہیں۔
۳۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک طر ف سے انسانی عقل و فکر کا دائرہ محدود  وناقص ہے اور دوسری طرف سے علمی ترقی کا تسلسل ضروری ہے۔ اس حقیقت کے تناظر میں مسلمانوں کے اندر اجتہادی اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتہادی اختلاف کرنے والوں کا مقصد امت کے مفادات نیز اسلام کے تشریعی ،قانونی اور اصلاحی ورثے کا تحفظ ہونا چاہیے۔ اس اختلاف کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ امت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیےجائیں اور اس کے عظیم تشخص کو ختم کیا؛ جائے۔
اجتہادی اختلافات کے قدرتی تسلسل کی ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب ان تمام عوامل و عناصر کا خاتمہ کیا جائے جو اجتہادی اختلاف کو اس کے راستے سے منحرف بنادیتے ہیں اور ایسا گل کھلاتے ہیں کہ وہ اپنے فطری اور قدرتی  ڈگر سے ہٹ کر ایک تباہ کن اور بے مہار راستے پر چل پڑتا ہے۔ اس  کا دہانہ شروع میں  محدود ہوتا ہے لیکن آخر میں وسیع سے وسیع تر ہو تاجاتا ہے۔
 مذکورہ عناصر کی تعداد زیادہ ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:
الف: سیاسی میلانات جو بعض فقہاء کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ حکمرانوں کے مفادات کی خاطر کام کریں اور تنگ نظری پر مبنی اہداف کی عملی ترجمانی کریں۔
ب: ایک فریق کی دوسرے فریق کے اصول و مبانی اور فتوؤں سے لاعلمی۔
ج: فکری و اجتہادی اختلاف کے قدرتی راستے سے باہر نکل کرعملی اختلافات کا راستہ اپنانا جس کا فکری اختلاف سے کوئی ربط نہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب اختلاف کے موضوع کو اس کی ڈگر سے ہٹا کر اعتقادی جھگڑوں و غیرہ میں تبدیل کیا جائے۔
ان عرائض کی روشنی میں واضح ہوا کہ اسلامی اتحاد کی کوشش کا مقصد تفاہم اور قربت کی فضا پیدا کرنا نیز کجروی اور انحراف کے تمام عوامل کا خاتمہ ہے۔ اس کا ہدف وہ اقدامات ہیں جن کے باعث اجتہادی اختلافات اپنے قدرتی اور ثمربخش راستے پر گامزن رہیں اور کسی ددسرے راستے کے ہتھے نہ چڑھیں۔
اتحاد کی کوششیں اور مذاہب کا تعدّد
عصر نبوی میں اجتہاد کی زیادہ ضرورت نہیں تھی کیونکہ احکام اور مفاہیم رسول اللہﷺ سے براہِ راست حاصل ہوتے تھے۔ اگر بعض اصحاب اجتہاد کرتے تھے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اسے قبول فرماتے تھے۔ (۳۲)
عصر رسالت میں اختلاف کی نوعیت سادہ تھی۔ جب اسلام کی قلمرو میں اضافہ ہوا تو "آیتِ نفر" اتری جس نے ایک اصول کی بنیاد رکھی، اجتہاد کا پودا لگایا اور خبر ِواحد کو حجّت قرار دیا۔ اللہ تعالی اس آیت میں فرماتا ہے:
 وَ مَا كاَنَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَافَّةً  فَلَوْ لاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنهْمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِى الدِّينِ وَ لِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيهْمْ لَعَلَّهُمْ يحَذَرُونَ‏  (۳۳)
لیکن ہوا یوں کہ رحلت رسول ﷺ کے بعد اجتہاد کی روش میں اضافہ ہوتا گیا ۔اسی طرح تابعین کے دور میں یہ تسلسل جاری رہا اور مزید وسعت اختیار کرگیا۔ البتہ اس دور کے بعد اسلامی مذاہب واضح شکل اور مخصوص نشانیوں کے ساتھ سامنے آئے ۔جیسا کہ استاد سیّاس عقیدہ ہے عالم اسلام میں دوسری صدی کے ابتدائی سالوں سے لے کر چوتھی صدی کے وسط تک ۱۳۸ فقہی  مذاہب و مکاتب ِفکر ظاہر ہوئے یہاں تک کہ بہت سے شہروں میں وہاں کا اپنا خاص مذہب رائج تھا۔(۳۴)
 علامہ اسد حیدر  ان مذاہب کی تعداد پچاس سے زیادہ بتاتے ہیں۔(۳۵)
  تابعین کے بعد جو مذاہب ظاہر ہوئے (جیسا کہ بعض علماء کانظریہ ہے) وہ انفرادی نوعیت کے تھے یعنی ان مذاہب کے بانیوں کے پیرکاروں نے ان مذاہب کو قبول نہیں کیا۔ اسی لئے یہ مذاہب اپنے بانیوں کے خاتمے کے ساتھ خود بھی ختم ہوگئے۔ اس دور کےمذاہب کی دوسری قسم ان مکاتب ِفکر سے عبارت ہے جن کے بانیوں اور ان کے پیروکاروں نے جامع فقہی تعلیمات کی تدوین کی اور انہی تعلیمات کے باعث یہ مذاہب وجود پذیر ہوئے۔ (۳۶)
  جو مذاہب ختم ہوگئے ان میں سے کچھ یہ ہیں:
حسن بصری (۲۳۔ ۱۱۰ھ) کا مذہب
ابن ابی لیلی (۷۴- ۱۴۸ھ) کا مذہب
اوزاعی (۸۸- ۱۵۷ھ) کا مذہب
سفیان ثوری (۹۷- ۱۶۱ھ ) کا مذہب
لیث بن سعد (م ۱۷۵ھ) کا مذہب
ابراہیم بن خالد کلبی (م۲۴۰ھ) کا مذہب
ابن حزم داوود بن علی اصفہانی ظاہری(۲۰۲۔۲۷۰ھ)کا مذہب 
محمد بن جریر طبری (۲۲۴- ۳۱۰ھ) کا  مذہب
سلیمان بن مہران اعمش (م۱۴۸ھ) کا مذہب
عامر بن شرحبیل شعبی (م ۱۰۵ھ) کا مذہب
اور اس قسم کے دیگر مذاہب
جو مذاہب تمام ادوار میں بلکہ آج تک زندہ رہے ہیں وہ یہ ہیں: 
مذہب امامیہ اثناعشریہ جس کی تعلیمات کو امام باقر علیہ السلام اور آپ کے فرزند امام صادق علیہ السلام  نے خوب پھیلایا۔ ان دونوں اماموں کا تعلق اہل بیت علیہم السلام  سے تھا۔
مذہبِ زیدی
مذہبِ حنفی
مذہبِ شافعی
مذہبِ مالکی
مذہبِ حنبلی
مذہبِ اباضی
یہاں ہم ان  مذاہب کے ظہور کی تمہیدات نیز ان کے زوال یا پھیلاؤ کے علمی، ذاتی، سیاسی، معاشرتی اور دیگر عوامل سے بحث نہیں کریں گے۔ ان عوامل کو شمار کرنے سے زیادہ اہم یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم درج ذیل نکات پر تبصرہ کریں:
پہلا نکتہ: مذاہب کا ظہور ایک طرف سے اسلامی افکار و نظریات میں تبدیلیوں اور پیشرفت نیز پیغمبر ﷺکی خالی جگہ پر کرنے کی کوششوں اور وحی کے خاتمے کا غماز تھا اور دوسری طرف سے احتیاجات و ضروریات کے دائرے میں وسعت،حوادث و واقعات میں اضافے اور معاشرتی پیچیدگیوں کا تقاضا تھا۔ تیسری جانب سے فقہی علوم و معارف کی کثرت اور قابلِ تصور مسائل کو زیربحث لانا بھی ان مذاہب کےظہور میں سہیم ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی، مفید اور تمدن ساز پیشرفت ہے۔
دوسرا نکتہ: یہ مذاہب اسلامی تمدن کے لئے ایک گرانقدر فکری سرمائے کو وجود میں لاتے ہیں جس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مذاہب کا تعدّد اسلامی حکمران اور مسلمان عوام کو بہتر مذہب کے انتخاب کا موقع فراہم کرتا ہے جو انفرادی (۳۷)
 و اجتماعی زندگی  میں اسلامی شریعت کے نفاذ میں کارساز ثابت ہوگا کیونکہ رائے جو اسلامی اجتہاد سے ہاتھ آتاہے (اور اجتہاد کو سب قبول کرتے ہیں) کو اسلام سے منسوب کرنا درست ہے۔ اس صورت میں اسلامی حکمران کے آگے انتخاب کا ایک وسیع میدان ہوگا اور وہ بہترین رائے کا انتخاب کرکے مطلوبہ فوائد حاصل کرسکےگا اگر چہ وہ اپنے ذاتی اجتہاد کی رو سے اس رائے کا موافق نہ ہو۔ یہاں تک کہ اسلامی حکمران بہترین آراء کو جمع اور ہماہنگ کرکے ایک بہتر نظرئے اور مکتب فکر تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے اسلام کی لچکدارحکمت علمی کےنام سے پکارا جاتا ہے ۔ (۳۸)
تیسرا نکتہ۔ (جیسا کہ ہم عرض کر چکے )یہ مذاہب اسلامی معاشرے کا سرمایہ ہیں۔ ان مذاہب نے اسلامی معاشرے کو وہ حالت فراہم کی جس تک رسائی ایک آرزو تھی لیکن جس چیز نے اس قدرتی اور فطری عمل کو اسلامی تاریخ میں ایک منفی عامل میں تبدیل کردیا اسے ہم تنگ نظری پر مبنی قوم پرستی کہتے ہیں۔اس قوم پرستی کے جذبے نے قرآن ِکریم کے دکھائے ہوئے تفاہم کے راستے سے  امت کو دور کردیا ،برداشت اور در گذر کی روش کو ذہنوں سے محو کردیا اور ایسے جھگڑوں کے گرداب میں پھنسادیا جو بے نتیجہ اور اخلاقی لحاظ سے قبیح تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ امتِ مسلمہ کو(جیسا کہ شیخ قرضاوی  نے کہا ہے (۳۹)) 
وحشت انگیز ادوار اور غیر اسلامی طور طریقوں مثلا تکفیر و غیرہ کا سا منا کرنا پڑا اور وہ دن دیکھنے پڑے جب مسلمان فرقے ایک دوسرے پر فسق اور دین میں بدعت داخل کرنے کا الزام لگارہے تھے ۔
یہ عمل  آخر کار ایک جنگ و ستیز میں تبدیل ہوگیا جس کا دامن بہت وسیع تھا ۔اس کے نتیجے میں خون اور آنسؤوں کی نہریں رواں ہوگئیں، امت کئی حصوں میں بٹ گئی اور اس نے اپنے قابلِ تعریف ثقافتی مقام کو کھودیا ۔ (۴۰)
ان وجوہات کی بنا پر ہم  سنجیدگی کے ساتھ مسلمانوں کی موجودہ مذہبی حالتِ زارکو اس کی قدرتی حالت پرواپس لانے کے درپے ہیں ۔یہ مقصد قلبی محبت اور مشترکہ اہداف واحکام کے میدانوں میں تحقیق و جستجو نیز تعمیری انداز میں اسلامی  تفاہم کے جذبے کی ترویج کے ذریعے حاصل ہوگا ۔اسے ہم اسلامی مذاہب کے در میان اتحاد و یکجہتی کی تحریک کا نام دیں گے۔ 
اسلامی مذاہب کے اتحادکی تحریک
گذشتہ چند دہائیوںمیں اتحاد کی تحریک کے نام سے جو کوشش شروع ہوئی اس کی جڑیں اسلامی تاریخ  کے قدیم ترین ادوار تک پھیلی ہوئی ہیں کیونکہ اس تحریک نے اسلامی شریعت کے بنیادی اصولوں سے اصالت  اور طراوت حاصل کی ہے۔
اسلامی تمدن کی تعمیر و ترقی میں امتِ مسلمہ کے احساس ذمہ داری کا یا کم از کم ان کی فعال شرکت کا دائرہ جس قدر وسیع تر ہوگا اسی قدر ا س کوشش کی ضرورت زیادہ واضح ہوگی ۔
بیسویں صدی عیسوی کی چوتھی دہائی کے اواخر میں عظیم دانشور وں اور شخصیات نے اس با برکت تحریک کی ابتدائی بنیادیں رکھیں ۔انہوں نے اس مشن  کی خصوصیات کو واضح کرنے کے لئے سچ مچ جدّ و جہد کی نیز دلوں میں اسے راسخ کرنے کے لیے بے شمار مقالے لکھے۔ اس سے قبل انہوں نے اتحاد کی تحریک کو پا بر جا کیا نیز اس کی شرعی بنیادوں اور روز افزوں ضرورت کو آشکار کیا ۔آج ہم یقیناً خوش قسمت ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پودا پھلنے پھولنے لگا ہے اور ایک پاکیزہ درخت میں تبدیل ہو چکا ہے جس کی جڑیں مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہ درخت خدا کے حکم سے ہر دم پھل دیتا رہتا ہے ۔
اتحاد کی تحریک کی ہمہ گیر بنیادیں 
 ہمارا ایمان ہے کہ اگر ہم ان بنیادی اصولوں پر نظر کریں جن کا ذکر ہوگا تو نہایت منطقی انداز میں اسلامی اتحاد پر  ایمان و یقین حاصل  ہوگا۔یہ بنیادی اصول وہ ہیں جنہیں بلا استثناء تمام اسلامی مذاہب اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔وہ بنیادیں یہ ہیں:
پہلی بنیاد : اسلام کے عظیم  ایمانی و اعتقادی اصولوں پر ایمان جو ذاتِ الہی اور صفاتِ الہیہ میں توحید کا عقیدہ  رکھنے ،افعال و عبادات کے زاویے سے عقیدۂ توحیدہ  ،پیغمبر خاتمﷺ کی نبوت  پر ایمان ،قرآن اور قرآنی تعلیمات پر ایمان اور قیامت کے دن پر ایمان سے عبارت ہے۔
دوسری بنیاد :اسلام کی تمام  مسلّمہ تعلیمات اور ارکان ِاسلام مثلا نماز ،روزہ ،زکات ،حج و غیرہ کی مکمل پابندی ۔
تیسری بنیاد:اس عقیدے کی مکمل پابندی کہ قرآن کریم اور سنتِ شریفہ مختلف حقائق مثلا کائنات شناسی نیز دنیا  و آخرت میں انسان کی زندگی اور اس کے ماضی ،حال اور مستقبل کی معرفت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کی شناخت کے بنیادی  مآخذ ہیں۔
نیز یہ کہ احکام دین اور شریعت (جو انسان کی انفرادی و اجتماعی کارکردگی اور اس کی زندگی کو منظم کرتی ہیں)کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھنا  ان دو بنیادی مآخذ پر موقوف ہے۔
رہی بات دیگر مآخذ و منابع مثلا عقل ،قیاس اور اجماع و غیرہ کی، تو معلوم ہو کہ یہ امور کسی صورت حجت نہیں ہیں مگر یہ کہ قرآن و سنت  انہیں حجت اور ماخذ و منبع قرار دیں۔
بنابریں  جب یہ ثابت ہو کہ ان مآخذ کی حجیت قرآن و سنت پر مبنی نہیں تو ایک طرف سے یہ ثابت ہوگا کہ ان مآخذ کے ذریعے نقل شدہ نقطۂ نظر یا بات قرآن و  سنت کے بر خلاف ہے اور دوسری طرف سے یقیناً یہ ماخذ خود ناقابل قبول قرار پائیں گے۔مذاہب کے سارے پیشواؤں نے اس حقیقت کا بر ملا اظہار کیا ہے۔ان سب کا موقف صرف یہی رہا ہے کہ ان دو سرچشموں سے سیراب ہوں،دیگر منابع سے نہیں۔
اہل بیت ﷨ سے بہت سی احادیث مروی ہیں جو اس حقیقت پر زور دیتی ہیں۔ان میں سے ایک امام صادق    کی روایت ہے جس میں  آپ نے فرمایا ہے :ہر چیز کی  پرکھ قرآن و سنت کے ذریعے ہوتی ہے۔ (۴۱)
امام مالک بن انس  فرماتے ہیں:بے شک میں تو بس ایک  بشرہوں۔میں کبھی  درست کہتاہوں اور کبھی غلط ۔پس میری باتوں کو قرآن اور سنت کی روشنی میں پرکھو۔ (۴۲)
امام شافعی سے بھی امام انس بن مالک کے اس بیان سے ملتا جلتا قول نقل ہوا ہے۔ (۴۳)
چوتھی بنیاد :اس بات کا اعتقاد کہ اسلام نے اجتہاد کی اجازت دی ہے اور وہ یوں کہ اجتہاد کوشرعی دلائل ومنابع کی روشنی میں شرعی احکام کے استنباط میں پیشرفت کاموجب  قرار دیا ہے تاکہ اجتہاد  اسلام کی شناخت  کا ایک ذریعہ بنے۔
علاوہ ازیں اجتہاد کا عمل اسلامی شریعت کی لچکداری کو ثابت کرنے نیز مخصوص معیاروں اور اصولوں کی بنیاد پر زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو  سمجھنےمیں اسلام کی طاقت کو استوار کرنے میں مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
اس  کا لازمہ یہ ہے کہ اجتہاد کے نتائج اور اسلام کے درمیان ربط ممکن ہے (یعنی اجتہاد کے نتائج کو شرعی حیثیت حاصل ہے۔مترجم)اگر چہ ان دونوں کے درمیان نا ہماہنگی اور تضاد پایا جائے(یعنی فتوی حکمِ واقعی کے مطابق نہ ہو ۔مترجم)اس کی وجہ اندازِ فکر، نقطہ ہائے نظر اور یقین کے زاویوں کا اختلاف ہے۔  (۴۴)
ہمارا عقیدہ  ہے کہ چونکہ اسلام ایک حقیقت پسند اور فطری دین ہے اس لئے اس نے اجتہاد کی اجازت دی ہےکیونکہ اجتہاد جوصدیوں پر محیط ہےکے بغیر اس دین کی شناخت کا کوئی اور راستہ موجود نہیں اوروہ بھی ایسا دین جس میں وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور اس کا معصوم  نبی رحلت فرماچکا ہے اگر چہ  گاہے اجتہاد کا یہ راستہ خودمحوری کا شکار ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے متصادم آراء  کا موجب بنتاہے جو اسلام کے اس حقیقی  حکم یا مطلوب کے ساتھ ہماہنگ نہیں ہوتا جو اللہ تعالی کے خزانۂ علم میں پوشیدہ ہے۔
علاوہ ازیں اجتہاد کا منطقی اسلوب عقائد اور مفاہیم (۴۵)
جیسے جملہ امور کے استنباط کو محیط ہےبلکہ بعض طبیعی اور تکوینی قوانین کے معاملے میں بھی اسلام کے موقف کو شامل ہے ۔
پانچویں بنیاد : اسلامی اتحاد کا اصول امت ِمسلمہ کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت کا آئینہ دار ہے جس کے بغیر امت ِمسلمہ اپنے تشخص کے  حصول اور کمال کا دعوی نہیں کر سکتا ۔اسلام نے اس اتحاد کو عملی شکل دینے کے لئے ایک  مترقی  لائحۂ عمل مدون کیا ہےاور اللہ کی مضبوط رسی (حبل اللہ المتین)سے تمسک پر اس بنیاد رکھی ہے ۔اسلام نے اس لائحۂ عمل کے اندر تخلیق اور سر چشمۂ خلقت کی یگانگت ،ہدف کی یگانگت نیز شریعت اور راہ ِعمل کی یگانگت پر زور دیا ہے۔