نماز میں"آمین" کہنے کے بارے میں صحاح کی روایات
-
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام شیخ عبد الامیر سلطانی ۔ تحقیقی کمیٹی-مترجم:حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- کتاب: نماز میں آمین کہنے کے مسئلے میں
نماز میں آمین کہنے کے بارے میں صحاح کی روایات
نماز میں آمین کہنے کے بارے میں فقہائے اہل سنت کے مختلف نظریات بیا ن ہوچکے ۔ ان میں سے بعض نے اسے مسنون قرار دیا ہے اور بعض نے مندوب ۔ فتاویٰ کے اس اختلاف کی قدرتی وجہ ان روایات کا اختلاف ہے جن کی بنیاد پر انہوں نے فتوے دیے ہیں ۔
بنابریں ان روایات کی اسانید کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ ہم اس نتیجے تک پہنچ سکیں کہ سند کے ساقط ہونے کی صورت میں دلالت بھی ساقط ہوجائے گی جس کے نتیجے میں کوئی دلیل ہی نہیں رہے گی جس کی بنیاد پر آمین کہنے کے استحباب کا فتویٰ دیا جاسکے ۔ علاوہ ازیں سابق الذکر صحیح روایات میں نماز میں آمین کہنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔
جو لوگ نمازمیں آمین کہنے کو جائز سمجھتے ہیں ان کے دلائل میں سے ایک بعض روایات ہیں ۔ یہاں ہم ان روایات کا تذکرہ کررہے ہیں جو صحاح ستہ میں مذکور ہیں ۔ راویوں کی وثاقت کے زاویے سے ہم ان روایات کو دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
پہلی قسم : وہ روایات جن کی سند ابو ہریرہ پر منتہی ہوتی ہے ۔
(صحیح بخاری ،ج۱، ۲ ،ص۳۶۹ ،۳۷۰ ،کتاب الاذان ،باب فضل التامین نیز باب جہر الماموم بالتامین ،صحیح مسلم ،ج۲ ،ص ۱۷ ،۱۸ کتاب الصلاۃ ، باب التسمیع والتحمید والتامین ،سنن نسائی ،ج۲،ص ۴۸۱ ،۴۸۲ ،کتاب الصلاۃ ،باب الجہر بآمین نیز باب فضل الامر بالتامین خلف الامام نیز دیکھئے سنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد اور جامع الترمذی میں مذکور روایات ۔)
دوسری قسم : وہ روایات جن کی سند دوسروں پر منتہی ہوتی ہے ۔
احادیث کی ان دونوں قسموں کی اسانید خود اہل سنت کی رو سے درست نہیں ہیں ۔
رہی پہلی قسم کی احادیث تو ان کا راوی (ابوہریرہ) موثق نہیں ہے ۔
ممکن ہے کوئی یہ سوال کرے :ہم ابو ہریرہ کی روایات کو کیسے ردّ کر دسکتے ہیں اور ان سے کیسے بے توجہی برت سکتے ہیں جبکہ وہ رسول اللہﷺ کے موثق ترین اصحاب میں سے ایک اور سب سے بڑے راوی ہیں کیونکہ موصوف نے پانچ ہزار سے زیادہ احادیث رسول اللہﷺ سے نقل کی ہیں ۔
اس کا جواب ہم یہ دیں گے کہ رسول ﷺکی خالی مصاحبت اور روایات کی کثرت سے راوی کی وثاقت ثابت نہیں ہوتی ۔جن علماء نے ابو ہریرہ کی روایات کو ردّ کیا ہے ان کے دلائل کثیر تعداد میں موجود اور ناقابل تاویل ہیں ۔یہاں ہم ان میں سے بعض کا تذکرہ کریں گے۔
۱۔ مورخین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ۲۱ ھ میں ابو ہریرہ کو بحرین کا والی بناکر بھیجا ۔بعد میں خلیفہ کو خبر ملی کہ ابوہریرہ نے کثیر مال جمع کیا ہے اور خاص کراپنے لئے بہت سے گھوڑے خریدے ہیں ۔اس بناپر خلیفہ نے ۲۳ ھ میں ابوہریرہ کو معزول کیا اور اپنے ہاں بلالیا ۔جب وہ حاضر ہوئے تو حضرت عمر نے کہا : اے اللہ کے دشمن اور اللہ کی کتاب کے دشمن ! کیا تو نے اللہ کا مال چرا لیا ہے ؟
؛ابوہریرہ نے کہا : میں نے چوری نہیں کی ہے بلکہ یہ وہ ہدایا ہیں جو لوگوں نے مجھے دئے ہیں ۔
(دیکھئے : ابن اثیر کی الکامل ،حوادث سنہ ۲۳ ھ ، ابن سعد کی الطبقات الکبریٰ ،ج۴،ص ۳۳۵ اور ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ،ج۳،ص ۱۰۴،مطبوعہ مصر)
ابن سعد ،ابن حجر عسقلانی اور ابن عبد ربہ نے لکھا ہے :
حضرت عمر نے ابو ہریرہ کا محاسبہ کرتے وقت کہا : اے دشمن خدا ! جب میں نے تجھے بحرین کا والی بنایا تھا تو اس وقت تو برہنہ پاتھا اور تیرے پاس جوتے بھی نہیں تھے ۔ لیکن اب مجھے خبر ملی ہے کہ تو نے ایک ہزار چھ سو دینار کے گھوڑے خریدے ہیں !!
ابو ہریرہ نے کہا : یہ لوگوں نے مجھے دیے ہیں جن میں اضافہ ہوا ہے ۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے کہ ابو جعفر اسکافی کہتاہے : ابو ہریرہ ہمارے استادوں کی نظر میں غیر معتبر ہے اور اس کی روایت ناپسندیدہ ہے ۔ حضرت عمر نے اسے تازیانہ مارا تھا اور کہا تھا : تیری روایتوں کی کثرت کی وجہ سے تو اس بات کا زیادہ سزاور ہے کہ تو رسول اللہﷺ کے ساتھ جھوٹ باندھنے والا قرار پائے ۔
(دیکھئے شرح نہج البلاغہ ،۴،ص ۶۷، خطبہ ۵۶۷کی شرح میں علی ؑ کا اپنے اصحاب سے خطاب ۔)
مذکور ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب نے ابو ہریرہ کی سرزنش کی ، اسے تازیانہ مارا ، اسے رسول اللہﷺ کی حدیث نقل کرنے سے منع کیا اور اس سے کہا : تو نے رسول اللہ سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں ۔ پس تو اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ تو رسول اللہ کے ساتھ جھوٹ باندھنے والا قرار پائے۔ اگر تو نبی سے حدیث نقل کرنے کا سلسلہ قطع نہ کرے تو میں تجھے تیرے قبیلے’’ دوس ‘‘کی طرف ضرور نکال دوں گا یا تجھے بندروں کی سرزمین( شام ) کی جانب شہر بدر کروں گا ۔
(دیکھئے محمود ابو ریہ کی شیخ المضیرہ ابوہریرہ ،ص ۱۰۳ نیز دیکھئے ذہبی کی سیر اعلام النبلاء ،ج۲،ص ۴۳۳ اور ج۸،ص ۱۰۶ ۔)
۲۔ ابن ابی الحدید اپنے استاد ابو جعفر اسکافی سے نقل کرتے ہیں کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا :
آگاہ رہو کہ لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا ( یا زندوں میں سب سے زیادہ جھوٹا ) جس نے رسول اللہﷺ کے بارے میں جھوٹ بولا ہے ابو ہریرہ دو سی ہے ۔
( دیکھئے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ،ج۴،ص ۶۸ ،خطبہ نمبر ۵۶ کی شرح ۔)
۳۔ ابن قتیبہ ، حاکم ذہبی اور مسلم نے کہا ہے کہ حضرت عائشہ بار بار کہا کرتی تھیں : ابو ہریرہ سخت جھوٹا ہے۔ اس نے بہت سی جعلی احادیث اپنی طرف سے وضع کر کے رسول اللہﷺ سے منسوب کیا ہے ۔
( دیکھئے حاکم کی المستدرک ،ج۳،ص ۵۱۳، کتاب معرفۃ الصحابہ ،احوال ابوہریرہ ۔)
۴۔ معتزلی مذہب کے شیوخ اور حنفی مذہب کے تمام علماء نے ابو ہریرہ کی روایات کو رد کیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ ابو ہریرہ سے مروی روایات کی بنیاد پر صادر ہونے والا ہر فتوی اور حکم باطل اور ناقابل قبول ہے ۔
(دیکھئے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ ،ج۱،ص ۳۶۰۔)
جناب ابو حنیفہ فرماتے تھے : میرے نزدیک نبی کے سارے اصحاب ثقہ اور عادل ہیں ۔ ان سے مروی احادیث میری نظر میں صحیح اور مقبول ہیں سوائے ابو ہریرہ ، انس بن مالک اور سمرۃ بن جندب سے مروی احادیث کے ۔ میں انہیں قبول نہیں کرتا ۔ ان کی روایات مردود اور ناقابل قبول ہیں ۔
(دیکھئے محمد بن فراموز حنفی کی مرآۃ الاصول فی شرح مرقاۃ الوصول ،بحث سوم ،راوی کی حالت کے بیان میں نیز دیکھئے محمود ابو ریہ کی شیخ المضیرہ ،ص ۱۴۶۔)
واضح ہے کہ جس راوی کا یہ حال ہو اس کی روایات پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟
دوسری قسم کی روایات درج ذیل ہیں :
الف۔ سنن ابن ماجہ میں مذکور روایات
(دیکھئے سنن ابن ماجہ ،کتاب الصلاۃ ،ج۱،ص ۲۷۸، باب الجہر بآ مین ۔)
پہلی روایت : ہم سے عثمان بن ابی شبیہ نے کہا : ہم سے حمید بن عبدالرحمن نے کہا : ہم سے ابن ابی لیلی نے کہا کہ سلمہ بن کہیل نے حجیہ بن عدی سے نقل کیا ہے کہ علی ؑ نے کہا : میں نے رسول اللہ کو" ولاالضالین" کہنے کے بعد ’’آمین ‘‘ کہتے ہوئے سنا ہے ۔
دوسری روایت : محمد بن صباح اور عماربن خالد واسطی نے ہم سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر بن عیاش نے ابو اسحاق سے ، اس نے عبدالجبار بن وائل سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ؛میں نے نبی کے ساتھ نماز پڑھی ۔آپ نے "ولاالضالین" کہنے کے بعد فرمایا : آمین ۔ پس ہم نے آپ سے یہ سنا ۔
تیسری روایت : اسحاق بن منصور نے ہم سے کہا : عبدالصمد بن عبد الوارث نے ہم سے کہا ؛ ہم سے حماد بن سلمہ نے کہا :سہیل بن ابو صالح نے ہم سے کہا کہ اس کے باپ نے حضرت عائشہ سے نقل کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : یہودیوں نے تمہارے بارے میں کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا انہوں نے سلام اور آمین کہنے کے معاملے میں تمہارے بارے میں حسد کیا ہے ۔
چوتھی حدیث : عباس بن ولید خلال دمشقی نے ہم سے نقل کیا : مروان بن محمد اور ابو مُسہر نے ہم سے نقل کیا : خالد بن یزید بن صبیح المری نے ہم سے کہا : طلحہ بن عمرو نے عطا سے اور اس نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
یہودی تم سے کسی چیز کے بارے میں اتنا حسد نہیں کرتے جتنا وہ آمین کے بارے میں تم سے حسد کرتے ہیں ۔پس تم کثرت سے آمین پڑھتے رہو ۔
پہلی روایت کے بارے میں بشار عواد کہتے ہیں : اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ حمید بن عبد الرحمن بن ابی لیلی ضعیف راوی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا حافظہ بہت خراب تھا ۔
(دیکھئے بشار عواد معروف کی شرح سنن ابن ماجہ ، ،ج۲،ص ۱۳۶ ،ح ۸۵۴ ، نیز دیکھئے تحفۃ الاشراف ،ج۷،ص ۳۵۹، ح ۱۰۰۶۵ ،المسند الجامع ،ج۱۳ ،ص ۱۹۸ ، ح ۱۰۰۴۹ ۔)
شعبہ کا بیان ہے : میں نے حفظ میں کسی کو ابن ابی لیلی سے زیادہ برا نہیں پایا ۔
(علل دار قطنی ، ج۳،ص ۱۸۶۔)
رہی بات حجیہ بن عدی کی تو اس کے بارے میں ابو حاتم کہتے ہیں : اس بوڑھے کی حدیث ناقابل استدلال ہے ۔ وہ مجہول کے مانند ہے ۔
(تہذیب التہذیب ،ج۲،ص ۱۹۰ نیز دیکھئے تہذیب الکمال ،ج۵،ص ۴۸۵۔)
دوسری روایت کے بارے میں بشار عواد کا بیان ہے : اس کی سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے
(دیکھئے بشار عواد معروف کی شرح سنن ابن ماجہ ،ج۲،ص ۱۳۷ ، تہذیب الکمال ،ج۱۶،ص ۳۹۳ ، باب من اسمہ عبد الجبار بن وائل ۔)
کیونکہ عبدالجبار بن وائل بن حجر نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی تھی۔ بخاری فرماتے ہیں:محمد بن حجر اپنے باپ کی موت کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔
(دیکھئے بخاری کی التاریخ الکبیر ،ج۶،ص ۱۰۶ ۔)
وائل بن حجر اس وقت مرگیا تھا جب عبد الجبار کی ماں حاملہ تھی اور عبد الجبار اس کے شکم میں تھا ۔
یہ انقطاع کی ایک صورت ہے جس کی وجہ سے حدیث کی حجیت باقی نہیں رہتی ۔
(دیکھئے ابن حبان کی کتاب المجروحین ،ج۲،ص ۲۷۳۔)
رہی تیسری حدیث تو اس کا ایک راوی سہیل بن ابی صالح ہے جس کی روایت سے استدلال درست نہیں ہے ۔ دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ سہیل بن ابی صالح اور علاء بن عبد الرحمان کی روایت تقریبا ایک جیسی ہے ۔ ان دونوں کی روایت حجت نہیں ہے ۔ ابو حاتم کہتا ہے کہ اس کی حدیث لکھی تو جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔
(تہذیب التہذیب ،ج۴،ص ۲۶۳، حالات سہیل ۔)
چوتھی روایت کے بارے میں بشار عوار کہتے ہیں : اس کی سند بہت کمزور ہے ۔ بو صیری کہتے ہیں : یہ سند ضعیف ہے کیونکہ طلحہ بن عمرو کے ضعیف ہونے پر علمائے رجال کا اتفاق ہے ۔میری عرض ہے : طلحہ بن عمرو متروک ہے اور اس کی حدیث بہت کمزور ہے ۔
(دیکھئے بشار عواد معروف کی شرح سنن ابن ماجہ ، ،ج۲،ص ۱۳۸ ،تضعیف ابن ماجہ ، الالبانی (۱۸۳) ،تحفۃ الاشراف ،ج۵،ص ۸۳ ، ح ۵۸۹۷ ، المسند الجامع ،ج۸ ،ص ۴۸۸ ، حدیث ۶۱۱۲۔)
ابن معین اپنی تاریخ میں رقمطراز ہیں : میں نے یحیی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ بن عمرو ( کی روایت ضعیف ) ہے ۔
(دیکھئے الدوری کی تاریخ ابن معین ،ج۱،س ۶۰۔)
ابن سعد کہتے ہیں : طلحہ بن عمرو ۱۰۲ھ میں مکہ میں چل بسا ۔ اس نے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔ وہ بہت کمزور راوی ہے ۔
(دیکھئے ابن سعد کی الطبقات الکبری ،ج۵،ص ۴۹۴۔)
ب۔ سنن ابو داؤد کی روایا ت
(دیکھئے سنن ابی داؤد ،ج۱،ص ۲۴۶،کتاب الصلاۃ ،باب التامین وراء الامام ۔)
پہلی روایت : ہم سے محمد بن کثیر نے نقل کیا کہ سفیان نے سلمہ سے ، اس نے حجر بن عنبس حضرمی سے اور اس نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا : جب رسول اللہ ’’والظالین ‘‘ پڑھتے تھے تو اس کے بعد بلند آواز سے آمین کہتے تھے ۔
دوسری روایت : ہم سے مخلد بن خالد شعیری نے نقل کیا کہ اسے ابن نمیر نے ،اسے علی بن صالح نے، اسے سلمہ بن کہیل نے ، اسے حجر بن عنبس نے اور اسے وائل بن حجر نے بتا یا کہ اس نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی اور آنحضرت نے بلند آواز سے آمین پڑھی ۔ آپ نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ میں نے آپ کے گال کی سفیدی دیکھی ۔
تیسری روایت : اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے ہم سے نقل کیا : وکیع نے ہمیں بتایا کہ اسے سفیان نے ، اسے عاصم نے ، اسے ابو عثمان نے اور اسے بلال نے بتا یا کہ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ آمین کہنے پر مجھ پر سبقت نہ کیجئے ۔
چوتھی روایت : ولید بن عتبہ دمشقی اور محمد بن خالد نے ہم سے بیان کیا : فریالی نے ہمیں بتایا کہ اسے صبیح بن محرز حمصی نے اور اسے ابو مصبح مقرائی نے
بتا یا : ہم ابو زہیر نمیری کے پاس بیٹھے تھے جو صحابی تھا ۔ وہ بہترین باتیں کر رہاتھا ۔ جب ہم میں سے کوئی شخص دعا کرتا تو وہ کہتا تھا : اس کے آخر میں آمین کہو کیونکہ ’’آمین ‘‘ اس مہر کی طرح ہے جو خط کے آخر میں لگائی جاتی ہے ۔ ابو زہیر کہتے ہیں : میں تمہیں اس کی وجہ بتا تا ہوں ۔ ایک رات ہم رسول اللہ کے ساتھ باہر نکلے ۔
پس ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو بہت اصرار کے ساتھ سوال کررہا تھا ۔ رسول اللہﷺ نے ٹھہر کر اس کی باتیں سنیں اور فرمایا : اگر وہ اس پر خاتمہ کرتا تو اس کی حاجت رو ا ہوتی ۔ ایک شخص نے پوچھا وہ کس چیز پر خاتمہ کرتا ؟ فرمایا :آمین پر کیونکہ اگر وہ اپنی حاجت کے آخر میں آمین کہے تو وہ روا ہوگی ۔ پس رسول اللہ ﷺسے پوچھنے والا شخص اس مرد (جو مانگ رہاتھا ) کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا : اے فلان! اپنی حاجت کے آخر میں آمین کہو اور حاجت روائی کی خوشی مناؤ ۔ یہ محمود کے الفاظ ہیں ۔ ابو داؤد کابیان ہے : مقراء حمیر کے ایک قبیلے کا نام ہے ۔
(دیکھئے سنن ابی داؤد ،ج۱،ص ۲۴۷،کتاب الصلاۃ ،باب التامین وراء الامام ،ح۹۳۸۔)
پہلی روایت پر تبصرہ : اس کی سند میں اختلاف ہے ۔ حافظ اپنی کتاب التلخیص میں کہتے ہیں : اس کی سند درست ہے ۔ دارقطنی نے اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ ابن قطان نے اسے کمزور قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا راوی حجر بن عنبس مجہول الحال ہے ۔
(دیکھئے عون المعبود فی شرح سنن ابی داؤد ،ج۲،ص ۱۴۵ ۔)
دوسری روایت پر تبصرہ : اس کا ایک راوی علی بن صالح ہے جبکہ درست علاء بن صالح ہے جیسا کہ تہذیب الکمال کے مولف نے کہا ہے۔
(دیکھئے یوسف المزی کی تہذیب الکمال ،۲۲،ص ۵۱۱ ، سوانح نمبر ۴۵۷۲ ۔)
اس روای کی وثاقت میں اختلاف ہے ۔ ابن معین اور ابو حاتم کہتے ہیں : اس کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ابن مدینی کہتے ہیں : اس نے ناقابل قبول احادیث نقل کی ہیں اور بخاری نے کہا ہے : اس کی روایت پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔
(دیکھئے تہذیب التہذیب ،۸،ص ۱۶۸ ، نمبر ۳۳۱۔)
ابن حجر عسقلانی ’’التقریب ‘‘میں رقمطراز ہیں : وہ سچا لیکن اوہام کا شکار ہے ۔
(دیکھئے یوسف المزی کی تہذیب الکمال ،ج ۲۲،ص۵۱۲،حاشیہ ۔)
تیسری روایت پر تبصرہ: اس روایت کے سلسلۂ سند کا ایک راوی عاصم احول ہے ۔
ابن حبان اس کے بارے میں کہتے ہیں : یحیی بن سعید اس کی طرف کم میلان رکھتا تھا اور ابن ادریس نے کہا ہے : میں نے یحیی کو بازار میں آکر یہ کہتے ہوئے دیکھا : اسے روکو ۔میں اس سے کوئی چیز نقل نہیں کروں گا ۔ اسی طرح وہیب نے اس کی روایات کو ترک کیا تھا کیونکہ اسے اس کے بعض کاموں پر اعتراض تھا ۔
(دیکھئے ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب ،ج۶/ ۳۹،نمبر ۷۳۔)
چوتھی روایت پر تبصرہ
اس حدیث کا ایک راوی ابو مصبح مقرائی ہے جس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔ابو حاتم رازی کہتے ہیں : یہ شخص اپنی کنیت کے ذریعے نہیں پہچانا جاتا۔ پس اس کے نام کی کیا پہچان ہوگی ؟ ابو عمر و نمری نے اس سے یہ حدیث نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند درست نہیں ہے ۔
(عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ،ج۳،۴،ص ۱۵۱۔)
ج۔سنن ترمذی میں مذکور روایات:
(سنن ترمذی ،ج۲،ص ۳۰،کتاب الصلاۃ ،باب ما جاء فی التامین ۔)
پہلی روایت : محمد بن بشار بندار نے ہم سے کہا کہ یحیی بن سعید اورعبد الرحمن بن مہدی نے سفیان سے ،اس نے سلمہ بن کہیل سے ، اس نے حجر بن عنبس سے اور اس نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے رسول اللہﷺکو
"غیرالمغضوب علیهم ولا الضآلّین"
پڑھتے سنا ۔
اس کے بعد آپ نے اپنی آواز کھینچ کر آمین کہا ۔
(سنن ترمذی ،ج۲،ص ۲۹، حدیث ۲۴۹،باب ما جاء فی التامین ۔)
دوسری روایت : ابو عیسی کہتا ہے : ہم سے ابو بکر محمد بن حبان نے کہا کہ اس سے عبد اللہ بن نمیر نے اور اس سے علاء بن صالح اسدی نے کہا کہ اس نے سلمہ بن کہیل سے ، ا س نے حجر بن عنبس سے اور اس نے وائل بن حجر سے رسول اللہ کی ویسی حدیث نقل کی ہے جیسی سفیان نے سلمہ بن کہیل سے نقل کی ہے ۔
( سنن ترمذی ،ج۲،ص ۲۷، حدیث ۲۴۸،باب ما جاء فی التامین ۔)
پہلی روایت پر تبصرہ
اس کا ایک راوی بندار ہے جو بعض ارباب رجال کے ہاں حجت اور موثق نہیں ہے ۔اس پر جھوٹ کا الزام ہے اور فلّاس نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے ۔عبد اللہ دورقی کہتا ہے : ہم یحیی بن معین کے پاس موجود تھے ۔وہاں بندار کا ذکر آیا تو میں نے دیکھا کہ یحیی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے ضعیف سمجھتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ قواریری بھی اسے پسند نہیں کرتا ۔
( دیکھئے ذہبی کی میزان الاعتدال ،ج۳،ص ۴۹۰،نمبر ۷۲۶۹۔)
دوسری روایت کا جائزہ
اس روایت کی سند ناقص ہے کیونکہ اس کے دو راوی حجر بن عنبس اور علی بن صالح ہیں جو اہل سنت کے بعض علمائے رجال کے بقول (جیساکہ ذکر ہوچکا ) مجہول یا ضعیف ہیں ۔علاوہ ازیں اس حدیث اور دیگر صحیح احادیث میں تعارض پایا جاتا ہے ۔
نتیجۂ بحث
نمازمیں سورہ الحمد کے بعد آمین کہنے کے بارے میں جو گفتگو ہوئی اس کا نتیجہ اور خلاصہ کچھ یوں ہے :
الف ۔ نماز ایک عبادت ہے اور تمام مذاہب کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ عبادات توقیفی ہیں یعنی عبادات کی ماہیت اور احکام کی تعیین صرف شارع کا کام ہے ۔
ب۔ برادران اہل سنت کے ہاں معتبر کتب ِصحاح میں نبی ﷺکے نماز کا طریقہ نقل ہوا ہے جس میں آمین کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ ان روایات کے راوی اہل سنت کے ہاں ثقہ اور قابل اعتبار ہیں ۔
ج۔ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو نماز میں آمین کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ ان کے نانا کی سنت محفوظ رہے اور نماز میں قسم قسم کی نئی چیزیں شامل کرنے کی راہ مسدود ہو ۔
د۔ ائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات میں ائمہ کی نماز کا طریقہ مذکور ہے ۔ائمہ کی نماز کا یہ طریقہ رسول اللہﷺ کی نماز کے طریقے کے عین مطابق ہے ۔ائمہ کی نماز میں بھی آمین کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔یہ نکتہ اہل بیت سے مروی احادیث اور اہل سنت کی صحاح میں مذکور بعض روایات کے درمیان قدرِ مشترک ہے ۔
ادھر نماز میں آمین کہنے کےمسئلے میں علمائے امامیہ کا موقف ان کے ہاں معتبر روایات کے مطابق ہے۔ اسی بناپر انہوں نے فتوی دیا ہے کہ نماز میں آمین کہنا جائز نہیں ہے ۔
نماز میں آمین کہنے کے بارے میں علمائے اہل سنت کا موقف ان کے ہاں مذکور روایات کے برخلاف ہے۔ چنانچہ ہم نے دیکھ لیا کہ ان کے ہاں مذکور بعض روایات میں نماز کے اندر آمین کہنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے جبکہ ان روایات کے راوی ثقہ ہیں ۔
رہیں وہ روایات جن میں آمین کہنے کو نماز کی سنتوں میں سے قرار دیا گیا ہے تو ان کی اسانید کمزور اور ضعیف ہیں جس کی وجہ سے وہ حجت نہیں ہیں ۔