غدیر اور مسلمانوں کواندر سے درپیش خطرہ

٭یہ تقریر ِعید ِ غدیرکی رات ١٣٩٠ھ مطابق ١٩٦٨ئ مرکز تعلیمِ دین و دانش نجف باد کی مسجد ِ چہار سوق میں کی گئی۔

اعوذ باللّٰه من الشیطان الرجیم
’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ فَلااَا تَخْشَوْهمْ وَاخْشَوْنِ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِيْنًا۔‘‘(سوره مائده٥۔یت٣)

سب سے پہلے میں پ بھائیوں اور مولائے متقیان علی علیہ السلام کے تمام شیعوںکو اس عیدِسعید پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میرے لئے یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ میں ایک ایسی محفل میں شریک ہوں جو نوجوانوں اور طلباکے ایک گروہ کی طرف سے منعقد کی گئی ہے۔ درحقیقت جو بات سب سے زیادہ باعثِ خوشی و مسرت ہے‘ وہ عام مسلمانوں اور خصوصاً نوجوان طبقے میں ایک دینی و مذہبی تحریک کی علامتوں کا دکھائی دینا ہے‘ اپنے ملک میں اسکے ہم خود شاہد و ناظر ہیں۔ وہ بھی طلبا کے جوان طبقے میں جن کے اذہان علمی مفاہیم سے شنا ہیں۔ اولاً ہر ملک کے جوانوں کے رجحانات دیکھ کر اس ملک کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ جوانوں کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے‘ خصوصاً تعلیم یافتہ جوان اور طلبائ ۔
اگرچہ ایک طرف بعض ناپاک عناصر اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس بات کے لئے کوشاں ہیں کہ ہر ممکن طریقے سے نوجوان طبقے کو برائی کی طرف کھینچ لے جائیں‘ اور دوسری طرف ایسی سرگرمیاں جاری ہیں جن کا مقصد دین و مذہب اور علم ودانش کے درمیان مصنوعی تضادایجاد کرنا ہے۔جوانوں میں پیدا ہونے والی تحریک کا یہ ہراول دستہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ مضر اور خطرناک کوششیں بحمدللہ ناکام ہو رہی ہیں۔
یہ مقدس شب ‘جو عید ِسعید ِغدیر کی رات ہے اور مولائے متقیان علیٴ سے نسبت رکھتی ہے‘ اس میں بہت سے موضوعات پر بحث و گفتگو کی گنجائش اور مناسبت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ خود علیٴ ایک وسیع اور جامع موضوع ہیں۔ خاص طور پر غدیر اور خلافت‘ امامت اور ولایت پر حضرت علیٴ کے نصب کئے جانے کا موضوع بھی اپنے مقام پر بہت وسیع ہے۔اس پر مختلف حوالوں سے بات کی جاسکتی ہے۔ جیسے کہ غدیر کے موقع پر پیغمبر اکرم۰ کے فرمان: مَنْ کُنْتُ مَوْلاه فَهذا عَلِيّ مَوْلاه (جس کا میں مولا ہوں ‘پس یہ علی بھی اسکے مولا ہیں) سے اس سے پہلے اور بعد کی باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا مراد ہے؟ کیونکہ اس سے پہلے (نحضرت۰ نے) یہ فرمایاتھا کہ: اَلَسْتُ اَوْليٰ بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟ (کیا میں خود تم پر تم سے اولویت (اور زیادہ حق) نہیں رکھتا؟) کیا میں تم پر حق ولایت نہیں رکھتا؟ نحضرت۰ نے قرن کی اس یت ِکریمہ کی طرف اشارہ کیاہے کہ: اَلنَّبِيُّ اَوْلٰی بِالْمُْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهمْ (نبی تمام مومنین پراُن سے بڑھ کر حق رکھتا ہے۔ سورہ احزاب۔یت٦) سب پکارے:۔ بليٰ بليٰ (ہاں ہاں ایسا ہی ہے)۔ پھرپ نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلاه فَهذا عَلِيّ مَوْلاه اور اسکے بعد فرمایا کہ: اَللّٰهمَّ والِ مَنْ والاه وَ عادِ مَنْ عاداه (یااللہ اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے اور اسے دشمن رکھ جو اس سے دشمنی رکھے)
وہ تمام نصوص جو اس حوالے سے قرنِ مجید میںموجود ہیں‘ یا پیغمبر اکرم۰ نے حضرت علیٴ کے بارے میں فرمائی ہیں‘ بطورِ کلی مولائے متقیان کا لائق ترین ہونا اور پٴ کے دیگر فضائل‘ یہ وہ مسائل ہیں جن پر ج شب کی مناسبت سے بات کی جاسکتی ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی معروضات کو اس موضوع سے مخصوص کروں جو عملی حوالے سے ہمارے لئے زیادہ سود مند‘ مفید تر اور زیادہ سبق موز ہے اور اسکے ساتھ ساتھ غدیر کے مباحث اورفصول میں سے بھی ایک ہے‘اور وہ یہ ہے کہ:حضرت علیٴ کی خلافت کے بارے میںفرمانِ رسول صلی ا علیہ و لہ وسلم پر عمل درمد کیوں نہیں ہوا؟
واقعہ غدیر اور رسولِ اکرم۰ کی وفات کے درمیان تقریباً ڈھائی ماہ کا فاصلہ تھا۔ خر کس طرح مسلمانوں نے (اتنی جلدی) رسولِ اکرم۰ کی وصیت نظرانداز کردی؟

پہلا نظریہ

یہ کہا جائے کہ تمام مسلمانوں نے اپنے قومی اور عربی تعصب کی وجہ سے اسلام اور رسول اللہ سے یکسر منھ موڑ لیا تھااور باغی ہوگئے تھے۔جب انہیں اس مسئلے کا سامنا ہوا تو وہ ایک دم اسلام سے روگرداں ہوگئے۔ یہ ایک طرح کی توجیہ و تفسیر ہے۔ لیکن بعدکے واقعات اس بات کی نشاندہی نہیں کرتے کہ مسلمان اسلام اور رسول اللہ صلی ا علیہ و لہ وسلم سے مکمل طور پر روگرداں ہوگئے تھے‘ جس کے نتیجے میں وہ اپنی گزشتہ جاہلیت کی حالت اور بت پرستی کی طرف لوٹ گئے تھے۔

دوسرا نظریہ

دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہم کہیں کہ مسلمان اسلام سے روگرداں ہونا نہیں چاہتے تھے لیکن رسول اللہ کے اس ایک حکم کے بارے میں انہوں نے نافرمانی کا رویہ اختیار کیا۔ بعض وجوہات اور خاص پہلوؤں کے پیش نظر اس ایک حکم کو برداشت کرنا ان کے لئے مشکل تھا۔ مثلاً کیونکہ حضرت علیٴ نے(اسلام کی خاطر لڑی گئی جنگوں میں) ان کے آبائ کو قتل کیا تھا‘اس لئے اُن کے اندرحضرت علیٴ کے بارے میں کینہ موجود تھا‘ یا بعض اہلِ سنت کے بقول وہ اس وقت یہ نہیں چاہتے تھے کہ نبوت و خلافت ایک ہی خاندان میں ہو‘ یا پھر یہ کہ حضرت علیٴ کا عدم تساہل‘ سخت گیری‘ دو ٹوک رویہ اور غیر لچکدار ہونا بھی اپنے مقام پر ایک وجہ تھی۔ معاصر علمائے اہلِ سنت میںسے بعض نے اسے بھی ایک سبب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علیٴ مسلمانوں کے درمیان سختی‘ شدت اور غیر لچکدار ہونے کے حوالے سے معروف تھے‘ اُن کی اس صفت کی وجہ سے مسلمانوں کی نظریں علیٴ کی طرف نہ اٹھیں (البتہ وہ یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں نے نصِ رسول۰ کو نظر انداز کردیا تھا)۔ مسلمان کہتے تھے کہ اگر علیٴ برسرِاقتدار گئے‘ تو کسی کا لحاط نہیں کریں گے‘ کیونکہ علیٴ کی سابقہ زندگی سے یہی واضح ہوتا تھا۔
حکمِ الٰہی کے نفاذ میں حضرت علیٴ کے غیر لچکدار طرزِ عمل کی ایک مثال
حجۃ الوداع ہی کے موقع پر‘ واقعہ غدیر سے چند روز قبل ‘ پیغمبر اکرم۰ نے حضرت علیٴ کو یمن روانگی کا حکم دیا تاکہ یمن کے نومسلموں کو اسلام کی تعلیمات پہنچائی جائیں۔ یمن سے حضرت علیٴ مکہ لوٹ کر ئے اور ادھر رسولِ اکرم۰ بھی مدینہ سے مکہ تشریف لائے۔ مکہ میں وہ ایک دوسرے سے ملے۔ حضرت علیٴ اپنی فوج کے ساتھ رہے تھے۔ فوج کے ہمراہ یمن کی کچھ نئی قبائیں تھیں۔ حضرت علی یہ قبائیں رسولِ اکرم۰ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے لارہے تھے۔ البتہ وہ بعد ازاں تقسیم ہوجاتیں اور پہلے درجے میں انہی سپاہیوں کو ملتیں۔
واپسی پر حضرت علیٴ مکہ سے ابھی چند منزل کے فاصلے پر تھے کہ خود گے روانہ ہوکر رسولِ اکرم۰ کی خدمت میں پہنچ گئے‘ تاکہ اپنے کام کی رپورٹ پیش کرسکیں۔ اُنہیں پھر واپس کر فوج کے ہمراہ پہنچنا تھا۔
اس دوران میں جبکہ حضرت علیٴ رسولِ اکرم۰ کی خدمت میں تھے فوجیوں نے خود سے یہ سوچ لیا کہ اب جبکہ ہم مکہ میں داخل ہو رہے ہیں‘ ہمارے لباس گندے اور پرانے ہیں‘ کیوں نہ ہم یہ نئی قبائیں نکال کر پہن لیں اور نئے لباس کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں‘خر کار یہ ہم ہی کو تو ملنی ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت علیٴ لوٹ کر ئے تو انہوں نے بیت المال میں ہونے والے اس تصرف پر اعتراض کیا اور اسے خلاف ِقانون قرار دیا۔
جب فوج مکہ پہنچی تو رسولِ اکرم۰ نے ان سے سوال کیا کہ علیٴ تمہارے لئے کیسے امیر اور سپہ سالار رہے؟ کہنے لگے: یارسول اللہ! علیٴ کی ہر بات اچھی ہے‘ لیکن کچھ سخت گیر ہیں۔ رسولِ اکرم۰ نے علیٴ پر اعتراض کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: علیٴ کے بارے میں ایسی بات مت کرو انّه لَاَخْشَنُ (یالَاُخَيْشِنُ) فی ذات اللّٰہ‘ جس مقام پر حق کا مسئلہ درپیش ہو یا حکمِ خدا کا معاملہ ہو ‘وہاں علیٴ ایک ایسے وجود میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس میں کوئی نرمی نہ ہو۔ وہی شخص جو سرتاپا نرمی ہے‘ اپنی نرمی کو حکمِ الٰہی میں ہرگز دخل انداز نہیں ہونے دیتا۔
بہرحال یہ بھی ایک پہلو ہے‘ جسے بعض نے بیان کیا ہے۔ لیکن صرف اسکے ذریعے اتنے بڑے واقعے کی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ تمام مسلمان ایک دم مرتد ہوگئے اور اسلام سے پھرگئے؟ اس ایک مسئلے میں تمام مسلمانوں نے نافرمانی کی‘ یہ بات بہت زیادہ بعید نہیں ہے‘ لیکن کیا سب مسلمانوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ پھر گئے ‘ یا پھر کوئی اور معاملہ بھی ہے اور وہ یہ ہے:

صحیح نظریہ:

مسلمان فریب کھاگئے اس مسئلے میں مسلمان فریب کھاگئے ۔یعنی ایک گروہ نافرمان ہوگیا۔ اس زیرک و نافرمان گروہ نے عامتہ المسلمین کو اس مسئلے میں فریب دیا۔ میں نے شروع میںایک یت کی تلاوت کی ہے۔ اس یت سے ہم اپنی گفتگو کا غاز کرسکتے ہیں اور اسی یت سے ہم نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں۔ یہ وہی یت ہے جو امیر المومنین حضرت علیٴ کے نصب کئے جانے کے بارے میں‘ یعنی خلافت کے لئے پ کے تقرر کے بعد نازل ہوئی۔ یہ یت ہے:اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ ( ج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ہیں)
یعنی ج سے کفار اس بات سے ناامید ہوگئے ہیں کہ وہ کفر کے راستے سے ‘دائرہ اسلام کے باہرسے اسلام پر حملہ کر سکیں گے۔ اب وہ مایوس ہو گئے ہیں کہ اس راہ سے کوئی نتیجہ حاصل کر سکیں گے۔ اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ اسلام کو باہر سے نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔فَلااَا تَخْشَوْهم‘ اے مسلمانو! اب کفار سے خوف نہ کھانا اور پریشان نہ ہونا۔
یہاں تک دو جملے ہیں۔ پہلے جملے میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے‘ اور دوسرے جملے میں تسلی دی گئی ہے۔ پہلے جملے میں کہاگیا ہے کہ اب وہ کچھ نہیں کریں گے کیونکہ ناامید ہوگئے ہیں۔اب اسکے بعد وہ تگ ودو نہیں کریں گے۔ دوسرے جملے میں تسلی دی گئی ہے کہ اب تم ان کی طرف سے بے فکرر ہو۔
بعد کا جملہ بہت عجیب ہے۔وَاخْشَوْن ‘ اپنے دین کے بارے میںاُن کی طرف سے فکرمند نہ ہونا‘ البتہ مجھ سے ڈرنا۔ مطلب یہ ہے کہ میری طرف سے فکرمند ہونا۔
خدا کی طرف سے فکرمندہونے سے کیا مراد ہے؟ خدا کی طرف سے تو پرامید ہونا چاہئے۔ پھر قرن کیوں کہتا ہے کہ خدا کی طرف سے فکرمند رہو۔ نکتہ اور جانِ کلام اسی مقام پر ہے۔
ہمارے دوبارہ پھر اسی نکتے پر پلٹ کر نے تک اس بات کو ذہن میں رکھئے گا۔
(پہلا جملہ)’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُم‘‘
(دوسرا جملہ)’’فَلااَا تَخْشَوْهم۔‘‘
’’اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِيْنًا۔‘‘
ج میں نے تمہارا دین سرحدِ کمال تک پہنچا دیا۔ وہ چیز جو اس دین کا کمال ہے‘میں نے ج تمہیں وہ عطا کردی ہے۔ وہ چیز جس کے ذریعے میں نے اپنی نعمت کو پورا کیا ہے‘ اسے ج میں نے پورا کردیا ہے۔ ج میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو ایک دین کے طور پر پسند کرلیا ہے۔ یا وہ اسلام جو ہمارے پیشِ نظر کامل اور مکمل اسلام تھا‘ وہ یہ ہے جو ج ہم نے تمہیں عنایت کیا ہے۔
یہاں پر ہمارے سامنے دو تعبیریں ہیں: اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ اور اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِی۔ تمہارے دین کو میں نے حد ِکمال تک پہنچادیا ہے اور اپنی نعمت کا (جو یہی دین کی نعمت ہے) اتمام کردیا ہے۔
اتمام اور اکمال کے درمیان فرق ’’اتمام‘‘ اس مقام پر کہا جاتا ہے جب کوئی بنائی جانے والی چیز ابھی ناقص ہو‘ یعنی اس کے بعض اجزا ابھی نامکمل ہوں۔ مثال کے طور پراگر ایک عمارت تعمیر کریں‘ تو جن کاموں کے بعد عمارت قابلِ استعمال ہوتی ہے وہ تمام کام ختم ہونے سے پہلے‘ مثلاً ابھی اسکی چھت باقی ہو‘ یا ابھی اسکے دروازے نہ لگائے گئے ہوں ‘تو ایسی عمارت کو ’نامکمل ‘ کہتے ہیں۔ لیکن ’اکمال‘ ایک دوسری چیز ہے۔ ممکن ہے ایک چیز کا پیکر اور جسم تیار اورمکمل ہو لیکن اس لحاظ سے کہ وہ روح نہیں رکھتی اور جس حقیقت اور ثار کے مرتب ہونے کی اس سے توقع ہے وہ مرتب نہ ہوئے ہوں‘ تو کہتے ہیں کہ(یہ چیز) کامل نہیں۔ مثلاً اگر کہتے ہیں کہ علم کا کمال اس پر عمل ہے‘ تو اسکے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تک عمل نہ ہو علم کا کوئی حصہ ناقص ہے‘ نہیں علم علم ہے‘ علم علم ہی کے ذریعے مکمل ہوتا ہے لیکن علم عمل کے ذریعے کامل ہوتا ہے۔ یعنی علم کے جو ثار حاصل کئے جانے چاہئیں وہ عمل سے ہی حاصل ہوں گے۔
’’اِنَّ کَمالَ الْعِلْمِ بِالْعَمَلِ وَ کَمالَ الْعَمَلِ بِالنِّيَّة وَ کَمالَ النِّيَّة بِالْاِخْلاص۔‘‘
’’کمالِ علم عمل سے ہے‘ کمالِ عمل نیت سے ہے اور کمالِ نیت اخلاص سے ہے۔‘‘
نیت عمل کا جز نہیں لیکن اگر عمل کے ہمراہ کوئی نیت نہ ہو تو ایسا عمل بے اثر ہوگا۔ اخلاص بھی نیت کا جز نہیں لیکن اگر اخلاص نہ ہو تو نیت بے اثر ہوگی۔ اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ‘ یہ حکم (یعنی حضرت علی علیہ السلام کا امامت کے لئے نصب کیا جانا)کیونکہ دین کے اجزا میں سے ایک جز اور احکامِ دین میں سے ایک حکم ہے‘ پس (اب تک) نعمت ناتمام تھی‘ اب تمام ہوگئی۔ پھر اس اعتبار سے کہ اگر یہ حکم نہ ہوتا تو دیگر احکام نامکمل ہوتے‘ ان تمام (احکام) کا کمال اس سے وابستہ ہے
۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ روحِ دین ولایت و امامت ہے۔ اگر انسان کے پاس ولایت و امامت نہ ہو‘ تو اسکے اعمال کی حیثیت ایک بے روح جسم کی سی ہوگی۔
اب ہم اُس جملے کی طرف تے ہیں جس کے بارے میں ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اسکی وضاحت کریں گے۔
فرمایا: اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ فَلااَا تَخْشَوْهمْ وَاخْشَوْن۔ ج کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں۔ اُن کی طرف سے فکرمند نہ ہونااور اُن سے نہ ڈرنا‘ میری طرف سے فکرمند ہونااورمجھ سے ڈرنا۔

مشیت ِالٰہی کی کیفیت

اولاً قرنِ کریم کا ایک کلی اصول ہے‘اور وہ یہ کہ وہ کہتا ہے کہ ہر چیز مشیتِ الٰہی سے ہے۔ دنیا میں کوئی چیز مشیتِ الٰہی کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتی: وَ لااَا رَطْبٍ وَّ لااَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْن( سوره انعام۔یت٥٩)
اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا مشیت ِالٰہی کوئی حقیقت ہے‘ یا پھر ویسے ہی بغیر کسی حساب کتاب کے‘ قرعہ اندازی کی طرح ایک چیز یہاں سے اور ایک چیز وہاں سے چن لینا ہے؟
دوسری یات اسکی وضاحت کرتی ہیں کہ مشیتِ الٰہی کائنات میں ایک سنت‘ قانون اور حساب رکھتی ہے۔
یہ کیسے ہوتا ہے؟
قرن کی دو یات میں‘ ان یات میں پائے جانے والے ایک باریک سے فرق کے ساتھ‘ اس طرح ارشاد ہوتا ہے: ’’اِنَّ اَ لااَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهمْ۔‘‘ (سورہ رعد١٣۔یت١١)
خدا کسی قوم
کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے پ کو تبدیل نہ کرلے۔ اللہ کسی قوم کو جو نعمت عطا فرماتا ہے‘ وہ اس وقت تک اس سے واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے پ کو تبدیل نہیں کر لیتی۔ یعنی جب وہ اس ن
عمت کے لئے اپنی قابلیت اور صلاحیت کو گنوادیتی ہے‘ تب اللہ اس سے اپنی نعمت سلب کرلیتا ہے۔
یعنی یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہر کام مشیتِ الٰہی سے ہوتا ہے‘ تو اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی چیز کے لئے کوئی شرط نہیں ہوتی۔ ہر چیز ہماری مشیت سے ہے۔ ہم نے دنیا کے لئے ایک قانون اور قاعدہ رکھا ہے۔ سبب اور مسبب قرار دیا ہے‘ شرط اور مشروط مقرر کئے ہیں۔ نعمتیں‘ جن میں ’’وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ ‘‘ بھی شامل ہے (بغیر کسی قاعدے قانون کے نہیں ہیں)۔ اے مسلمانو! میں نے تمہارے لئے اپنی نعمت تمام کردی ہے اور تمہیں اپنی نعمت عطا کردی ہے۔ یہ نعمت تمہارے پاس پائیدار اور مستحکم ہے یا نہیں؟ نقصان پذیر ہے یا نہیں؟ قرن جواب دیتا ہے: اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُمْ ‘ خارجی اور بیرونی طرف سے ‘اُس دشمن کی طرف سے جو دشمن کی صورت میں ہے اور کافر ہے‘ اب اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا‘ اُن کی طرف سے کوئی خوف اور فکرمندی نہیں ہے۔
پھر فکر مندی کس کی طرف سے ہے؟
میری طرف سے۔
میری طرف سے کیا مراد ہے؟
میری مشیت کی طرف سے۔
میری مشیت کی طرف سے کیسے؟
میں نے تم سے کہا ہے کہ میں کوئی نعمت اُس وقت تک لوگوں سے سلب نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود نہ بدل جائیں اور اپنے پ کو متغیرنہ کرلیں۔ پس اے مسلمانو! اب جو ضرر بھی اسلامی معاشرے کو پہنچے گا وہ اندر سے پہنچے گا‘ باہر سے نہیں۔ باہر والے اندر کی مدد سے فائدہ اٹھائیں گے۔
یہ ایک بنیادی اصول ہے۔ دنیائے اسلام نے جو نقصان بھی اٹھایا ہے‘ یا ہمارے زمانے تک اٹھا رہی ہے ‘وہ خود اسکے اندر سے ہے۔ یہ نہ کہئے گا کہ باہر بھی دشمن موجود ہے۔ میں بھی مانتا ہوں کہ باہر دشمن ہے‘ لیکن باہر کا دشمن باہر سے کچھ نہیں کر سکتا۔ باہر کا دشمن بھی اندر سے کام کرتا ہے۔ (لہذا) مجھ سے ڈرو کہ کہیں تمہارا اخلاق‘ روح‘ روحانی خصوصیات‘ ملکات اور اعمال بدل نہ جائیں۔ اگر ایسا ہوگیا‘ تو میں اپنی اُس سنت کی بنا پر کہ جو لوگ اپنی قابلیت اور صلاحیت گنوادیتے ہیں میں اُن سے نعمت سلب کرلیتا ہوں‘ تم سے بھی یہ نعمت واپس لے لوں گا۔

پیغمبر اسلام۰ کی دو حدیثیں

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ ولہ وسلم نے فرمایا:
’’اِنّی لا اَخافُ عَليٰ اُمَّتِيَ الْفَقْرَ وَلٰکِنْ اَخافُ عَلَيْهمْ سوئَ التَّدْبیرِ۔‘‘
مجھے اپنی امت کے بارے میں اقتصادی فقر اور غربت کا ڈر نہیں ہے۔ فقر میری امت کو تباہ نہیں کرے گا۔ میں اپنی امت کے بارے میں کج فکری‘ بدفکری‘ بداندیشی اور جہالت و نادانی سے خوفزدہ ہوں۔ اگر مسلمان بصیرت ‘ دور اندیشی‘ مستقبل بینی‘ گہری نظر اور گہری فکر سے محروم ہوکر ظاہر بین اور سطحی ہوگئے‘ تو یہ وہ وقت ہوگا جب اسلام کے لئے خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
خوارج کون تھے؟ یہ ظاہر بین لوگ تھے‘جو گہرائی میں نہیں دیکھتے تھے، کوتاہ نظر تھے لیکن تھے اطاعت گزار‘ دیندار‘راسخ العقیدہ اور عابد و زاہد۔ حضرت علیٴ اُنہیں ریاکار نہیں سمجھتے تھے۔ پٴ نے اُن پر بہت تنقید کی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ وہ اپنی عبادت میں ریاکار تھے۔ فرماتے تھے کہ وہ کج فہم اور کج فکر ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کی دوسری حدیث‘ امیرالمومنین حضرت علیٴ نے اُس فرمان میں نقل کی ہے جو پ نے محمد ابن ابوبکر کے نام لکھا تھا اور جو نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ محمد ابن ابوبکر‘ حضرت ابوبکر کے بیٹے ہیں۔ ان کی والدہ اسمائ بنتِ عمیس ہیں۔ وہ حضرت ابوبکر سے پہلے جعفر ابن ابی طالب کی زوجہ تھیں۔ ان سے ان کے بیٹے عبداللہ بن جعفر تھے۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر نے ان سے شادی کرلی اور ان سے محمد ابن ابوبکر دنیا میں ئے۔ وہ بہت پاکیزہ ہستی تھے۔ حضرت ابوبکر کے بعد اسمائ سے امیرالمومنین (علیٴ) نے شادی کرلی۔ محمد امیر المومنین کے ربیب‘ یعنی امیرالمومنین کی زوجہ کے بیٹے ہوگئے۔ کیونکہ وہ بہت چھوٹے تھے اور حضرت ابوبکر کی وفات کے وقت شایددو سال کے تھے‘ لہٰذا حضرت علی کے گھر میں پلے بڑھے۔ کہتے ہیں کہ حضرت علیٴ فرمایا کرتے تھے کہ:مُحَمَّد¾ ابْنی مِنْ صُلْبِ اَبی بَکْر(محمد میرا بیٹا ہے‘ اگرچہ ابوبکر کے صلب سے ہے)بہرحال وہ بہت صالح‘ متقی اور پاکیزہ شخص تھے اور حضرت علیٴ کے ساتھ رہتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضرت علیٴ نے اُنہیں مالک ِ اشتر سے پہلے مصر کی حکومت کے لئے مقرر کیا تھااور وہ وہیں شہید ہوئے۔ جو فرمان پ نے اُن کے نام جاری کیا اُس کے خر میں فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی ا علیہ ولہ وسلم سے سنا ہے کہ:
’’میں اپنی امت کے بارے میں نہ مومن سے ڈرتا ہوں اور نہ مشرک سے ۔ کیونکہ مومن کو ا اسکے ایمان کی وجہ سے (گمراہ ہونے سے) بچائے رکھے گا۔‘‘
(یہ نہ کہئے گا کہ پس خوارج بھی تو مومن تھے۔ جو ایمان بصیرت کے بغیر ہو‘ اسلام اسے حقیقی ایمان نہیں سمجھتا۔وہ عبادت گزار تھے لیکن اسلام جیسا مومن چاہتا ہے کہ’’اَلْمُوْمِنُ کَيِّس فَطِن‘ ویسے نہ تھے) ۔
مومن کو خدا اسکے ایمان کے سبب محفوظ رکھتا ہے‘ بچا لیتا ہے۔ یعنی اُس کا ایمان اُسے محفوظ رکھنے اور بچانے والا ہے۔پس مومن کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہے۔
رہا مشرک و کافر‘ وہ جس کے ظاہر و باطن سے کفر چھلکتا ہے، اللہ اسکے شرک کی وجہ سے اس کاقلع قمع کردیتا ہے۔
آیت ’’اَلْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِيْنِکُم ‘‘ کا یہی مفہوم ہے۔
’’وَ لٰکِنّی اَخافُ عَلَیکُمْ کُلَّ مُنافِقِ الْجَنانِ عالِمِ اللِّسانِ يَقولُ ما تَعْرِفونَ وَ يَفْعَلُ ما تُنْکِرونَ۔‘‘
مگر مجھے جن کی طرف سے خوف اور فکر مندی ہے‘وہ منافق اور دو رُخے لوگ ہیں۔ جن کی زبان اور ظاہر کا رُخ ایک طرف ہے اور قلب و باطن کا رُخ دوسری طرف۔ دینداری کا اظہار کرنے والے بے دین افراد۔ عالِمِ اللِّسانِ‘ جن کی زبان عالم ہے‘ جو اپنی زبان سے مومن و مسلمان ہیں۔ کیونکہ عالم ہیں‘ اس لئے اُن کی زبان خوب چلتی ہے۔ لیکن اُن کا دل نفاق سے بھرا ہوا ہے۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اورہیں: يَقولُ ما تَعْرِفونَ وَ يَفْعَلُ ما تُنْکِرونَ ۔ بات ایسی کرتے ہیں جس سے پ مانوس و شنا ہوں اور جسے پ جانتے ہوں۔بات تو اچھی کرتے ہیں‘ عمدہ اور بلند۔جب بات کرتے ہیں توپ ان کے فلسفے کے شیفتہ ہوجاتے ہیں‘ واہ واہ کرنے لگتے ہیں۔ (کہتے ہیں) واقعاً مسلمانوں میں ایسے فرد پر افتخار کرنا چاہئے۔ لیکن اگر اس دمی کے عمل کو گہری نظر سے دیکھیں گے‘ تو اُسے اس چیز کے برخلاف پائیں گے جسے پ پہچانتے ہیں۔ یعنی بالکل الٹ اور سب ’’منکر‘‘۔ اس کا قول تو ’’معروف‘‘ ہوتا ہے‘لیکن عمل ’’منکر‘‘۔
اس بنیاد پر جب ہم دیکھتے ہیں‘ تونظر تا ہے کہ رسولِ اکرم۰ دو گروہوں کی طرف سے فکر مند اور خائف ہیں۔ ایک عالم و زیرک لیکن منافق افراد کا گروہ‘ جو ظاہراً مسلمان ہیں اور باطناً کافر اور دوسرا عبادت گزار لیکن بے بصیرت و جاہل مسلمانوں کا گروہ۔

ایک دوسری حدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے۔ پ نے فرمایا:
’’قَصَمَ ظَهری رَجُلانِ: عالِم مُتَهتِّک وَ جاه لمُتَنَسِّک۔‘‘
یہ حدیث بھی انہی دواحادیث کا مفہوم بیان کر رہی ہے۔ فرماتے ہیں: دو طرح کے دمیوںنے میری کمر توڑ ڈالی ہے۔

رسول اللہ کی کمر توڑ ڈالنے سے کیا مراد ہے؟

ایک شخص گناہگار ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی اسکے گناہ کا بُرااثر صرف اُسی تک محدود رہتا ہے‘ لیکن کبھی ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کا انحراف پیغمبر کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یعنی وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور راستے سے بھٹکا دیتا ہے۔
یہ ہے وہ بات۔ یعنی یہ دو گروہ اسلام کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ یہ لوگ نہ فقط خود عاصی‘ گنہگار‘ بدبخت‘ شقی اور جہنمی ہیں بلکہ اسلام کے لئے بھی سدِراہ اور دوسرے مسلمانوں کی گمراہی کابھی سبب ہیں۔ (یہ لوگ کون ہیں؟) ایک راز فاش کرنے والا عالم اور دوسرا پرہیز گار اور عبادت گزار جاہل۔ یہ بھی وہی مضمون ہے۔

اسلامی معاشرے کو داخلی خطرہ درپیش ہے ان سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے درجے پر قرن اور اس کے بعد رسولِ اکرم۰ کی احادیث‘ مسلسل ہم سے کہتی ہیں کہ اسلامی معاشرے کو اپنے اندر سے خطرہ درپیش ہے۔ایک منافق زیرک اقلیت اور ایک جاہل سادہ لوح لیکن دیندار اکثریت۔ اگر یہ جاہل نہ ہوں تو وہ زیرک کچھ نہیں کرسکتے اور اگر وہ زیرک نہ ہوں تو کوئی ان جاہلوں کو ٹیڑھے راستے پر نہیں لے جائے گا۔

امیر المومنین علی علیہ السلام کی مشکلات

یہیں سے سمجھ سکتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علیٴ کی مشکلات کتنی زیادہ تھیں۔ پٴ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ تنزیل پر جنگ کرتے رہے اور میں تاویل پر۔ واقعاً رسول اللہ کا کام علیٴ کے کام کی نسبت سان تھا۔

رسول اللہ کے مد ِمقابل کون لوگ تھے؟

کفار‘ وہ لوگ جو کافر تھے اورجنہوںنے اپنے کفر کو کسی پردے میں نہیں چھپا رکھا تھا۔ابو سفیان رسولِ اکرم۰ کے مد ِمقابل تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی کفر‘ یعنی کھلا کفر‘ وہ کفر جس کے چہرے پر نقاب نہ ہو‘ اسلام کے مد ِ مقابل یا‘ اُس نے اسلام سے شکست کھائی، لیکن جب کفر اسلام کا لباس پہن لیتا ہے‘ تب خطرناک ہوجاتا ہے۔
ابو سفیان جیسے لوگ دن بدن کمزور ہورہے تھے۔ اور (خر کار) ختم ہو گئے۔ لیکن علیٴ کے مدِمقابل معاویہ تھا۔ جس کی ماہیت ابوسفیان کی ہی ماہیت ہے‘ فرق یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کا لباس پہن رکھا ہے۔ جو لوگ معاویہ کے سامنے تے ہیںمحسوس نہیں کرتے کہ وہ اب بھی ہبل بت کے خلاف ہی جنگ زماہیں۔
وہ ہستی جس کا بقولِ امیر المومنینٴ ( اور جسے ج تاریخ نے بھی سو فیصد درست ثابت کر دیا ہے) حضرت عثمان کے قتل میں سب سے زیادہ ہاتھ تھا۔ حضرت عثمان کے قتل کے اسباب خود معاویہ اور امویوں نے فراہم کئے تھے۔ تاکہ اس قتل سے فائدہ اٹھا سکیں۔ (حضرت عثمان خود بنی امیہ سے تعلق رکھتے تھے) ان لوگوں نے سوچا کہ ابھی تک وہ زندہ عثمان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ اب موقع گیا ہے کہ حضرت عثمان کی لاش سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کی ناراضگی کے اسباب فراہم کریں تاکہ لوگ مل کر حضرت عثمان کو قتل کردیں۔ حضرت عثمان نے معاویہ سے مدد طلب کی۔ معاویہ نے لشکر بھیجا لیکن اسے حکم دیا کہ مدینہ کے پاس فلاں جگہ پر ٹھہر جانا اور مدینہ میں داخل نہ ہونا۔اگر تم خود اپنی نکھوں سے بھی حضرت عثمان کو قتل ہوتے دیکھو‘تب بھی جب تک میں حکم نہ دوں کوئی قدم نہ اٹھانا۔ انہوںنے خاص طور پہ یہ کہاکہ :کہیں اپنے جذبات کے زیر اثر نہ جانا‘دیکھنا کہ میرا حکم کیا ہے۔ انہوںنے اپنے کارندوں کو حضرت عثمان کے گھر کے اندر بھیجا اور حکم دیا کہ جونہی عثمان قتل ہوں‘ اُن کی قمیض اور ہر وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے ‘اٹھا کر لے نا۔ حضرت عثمان کی قمیض کا معاویہ کے ہاتھ میں ہونا حادثاتی اور اتفاقی معاملہ نہ تھا۔ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
حضرت عثمان کی نائلہ نامی ایک بیوی نے حضرت عثمان کو اچھی نصیحتیں کی تھیں کہ پ علیٴ کی بات سنیں‘ اُنہیں اپنا دشمن نہ سمجھیں‘ وہ پ کی اور مسلمانوں کی بھلائی کی بات کرتے ہیں‘ مروان کی بات نہ سنیں۔ لیکن وہ مروان کی بات سنا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے حضرت عثمان کو قتل کرنا چاہا تو نائلہ خاتون نے اپنے پ کو حضرت عثمان کے اوپر گرا دیا‘ تاکہ انہیں بچا سکیں۔ لیکن اس خاتون کی ایک انگلی بھی کٹ گئی جو معاویہ کے پاس لے جائی گئی۔ بعدازاں معاویہ نے اس قمیض کو اپنے منبر کے ساتھ ویزاں کر دیا۔ اس کٹی ہوئی انگلی کو بھی انہوںنے لٹکا دیا اور پھر ہائے ہائے کر کے رونا شروع کر دیا کہ مظلوم خلیفہ قتل ہو گئے۔ ايّها الناس! انتقام‘ انتقام‘ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَليِّه سُلْطاناً۔
اب جہالت بھی مدد کرتی ہے۔ کسی ایک نے بھی یہ نہ پوچھا کہ قرن تو کہتا ہے کہ جب کوئی مظلوم مار اجائے‘ تو ہم اس کے وارث کو اختیار دیتے ہیں کہ ئے اور اس کے خون کا مطالبہ کرے‘ تم کون ہوتے ہو؟ تم تو خونِ عثمان کے ولی نہیں ہو!!

حضرت علی کے اکابر اصحاب کا تردد اب علی کی جنگ کس سے ہوگی؟

ایسے شخص سے جو مسلسل اسلام کا دم بھرتا ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے حضرت علیٴ کے کام کو مشکل بنا دیا ہے۔ امیر المومنین کے اکابر اصحاب کو ان لوگوں کے خلاف جنگ کرنے میں شک و تردد تھا۔
ربیع بن خثیم‘ یہی خواجہ ربیع جن کا مقبرہ مشہد میں ہے اورجس کی لوگ زیارت کو جاتے ہیں‘یہ زاہدوں‘ عابدوں اور امیر المومنینٴ کے شیعوں میں سے تھے۔ البتہ ایک کم بصیرت شیعہ۔ یہ بڑے عبادت گزار تھے لیکن کم بصیرت تھے۔ یہ چند افراد کے ہمراہ امیرالمومنین کے پاس تے ہیں اور کہتے ہیں: یا امیر المومنین! حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان سے جنگ کرنے میں شک ہے۔ دوسری طرف ہم پ سے جدا بھی نہیں ہونا چاہتے۔ پ ان سے جنگ کرنے کے سوا ہمارے ذمے کوئی اور کام کردیں۔ امیر المومنین نے انہیں ایک سرحد پر ذمے داری سونپ دی۔ کہنے لگے:ہاں یہ بہت اچھا ہے‘وہاں ہم کافروں سے جنگ کریں گے۔ اب ہم مطمئن ہیں۔ لیکن یہاں مسلمانوں سے جنگ کرنے میں ہمیں شک ہے اور ہمارے دل میں وسوسہ ہے۔ ربیع بن خثیم جیسا دمی ایسی بات کہتا ہے۔
البتہ انہی کے درمیان ایسے لوگ بھی تھے جن کی بصیرت کامل تھی۔ ان میں سب سے نمایاں عمار بن یاسر۱ تھے۔ عمار جنگ کرتے جاتے اور کہتے جاتے کہ کل ہم نے تنزیلِ قرن پر جنگ کی اور ج ہم تاویلِ قرن پر جنگ کر رہے ہیں۔ جب معاویہ کا پرچم قرن کے ظاہری نعروں کے ساتھ بلند ہوا تو عمار نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اِن پرچموں اور اُن پرچموں میں کوئی فرق نہیں جن کے خلاف ہم بدر و احد میں جنگ کرتے رہے ہیں۔ عمار سپاہِ امیرالمومنین میں ایک کسوٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ عمار شہید ہوئے تو ایک بڑی تعداد کو یقین گیا۔ کیونکہ عمار ایک ایسے دمی تھے جن کے بارے میں سب ہی ایک روایت جانتے تھے اور یہ روایت سب اصحابِ رسول‘ تابعین اوراہلِ کوفہ و شام میں متواتر تھی۔
جس دن مسجد ِنبوی کی تعمیر ہو رہی تھی اور رسولِ اکرم۰ نئے نئے مدینہ میں ئے تھے اور عمار بھی حال ہی میں مکہ سے وہاںپہنچے تھے۔ عمار کے اندر جو شوق‘ ولولہ اورایمان تھا ‘اسکی وجہ سے وہ مسجد کی دیواریں بلند کرنے کے لئے دوسروں سے دوگنا زیادہ پتھر اٹھاتے تھے‘ پسینہ بہہ رہا تھا‘ خستہ حال تھے اور اس حال میں نعرے بلند کرتے‘ شعر پڑھتے اور (پتھراٹھائے) رہے تھے۔ رسولِ اکرم۰ نے اُن کی طرف نگاہ اٹھائی‘ مسکرائے اور فرمایا:
’’تم خوش قسمت ہو اے عمار! تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘
یہ قرنِ مجید کی اس یت کی طرف اشارہ ہے کہ:
’’اور اگر مومنین کے دو گروہ پس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ‘اسکے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے ‘یہاں تک کہ وہ بھی حکمِ خدا کی طرف واپس جائے۔‘‘(سورہ حجرات۔ یت٩)
مطلب یہ ہے کہ رسولِ اکرم۰ خبر دے رہے تھے کہ مستقبل میں مسلمانوں کے دو گروہوں کے مابین جنگ ہوگی۔ ان میں سے ایک گروہ سرکش و باغی ہوگا۔ لہٰذا اس سرکش گروہ کے خلاف اس دوسرے گروہ کی حمایت کی جائے۔ جب عمار قتل ہوئے‘ تو جن لوگوں کوشک تھاوہ کہنے لگے کہ ج ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ علیٴ حق پر ہیں اورمعاویہ باطل پر۔ ہاشم بن عتبہ بن مرقال ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں عمار کی شہادت کے بعد دیکھاگیا کہ وہ اب شدت کے ساتھ حملے کر رہے ہیں یہاں تک کہ وہ قتل ہو گئے۔
پس دیکھئے کہ حضرت علیٴ کا کام کس قدر مشکل تھا۔ علیٴ کے مدِمقابل جو لوگ تھے ان میں سے اکثریت جاہل و نادان لوگوں کی تھی اور ایک اقلیت منافقوں اور دو رُخے لوگوں کی تھی۔

نتیجہ

اب ہم اپنی معروضات سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ وہ یت جو واقعے اور حدیث ِ غدیر کے حوالے سے نازل ہوئی‘ اس کے مذکورہ جملے اور رسولِ اکرم۰ کی فرمائی گئی احادیث سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ واقعہ اس زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب بھی مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا ہے یا پہنچتا ہے وہ اسی طرح پہنچتا ہے۔ پ اس وقت دیکھیں کہ مسلمانوں کو فلسطین میں جو نقصان پہنچ رہا ہے ‘اس میں جس قدر مسلمانوں کا ہاتھ ہے وہ زیادہ ہے یا اسرائیل کا جو بیرونی دشمن ہے۔ اس وقت بے وطن چھاپہ ماروں کو اردنی سپاہیوں سے زیادہ خطرہ ہے یا اسرائیلی سپاہیوں سے؟ ہمیشہ یونہی رہا ہے اور ج بھی ایسا ہی ہے۔
ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو چیز ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہے ‘وہ یہ ہے کہ ہمارے جوان طبقے میں‘ ہمارے روشن فکر اور روشن بین طبقے میں اور ہمارے طلبا کے طبقے میں ایک دینی تحریک پیدا ہو گئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ لوگ بصیرت اور دین کو ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا رکھیں گے اوراسے معاشرے کو سونپیں گے۔تاکہ ہم پھر اپنی اصلی عزت و شوکت کی طرف لوٹ جائیں۔ ہم مسلمان ہوں‘ کامل مسلمان‘ بابصیرت مسلمان۔ شیعہ ہوں لیکن حقیقی شیعہ‘ علی کو پہچاننے والے شیعہ‘ ایسے شیعہ جو علی کی معرفت بھی رکھتے ہوں اور علی کے پیروکار بھی ہوں۔