حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ سوم)
مدینہ کے قریب پہنچ کرآپ کاخطبہ مقتل ابی مخنف ص ۸۸ میں ہے (ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدجب اہل بیت رسول کی رہائی ہوئی اوریہ قافلہ کربلاہوتاہوامدینہ کی طرف چلاتوقریب مدینہ پہنچ کرامام علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش ہوجانے کااشارہ کیا،سب کے سب خاموش ہوگئے آپ نے فرمایا:
حداس خداکی جوتمام دنیاکاپروردگارہے، روزجزاء کامالک ہے ، تمام مخلوقات کاپیداکرنے والاہے جواتنادورہے کہ بلندآسمان سے بھی بلندہے اوراتناقریب ہے کہ سامنے موجودہے اورہماری باتوں کاسنتاہے، ہم خداکی تعریف کرتے ہیں اوراس کاشکربجالاتے ہیں عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں ، شدیدتکلیفوں، اورقلب وجگرکوہلادینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت اے لوگو! خداورصرف خداکے لیے حمدہے، ہم بڑے بڑے مصائب میں مبتلاکئے گئے ،دیواراسلام میں بہت بڑارخنہ(شگاف) پڑگیا، حضرت ابوعبداللہ الحسین اوران کے اہل بیت شہیدکردیے گئے، ان کی عورتیں اوربچے قیدکردئیے گئے اور(لشکریزیدنے)ان کے سرہائے مبارک کوبلندنیزوں پررکھ کر شہروں میں پھرایا، یہ وہ مصیبت ہے جس کے برابرکوئی مصیبت نہیں، اے لوگو! تم سے کون مردہے جوشہادت حسین کے بعدخوش رہے یاکونسادل ہے جوشہادت حسین سے غمگین نہ ہویاکونسی آنکھ ہے جوآنسوؤں کوروک سکے، شہادت حسین پرساتوں آسمان روئے، سمندراوراس کی شاخیں ورئیں، مچھلیاں اورسمندرکے گرداب روئے ملائکہ مقربین اورتمام آسمان والے روئے، اے لوگو! کون ساقطب ہے جوشہادت حسین کی خبرسن کرنہ پھٹ جائے، کونساقلب ہے جومحزون نہ ہو، کونساکان ہے جواس مصیبت کوسن کرجس سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدرٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے شہروں سے دورتھے، گویاہم کواولادترک وکابل سمجھ لیاگیاتھا ،حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیاتھا نہ کسی برائی کاارتکاب کیاتھا نہ دیواراسلام میں کوئی رخنہ ڈالاتھا اورنہ ان چیزوں کے خلاف کیاتھاجوہم نے اپنے اباؤاجدادسے سناتھا،خداکی قسم اگرحضرت نبی بھی ان لوگوں(لشکریزید) کوہم سے جنگ کرنے کے لیے منع کرتے (تویہ نہ مانتے) جیساکہ حضرت نبی نے ہماری وصایت کااعلان کیا(اوران لوگوں نے مانا)بلکہ جتنا انہوں نے کیاہے اس سے زیادہ سلوک کرتے،ہم خداکے لیے ہیں اورخداکی طرف ہماری بازگشت ہے“۔
روضہ رسول پرامام علیہ السلام کی فریاد
مقتل ابی مخنف ص ۱۴۳ میں ہے کہ جب یہ لٹاہواقافلہ مدینہ میں داخل ہواتوحضرت ام کلثوم گریہ وبکاکرتی ہوئی مسجدنبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے ناناآپ پرمیراسلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپ کوآپ کے فرزندحسین کی خبرشہادت سناتی ہوں، یہ کہناتھا کہ قبررسول سے گریہ کی صدابلندہوئی اورتمام لوگ رونے لگے پھرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے ناناکی قبرمبارک پرتشریف لائے اوراپنے رخسارقبرمطہرسے رگڑتے ہوئے یوں فریادکرنے لگے :
اناجیک یاجداه یاخیرمرسل
اناجیک محزوناعلیک موجلا
سبیناکماتسبی الاماء ومسنا
حبیبک مقتول ونسلک ضائع
اسیرا ومالی حامیا ومدافع
من الضرمالاتحمله الاصابع
ترجمہ: میں آپ سے فریادکرتاہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر،آپ کامحبوب ”حسین“ شہیدکردیاگیا اورآپ کی نسل تباہ وبربادکردی گئی، اے نانامیں رنج وغم کاماراآپ سے فریادکرتاہوں مجھے قید کیاگیامیراکوئی حامی ومددگار نہ تھا اے نانا ہم سب کواس طرح قیدکیاگیا،جس طرح (لاوارث) کنیزوں کوقیدکیا جاتاہے،اے ناناہم پراتنے مصائب ڈھائے گئے جوانگلیوں پرگنے نہیں جاسکتے۔
امام زین العابدین اورخاک شفا
مصباح المتہجد میں ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک کپڑے میں بندھی ہوئی تھوڑی سی خاک شفاء کرتی تھی (مناقب جلد ۲ ص ۳۲۹ طبع ملتان)۔
حضرت کے ہمراہ خاک شفاء کاہمیشہ رہناتین حال سے خالی نہ تھایااسے تبرکارکھتے تھے یااس پرنمازمیں سجدہ کرتے تھے یااسے بحیثیت محافظ رکھتے تھے اورلوگوں کویہ بتانا مقصودرہتاتھا کہ جس کے پاس خاک شفاء ہووہ جملہ مصائب وآلام سے محفوظ رہتاہے اوراس کامال چوری نہیں ہوتا جیساکہ احادیث سے واضح ہے ۔
امام زین العابدین اورمحمدحنفیہ کے درمیان حجراسودکافیصلہ
آل محمدکے مدینہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین کے چچامحمدحنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اورامامت کااہل وحقدارہوں آپ نے فرمایاکہ حجراسودکے پاس چلووہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا(شواہدالنبوت ص ۱۷۶) ۔
کامل مبردمیں ہے کہ اس واقعہ کے بعدسے محمدحنفیہ ،امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابوخالدکابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہاکہ حجراسودنے خلافت کاان کے حق میں فیصلہ دے دیاہے اوریہ امام زمانہ ہیں یہ سنکر وہ مذہب امامیہ کاقائل ہوگیا(مناقب جلد ۲ ص ۳۲۶) ۔
ثبوت امامت میں امام زین العابدین کاکنکری پرمہرفرمانا
اصول کافی میں ہے کہ ایک عورت جس کی عمر ۱۱۳ سال کی ہوچکی تھی ایک دن امام زین العابدین کے پاس آئی اس کے پاس وہ کنکری تھی جس پرحضرت علی امام حسن ،امام حسین کی مہرامامت لگی ہوئی تھی اس کے آتے ہی بلاکہے ہوئے آپ نے فرمایاکہ وہ کنکری لاجس پرمیرے آباؤاجدادکی مہریں لگی ہوئی ہیں اس پر میں بھی مہرکردوں چنانچہ اس نے کنکری دیدی آپ نے اسے مہرکرکے واپس کردی، اوراس کی جوانی بھی پلٹادی،وہ خوش وخرم واپس چلی گئی (دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۶) ۔
واقعہ حرہ اورامام زین العابدین علیہ السلام
مستندتواریخ میں ہے کہ کربلاکے بے گناہ قتل نے اسلام میں ایک تہلکہ ڈال دیاخصوصا ایران میں ایک قوی جوش پیداکردیا،جس نے بعدمیں بنی عباس کوبنی امیہ کے غارت کرنے میں بڑی مدددی چونکہ یزیدتارک الصلواة اورشارب الخمرتھاا وربیٹی بہن سے نکاح کرتااورکتوں سے کھیلتاتھا ،اس کی ملحدانہ حرکتوں اورامام حسین کے شہیدکرنے سے مدینہ میں اس قدرجوش پھیلاکر ۶۲ ھء میں اہل مدینہ نے یزیدکی معطلی کااعلان کردیااورعبداللہ بن حنظلہ کواپناسرداربناکریزیدکے گورنرعثمان بن محمدبن ابی سفیان کومدینہ سے نکال دیا، سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتاہے کہ غسیل الملائکہ (حنظلہ) کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت یزیدکی خلافت سے انکارنہیں کیاجب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوگیاکہ آسمان سے پتھربرس پڑیں گے غضب ہے کہ لوگ ماں بہنوں،اوربیٹیوں سے نکاح کریں ۔ علانیہ شرابیں پئیں اورنمازچھوڑبیٹھیں ۔
یزیدنے مسلم بن عقبہ کوجوخونریزی کی کثرت کے سبب ”مسرف“ کے نام سے مشہورہے ،فوج کثیردے کر اہل مدینہ کی سرکوبی کوروانہ کیااہل مدینہ نے باب الطیبہ کے قریب مقام”حرہ“ پرشامیوں کامقابلہ کیا،گھمسان کارن پڑا،مسلمانوںکی تعدادشامیوں سے بہت کم تھی باوجودیکہ انہوں نے دادمردانگی دی ،مگرآخرشکست کھائی ،مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادررسول اللہ کے بڑے بڑے صحابی انصارومہاجراس ہنگامہ آفت میں شہیدہوئے، شامی شہرمیں گھس گئے مزارات کوان کی زینت وآرایش کی خاطرمسمارکردیا،ہزاروں عورتوں سے بدکاری کی ہزاروں باکرہ لڑکیوں کاازالہ بکارت کرڈالا،شہرکولوٹ لیا،تین دن قتل عام کرایا،دس ہزارسے زائدباشندگان مدینہ جن میں سات سومہاجروانصاراوراتنے ہی حاملان وحافظان قران علماء وصلحاء ومحدث تھے اس واقعہ میں مقتول ہوئے ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیں اورباقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزیدکی بیعت لی گئی۔
مسجد نبوی اورحضرت کے حرم محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے یہاں تک کہ لیدکے انبارلگ گئے یہ واقعہ جوتاریخ اسلام میں واقعہ حرہ کے نام سے مشہورہے ۔ ۲۷/ ذی الحجہ ۶۳ ھء کو ہواتھا اس واقعہ پرمولوی امیرعلی لکھتے ہیںکہ کفروبت پرستی نے پھرغلبہ پایا، ایک فرنگی مورخ لکھتاہے کہ کفرکادوبارہ جنم لینااسلام کے لیے سخت خوفناک اورتباہی بخش ثابت ہوابقیہ تمام مدینہ کویزیدکاغلام بنایاگیا،جس نے انکارکیا اس کاسراتارلیاگیا، اس رسوائی سے صرف دوآدمی بچے ”علی بن الحسین“ اورعلی بن عبداللہ بن عباس ان سے یزیدکی بیعت بھی نہیں لی گئی ۔
مدارس شفاخانے اوردیگررفاہ عام کی عمارتیں جوخلفاء کے زمانے میں بنائی گئیں تھی یاتوبندکردی گئیں یامسماراورعرب پھرایک ویرانہ بن گیا،اس کے چندمدت بعدعلی بن الحسین کے پوتے جعفرصادق نے اپنے جدامجدعلی مرتضی کامکتب خانہ پھرمدینہ میں جاری کیا،مگریہ صحرامیں صرف ایک ہی سچانخلستان تھا اس کے چاروں طرف ظلمت وضلالت چھائی ہوئی تھی ،مدینہ پھرکبھی نہ سنبھل سکا، بنی امیہ کے عہدمیں مدینہ ایسی اجڑی بستی ہوگیاکہ جب منصورعباس زیارت کومدینہ میں آیاتواسے ایک رہنماکی ضرورت پڑی جواس کووہ مکانات بتائے جہاں ابتدائی زمانہ کے بزرگان اسلام رہاکرتے تھے (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۶ ، تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۹۱ ،تاریخ فخری ص ۸۶ ،تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۹ ،صواعق محرقہ ص ۱۳۲) ۔
واقعہ حرہ اورآپ کی قیام گاہ
تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جگہ ”منبع“ نامی تھی جہاں کھیتی باڑی کاکام ہوتاتھا واقعہ حرہ کے موقع پرآپ شہرمدینہ سے نکل کراپنے گاؤں چلے گئے تھے (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی خلیفہ عثمان کے عہدمیں قیام پذیرتھے (عقدفریدجلد ۲ ص ۲۱۶) ۔
خاندانی دشمن مروان کے ساتھ آپ کی کرم گستری
واقعہ حرہ کے موقع پرجب مروان نے اپنی اوراہل وعیال کی تباہی وبربادی کایقین کرلیاتوعبداللہ بن عمرکے پاس جاکرکہنے لگاکہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظرمیری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے ،میں جان اورعورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتاہوں ،انہوں نے صاف انکارکردیا،اس وقت وہ امام زین العابدین کے پاس آیااوراس نے اپنی اوراپنے بچوں کی تباہی وبربادی کاحوالہ دے کرحفاظت کی درخواست کی حضرت نے یہ خیال کیے بغیرکہ یہ خاندانی ہمارادشمن ہے اوراس نے واقعہ کربلاکے سلسلہ میں پوری دشمنی کامظاہرہ کیاہے آپ نے فرمادیابہترہے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس بمقام منبع بھیجدو، جہاں میرے بچے رہیں گے تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے بال بچوں کوجن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچاگیااورآپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) ۔
دشمن ازلی حصین بن نمیرکے ساتھ آپ کی کرم نوازی
مدینہ کوتباہ وبربادکرنے کے بعدمسلم بن عقبہ ابتدائے ۶۴ ھ میں مدینہ سے مکہ کوروانہ ہوگیااتفاقا راہ میں بیمارہوکروہ گمراہ راہی جہنم ہوگیا،مرتے وقت اس نے حصین بن نمیرکواپناجانشین مقررکردیااس نے وہاں پہنچ کرخانہ کعبہ پرسنگ باری کی اوراس میں آگ لگادی، اس کے بعدمکمل محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کوقتل کرناچاہا اس محاصرہ کوچالیس دن گزرے تھے کہ یزیدپلیدواصل جہنم ہوگیا، اس کے مرنے کی خبرسے ابن زبیرنے غلبہ حاصل کرلیااوریہ وہاں سے بھاگ کرمدینہ جاپہنچا۔
مدینہ کے دوران قیام میں اس معلون نے ایک دن بوقت شب چندسواروں کولے کرفوج کے غذائی سامان کی فراہمی کے لیے ایک گاؤں کی راہ پکڑی ،راستہ میں اس کی ملاقات حضرت امام زین العابدین سے ہوگئی ،آپ کے ہمراہ کچھ اونٹ تھے جن پرغذائی سامان لداہواتھا اس نے آپ سے وہ غلہ خریدناچاہا، آپ نے فرمایاکہ اگرتجھے ضرورت ہے تویونہی لے لے ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے (کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ کے لیے لایاہوں) اس نے پوچھاکہ آپ کانام کیاہے،آپ نے فرمایامجھے ”علی بن الحسین“ کہتے ہیں پھرآپ نے اس سے نام دریافت کیاتواس نے کہامیں حصین بن نمیرہوں، اللہ رے، آپ کی کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجودکہ یہ میرے باپ کے قاتلوں میں سے ہے اسے ساراغلہ مفت دیدیا(اورفقراء کے لیے دوسرابندوبست فرمایا) اس نے جب آپ کی یہ کرم گستری دیکھی اوراچھی طرح پہچان بھی لیاتوکہنے لگاکہ یزیدکاانتقال ہوچکاہے آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں، آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، میں آپ کوتخت خلافت پربٹھاؤں گا،آپ نے فرمایاکہ میں خداوندعالم سے عہدکرچکاہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کرو ں گا، یہ فرماکر آپ اپنے دولت سراکوتشریف لے گئے(تاریخ طبری فارسی ص ۶۴۴) ۔
امام زین العابدین اورفقراء مدینہ کی کفالت
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سوگھروں کی کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان کے گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۵ ،نورالابصار ص ۱۲۶) ۔
امام زین العابدین اوربنیادکعبہ محترمہ ونصب حجراسود
۷۱ ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پرلشکرکشی کرکے مصعب بن زبیرکوقتل کیا بھر ۷۲ ھء میں حجاج بن یوسف کوایک عظیم لشکرکے ساتھ عبداللہ بن زبیرکو قتل کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)۔
وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخرمیں ابن زبیرمحصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدواڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر ۷۳ ھء میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیادتک خراب کرچکاتھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھاکرلے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیاکہ اس کی کوئی پرانی چیزباقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہواکہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیرکاپروگرام مرتب کرلیااورکام شروع کرادیا،کام کی ابھی بالکل اتبدائی منزل تھی کہ ایک اژدھابرآمدہوکرایسی جگہ بیٹھ گیاجس کے ہٹے بغیرکام آگے نہیں بڑھ سکتاتھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرااٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیاکہ اب کیاکرناچاہئے جب لوگ اس کاحل نکالنے سے قاصررہے توایک شخص نے کھڑے ہوکرکہاکہ آج کل فرزندرسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہترہوگا کہ ان سے دریافت کرایاجائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیںکرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کوزحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایاکہ اے حجاج تونے خانہ کعبہ کواپنی میراث سمجھ لیاہے تونے توبنائے ابراہیم علیہ السلام کواکھڑوا کر راستہ میں ڈلوادیاہے ”سن“ تجھے خدااس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دیے گا جب تک توکعبہ کالٹاہواسامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کراس نے اعلان کیاکہ کعبہ سے متعلق جوشے بھی کسی کے پاس ہووہ جلدسے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھرمٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ اس کی بنیاداستوارکی اورحجاج سے فرمایاکہ اس کے اوپرتعمیرکراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھراسی بنیادپرخانہ کعبہ کی تعمیرہوئی (کتاب الخرائج والجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجراسودنصب کرناتھا تویہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتاتھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجراسودمتزلزل اورمضطرب رہتا اوراپنے مقام پرٹہرتانہ تھا بالآخرامام زین العابدین علیہ السلام بلائے گئے اورآپ نے بسم اللہ کہہ کراسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبرکانعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۷) ۔
علماء ومورخین کابیان ہے کہ حجاج بن یوسف نے یزیدبن معاویہ ہی کی طرح خانہ کعبہ پرمنجنیق سے پتھروغیرہ پھنکوائے تھے۔
امام زین العابدین اورعبدالملک بن مروان کاحج
بادشاہ دنیاعبدالملک بن مروان اپنے عہدحکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے لیے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچااوربادشاہ دین حضرت امام زین العابدین بھی مدینہ سے روانہ ہوکرپہنچ گئے مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کاساتھ ہوگیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اوربادشاہ پیچھے چل رہاتھا عبدالملک بن مروان کویہ بات ناگوارہوئی اوراس نے آپ سے کہاکیامیں نے آپ کے باپ کوقتل کیاہے جوآپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایاکہ جس نے میرے باپ کوقتل کیاہے اس نے اپنی دیناوآخرت خراب کرلی ہے کیاتوبھی یہی حوصلہ رکھتاہے اس نے کہانہیں میرامطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس ائیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آ پ نے ارشادفرمایا مجھے تیرے مال دنیاکی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والاخداہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین پرردائے مبارک ڈال دی اورکعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،میرے مالک اسے بھردے، امام کی زبان سے الفاظ کانکلنا تھاکہ ردائے مبارک موتیوں سے بھرگئی ،آپ نے اسے راہ خدامیں دیدیا(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص ۲۳) ۔
امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیامیں
امام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزندرسول تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونالازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرابھلاکہا، آپ نے فرمایابھائی میں نے توتیراکچھ نہیں بگاڑا،اگرکوئی حاجت رکھتاہے توبتاتاکہ میں پوری کروں ،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا(مطالب السؤل ص ۲۶۷) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نے ایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے (نورالابصار ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۶) ۔
علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہاتھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایاافسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص ۳۰۴) ۔
جب کوئی سائل آپ کے پاس آتاتھا توخوش ومسرورہوجاتے تھے اورفرماتے تھے خداتیرابھلاکرے کہ تومیرازادراہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔
امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ
کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجوہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔
اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹ ،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں جن میں میرے نزدیک ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔
امام زین العابدین عمربن عبدالعزیزکی نگاہ میں
۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعداس کابیٹاولید بن عبدالملک خلیفہ بنایاگیایہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہدظلمت مین عمربن عبدالعزیزجوکہ ولیدکاچچازادبھائی تھا حجازکاگورنرہوایہ برامنصف مزاج اورفیاض تھا ،اسی کے عہدگورنری کاایک واقعہ یہ ہے کہ ۸۷ ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیداہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۳۸۶) ۔
اسی نے فدک واپس کیاتھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بندکرائی تھی۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت
آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص ۱۲۸ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴ ، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔
ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹ ، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی۔
آپ کی اولاد علماء
فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے گیارہ لڑکے اورچارلڑکیاں چھوڑیں۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،وارجح المطالب ص ۴۴۴) ۔
علامہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ ان پندرہ اولادکے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام محمدباقر آپ کی والدہ حضرت امام حسن کی بیٹی ام عبداللہ جناب فاطمہ تھیں۔ ۲ ۔ عبداللہ ۳ ۔ حسن ۴ ۔زید ۵ ۔عمر ۶ ۔ حسین ۷ ۔عبدالرحمن ۸ ۔سلیمان ۹ ۔علی ۱۰ ۔محمد اصغر ۱۱ ۔حسین اصغر ۱۲ ۔خدیجہ ۱۳ ۔فاطمة، ۱۴ ۔علیہ ۱۵ ۔ ام کلثوم (ارشاد مفید فارسی ص ۴۰۱) ۔