اسلام اس لائحۂ عمل کی روشنی میں سب کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ کی مکمل اطاعت کے دائرے میں داخل ہوجائیں اور شیطان کی پیروی نہ کریں۔اسلام اس لائحۂ عمل میں اتحاد کے ثمرات کی نشاندہی کرتا ہےنیز دلوں کے اندر اخلاقِ کریمہ  سے محبت اور اجتماعی  مفادات کی خاطر محدود ذاتی مفادات کو قربان کرنے کے ممدوح جذبے کا بیج بوتا ہے ۔
یہ لائحۂ عمل اختلاف و افتراق کو جنم دینے والے تمام معیاروں مثلا زبان ،نسل ،وطن،قبیلے اور رنگ و نسب پر مبنی امتیازات کا خاتمہ کرتا ہے۔اس کے بر عکس اسلامی معیاروں مثلا علم و دانش ،پرہیزگاری اور جہاد و غیرہ پر زور دیتا ہے ،نیز مشترکہ نقاط پر توجہ کو ضروری قرار دیتا ہے اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس منطقی اور درست روش کو اپنائیں جو برادرانہ تعلقات ،تفاہم اور حقائق پرمبنی موضوعی تبادلۂ نظر سے عبارت ہے۔اتحاد کے خواب کو جامۂ عمل پہنانے کے لئے اسلام نے جو لائحہ عمل دیا ہے اس کے کچھ اور عناصر بھی ہیں جن کے ذکر سے  ہم یہاں چشم پوشی کریں گے کیونکہ وہ سب کےہاں آشکار اور عیاں ہیں نیز ان کا ذکر طوالت ِکلام  کا موجب ہے۔
اسلام کے اس حکیمانہ اصول پر ایمان کے کچھ تقاضے ہیں جن کی طرف ہم (انشااللہ )بعد میں اشارہ کریں گے لیکن یہاں ہم اتنا عرض کریں گے کہ اسلامی اتحاد کا اصول امت کو باہم قریب کرنے کی تحریک کی ایک بنیاد ہے۔
چھٹی بنیاد :یہ اسلامی اخوت کے اصو ل سے عبارت ہے جو اتحادِ امت کے بارے میں اسلام  کے لائحۂ عمل کا حصہ ہے۔قبل ازیں اس کا تذکرہ ہو چکا ہے لیکن  چونکہ یہ موضوع اہمیت کا حامل ہے اس لئے ہم نے ترجیح دی کہ اس پر مزید زور دیں کیونکہ اسلامی اخوت اسلام کے جملہ اجتماعی روابط کو منظم کرتی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کے آثار صرف اخلاقی پہلؤوں کو ہی نہیں بلکہ ان سے گزر کر تشریعی جوانب کو بھی شامل ہیں نیز یہ اجتہاد کے عمل پر بھی  اثرانداز ہوتے ہیں تا کہ اس میدان میں ہم ایسے احکام کا مشا ہدہ نہ کریں جو اس اصول (اخوت )سے متصادم ہوں۔
اسی لئے ہمارا  ایمان ہے کہ اسلامی اتحاد اور اخوت کی جد و جہد صرف اخلاقیات ،نعروں اور تشریعی جہات پرہی  اکتفا نہیں کرتی بلکہ ان دائروں سے گزر کر مختلف فکری اور ثقافتی جوانب کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔
مناسب ہے کہ اس جد و جہد میں تمام برگزیدہ دانشور شرکت کریں جن میں فقہا و مجتہدین سے لے کر ارباب ِفکر و نظر اور صاحبانِ رائے سب شامل ہوں بلکہ شاید زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ اتحادِ امت کی یہ تحریک بر گزیدہ شخصیات کے علاوہ عوام تک بھی جا پہنچے  اور لوگوں کے اندر اتحاد و یکجہتی کی ثقافت کو فروغ دے۔
اسلام اگر چہ فطری ،قدرتی اور غیرنقصان دہ فکری اختلاف کی اجازت دیتا ہے لیکن اس بات کی ہرگز  اجازات نہیں دیتا  کہ کوئی مسلمان تقدیر ساز اندرونی و بیرونی مسائل سے مربوط عملی پالیسیوں کے بارے میں گڑبڑ اور اختلاف کرے۔اسی لئے اگر کوئی شخص حاکمِ شرع کی نافرمانی کرے تو یہ خدا کی نافرمانی محسوب ہوتی ہے (کیونکہ حاکم ِشرع اس بات کا ذمہ دار ہے کہ  وہ  امّت کے عملی موقف کو ہماہنگ اور منظم کرے )خاص کر اس حقیقت کے پیش نظر  کہ حاکم یا اولی الامر کی اطاعت  خدا اور رسولﷺ کی اطاعت کی طرح ضروری ہے۔
------

29.    ۔ انفال/ ۷۳۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم لوگ اس (فرمان پر) عمل نہ کروگے تو زمین میں فتنہ برپا ہو گا اور عظیم خرابی پیدا ہوگی۔ 
30.    ۔ ملاحظہ ہو سید محمد باقر الصدر کی الفتاویٰ الواضحۃ/ ۵
31.    ۔ انفال/ ۴۶ ۔ آپس میں مت جھگڑو و گرنہ تم بے چارے ہوجاؤگے اور تمہاری عزت چلی جائےگی۔
32.    ۔ حدیث معاذ میں مذکور ہے کہ رسول خدا ﷺ نے معاذ کو یمن بھیجتے وقت ان سے پوچھا: اگر اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول میں تمہیں کوئی حکم نہ ملے تو تم کس چیز کی بنیاد پر قضاوت کروگے؟ معاذ نے کہا: میں پس و پیش نہیں کروں گا اور اپنی رائے کے مطابق اجتہاد کروں گا۔ دیکھئے اصول مظفر، ۳/ ۱۶۶
33.    ۔ توبہ/ ۱۲۲۔ یہ تو مناسب نہیں کہ سارے مومنین (جہاد کے لئے) کوچ کریں۔ پس کیوں نہ ان کے ہرگروہ سے ایک جماعت کوچ کرےتا کہ (ایک جماعت باقی رہے اور) دین کا فہم حاصل کریں اور جب ان کی قوم ان کے پاس واپس آجائے تو وہ انہیں ڈرائیں تا کہ وہ (عذاب الہی سے ) ڈریں۔
34.    ۔ تاریخ الفقہ الاسلامی، ۸۶
35.    ۔ الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ،۱/۱۶۰
36.    ۔ طبقات الفقہاء/ ۵۷، حصہ دوم ، مقدمہ
37.    ۔ خاص کر اگر اعلم کی تقلید ضروری نہ ہو۔
38.    ۔ہم نے ان فقہی مباحث کو اعلی سطح کی فقہی   کتابوں میں پیش کیا ہے اور انہیں قبل ازیں شایع کیا  ہے۔لہذا یہاں  ان کے تفصیل میں جانے کی ضرورت  نہیں۔اس بارے  میں  دیکھئے  آیت اللہ تسخیری کی تقریرات (تحقیقی نوٹس )جو ’’مجمع فقہ اسلامی ‘‘کی تحقیقات پر رقم کی گئی  ہیں ۔اب تک ان کی  چار جلدیں بن گئی ہیں۔ 
39.    ۔ رسا لہ مجمع التقریب /ص 210، شمارہ36۔
40.    ۔ دیکھئے انصاری کی فقہ الطوائف ،  ص۵۵ اور اس سے آگے۔
41.    ۔ وسائل الشیعہ،ج۱۸،ص۷۹  ۔نیزاسی  طرح کی دیگر احادیث بھی مروی ہیں۔
42.    ۔دیکھئے: آلوسی کی جلاء العینین ،بحوالۂ ابن تیمیہ ،ص۱۰۷۔
43.    ۔ایضاً
44.    ۔ یہ وہی موضوع ہے جو اسلامی علوم میں "اسباب اختلاف "کے عنوان سے پڑھا یا جاتا ہے۔
45.    ۔مفاہیم  وہ تصورات ہیں جو ایک طرف سے عقائد کی بنیاد پر استوار ہیں اور دوسری طرف سے حقیقت کے  ساتھ براہِ راست  مربوط  ہیں ۔بطورِ مثال  انسان کا زمین میں خدا  کا جانشین اور خلیفہ ہونا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک