امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

رسول خدا (ص) کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5


وہب اپنی شریک حیات کے پاس گۓ اور کہا :
''آج عبدالمطلب کے سجیلے بیٹے عبداللہ نے ایسے کارنامے انجام دیۓ کہ ان کو دیکھ کر میں انگشت بدندان رہ گیا ۔ یہودیوں کےایک گروہ نے ان پر حملہ کر دیا تھا ۔ وہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے ، لیکن عبداللہ نے ان کے بزدلانہ حملوں کا تن تنہا جواب دیا اور ان میں سے کئی آدمیوں کو ہلاک کر دیا ۔ ایسا حسین و جمیل اور باکمال جوان میں نے نہیں دیکھا ۔ تم ان کے والد کے پاس جاؤ اور عبداللہ سے اپنی بیٹی آمنہ سے شادی کا پیغام دو ! ہو سکتا ہے اس جوان کی وجہ سے ہمارے خاندان کی عزت بڑھ جاۓ ''
وہب کی بیوی خود کو اس لائق نہیں سمجھتی تھی کہ انہیں عبداللہ جیسا داماد ملے گا ۔ لہذا اس نے کہا :
مکہ کے شرافاء اور رئیس ان سے اپنی لڑکی منسوب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ، لیکن عبدالمطلب نے ان میں سے کسی کا رشتہ قبول نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ عراق و شام کے بادشاہوں اور بڑے لوگوں نے بھی ان سے اس سلسلے میں خط و خطابت کی ہے مگر مایوسی کے سوا انہیں کچھ نصیب نہیں ہوا ہے ۔ کیا اس کے باوجود عبداللہ ہم جیسے غریبوں کی لڑکی سے شادی کرسکتے ہیں ؟
'' پھر بھی تمہیں ناامید نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ میں نے عبداللہ کے خاندان والوں کو ان پر یہودیوں کے حملہ کرنے کی خبر دی ہے لہذا ان کی نظروں میں میرا احترام ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے اس مخلصانہ کام کی وجہ سے ہماری بات کو رد نہیں کریں گے ''
وہب کی بیوی نیا لباس پہن کر یاس وامید کی کیفیت کے ساتھ عبدالمطلب کے گھر گئی ۔ خوش قسمتی سے عبدالمطلب اس وقت اپنے بیٹوں سے یہودیوں کے حملہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے ۔ عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا ، عبدالمطلب اور ان کے بیٹوں کے حق میں دعا کی، جواب میں عبدالمطلب نے بھی دعا دی اور اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوۓ کہا : '' آج تمہارے شوہر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، ہم کبھی اس کا صلہ نہیں دے سکیں گے ۔ ان کی نوازشوں کے ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔''
عبدالمطلب کے طرز گفتگو سے وہب کی بیوی کو کچھ یقین ہوا کہ عبدالمطلب ہماری پیشکش پر غور کریں گے ۔ عبدالمطلب نے مزید کہا کہ
'' ہماری جانب سے اپنے شوہر کو بہت سلام کہیے اور کہیے کہ اگر ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں ، انشاءللہ انجام دیں گے ۔''
عورت نے موقع کو غنیمت سمجھا اور عبدالمطلب سے اصل مدعا بیان کیا ، نیز کہا : میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خوش کر دیں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ شام و عراق اور دوسری جگہوں کے رؤساء کی لڑکیاں عبداللہ کے حبالۂ نکاح میں آنے کو اپنے لۓ باعث افتخار سمجھتی ہیں ۔ کمال عقیدت و اشتیاق کے ساتھ ہماری درخواست یہ ہے کہ عبداللہ کا نکاح ہماری بیٹی سے کر لیجۓ ، اسی لۓ میں آپ کے پاس آئی ہوں ۔ عبداللہ کی شخصیت ہمیں بہت زیادہ محبوب ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ مالی لحاظ سے ہم دوسروں کی برابری نہیں کر سکیں گے ۔ لیکن امید ہے کہ عبداللہ ہمارے اس ہدیہ کو رد نہیں کریں گے ۔
وہب کی بیوی کی باتیں سن کر عبدالمطلب نے عبدللہ کے چہرہ پر نگاہ کی کیونکہ پہلے جب بھی بڑے لوگوں کی لڑکیوں سے رشتہ کی بات چلتی تھی تو عبداللہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آتے تھے ۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا : '' بیٹا تمہارا کیا خیال ہے ؟
بیٹے نے کہا : خدا کی قسم ! مکہ کی لڑکیوں میں اس سے زیادہ پاک دامن اور باعفت لڑکی نہیں ہے ۔ وہ باوقار ، پاکیزہ اور عقلمند و دیندار ہے ۔ پاک دامن اور باتقوی جوانوں کی ہمسری کے لۓ ایسی ہی لڑکیاں موزوں ہیں ''
عبداللہ خاموش رہے ۔ عبدالمطلب ان کی خاموشی سے سمجھ گۓ کہ اس رشتہ سے راضی ہیں ، اس لۓ وہب کی بیوی سے کہا : '' مجھے تمہاری بات قبول ہے اور تمہاری لڑکی کو اپنے بیٹے کے لۓ نامزد کرتا ہوں ۔ عبداللہ کی والدہ ، عبدالمطلب کی شریک حیات ، فاطمہ نے وہب کی بیوی سے کہا : میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں تاکہ نزدیک سے آمنہ کو دیکھ لوں ، اگر اس لائق ہو گی تو راضی ہونگی ''
یہ بات تقریبا طے ہو گئی تھی کہ عبداللہ کی شادی آمنہ سے ہو گی ۔ لڑگی والے خصوصا اس کے والدین ، عبداللہ جیسا صالح داماد مل جانے سے بہت خوش تھے ۔ گویا عالم غیبت سے آمنہ کی ماں کو ہاتف مخاطب کرکے کہہ رہا تھا : مبارک ہو ! محمد (ص) کی ولادت میں زیادہ دیر نہیں ہے '' وہب کی زوجہ واپس آئی تو انہوں نے بوچھا : کیا ہوا ؟
جواب ملا کہ آپ کا نصیب جاگ گیا ۔ عبدالمطلب نے آپ کی لڑکی کو پسند کر لیا ہے ۔ لیکن ابھی اطمینان کی سانس نہیں لی جا سکتی کیونکہ عبداللہ کی ماں لڑکی کو قریب سے دیکھنے کے لۓ آ رہی ہیں ۔ خدانخوستہ اگر انہیں ہماری لڑکی پسند نہ آئی تو ساری محنت ضائع ہو جاۓ گی ''
وہب نے بیوی سے کہا : بیٹی کو نیا لباس پہناؤ اور زیور وغیرہ سے سجا سنوار دو ! کیونکہ لڑکیوں میں اتنی کشش ہونی چاہۓ کہ جس سے پسندیدہ بن جائیں ''
آمنہ کی ماں نے بیٹی کو آراستہ کردیا ، جس سے بیٹی کا حسن دوبالا ہو گیا ۔ نیز ماں نے تاکید کر دی کہ فاطمہ کے سامنے ادب و احترام کا خاص لحاظ رکھنا ۔ ہو سکتا ہے فاطمہ بھی اس رشتہ کو پسند کر لیں اور ہماری قسمت جاگ جاۓ ۔
اسی اثناء میں فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں ۔ آمنہ ادب و احترام سے ان کی تعظیم کے لۓ کھڑی ہو گئی ۔ فاطمہ اپنی ہونے والی بہو کے حسن و جمال کی شیفتہ ہو گئیں اور آمنہ کی والدہ سے کہا : میں نہیں جانتی تھی کہ آپ کی بیٹی اتنی حسین اور باوقار ہے ۔ میں نے بارہا آمنہ کو دیکھا تھا لیکن اس کے کمال کی طرف متوجہ نہیں ہو سکی تھی ''
'' یہ بھی آپ کے خاندان کی برکت سے ہے ''
فاطمہ نے آمنہ سے کچھ باتیں کیں تو آمنہ کو ایسی شائستہ اور شیرین سخن لڑکی پایا کہ مکہ کی عورتوں اور لڑکیوں میں جس کی نظیر نہیں تھی ۔
فاطمہ جو کہ بہت خوش تھیں ، اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس گئیں اور عبداللہ سے کہا : بیٹا ! آمنہ جیسی لڑکی عربوں میں نہیں ہے ۔ میں نے اسے پسند کر لیا ہے ۔ وہ تمہاری ہمسری کے لائق اور تمہارے بچے کے لۓ ایک مثالی ماں ثابت ہو گی ۔
مہر اور دلہن کے لوازمات سے متعلق جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی ۔
لڑکی کے باپ نے عبدالمطلب سے کہا : میری بیٹی آپ کے بیٹے کے لۓ ایک ہدیہ ہے ، مجھے کسی قسم کے مہر کی ضرورت نہیں ہے '' خدا آپ کو جزاء خیر عطا کرے ، اس سے مفر نہیں ہے ۔ لڑکی کا مہر ہونا چاہیے اور ہمارے عزیزوں میں سے بعض کو گواہ بھی ہونا چاہیے ۔''
عبدالمطلب لڑکی کو کچھ دینا چاہتے تھے کہ ایک شور مچا ، وہب نے شمشیر اٹھا لی ۔ ماجرا یہ تھا کہ اس وقت یہودی، مہمانوں پر حملہ آور ہو‎ۓ تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے جو عبداللہ کو قتل کر دینا چاہتے تھے ۔ یہودیوں نے پتھروں سے حملہ کیا لیکن عبدالمطلب اور آپ کے ساتھیوں نے جوان مردی سے کام لیا اور ان کے حملہ کو ناکام کردیا ۔ یہودیوں کی اس بزدلانہ حرکت کی سزا انہیں قتل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی تھی ۔ آخرکارنکاح کو اگلے دن رکھ دیا گیا ۔
اگلے دن صبح کے وقت عبدالمطلب نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا ، سب نے فاخرہ لباس ‍زیر تن کیا ، جس سےایک باشکوہ محفل کا سماں بندھ گیا ۔ عبداللہ محفل میں آۓ حاضرین تعظیم کے لۓ کھڑے ہو گۓ ۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا :
'' خدا کی نعمتوں پر ہم اس کی حمد و سپاس کرتے ہیں ۔ اس نے ہمیں اپنے گھر۔۔۔۔۔
کا ہمسایہ قرار دیا اور اپنے حرم میں سکونت عطا کی ۔ لوگوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈالی ،ہمیں آفتوں اور خطروں سے محفوظ رکھا ،ہمیں نکاح کرنے اور حرام سے دور رہنے کا حکم دیا ۔ لوگو: میرا بیٹا عبداللہ معین مہر پر آمنہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے ، کیا تم راضی ہو؟
وہب نے کہا !ہم راضی ہیں ''
عبدالمطلب نے حاضرین کو گواہ قرار دیا ۔ اس پرشکوہ جشن میں سب نے خوشی منائی اور عبدالمطلب نے سب کو اس مثالی شادی کا ولیمہ دیا ، جس کا سلسلہ چار روز تک جاری رہا ۔ مدینہ میں صرف اہل مکہ نے ہی شرکت نہیں کی بلکہ گردو نواح کے لوگوں نے بھی ولیمہ کھایا ۔ آمنہ شوہر کے گھر چلی گئی ۔ آپ کی گود میں ایسے بچے نے جنم لیا کہ جس کے علم و ہدایت کی روشنی نے ساری دنیا کو منور کر دیا ۔
یہ عظیم بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی والد کے سایہ سے محروم ہو گیا ۔ شوہر نامدار کے بعد حضرت آمنہ بھی عرصہ دراز تک زندہ نہ رہیں ۔ چنانچہ جب محمد (ص) سات سال کے ہوۓ تو آمنہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک