مکتب تشیع کا نجات دہندہ
-
- شائع
-
- مؤلف:
- فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
- ذرائع:
- کتاب: مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
"مکتب تشیع کا نجات دہندہ "
باوجودیکہ حضرت علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی کے دوران علم کو پھیلانے کی غرض سے کافی کوششیں کیں لیکن لوگ علم کے حصول کی طرف زیادہ راغب نہیں ہوئے جس کی ایک وجہ خشک طرز تعلیم بھی تھی اس ضمن میں دیکھیں گے کہ مسلمان حصول علم کی طرف اس وقت تک راغب نہیں ہوئے جب تک امام صادق نے طرز تعلیم نہ بدلا ۔
محمد باقر مدینہ کی اسی مسجد میں درس دیتے تھے جسے محمد اور ان کے صحابہ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں بنایا تھا اور خلفائے اسلامی کے دور میں اس میں توسیع کی گئی جو کچھ امام محمد باقر کے ہاں پڑھایا جاتا تھا وہ تاریخ کے کچھ حصے علم نحو اور علم رجال یعنی بائیو گرافی کے کچھ حصے اور خصوصا ادب یعنی شعر (جس میں نثر شامل نہ ہوتی تھی ) پر مشتمل ہوتا تھا عربوں کے ادب میں امام جعفر صادق کے زمانے تک نثر کا وجود نہیں تھا ۔ ما سوائے اس کے کہ علی ابن ابی طالب نے اپنی زندگی میں جو کچھ لکھا ۔
جو طلباء امام محمد باقر کے درس میں حاضر ہوتے تھے ان کے پاس کتابیں نہیں ہوتی تھیں اور امام محمد باقر بھی بغیر کتاب کے پڑھاتے تھے ۔
اس مدرسے کے جو طلباء ذہین ہوتے تھے جو کچھ امام باقرء کہتے یاد کر لیتے اور جو ذہین نہیں ہوتے تھے وہ استاد کے درس کو مختصرا تختی پر لکھ لیتے اور پھر گھر جا کر بڑی محنت سے کاغذ پر منتقل کر لیتے وہ تختی اس لئے استعمال کرتے تھے کہ کاغذ ان دنوں بہت مہنگا ہوتا تھا اور
وہ اس قدر کاغذ استعمال نہیں کر سکتے تھے جبکہ تختی پر لکھا ہوا مٹ سکتا تھا اس طرح تختی مکرر استعمال میں لائی جاتی تھی ۔
شاید آج کتاب کے بغیر تعلیم ہمیں عجیب لگے لیکن پہلے زمانے میں مشرق و مغرب میں استاد کتاب کے بغیر تعلیم دیتے تھے اور ان کے شاگرد استاد کے درس کو یاد کر لیتے اور اگر اپنے حافظے پر اعتماد نہ ہوتا تو گھر جا کر لکھ لیتے تھے ۔
آج بھی ایسے استاد موجود ہیں جو کتاب کے بغیر پڑھاتے ہیں جو علوم محمد باقر مسجد مدینہ میں پڑھاتے تھے وسیع نہیں ہوتے تھے صرف ادب وسیع ہوتا تھا ۔ تاریخ کی تعلیم بھی اتنی ہی تھی جتنی قرآن اور تورات میں مذکور ہے اور چونکہ ابھی یونانی کتابوں کا سر یانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا اس لئے یورپ کی تاریخ بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی ۔
جعفر صادق ایک ذ ہین طالب علم تھے اس لئے آسانی سے والد گرامی کے درس کو یاد کر لیتے تھے ۔
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ محمد باقر اس لئے باقر کہلائے کہ انہوں نے علم کی کھیتی کو چیرا ۔ کیونکہ باقر کے مجازی معنی چیرنے والے اور کھولنے والے کے ہیں ۔
جہاں تک ہمارا خیال ہے یہ لقب یا صفت باقر کو اس وقت ملی جب آپ نے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم جغرافیہ اور دیگر یورپی علوم کا اضافہ کیا اس وقت جعفر صادق کی عمر انداز پندرہ یا بیس سال تھی ۔
بعض کا خیال ہے کہ علم جغرافیہ سریانی کتابوں سے عرب میں آیا اور جب عرب مصر گئے تو بطلیموس کے جغرافیہ سے واقف ہوئے اور جغرافیہ کی تعلیم کا آغاز جعفر صادق کے در س سے ہوا ۔
بطلیموس نے جغرافیہ کے علاوہ ہیت کے بارے میں بھی بحث کی ہے چونکہ جعفر صادق ستارہ شناسی (علم نجوم ) میں بھی ماہر تھے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ علم نجوم کو اپنے باپ سے بطلیموس کی کتاب سے پڑھا ہو گا ۔
لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ عرب بطلیموس کے جغرافیہ و ہیئت کے جاننے سے پہلے بھی ستاروں کو پہچانتے تھے اور ان کیلئے انہوں نے مخصوص نام بھی گھڑے ہوئے تھے اس بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں کہ یہ نام کس موقع پر گھڑے گئے تھے ؟ اور ان کا گھڑنے والا کون تھا ؟لیکن اس میں کوئی تردد نہیں ہے کہ جب کوئی عرب بدو مصر گیا ہو گا ۔ تو قبطیوں سے ملا ہو گا ۔ اور ان کی مدد سے اس نے بطلیموس کی کتاب تک رسائی حاصل کی ہو گی اور وہاں سے اس نے ستاروں کی شناخت کرنے کے بعد ان کے نام بھی رکھے ہوں گے ۔ لہذا بطلیموس کی کتاب نے صرف علم نجوم (جو امام جعرفر صادق اپنے والد سے پڑھتے تھے ) کو سیکھنے میں مدد کی ہو گی نہ یہ کہ انہیں علم نجوم سکھایا ہو گا محمد باقر نے جغرافیہ اور تمام مصری علوم کا مدرسہ کے دوسرے علوم پر اضافہ کیا ۔ اور اس بارے میں ہمارے پاس کوئی تاریخی سند نہیں کہ انہوں نے تمام مغربی علوم کو دوسری علوم کے ساتھ پڑھایا لیکن ہم دو قرینوں کی بناء پر یہ بات کہتے ہیں ۔
پہلا یہ کہ امام محمد باقر نے ضرور علم جغرافیہ اور ہیئت کی تدریس کا مدرسے میں آغاز کیا ہو گا ورنہ ہر گز شیعہ انہیں باقر کا لقب نہ دیتے اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ انہوں نے دوسرے مغربی علوم کو بھی مدرسہ میں داخل کیا ہو گا جبھی تو وہ باقر کہلائے ۔
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے تدریس شرو ع کی تو جغرافیہ اور ہیت فلسفہ اور فکز بھی پڑھاتے تھے جبکہ یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ جس وقت جعفر صادق نے پڑھانا شروع کیا تو اس وقت تک مغربی (یونانی ) فلسفہ و فکز ابھی تک سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوئے تھے اور مترجمین نے صرف ترجمہ کرنے کا آغاز ہی کیا تھا اور بعض فلسفی اصطلاحات کو بھی سمجھ نہیں پائے تھے اس بناء پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جعفر صادق نے مغربی علوم کو اپنے پدر بزرگوار سے سیکھا اور جب ان علوم میں ملکہ حاصل کیا تو ان میں اضافہ بھی کیا اور جب تک امام جعفر صادق اپنے پدر گرامی سے ان علوم کو جن کا ابھی سریانی سے عربی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا ‘ نہ سیکھتے تو نہیں پڑھا سکتے تھے ۔
شیعہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق کا علم لدنی تھا ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہرایک کا باطنی شعور اس کے ظاہری شعور کے برعکس تمام انسانی ا ور دنیوی علوم کا خزانہ ہے اور آج کے علوم بھی اس نظریہ کو مثبت قرار دیتے ہیں کیونکہ آہستہ آہستہ بیالوجی کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے بدن کے خلیوں کا ہر مجموعہ تمام ان معلومات کو جو اسے تخلیق کے آغاز سے آج تک جاننا چاہیے وہ جانتا ہے شیعوں کے عقیدہ کے مطابق جب ایک انسان پیغمبر یا امام بنا کر بھیجا جاتا ہے تو اس کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان کے تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور امام یا پیغمبر باطنی شعور کی معلومات کی بناء پر تمام انسانی اور غیر انسانی معلومات سے استفادہ کرتا ہے ۔
شیعہ ‘ محمد بن عبداللہ (ص) کے رسول مبعوث ہونے کی بھی اسی طرح وضاحت کرتے ہیں کہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور ان کے پاس علم نہ تھا اور غار حرا میں مبعوث ہونے کی رات کو ‘ جب جبرائیل ان پر نازل ہوئے تو کہا " پڑھو " پیغمبر نے جواب دیا میں نہیں پڑھ سکتا ۔
جبرائیل نے دوبارہ زور دے کر کہا پڑھو اور فورا وہ پردے جو ان کے ظاہری اور باطنی شعور کے درمیان حائل تھے اٹھ گئے اور فقط ایک لمحے میں نہ یہ کہ محمد بن عبداللہ خواندہ ہو گئے بلکہ تمام انسانی علوم سے واقف ہو گئے اور شیعہ باطنی شعور کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر کوئی ایک عام باطنی اور ایک بیکران باطنی شعور کا مالک ہے اور عام افراد سوتے میں عام باطنی شعور سے وابستہ ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ خواب میں دیکھتے ہیں وہ انکے اور ان کے عام باطنی شعور کے رابطہ کی نسبت ہوتا ہے اور کبھی عام افراد کا جاگنے کی حالت میں اپنے عام باطنی شعور سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتے ہیں وہ عام باطنی شعور کی وجہ سے دیکھتے ہیں لیکن صرف امام کا بیکراں باطنی شعور جس میں تمام انسانی اور عالمی علوم پوشیدہ ہیں سے رابطہ قائم ہوتا ہے اور بعثت کی رات کو صرف ایک لمحے میں اپنے بیکراں باطنی شعور سے مربوط ہو گئے تھے اور اس عقیدہ کی بنیاد پر علوم جعفر صادق کو علم لدنی مانا جاتا ہے ۔
یعنی وہ علم جو ان کے باطنی شعور بیکراں کے خزانے میں موجود تھا شیعوں کا یہ مذہبی عقیدہ اپنی جگہ قابل احترام ہے لیکن ایک غیر جانبدار مورخ اس عقیدہ پر ایمان نہیں لاتا وہ تاریخی سند مانگتا ہے یا کہا جا سکتا ہے کہ وہ مادی سند تلاش کرتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کس طرح جعفر صادق جو درس دینے تک عرب سے باہر نہیں گئے تھے (اگرچہ نصف عمر کے بعد کئی مرتبہ باہر دور دراز کے سفر پر گئے ) کس طرح انہوں نے فلسفہ اور مغربی فزکس پڑھائی جبکہ اس وقت تک کسی بھی مشہور عرب استاد نے ان علوم کو نہیں پڑھایا تھا پس ہم انداز یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح علم ہیئت و جغرافیہ قبطیوں کے ذریعہ عربوں تک پہنچا اور محمد باقر کے حلقئہ درس میں پڑھایا گیا اسی طرح فلسفہ اورمغربی فزکس بھی محمد باقر کے حلقہ درس میں شامل ہوئی ا ور بعد میں انہوں نے اپنی ذاتی تحقیق کی بنا پر اس میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔ ۸۶ ھ میں امام جعفر کی عمر صرف تین سال تھی جب عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ نے دنیا کو وداع کہا اور اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک خلیفہ بنا اس نئے خلیفہ نے اپنے پہلے حکم میں ہشام بن اسماعیل حاکم مدینہ کو معزول کیا اور اس کی جگہ عمر بن عبدالعزیز کو حاکم مدینہ مقرر کیا جو اس وقت چوبیس سالہ خوبصورت نوجوان تھے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اموی خلفاء جن کی کرسی خلافت و مشق میں تھی پہلے شامی بادشاہوں کی تقلید کرتے تھے اور انہی کی طرح شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے اور مصر کا حاکم جو اموی خلیفہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا ۔ دارالحکومت میں ایک دربار سجاتا اور شان و شوکت سے زندگی گزارتا تھا ۔
ہشام بن اسماعیل (سابق حاکم مدینہ ) اموی خلیفہ کی مانند دمشق میں زندگی گزارتا تھا مگر جب عمر بن عبدالعزیز مدینہ میں آئے تو نہایت انکساری سے مسجد امام محمد باقر کا دیدار کرنے گیاا ور کہا مجھے معلوم تھا کہ آپ درس میں مشغول ہیں اور بہتر یہی ہوتا کہ جب آپ درس سے فراغت پاتے تو میں حاضر خدمت ہوتا مگر شوق زیارت کے باعث صبر نہ کر سکا ۔ بندہ جب تک اس شہر میں مقیم ہے آپ کی خدمت کیلئے حاضر ہے ۔
یہاں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ علی ابن ابی طالب کی اولاد اموی خلفاء کے زمانے میں مدینے سے باہر کہیں بھی نہیں رہ سکتی تھی اور اگر یہ لوگ کسی اور جگہ زندگی بسر کرنا چاہتے تو نہ صرف یہ کہ اموی حاکم کی سختی کا نشانہ بنتے بلکہ ان کی زندگی بھی خطرے میں ہوتی تھی ۔
امام زین العابدین اسی لئے مدینے میں پڑھاتے تھے کہ کسی دوسرے شہر میں درس کیلئے نہیں جا سکتے تھے چونکہ شہر مدینہ ‘ مدینتہ النبی کے نام سے مشہور تھا اور ان کا گھر بھی وہیں تھا لوگ ان کا احترام کرتے تھے اموی خلفاء میں اتنی جرات نہیں تھی کہ انہیں وہاں تکلیف پہنچائیں یا ان کے درس میں رکاوٹ ڈالیں یہ اس لئے عرض کیا ہے کہ اس بات پر حیرانگی نہ ہو کہ یہ حضرات اموی حاکم ہشام بن اسماعیل کی موجودگی میں کس طرح مدینے میں پڑھا سکتے تھے ۔ ۸۸ ھ میں ولید بن عبدالملک نے خلافت کے تیسرے سال مسجد مدینہ کی توسیع کا ارادہ کیا پیغمبر اسلام ا ور ان کے صحابہ کی طرف سے اس مسجد کو بنانے کی تاریخ مشہور ہے اور یہاں بلڈنگ کی تشریح کا تذکرہ ضروری نہیں ۔
اس مسجد کو اس سے پہلے بھی ایک بار وسعت دی گئی تھی اور پیغمبر اسلام کی تمام ازواج جن کے گھر اسی میں تھے بھی سلامت رکھے گئے ۔ مگر بعض بیبیوں نے آنحضرت کی وفات کے بعد خلفائے اربعہ کی معقول امداد سے حجروں سے باہر گھر لے لئے تھے اور ان حجروں کو خیر باد کہہ کر دوسرے مکانوں میں رہائش پزیر تھیں ۔
ھ میں پیغمبر اسلام کی آخری زوجہ جو مسجد کے احاطے میں قیام پذیر تھیں یا تو وہاں سے چلی گئی تھیں یا اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں کیونکہ مسجد کی توسیع میں اور کوئی رکاوٹ نہ تھی اس لئے اموی خلیفہ نے حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ پیغمبر کی تمام ازواج کے گھروں کو مسمار کرکے مسجد کو چالیس ہزار مربع گز تک وسعت دی جائے ۔ طویل دو سو گز اور عرض بھی دو سو گز ہو اس ضمن میں ارد گرد کے مکانات بھی خرید لئے جائیں ۔
عمر بن عبدالعیز نے ایرانی معمار کو جو مسجد کی توسیع کا ناظم تھا کہا کہ میں محمد باقر کا جو مسجد میں درس دیتے ہیں بیحد احترام کرتا ہوں اور تمہارے مزدور اس طرح کام کریں کہ ان کے درس میں خلل واقع نہ ہو جب مسجد مدینہ کی نئے سرے سے بنیادیں رکھی جا رہی تھیں ۔ امام جعفر صادق جو پانچ برس کے تھے اور اگر ان کی تاریخ پیدائش کو ۸۰ ھ مان لیا جائے تو اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی انہوں نے اپنے والد گرامی سے کہا میں اس مسجد کی تعمیر میں شرکت کرنا چاہتا ہوں والد گرامی نے فرمایا تو ابھی چھوٹا ہے تعمیراتی کام میں حصہ نہیں لے سکتا جعفر صادق نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے اپنے جد بزرگوار پیغمبر کی طرح اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لوں ۔
پس امام محمد باقر بھی راضی ہو گئے کہ ان کا بیٹا مسجد کے کام میں حصہ لے ۔ بعض کہتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر میں جعفر صادق کی شرکت یوں تھی جیسے عموما بچے تعمیر مکان کے دوران میں مٹی گارے سے کھیلنے کا شوق رکھتے ہیں لیکن امام جعفر صادق کا مسجد مدینہ کی تعمیر میں حصہ لینا کھیل کود سے قطعی مختلف تھا اور وہ کمزور ناتواں ہونے کے باوجود تعمیر میں مزدوروں کا ہاتھ بٹا رہے تھے اور دیکھا گیا کہ جب لڑکے آ کر ان سے مسقی روڈ پر کھیلنے کو کہتے تو وہ انکار کر دیتے اور کہتے کہ میرا دل چاہتا ہے میں مسجد میں کام کروں البتہ درس پڑھنے اور مسجد میں کرنے کے علاوہ امام جعفر صادق مسقی روڈ پر اپنے ہم عمر لڑکوں سے کھیلتے تھے ۔
لڑکوں کے کھیل دنیا میں تقریبا ایک ہی جیسے ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں لڑکوں کیلئے کوئی مخصوص کھیل ہو ۔ لیکن مدینہ میں لڑکوں کیلئے دو مخصوص کھیل تھے جو دوسرے ممالک میں نا پید تھے اور اگر وہ کسی اسلامی شہر میں کھیلے جاتے ہوں گے تو وہ مدینہ ہی سے لئے گئے ہوں گے ۔
پہلا کھیل جس میں سیکھنے سکھانے کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی اس طرح تھا کہ جعفر صادق بیٹھتے تھے اور استاد بن جاتے تھے اور دیگر لڑکے ان کے شاگرد پھر آپ کہتے تھے وہ کون سال پھل ہے جو زمین پر یا درخت پر اگتا ہے اور اسکا رنگ مثال کے طور پر سرخ ہوتا ہے اور اس کا ذائقہ میٹھا یا ترش ہوتا ہے اور اس میوہ کے پکنے کے وقت یہ موسم (یا کوئی دوسرا موسم )ہوتا ہے ۔
یہ مضامین جو ہم یہاں پر تحریر کر رہے ہیں مدینہ کے بچوں کی مقامی زبان اور اصطلاحات کی صورت میں زبان پر لائے جاتے تھے اور وہ بچے جو امام صادق کے شاگرد ہوتے آپ انہیں سوچنے اور فکر کرنے کی طرف مائل کرتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ایسا ہوتا جو اس پھل کا نام بتا دیتا تو وہ شاگردی سے استادی کی جگہ حاصل کر لیتا اور امام جعفر صادق کی جگہ بیٹھ جاتا ۔ اور اس دوران میں جعفر صادق شاگردوں میں بیٹھ جاتے ۔
لیکن دو تین منٹ بعد شاگردوں کے گروہ سے خارج ہو جاتے اور پھراستاد بن جاتے تھے چونکہ ذہین تھے جو نہی استاد پھل کے کوائف بیان کرتا جعفر صادق پھل کا نام بتا دیتے ۔
جعفر صادق کا شمار مدینہ کے اشراف میں ہوتا تھا اور اخلاقی مکتب میں ان کے استاد ان کے دادا امام زین العابدین اور باپ امام محمد باقر اور ماں ( ام فروہ ) تھیں لیکن مسقی روڈ پر رہنے والے سارے لڑکے اشراف خاندانوں کے نہیں تھے ان کا باپ محمد باقر جیسا تھا نہ ماں ام فروہ جیسی اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دو کنبوں کے درمیان اخلاقی ماحول کا فرق اگرچہ ہمسائے ہی کیوں نہ ہوں بچوں کے اخلاق پر زبردست اثر ڈالتا ہے ۔
جعفر صادق کو سچ بولنا وراثت میں بھی ملا تھا اور ان کی تربیت بھی ایسی ہوئی تھی کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے اگرچہ ان کے فائدے میں ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن ان کے ہمراہ کھیلنے والے بعض لڑکے جعفر صادق کی طرح تربیت یافتہ نہیں تھے اور اخلاقی تزکیہ میں بھی ان کی مانند نہیں تھے وہ جھوٹ بولتے تھے اور جب استاد بن جاتے تو پھل کے اوصاف بیان کرتے اور جعفر اس پھل کا نام لیتے اور استاد اس غرض سے کہ اس کا مرتبہ ہاتھ سے نہ جائے جھوٹ بولتا تھا اور کہتا تھا یہ پھل نہیں ہے اور دوسرا پھل ہے اور جعفر صادق جب یہ جان لیتے کہ وہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے بہت غمگین ہو جاتے ا ور چونکہ جھگڑا کرنا ان کا شیوہ نہیں تھا کبھی کبھار یہ سوچ کر کہ ان کا حق جھوٹ بول کر پامال کیا جا رہا ہے ‘ رونے لگتے اور کھیل چھوڑ کر دور ہٹ جاتے اور لڑکے بظاہر ننھے جعفر کی طرف توجہ کئے بغیر کھیل جاری رکھتے لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ ان کے کھیل میں مزہ نہیں ہے کیونکہ ان میں کوئی بھی جعفر کی مانند ذہین نہیں تھا کہ کھیل جوش و خروش سے جاری رہتا اور اس طرح وہ جعفر کے پاس جانے پر مجبور ہو جاتے ۔
اور ان سے معافی چاہنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ کھیل میں شریک ہونے کی درخواست کرتے تاکہ کھیل میں دلچسپی پیدا ہو اور جعفر کہتے کہ وہ اس شرط پر کھیلنے کو تیار ہیں کہ کوئی بھی جھوٹ نہ بولے ‘ لڑکے اس بات کو مان لیتے ۔
دوسر ا کھیل جو مدینے کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی ا ور عرب شہر میں رائج ہو تو بھی مدینے سے وہاں گیا ہے ا س کی ترتیب اس طرح تھی کہ ایک استاد اور چند شاگرد چن لئے جاتے تھے ا ور استاد کوئی کلمہ زبان پر لاتا تھا مثلا وہ کہتا تھا "الشراعیہ " جس کے معنی لمبی گردن والی اونٹنی کے ہیں ۔ شاگرد بھی کلمہ الشراعیہ کو زبان پر لاتا تھا اور اس کے بعد شاگرد اسی کلمہ الشراعیہ کی بغیر رکے ہوئے تکرار کرتا اور استاد اس شاگرد کو غلط فہمی کا شکار کرنے کیلئے مسلسل اسی الشراعیہ کے وزن پر کلمات ادا کرتا مثلا کہتا الدراعیہ ‘ الزراعیہ ‘ العلفاثیہ ‘ الکفاقیہ وغیرہ اس میں ضروری نہیں کہ سارے کلمات با معنی ہوں مہمل الفاظ بھی استعمال ہوتے تھے یہاں شاگرد مجبورا رکے اور غلطی کئے بغیر الشراعیہ کی تکرار کرتا تھا اور اگر ایک بار اس سے غلط ہو جاتی اور کوئی دوسرا کلمہ زبان پر لاتا تو کھیل سے خارج ہو جاتا اور استاد دوسرے شاگردوں کے ساتھ کھیل کا آغاز کرتا ۔
لیکن اب استاد دوسرا کلمہ منتخب کرتا اور پھر اسی ترتیب سے با معنی یا بے معنی الفاظ کی تکرار کرتا تاکہ شاگرد کو غلط فہمی کا شکار کرے ۔ امام جعفر صادق ان دو مخصوص مدنی کھیلوں جن میں بیٹھنا اور بولنا ضروری ہوتا تھا کہ علاوہ تمام ایسے کھیلوں میں بھی جن میں دوڑنا ضروری تھا ‘ شرکت کرتے تھے ۔
۹۰ ھ میں چیچک جیسی متعدی بیماری کی وباء مدینے میں پھوٹ پڑیا ور کچھ بچے اس میں مبتلا ہو گئے ۔
جعفر اس وقت سات سال یا دس سال کے تھے (یعنی اگر ان کی تاریخ ولادت ۸۰ ہجری یا ۸۳ ہجری مان لی جائے ) اور دس یا سات سال کے بچے بڑے لڑکوں سے مقابلتا کم اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں ام فروہ اپنے سارے بچوں (جعفر سمیت ) کو لیکر مدینے سے چلی گئیں ۔ تاکہ اس متعدی بیماری سے ان کے بیٹے بچ سکیں ۔ اور چونکہ ابھی ان کے کسی بیٹے کو یہ بیماری لا حق نہیں ہوئی تھی اسلئے اب چیچک والے شہر سے دور جانا ضروری تھا تاکہ ان کے بچے اس میں مبتلا نہ ہوں اور وہاں جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو ۔
ام فروہ اپنے بیٹوں کے ہمراہ مدینہ کے ایک تفریحی مقام طنفسہ چلی گئیں ‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ۔بعض دیہاتوں کے نام ان چیزوں یا پیدوار کے نام پر رکھے ہوتے ہیں جو ان دیہاتوں میں پیدا ہوتی ہے اسی طرح طنفسہ میں بھی ایک پودے کے پتوں سے ایک نہایت عمدہ قسم کی بوریا بنائی جاتی تھی جسے طنفسہ کہا جاتا تھا اور اسی وجہ سے اس گاؤں کا نام طنفسہ پڑ گیا اب بھی اس گاؤں کی جگہ موجود ہے لیکن پہلی اور دوسری صدی ہجری کی مانند آباد نہیں ہے ۔
مدینہ ایک صحرا میں واقع ہے لیکن اس کے اطراف میں صحت افزا مقامات ہیں اور مدینہ کے بڑے لوگ گرمیوں میں وہاں جاتے ہیں ام فروہ جب طنفسہ میں رہ رہی تھیں ۔ تو انہیں اطمینان تھا کہ ان بیٹے اب چیچک میں مبتلا نہیں ہوں گے ۔ لیکن وہ اس سے غافل تھیں کہ چیچک کی خطر ناک بیماری ان پر حملہ آور ہو چکی ہے جب وہ بیمار ہوئیں تو چیچک کے تمام مریضوں کی طرح انہیں بھی علم نہ تھا کہ وہ اس میں مبتلا ہو گئیں ہیں حتی کہ وہ اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئی ہیں حتی کہ چیچک کا پہلا نشان ان کے جسم پر ظاہر ہوا اور چونکہ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں جب علم ہوا کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو گئی ہیں تو انہوں نے اپنی فکر کی بجائے بچوں کی فکر کی اور کہا کہ جلد میری بچوں کو طنفسہ سے دور لے جائیں اور ایسی جگہ لے جائیں جہاں چیچک کی بیماری نہ ہو اس طرح جعفر صادق اور دوسرے سارے بیٹوں کو طنفسہ سے دور ایک دوسرے گاؤں لے جایا گیا مدینہ میں جب محمد باقر کو اطلاع ملی کہ ان کی وجہ چیچک میں مبتلا ہو گئی ہیں جو ایک مہلک مرض ہے لہذا محمد باقر نے درس پڑھانا چھوڑ کر پہلے روضہ نبوی پر حاضری دی (جو اسی مسجد مدینہ کے اندر واقع تھا) اور پیغمبر اسلام کی روح سے التجا کی کہ ان کی وجہ کو شفا عنایت فرمائیں ۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر کو دیکھا تو کہا آپ کیوں یہاں آئے ہیں شاید آپ کو نہیں بتایا گیا کہ میں چیچک میں مبتلا ہوں اور چیچک کے مریض کی عیادت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ عیادت کرنے والا بھی اس بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔
محمد باقر نے فرمایا میں نے پیغمبر اسلام کی روح سے درخواست کی ہے کہ آپ کو شفا دے اور چونکہ روح کے اثرات پر میرا ایمان ہے اس لئے مجھے علم ہے کہ تو بھی شفا پائے گی ا ور میں بھی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوں گا ۔
جس طرح محمد باقر نے کہا تھا اسی طرح ام فروہ کو اس بیماری سے نجات مل گئی اور وہ خود بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوئے اس خاتون کا تندرست ہو جانا معجزے سے کم نہ تھا کیونکہ چیچک کی بیماری پہلے تو بڑے آدمی پر بہت کم حملہ آور ہوتی ہے اور اگر حملہ آور ہو جائے تو مریض کا صحت یاب ہونا بعید ہوتا ہے ۔
شیعوں کا عقیدہ ہے چونکہ امام محمد باقر امام تھے ا ور ہر امام کے پاس لا محدود طاقت اور علم ہوتا ہے اور جب وہ ام فروہ کے سر ہانے پہنچے تو انہوں نے اپنی امامت کے علم اور طاقت کے ساتھ ام فروہ کو شفا دی ۔
لیکن ایک غیر جانبدار مورخ اس بات پر یقین نہیں رکھتا حالانکہ یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت کے طبیب چیچک کا علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے اس لحاظ سے ام فروہ کا تندرست ہو جانا ایک منفرد واقعہ شمار کیا جاتا ہے ۔
تندرست ہونے کے بعد ام فروہ مدینے واپس چلی آئیں لیکن چونکہ ابھی تک چیچک کی بیماری مدینہ میں موجود تھی لہذا اس نے بیٹوں کو شہر نہیں بلایا ۔
اسی سال ۹۰ ھ میں اور ایک دوسری روایت کے مطابق ایک سال بعد امام جعفر صادق نے اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں حاضری دینا شروع کیا ۔
اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ جعفر صادق دس سال کی عمر میں اپنے والد کے حقلہ درس میں حاضر ہوئے محمد باقر کا حلقہ درس ایک شاندار مدرسہ تھا اور جو لوگ یہاں سے فارغ ہوتے تھے وہ اس زمانے کے علوم کو سیکھتے تھے لہذا جعفر صادق کی اعلی تعلیم کا آغاز دس سال کی عمر میں ہوا اور یہ بات ایک ذہین لڑکے کے بارے میں حیرت انگیز تھی ۔ مغربی دنیا کی چند ایسی مشہور شخصیتوں کے نام لئے جا سکتے ہیں جنہوں نے دس سال کی عمر میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی ۔
جب امام جعفر صادق اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے تو پہلی مرتبہ محمد باقر نے بطلیموس کا جغرافیہ پڑھانا شروع کیا اور پہلے دن جعفر صادق نے بطلیموس کی کتاب المحسبتی کو پڑھا (یاد رہے یہ کتاب علم ہیت اور جغرافیہ کے بارے میں ہے )
آپ نے پہلے ہی دن پہلی مرتبہ اپنے والد سے سنا کہ زمین گول ہے کیونکہ بطلیموس نے جو دوسری صدی عیسوی میں زندہ تھا ‘ اپنی کتاب المحسبتی میں لکھا ہے کہ زمین گول ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لوگ کو پر نیک ‘ نجومی کے زمانے ہی سے جو ۱۴۷۳ عیسوی میں پیدا ہوا اور ۱۵۴۳ عیسوی میں فوت ہوا زمین کے گول ہونے کے قائل تھے ۔
اس صورت میں جبکہ تمام مصری سائنس دان جانتے تھے کہ زمین گول ہے کو پرنیک جو ابھی جوانی کے مرحلے میں داخل ہوا تھا اور اس نے ابھی زمین کے گول ہونے اور سوج کے گرد چکر لگانے کا نظریہ پیش نہیں کیا تھا کرسٹو فر کولمبس زمین کے کروی ہونے کی سند کے ساتھ مشرق کی جانب جہاں خوردنی دواؤں کے جزیرے تھے چل پڑا تاکہ مغرب کے راستے وہاں تک پہنچے ابھی تک کرسٹو فر کولمبس نے اپنی مشہور کتاب ( جس میں اس نے لکھا ہے کہ زمین اور دوسرے سیارے آفتاب کے گرد گھومتے ہیں ) لا طینی زبان میں شائع نہیں کی تھی کہ مالان ( ایک پرتگالی ) جو سپین کے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ اس نے اپنی کشتیوں کو سیویل کی بندر گاہ سے سمندری راستے پر ڈال دیا اور اس ساری زمین کا ایک مکمل چکر کاٹا اس کے ساتھی تین سال بعد ہسپانیہ واپس آ گئے جبکہ وہ فلپائن کے جزائر میں وہاں کے مقامی باشندوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور پہلی بار زمین کے گول ہونے کو ثابت کیا اس طرح پہلی بار تصدیق ہوئی کہ زمین گول ہے ۔
کو پر نیک سے پہلے زمین کا گول ہونا ثابت تھا لیکن بطلیموس نے المحسبتی میں لکھا کہ زمین دنیا کا مرکز ہے اور سوج ‘ چاند ستاریا ور سیارے سب زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں لیکن کوپر نیک نے کہا زمین دنیا کا مرکز نہیں ہے بلکہ سورج دنیا کا مرکز ہے اور زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۹۱ ھ میں جب جعفر صادق اپنے والد کے حلقہ درس میں شریک تھے تو ان کو دو نئے واقعات پیش آئے جو ان کیلئے خاصی اہمیت کے حامل تھے ۔
پہلا واقعہ یہ تھا کہ امام محمد باقر کے مریدوں اور شاگردوں میں سے ایک جب اپنے وطن مصر سے واپس آیا تو اپنے ساتھ لکڑی اور مٹی سے بنایا ہوا جغرافیائی کرہ لایا کیوں کہ مصر میں مٹی سے بہت سی چیزیں تیار کی جاتی تھیں مثلا مجسمے وغیرہ اور مصر کے باہر رہنے والے لوگ ان اشیاء کو بطور تحفہ لے جاتے تھے یہ خاصی مہنگی فروخت ہوتی تھیں مٹی کا وہ جغرافیائی کرہ جو محمد بن فتی مصر سے محمد باقر کیلئے بطور سوغات لایا تھا ایک ایسے گول ستون کی مانند تھا جس پر کسی کرہ کو رکھتے ہوں گے ۔
یہ گول ستون زمین شمار کی جاتی تھی اور جو کرہ تھا وہ آسمان تھا اور اس کرہ آسمانی پر ستارے اس طرح لگائے گئے تھے جیسے بطلیموس نے دوسری صدی عیسوی میں اظہار خیال کیا تھا ۔ یا اس کا خیال تھا بطلیموس نے آسمانی ستاروں کیلئے جو اس زمانے میں دیکھے جاتے تھے اڑتالیس تصاویر کو مد نظر رکھا جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ تصاویر اس کی اختراع نہیں تھیں بلکہ اس سے پہلے کے نجومیوں نے انہیں ایجاد کیا تھا البتہ بطلیموس نے انہیں ایک مکمل شکل دی ۔ اس کے کہنے کے مطابق دنیا میں ثابت ستاروں کی تعداد اڑ تالیس تھی اور بطلیموس نے اس بڑے آسمانی کرہ پر ہر مجموعہ کی شکل بنائی اور ہر ایک کا نام مصری زبان میں لکھا ۔
اس آسمانی کرہ میں ستاروں کے بارہ مجموعے حمل سے لے کر حوت یعنی برہ سے ماہی تک کمر بند کی مانند اس کرہ کا احاطہ کئے ہوئے تھے اور سورج کو بھی کرہ کے اسی حصہ میں دکھایا گیا تھا تاکہ یہ دکھائیں کہ سورج سال میں ایک مرتبہ آسمان میں اس کمر بندی کے علاقے سے گزرتا ہے ۔ سورج کے علاوہ چاند اور سیارے بھی آسمانی کرہ میں نظر آتے تھے اور سیارے بھی سورج اور چاند کی طرح زمین کے ارد گرد گھومتے تھے ۔
مختصر یہ کہ اس آسمانی کرہ میں دنیا کا مرکز زمین تھا اور سورج چاند اور سیارے زمین کے ارد گرد حرکت کرتے دکھائے گئے تھے یہ پہلا کرہ آسمانی تھا جو آسمان کے متعلق امام صادق نے دیکھا تھا اور ابھی آپکی عمر گیارہ سال سے زیادہ نہیں ( اگر آپ کی تاریخ والدت ۸۰ ھ مان لی جائے ) کہ آپ نے اس کرہ اور بطلیموس کے جغرافیہ کے بارے میں اظہار خیال فرمایا اور کہا سورج سال میں ایک بار کرہ زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور اس کی گردش کا راستہ بارہ برج ہے اور ان میں ہر برج کا تیس رات دن قیام ہے اس طرح تو ہمیں ہر وقت سورج دکھائی دینا چاہیے ۔
گیارہ سالہ بچے کا اظہار خیال نہایت ماہرانہ تھا اور جب آدمی یہ کرہ سوغات لے کر آیا تھا اس نے جوابا کہا بطلیموس کہتا ہے کہ سورج کی حرکات دو قسم کی ہیں ایک حرکت بروج کے احاطے میں ہے اور سورج سال میں ایک بار بارہ برجوں سے گزرتا ہے اور زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور سورج کی دوسری حرکت کرہ زمین کے ارد گرد ہے ہر رات دن ایک دفعہ زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اور نتیجہ ہم ہر صبح اسے طلوع ہوتے ہوئے اور ہر شام کو غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔
جعفر صادق نے فرمایا ممکن ہے یہ دونوں حرکات ایک ساتھ ہوں کیونکہ سورج جب بروج کے احاطے میں گردش میں مشغول ہوتا ہے کس طرح سے چھوڑ کر زمین کے اردگرد چکر لگا سکتا ہے ۔
سوغات لانے والے نے کہا سورج رات کو بروج کے احاطے کو ترک کرتا ہے تاکہ زمین کے گرد چکر لگائے اور صبح کے وقت زمین کے مشرق سے طلوع کر سکے جعفر صادق نے فرمایا اس طرح تو سورج صرف دن ہی کو بارہ میں سے کسی ایک برج میں ہوتا ہے اور راتوں کو وہاں نہیں ہوتا کیوں کہ آپ کے بقول رات کو اسے چاہیے کہ وہ جگہ چھوڑ دے اور زمین کے گرد چکر لگائے تاکہ صبح زمین کے مشرق سے طلوع کر سکے اگر ایسا ہے تو رات کو سورج ہمیں کیوں دکھائی نہیں دیتا شاید اپنے چہرے پر پردہ ڈال دیتا ہے تاکہ دکھائی نہ دے ۔
جس وقت جعفر صادق نے اس آسمانی کرہ کو دیکھا تھا ۔ بطلیموس کی موت کو پانچ سو ساٹھ سال ہو گئے تھے اور ابھی تک کسی نے بھی غور نہیں کیا تھا کہ اس آسمانی کرہ کے بارے میں اظہار خیال کرے اور پوچھے کہ کس طرح سورج جو بقول بطلیموس ہر برج میں تیس دن سفر کرتا ہے اور زمین کے گرد بھی چکر کاٹتا ہے ہر روز و شب میں ایک مرتبہ اپنے ٹھکانے اور راستے کو بدلتا ہے تاکہ زمین کے گرد چکر لگائے ان پانچ سو ساٹھ سالوں میں کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ بطلیموس کی ہےئت پر تنقید کرے اور کہے کہ سورج کی زمین کے اردگرد گردش جو وہ بروج کے احاطے ہو کر کرے عقلی لحاظ سے قابل قبل نہیں ہے ۔
کسی نے بھی بطلیموس کی کتاب المحسبتی کو پڑھتے ہوئے ان پانچ سو سالوں میں کوشش نہیں کی کہ اپنی عقل کو استعمال کرے ۔ جب کہ علم نجوم کے بارے میں بطلیموس کا نظریہ کوئی بھی نہیں تھا کہ ہم کہیں اسے بلا چوں و چرا قبول کر لیا جانا چاہیے تھا البتہ پہلے زمانے میں دو باتیں سائنس دانوں پر تنقید سے روکتی تھیں پہلی یہ کہ استاد کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا کہ جو کچھ استاد نے کہا ہے صحیح ہے اور اس پر تنقید نہیں کی جا سکتی اور دوسری پرانے لوگوں کی سستی ۔ اس سے ہماری مراد عام لوگوں کی ذہنی سستی ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں عام لوگوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ علمی مسائل کے بارے میں اپنا اظہار خیال کریں اس کی وجہ ترویج علم کے وسائل کی محدودیت تھی اور صرف وہ لوگ جو مشرق و مغرب کے مدارس میں علم حاصل کرتے تھے انہیں علم سے دلچسپی تھی اور ان علمی مدارس کے باہر سے کوئی آدمی علم کے بارے میں اپنے شوق کا اظہار کرتا تو وہ بھی ان مدارس کے علماء سے رابطے کی وجہ سے علم سے لگاؤ پیدا کر لیتا تھا ۔
اور یہ صورت حال کم و بیش موجود تھی کہ چھپائی کی صنعت ایجاد ہوئی اور مغرب میں علم کو یونیورسٹی کی حدود سے نکال کر عام آدمی کی رسائی تک پہنچا دیا ۔ لیکن مشرق میں اس وقت تک علم مدارس سے باہر نہیں نکلا تھا ۔ بہر حال جس طرح مشرق کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں کسی نے بطلیموس نجومی کے نظریہ پر تنقید کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ا سی طرح مغرب کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی اس بارے میں لا پرواہ رہی ہیں ۔
وہ پہلا شخص جس نے اس نظریہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وہ جعفر صادق تھے جب وہ اپنے والد کے حلقہ درس میں شریک تھے تو انہوں نے فرمایا کہ بطلیموس نجومی کا نظریہ عقلی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے ۔
اس کے بعد اس ہونہار نے بطلیموس کے نظام نجوم کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ اس نظام میں کون سی خرابی ہے ؟ اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سورج بارہ برجوں میں زمین کے ارد گرد بھی گھومتا ہے اور اسی طرح ہر روز زمین کے مشرق سے طلوع اور غرب بھی ہوتا ہے ۔
جب جعفر صادق اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں ہر روز حاضر ہوئے تو ان کی نظر کرہ آسمانی پر پڑتی اور وہ بطلیموس نجومی کے نظام میں نقص کے مسئلہ کا اعادہ کرتے لیکن ان کے والد یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے کہ بطلیموس نے علطی نہیں کی یہ فطری بات ہے کہ وہ گیارہ سالہ بیٹا باپ کے احترام میں خاموش ہو جاتا اور اپنی تنقید کو مزید آگے نہیں بڑھاتا تھا اور جو لوگ اس حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے ان سے بھی کوئی مدد حاصل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ بھی معتقد تھے کہ بطلیموس نے غلطی نہیں کی اور سورج اس کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے ۔
جیسا کہ ہم نے کہا امام محمد باقر کے حلقہ درس میں اس طرح جدت آئی کہ شروع میں وہاں جغرافیہ اور ہیئت ہی پڑھائی جاتی تھی لیکن بعد میں علم ہندسہ کی تعلیم بھی شروع ہوئی ۔ بہر کیف استاد محمد باقر ہی رہے علم ہندسہ بھی جغرافیہ اور ہیئت کی مانند قبطی دانشوروں کے ذریعے مصر کے راستے محمد باقر تک پہنچا اور انہوں نے یونانی اقلیدس (جو تین صدیاں قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا ) کے علمی قواعد سے استفادہ کیا خود اقلیدس اور اس سے پہلے بھی لوگوں کا عقیدہ تھا کہ زمین گول ہے اگرچہ وہ ایک عظیم انجینئر تھا لیکن وہ زمین کے طول و عرض کا اندازہ نہیں کر سکا تھا ۔
اس سے پہلے کہ یونان کی تاریخ ترتیب دی جاتی اور ہم جانتے ہیں کہ یونانی لوگوں نے دن و رات کے تبدیل ہونے کے بارے میں کیا نظریہ پیش کیا تھا ؟ یونانی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یونانی ہزاروں کی تعداد میں سورج کے وجود کے قائل تھے اور ان کا خیال تھا کہ جو سورج صبح طلوع اور شام کو غرب ہوتا ہے وہ ایک ایسی جگہ جاتا یا گرتا ہے جس کے بارے میں کچھ علم نہیں ہو سکتا اور جو سورج دوسرے دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے وہ پہلے دن والا سورج نہیں ہے اس طرح قدیم یونانیوں کے عقیدہ کے مطابق ہر دن ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور پہلی دن والا سورج نہیں ہوتا ۔
وہ کہتے تھے کہ زؤس (خداؤں کا خدا ) جسے لا طینی میں جوپیٹر ( jupitor )کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس کے پاس بہت زیادہ آگ یا روشنی کے چراغ ہیں اور ہر صبح اس آگ یا چراغوں میں سے ایک کو آسمان کی طرف بھیجتا ہے تاکہ زمین کو روشن اور گرم رکھے اور جس وقت ختم ہو کر راکھ بن جاتی ہے یا چراغ میں تیل نہیں رہتا تو وہ غرب ہو جاتا ہے اور خاموش چراغ وہاں گرتے ہیں جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ۔
کیا زؤس خداؤں کا خدا جو ہر دن ایک سورج کو آسمان پر بھیجتا تھا بجھے ہوئے چراغوں سے استفادہ کرتا تھا اور ان کا تیل بدلتا تھا تاکہ دوبارہ انہیں آسمان پر بھیجے ؟ اس سوال کا جواب مشکوک تھا ۔ اور بعض کا عقیدہ تھا کہ زؤس بجھے ہوئے چراغوں سے استفادہ کرتا ہے اور بعض کا یہ عقیدہ تھا کہ استفادہ نہیں کرتا ۔
قدیم یونانیوں نے ستاروں کے مسائل کو اپنے لئے آسان بنا دیا تھا اور ہر چیز کی وضاحت زؤس کے فیصلوں اور کاموں سے کرتے تھے ۔
پانچویں صدی قبل از مسیح جو یونانی دانشوروں کا عہد ہے اور ان کی علمی تاریخ بھی موجود ہے ۔ یونانی علماء نے اس طرف توجہ کی کہ دن رات کے فرق کی وجہ معلوم کریں جو کوئی قدیم یونان سے واقف ہے وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ قدیم یونانی دانشوروں میں سے بہت کم ایسے تھے جنہوں نے دن و رات کے فرق کی وجہ معلوم کرنے کی طرف توجہ دی ۔
ان دانشوروں میں سے تین مشہور یعنی سقراط ‘ افلاطون اور ارسطوں ہیں یہ دوسرے علوم کے مقابلے میں علم الاجتماع سے زیادہ لگاؤں رکھتے ہیں یہاں تک کہ ارسطو جس نے فزکس اور ہوا کہ بارے میں بھی لکھا ہے وہ بھی علم الاجتماع سے خاص دلچسپی رکھتا تھا اور اس کا مستائی فلسفہ علم الاجتماع سے ملتا جلتا ہے ( مستی کے معنی ہیں راہ چلنا چونکہ ارسطو چلتے ہوئے پڑھاتا تھا ) جن چند لوگوں نے دن و رات کے فرق کی وجہ کو معلوم کرنے کی جانب توجہ کی ان میں سے ایک اقلیدس بھی تھا جس کا شمار نہ تو انجینئرز میں اورنہ نجومیوں (ماہرین فلکیات ) میں ہوتا تھا ۔ مشرق کی طرف سے اقلیدس کا خیال تھا کہ یہ کہانی زؤس ہر دن ایک گولہ آگ یا چراغ آسمان پر بھیجتا ہے ۔
یہ چراغ آسمان کو عبور کرنے کے بعد بجھ جاتا ہے درست نہیں ہو سکتی وہ بطلیموس سے ۴۵۰ سال پہلے اسکندریہ میں رہتا تھا اس نے کہا سورج جو دوسرے دن طلوع ہوتا ہے وہی سورج ہوتا ہے جو پہلے دن طلوع ہوتا ہے اور ایک دن بعد مشرق سے طلوع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تیسری صدق قبل مسیح ایک ایسی صدی تھی جس میں یونان اور اسکندریہ میں علم نے ترقی کی لیکن اس میں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ وہ دن و رات کے وجود میں آنے کے سبب کو اپنی زندگی میں بیان کر سکے ۔
وہ ارسطو کے ایک صدی بعد دنیا میں آیا اور اس سے قبل ہی یونانی دانشوروں نے علم کو قبول کرنے کے لئے اذہان کو آمادہ کر لیا تھا اور اسی دور میں جس میں اقلیدس رہتا تھا ۔ پیرون نام کا ایک آدمی جس نے یونان میں نہ صرف یہ کہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کی مخالفت کی بلکہ یونانی خداؤں یعنی یونان کے سرکاری مذہب کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ یونانی خدا محض ایک افسانہ ہیں ۔
لیکن پیرون جو ۲۷۰ قبل مسیح میں فوت ہوا اور اپنے نظریہ کو کھلم کھلا بیان کر سکتا تھا وہ اسکندریہ میں نہیں رہتا تھا بلکہ یونان اور الپز میں رہتا تھا اس زمانے میں یونان الپز یا خود مختار ریاستوں پر مشتمل تھا ۔
اقلیدس اسکندری میں بطالسہ سلسلہ کے پہلے یونانی بادشاہ کے دور میں ہو گزارا ہے اور اسکندریہ مقدونی کے سرداروں میں سے ایک بطلیموس نامی سردار تھا جو کہتا تھا علم ہر محکمہ میں رائج ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے ۔ لیکن وہ خداؤں کے متعلق کوئی بات نہ کہتا تھا اور بطلیموس اول کی علم پروری کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے ایک ایسا کتاب خانہ قائم کیا جس نے اسکندریہ میں اس قدر اہمیت اختیار کر لی کہ صدیوں بعد بھی جب مورخین کتب خانہ کا نام لیتے تھے تو ان کی مراد کتاب خانہ اسکندریہ ہوتا تھا ۔