شیعہ تہذیب و ثقافت کی تدوین
پانچویں امام کی امامت کا دور شیعوں کی مظلومیت کا عروج تھا ۔خود امامِ باقر (ع) ان ایام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہمارے پیروکاروں کے لئے حالات اتنے سخت تھے کہ یہ نوبت آگئی تھی کہ اگر کسی کو زندیق یا کافر کہا جاتا تو یہ اس کے لئے اس سے بہتر تھا کہ اسے امیر المومنین (ع) کا شیعہ کہا جاتا۔‘‘
ان حالات میں، امام محمد باقر (ع) نے دین کے حقیقی علوم کا بیان اور شیعوں کے لئے بھرپور مذہبی ثقافت کی تدوین کو اپنا اصلی محاذ قرار دیا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ، کبھی صراحت کے ساتھ اور کبھی اشاروں کنایوں میں ظالم حکمرانوں پر بھی تنقید کرتے اور لوگوں کو ان سے دور رہنے کی تاکید کرتے تھے۔
حیاتِ اسلام کی تجدید:
سانحہ کربلا میں فرزندِ رسول۰ کی شہادت کے بعد آپ (ع) کے خاندان کو خارجی اور غیرمسلم قرار دے کر اسیر کر لیا گیا اور آپ (ع) کے فرزند‘ امام سجاد (ع) نے اپنی امامت کے ابتدائی ایام اسیری میں گذارے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو مقامِ امامت و عصمت کی کوئی پہچان نہیں رہی تھی۔ جہالت کی پستیوں کے اس موقع پر امتِ مسلمہ کو اپنی فکری حیات کی تجدید کی شدید ضرورت تھی۔اور اس عظیم ذمہ داری کو امام سجاد (ع) کے بعد امام باقر (ع) نے اٹھایا۔ آپ (ع) اہلبیت (ع) کی جانب رجوع اور ائمہ اطہار کی عصمت پر بھرپور تاکید کرتے ہیں اور متعدد بار یاددہانی کراتے ہیں کہ سعادت و کامیابی کا راستہ صرف آپ(ع) کی پیروی میں مضمر ہے۔
آپ (ع) کا کلام پوری صراحت کے ساتھ اس بات کو بیان کرتا تھا کہ دین کے حقیقی معارف کا حصول معصوم رہبروں کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ (ع) فرماتے تھے:
’’فرزندانِ رسول اللہ‘ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے علومِ الہی کا دروازہ، جنت کی جانب دعوت دینے والے اور لوگوں کو اس جانب لے جانے والے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’اے لوگو! کہاں جارہے ہو؟ کس طرف لے جائے جارہے ہو؟ تم لوگ ابتداء میں ہم اہلبیت کے ذریعے سے ہدایت یافتہ ہوئے اور تمہارا انجام بھی ہمارے ساتھ ہی ہوگا۔‘‘