امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

قرآن کا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی زندگی میں کردار (پہلا حصہ)

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

پروگرام: سمت خدا  (ایرانی ٹی وی چینل3)
موضوع: قرآن کا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی زندگی میں کردار(پہلا حصہ)  
میزبان: شریعتی
مہمان: حجۃ الاسلام والمسلمین حسینی قمی  
بسم الله الرحمن الرحيم

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

چنانکه دست گدايي شبانه مي‌لرزد *** دلم براي تو با هر بهانه مي‌لرزد
هنوز کوچه به کوچه حکايت از مردي است *** که دست بسته‌ي او عاشقانه مي‌لرزد
چه رفته است به ديوار و در که تا امروز *** به نام تو در و ديوار خانه مي‌لرزد
چه ديده در که پياپي به سينه مي‌کوبد *** چه کرده شعله که با هر زبانه مي‌لرزد
دگر نشان مزار تو را نخواهم ساخت *** که در جواب، زمين و زمانه مي‌لرزد
ز من شکيب مجو کوه صبر اگر باشم *** همين که نام تو آرند، شانه مي‌لرزد 

اردو ترجمہ:
لہٰذا راتوں کو گدائی کا ہاتھ کانپتا ہے  * میرا دل تیرے  لئے ہر بہانے سے‌لرز تاہے  
ابھی تک کوچہ بہ کوچہ مردوں کی داستاں ہے  * کہ بندھا ہوا اس کادستِ عاشقانہ  ‌لرزتا ہے  
کیا گزری ہے دیوار اور در پر کہ آج تک * تیرے نام سے گھر کے در و دیوار ‌لرزتے ہیں  
کیا دیکھا ہے آنکھ نے کہ مسلسل سینے پر مارتی ہے * کیا کیا ہے شعلے نے کہ ہر زبان سے ‌لرزتا ہے  
میں تیری قبر کا کوئی اور نشان نہیں بناؤں گا  * کیونکہ جواب میں زمین و زمانہ ‌لرز تا ہے  
مجھ سے صبر کے پہاڑ کی شکایت مت مانگو اگرچہ میں ہوں  * بس اتنا کہ جب تیرا نام لیا جاتا ہے، میرا کندھا  ‌لرز تا ہے

شریعتی: « اللّهمَّ صَلِّ عَلی فاطِمَهَ وَ ابیها وَ بَعلِها و بَنیها [وَ السِّرِ المُستَودَعِ فیها] بِعَددِ ما احْاطَ بِه عِلْمُکَ»
سلام کرتا ہوں آپ سب عزیز ہم وطنوں کو۔ خواتین و حضرات، جن کے دل حضرت زہرا کی محبت سے لبریز ہیں۔ آپ کی عزاداریاں قبول ہوں۔
 حاج آقائے حسینی! سلام علیکم! بہت خوش آمدید۔ 
ايام ِشهادتِ حضرت  فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی مناسبت پر آپ کو تسلیت پیش کرتا ہوں۔
حاج آقائے حسینی: پروگرام "سمت خدا"کے تمام ناظرین و سامعین کو سلام پیش کرتا ہوں۔ حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ایام شہادت  کے حوالے سےسب کو تسلیت پیش کرتا ہوں۔
 ان شاء اللہ! تمام عزیز ناظرین ان راتوں اور دنوں میں جو حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ایام شہادت ہیں، ان کی مجالس میں خوب شریک ہوں۔ مجالس کا قیام، مجالس میں شرکت، یقین رکھیں کہ ہم اپنی زندگی کا ایک گھنٹہ دن یا رات میں جو حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)  کی مجالس کے  لئے صرف کرتے ہیں، وہ ضائع نہیں جاتا۔ اس دن جسے قرآن میں
 «يَوْمَ‏ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيه‏» (عبس:34)
 سے تعبیر کیا گیا ہے، جب ہر شخص اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ بیٹا باپ سے، ماں باپ بیٹے سے، 
«يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُون‏» (شعرا:88) 
اس دن جب کوئی چیز ہمارے کام نہیں آئے گی، وہ ایک ایک گھنٹے جو ہم نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مجالس میں شرکت کے  لئے صرف کیے ہیں، یقیناً ہمارے کام آئیں گے۔ شہادت کا دن جمعہ سے پہلے والا دن (جمعرات) ہے۔ ہمیں حضرت زہرا کے  لئے اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
 گزارش کرتا ہوں کہ حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا)  کی مجالس کو حضرت سید الشہداء(سلام اللہ علیہ)  کی مجالس کی طرح گرم اور پر جوش کریں۔ چوبیس گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ ایک مجلس کے  لئے مختص کریں، ان شاء اللہ بہترین اور اچھے طریقے سے منعقد ہوں۔

شریعتی: ان دنوں اور راتوں میں جب آپ مجالس عزاداری میں شرکت کریں تو ان شاء اللہ ہمارے  لئے اور تمام اچھے دوستوں کے  لئے دعا کریں۔ ان تمام لوگوں کے  لئے جنہوں نے التماس دعا کہا ہے اور ان کی امیدیں آپ کی نیک دعاؤں سے وابستہ ہیں۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ حاج آقائے حسینی آج ہمارے  لئے کیا تحفہ لائے ہیں۔

حاج آقائے حسینی: میرا آج کا موضوع "قرآن کا حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی زندگی میں کردار "ہے۔
 اس کردار کو چار مراحل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
 پہلا مرحلہ تلاوت قرآن ہے۔ یہ حدیث مشہور ہے اور ہم نے بارہا سنا ہے کہ صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے فرمایا:
 « حُبِّبَ إلَىَّ من دُنياكُم ثَلاثٌ‏»
 تمہاری دنیا کی تین چیزیں مجھے محبوب ہیں۔
 میری دنیا میں خوشی انہی تین چیزوں کی وجہ سے ہے۔ میرا تعلق دنیا سے انہی تین چیزوں کی وجہ سے ہے۔ سب سے پہلے فرمایا:
 «تِلاوَةُ كِتابِ اللّه» 
(خوشا بحال ان لوگوں کو جن کی دلخوشی تلاوت قرآن ہے)۔
 اگر مجھ سے، آپ سے اور عزیز ناظرین سے پوچھا جائے، ہمارے درمیان ایک کاغذ تقسیم کیا جائے اور کہا جائے کہ: فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی تمام دلخوشی وہ تین چیزیں ہیں جو روایات میں آئی ہیں۔ آپ بھی لکھیں، دنیا میں آپ کی دلخوشی کیا ہے؟ 
دنیا سے ہمارا تعلق کیا ہے؟ 
البتہ آپ جانتے ہیں جب ہم کہتے ہیں: دنیا سے تعلق، کیونکہ مجھ سے اکثر کہا جاتا ہے: آپ جب بھی بات کرتے ہیں تو دنیا کی مذمت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار آیت اللہ جوادی آملی (دام ظلہ)فرماتے تھے: 
یہ جو دنیا کی مذمت ہوئی ہے، دنیا کی کس چیز کی مذمت ہوئی ہے
؟ دنیا میں کون سی چیز مذموم ہے؟
 دنیا سے مراد آسمان ہے، زمین ہے، سمندر ہیں، جنگل ہیں، کیا ان کی مذمت ہوئی ہے؟ 
یہ تو خود پروردگار کی مخلوق ہیں۔ خدا ان کی مذمت نہیں کرتا۔ یا پھر کسب معاش اور تجارت کی مذمت ہوئی ہے؟ 
یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ تجارت اور کسب معاش کے بارے میں کتنی ہی روایات ہیں جیسے 
« الْكَادُّ عَلَي‏ عِيَالِهِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ‏» (کافی، ج5، ص88)
 (اپنے اہل و عیال کی روزی کے  لئے محنت کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے)۔
 تاجر حبیب خدا ہے۔ لہٰذا دنیا سے مراد کسب معاش بھی مذمت نہیں ہوئی۔ زمین و آسمان اور سمندر سے مراد بھی مذمت نہیں ہوئی۔
 پھر کس چیز کی مذمت ہوئی ہے؟
 امیر المومنین نے تیسری چیز کی طرف نہج البلاغہ میں اشارہ فرمایا ہے۔ فرمایا:
 « وَأَقِلُّوا الْعُرْجَةَ عَلَى الدُّنْيَا» (نہج البلاغہ/خطبہ 204) 
(دنیا پر ٹیک لگا کر نہ بیٹھو) دنیا کے اسیر نہ بنو، دنیا کے دل بستہ نہ بنو۔ ساری کائنات تمہارے  لئے ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن یہ طور نہ ہو کہ جب کہا جائے چلو، تو تمہارا جانا مشکل ہو جائے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں، اگر دنیا مذموم ہوتی، تو دنیا کا مالک ہونا بھی مذموم ہوتا، تب تو پیغمبر حضرت سلیمانؑ کی طرح نہ کہتے: 
«رَبِّ اغْفِرْ لِي وَ هَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَد» (سوره "ص":35) 
[اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو کسی کے لائق نہ ہو]۔
 یعنی ایسی حکومت، ایسی سلطنت مجھے عطا کر، جو سلیمان سے پہلے اور سلیمان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو۔ سورہ سبأ میں ہے، عزیزوں سے گزارش ہے کہ وہ اسے دیکھیں۔
 «يَعْمَلُونَ لَهُ ما يَشاءُ مِنْ مَحارِيبَ وَ تَماثِيلَ» (سوره "سبأ:13) 
[وہ (جنات) ان کے  لئے (سلیمان کے  لئے) بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتے تھے محرابیں اور تصویریں]۔
 قرآن کریم فرماتا ہے: یہاں تک کہ جن و انس اور پرندے سلیمان کے لشکر تھے اور سلیمان کی خدمت میں تھے۔ انہوں نے جنات کو خدمت میں لگا رکھا تھا۔
 «وَ حُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ وَ الطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ» (سوره نمل:17)
 [اور سلیمان کے  لئے ان کے لشکر جنوں، انسانوں اور پرندوں میں سے جمع کیے گئے، پھر وہ (صف بندی کے  لئے) روکے جا رہے تھے]۔ جن و انس اور پرندے ان کی خدمت میں تھے۔ 
یہ بری بات نہیں کہ انسان کے پاس طاقت ہو اور حکومت ہو۔ دنیا ہو، زندگی ہو، بس اس کا دل اس سے لگا ہوا نہ ہو، جس دن کہا جائے کہ چلو، تو چل پڑیں۔
اللہ رحمت کرے، مرحوم آیت اللہ شیخ عباس تہرانی (رہ) کی اچھی کتابیں ہیں اور وہ قم میں آیت اللہ العظمی حائری(رہ)  کے پاؤں کے پاس دفن ہیں۔ ان کی وفات کو تقریباً پچاس سال گزر چکے ہیں۔ ایک بار میں نے ایک استاد سے پوچھا، ہم جب ان کا نام لیں تو کیا کہیں؟ حجت الاسلام کہیں؟ حجت الاسلام والمسلمین کہیں؟ 
انہوں نے فرمایا:آپ کو انہیں دس آیت اللہ کہنا چاہیے۔
 بہت ہی بزرگوار انسان تھے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے: میں نے ایک گھر بنایا تھا، بہت ہی آراستہ اور احتیاط سے بنایا تھا۔ فن تعمیر اور نقشہ اور ہر چیز مکمل تھی۔ میں نے انہیں دعوت پر بلایا 
اور کہا: آپ دیکھیں ہمارا گھر اچھا ہے اور اس میں کوئی نقص نہیں ہے۔ انہوں نے گھر کو اچھی طرح دیکھا،
 پھر کہا: اس میں ایک بڑا عیب ہے۔ 
میں نے کہا: آپ اس گھر پر اور کوئی اعتراض نہیں کر سکتے! ہر چیز کا خیال رکھا گیا ہے۔
 انہوں نے فرمایا: اس کا صرف یہ عیب ہے کہ اس گھر سے دل چرانے میں مشکل ہوتی ہے۔ اگر تمہارے  لئے اس سے جدا ہونا مشکل نہیں ہے، تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر کسی دن کہا جائے: چلو، اور تمہارے  لئے جانا مشکل ہو، تو یہ دنیاوی زندگی کا بڑا عیب ہے۔
 جن و انس اور پرندے سلیمان کا لشکر تھے۔ جس دن کہا گیا: چلو، تو وہ جانے کے  لئے تیار ہو گئے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہم دیکھیں کہ دنیا میں ہماری وابستگیاں کن چیزوں سے ہیں۔

صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا)سے پوچھا گیا: دنیا میں آپ کی دلچسپی کس چیز میں ہے؟ 
ہماری سب سے اہم دلچسپی اب کیا ہے؟
 یہ دلچسپیاں ہمیں زمین پر نہ گرا دیں۔ جو کچھ بھی ہے، وہ ہمیں زمین پر نہ گرائے۔ ہم بے بس نہ ہو جائیں۔ 
«وَ لَوْ شِئْنا لَرَفَعْناهُ بِها وَ لكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ» (اعراف:176) 
[اور اگر ہم چاہتے تو ان (نعمتوں) کے ذریعے انہیں بلند کر دیتے، لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا]۔ ہم انسان کو بلند کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ خود زمین سے چمٹ گیا ہے۔

صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا: دنیا میں میری دلچسپی تین چیزوں میں ہے۔
1.    «تلاوت كتاب الله»

(کتاب اللہ کی تلاوت)۔
 حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)اور ائمہ (ع) کی سیرت میں بہت کچھ آیا ہے کہ وہ بہت قرآن پڑھتے تھے۔
 پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور ائمہ (علیہم السلام) قرآن مجید کی بہت تلاوت کیا کرتے تھے۔ 
شیخ صدوق(رح) نقل کرتے ہیں کہ امام رضا (علیہ السلام) روزانہ دس پارے قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔
 شاید کوئی کہے: ان کے پاس وقت کیسے ہوتا تھا؟
 ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ یہ مصروفیات جو ہم نے خود اپنے  لئے بنا رکھی ہیں، ورچوئل اسپیس  اور سوشل میڈیازوغیرہ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم پورے دن کا مجموعہ لگائیں کہ ہم ورچوئل اسپیس  اور سوشل میڈیازسے کتنا استفادہ کرتے ہیں، تو بہت زیادہ وقت بن جاتا ہے۔
 پھر ہم کہتے ہیں: ہمارے پاس قرآن  کی تلاوت کا وقت نہیں ہے۔

اللہ مرحوم علامہ طباطبائی پر رحمت نازل فرمائے۔ ہمارے ایک دوست جو قم میں منبر پر تقریر کرتے ہیں، وہ فرماتے تھے:
 میں انقلاب سے پہلے تبریز میں تھا۔ ایک رات ہم وہاں مہمان تھے، مرحوم علامہ طباطبائی بھی وہاں موجود تھے۔ مرحوم علامہ نے فرمایا: میں کل کہیں جانا چاہتا ہوں اور کام ہے، میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔ کیا کسی کے پاس گاڑی ہے؟
 میں نے کہا: میرے پاس ہے اور میں اول وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ صبح اول وقت میں ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ جیسے ہی وہ گاڑی میں سوار ہوئے، 
انہوں نے مجھ سے کہا: معاف کیجیے گا، میں اجازت سے پہلے ایک پارہ قرآن پڑھ لوں۔ کیونکہ چالیس سال سے میں روزانہ ایک پارہ قرآن پڑھتا ہوں۔ کل میں ایک پارہ نہیں پڑھ سکا۔ پہلے ایک پارہ پڑھ لوں پھر آپس میں بات کرتے ہیں۔
 روزانہ ایک پارہ کا مطلب ہے مہینے میں ایک قرآن ختم، یعنی سال میں 12 ختمِ قرآن ۔
 فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا: میری اصل دلچسپی قرآن کی تلاوت میں ہے۔ میں اپنے آپ سے، آپ سے اور تمام ناظرین سے سچ پوچھتا ہوں۔ آج اب تک ہم نے کتنےصفحےقرآن کی تلاوت کی ہے؟ 
کیا ایک صفحہ کی تلاوت کی ہے؟
 آخری بار جب ہم نے قرآن ختم کیا تھا، کب تھا؟
 کیا پچھلے سال کے رمضان میں تھا؟
ائمہ طاہرین( علیہم السلام )کی سیرت میں ہمارے پاس بہت سی روایات ہیں کہ یہ لوگ قرآن کی تلاوت کے کس قدر پابند تھے۔ پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود سے فرمایا:
 تم میرے  لئے قرآن کی تلاوت کرو۔
 قرآن  کی تلاوت سننا، قرآن کا اِسْتِماع (کان لگا کر سننا یاغور سے سننا)، قرآن سننا۔ لہٰذا پہلی بات، فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی زندگی میں قرآن کا کردار، قرآن کی تلاوت ہے۔ آپ نے فرمایا: 
میری دوسری دلچسپی :
«و الانفاق في سبيل الله» 
(اللہ کی راہ میں خرچ کرنا) ہے۔
 میرا دل دنیا میں اس بات سے خوش ہے کہ میں خرچ کروں۔ میرا زندہ رہنا اسی  لئے ہے کہ میں خرچ کروں۔ سورہ انسان میں آیات 5 سے 22 تک، سترہ آیات ایک انفاق فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کے بارے میں نازل ہوئیں۔
 «وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيرا» (سورہ الانسان:8) 
[اوروہ اپنی محبت کے باوجود کھانا مسکین، یتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں]۔ 
سترہ، اٹھارہ آیات قرآن حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)کے انفاق کے بارے میں نازل ہوئیں۔
 میری دلچسپی اللہ کی راہ میں انفاق کرنے میں ہے۔
امام صادق (علیہ السلام) کے ایک خادم تھے۔ ایک دن خادم نے حضرت پر اعتراض کیا کہ جب آپ (علیہ السلام) کے ہاں مہمان آتا تھا تو آپ(علیہ السلام)  اس کی پذیرائی کرتے تھے، اور جب مہمان جانے لگتا تو آپ(علیہ السلام)  اسے کچھ رقم کے ساتھ ایک کپڑا بھی عطا فرماتے تھے۔
 اس (خادم) نے کہا: ہم نے تو میزبانی کرلی، مہمان آیا اس کی قدم دھولی ٹھیک ہے، لیکن پھر آپ(علیہ السلام)  اسے جیبی خرچ کیوں دیتے ہیں؟
 ایک کپڑا بھی مہمان کو دینا ہے؟ 
حضرت نے فرمایا: 
«عن الباقرعليه السلام:ما حَسَنَةُ الدُّنيا إلاّ صِلَةَ الإخوانِ والمَعارِفِ»(بحارالأنوار،ج46، ص291)
(دنیا میں کوئی بھلی چیز نہیں ہے سوائے بھائیوں (دوستوں) کے ساتھ میل جول کے)۔
 درحقیقت دنیا میں دوسروں کی خدمت کے سوا کوئی لذت نہیں ہے۔ اگر ہماری فطرت صحیح سلامت ہو، ہم نے اسے خراب نہ کیا ہو، توناظرین اور حاضرین جواب دیں، کیا جس دن ہم تنہا کھانا کھاتے ہیں اس کی لذت زیادہ ہوتی ہے؟ 
فرض کریں گھر میں کوئی نہیں ہے، خاندان سفر پر گیا ہوا ہے، آپ خود تنہا کھانا کھانا چاہتے ہیں، تو انسان کی خواہش کھانے کی طرف نہیں ہوتی، بس اتنا کھاتا ہے کہ کمزوری نہ ہو۔ جس دن تنہا کھانا کھاتے ہو اس کی لذت زیادہ ہوتی ہے یا جس دن خاندان کے ساتھ کھاتے ہو؟ 
اگر ایک دن خاندان والے موجود ہوں، آپ نے اپنے والدین کو بھی دعوت دے رکھی ہو، تو اس دن لذت زیادہ ہوتی ہے یا پھر ایک قدم اور بڑھ کر، اگر آپ نے بھائی بہنوں کو بھی اپنے دسترخوان پر مہمان کیا ہو، بلکہ تمام رشتہ داروں کو ہی دعوت دے دی ہو؟ 
اگر ہم اپنی اس طینت اور فطرت کو خراب نہ کریں تو تنہا کھانے میں کوئی لذت نہیں ہے۔ جتنا (مل جل کر کھانے والوں کا) دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے، لذت بڑھتی جاتی ہے۔ ہم نے ناپسندیدہ اخلاقیات کی ایسی عادتیں پال لی ہیں کہ (مل جل کر کھانے کی لذت سے) محروم ہیں۔
 امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: مہمان جب آئے تو اس کی پذیرائی کرو، اور جب وہ جانے لگے تو اسے جیبی خرچ بھی دو اور کپڑا بھی عطا کرو۔ 
حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا: میری دلخوشی یہ ہے کہ میں دوسروں کی مدد کروں۔

میں تمام عزیزوں سے گزارش کرتا ہوں!
 ہم اس  سال کے آخری دنوں میں ہیں۔ انفاق بہت اچھی چیز ہے، پرانے زمانے میں اچھے رسم و رواج تھے، جن خاندانوں کے پاس کپڑے، جوتے نہیں ہوتے تھے، جو یتیم تھے، انہیں سامان اور کھانا دیا جاتا تھا۔ یہ بہت پسندیدہ کام تھا۔ اگر آپ اور میرے  لئے عید ہے، تو اس محتاج کے  لئے بھی عید ہے، اس کے بچوں کے  لئے بھی عید ہے۔ خاص طور پر جو رشتہ دار اور عزیز و اقارب میں سے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ آپ بتائیں کہ آخری سال میں کارفرما مزدوروں کی مزدوری ادا کردیں، باقی ماندہ تنخواہیں ادا کردیں۔ جب یہ ادا کریں گے تو تب ہی تو کام آئیں گی۔ پیغامات میں بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ چھ ماہ سے ہماری تنخواہیں باقی ہیں۔
 اب تو انفاق الگ چیز ہے، کم از کم یہ بات تو ہمارے ذہن سے نہ نکلے۔ آپ کی خوشی یہ ہو کہ آپ اپنے مزدور کی مزدوری بروقت ادا کریں۔ آپ کو انفاق کرنے کی ضرورت نہیں! عید قریب ہے، آپ نے گھر کی صفائی کے  لئے کسی مرد یا خاتون کو بلایا ہے، کوئی حرج نہیں ہے، مزدور کی مزدوری میں کمی نہ کریں، اسے کچھ اضافہ دے دیں! اگر مجبوری نہ ہوتی تو وہ آپ کے گھر میں کام کرنے نہ آتا۔

ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں، مرحوم محدث قمی (ره) کی کتاب "فوائد الرضویہ" میں ہے۔
 مسجد "سید" اصفہان میں ایک معروف مسجد ہے، یہ بہت بڑی اور اہم مساجد میں سے ہے۔ اس مسجد کو کس نے بنوایا ہے؟
 وہ بزرگ جن کی قبر مسجد کے کونے میں ہے، جو شیعہ کے بہت بڑے علماء میں سے ہیں، جن کا نام حجۃ الاسلام شفتی ہے۔
 یہی وجہ ہے کہ گیلان میں "شفت" نامی جگہ ہے۔ وہ (شفتی) اصفہان آکر رہے اور وہیں انتقال کیا۔ اب تو (ان کے بارے میں) کہانیاں بہت ہیں کہ خدا نے انہیں کتنا مال و دولت عطا کیا، حالانکہ شروع میں ان کے پاس کچھ نہ تھا، دوسروں کی دستگیری کی وجہ سے انہیں یہ ثروت حاصل ہوئی۔ 
انہوں نے اصفہان میں ایک نانوئی(تنور) اور ایک قصائی کی دکان صرف اور صرف ضرورت مندوں اور نیازمندوں کے مراجعت کے  لئے قائم کی تھی۔ اب بھی مجھے معلوم ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو قصائی اور نانوائی(تنور) کے پاس (رقم) جمع کراتے ہیں کہ اگر کوئی گاہک آئے اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں، مثلاً یہ دس ہزار روپے آپ کے پاس رہیں، جو کوئی ضرورت مند آئے، آپ اسے دے دیا کریں۔

حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا)کی تیسری دلخوشی:
 «والنَّظَرُ في وَجهِ رَسولِ اللّه‏»
 (رسول خدا کے چہرہ انور کی طرف دیکھنا) ہے۔
 اب ہمارے  لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے جمال کو دیکھنا ممکن نہیں ہے، شاید اس کے بدلے ہم خاتم الانبیاء پر  صلوات اوردرود بھیجیں۔
تو پہلی چیز تلاوت قرآن تھی۔دوسری انفاق فی سبیل اللہ اورتیسری جمال رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت۔تو
 حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کی زندگی میں قرآن کا کردار (ان کی) تلاوت قرآن ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کچھ لوگوں نے ہمیں پیغام بھیجا اور کہا: جس دن آپ نے کہا تھا کہ اپنے دن کا آغاز "سورہ یس" اور" آل یاسین "سے کریں، ہم ہر روز ایک "سورہ یس" اور ایک "زیارت آل یاسین" امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی طرف ہدیہ کرتے ہیں۔
 آپ وقت لیجیے، اگر یہ کام پندرہ منٹ سے زیادہ وقت لے تو کہیے کہ اب وقت نہیں ہے۔
 پہلا مرحلہ تلاوت قرآن ہے۔
دوسرا مرحلہ قرآن سے گفتگو کرنا ہے۔
 انسان قرآن کے ساتھ انس کی وجہ سے قرآن سے بات کر سکتا ہے۔ ہم نے حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کا یہ خطبہ بارہا سنا ہے اور حاج آقائے عابدینی نے بھی اسے بہت خوبصورتی سے پیش کیا۔ اگر کوئی شخص اس خطبہ کو شروع سے آخر تک پڑھے تو یہ بیس منٹ کی تقریر ہے۔ اس تقریر میں فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)نے 50 سے زائد آیات قرآن کی تلاوت فرمائی۔
 یا تو خود آیات پڑھیں یا ان کا کلام آیات قرآن کی طرف حوالہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ قرآن سے گفتگو کر سکتا ہے۔
"تفسیر المیزان" علامہ طباطبائی(رح) کی سب سے اہم خصوصیت کیا ہے؟
 قرآن کی تفسیر قرآن سے کرنا ہے۔ یہ علامہ طباطبائی(رح) کا طُرَّۂ اِمْتِیاز ہے۔ انہوں نے اس عمل کو عروج تک پہنچایا۔
علامہ قرآن کی تفسیر قرآن سے کیسے کر سکے؟
 یا ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کیسے کر سکے؟ 
اس کی ایک وجہ یہی قرآن کے ساتھ انس ہے۔
 جو شخص کہتا ہے: میں روزانہ ایک پارہ قرآن پڑھتا ہوں، وہ قرآن سے اس قدر آشنا اور مانوس ہے کہ وہ قرآن سے گفتگو کرتا ہے۔ قرآن کی تفسیر قرآن سے کرتا ہے۔

مرحوم آیت اللہ العظمی گلپایگانی(رہ) نے علامہ طباطبائی (رح)سے پوچھا تھا کہ آپ ان دنوں آپ کی مشغولیت کیا ہیں؟
 فرمایا: میں نے اپنی والدہ کو خواب میں دیکھا۔ میری والدہ نے مجھ سے فرمایا: محمد حسین! کوئی ایسا کام کرو کہ اس عالم میں تمہاری رونق ہو۔ میں نے پوچھا: ماں! اس عالم میں کس چیز کا رواج ہے؟
 میری والدہ نے کہا: قرآن! یہاں قرآن کا رواج ہے۔

تیسرا مرحلہ اس سے بھی بلند ہے۔
 فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)آیات قرآن کے زیر اثر تھیں۔ آیات قرآن حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا)کی زندگی میں موجود تھیں۔ اثر انگیز تھیں۔ ہماری پرانی کتابوں میں آیا ہے، سید بن طاووس(رہ) نے نقل کیا ہے۔ ان سے پہلے کی کتابوں نے بھی نقل کیا ہے۔ دو آیات نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئیں۔ اصحاب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب آیات نازل ہوتی تھیں تو لوگ آیات کے نزول کا ادراک نہیں کر پاتے تھے۔ لیکن رسول اللہ(سلام اللہ علیہ) کی حالت بدل جاتی تھی، لوگ سمجھ جاتے تھے کہ کوئی آیت نازل ہوئی ہے اور کوئی خبر ہے۔
 جب رسول اللہ (سلام اللہ علیہ)پہلی حالت میں واپس آئے تو روایت ہے:
مِنْ كِتَابِ زُهْدِ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ لِأَبِي جَعْفَرٍ أَحْمَدَ اَلْقُمِّيِّ : أَنَّهُ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ اَلْآيَةُ عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ `لَهٰا سَبْعَةُ أَبْوٰابٍ لِكُلِّ بٰابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ بَكَى اَلنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ بُكَاءً شَدِيداً وَ بَكَتْ صَحَابَتُهُ لِبُكَائِهِ
(بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام ،  جلد۴۳، صفحه۸۷)
 «بَكَي‏ بُكَاءً شَدِيداً» (مسند فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا) 

آپ زور زور سے رونے لگے، اس حد تک کہ
 « وَ بَكَتْ صَحَابَتُهُ لِبُكَائِهِ » 
اور آپ کے صحابہ نے آپ کے گریہ کی وجہ سے گریہ کیا 
اصحاب بھی رونے لگے۔ انسان کبھی دیکھتا ہے کہ سامنے والا کیسے روتا ہے، محبت کی شدت سے متاثر ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ کا رونا اس قدر شدید تھا کہ کسی نے خود کو یہ اجازت نہ دی کہ رسول اللہ(صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ) سے پوچھے کہ کیا ہوا ہے؟ 
اصحاب جانتے تھے
« وَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ إِذَا رَأَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ فَرِحَ بِهَا»
 صرف ایک چیز جو رسول اللہ کے دل کو خوش کرتی ہے، وہ فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو دیکھنا ہے۔
 سلمان حضرت زہرا(علیہ السلام) کے گھر آئے اور کہا: فریاد کرو! آ کر دیکھو مسجد میں کیا ہو رہا ہے! رسول اللہ رو رہے ہیں، رونا اس قدر شدید ہے کہ کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ فاطمہ زہراؑ تشریف لائیں۔ جب داخل ہوئیں تو والد سے عرض کیا:
 « ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَتِ فَدَيْتُكَ مَا اَلَّذِي أَبْكَاكَ »؟ 
میری جان آپ پر قربان، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ 
گفتگو کے آداب سیکھیں؟
 اگر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے: 
« فِداها أبوها ـ ثَلاثَ مَرّاتٍ » 
فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) بھی اسی طرح کہتیں: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، آپ کیوں رو رہے ہیں؟
 پہلی بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اپنے رونے کی وجہ بیان فرمائی۔
 فرمایا: دو آیات نازل ہوئی ہیں۔ سورہ مبارکہ حجر کی آیت 43 اور 44 نازل ہوئی ہے۔ پہلی بار رسول اللہ نے آیت پڑھی۔
«وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ‏ أَجْمَعِينَ،لَها سَبْعَةُ أَبْوابٍ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ» (الحجر:43-44)
 جہنم کے سات دروازے ہیں اور اہل عذاب کا ہر گروہ جہنم میں ایک دروازے سے داخل ہوگا۔
 آیت اہل جہنم کے بارے میں ہے۔ آیت کفار کے عذاب کے بارے میں ہے۔
 لیکن رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر روئے کہ لوگ فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کو تسلی دینے کے  لئے لے آئے۔ 
اسے مرحوم سید بن طاووس (رح)نے بھی نقل کیا ہے اور شیخ صدوق(رح) کے ایک معاصر نے جن کی "زهد النبي" نامی کتاب ہے۔ انہوں نے نقل کیا ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک