کلینی کے بارے میں
چوتھی صدی ھجری کے نصف اول میں مشہور ترین دانشمند فقیہ اور نامور شیعہ محدث جناب ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی معروف بہ "کلینی" یا "شیخ کلینی"ہیں کلینی اصل میں ایرانی، اور شہر رے سے ۳۸ کلو میٹر دور قم /تہران روڈ کے جنوب میں موجودہ حسن آباد کے نزدیک "کلین"قریہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور "رے"سے منسوب ہونے کی وجہ سے آپ کو "رازی"کے لقب سے پکارا جاتا ہے(1)
مشہور جغرافیہ داں یاقوت حموی(م۶۲۶ ق)لکھتا ہے:
استخری (۳۷۰ ھ تک زندہ تھے)کا کہنا ہے کہ رے،اصفہان سے بڑا شہر ہے اور مشرق زمین میں بغداد کے بعد اس سے زیادہ آباد شہر کوئی نہیں ہے ہاں، رقبہ کے اعتبار سے شہر نیشاپور اس سے بھی بڑاہے ۔ شہر رے لمبائی چوڑائی میں ڈیڑھ فرسخ کے رقبہ میں واقع ہے جس میں بہت سے قریے ہیں اور ہر ایک قریہ ایک ایک شہر سے بڑاہے۔(2)
جی ہاں۔۔ شہر رے اور اس کے قریے ابتداء سے ہی شیعہ نشین مراکز کا حصہ رہا ہے اگر چہ شہر رے میں اکثر یت حنفی اور شافعی سنیوں کی تھی شیخ کلینی کے باپ (یعنی یعقوب بن اسحاق جو کہ اپنے زمانے کے بزرگ شیعہ عالم تھے)کا مزار"کلین "قریہ میں واقع ہے جو آج بھی اس علاقہ کے لوگوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔
علان رازی (شیخ کلینی کے ماموں)اور دوسرے شیعہ محدثین و فقہاء جیسے محمد بن عصام (شیخ کلینی کے ایک شاگرد) بھی اسی قریہ سے تعلق رکھتے تھے۔
دنیائے اسلام میں کلینی کا مقام
جناب ثقۃ الاسلام کلینی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں متولد ہوئے ، اور حضرت امام زمان (ع) کے خاص چار نمائندوں اور سفیروں کے ۔۔ جو کہ غیبت صغریٰ میں امام اور شیعوں کے درمیان رابط کی حثیت رکھتے تھے ۔۔ ہم عصر تھے۔اس کے باوجود کہ وہ چاروں نوابِ خاص شیعوں کے بزرگ محدث اور فقیہ تھے اور شیعیان اہل بیت (ع)ان کی عظمت وجلالت کے معترف و معتقد تھے لیکن شیخ کلینی ایسی عالی مقام شخصیت کے مالک تھے کہ اس زمانے میں آپ شیعہ و سنی دونوں کے درمیان بڑے احترام کے حامل تھے اور آپ نے علی الاعلان مذہب حق اور معارف و فضائل اہل بیت(ع) کی نشر واشاعت کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔
ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی صداقتِ گفتار و کردار کی درستگی اور احادیث و روایات کے حفظ و ثبت کے اس قدر مداح تھے کہ لکھا ہے شیعہ سنی دونوں فتویٰ لینے کے لئے آپ سے رجوع کرتے تھے اور اس سلسلہ میں آپ دونوں فرقوں کے نزدیک بڑے موثق اور مورد اعتماد شخص تھے ۔۔ اسی وجہ سے آپ کو "ثقۃ الاسلام" کے لقب سے ملقب کیا گیا، آپ اسلامی دانشمندوں میں وہ پہلے شخص ہیں جنھیں اس لقب سے پکارا گیا اور حقیقت میں بھی آپ اس عظیم لقب کے لائق و شائستہ تھے۔(3)
کلینی امانت و عدالت، تقوی و فضیلت ، ثبت و ضبط اور حفظ احادیث میں جو ایک جامع الشرائط موثق محدث کے صفات ہیں۔ بے مثل تھے ، علامہ محمد تقی مجلسی کے بقول:
وہ (کلینی )ہمارے تمام علماء میں اور ان لوگوں میں کہ جنھوں نے ان سے روایت اخذ کی ہے نیز اپنی کتاب الکافی کی نظم و ترتیب میں بے مثل و بے نظیر تھے ۔ اور یہ ساری خصوصیات اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ پر خدا وند عالم کی خاص عنایت تھی۔(4)
