امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شہر قم اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا اورشہر قم المقدس

مركز مؤمنین
حديث-۳۰
قالَ رَسُولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: لَمّا اُسْرِىَ بِى اِلَى السَّماءِ الرابِعَةِ نَظَرْتُ اِلى قُبَّةٍ مِنْ لُؤْلُوءٍ لَها أَرْبَعَةُ أَرْكانٍ وَ أَرْبَعَةُ أَبْوابٍ كَاَنَّها مِنْ اسْتَبْرَقٍ أَخْضَرَ،
قُلْتُ: يا جَبْرَئيلُ ما هذِهِ القُبَّةُ الَّتى لَمْ أَرَ فِى السَّماءِ الرابِعَةِ أَحْسَنَ مِنْها؟
فَقالَ حَبيبى مُحَمَّد، هذِهِ صُورَةُ مَدينَةٍ يُقالُ لَها «قُم» يَجْتَمِعُ فيها عِبادُ اللّهِ الْمُؤْمِنُونَ يَنْتَظِرُونَ مُحَمَّدا وَ شَفاعَتَهُ لِلْقيامَةِ وَالْحِسابِ، يَجْرى عَلَيْهِمُ الْغَمَّ وَاَلْهَمُّ وَالاَحْزانَ وَ الْمَكارِهَ...

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب وہ مجھے چوتھے آسمان پر لے جایا گیا تو میری نظر دُرّاور لؤلؤ سے بنا قبّه پر (  موتیوں کے ایک گنبد ) پڑی جس کے چار دروازے اور چار ارکان جیسے سبز کپڑےسے بنے ہوئے تھے( گویا وہ سبز ہاتھی کے دانتوں کے بنے ہوئے ہیں) ۔ میں نے جَبرائيل سے عرض کیا:اےجبرائیل!یہ کون سا گنبد (قُبَّة)ہے جسے میں نے چوتھے آسمان پر مشاہدہ کیا میں نے اس سے بہتر کبھی نہیں دیکھا تھا؟
جبرائیل نے کہا: میرے پیارےحبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ سلم   یہ ایک شہر کی تصویر ہے۔جسے "قم" کہا جاتا ہےجہاں خداوند عالم کے با وفادار بندے جمع ہوتے ہیں ان پر غم و آلام ، پریشانی و سختی، رنج و الم اور آفتیں نازل ہوتی ہیں۔ اور قیامت و یوم حساب کے دن محمّد اور ان کی شفاعت کے منتظر رہتے ہیں۔  [بحارالانوار:60/207]

شہر قم میں امنيت
حديث-۳۱-
عن عبد اللّه بن سنان، سئل أبو عبد اللّه علیه‌السلام: أين‌ بلاد الجبل‌؟
 فإنّا قد روينا أنّه إذا ردّ إليكم الأمر يخسف ببعضها.
فقال: إنّ فيها موضعا يقال له «بحر» و يسمّى بقم و هو معدن شيعتنا.
 فأمّا الريّ (۱) فويل له من جناحيه، و إنّ الأمن فيه من جهة قم و أهله.
قيل: و ما جناحاه؟
قال علیه‌السلام أحدهما بغداد،و الآخر خراسان، فإنّه تلتقي فيه سيوف الخراسانيّين و سيوف البغداديّين، فيعجّل اللّه عقوبتهم و يهلكهم، فيأوي أهل الريّ إلى قم، فيأويهم أهلها،
 ثمّ ينتقلون منه إلى موضع يقال له: «أردستان»
[بحارالانوار، ج،۶۰ ص،212ح،۲۰ و تاريخ قم ص،94]

عبد اللّه بن سنان  سے روایت ہے ،امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: بلاد جبل کہاں ہے؟ 
چنانچہ ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ جب حکومت(امر) آپ کو واپس کر دی جائے گی تو سورج گرہن ہو گا۔
تو امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
 اس پہاڑ میں ایک جگہ ہے جس کو«بحر»  کہاجاتا ہیں اور  « قم »  کے نام سے موسوم ہیں اور وہ ہمارے شیعوں کی معدن اور مرکز ہے۔ لیکن ویل اور ہلاکت ہے"شہررے" اور اس کے(دو جناح)دونوں اطراف پر۔ اور بےشک اس میں  شہر قم اور اہل قم والوں  کےلئے امن و سلامت ہے۔
عرض کیا گیا: وہ دو اطراف ( جناح) کیا ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ان دونوں میں سے ایک" بغداد" اور دوسرا" خراسان" ہے، پس وہاں خراسانیوں اور بغدادیوں کی تلواریں آپس میں ٹکرائیں گی یعنی ان دونوں کے درمیان جنگ چھیڑ جائےگی، تواس وقت ان پر فوری عذاب الہی نازل ہوگا اور انہیں ہلاک ، تباہ  برباد کر دے، چنانچہ "شہررے" کے لوگ"شہر قم "میں پناہ لیں گے اور اہل قم انہیں پناہ دیں گے پھر وہاں سے ایک موضع منتقل کر دیے جائیں گےجسے«أردستان» کہا جاتا ہے۔

قم سے دعوتِ حق
حديث-۳۲- عَنْ أَبِى الْحَسَنِ الاَوَّلِ عليه السلام قالَ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ قُم يَدْعُوا النّاسَ اِلَى الحَقِّ، يَجْتَمِعُ مَعَهُ قَوْمٌ كَزُبَرِ الحَديدِ، لا تَزِلُّهُمُ الرَّياحُ الْعَواصِفُ، وَ لايَمِلُّونَ مِنَ الْحَرْبِ، وَ لا يَجْبِنُونَ، وَ عَلَى اللّهِ يَتَوَكَّلُونَ، وَ الْعاقِبةُ لِلْمُتَقينَ. [ بحارالانوار: 60/216]

ابی الحسن الاول ،علی عليه السلام نے فرمایا: "شہرقم "سے ایک آدمی لوگوں کو حق کی طرف دعوت دےگا، اس شخص کے ساتھ لوگوں کا ایک گروہ جمع ہونگے جو مضبوط  وسخت لوہے کے ٹکڑوں کی مانند ہونگے، جو نہ طوفانی ہواؤں سے پریشانو متزلزل ہوں گے،اور نہ  ہی جنگ  و جدال سے تھکیں گے اور نہ ہی  بزدل ہوں گے۔، اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں اور نتیجہ (نیک) انجام تو تقویٰ والوں کے لئے ہے ۔( ان کی صفات :خدا پر توكّل کرنا، عاقبت  بہ خیری اور پرهيزگارہے)


قم المقدس کی طرف سفر
حديث-۳۳- عَنْ بَعْضِ أَصْحابِهِ عَنْ أَبى عَبْدِاللّهِ عليه السلام قالَ: كُنّا عِنْدَهُ جالِسينَ اِذْ قالَ مُبتَدِئا: خُراسانْ! خُراسانْ! سَجِسْتان! سِجِسْتان! كَاَنّى أَنْظُرُ اِلى أَهْلِهِما راكِبينَ عَلَى الجِمالِ مُسْرِعينَ اِلى قُم. [ بحارالانوار: 60/215]

امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے بعض کہتے ہیں: ہم جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اس وقت امام علیہ السلام نے فرمانا شروع کیا: خُراسانْ! خُراسانْ! سِجِسْتان! سِجِسْتان!گویا میں ان دونوں شہروں کےلوگوں کو تیز اونٹوں پر سوار ہو کر قم کی طرف تیزی سے سفر کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔


شهر امن وامان
حديث-۳۴
عَنْ أَبى عَبْدِاللّهِ عليه السلام قالَ: اِذا عَمَّتِ البُلْدانَ الْفِتَنُ فَعَلَيْكُمْ بِقُم وَ حَواليها وَ نَواحيها، فَاِنَّ الْبَلاءَ مَدْفُوعٌ عَنْها۔[بحارالانوار:60/214]

ابو عبداللہ امام صادق عليه السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:جب فتنہ تمام شہروں میں پھیل جائے تو اس وقت تمہیں چاہیےکہ  شہر قم اور اس کے اطراف اوراس کے گردونواح  کی طرف سفر کریں کیونکہ شہر قم سےبلاء و مصیبتوں اور  طاعون کو ٹال دیا گیا ہے۔
 

شهر خوب
حديث-۳۵
عَنْ أَبى عَبدِاللّهِ عليه السلام قالَ: اِذا عَمَّتِ الْبَلايا فَالاَمْنُ فى كُوفَةَ وَنَواحيها مِنَ السَّوادِ وَقُم مِنَ الْجَبَلِ، وَنِعْمَ المَوْضِعُ «قُم» لِلْخائفِ الطّائِفِ. [ بحارالانوار:60/214]

ابو عبداللہ امام صادق عليه السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
جب فتنہ  اور بلا ء(تمام شہروں میں )پھیل جائے تو اس وقت تمہیں چاہیےکہ  شہر کوفہ اور اس کے گردونواح «سواد»(جو شہر دجله اورفرات کے درمیان واقع ہے" فرهنگ معين")اور شہر قم جو پہاڑ سےہےکی طرف سفر کریں (وہاں پر امن و امان ہوگا)اور کتنی اچھی جگہ ہے، جوخوف زدہ اور بھٹکنے والوں  کے لئے جائے امن ہے۔


قم میں قیام
حديث- ۳۶
قالَ أَبُو عَبْدِاللّهِ عليه السلام: اِذا فُقِدَ الاَمْنُ مِنَ الْعِبادِ وَ رَكِبَ النُّاسُ عَلَى الْخُيُولِ وَ أَعْتَزَلُوا النِساءَ وَ الطّيبَ فَالْهَرْبُ الْهَرْبُ عَنْ جَوارِهِمْ.
فَقُلْتُ: جُعِلْتُ فِداكَ، اِلى أَيْنَ؟
قالَ: اِلَى الْكُوفَةِ وَ نَواحيها، أَوْ اِلى قُم وَ حَواليها فَاِنَّ الْبَلاءَ مَدْفُوعٌ عَنْهُما. 

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
جب لوگوں کی زندگیوں سے امن و سلامتی ختم اورناپید ہو جائے اور لوگ گھوڑوں پر سوار ہو جائیں (اور سرپٹ دوڑنے لگیں) اور عورتوں اور خوشبوؤں سے پرہیز کریں تواس وقت ان سے دور بھاگنا چاہیے۔
راوی کہتا ہے کہ: "مولا میں آپ پر قربان جاؤں،  مولا تو اس وقت میں کہاں بھاگوں؟
" امام علیہ السلام نے فرمایا: کوفہ اور اس کے گردونواح کی طرف یا قم اور اس کے گردونواح  کی طرف کیونکہ ان دونوں سے آفات،بلاء و مصیبتں ٹال دی گئی ہیں۔ [ بحارالانوار: 60/214]


حرم حضرت معصومه  قم عليهاالسلام
حديث-۳۷ -عَن ابْنِ الرِّضا عليه السلام قالَ: مَنْ زارَ عَمَّتى بِقُم فَلَهُ الجَنَّةُ. 

ابْن الرِّضا عليه السلام امام جواد علیہ السلام سے روایت ہےکہ آپ نے فرمایاہے: جو شخص بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے اس کے لئےجنت وبهشت ہے۔[ سفينة البحار، 2/376]


قم حرم اهل‌ بيت عليهم‌السلام
حديث-۳۸- قالَ الصّادِقُ عليه السلام: اِنَّ لِلّهِ حَرَما وَ هُوَ مَكَّةُ، وَ لِرَسُولِهِ حَرَما وَ هُوَ الْمَدينَةُ، وَ لاَميرِالْمُؤمِنينَ حَرَما وَ هُوَ الكُوفَةُ، وَ لَنا حَرَما وَ هُوَ قُم، وَ سَتُدْفَنُ فيها امْرَأةٌ مِنْ وُلْدى تُسَّمى فاطِمةُ، مَنْ زارَها وَ جَبَتْ لَهُ الجَنَّةُ (قَالَ عليه السلام ذلِكَ وَ لَمْ تُحْمَلْ بِمُوسى أُمَّهُ).[ بحارالانوار: 60/216]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: بےشک پروردگار عالم کے لئے ایک حرم ہے  اوروہ مکہ ہے، اور  رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے اور امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے  ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے،اور ہارے (آئمہ معصومین علیہم السلام) لئے حرم ہے وہ شہر قم ہے۔ عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون وہاں  دفن ہوں گی جن کا نام فاطمہ ہوگا ۔جو بھی ان کی زیارت کرے گا اس پر جنت و بہشت واجب ہے۔ (راوی نے کہا: جب امام صادق علیہ السلام نے یہ جملہ فرمایا تو مادر امام موسى بن جعفر ابھی حاملہ بھی نہیں تھیں)۔ 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک