امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نماز میں "آمین" کہنے کا فقہی مسئلہ، ایک تحقیقی جائزہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نماز میں "آمین" کہنے کا فقہی مسئلہ۔ ایک تحقیقی جائزہ
تمہید: 
نماز میں سورہ ٔ الحمد کے بعد آمین  پڑھنے کے بارے میں  اسلامی مذاہب کے درمیان مختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔
مکتب اہل بیت کا موقف یہ ہے کہ نماز میں  آمین پڑھنا  غیر مسنون ہے اور  اس سے نماز  ٹوٹ جاتی ہے  کیونکہ  یہ ایک اضافی  چیز ہے  جس کا استحباب بھی  ثابت  نہیں ہے ۔ 
دیگر مذاہب  کے درمیان اس بارے میں اختلاف موجود ہے  ۔اہل سنت  کے چار میں سے تین  مذاہب  اسے نماز کی سنتوں  میں سے ایک سنت قرار دیتے ہیں  جبکہ  چوتھا  مذہب  اسے مندوب  سمجھتا ہے  ۔
جزیری کہتے ہیں :  نماز کی سنتوں  میں سے ایک یہ ہے کہ نمازی  سورہ  فاتحہ پڑھنے کے بعد  آمین کہے ۔
(آمین صرف ام القرآن (سورہ فاتحہ ) کے بعد کہا جاتا ہے ۔ پس اگر کوئی  اسے نہ کہے تو اس کی قضا نہیں۔ دیکھئے امام شافعی کی کتاب الام ،۱/۱۳۱،باب التامین عندالفراغ من قرائۃ  ام القران ۔)
یہ امام  ،ماموم اور فرادی نماز پڑھنے  والے کے لئے  سنت ہے ۔ اس بات پر تین اماموں  کا اتفاق ہے  جبکہ مالکی کہتے  ہیں :یہ  سنت نہیں ہے بلکہ مندوب  ہے۔
(دیکھئے عبدالرحمن الجزیری کی ؛ الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ،۱/۲۵۰ ،حکم الا تیان بقول آمین ۔)
اس حکم کے بارے میں  اسلامی مذاہب  کے درمیان  پائے جانے والے اختلاف  کی وجہ  وہ شرعی دلائل  ہیں  جن کی بنیاد  پر فتوی  دیا جاتا ہے ۔
با لفاظ دیگر  دونوں مکاتب فکر  ( مکتب اہل بیت اور مکتب اہل خلفاء )نے اس حکم شرعی کے استنباط میں مخصوص دلائل کا سہارا لیا ہے ۔ آنے والے صفحات میں ہم دونوںمکاتب فکر کے نقطۂ  نظر سے اس مسئلے کا جائزہ لیں گے جس کے نتیجے میں ہم یہ جان سکیں گے  کہ ان دونوں میں سے کس کا موقف سنتِ محمدیہ سے ہماہنگ ہے ۔ اس سلسلے میں ہم  درج  ذیل سات  فصول کے تحت بحث کریں گے۔ 
پہلی فصل :  سب عبادات توقیفی ہیں 
یاد رہے کہ نماز ایک عبادت ہے جبکہ یہ بات ثابت شدہ اور مسلمہ ہے کہ عبادات کی کمیت و کیفیت ، ان کی بر وقت   یاوقت گزرنے  کے بعد  ادائیگی  اور ان کا  واجب یا مندوب ہونا نیز ان کے اجزاء و شرائط  توقیفی ہیں یعنی شریعت کی طرف سے بیان اور معین ہوتے ہیں ۔ پس نماز کی جو کیفیت  رسول کریم ﷺنے بیان فرمائی  یا دکھائی ہے اس کے دائرے سے بلا دلیل خارج ہونا  اور اس میں کمی بیشی کرنا تشریع ( شریعت میں دخل اندازی ) اور عبادت کے باطل  ہو نے کا موجب  ہے ۔ اس مسئلے میں تمام اسلامی فرقوں کے درمیان اتفاق پایا جاتا  ہے  جس میں کوئی اختلاف  نہیں ہے ۔ 
علامہ کاشف الغطاء فرماتے ہیں : ہر وہ عبادت یا معاملہ  و غیرہ جس کے حکم کو بیان کرنا شریعت کی ذمہ داری ہے اسے کسی شرعی دلیل کے بغیر انجام  دینا  جائز نہیں ہے ۔ پس جو شخص شرعی دلیل کے بغیر کوئی عبادت  یا معاملہ و غیرہ بجالائے تا کہ اصول و فروع یا عبادات  ومعاملات  میں لوگ اس کی پیروی کریں اور اس کے حکم کو بقا حاصل ہو یا وہ شرعی دلیل  کے بغیر  کوئی حکم صادر  کرے وہ  دین میں نئی چیزیں  ایجاد  کرنے  والا ( مخترع ) شمار ہوگا ۔اگر وہ اسے شریعت  سے منسوب کرے تو وہ  بدعتی محسوب ہوگا ۔ یاد رہے کہ بدعت وہ عبادت ہے جو سنت کے مقابلے  میں ہو ۔گاہے پہلی قسم ( اختراع ) کو بھی بدعت  کہا جاتا ہے ۔ 
جو شخص ان میں سے کسی چیز کو شریعت  مقدسہ میں داخل کرتے ہوئے بجا لائے لیکن سرایت  کا ارادہ نہ کرے وہ اپنی طرف سے احکام دین تراشنے والا (مشرع)کہلائےگا ۔
(دیکھئے  شیخ جعفر کاشف الغطاء  کی کشف الغطاء ،۱/۲۶۹۔)
بنابریں عبادات کی ماہیت  اور ان کے احکام کو بیان کرنا شریعت کی ذمہ داری ہے۔
(دیکھئے الفوائد الحائریہ ،ص ۴۷۸،فائدہ نمبر ۳۸ نیز کشف اللثام ،۳/۴۱۸۔) 
ابن قدامہ کی المغنی میں مذکور ہے : خالص عبادات توقیفی  ہیں (یعنی شریعت کی طرف سے بیان اور تعیین پر موقوف ہیں )۔ کوئی عبادت  خاص کر نماز قیاس و تعلیل کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی ۔ یاد رہے کہ شارع نے نماز کے خطبوں  میں مخصو ص الفاظ کو ضروری قرار نہیں دیا  کیونکہ خطبے وعظ اور نصیحت  کے لئے  ہوتے ہیں  جو مختلف حالت میں مختلف ہوتے ہیں ۔ اس کے بر خلاف نماز کے بارے میں نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے: 
صلوا کما رأیتمونی اصلی 
(دیکھئے صحیح بخاری ،۷/۷۷، کتاب الادب نیز ج۸/ ۱۳۳ ،باب ماجاء فی اجازۃ الخبر الواحد فی الاذان والصلاۃ نیز سنن دار قطنی ،۱/۲۷۳ ،کتاب الصلاۃ ،باب ذکر الامر  بالاذان والاقامۃ ۔)
  تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔
(دیکھئے ابن قدامہ کی المغنی ،۱/ ۵۰۶۔) 
معاملات  اور عبادات میں فرق واضح ہے ۔ وہ یوں کہ معاملات ان الفاظ پر  موقوف ہوتے ہیں جو معاملات کے مقصد کو بیان کرتے ہیں  یا اس چیز پر موقوف  ہوتے ہیں جو الفاظ  کی جگہ لے ۔ علاوہ ازیں معاملات کا ثبوت  اعتباری اور وضعی ہے جبکہ احکام ،خدا کی طرف سے معین ہوتے ہیں ۔ پس جب  نماز کے بشمول عبادات  توقیفی ہیں اور ان میں اپنی طرف  سے کسی چیز  کو داخل کرنے کی گنجائش  نہیں لہذا نماز میں اضافی کلام کو شامل  کرنے سے نماز باطل ہوتی ہے۔
اسی طرح ہر وہ اضافی چیز جو شریعت نے نہیں بتائی نماز کو باطل کرتی ہے ۔
اس تمہیدی  بیان اور  اس کی حقیقت  کو تسلیم کرنے کے بعد  اب ہم لفظ ’’ آمین‘‘  کا رخ کریں گے جس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں  اور یہ دیکھیں گے کہ کیا نماز میں  سورہ الحمد  کے بعد  اسے زبان پر لانا مستحب ہے ؟ 
کیا یہ رسول ﷺکی وہ سنت ہے  جس کے بغیر  نماز باطل ہوتی ہے  یا اسے کہنے سے نماز باطل ہوتی ہے کیونکہ یہ ایسا اضافی لفظ ہے جس کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے ؟ 
صحاح میں نماز کی کیفیت کا بیان 
جب ہم ان روایات کا جائزہ لیتے ہیں جن میں تفصیل کے ساتھ نبی کی نماز کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے تو زیر بحث موضوع کے بارے میں حقیقی شرعی موقف  کھل کر سامنے آتا ہے۔ کتب صحاح میں نبی کی نماز کا جو طریقہ بیان ہوا ہے اس کے مطابق آنحضرت ﷺنے سورہ الحمد  کے بعد آمین نہیں پڑھی ۔ 
ان روایات میں سے ایک ابو حمید ساعدی کی حدیث ہے جسے ایک سے زیادہ محدثین نے نقل کیا ہے ۔
 اسے ہم یہاں بیہقی کے  الفاظ میں نقل کریں گے ۔
بیہقی کہتے ہیں  : ابو علی عبد الحافظ  نے ہمیں خبر دی کہ ابو حمید ساعدی نے کہا : 
  میں رسول اللہﷺ کی نماز  کے بارے میں  تم  سب سے زیادہ  آگاہی رکھتا ہوں۔ لوگوں نے کہا : وہ کیسے ؟
  نہ تم نے ہم سے زیادہ رسول  کی متابعت کی ہے اور نہ  تمہیں  ہم سب سے  پہلے رسول کی مصاحبت  کا  شرف حاصل ہوا ہے  ؟ ابو حمید نے کہا : کیوں نہیں!
ان لوگوں نے کہا : پس ہمارے سامنے اسے پیش کرو  ۔
ابو حمید نے کہا : جب رسول اللہﷺ نماز  کے لئے کھڑے ہوتے تھے  تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں  کی سطح  تک اوپر اُٹھاتے تھے اور تکبیر کہتے تھے  یہاں تک کہ آپ کا ہر عضو ِبدن  اپنی اپنی  جگہ  ساکن ہوجائے ۔
اس کے بعد  آپ (حمد و سورت ) پڑھتے تھے ،پھر تکبیر کہتے تھے ، اور اپنے  دونوں  ہاتھوں   کو کندھوں کی سطح تک اوپر اُٹھاتے  تھے ،پھر رکوع  کرتے  تھے اور اپنی  دونوں  ہتھیلیاں  اپنے  گھٹنوں  پر رکھتے  تھے ،پھر آپ کا بدن اعتدال و سکون   کی حالت  میں   آتا تھا  ۔(رکوع میں )آپ  نہ اپنا سر (معمول سے زیادہ)اوپر اُٹھاتے تھے نہ  نیچے جھکاتے تھے ۔ پھر اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تھے اور کہتے  تھے:سمع اللہ لمن حمدہ۔پھر اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر  اٹھاتے  تھے یہاں تک کہ آپ کے بدن کا  ہر عضو اپنی  اپنی جگہ  اعتدال  اور سکون  کی حالت  میں آجاتا تھا  ۔اس کے بعد آپ  اللہ اکبر  کہتے تھے۔ پھر  سجدے  میں جاتے  تھے  اور اپنے دونوں  ہاتھوں کو  اپنے پہلوؤں  سے فاصلے پر رکھتے  تھے  ۔اس کے بعد آپ  اپنا  سر (سجدے سے ) اُٹھاتے  تھے اور بایاں  پاؤں  تہہ کر کے  اس پر بیٹھتے تھے ۔ سجدے میں آپ  اپنے  دونوں  پیروں  کی انگلیاں  کھلی رکھتے تھے ۔اس کے بعد  پھر (سجدے میں )لوٹتے تھے ۔پھر سجدے  سے سر اُٹھاتے  تھے اور کہتے  تھے : اللہ اکبر  ۔پھر اپنا  پاؤں تہہ  کر کے  اس پر  سیدھے  ہوکر بیٹھتے  تھے یہاں تک کہ آپ  کے بدن کا  ہر عضو   اپنی اپنی جگہ معتدل  اور ساکن  ہوجائے۔
اس کے بعد  آپ دوسری رکعت  میں بھی  یہی  کچھ کرتے تھے ۔پھر جب آپ  دو رکعتوں  کے بعد  کھڑے ہوتے تھے  تو تکبیر  کہتے تھے  اور اپنے  دونوں  ہاتھوں  کو کندھوں کی سطح تک اُٹھاتے  تھے  جس طرح  آپ  نے نماز  کے شروع  میں  کیا تھا  اور تکبیر کہی تھی  ۔اس کے بعد  آپ  باقیماندہ  نماز بھی  اسی طرح  انجام دیتے تھے  یہاں تک کہ آپ آخری رکعت (جس میں  سلام کہا جاتا ہے ) میں اپنا  بایا ں  پیر  پیچھے کی جانب لے  جاتے اور بائیں  ران پر بیٹھ جاتے تھے۔
یہ سن کر  سب نے کہا : اس نے درست  کہا ہے۔  رسول اللہﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے ۔
(سنن بیہقی ،ج۲،ص ۱۰۵، ح ۲۵۱۷، سنن ابی داؤد ،ج۱،ص ۱۹۴، باب افتتاح الصلاۃ ،ح ۷۳۰،سنن ترمذی ،ج۲،ص ۱۰۵، ح ۳۰۴، باب صفۃ الصلاۃ ۔) 
اس  روایت کی روشنی میں  درج ذیل نکات ہمارے مدعا کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں :
پہلا نکتہ : بڑے  بڑے صحابہ  
(یہ دس لوگ تھے ،ان میں ابو ہریرہ  ،سہل ساعدی ،ابو اُسید  ساعدی ،ابو قتادہ ،حارث بن  ربعی اور محمد بن مسلمہ وغیرہ شامل  تھے ۔)
کی اتنی بڑی  تعداد نے ابو حمید  کے بیان  کی تصدیق کی ہے جو اس حدیث کی درستی اور دیگر دلائل  پر اس کی ترجیح پر دلالت کرتی ہے ۔

دوسرا نکتہ : راوی  نے واجبات ،مستحبات اور سنن کو بیان کیا ہے لیکن  آمین پڑھنے کا کوئی  تذکرہ  نہیں کیا  ہے جبکہ سامعین نے بھی  اس پر کوئی اعتراض   نیز اس کے برخلاف  کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جبکہ وہ اس کے خواہاں تھے کیونکہ انہوں نے شروع  میں  ابو حمید  کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کی نماز کے بارے میں  ان سب سے زیادہ آگاہ ہے ۔ان سب نے اس کی مخالفت کی بجائے  مل کر  کہا : تونے سچ کہا ہے ، رسول اللہﷺ اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے ۔
تیسرا نکتہ :اگر کوئی یہ کہے  کہ سامعین  اس وقت   آمین کہنے  کا مسئلہ  بھول  گئے تھے  تو یہ بہت ہی بعید از قیاس  ہے  کیونکہ  ان کی تعداد دس تھی اور وہ  اسی موضوع پر بحث کر رہے تھے ۔
چوتھا نکتہ:ان حاضرین میں سے بعض صحابہ مثلا ابوہریرہ نے آمین   کہنے کی احادیث  نقل کی ہیں  لیکن اس مجلس میں کسی نے (آمین کا ذکر نہ کرنے پر)ابو حمید ساعدی پر اعتراض نہیں کیا۔ 
پس ہمارے عرائض سے یہ واضح ہوا کہ آمین کہنا نماز کی سنتوں یا مندوبات  میں شامل نہیں ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک