سچ بولنا
سچ بولنا
سچائی کی تعریف اور اہمیت
کسی بھی بات یا کام کا واقع اور حقیقت کے مطابق ہونا سچائی، سچ یا صدق کہلاتا ہے ۔ انسان کے حوالہ سے سچائی ایک ایسی اخلاقی اور عملی صفت ہے جس میں انسان اپنے قول، فعل، ارادے اور کردار میں حقیقت اور درستگی پر قائم رہتا ہے۔ پس سچا انسان اسے کہتے ہیں جس کی سوچ، بات اور عمل حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں اور جوکسی لالچ، خوف، مفاد یا دباؤ کے تحت جھوٹ نہ بولے یا دھوکا نہ دے۔ سچائی صرف زبان تک نہیں بلکہ انسان کے رویّے، فیصلوں اور کردار میں بھی نظر آنی چاہئے ۔ غرض سچا انسان وہ ہوتا ہے جس کے قول و فعل میں ہم آہنگی ہو ، جو کہے وہی کرے، اور جو کرے وہی ظاہر کرے۔
سچ بولنا اُس عمل کو کہتے ہیں جس میں انسان حقیقت کو بغیر کسی تبدیلی، کمی بیشی یا تحریف کے بیان کرے۔ یعنی جو بات دل و دماغ میں حقیقت کے مطابق ہو، وہی زبان ، قلم اور اشاروں سے ادا کی جائے۔پس سچ بولنے میں حسب ذیل تین امور کا لحاظ رکھنا لازمی ہوتا ہے :
۱۔ قول و فعل میں مطابقت رکھنا: یعنی جو دل میں ہو اور جو زبان سے کہا جائے، دونوں ایک ہوں۔
۲۔ حقیقت کے مطابق بات کرنا: یعنی معلومات، واقعات یا وعدوں میں جھوٹ یا دھوکا شامل نہ کرنا۔
۳۔ نیت کا درست ہونا: یعنی بات یا بیان کا مقصد غلط فہمی پیدا کرنا ، دھوکا یا فریب دینا نہ ہو۔
سچائی وہ بنیادی اخلاقی قدر ہے جس پر فرد کی شخصیت، معاشرتی نظام اور دینی زندگی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سچ بولنا صرف زبان کا عمل نہیں بلکہ ایک کردار، عادت اور نظریۂ زندگی ہے۔ جس معاشرے میں سچائی غالب ہو، وہاں انصاف، امن اور اعتماد خود بخود فروغ پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سچائی کی اہمیت ہر مذہب ، مسلک ، معاشرہ اور ہر دور میں یکساں طورپر تسلیم کی گئی ہے ۔ اس کے بغیر انسان کی انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لیے شریعتِ اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و ا ٓلہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی ورسول نہ ماننے والوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سچائی اور امانت داری سے متاثر ہوکر آپ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا۔ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی تسلیم کرتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابراہم علیہ السلام کے متعلق فرمانِ الٰہی ہے:
وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا(مریم۔۴۱)۔
’’ اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے، یقینا وہ بڑے سچے نبی تھے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو متعدد مرتبہ سچ بولنے کی تعلیم دی ہے اور سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا ہے :
قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ ؕ لَہُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ(المائدہ ۔۱۱۹)۔
اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، ان کے لیے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :
فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(النساء۔۹)۔
’’اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں ۔‘‘
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے :
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ (النساء۔۱۷۱)۔
’’اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو۔‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ(التوبہ۔۱۱۹)۔
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘
اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ ۔(المومن۔۲۸)
۔ترجمہ: ’’ بیشک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا، بڑا جھوٹا ہو ۔‘‘
اسلام مشکوک امور کو بھی ترک کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
عَنْ أَبِي الحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ قَالَ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضي الله عنهما: مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟
قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ، فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، وَإِنَّ الكَذِبَ رِيبَةٌ‘‘۔(صحيح ۔رواه الترمذي والنسائي وأحمد۔سنن الترمذي: حدیث ۲۵۱۸)۔
ترجمہ: ابو الحوراء سعدی کہتے ہیں : میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے کیا یاد کیا ہے؟
انھوں نے جواب دیا : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے یہ یاد کیا ہے : ’’جو چيز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ اختیار کرو جو شک میں نہ ڈالے۔ کیوں کہ سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک و شبہ ہے۔‘‘
سچائی کی اقسام
"صِدْق"(سچائی اور سچا ہونے) کی چھ اقسام ہیں:
(۱)قول میں سچا ہونا (۲)نیت و ارادے میں سچا ہونا (۳)عزم میں سچا ہونا (۴)عزم پورا کرنے میں سچا ہونا (۵)عمل میں سچا ہونا (۶)دین کے تمام مقامات کے اعلیٰ درجے کے حصول میں سچا ہونا۔
اس لئے صادقین کے کئی درجے ہیں ، اس لئے جس شخص میں مذکورہ معانی میں سے کسی ایک معنیٰ میں صِدْق پایا جائے وہ اسی کے اعتبار سے صادِق کہلائے گا اور جو شخص صدق وسچائی کے ان تمام معانی کے ساتھ مُتَّصِف ہو تو وہ صِدِّیق یعنی بہت ہی سچاہے ، کیونکہ وہ صِدْق میں انتہا کو پہنچا ہوتا ہے۔
۱۔ زبان کا صدق:
پہلی قسم زبان کا صدق ہے ، یعنی وہی بات کہی جائے جو حقیقتِ حال کے مطابق ہے۔
حقیقت کے خلاف بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔ صدق کی اِس قسم میں وعدے کا سچا ہونا بھی داخل ہے یعنی جو وعدہ کرے، اسے پورا کرے اور خلاف ورزی نہ کرے۔ سچائی کی یہ قسم واجب ہے اور صدق کی اقسام میں سے سب سے زیادہ مشہور یہی قسم ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے سے بچنے والا شخص صادِق ہے۔
البتہ بعض صورتوں میں شریعت کی طرف سےخلافِ حقیقت بات کرنے کی اجازت ہوتی ہے جیسے دو مسلمانوں میں صلح کروانے، بیوی کے ساتھ اظہارِ محبت کرنے اور جنگی ضروریات کے لئے اس معاملے میں کئی رخصتیں موجود ہیں۔ ان امور کی تفصیل گزشتہ باب میں جھوٹ کے عنوان کے ذیل میں بیان ہوچکی ہیں۔
کیا زبان کی سچائی کا مطلب یہ بھی ہے کہ بندہ خدا تلاوت قرآن اور دعا ومناجات میں جو الفاظ کہتا ہے ان میں بھی سچا ہو ۔جیسے اگر کوئی زبان سے تو یہ کہے:
”اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ’’
یعنی میں نے اپنا منہ اُس خدا کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنایا ہے۔“ لیکن اس کا دل اللہ تعالی کی بجائے دُنیاوی خواہشات میں مشغول ہو تو کیا ایسا شخص جھوٹا ہے؟۔ اسی طرح اگر زبان سے کہے:
”اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَستَعِینُ
یعنی ’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں “ لیکن دل و دماغ بندگی کی حقیقی کیفیت سے خالی ہوں اور استعانت کے بارے میں بھی دل میں اخلاص نہ ہو، اور بندہ اللہ کے بجائے مال ودولت اور بااثر لوگوں کو اپنا مشکل کشا سمجھتا ہو تو کیا ایسا شخص بھی جھوٹا ہوگا؟ ۔یا دعاء کمیل کی تلاوت کے وقت زبان سے توکہے:
إِلَهِي وَ رَبِّي مَنْ لِي غَيْرُكَ اَساَلُهُ کَشفَ ضُرِّی وَ النَّظَرَ فِی اَمرِی۔
اے میرے خدا اور اے میرے رب، تیرے سوا میرا کون ہے جس سے میں اپنی مشکلات کے حل اور معاملات کی درستی کیلئے درخواست کروں ؟
لیکن اس کا دل زبان کا ساتھ نہ دے رہا ہو تو کیا یہ جھوٹ اور منافقت ہوگی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ ایمان کے یکسان درجے پر فائز نہیں ہوتے ، اس کے بجائے ایمان کے لحاظ سے ہر شخص کا ایمان او ر یقین مختلف درجے کا ہوتا ہے
اس لئے ہر وہ شخص جس نے اللہ تعالی کی ذات و صفات پر ایمان لایا ہے ، چاہے مجمل طور پر ہی سہی، وہ اپنے ایمان کے درجہ کے حساب سے صادق شمار ہوگا، اس لئے ایسا شخص مطلق طور سے جھوٹا نہیں کہلائے گا۔ بصورت دیگر تو کامل ایمان والوں کے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں سے نماز ساقط ہوجائیگی۔ اس لئے مومنین کو چاہئے کہ وہ پابندی کے ساتھ ، اول وقت میں اور توجہ کے ساتھ نماز بھی پڑھتا رہے اور دعائیں بھی مانگتا رہے، تاکہ نماز اور دعا کی برکت اور وسیلے سے اس کا ایمان ادنی درجہ سے اعلی تر درجہ کی طرف بلند ہوتا رہے۔
۲۔ نیت و ارادے میں صِدق:
صِدق کی دوسری قسم کا تعلق نیت سے ہے۔ نیت میں صدق یہ ہے کہ آدمی کی عبادت اور نیکی کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔ اگر اس میں کوئی نفسانی غرض شامل ہو گئی تو نیت میں صِدق باطل ہوجائے گا اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صدق کا ایک معنیٰ اخلاص ہے لہٰذا ہر صادق کے لئے مخلِص ہونا ضروری ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے عرض ہوا، ہر انسان اخلاص کے کمال پر فائز نہیں ہوتا۔ اس لئے انسان کو کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ روز بروز اپنے اخلاص کو تقویت دیتا رہے۔
۳۔عزم و ارادے میں صدق:
صدق کی تیسری قسم مستقبل کے متعلق عزم میں سچا ہونا ہے ۔ کیونکہ انسان کبھی مستقبل کے متعلق یہ عزم کرتا ہے کہ ”اگر اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا کرے تو میں اتنا اتنا مال غریبوں کو دے دوں گا یا مجھے کوئی عہدہ ملا تو عہدے کاصحیح استعمال کروں گا اور خیانت و ناانصافی نہیں کروں گا“۔
ایسا عزم کبھی تو واقعی پختہ اور سچا ہوتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے کہ کرنے کا ارادہ بھی ہوتا ہے لیکن نہ کرنے کا خیال بھی دماغ میں کہیں چھپا ہوتا ہے۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے صادق اور صِدِّیق وہ ہے جس کا نیکیوں کا عزم بہت مضبوط ہو، کمزور نہ ہو۔ اس لئے انسان کو اس قسم کا عزم کرتے وقت اپنے دل کو اچھی طرح سے ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ دل میں کہیں کوئی کھوٹ تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پہلے اس کھوٹ کو دل سے نکال دینا چاہئے، پھر اللہ کو حاضر و ناظر رکھ کر ایسا عزم و ارادہ کرنا چاہئے۔ اگر یہ عزم نذر کی صورت میں کیا جائے، یعنی یہ نیت کرے کہ اگر اللہ میری یہ حاجت پوری کرے تو میں مثلا اتنے روپے صدقہ دوں گا ، یا تین دن روزہ رکھوں گا وغیرہ، تو اس وقت خالص نیت کرنا ضروری ہے ، ورنہ اس کی وہ حاجت ہی اللہ تعالی پورا نہیں کریگا۔
۴۔ عزم پورا کرنے میں صدق:
انسان بعض اوقات فی الحال تو پکا ارادہ کر لیتا ہے کیونکہ ارادہ کرنے میں تو کوئی مشقت نہیں ہوتی، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو عزم کمزور پڑجاتا ہے اور نفس غالب آجاتا ہے اور یوں بندہ اپنا عزم پورا نہیں کرتا۔ یہ بات صِدق کے خلاف ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس خلاف ورزی میں مبتلا ہے کہ لمبے چوڑے ارادے کرتے ہیں لیکن عمل کے وقت حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ اپنے عزم پر عمل کرنے والوں کی تعریف میں قرآن میں فرمایا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ: ’’ اہل ِایمان میں وہ جواں مرد لوگ بھی ہیں جنہوں نے سچا کر دکھایا وہ عہد جوانہوں نے اللہ سے کیا تھا۔‘‘ (الاحزاب:۲۳)۔
سفیدہ اور اسی قسم کے اونچے درختوں کی شاخ تراشی کرنی ہو تو درخت کی اونچائی پر جاکر شاخوں کو کاٹتے ہوئے نیچے آنا ہوتا ہے۔ ایک اناڑی شخص نے سفیدے کے درخت کی شاخ تراشی کرتے وقت نیچے سے شاخوں کو کاٹتا ہوا اوپر گیا ۔ درخت پر اوپر چڑھتے وقت تو شاخوں کو پکڑتے ہوئے آرام سے گیا تھا، لیکن جب اترنے لگا تو ساری شاخیں خود ہی کاٹ چکا تھا اس لئے بہت پریشان ہوا کہ کس طرح اتنے اونچے درخت سے اتروں ۔ گھبرا کر دل میں نیت کی کہ اللہ مجھے آرام سے نیچے اتاردے تو میں گھر میں موجود گائے اللہ کی راہ میں صدقہ کروں گا۔ جب درخت کے آدھے حصے تک اترتے ہوئے پہنچ گیا تو دل میں کہا کہ پوری گائے تو زیادہ ہے، گائے کے نصف حصہ کی قیمت صدقہ کروں گا۔ جب کچھ اور نیچے اتر گیا تو دل میں کہا کہ گائے کا نصف حصہ بھی زیادہ ہے، بس گائے کے چار میں سے ایک حصہ کی قیمت کا صدقہ مناسب رہے گا۔ جب زمین پر اتر گیا تو کہا
’’اللہ میاں نے میری کیا مدد کی!، میں خود درخت پر چڑھاتھا خود اتر گیا‘‘۔
انسان کی فطرت ایسی ہوتی ہے ، کہ وہ خوف و خطر میں اللہ کو یاد کرتا ہے، اور جب اللہ خوف و خطر کو رفع کرتا ہے تو اللہ تعالی کے سامنے ہیکڑی جتانے لگتا ہے۔
۵۔ اعمال میں صدق:
وہ یہ کہ نیک اعمال کے وقت بندے کاباطن بھی ویسا ہو جیسا ظاہر نظر آرہا ہے ۔
مثلاً نماز میں ظاہری آداب پورے ہوں تو باطن یعنی دل میں بھی خشوع موجود ہو۔ ظاہر میں متقی وپرہیز گار نظر آتا ہے تو دل کی کیفیت بھی ویسی ہی ہو۔ الغرض ظاہرو باطن کا ایک جیسا ہونا صِدْق کی ایک اہم قسم ہے۔
۶۔ مقاماتِ دین میں صدق: یہ قسم سب سے اعلیٰ لیکن بہت نایاب ہے اور اس کا تعلق مقاماتِ دین سے ہے ، جیسے خوفِ خدا، اللہ تعالیٰ سے امید، دنیا سے بے رغبتی، رضائے الٰہی پر راضی رہنا، محبتِ الٰہی میں سچا ہونا، کیونکہ خوف و امید، زہد و توکل، رضاا ور محبت خدا وغیرہ امور میں کچھ ابتدائی حالات ہوتے ہیں کہ جن کے ظاہر ہونے پر یہ نام لئے جاتے ہیں، لیکن پھر ان کی حقیقتیں اور انتہائی مرتبے ہوتے ہیں۔ حقیقی صادق وہی ہے جو ان کی حقیقت اور اعلیٰ ترین مرتبے تک پہنچ جائے اور ان خوبیوں سے کما حقہ متصف ہو۔
امیرالمومنین علیہ السلام صدق کی ان تمام اقسام سے متصف ہونے میں خاتم الانبیاء کے بعد تمام انسانوں میں سب سے بلند مرتبہ رکھتے ہیں، اسی لئے آپ کا ایک لقب صدیقِ اکبر ہے ۔چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:
و هذا هو الصّدّيق الأكبر و فاروقُ هذه الأمّة۔
’’اور یہ (علی ابن ابی طالب ) اس امت کے 'صدیق اکبر' اور 'فاروق' ہیں۔‘‘
(حوالہ جات اہلسنت کُتب سے: مجمع الزوائد، ج۲، ص۱۰۲؛المعجم الكبير، ج۶، ص۲۶۹؛؛ الاستيعاب، ج۴، ح۱۷۴۴؛ كنزالعمّال، ج۱۱، ص۶۱۶؛ فيض القدير، ج۴، ص۴۷۲؛أسد الغابۃ، ج۵، ص۲۸۷؛ميزان الإعتدال، ج۲، ص۳؛ الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ، ج۷، ص۲۹۴؛لسان الميزان، ۲، ص۴۱۴؛ السيرة الحلبيۃ، ج۲، ص۹۴؛ ينابيع المودة، ج۱، ص۲۴۴)
اور سنن ابن ماجہ ودیگر کتب اہلسنت میں حضرت علی علیہ السلام کا یہ فرمان موجود ہے:
قَالَ عَلِيُّ: اَنَا عَبْدُ اللهِ وَاَخُوْ رَسُوْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ، وَاَنَا الصِّدِّيْقُ الْاَكْبَرَ۔ لَا يَقُوْلَهَا بَعْدِیْ إِلَّا كَذَّابُ، صَلَّيْتُ قَبْلَ النَّاسَ بِسَبْعِ سِنِيْنَ ۔
ترجمہ: ’’عباد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی (علیہ السلام ) نے فرمایا : میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد اس فضیلت کا دعویٰ بڑا جھوٹا شخص ہی کرے گا، میں نے سب لوگوں سے سات برس پہلے نماز پڑھی ہے ۔‘‘
(سنن ابن ماجہ ،حدیث ۱۲۰؛ البدايۃوالنهايۃ ، ج۳ ، ص ۲۶ ؛ المستدرك ، حاكم نيشابوري ، ج۳ ، ص ۱۱۲ ؛ و تاريخ طبري ، ج۲ ، ص ۵۶ ، والكامل ، ابن الاثير ، ج۲ ، ص ۵۷ و فرائد السمطين ، حمويني ، ج ۱ص ۲۴۸ و الخصائص ، نسائي ، ص ۴۶ ،ایسے سند کے ساتھ جس کے تمام راوی ثقہ ہیں ؛ تذكرة الخواص ، ابن جوزي ، ص ۱۰۸)۔