کلینی،شیعہ علماء کی نظر میں
شیعہ فقہاء کے رئیس شیخ الطائفہ محمد بن حسن طوسی(م ۴۶۰ھ)اپنی گراں قدر کتاب الرجال کے باب "وہ لوگ جنھوں نے ائمہ (ع) سے (براہ راست)روایت نہیں کی ہے" میں لکھتے ہیں:
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی بڑے جلیل القدر دانشمند اور احادیث و روایات کے بڑے عالم تھے، آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں کہ جو کتاب الکافی میں مرقوم ہیں ماہ شعبان ۳۲۹ھ میں وفات ہوئی اور محلہ "باب الکوفہ" میں دفن ہوئے ۔ہم نے ان کی کتابوں کو "الفہرست"میں تحریر کیا ہے۔(5)
اور"الفہرست"میں الکافی کی ساری کتابوں اور کلینی کی دوسری تالیفات کا۔۔کہ جنھیں ہم بعد میں ذکر کریں گے۔ نام لیتے ہیں پھر ان کتابوں کی روایات کے سلسلہ میں اپنے سلسلۂ سند کو اپنے استاد شیخ مفید اور حسین بن عبید اللہ غضائری ، سید مرتضیٰ اور احمد بن عبدون کے واسطے سے بیان کرتے ہیں۔(6)
علم رجال کے گرانقدرعالم جناب ابوالعباس احمد بن علی بن عباس معروف بہ "نجاشی" (م۴۵۰ق)اپنی نفیس اور مشہور کتاب الرجال کہ جنھیں علم رجال کا مشہور شیعہ عالم بتلایا گیا ہے اور انھوں نے اپنی کتاب الرجال کو شیخ طوسی کی کتاب الفہرست اور الرجال کے بعد تحریر کیا ہے ہمارے مشہور ترین عالم جناب کلینی کو اس طرح یاد کرتے ہیں:
ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی، (علان کلینی جن کے ماموں تھے) اپنے زمانہ کے شیعہ علماء کے پیشوا اور شہر رے کے تابندہ و درخشان محدث اور ثبت و ضبط میں موثق ترین شیعہ عالم تھے۔ انھوں نے اپنی بڑی کتاب "الکافی"کو بیس سال میں تصنیف فرمایا ہے۔
پھر اس کے بعد الکافی کی کتابوں اور کلینی کی دیگر تالیفات (جس کی تشریح ہم بعد میں کریں گے)ذکر کرتے ہیں۔(7)
شیخ طوسی اور شیخ نجاشی کے بعد آنے والے علماء نے جہاں کہیں بھی شیخ کلینی کا نام آیا ہے یا ان کی عظیم و نامور کتاب "الکافی" کا نام لیا ہے انھیں شیعوں کے موثق ترین شخص کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
ابن شہر آشوب مازندرانی، علامہ حلی ، ابن داؤد نے، معمول کے مطابق شیخ طوسی اور شیخ نجاشی کے الفاظ کو کلینی کی مدح میں نقل کیا ہے۔
سید ابن طاؤس (م۶۶۴ھ)لکھتے ہیں:
نقل حدیث میں شیخ کلینی کی وثاقت و امانت داری تمام دانشمندوں کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔(8)
شیخ حسین بن عبد الصمد عاملی(شیخ بہائی کے پدر بزرگوار) فرماتے ہیں:
محمد بن یعقوب کلینی اپنے دور کے تمام علماء کے استاد و رئیس تھے اور نقل احادیث میں موثق ترین عالم تھے آپ حدیث کی چھان بین میں سب سے زیادہ آشنا اور سب پر فوقیت رکھتے تھے۔(9)
ملا خلیل قزوینی مشہور فقیہ و محدث اصول الکافی کی فارسی شرح میں لکھتے ہیں:
دوست و دشمن سب آپ کی فضیلت کے معترف تھے۔(10)
علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول شرح اصول الکافی میں لکھا ہے:
شیخ کلینی تمام ررقوں میں مورد قبول اور ممدوح خاص و عام تھے۔(11)
مرزا عبد اللہ اصفہانی معروف بہ "آفندی" علامہ مجلسی کے نامی گرامی شاگرد لکھتے ہیں:
رجال کی کتابوں میں اکثر جگہ "ثقۃ الاسلام " سے مراد جناب ابو جعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی رازی صاحب الکافی ہیں یعنی شیخ کلینی ممتاز بزرگوار، عامہ و خاصہ کے نزدیک مسلم، اور دونوں فرقے کے مفتی ہیں۔(12)
مرزا محمد نیشاپوری ، محدث اخباری لکھتے ہیں:
ثقۃ الاسلام ، قدوۃ الاعلام ۔ بدر التمام، سفراء امام زمان کی موجودگی میں سنن و آثار معصومین(ع) کے جامع، تیسری صدی ھجری میں سیرت وکردار اہل بیت کے زندہ کرنے والے۔ ۔ ۔ (13)
کلینی،سنی علماء کی نظر میں
سنی علماء خاص طور سے ان کے مورخین کی نظر میں ۔۔جو آپ کے بعد آئے ہیں ۔۔ بڑی عظمت کے حامل ہیں سب نے آپ کی عظمت و تکریم کی ہے اور بڑی عظمت و بزگواری سے آپ کو یاد کیا ہے۔
ابن اثیر جزری (14) اپنی مشہور کتاب "جامع الاصول "میں لکھتے ہیں:
ابو جعفر محمد بن یعقوب رازی۔۔ مذہب اہل بیت (ع) کے پیشواؤں میں سے ایک ۔۔ بڑے پایہ کے عالم اور نامور فاضل ہیں ۔
پھر کتاب نبوت کے حرف نون میں انھیں تیسری صدی ھجری میں مذھب شیعہ کو تجدید حیات بخشنے والا جانا ہے ابن اثیر، پیغمبر خدا (ص) سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:
خداوند متعال ہر صدی کے آغاز پر ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو اس کے دین و آئین کو زندہ اور تجدید حیات عطا کرے گا۔(15)
اس کے بعد اس حدیث پر تبصرہ کیا ہے پھر لکھا ہے کہ:
مذہب شیعہ کے مجدد پہلی صدی ہجری کے آغاز میں محمد بن علی باقر(امام پنجم) اور دوسری صدی ہجری کے آغاز میں علی بن موسیٰ الرضا (ع) اور تیسری صدی ہجری کے آغاز میں ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی رازی تھے(16)
ابن اثیر کی تحریر سے شیخ کلینی کی عظمت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ آشکار ہو جاتا ہے کہ تیسری صدی کے اختتام اور چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں کلینی اس قدر مشہور شیعہ عالم تھے کہ آپ کو دو معصوم اماموں کے بعد تیسری صدی ہجری کا مجدد مذہب بتلایاگیا ہے۔
ابن اثیر کے چھوٹے بھائی (عزالدین علی ابن اثیر جزری)بھی ۳۲۸ھ کے حوادث کے بیان میں اپنی مشہور تاریخ ۔۔ الکامل فی التاریخ۔۔ میں شیخ کلینی کو اس سال میں رحلت کرنے والا پہلا عالم جانا ہے وہ لکھتے ہیں:
محمد بن یعقوب ابوجعفر کلینی نے ۔۔ جو شیعوں کے پیشوا و عالم تھے ۔۔ اسی سال وفات پائی۔(17)
توجہ رہے کہ ہمارے ہم عصر محقق و فاضل جناب حسن علی محفوظ نے الکافی کے مقدمہ میں غلطی سے جامع الاصول کی عبارت کو علی ابن اثیر کی الکامل فی التاریخ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور انھوں نے خیال کیا ہے کہ جامع الا صول اور الکامل فی التاریخ کے لکھنے والے ایک ہی فرد ہیں۔
بزرگ عالم و مشہور لغت شناس جناب فیروزآبادی(م۸۱۸ ھ ق)نے القاموس المحیط کے مادہ"کلین"میں شیخ کلینی کانام لیاہے اورانھیں شیعہ فقہاء میں سے قرار دیا ہے۔ (18)
ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ ھ ق) اپنی مشہور کتاب لسان المیزان۔۔ جو کہ علماء عامہ اور کبھی کبھی علماء خاصہ کے حالات پر کہیں اجمال تو کہیں تفصیل کے ساتھ تذکرہ ہے۔۔ ہمارے بزرگ عالم (کلینی) کے بارے میں لکھتے ہیں:
محمد بن یعقوب بن اسحاق ابو جعفر کلینی رازی بغداد میں قیام فرماتھے اور وہاں انھوں نے محمد بن احمد جبار ، علی بن ابراہیم بن عاصم اور دیگر لوگوں سے روایت نقل کی ہے تھے کلینی شیعہ فقیہ تھے اور انھوں نے اس مذہب کی موافقت میں بڑی زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔(19)
ابن اثیر نے اپنی دوسری کتاب التبصیر میں لکھا ہے:
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی بزرگ شیعہ علماء میں سے تھے جو مقتدر(عباسی خلیفہ) کے دور میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ (20)
اس کے علاوہ تمام سنی علماء جہاں کہیں بھی"کلینی"نام پر پہنچے ہیں انھیں بڑا عالم، نامور فقیہ اور شیعوں کے متقدم پیشوا کے عنوان سے یاد کیا ہے۔
کلینی کے اساتذہ
ثقۃ الاسلام کلینی نے شہر رے، قم، بغداد ، کوفہ اور اسلامی مملکت کے دور ونزدیک بہت سے علاقوں کے بزرگ علماء ، فقہاء اور محدثین سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی معلومات و محفوظات کے خرمن سے خوشہ چینی کی ہے نیز ان سے اجازات حاصل کئے ہیں ان بزرگ علماء سے اس مرد برزگ کے لئے اجازہ بڑی قدر و قیمت کا حامل ہے، کتب تراجم و رجال میں چالیس سے زیادہ فقہاء و محدثین کا نام لیا جاتا ہے کہ جو کلینی کے اساتید اور مشائخ اجازہ شمار ہوتے ہیں اور کلینی نے ان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ہے ۔
چند علماء اہل سنت۔۔ کہ جن کے نام ابن حجر عسقلانی نے تحریر کئے ہیں۔۔ کے علاوہ مشہور محدثین و فقہاء کی ایک بڑی تعداد جن کا تذکرہ ہم نے اپنی کتاب مفاخر اسلام کی جلد دوم و سوم میں بطور اجمال یا تفصیل بیان کیا ہے ثقۃ الاسلام کلینی کے مشہور اساتذہ تھے۔(21)
احمد بن محمد بن عیسیٰ، احمد بن ادریس قمی(م۳۰۶ھ)، احمد بن محمد بن سعید ہمدانی، جو ابن عقدہ سے معروف تھے،(۳۳۳ق)، احمد بن محمد بن عاصم کوفی،احمد بن مہران، اسحاق بن یعقوب، حسن بن حنیف، حسن بن فضل بن یزید یمانی، حسین بن حسن حسینی اسود،حسین بن حسن ہاشمی حسنی علوی، حسین بن علی علوی، حسین بن محمد بن عمران اشعری قمی، حمید بن زیاد نینوایی(۳۱۰ق)داؤد بن کورہ قمی، سعد بن عبد اللہ بن جعفر حمیری، علی بن ابراہیم قمی(م۳۰۷ ق)، علی بن حسین سعد آبادی، علی بن عبد اللہ خدیجی اصغر، علی بن محمد بن ابراہیم بن ابان رازی(آپ کے خال محترم معروف بہ علان رازی)، علی بن محمد بن ابی قاسم بندار، عبد اللہ بن احمد بن عبد اللہ برقی،(22)علی بن موسیٰ بن جعفر کمیدانی، قاسم بن علاء، ابوالحسن محمد بن عبد اللہ اسدی کوفی(ساکن رے)، محمد بن حسن صفار(۲۹۰ق)، محمد بن علی بن معمر کوفی، محمد بن یحیی عطار،کل ۳۵ افراد اوران کے علاوہ۔
شاگردان کلینی
چوتھی صدی ھجری کے ہمارے مشہور علماء جن کی بود و باش ایران و عراق میں تھی اور جوبڑے نامی گرامی فقیہ محدث تھے اور چوتھی صدی کے اواخر میں ہمارے بہت سے علماء کے استاد تھے تقریباً سبھی جناب شیخ کلینی مؤلف الکافی کے شاگرد تھے ،احمد بن ابراہیم معروف بہ ابن ابی رافع صیمری ، احمد بن کاتب کوفی، احمد بن علی بن سعید کوفی، احمد بن محمد بن علی کوفی، ابو غالب احمد بن محمد زراری (۲۸۵۔ ۳۶۸ ق)جعفر بن محمد بن قولویہ قمی(۳۶۸ ق) ۔ عبد الکریم بن عبد اللہ بن نصر بزاز تنیسی،علی بن احمد بن موسیٰ دقان ، محمد بن ابراہیم نعمانی، معروف بہ ابن ابی زینب جو کہ شیخ کلینی کے مخصوص شاگرد اور آپ سے بہت قرب رکھتے تھے اور انھوں نے پوری کتاب الکافی اپنے قلم سے اتاری تھی اور انھوں نے شیخ کلینی سے علم و ادب سیکھنے کے بعد اجازہ روایت بھی دریافت کرلیا تھا، محمد بن احمد سنانی زہری مقیم رے،ابو الفضل محمد بن عبد اللہ بن مطلب شیبانی ، محمد بن علی ماجیلویہ ، محمد بن محمد بن عصام کلینی ، ہارون بن موسیٰ تلعکبری شیبانی(م۳۸۵ ھ ق)جمعاً ۱۵ افراد اور ان کے علاوہ دوسرے بزرگ بھی شیخ کلینی کے شاگرد تھے ۔
تالیفات کلینی
شیخ اجل طوسی اور ماہر رجالیات نجاشی نے ذیل کی کتابوں کو جناب شیخ کلینی کی تالیفات میں سے شمار کیا ہے :
۱۔ کتاب الرجال
۲۔ کتاب الرد علی القرامطۃ(23)
۳۔ کتاب رسائل الائمۃ(ع)
۴۔ کتاب تعبیر الرؤیا
۵۔ مجموعۂ شعر(جو فضائل ومناقب اہل بیت(ع) میں شعراء کے مختلف قصائد کا مجموعہ ہے)
۶۔ کتاب الکافی(کہ جس کو ہم علاحدہ طور پر بیان کریں گے)
وفات و مرقد کلینی
ثقۃ الاسلام کلینی ۔۔۔ دنیائے علم کا چشم و چراغ، شیعیت اور بغداد کے تمام علماء کا سند افتخار اور عظیم الشان محدث۔۔ عقل و خرد پسند مکتب اہل بیت عصمت و طہارت کی رونق، تصنیف و تالیف میں بے حد رنج و مشقت جھیلنے کے بعد آخر کار ۳۲۸ ھ یا۳۲۹ ھجری میں کہ جو امام زمانہ (ع) کی غیبت کبریٰ کا آغاز ہے شہر بغداد میں اس دنیائے فانی سے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور آپ کی بلند پرواز روح جنت الفردوس کی طرف پرواز کر جاتی ہے آپ کی ابدی آرام گاہ آج بغداد میں دریائے دجلہ کے قدیمی پل کے کنارے بڑی معروف اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنی ہوئی ہے (کلینی کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے)
شیخ طوسی نے اپنی کتاب الفہرست میں کلینی کی وفات ۳۲۸ ھ ثبت کی ہے لیکن نجاشی نے الرجال میں اور خود شیخ طوسی نے اپنی دوسری کتاب الرجال میں ۔۔ دونوں کتابیں الفہرست کے بعد لکھی گئی ہیں۔۔۔ صراحت سے بیان کیا ہے کہ کلینی نے ۳۲۹ ھجری میں وفات پائی ہے ہم بھی اسی تاریخ کو معتبر مانتے ہیں اسی سال جناب شیخ اجل ابوالحسن صیمری امام زمان(ع) کے چوتھے اور آخری نائب خاص بھی وفات پاگئے اور ان کی رحلت کے بعد امام زمانہ(ع) کی غیبت کبریٰ کے دور کا آغاز ہوا۔
اور شیعہ معاشرہ ایک خاص قسم کی ہیجانی حالت سے روبرو ہوا لیکن کتاب الکافی جیسی ستارے کے مانند چمکتی ہوئی کتاب کا وجود شیعوں کی امید کے تاریک شبستان کو منور کئے ہوئے ہے تا کہ بعد کے علماء و دانشمندان شیخ کلینی کےکام کو وسعت اور عمومیت بخشیں اور آثار اہل بیت عصمت طہارت(ع) کی نور افشانی کریں۔
________________________________________
1. شہید سعید ۔ قاضی نور اللہ شوشتری مجالس المومین ج۱، ص۹۲ چاپ اسلامیہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :میں نے قطب الدین رازی کی تحریر دیکھی ہے کہ:رے ، نسبت کے وقت "ریئی پڑھا جانا چاہئے"رازی"میں "ر"کے اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ"ری"اور "راز"کے دواشخاص نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی اور جب اس شہر کے نام رکھنے کی باری آئی تو دونوں میں اختلاف ہو گیا پھر طے پایا کہ شہر کا نام ایک کے نام "رے" ہو اور نسبت کے وقت دوسرے کے نام پر"رازی"کہا جائے
2. مجعم البلدان، ج۳، ص۱۱۷۔
3. افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں لقب"ثقۃ الاسلام "یعنی ایسا عالم دین جو بہت مورد اعتماد موثق اور اسلام ومسلمین کے لئے سند وثاقت ہے ۔۔ اس قدر اہمیت رکھتا تھا کہ پہلی بار تمام شیعہ فہقاء ومحدثین کے رأس و رئیس کلینی کے لئے استعمال کیا گیا لیکن آج کل القاب وخطابات اتنا اپنی قدریں کھو چکے ہیں کہ ہر کس وناکس ، جاہل ریاکار کو بھی"ثقۃ الاسلام کہا جارہا ہے!برعکس نہند نام زنگی کافور۔
4. شرح مشیخۃ من لایحضرہ الفقیہ ص۲۶۷۔
5. رجال الطوسی ص۴۹۵ ۔
6. الفہرست شیخ طوسی ص۱۳۵۔
7. رجال النجاشی، ص۲۶۶۔
8. مقدمۃ الکافی۔
9. مقدمۃ الکافی بہ نقل از وصول الاخیار ص۶۹۔
10.مقدمۃ الکافی بہ نقل از وصول الاخیار ص۶۹۔
11.مرآ ۃ العقول ج۱، ص۳۔
12.مقدمۃ الکافی۔
13.مقدمۃ الکافی۔
14.ابن اثیر جزری تین سنی علماء کا نام ہے جو ایک دوسرے کے بھائی تھے جن کا تعلق موصل کے نزدیک ایک جزیرہ سے تھا اور لقب "جزری"اسی کی طرف منسوب ہے ۔ پہلا بھائی "مبارک بن ابی الکرم اثیر الدین محمد جزری(م۶۰۶ ق)موصل میں پیدا ہوا جو کتاب النہایہ اور کتاب جامع الاصول کا مؤلف ہے۔دوسرا بھائی "عز الدین علی"بن اثیر(م۶۳۰ ق)مؤلف کتاب اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابہ، اللباب فی تہذیب الاسماء الکامل فی التاریخ ہے اور تیسرا بھائی " نصر اللہ"بن ابی الکرم (م۶۳۷ق) منشی وکاتب اور مؤلف کتاب المثل السائر فی ادب الکاتب والشاعر وغیرہ ۔ جو کاظمین میں دفن ہے۔
15.اصل حدیث کے الفاظ یہ ہیں :"ان اللہ یبعث لھذہ الامۃ فی رأس کل مأۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا"ابن اثیر نے ہر صدی کے آغاز میں ایک یا کئی سنی علماء ، خلفاء ، عرفاء کا نام لیا ہے جو مجدد دین نگہبان اسلام تھے ۔ یہ ایک سنی حدیث ہے لیکن دونوں فرقوں کے علماء نے اس سے استناد کیا ہے اور بہت سے لوگوں کوکو مجدد مذہب کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، ان سطروں کے لکھنے والا اس سلسلہ میں کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔
16.الرجال ابو علی حائری ، ص۲۹۸ بہ نقل از تعلیقۂ وحید بہبہانی، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ص۵۲۵۔
17.الکامل ابن اثیر، ج۶، ص۲۷۴۔
18.قاموس الرجال ، ج۴، ص۲۵۶۔
19.لسان المیزان، ص۵،، ص۴۳۳۔
20.روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ص۵۲۵
21.کلینی کے اساتذہ اور شاگردوں کے تذکرہ ہم نے مقدمہ الکافی اور سوانح حیات کلینی سے اقتباس کیا ہے۔
22.مقدمہ کافی میں ان کی جگہ"علی بن محمد برقی"کا نام درج ہے جو درست نہیں ہے۔
23.قرامطہ :وہ فرقہ تھا کہ جو عقیدہ رکھتا تھا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل امام غائب ہیں اور حقیقت میں فرقۂ اسماعیلیہ کی بنیاد یہی فرقہ تھا اس فرقہ کے "قرامطہ"یا "قرمطی"سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے ایسا دعوی کیا تھا وہ کوفہ کے اطراف میں رہنے والا "قرمط" نامی شخص تھا اور اس کے پیرو کار اسی کے نام سے پکارے جانے لگے قرمطہ بتدریج اپنے عقیدہ و عمل میں بہت زیادہ انحراف کا شکار ہوئے اور انھوں نے عامہ مسلمین کے خلاف بہت سے بغاوتیں کی ہیں۔