حَدِيثُ الدَّار
-
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ العظمی سيد محمد سعيد الحكيم-ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- کتاب: اصول العقيدة
حَدِيثُ الدَّار
1- ان میں سے ایک: حدیث الدار ہے۔ حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
فَعَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ) أَنَّهُ قَالَ: "لَمَّا نَزَلَتْ ((وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ)) دَعَانِي النَّبِيُّ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ) فَقَالَ: يَا عَلِيُّ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُنْذِرَ عَشِيرَتِي الْأَقْرَبِينَ... فَاصْنَعْ لَنَا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ... وَاجْمَعْ لِي بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ... فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِي بِهِ ثُمَّ دَعَوْتُهُمْ...
"جب یہ آیت نازل ہوئی:
(وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ)
تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلایا اور فرمایا: 'اے علی! بے شک اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤں... پس تم میرے لیے ایک صاع کھانا تیار کرو... اور بنو عبد المطلب کو میرے پاس جمع کرو'۔ چنانچہ میں نے وہی کیا جو آپ (ص) نے مجھے حکم دیا تھا، پھر میں نے انہیں جمع کیا...
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطاب فرمایا:
ثُمَّ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ (صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ) فَقَالَ: يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ شَابًّا فِي الْعَرَبِ جَاءَ قَوْمَهُ بِأَفْضَلَ مِمَّا قَدْ جِئْتُكُمْ بِهِ، قَدْ جِئْتُكُمْ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَقَدْ أَمَرَنِيَ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ أَدْعُوكُمْ إِلَيْهِ، فَأَيُّكُمْ يُؤَازِرُنِي عَلَى هَذَا الْأَمْرِ عَلَى أَنْ يَكُونَ أَخِي وَوَصِيِّي وَخَلِيفَتِي فِيكُمْ؟
فَأَحْجَمَ الْقَوْمُ عَنْهَا جَمِيعًا، وَقُلْتُ وَإِنِّي لَأَحْدَثُهُمْ سِنًّا...: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَكُونُ وَزِيرَكَ عَلَيْهِ، فَأَخَذَ بِرَقَبَتِي، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَذَا أَخِي وَوَصِيِّي وَخَلِيفَتِي فِيكُمْ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا.
قَالَ: فَقَامَ الْقَوْمُ يَضْحَكُونَ، فَيَقُولُونَ لِأَبِي طَالِبٍ: قَدْ أَمَرَكَ أَنْ تَسْمَعَ لِابْنِكَ وَتُطِيعَ.
'اے بنو عبد المطلب! میں اللہ کی قسم! عرب کا کوئی نوجوان نہیں جانتا جو اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر چیز لے کر آیا ہو جس کے ساتھ میں تمہارے پاس آیا ہوں۔ میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس (دین) کی طرف بلاؤ۔ تو تم میں سے کون ہے جو اس کام پر میری مدد کرے گا، اس شرط پر کہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تم میں میرا جانشین ہوگا؟'
تو اس وقت سب لوگ اس (پیشکش) سے خاموش رہ گئے، اور میں (حضرت علی علیہ السلام) جو ان سب سے کم عمر تھا، کہا: 'اے اللہ کے نبی! میں آپ کا اس کام پر وزیر (مددگار) بنوں گا'۔
تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری گردن پکڑی اور فرمایا: 'بے شک یہ (علی) تم میں میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ہے، پس اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو'۔
آپ (امیرالمؤمنین علیہ السلام) نے فرمایا: 'پھر لوگ (اٹھ کر) ہنستے ہوئے جانے لگے اور ابو طالب سے کہنے لگے
" آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے آپ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے (علی) کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں'۔"
(الكامل في التاريخ 1: 585ـ586 ذكر أمر الله تعالى نبيه بإظهار دعوته، واللفظ له / تاريخ الطبري 1: 542ـ543 ذكر الخبر عما كان من أمر النبي (صلى الله عليه وسلم) عند ابتداء الله تعالى ذكره إياه بإكرامه بإرسال جبرئيل إليه بوحيه / شرح نهج البلاغة 13: 210 / تفسير ابن كثير 3: 352. وقد أبدل وصيي وخليفتي بكذا وكذا / وكذلك في كتابه البداية والنهاية 3: 40 باب الأمر بإبلاغ الرسالة / وكذلك فعل الطبري في تفسيره 19: 122)
اور اس حدیث کو حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) اور دیگر افراد سے، مؤرخین، مفسرین اور اہل حدیث کی ایک بڑی جماعت نے، جو شیعہ اور اہل جمہور (عامہ) دونوں میں شامل ہیں، قریب المفہوم یا مختصر شکل میں روایت کیا ہے، اور انہوں نے اسے مُسَلَّمات کے طور پر بیان کیا ہے یا پھر مختلف اسناد کے ساتھ اسے روایت کیا ہے جن میں سے کچھ اسناد اہل جمہور(عامہ) کے اصولوں کے مطابق معتبر ہیں۔
ان سب کی تفصیل ہمارے لیےیہاں بیان کرنا ممکن نہیں، لہذا یہ تفصیلی کتب پر چھوڑا جاتا ہے(اہل مطالعہ حضرات کتب مطول کی طرف رجوع کرسکتے ہیں)۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دعوت کا اہم مقصد نبی اکرم(صلى الله عليه وآله وسلم)، کے بعد وصی اور جانشین کا تَعَیُّن تھا، جو اہلیت و استحقاق کے معیار پر تھا، جو اسلام پر ایمان کی مضبوطی، اس کی دعوت کی ذمہ داری اٹھانے اور اسے قائم کرنے کے عزم کا نتیجہ تھا، اس سے پہلے کہ اسلام مضبوط ہو اور طمع و آمال کا مرکز بن جائے۔
اور یہ اس لیے تھا کہ نئے دین میں اس (جانشینی و خلیفہ برحق) کی بہت اہمیت تھی، اور یہ بات شروع دعوت ہی سے، خواہ خاص افراد ہی میں، معلوم ہونی چاہیے تھی۔
اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عبادہ بن صامت سے مروی ہے – جو "بارہ نقیبوں" میں سے ہیں جنہوں نے ہجرت سے پہلے" بیعت عقبہ "میں شرکت کی – کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ امر (حکومت) کو اس کے اہل سے نہیں چھینیں گے۔ اور ہم نے اسی وجہ سے اسے دیگر نصوص سے پہلے پیش کیا ہے۔