مردوں کو عورتوں پر وراثت میں دوگنا حصہ کیوں ملتا ہے؟
-
- شائع
-
- مؤلف:
- سماحة الشیخ محمد صنقور حفظہ اللہ- ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
- ذرائع:
- islam4u.com
مردوں کو عورتوں پر وراثت میں دوگنا حصہ کیوں ملتا ہے؟
تحریر:الشيخ محمّد صنقور- ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
مردوں کو عورتوں پر وراثت میں دوگنا حصہ ملنا
اعتراض کا متن:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ
اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔۔۔"(النساء:11)۔
بعض لوگوں نے اس آیت کو اسلام پر اعتراض کے لیے ذریعہ بنایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت اسلام میں عورت کی قدر و منزلت کو گھٹانے کی دلیل ہے، ورنہ مرد کے حصے کو عورت کے حصے پر فوقیت دینے کا کیا جواز ہے؟
جواب:
اس اعتراض کا جواب اس وقت واضح ہوگا جب ہم اس طریقے سے حصوں کی تقسیم کے پیچھے کارفرما حکمت کو سمجھیں گے۔ چنانچہ ہم کہتے ہیں:
اسلامی نقطہ نظر میں مال و دولت:
اسلام مال و دولت کو معاشی معاملات کو منظم کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے، اور اسے انسان کی ضروریاتِ زندگی مثلاً خوراک، رہائش، لباس، علاج وغیرہ کو پورا کرنے کا ایک راستہ قرار دیتا ہے۔ مال کی اپنی ذات میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے سوائے اس کے اثرات کے۔ اسی طرح اگر انسان مالک بنے بغیر ہی اس سے استفادہ کرنے پر قادر ہو تو ملکیت کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے۔
لیکن جب سے انسان اس صحیح نقطہ نظر سے غافل ہو کر بھٹک گیا ہے اور مال اس کی سب سے بڑی منزل بن گیا ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اسے جمع کرنے اور ڈھیر لگانے کے لیے بے تُکا دوڑ رہا ہے۔
نتیجتاً وہ زندگی کی حقیقی غایت سے منہ موڑ لیتا ہے اور لالچ کے انبار میں گھر جاتا ہے جو اسے تمام انسانی قدروں سے محروم کردیتا ہے۔ وہ نہ رحم و شفقت جانتا ہے، نہ محبت و الفت کا مفہوم سمجھتا ہے، اور نہ ہی نیکی، بھلائی اور احسان کے معانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے افق و خیال میں صرف مال جمع کرنا اور زیادہ سے زیادہ امیر ہونا رہ گیا ہے۔ محروموں کی تکلیف اسے متاثر نہیں کرتی، بیواؤں اور محتاجوں کی سسکیاں اس کے جذبات نہیں ہلاتیں، بلکہ اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ وہ خود ان کی تکلیف اور مصیبت کا سبب بن رہا ہے۔ لالچ اسے صرف اس حد تک نہیں روکتا کہ وہ دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی کیے بغیر مال جمع کرے، بلکہ اسے اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ لوگوں سے زور و قہر اور دھوکہ دہی کے ذریعے ان کا مال چھین لے۔ اسی بنیاد پر تباہ کن جنگیں چھڑتی ہیں اور طاقتوروں کے درمیان غریبوں کے رزق کو لوٹنے کے لیے گھناؤنے اتحاد قائم ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ انسان کے مال کے بارے میں الٰہی نقطہ نظر اور اس کے ساتھ برتاؤ کے صحیح طریقے سے بھٹک جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور چونکہ معاملہ یہ ہے، اس لیے وہ مال کے ساتھ برتاؤ کی الٰہی تدبیر کو اس ترچھی نظر کے مطابق پرکھنے لگتا ہے جو مال کو ایک ایسی غایت سمجھتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ جائز ہے۔ اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر یہ اعتراض کھڑا کیا گیا ہے کہ مرد کے حصے کو عورت کے حصے پر فوقیت دینا اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ کو گھٹانے کی دلیل ہے۔
چنانچہ آپ غور فرمائیں گے کہ یہ اشکال درحقیقت اس عقیدے سے پیدا ہوا ہے کہ مال کی ملکیت کی اپنی ذاتی حیثیت و اہمیت ہے، اور یہ کہ اگر انسان اپنی تمام ضروریات پوری کرنے میں مال سے استفادہ بھی کر لے مگر اس کا مالک نہ بنے تو وہ محروم ہے۔ اگر مال کو صرف ضروریات زندگی کے حصول اور معاشی معاملات کے انتظام کا ذریعہ سمجھا جائے تو یہ اشکال خودبخود ختم ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب ہم ان احکام کو سامنے رکھیں جو شریعت نے مال خرچ کرنے کے طریقے اور اس ذمہ داری کو اٹھانے والے شخص کے بارے میں مقرر کیے ہیں۔
مرد پر عائد مالی ذمہ داریاں:
جب مرد شوہر ہو تو وہ بیوی کے مہر، نفقہ (گھر کے اخراجات)، رہائش، علاج اور دیگر زندگی کے ضروری معاملات کا ذمہ دار ہے۔ بیوی پر لازم نہیں کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ بھی خرچ کرے، چاہے وہ اپنے شوہر سے کہیں زیادہ مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ اگر شوہر کے پاس مال نہ بھی ہو تو اس پر بیوی کا نفقہ ساقط نہیں ہوتا، خواہ بیوی مالدار ہو یا غریب، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ محنت مزدوری کر کے مال حاصل کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو بیوی کا نفقہ اس کے ذمہ قرض رہے گا۔
جب مرد باپ ہو تو وہ اپنی اولاد کے کھانے، پینے، کپڑے، علاج، رہائش اور ان کی پرورش و تعلیم کے اخراجات کا ذمہ دار ہے۔
(یعنی: ایک اور صورت جس میں مرد کو عورت کے برعکس اپنے مال سے خرچ کرنا پڑتا ہے، وہ خطائی قتل یا دیگر جرائم کا معاوضہ (دیت) ہے۔ شرعی طور پر مجنی علیہ (متاثرہ شخص) کو دیت ادا کرنے کا ذمہ دار "عاقلہ" ہوتا ہے، یعنی قاتل کے باپ کی طرف سے رشتہ دار مرد۔ لہٰذا، اگر کسی مرد یا عورت نے کسی کو قتل کیا ہو (خطائی طور پر)، تو مقتول کے ورثا کو دیت ادا کرنے کا ذمہ دار صرف مرد رشتہ دار ہوں گے، خواتین نہیں، چاہے قاتل خود عورت ہی کیوں نہ ہو۔ عورت دیت ادا کرنے سے مستثنیٰ ہے، خواہ وہ خود خطا کار ہو (اگر قتل محض خطائی ہو))
اب ذرا غور کیجیے:
لڑکے کو جو دوگنا حصہ ملتا ہے، وہ اعتباراً (اصولی طور پر) تو اس کے لیے مخصوص ہے، لیکن عملاً وہ اس کے بڑے حصے کو عورت (یعنی بیوی، ماں، بہنیں، دادی/نانی) پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے۔
جبکہ لڑکی اگرچہ لڑکے کے حصے سے آدھا حصہ پاتی ہے، لیکن وہ اس کا زیادہ تر حصہ صرف اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرتی ہے۔ اور اگر وہ شادی شدہ ہے (اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے) تو اسے اپنے حصے میں سے کچھ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس مال خرچ کرنے کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں ہوتی، اور اگر وہ اسے سرمایہ کاری میں لگائے تو اس کا نفع بھی صرف اسی کے لیے ہوگا۔
لہٰذا، عورت اگرچہ مال کا ایک تہائی حصہ وارث بنتی ہے، لیکن وہ کل مال کے دو تہائی سے استفادہ کرتی ہے۔ اور مرد اگرچہ کل مال کے دو تہائی کا وارث بنتا ہے، لیکن اسے صرف ایک تہائی سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
عورت کے حصے کی برتری:
اس کے علاوہ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ عورت ہمیشہ مرد کے حصے سے آدھا حصہ پاتی ہے۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ مرد سے زیادہ یا اس کے برابر حصہ پاتی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے ہم چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
1. اگر میت کی صرف ماں اور بھائی ہوں، یا دادا اور چچا/ماموں ہوں، تو ماں (جو عورت ہے) سارے ترکے کی حق دار ہوگی، اور بھائیوں، دادا یا دوسرے رشتہ داروں کو ترکے میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر میت کی بیٹی اور بھائی/چچا/دادا ہوں تو سارا ترکہ بیٹی یا بیٹیوں کو ملے گا۔
2. اگر میت کی ایک حقیقی بہن (ماں باپ کی طرف سے) ہو اور اس کے سوتیلے بھائی (صرف باپ کی طرف سے) ہوں، تو سارا ترکہ حقیقی بہن کو ملے گا، سوتیلے بھائیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔
3. اگر میت کے شوہر اور بیٹی ہوں، تو شوہر (جو مرد ہے) کو چوتھائی حصہ ملے گا اور باقی سارا ترکہ بیٹی کو ملے گا۔ اسی طرح اگر میت کے شوہر اور بہن ہوں تو دونوں کو ترکے کا آدھا آدھا ملے گا، یعنی اس صورت میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہوگا۔
4. اگر میت کے ماں باپ اور دو بیٹیاں ہوں، تو ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ اور دونوں بیٹیوں کو کل ترکے کا دو تہائی برابر برابر ملے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باپ کا حصہ ماں کے حصے کے برابر ہے اور ہر بیٹی کے حصے سے آدھا ہے، کیونکہ ہر بیٹی کو کل ترکے کا ایک تہائی (یعنی باپ کے حصے سے دوگنا) ملے گا۔
5. اگر میت کی پھوپھی اور ماموں ہوں اور کوئی اور وارث نہ ہو، تو پھوپھی (عورت) کو دو تہائی اور ماموں (مرد) کو ایک تہائی ملے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس صورت میں عورت کا حصہ مرد سے دوگنا ہے۔ اسی طرح اگر میت کی(چچا کی بیٹی) اور (خالہ کا بیٹا/بیٹے) ہوں اور کوئی دوسرا وارث نہ ہو، تو چچا کی بیٹی کو دو تہائی اور خالہ کے بیٹے/بیٹوں کو ایک تہائی ملے گا۔ لہٰذا اس صورت میں عورت کا حصہ مرد کے حصے سے کہیں زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی صورتیں ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہوتا ہے، طوالت کے خوف سے ہم ان کا ذکر ترک کرتے ہیں۔
اختتامیہ خلاصہ:
اپنی بات کے اختتام پر ہم ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، اور وہ یہ کہ کسی بھی غیر جانبدار محقق کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی نظریے یا حکم کو اس کے مربوط نظام سے الگ تھلگ کر کے اکیلے پرکھے، اور اس کے سیاق و سباق اور اس نظام میں اس کے مقام کو یکسر نظر انداز کر دے۔