غیر اللہ کا حکم اور غیر اللہ کو پکارنا
- شائع
-
- مؤلف:
- علامہ سید مرتضیٰ عسکری رحمۃ اللہ علیہ
- ذرائع:
- اقتباس از "دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ "
محمد بن عبدالوہاب نجدی اپنی کتاب”الاصول الثلاثہ وادلھا“ کے صفحہ ۴ پریوں رقمطراز ہیں:
خدا تم پر رحم کرے۔ جان لو کہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں پر ان تین مسائل کا سیکھنا اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔
پہلا مسئلہ: بے شک خدا نے ہمیں خلق کیا ہے۔
دوسرا مسئلہ: خدا اس بات سے راضی نہیں کہ اس کی عبادت میں کسی اور کو شریک قرار دیا جائے، نہ کسی مقرب فرشتے کو نہ ہی کسی نبی مرسل کو۔ اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰه فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰه اَحَدًا۔,۱اور یہ کہ مساجد اللہ کے لئے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔,۲
اسی کتاب کے صفحہ ۵ میں مرقوم ہے:
دین حنیف اور ملت ابراہیم یہ ہے کہ تم صرف خدائے واحد کی عبادت کرو، دین کو اس کے لئے خالص رکھتے ہوئے۔ اسی چیز کا حکم تمام انسانوں کو دیا گیا ہے اور اسی غرض کے لئے ان کی خلقت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے خلق کیا ہے۔,3
یہاں یعبدون (وہ میری عبات کریں) سے مراد ہے:یوحدونی (میری وحدانیت کا اقرار کریں)۔ خدا کے اوامر میں سب سے بڑا امر توحید کے متعلق ہے۔ توحید سے مراد ہے صرف خدا کی عبادت کرنا۔ اور خدا نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان میں سب سے اہم شرک ہے اور شرک سے مراد خدا کے ساتھ کسی اور کو پکارنا ۔(اس کے بعد سے لے کر مذکورہ کتاب کے صفحہ ۸ تک دیکھئے)لب لباب یہ کہ مذکورہ دعوے کی دلیل یہ آیت ہے:وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰه الخ
آگے چل کر مصنف اسی کتاب کے صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں:
چھٹا قاعدہ: ہمارے زمانے کے مشرکین کا شرک سابقہ زمانے والوں کے شرک سے زیادہ سخت ہے کیونکہ سابقہ مشرکین خوشحالی کے دوران شرک کے مرتکب ہوتے تھے اور شدت کے وقت ملحد بن جاتے تھے۔ لیکن اس دور کے مشرکین کا شرک دائمی ہے۔ خواہ خوشحال ہو ں یا مشکلات میں گرفتار۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے:فَاِذَارَ کِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَه الدِّیْنَج فَلَمَّا نَجَّاهمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَاهمْ یُشْرِکُوْنَ۔, 4وہ جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔
نیز انہوں نے اپنی کتاب الدین و شروط الصلاة ۳ کے صفحہ ۸ میں جو کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
عبادت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے۔ اس کی دلیل خدا کا یہ فرمان ہے:۳ ملاحظہ فرمائیں رسالہ ” الاصول الثلاثة مطبعة المدنی قاهره، الدین و شر و طنها و غربا۔
وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰه الخ اور شفاء الصدور نامی رسالہ جسے دار الافتاء العامہ نے ”الجواب المشکور“ کے جواب میں شائع کیا ہے کے صفحہ ۳ میں مذکور ہے:
شرک کی تاریکیوں کو اس سر زمین (یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ) سے دور کرنے والے، شرک کے میل کچیل کو پاک کرنے والے اور شرک کے تمام آثار کو مٹانے والے دعوت توحید کے علمبرداروں کے جانشین کی خدمت میں انہوں نے یہ مسئلہ پیش کیا,5
غیر اللہ کو پکارنے یا نہیں اللہ کے ساتھ پکارنے سے ان کی مراد یہ ہے کہ کوئی مسلمان ”یارسول اللہ“ وغیرہ کہے یعنی حضور(ص) کو اللہ کے ہاں وسیلہ قرار دے یا حضور(ص) کے علاوہ خدا کے کسی اور ولی کو اس طرح پکارے۔ اس چیز کو شرک قرار دینے والوں کے دلائل کا محور خدا کا فرمان لَا تَدْعُوْا مَعَ اللهِ اور اس قسم کے وہ فرامین ہیں جن میں اللہ نے غیر اللہ سے مانگنے یا اللہ کے ساتھ غیر اللہ سے مانگنے سے منع کیا ہے۔ لیکن اس نظرئیے کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ استدلال خوارج کے استدلال سے مشابہت رکھتا ہے جنہوں نے جنگ صفین میں تحکیم(ثالثی) قبول کرنے والوں کو کافر قرار دینے کے لئے مذکورہ ذیل آیات وغیرہ سے استدلال کیا مثلاً:
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰهط عَلَیْه تَوَکَّلْتُج وَعَلَیْه فَلْیَتَوَ کَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔6حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
اَفَغَیْرَ اللهِ اَبْتَغِیْ حَکَمًا وَهوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلًا۔7کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو منصف بناؤں؟ حالانکہ اس نے آپ کی طرف مفصل کتاب نازل کی ہے۔
اس کی ابتداء صفین سے ہوئی جب معاویہ نے عراقیوں کو صلح کی دعوت دینے کے لئے قرآن مجید کو نیزوں پر چڑھایا۔ یوں عراقی قاریوں کی اکثریت دھوکہ کھا گئی۔ انہوں نے حضرت علی(ع) کو جنگ بندی اور تحکیم کے لئے معاویہ کی دعوت قبول کرنے پر مجبور کیا پھر معاویہ نے اپنی طرف سے عمروبن عاص کو ثالث بنایا اور لشکر عراق نے حضرت علی(ع) کو مجبور کیا کہ آپ حضرت ابو موسیٰ اشعری کو اپنا ثالث بنائیں۔ جب دونوں ثالث جمع ہوئے تو عمر بن عاص نے ابو موسیٰ کو دھوکہ دینے کے لئے کہا:
ہم علی(ع) اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کسی کو اپنا رہبر چنیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعرینے عمرو بن عاص پر سبقت کرتے ہوئے کہا
میں علی(ع) اور معاویہ دونوں کو معزول کرتا ہوں تاکہ مسلمان اپنے لئے کسی کو امام منتخب کر لیں۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے تأثر دینے کے لئے یہ اعلان کیا:
ابو موسیٰ اشعری نے اپنے امام کو معزول کر دیا ہے جیسا کہ تم سب نے دیکھ لیا لیکن میں اپنے ساتھی (معاویہ) کو عہدہ امامت پر برقرار کرتا ہوں۔
یہ سن کر وہ دونوں لڑ پڑے اور دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ اس کے بعد عراقی لشکر میں تحکیم قبول کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا:
لا حکم الا لله ”فیصلہ (کرنے کا حق) صرف خدا کے لئے ہے، اور بولے ہم نے تحکیم قبول کر کے کفر کیا پھر ہم تائب ہوئے۔ باقی لوگوں پر بھی واجب ہے کہ وہ اپنے کفر کا اقرار کریں اور پھر ہماری طرح توبہ کریں۔ جو لوگ ایسا نہ کریں وہ کافر ہیں۔
یوں انہوں نے پہلے توامیر المومنین علی المرتضیٰ (ع)، حضرت عائشہ، عثمان ، طلحہ، معاویہ، عمرو بن عاص اور ان کے حامیوں کو جو ان مسائل میں شریک تھے کافر قرار دیا اور پھر تمام مسلمانوں کے خلاف اپنی تلواروں کے ساتھ بر سر پیکار رہے۔ خود بھی قتل ہوتے رہے اور دوسروں کو بھی قتل کرتے رہے۔ ,8
یوں خوارج کے بارے میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا کہ ”وہ مسلمانوں سے جنگ کریں گے اور بت پرستوں کو دعوت دیں گے۔ اگر میرا سامنا ان سے ہوتا تومیں ضرور انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا“۔ بہت سی دیگر احادیث میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کرتا۔ 9
ان دونوں مسئلوں میں مخالفین کا جواب
پہلے نظرئیے کے مخالفین یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ اگر قرآن نے ایک جگہ یہ کہا ہے:
ان الحکم الا لله ”حکم اور فیصلہ تو صرف خدا کا ہے“ تو دوسری جگہ کہا ہے:
فَاِنْ جَآءُ وْکَ فَا حْکُمْ بَیْنَهمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْه مْج وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْهمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْئًاط وَاِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَهمْ بِالْقِسْطِ۔10
اگریہ لوگ آپ کے پاس (کوئی مقدمہ لے کر) آئیں تو ان میں فیصلہ کریں یا ٹال دیں (آپ کی مرضی) اور آپ نے انہیں ٹال دیا تو یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور آپ فیصلہ کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اہل کتاب کے درمیان فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ ایک اور آیت میں خدا نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے درمیان میں سے کسی کو ثالث بنائیں۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:وَاِنْ خِفْتُم ْشِقَاقَ بَیْنِهمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَهلِهوَحَکَمًا مِّنْ اَهلِهاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللهُ بَیْنَهمَا 11
اور اگر تمہیں میاں بیوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک منصف مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک منصف عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کی کوشش کریں تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کرے گا۔
ان دونوں آیتوں کے درمیان کوئی منافات نہیں کیونکہ جب پہلی آیت نے یہ کہا کہ حکم صرف اللہ کا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حکم اور فیصلے کا یہ دائرہ محدود ہے۔ جس طرح عدالتوں کے قاضیوں کے معاملے میں نظر آتا ہے۔ لیکن یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ کسی اور کو اپنی طرف قاضی مقرر کریں۔ یہ حق تو مقتدر اعلیٰ کو حاصل ہے۔ بنابریں قاضیوں کو محدود پیمانے پر فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ صرف لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے مجاز ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے درمیان خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔ یعنی اسے حق حاصل ہے کہ کسی کو اپنی طرف سے قاضی بنائے۔ بنابریں خدا کے لئے حکم اور فیصلے کا غیر محدود مطلقاً حق حاصل ہے۔ بنابریں جب انبیاء علیہم السلام فیصلہ کرتے ہیں تو حکم خدا سے فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان فیصلہ کرنے والے ثالثی حضرات بھی حکم خدا کی رو سے ایسا کرتے ہیں۔ پس جب یہ فیصلہ کرنے والے حکم خدا کی رو سے فیصلہ کریں تو ان کا حکم نہ غیر اللہ کا حکم شمار ہو گا نہ ما سوی الله کا نہ دون اللہ کا نہ مع اللہ کا بلکہ ان کا فیصلہ عین حکم خدا اور اذن خدا کے تابع ہو گا۔
یہی حال قرآن کریم کی بعض دیگر آیات کا ہے جو خدا کی بعض صفات کو بیان کرتی ہیں۔ یہ آیات مبارکہ خدا کی ان صفات کو محدود پیمانے پر ثابت نہیں کرتیں بلکہ غیر محدود(مطلق) صفات کو ثابت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے صفت ”الملک“ کا اثبات۔
اللہ تعالیٰ اور صفت الملکخدا کے لئے اس کی صفتالملک کے اثبات کے معاملے میں ایک طرف سے فرمان خداوندی ہے:
وَلِلّٰه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهمَاز وَاِلَیْه الْمَصِیْرُ 12
اور آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی حکومت ہے اور (سب کو) اسی کے طرف لوٹ کر جانا ہے
نیز ارشاد الہی ہے:
لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّه شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ۔ 13
اور جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے۔
اور دوسری طرف سے ارشاد خداوندوی ہے:
اَوْمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ 14
جس کے تم مالک ہو ۔
اس طرح کی آیات کے درمیان کوئی منافات نہیں کیونکہ خدا خود فرماتا ہے:
قُلِ اللّٰهمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُوٴْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُط بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ 15
کہہ دیجئے: اے اللہ! اے مملکت (ہستی) کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہے حکومت چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کرتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
پس جب ثابت ہو ا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مالک بناتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ ملک میں اللہ کا شریک ہے نہ وہ ملکیت غیر اللہ کی ملکیت ہے نہ ماسوی اللہ کی اور نہ دون اللہ کی کیونکہ بندہ اور اس کی ساری ملکیت اس کے رب کی ملکیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اذن سے بندے کا کسی چیز کا مالک بننا” الملک اللہ“ کی واضح ترین مثال ہے کیونکہ خدا کی مالکیت بندے کی مالکیت کی طرح محدود نہیں ہے۔ بندے کی مالکیت خدا کی مشیت اور خدا کے اذن کی تابع ہے اس لئے محدود ہے۔ وہ زمان و مکان اور اختیار کے لحاظ سے اللہ کی معین کردہ حدود سے تجاوز کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہی حال خدا کی ”خالقیت“ کا بھی ہے۔
خدا کا خالق اور محیی ہونا
خدا کی صفت خالق اور محیی کے بارے میں مذکورہ بحث کی گنجائش ہے کیونکہ خداوند ذوالجلال ہر چیز کا خالق ہے۔
وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ 16ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے۔هلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُاللهِ17کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے؟اَلَا لَه الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ 18آگاہ رہو! آفرینش اسی کی اور امر بھی اسی کا ہے۔
نیزوَھُوَالَّذِیْ یُحْیی وَیُمِیْتُ 19
اور وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔نیز فرمایا ہے:فَاللهُ هوَ الْوَلِیُّ وَهوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی۔ 20پس سرپرست تو صرف اللہ ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔
ایک طرف سے ان آیات مجیدہ اور دوسری طرف سے حضرت عیسیٰ کو خلق کرنے اور زندہ کرنے کی اجازت عطا کرنے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ سے فرمایا :وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَهیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْها فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِیٴُ الْاَکْمَه وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ ج ۔ 21
اور جب آپ میرے حکم سے مٹی سے پرندے کا پتلا بناتے تھے پھر آپ اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور آپ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے صحت یاب کرتے تھے اور آپ میرے حکم سے مردوں کو ( زندہ کر کے) نکال کھڑا کرتے تھے ۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو بناتا ہے تو اس کی مثال چیزیں بنانے والے آلات کی سی نہیں ہوتی جو محض اسی کام پر جتا رہتا ہے۔(منزہ ہے وہ ذات اس بات سے)اور نہ ہی اس کی مثال انسان جیسی ہے جو کام کے دوران کسی دوسرے کو کام کی طاقت نہیں دے سکتا بلکہ وہ ذات اس بات پر قادر ہے کہ انسانوں اور حیوانوں کو نر و مادہ کے ملاپ کے ذریعے زندگی عطا کرے نیز اس بات کی بھی قدرت رکھتا ہے کہ اپنے دست قدرت سے ماں باپ کے بغیر ہی اسے پیدا کرے جیسا کہ
آدمکو خلق کیا ہے۔ بالکل اسی طرح وہ حضرت عیسیٰ کو یہ طاقت دے سکتا ہے کہ وہ اس کے اذن سے کسی اور چیز کو خلق کریں۔ ان تمام مراحل میں خالق حقیقی اللہ ہی کی ذات ہے۔
بالکل یہی حال زندہ کرنے کے مسئلے میں بھی ہے کیونکہ وہ جس طرح قیامت کے دن بلاواسطہ زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اسی طرح اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنے پیغمبر عیسیٰ بن مریم کو زندہ کرنے کی طاقت دے تاکہ عیسیٰ اس کے اذن سے مردوں کو زندہ کریں۔
اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ بنی اسرائیل کی پیلی گائے کے بعض اعضاء کو مقتول کے بے جان بدن پر مارنے کو زندہ ہونے کا سبب قرار دے تاکہ مقتول زندہ ہو کر لوگوں کو اپنے قاتل کی خبر دے۔ ,22
پھر یہ بھی مد نظر رہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم نے جب پرندے کو خلق کیا اور مردے کو زندہ کیا تو یہ دونوں کام خدا کے اذن سے واقع ہوئے ہیں۔ بنا بریں جب حضرت عیسیٰ نے پرندے کو بنایا اور مردے کو زندہ کیا تو خدا کے ساتھ مل کر نہیں بنایا نہ ہی خدا کے ساتھ مل کر زندہ کیا۔ اور یہ دونوں کام غیر اللہ کے تھے نہ دون اللہ کے، بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے خلق کیا اور زندہ کیا ہے۔
خدا کا ولی اور شفیع ہونا
اسی طرح خداوند عالم کے ولی اور شفیع ہونے کے بارے میں بھی بحث کی جا سکتی ہے۔ شفاعت کے مسئلے میں ایک طرف سے خدا کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ شُفَعَآئَط قُلْ اَوَلَوْ کَانُوْا لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَعْقِلُوْنَ۔ قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعًاط لَه مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ثُمَّ اِلَیْه تُرْجَعُوْنَ۔23
کیا انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو شفیع بنا لیا ہے؟ کہہ دیجئے: خوا وہ کسی چیز کا اختیار نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی کچھ سمجھتے ہوں (تب بھی شفیع بنیں گے؟)۔ کہہ دیجئے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔ آسمان اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے پھر تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔
مَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِه مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍط اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ۔,24
اس کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ شفاعت کرنے والا۔ کیا تم نصیحت نہیں لیتے؟
لَیْسَ لَهمْ مِّنْ دُوْنِه وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ۔,25
اللہ کے سوا نہ ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور شفاعت کنندہ۔وَذَکِّرْ بِه اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْق صلي لَیْسَ لَها مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلِیٌّ وَّلاَ شَفِیْعٌ۔26
البتہ اس (قرآن) کے ذریعے انہیں نصیحت ضرور کریں مبادا کوئی شخص اپنے کئے کے بدلے پھنس جائے کہ اللہ کے سوا اس کا نہ کوئی کارساز ہو نہ ہی شفاعت کنندہ۔
اور دوسری طرف سے ارشاد خداوندی ہے:مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْم بَعْدِ اِذْنِه27
اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَه ٓ اِلَّا بِاِذْنِہ۔28
کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَه الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَه قَوْلاً29اس روز کسی کی شفاعت فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔
ارشاد الہٰی ہے:وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَه ٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَه30اللہ کے نزدیک کسی کی شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کےجسے اللہ نے اجازت دی ہو۔
ارشاد ہے:لَا یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهدًا۔31کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔
فرمان الہٰی ہے:وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی۔32وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے۔
ان درج بالا آیات مبارکہ کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو شفاعت کی اجازت دیتا ہے تو یہ شفاعت اللہ کی ہے۔ یہی حال خد کی صفت ”ولی“ کا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ”ولی“ ہے اسی طرح دوسری صفات کے علاوہ خداوند عالم ایک صفت کی ولی بھی ہے چنانچہ ارشاد قدرت ہے۔
اِنَّ اللهَ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط یُحْیِ وَیُمِیْتُط وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔33
آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لئے ہے۔ زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے نہ مددگار۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِط وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ۔34
کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت صرف اللہ ہی کے لئے ہے؟ اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی کارساز و مددگار نہیں۔
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ٓا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیٓ اَوْلِیَآئَط اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَهنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ نُزُلاً 35
کیا یہ کافر خیال کرتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو سرپرست بنائیں گے؟ ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے مہمان سراء بنا کر تیار رکھا ہے۔
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰةَ وَیُوٴْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَهمْ رَاکِعُوْنَ 36
تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔
ان آیات مبارکہ کے درمیان بھی کوئی منافات نہیں ہے۔ بنا بریں اگر ہم کہیں کہ اللہ ، رسول(ص) ،نماز قائم کرنے والے اور رکوع میں زکات دینے والے ہمارے ولی ہیں تو اس سے شرک لازم نہیں آئے گا۔ کیونکہ حقیقی ولی تو اللہ ہے اور اسی نے ان دونوں کو یہ ولایت عطا کی ہے جس طرح اس نے والد کو اپنے فرزند پر ولایت عطا کی ہے۔
تمام مذکورہ صفات کے معاملے میں جس طرح یہ کہنا صحیح ہے کہ اللہ ہی حاکم ، مالک ، شفیع اور ولی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لئے بھی مالک ، حاکم، شفیع ااور ولی کہنا درست ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے خاص بندوں کو یہ صفات عنایت فرما دی ہیں لہذا انہیں ولی کہنا کوئی قباحت نہیں رکھتا۔
روحوں کو قبض کرنے والا کون ہے؟
درج بالا گفتگو کو سمجھنے کے لئے ہم سب سے واضح مثال یہاں پیش کرتے ہیں ۔ ارشاد خداوندی ہے:
اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلٰٓئِکَةُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِهمْ 37
فرشتے جن کی روحیں اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہوں۔
اَلَّذِیْنَ تَتَوَفَّاهمُ الْمَلٰٓئِکَةُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلَامٌ عَلَیْکُمُ38
جن کے روحیں فرشتے پاکیزہ حالت میں قبض کرتے ہیں (اور انہیں) کہتے ہیں: تم پر سلام ہو۔
تَوَفَّتْه رُسُلُنَا وَهمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ 39
ہمار بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور کوتاہی نہیں کرتے۔
قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ۔40
کہہ دیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔
اَللهُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِها 41
موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔
ان آیات کی روشنی میں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فرشتے موت کے وقت خدا کے اذن سے لوگوں کی روحیں نکال لیتے ہی تو وہ نہ جھوٹا کہلائے گا اور نہ ہی مشرک۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ ملک الموت ”عزرائیل“ موت کے وقت خدا کے اذن سے جانیں نکال لیتا ہے تو یہ نہ جھوٹ ہو گا نہ شرک۔ ان دونوں باتوں اور اس بات کے کہ موت کے وقت لوگوں کی روحیں خدا قبض کر لیتا ہے کوئی منافات نہیں ہے۔ ان تمام صورتوں میں روحوں کا قبض کرنے والا خدا کے علاوہ کوئی نہیں اور نہ ہی اس امر میں کوئی خدا کا شریک ہے بلکہ خدا ہی روحوں کو قبض کرتا ہے۔,42 اور یہی حال ہے خدا کی دیگر صفات کا جن کا تذکرہ سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے۔
حوالہ جات
۱ سورة الجن آیت ۱۸
۲ رسالہ ”الاصول الثلاثة“ طبع مطبعة المدنی قاہرہ ۱۳۸۰ھ، رسالہ ”الدین و شروطھا“ طبع قاہرہ
3 سورة الذاریات ۔آیت ۵۶
4 سورة العنکبوت آیت ۶۵-
5 رسالہ شفاء الصدور طبع اول موسسة النور للطباعة والتجلید۔
6 سورة یوسف آیت ۶۷
7 سورة الانعام آیت۱۱۵
8 جنگ صفین کے حالات اور خوارج کی سرگذشت کا مطالعہ کرنے کے لئے ملاخطہ ہو تاریخ طبری، تاریخ کامل ابن اثیر، البدایہ و النھایہ وغیرہ۔
9 صحیح مسلم باب ذکر الخوارج و صفاتھم حدیث نمبر ۱۴۳،۱۴۴،۱۴۵،۱۴۶
10 سورة المائدہ آیت ۴۲
11 سورة النساء آیت ۳۵
12 سورة المائدہ آیت ۱۸
13 الاسراء آیت ۱۱۱، الفرقان آیت۲
14 سورة النساء آیت۳،۲۴،۲۵،۳۶
15 سورة آل عمران آیت۲۶
16 سورة الانعام ۱۰۲
17 سورة فاطر آیت ۳
18 سورة الاعراف آیت ۵۴
19 سورة مومنون آیت ۸۰
20 سورة الشوری آیت ۹
21 سورة المائدہ آیت۱۱۰
22 اشارہ ہے سورة بقرہ کی آیات نمبر ۶۷ تا ۷۳ کی طرف
23 سورة الزمر آیت ۴۳،۴۴
24 سورة السجدة آیت ۴
25 سورة الانعام آیت ۵۱
26 سورة الانعام ۷۰
27سورة یونس آیت۳
28 سورة البقرة آیت ۲۵۵
29 سورة طہ آیت ۱۰۹
30سورة سبأ آیت ۲۳
31 سورة مریم آیت ۸۷
32 سورة الانبیاء آیت ۲۸
33 سورة التوبہ آیت ۱۱۶
34 سورة البقرة آیت ۱۰۷
35 سورة الکہف آیت ۱۰۲
36 سورة المائدہ آیت ۵۵
37 سورةالنحل آیت ۲۸
38 سورة النحل آیت ۳۲
39 سورة الانعام آیت ۶۱
40 سورة السجدہ آیت ۱۱
41 سورة الزمر آیت ۴۲
42 یہ استدلال حضرت علی (ع) کے قول کے ماخوذ ہے جسے شیخ صدوق نے کتاب التوحید باب الرد علیٰ الثنویہ و الزنادقة صفحہ ۲۴۱ میں نقل کیا ہے۔