امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امّ البنین مادر ابوالفضل (ع)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نام فاطمہ، حزام بن خالد کی بیٹی اور علی (ع) کی زوجہ ہیں- علی (ع) نے اپنے بہائی عقیل- جو تمام عرب کے خاندانوں سے واقف تہے- سے کہا : میرے لیے عرب کے دلاور اور شریف خاندان کی لڑکی تلاش کیجیے کہ جس سے شجاع و رشید بیٹا پیدا ہو-
عقیل نے کہا: فاطمہ بنت حزام کیسی ہیں؟ عرب میں ان کے آباء و اجداد سے زیادہ شجاع نہیں ہیں- عرب کے عظیم شاعر لبید نے انہیں کے بارے میں حیرہ کے بادشاہ نعمان بن منذر سے کہا تہا:
ہم اس ماں کے چادر بہادر بیٹوں کی اولاد ہیں جو کہ جنگ کے میدانوں میں اپنے مد مقابل کو موت کے گہاٹ اتار دیتے تہے- اور مہمانوں کا بہت احترام کرتے تہے ہم عابر بن صعصعہ کے قبیلہ سے بلند وتر ہیں-
مختصر یہ کہ جناب ام البنین، والد کی طرف سے بہی اور والدہ- ثمانہ بنت سہیل بن عامر- کی طرف سے بہی نجیب و اصیل تہیں- فاطمہ زہراء (ع) کی وفات کے بعد، حضرت علی (ع) کے حبالہ نکاح میں آئیں- ام البنین نے حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی دوسرے سے شادی نہیں کی-
علم و فضل والی عورت تہی- اہل بیت کی عظمت کا عرفان رکہتی تہیں، انہیں دل سے چاہتی تہیں- حضرت علی (ع) کے گہر آئیں تو اس وقت امام حسن (ع) و امام حسین (ع) بیمار تہے- آپ نے ایک شفیق ماں کی مانند ان کی تیمار داری کی اور راتوں کو ان کے پاس بیدار رہکر گذار دیا-
آپ سے چار بیٹے عباس، جنہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتا تہا، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں- رسول (ص) کے فداکار صحابی عثمان بن مظعون کے ہمنام تہے- ان چاروں بیٹوں کی وجہ سے آپ کو ام البنین کہا جاتا تہا-
ان کی استقامت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہو گئے، تو انہوں نے کہا : پہلے مجہے حسین (ع) کے بارے میں خبر دو- ناقل نے انہیں ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر ترتیب وار سنائی، یہاں تک کہ نام عباس لیا تو خبر سنانے والے سے کہا: میرے دل کے ٹکڑے کردئے – میرے چار بیٹے تہے، میں نے سب کو حسین (ع) بچے جاتے – حسین (ع) سے ان کی یہ محبت، ان کے خلوص، ایمان اور راسخ عقیدہ کا ثبوت ہے-
اس دردناک حادثہ کے بعد مجلس عزا بر پا کی، جس میں بنی ہاشم کی تمام عورتوں، نے شرکت کی اور شہداء کربلا کا غم منایا گیا- ام سلمہ نے روتے ہوئے کہا : خدا ان – بنی امیہ- کی قبروں کو آگ سے بہر دے، انہوں نے کتنا بڑا ظلم کیا ہے؟
ام البنین نے اپنے شہید ہونے والے بیٹوں کا دلسوز مرثیہ کہا ہے- حضرت عباس کے بچہ عبیداللہ کو گود میں لے کر ہر روز بقیع جاتی تہیں اور وہاں گریہ و زاری کرتی تہیں- اہل مدینہ بہی ان کے پاس جمع ہو جاتے اور نالہ و شیون میں جصہ لیتے تہے، ایک دفعہ مروان بن حکم بہی وہاں موجود تہا- ام البنین نے کہا: " جس نے عباس کو دشمن کی فوج پر حملہ کرتے ہوئے دیکہا ہے اور حیدر کے بیٹے شیر دلوں کی طرح ان کے پیچہے تہے- میں نے سنا ہے کہ میرے بیٹے کے سر پر ضربت لگی اور ان کے بازو قلم کر دئے گئے- ہائے افسوس! میرا بیٹا اس ضربت کی وجہ سے گرا! عباس! اگر تمہارے ہاتہ میں تلوار ہوتی تو کسی میں تمہارے نزدیک آنے کی ہمت نہ ہوتی-"
نیز کہا: " اب مجہے ام البنین نہ کہو! کیونکہ اس سے میرے شیر سے بچے یاد آتے ہیں- مجہے ان بیٹوں کی وجہ سے ام البنین کہا جاتا تہا، لیکن آج میں انہیں کہو چکی ہوں-
میرے چار بیٹے شکاری شاہین کی مانند تہے جو تیغ ستم سے جاں بحق ہوئے- دشمن کے اسلحوں سے ان کا بدن پارہ پارہ ہوا اور وہ اپنے خون میں نہائے- کاش میں جانتی تہی! کیا لوگوں کے کہنے کے مطابق میرا عباس شہ رگ کٹنے سے شہید ہوا ہے؟
با اخلاص، فداکار اور فضیلتوں والی عورتوں کے درمیان نمونہ ہیں-

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک