امام حسن عسکری کےعلمی فیوضات
-
- شائع
-
- مؤلف:
- ڈاکٹر میر محمد علی
- ذرائع:
- (ماخوذ از مقالہ:ائمہ عسکرئین کا عہد امامت اور علمی فیوض)

امام حسن عسکری کےعلمی فیوضات
١۔ تدوین حدیث کے لئے بے شمار مواد امام حسن عسکری (ع) کے عہد میں تیار ہوا۔ محدثین اور مفسرین نے کثرت
سے آپ سے نقل کیا ہے ان میں ابوہاشم داؤد، محمد بن حسن، ابراہیم ابن ابی حفعی و غیرہ شامل ہیں۔
٢۔ یوں تو عموماً شیعی فقہا کی تاریخ غیبت صغریٰ سے شروع کیجاتی ہے لیکن ائمہ اطہار کے دور امامت میں بھی ان کا
وجود تھا۔ دور عسکرین کے حوالہ سے ان میں حسن بن محبوب، احمد بن نصر بزنطینی، حسین بن سعید اہوازی اور فضل بن شاذان کے نام قابل ذکر ہیں۔
٣۔ پادشاہان وقت امام کو کڑی نگرانی میںقید رکھتے تھے لیکن جب مصیبت آتی ہے ان سے امداد طلب کرتے
ہیں۔ ان میں وہ واقعہ بہت مشہور ہے جب مسلسل تین سال قحط کے بعد ایک نصرانی عالم نے بارش برسائی، امام نے نصرانی کے ہاتھ سے ہڈی لے کر بے بس کردیا اور پھر خود بارش برسا کر بگڑتے ہوئے عقیدوں کو استوار کیا۔
٤۔ مومینن کو حکومت کے دباؤ سے محفوظ رکھنے تابعین اور سفرا کے ذریعہ پیغام رسانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح نظام مرجعیت
کی بناء پڑی۔
٥۔ امام حسن عسکری کے علم بالقران کے حوالہ سے ایک فلسفی اسحق کندی کا واقعہ ہے کہ کس طرح امام نے اپنے
ایک شاگرد کے ذریعہ تناقصات القران لکھنے سے دستبردار کردیا مراد الہی اور فہم بندہ میں ٹکراؤ میں صاحب
کلام کسی کی سمجھ کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ (ذیشان حیدر جوادی ۔نقوش عصمت)
٦۔ علمی اور ثقافتی پہلو کے بارے میں علماء نے کہا کے آپ سے نقل ہو ینوالے مختلف علوم و دانش نے کتابو ں کے
صفحات پر کردئے ۔
٧۔ کفر آمیز افکا ر اور شبہات کی رد میں استدلالی اور منطقی جوابات، مناظر ے، علمی بحثیں، بیانات 'خطوط آپ کی
کوششو ں کے آئینہ دارہیں ۔ (تاریخ اسلام ۔ گروہ نگاش)
٨۔ امام حسن عسکری کی علمی فیوض کے ذیل میں درود طوسی کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ بعض عرفا خواجہ نصیر الدین طوسی کی
نسبت سے اس کو درد و طوسی کہتے ہیں۔ بر روایت شیخ صدوق اس درود کی اصل دعائے توسل ہے اور ائمہ معصومین سے منسوب ہے ۔ ہر امام کے لئے مختلف اور مخصوص الفاظ اور القاب کے ذکر ہے یہ معصوم ہی کا حق ہے کہ معصوم کی نظر سے دیکھتا ہے کہ کون کس لقب کا حقدار ہے؟
٩۔ امام حسن عسکری کا بہت عالی قدر علمی فیض قرآن کی وہ تفسیر ہے جو عرف عام میں'' تفسیر عسکری'' کہلاتی ہے۔
بعض محققین کو شک ہے کہ یہ امام سے منسوب کر دگئی ہے لیکن اس میں امام نے تفسیر قرآن سے متعلق اس قدر تشریحات بیان فرمائی ہیں کہ ان کے مجموعہ سے ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ ان تحفظات کے باوجود کوئی ادبی پیشکش پوری کی پوری مسترد نہیں کر دیجاتی ۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ تفسیر امام حسن عسکری کو اس کا صحیح مقام نہیں ملا۔ اس سلسلہ میں علامہ ابن حسن نجفی نے اپنی تازہ کتاب ''تقلید اور اجتہاد'' میں بتایا ہے کہ اس کتاب کے ٤٢ تنقیدی و ثائق میں سے ٣٠ موافقت میں اور ١٢ منفی رائے رکھتے ہیں۔ موافقانہ یا مثبت رائے والوں میں مجلسی اول و دوم، وحید بہبہانی اور آیت اﷲ بروجردی ہیں۔ منفی رائے میں قابل ذکر آیت اﷲ خوئی ہیں۔ علامہ ذیشان حیدر کی رائے میں بالفرض اگر یہ تفسیر بالراست امام حسن عسکری سے متعلق نہ بھی ہو، اس کتاب سے ایک تفسیر تیار ہوسکتی ہے۔ علامہ مجلسی (بحار الانوار) کے بموجب کہ امام حسن عسکری (ع) کی طرف منسوب تفسیر مشہور کتابوں میں سے ہے ہر چند کہ کچھ محدثین نے امام کی طرف اس کی نسبت سے انکار کیا ہے صدوق کا قول معتبر ہے کیونکہ وہ امام کے زمانہ سے قریب تھے۔
( گروہ نگارش ، تاریخ اسلام ۔ اعیان الشیعہ )
امام حسن عسکری (ع) کی تفسیر کے ضمن میں ایک کتاب آثار حیدری کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام حسن عسکری نے اپنے شاگردوں، ابو یعقوب یوسف بن محمد بن زیاد اور ابو الحسن علی بن محمد بن سیار کو وقتاً فوقتاً قرآن مجید کی آیات کی تفسیر بیان کر تے تھے۔ یہ شاگر دسات برس تک امام کی خدمت میں رہے اور امام ہر روزکچھ تفسیر لکھواتے تھے۔ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس مجموعہ کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔ جو کچھ حصہ مل سکا، اس کا مولانا سید شریف حسین بھریلوی نے اردو بامحاورہ ترجمہ کیا اور اس کا نام ''آثار حیدری'' رکھا۔ یہ کتاب تقریباً ٦٠٠ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے آخر میں مولانا محمد ہارون زنگی پوری ، مولانا نجم الحسن( مدرسہ مشارع الشرائع لکھنو) اور مولانا سیداحمد کبیر (سنٹرل ماڈل اسکول لاہور) کی تقریظات ہیں ان علمانے ترجمہ کی صحت پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تقریظات کی تواریخ کے لحاظ سے یہ کتاب ١٣٠٨ اور ١٣٢٠ میں طبع ہوئی۔ ( ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور)
آثار حیدری کے مندرجات کی ابتدا قرآن کی فضیلت اور کرامت سے متعلق آنحضرت(ص) اور ائمہ کی احادیت و اقوال کی تفسیر سے ہوتی ہے۔(صفحہ ١٨ تا ٥٥) صفحہ ٥٥ سے ٤٩٧ پر مشتمل جز اول سورہ بقرہ کی تفسیر ہے، جزو دوم پارہ سیقول کے انسیویں رکوع سے شروع ہوتا ہے اور صفحہ ٤٩٧ سے ٥٣١ پر مشتمل ہے، تفسیر کے آخری حصے سورہ بقرہ کی چند آیات کی تفسیر درج ہے۔
اس تفسیر کے اہم اجزا تلف ہو جانے کے باوجود اس کے مندرجات میں مطالب عالیہ، اخلاق وادب ، احکام شرعی اور فضائل محمد و آل محمد کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ در حقیقت اس کے مطالعہ سے تفسیر قرآن کے اداب ، لوازمات، گہرائی، تاریخ ، علوم قرآن اور احکامات شرع کا باہم امتزاج سمجھ میں آتا ہے۔
(بشکریہ کتب خانہ باب العلم ، فروغ ایمان ٹرسٹ کراچی )
ائمہ عسکرین کے اصحاب اور شاگرد
ائمہ عسکرین کا زیادہ وقت دور افتادہ شہر سامرہ کے قید خانوں میں حکومتی کار ندوں کی کڑی نگرانی میں گزرا، اس گھٹن والے ماحول اور محدودیت کے باوجود یہ ائمہ قد آور شخصیت اور با فضیلت لوگوں کی تربیت میں کامیاب رہے، شیخ طوسی نے ان لوگوں کی تعداد جوامام علی النقی (ع) سے روایت کرتے تھے ١٨٥ بتائی ہے۔ چند نمایاں افراد کے نام درج ذیل ہیں ۔
١۔ حسین بن سعید الاہوازی، ٣٠ کتابوں کے مصنف
٢۔ حسن بن سعید ٥٠ کتابوں کے مصنف
٣۔ ابو ہاشم جعفر ، امام رضا (ع) سے امام زمانہ تک کی خدمت میں رہے۔
٤۔ عبدالعظیم بن عبداﷲ بن علی، اکابر محدثین اور علما میں شمار ہوتے ہیں۔
٥۔ ابن السکیت بن یعقوب بن اسحٰق، امام جواد اور امام ہادی کے مخصوص اصحاب میں تھے۔ متوکل کے سوال پرکہ
اس کے بیٹے افضل ہیں یا حسنین ، جواب دیا کہ حسنین کا غلام قنبر بھی تجھ سے اور تیرے بیٹوں سے بہتر ہے۔ متوکل نے گدی سے زبان کھنچوادی اور اتنا مارا کہ شہید ہوگئے۔
امام حسن عسکری (ع) کی زندگی کے ٢٨ سال میں ٢٢ سال اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ گزرے ، آپ کی امامت کا عرصہ صرف ٦ سال رہا۔ آپ کے چند اصحاب کے نام:
١۔ ابو علی احمد بن اسحٰق بن عبداﷲ الاشعری، موثق اور معتبر امام کے سفیر اوروکیل۔
٢۔ احمد بن محمد بن مطہر، اتنے معتبر کہ امام نے اپنی والدہ کے حج میں ان کو سفر کا نگراں رکھا۔
٣۔ ابو سہل ۔ بغداد کے بزرگ ترین علما علم کلام میں تھے۔ الانوار فی تاریخ الائمہ والا طہار، کے مصنف کی حیثیت
سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