امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا دفاع کیوں نہیں کیا؟
امیرالمؤمنین امام علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا دفاع کیوں نہیں کیا؟
یہودیوں اور وہابیوں کی طرف سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے دفاع کے حوالے سے جو اہم شبہ اٹھایا جاتا ہے، وہ امیر المومنین امام علی (علیہ السلام) کی بہادری اور خاموشی کے مابین ایک تضاد پر مبنی ہے۔
مختلف کتب، تحاریر اور ذرائع میں اس شبہ کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے، جس میں امام علی (علیہ السلام) کے رد عمل کو دو مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے:
شدید دفاع اور
صبر پر مبنی عمل۔
وہابی شبہ
شبہ یہ ہے کہ: جب حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) کے گھر پر عمر بن خطاب نے حملہ کیا اور ظلم کیا تو امیر المومنین امام علی (علیہ السلام)، جو بہادر ترین انسان تھے اور شیر خدا کہلاتے تھے، انہوں نے اپنی زوجہ کا دفاع کیوں نہیں کیا اور آخر خاموش کیوں رہے؟
شیعہ علماء کا جواب: دفاع کے مراحل
شیعہ علماء نے اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امام علی (علیہ السلام) ابتدائی طور پر ہرگز خاموش نہیں رہے، بلکہ انہوں نے شدید جسمانی دفاع کیا، لیکن بعد میں پیغمبر اکرم (ص) کی وصیت اور خدائی حکم کی وجہ سے صبر کا دامن تھام لیا۔
۱. ابتدائی اور شدید دفاع
ذرائع کی روشنی میں، جب حضرت زہرا (علیہا السلام) کے گھر پر حملہ ہوا تو امام علی (علیہ السلام) نے فوراً اور شدید رد عمل دکھایا:
جب حملہ آور گھر میں داخل ہوئے، تو مولا علی (علیہ السلام) عمر بن خطاب کے سامنے آئے، اور انہیں زمین پر پٹخ دیا۔
آپ (علیہ السلام) نے عمر کے چہرے اور ناک پر گھونسے مارے۔
سلیم بن قیس ہلالی کی روایت اس دفاع کی تفصیلات فراہم کرتی ہے: جب عمر نے دروازے کو آگ لگائی، اندر داخل ہوا، اور پھر تلوار کی نیام سے حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے پہلو میں ماری اور بازو پر تازیانہ مارا۔
یہ دیکھ کر، امام علی (علیہ السلام) فوراً اٹھے، عمر کی گردن کو پکڑ کر زور سے کھینچا اور زمین پر دے مارا۔ آپ نے اس کی ناک اور گردن پر گھونسے مارے، اور آپ (علیہ السلام) اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔
اہل عامہ کے بزرگ عالم، آلوسی بغدادی کی روایت بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ عمر نے فاطمہ (علیہا السلام) کے پہلو پر نیام سے تلوار ماری اور تازیانہ مارا، جس کے بعد علی (علیہ السلام) نے عمر کی گردن پکڑ کر اسے زور سے کھینچا، زمین پر پٹخا، اور اس کی ناک و گردن پر گھونسے مارے۔
۲. صبر اور تقدیر الہٰی کے سامنے تسلیم
اگرچہ امام علی (علیہ السلام) غلبہ پا چکے تھے اور عمر کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت یاد آ گئی۔ اسی وصیت کی وجہ سے انہوں نے جھگڑے کو جاری رکھنے سے گریز کیا اور صبر کا حکم مانا۔
وصیت اور عہد:
امام علی (علیہ السلام) نے عمر کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ "اگر میں صبر سے کام نہ لیتا، اور خدا نے مجھے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا تو کسی کو میرے گھر میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوتی"۔
آپ (علیہ السلام) نے قسم کھائی: "اگر تقدیر الٰہی اور وہ عہد نہ ہوتا جو نبی نے مجھ سے لیا تھا، تو تمھیں جرأت نہ ہوتی میرے گھر میں داخل ہونے کی"۔
امیر المومنین (علیہ السلام) کی زندگی خدا کے احکام کے تابع تھی، اور ان مصیبتوں کے مقابلہ میں انہیں خدا اور اس کے رسول کی طرف سے صبر کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی حکم کی بنا پر آپ نے تلوار کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
رسول اللہ (ص) کا آخری حکم:
سید رضیالدین موسوی اپنی کتاب خصائص الائمہ میں رسول اللہ (ص) کی وہ وصیت نقل کرتے ہیں جو انہوں نے ہوش میں آنے کے بعد علی (علیہ السلام) کو فرمائی:
رسول اللہ (ص) نے فرمایا: "یہ لوگ مجھے چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہو جائیں گے... میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ یہ گروہ جو کچھ بھی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ کرے گا اس پر صبر کرنا، یہاں تک کہ مجھ سے آکر ملو"۔
۳. حضرت فاطمہ (س) کا خود دفاع
ایک اور روایت یہ بھی بیان کرتی ہے کہ جب امام علی (علیہ السلام) کو قنفذ ملعون اور اس کے ساتھی (جو تعداد میں زیادہ تھے) پکڑ کر لے جا رہے تھے:
حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) دروازے پر ان لوگوں کے درمیان رکاوٹ بنی، جس پر قنفذ ملعون نے ان کو تازیانہ مارا۔
اس ظلم کی وجہ سے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بیہوش ہو گئیں۔
خلاصہ
وہابیوں کا شبہ کہ امام علی (علیہ السلام) بہادر ہونے کے باوجود خاموش رہے، ان حقائق سے رد ہو جاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف شدید جسمانی دفاع کیا، بلکہ اس لڑائی کو طول اس لیے نہیں دیا کیونکہ یہ خدا کا حکم تھا اور آپ رسول اللہ (ص) کے آخری عہد کے پابند تھے کہ امت میں مزید انتشار روکنے کی خاطر صبر کیا جائے۔ آپ کا صبر، اطاعت اور تقدیر الہٰی کے سامنے تسلیم ہونے کا مظہر تھا، نہ کہ کمزوری یا بہادری کی کمی کا۔
یہ صورتحال ایسی ہے جیسے کسی اعلیٰ پائلٹ کو دشمن کے حملے کا شدید جواب دینے کا حکم ہو، لیکن عین وقت پر اسے اعلیٰ کمانڈ سے ایک خفیہ کوڈ مل جائے کہ مزید کارروائی روکی جائے تاکہ ایک بڑا جنگی مقصد حاصل کیا جا سکے؛ اگرچہ وہ لڑنے کے قابل ہے، مگر وہ نظم و ضبط کی بنا پر ہتھیار رکھ دیتا ہے۔