امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

دینی امامت کے قائم کرنے کی ضرورت

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

دینی امامت کے قائم کرنے کی ضرورت
نبوت کے مقصد (خواہ ہم اسے واجب قرار دیں یا نہ دیں) کے تَحَقُّق کے لیے ضروری ہے کہ نبی (صلى الله عليه وآله وسلم) کے بعد دین میں امامت کا نظام تشریع کیا جائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کا مقصد صرف شریعت لانے والے اور اس کے پیغام کے بردار کے خاص دور میں امت کو دین سے روشناس کرانا نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ (صلى الله عليه وآله وسلم) کا اسلام کے دین کے ساتھ معاملہ ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ آنے والے تمام (حتی قیامت تک کے)ادوار میں پوری امت کو دین سے آگاہ کیا جائے، جب تک کوئی ایسا شخص موجود ہے جس پر اس دین کو قبول کرنا اور اس کی دعوت کو پھیلانا واجب ہے۔
چونکہ اسلام آخری دین ہے اور اس کی شریعت آخری شریعت ہے، اور قیامت تک لوگوں پر اس کو اپنانا واجب ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی معرفت اور اس کے عقائد و اعمال کی حقیقت کے بیان کے راستے اس وقت تک مکمل ہوں جب تک زمین پر کوئی ایسا انسان موجود ہے جو تکلیف (یعنی احکام الٰہی کا مخاطب) کے لائق ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ زمین اور اس پر موجود سب کو وراثت میں لے لے (یعنی قیامت قائم ہو جائے)۔
اس بنا پر یہ بات واضح ہے کہ صرف قرآن مجید اور سنت نبوی (صلى الله عليه وآله وسلم) تمام زمانوں میں دین کی معرفت کے لیے (کامل ہے مگر)کافی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ معلوم ہے کہ قرآن مجید تمام احکام اور ان کی تفصیلات اور جزئیات کے بیان میں کافی نہیں ہے، خاص طور پر معاشرے کے ارتقاء اور تہذیبوں کے ملاپ کے نتیجے میں واقعات کے نئے نئے پیش آتے رہنے کے لحاظ سے۔ نیز یہ کہ قرآن کریم ایک سے زیادہ طرح سے تأویل پذیر ہے، خاص کر اس کے نزول کے حالات و ظروف کے غائب ہو جانے کے بعد۔
اسی طرح نبی اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم) نے دین کے احکام کو ایک جامع مدون شکل میں مرتب کرنے کی ذمہ داری نہیں لی جس سے ہر دور کے عام مسلمان ہر واقعہ، یہاں تک کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں بھی، آسانی سے رجوع کر سکتے، اس طرح کہ امت ہر دور میں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احکام سے ناواقفیت اور ان میں اختلاف سے بچ جاتی۔
بلکہ آپ (صلى الله عليه وآله وسلم) نے عام مسلمانوں کو احکام بتانے کا کام بتدریج اور مختلف واقعات میں کیا، اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو شخصی شکل میں بیان ہوئے جن میں عمومیت نہیں ہے۔
ساتھ ہی اسے ضبط میں لانے، محفوظ کرنے اور اس طرح مدون کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ عام مسلمان اس کی طرف رجوع کر سکتے۔ اس طرح یہ ضائع ہونے کے خطرے سے دوچار تھا۔
سنت نبوی کے ضائع  کا خطرہ 
نبی اکرم(صلى الله عليه وآله وسلم) کی سنت حسنہ کے ضائع ہونے کا خطرہ
پھر اس کے بعد سنت مطہرہ کو جان بوجھ کر چھپانے کا سامنا پیش آیا، پہلے لوگوں کی طرف سے اس پر پابندی لگنے کی وجہ سے – جیسا کہ ہم(السيد محمد سعيد الطباطبائي الحكيم(رح)) نے اپنی کتاب "فی رحاب العقیدہ 3- أجزاء " کے پہلے حصے میں سوال نمبر 7 کے جواب میں اشارہ کیا ہے – اور بعد کے ادوار میں امت پر آنے والے فتنوں کے نتیجے میں خواہشات کی پیروی میں جان بوجھ کر چھپانے، تحریف اور جھوٹ گھڑنے کا سامنا رہا، نیز ناسخ و منسوخ کے اشتباه اور کلام سے متعلق بسیاری قرائن کے مخفی ہونے کی وجہ سے تعارض و اجمال کا بھی۔
ہم نے اس میں سے بہت کچھ مذکورہ کتاب کے تیسرے حصے میں سوال نمبر 8 کے جواب میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح قرآن مجید اور سنت شریفہ کو اسلامی معاشرے کے ارتقاء اور نئے واقعات کے ساتھ اس کے تعامل، اور ان میں دینی ذمہ داری کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کے نتیجے میں مختلف اجتہادات، قیاس آرائیوں اور خواہشات کے مطابق تأویل کا سامنا رہا ہے۔
اسلامی معاشرے کے ہر دور کے حالات پر ذرا  سی نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے،کہ جہاں دین میں اختلاف، اس سے ناواقفیت، اس کا برا اطلاق، پھوٹ، باہمی جنگ و جدل اور نفور پایا جاتا ہے، یہاں تک کہ اسلام اور مسلمانوں کی حالت اس کے نتیجے میں آج کی کمزوری، ذلت اور ان حل نہ ہونے والی پیچیدگیوں تک پہنچ گئی ہے، جب تک کہ مسلمان دین میں ایک ایسے مرجع پر متفق نہیں ہوتے جس کی طرف سے سب کے لیے قبول کرنا ضروری ہو، اور جس کے قول سے نکالنا کسی کے لیے جائز نہ ہو، اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نص (صریح حکم) کی وجہ سے جو شک و تأویل سے بالا تر ہو، ان سے ممتاز ہو۔
اس لیے دین کو تحریف اور ضیاع سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ اللہ سبحانہ  و تعالی، نبی اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم) کے بعد ایسا شخص مقرر کرے جو اس (دین) کی حفاظت کرے اور اسے (لوگوں تک) پہنچائے، اس طرح کہ اس پر (دین کی سلامتی کا) امان ہو جائے، اس سے ناواقف کے عذر کو ختم کر دے، اور اس کے تحریف کرنے والے کے راستے کو بند کر دے:۔
تمام سابقہ ادیان میں امامت کا ثبوت
اسلام سے پہلے کے تمام ادیان کا یہی دستور رہا ہے کہ ان کے انبیاء (جنہوں نے ان ادیان کو لایا) کے اوصیاء ہوتے تھے جو دین کو اٹھاتے، اس کی حفاظت کرتے اور ان کے بعد اسے پہنچاتے تھے۔
اس کے بہت سے واقعات دونوں گروہوں (اہل سنت و شیعہ) نے روایت کیے ہیں 

(مجمع الزوائد 9: 113، كتاب المناقب: باب مناقب علي بن أبي طالب (رضي الله عنه) : باب فيما أوصى به (رضي الله عنه) / فضائل الصحابة لابن حنبل 2 615 ومن فضائل علي (رضي الله عنه) من حديث أبي بكر بن مالك عن شيوخه غير عبد الله / تاريخ دمشق 23: 271في ترجمة شيث ويقال شيث بن آدم واسمه هبة الله، ج50: 9 في ترجمة كالب بن يوقنا بن بارص... ج61: 175 في ترجمة موسى بن عمران بن يصهر بن قاهث... ج62: 241 في ترجمة نوح بن لمك بن متوشلخ... / تهذيب الأسماء 1: 236 / مسائل الإمام أحمد 1: 12 ذكر ترتيب كبار الأنبياء / العظمة 5: 1602، 1604 / المعجم الكبير 6: 221 فيما رواه أبو سعيد عن سلمان (رضي الله عنه) / تفسير القرطبي 6: 140، ج15: 115 / تفسير البغوي 2: 31 / تفسير الطبري 2: 596 / الطبقات الكبرى 1: 37، 38، 40 ذكر من ولد رسول الله (صلى الله عليه وسلم) من الأنبياء / تاريخ الطبري 1: 96، 100 ذكر ولادة حواء مثبت، ج1: 101، 102 ذكر وفاة آدم (عليه السلام)، ج1: 109 ثم رجعنا إلى ذكر اخنوخ وهو إدريس (عليه السلام)، ج1: 271، 272 أمر بني إسرائيل والقوم الذين كانوا بأمرهم...ج1: 518 ذكر نسب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وذكر بعض أخبار آبائه وأجداده / الكامل في التاريخ 1: 47 ذكر شيث بن آدم (عليه السلام)، ذكر عقب شيث / شذرات الذهب 2: 180 نقلاً عن السيوطي في حسن المحاضرة في أخبار مصر والقاهرة. وغيرها من المصادر)۔
بلکہ جمهور (اہل سنت) کی بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی:
 " إِنِّي قَدِ ٱسْتَكْمَلْتُ نُبُوَّتَكَ وَأَيَّامَكَ، فَٱنْظُرِ ٱلِٱسْمَ ٱلْأَكْبَرَ وَمِيزَانَ عِلْمِ ٱلنُّبُوَّةِ فَٱدْفَعْهُ إِلَى ٱبْنِكَ شِيثَ، فَإِنِّي لَمْ أَكُنْ لِأَتْرُكَ ٱلْأَرْضَ إِلَّا وَفِيهَا عَالِمٌ يَدُلُّ عَلَى طَاعَتِي وَيَنْهَى عَنْ مَعْصِيَتِي"
 (العظمة 5: 1602)

"میں نے تیری نبوت اور تیرے دنوں کو مکمل کر دیا ہے، اب تو بڑے نام اور نبوت کے علم کے میزان اورترازو کو دیکھ اور اسے اپنے بیٹے شیث کے حوالے کر دے، کیونکہ میں زمین کو ایسے حال میں نہیں چھوڑتا جب تک کہ اس میں کوئی عالم نہ ہو جو میری اطاعت کی طرف  ہدایت اوررہنمائی کرے اور میری معصیت اور نافرمانی سے روکے"۔ 
اور یہ بات اہل بیت (صلوات الله عليهم) کی شیعہ کے اس اجماعی عقیدے کے موافق ہے -جو نبی اکرم (صلى الله عليه وآله وسلم) اور ان کے اہل بیت کے ائمہ (صلوات الله عليهم أجمعين) سے متواتر روایات کی بنیاد پر ہے - کہ زمین کبھی بھی امام اور حجت (خدا) سے خالی نہیں رہتی، اگرچہ ان (ائمہ) کی مراد دین و دنیا دونوں کے عمومی امام (رہنما اور پیشواء) سے ہے۔ 

( تذكرة الحفاظ 1: 11 في ترجمة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)، واللفظ له / حلية الأولياء 1: 80 في ترجمة علي بن أبي طالب / تهذيب الكمال 24: 221 في ترجمة كميل بن زياد بن نهيك / كنز العمال 10: 263ـ264 حديث: 29390 / المناقب للخوارزمي: 366 / ينابيع المودة 1: 89، 3: 454 / تاريخ دمشق 14: 18 في ترجمة الحسين بن أحمد بن سلمة، ج50: 254 في ترجمة كميل بن زياد بن نهيك / وأخرج بعضه في صفوة الصفوة 1: 331 في ترجمة أبي الحسن علي بن أبي طالب (رضي الله عنه)، ذكر جمل من مناقبه (رضي الله عنه). 
وأما مصادر الشيعة فقد رويت في نهج البلاغة 4: 37ـ38 / والمحاسن 1: 38 / وبصائر الدرجات: 57 / والإمامة والتبصرة: 26 / والكافي 1: 178، 179 / والخصال للصدوق: 479 / وكمال الدين وتمام النعمة: 222، 319، 409، 445، 511 / وكفاية الأثر: 164، 296. وغيرها من المصادر الكثيرة)

اسلام کی امامت کے لیے ضرورت
بلکہ یہ بات واضح ہے کہ دین اسلام ان دیگر ادیان کی نسبت زیادہ رعایت و حفاظت کا مستحق ہے، کیونکہ وہ تمام ادیان کا خاتم ہے اور اس کے نبی و پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی نیا" نبی" آنے والا نہیں ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل ہوگی جو اس کی حقیقت کو واضح کرے اور اس میں غلو کرنے والوں کے تحریف، باطل پرستوں کی جعل سازی اور جاہلوں کے تأویلات کو رد کرے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ اپنے تشریعی نظام کے ذریعے وہ اس کی حفاظت اور بقا کے تقاضوں کو مکمل کرے اور اس کے ذریعے حجت قائم کرے، ہر قسم کی آلودگی سے پاک، تحریف و تشویش سے محفوظ، اس طرح کہ امت کو اختلاف و تفرقے سے بچائے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک