حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام(حصہ پنجم)

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے بعد

حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت چونکہ خداوندعالم کی طرف سے بطورلطف خاص عمل میں  آئی تھی ،اس لئے آپ خدائی خدمت میں  ہمہ تن منہمک ہوگئے اورغائب ہونے کے بعد آپ نے دین اسلام کی خدمت شروع فرمادی ۔ مسلمانوں، مومنوں کے خطوط کے جوابات دینے ، ا ن کی بوقت ضرورت رہبری کرنے اورانھیں راہ راست دکھانے کا فریضہ اداکرنا شروع کردیا ضروری خدمات آپ زمانہٴ غیبت صغری میں  بواسطہ ٴسفراٴ یابلاوسطہ اورزمانہ غیبت کبری میں  بلاواسطہ انجام دیتے رہے اورقیامت تک انجام دیتے رہیںگے۔


۳۰۷ ہجری میں  آپ کا حجراسود نصب کرنا

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ زمانہٴ نیابت میں  بعہد حسین بن روح ،ابوالقاسم جعفربن محمد بن قولویہ بارادہٴ حج بغداد گئے اوروہ مکہ معظمہ پہنچ کرحج کرنے کافیصلہ کئے ہوئے تھے ۔ لیکن وہ بغداد پہنچ کرسخت علیل ہوگئے ۔ اسی دوران میں  آپ نے سناکہ قرامطہ نے حجراسود کونکال لیاہے اوروہ اسے کچھ درست کرکے ایام حج میں  پھرنصب کریںگے ۔ کتابوں میں چونکہ پڑھ چکے تھے کہ حجراسود صرف امام زمانہ ہی نصب کرسکتاہے جیساکہ پہلے آنحضرت صلعم نے نصب کیاتھا ،پھرزمانہٴ حجاج میں  امام زین العابدین نے نصب کیاتھا ۔ اسی بناء پرانھوں نے اپنے ایک کرم فرما” ابن ھشام “ کے ذریعہ سے ایک خط ارسال کیا اوراسے کہ دیا کہ جوحجراسود نصب کرے اسے یہ خط دیدینا ۔
نصب حجرکی لوگ سعی کررہے تھے ۔لیکن وہ اپنی جگہ پرقرارنہیں لیتاتھا کہ اتنے میں  ایک خوبصورت نوجوان ایک طرف سے سامنے آیا اور اس نے اسے نصب کردیا اوروہ اپنی جگہ پرمستقرہوگیا ۔جب وہ وہاںسے روانہ ہوا توابن ہشام ان کے پےچھے ہولئے ۔راستہ میں  انھوںنے پلٹ کرکہا اے ابن ہشام ،توجعفربن محمد کاخط مجھے دیدے ۔دیکھ اس میں  اس نے مجھ سے سوال کیاہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا ۔
ا س سے یہ کہدینا کہ وہ ابھی تیس سال اورزندہ رہے گا یہ کہہ کروہ ونظروں سے غائب ہوگئے ۔ ابن ہشام نے ساراواقعہ بغداد پہنچ کرجعفربن قولویہ سے بیان کردیا ۔ غرضکہ وہ تیس سال کے بعد وفات پاگئے ۔(کشف الغمہ ص ۱۳۳) اسی قسم کے کئی واقعات کتاب مذکورمیں  موجودہیں ۔ علامہ عبدالرحمن ملاجامی رقمطرازہیں کہ ایک شخص اسماعیل بن حسن ہرقلی جونواحی حلہ میں  مقیم تھا اس کی ران پرایک زخم نمودارہوگیاتھا جوہرزمانہٴ بحارمیں  ابل آتاتھا جس کے علاج سے تمام دنیا کے اطباٴ عاجزاورقاصرہوگئے تھے وہ ایک دن اپنے بیٹے شمس الدین کوہمراہ لے کرسیدرضی الدین علی بن طاؤس کی خدمت میں  گیا ۔انھوں نے پہلے توبڑی سعی کی ،لیکن کوئی چارہ کارنہ ہوا ہرطبیب یہ کہتاتھا کہ یہ پھوڑا ”رگ اکحل “ پرہے اگراسے نشتر دیاجائے توجان کاخطرہ ہے اس لئے اس کاعلاج ناممکن ہے ۔اسماعیل کابیان ہے کہ ”چون ازاطباٴمایوس شدم عزیمت مشہدشریف سرمن رائے کردم“ جب میں  تمام اطباء سے مایوس ہوگیا توسامرہ کے سرداب کے قریب گیا،اوروہاں پرحضرت صاحب الامرکومتوجہ کیا ،ایک شب دریائے دجلہ سے غسل کرکے واپس آرہاتھا کہ چارسوارنظرآئے ،ان میں  سے ایک نے میرے زخم کے قریب ہاتھ پھیرا اورمیں  بالکل اچھا ہوگیا میں  ابھی اپنی صحت پرتعجب ہی کررہاتھا کہ ان میں  سے ایک سوارنے جوسفید ریش تھے کہا کہ تعجب کیا ہے تجھے شفادینے والے امام مہدی علیہ السلام ہیں یہ سن کرمیں  نے ان کے قدموں کا بوسہ دیا اوروہ لوگ نظروں سے غائب ہوگئے ۔ (شواہدالنبوت ص ۲۱۴ وکشف الغمہ ص ۱۳۲) ۔

اسحاق بن یعقوب کے نام امام عصرکاخط علامہ طبرسی بحوالہ محمد بن یعقوب کلینی لکھتے ہیں کہ اسحق بن یعقوب نے بذریعہ محمد بن عثمان عمری حضرت امام مہدی علیہ السلام کی خدمت ایک خط ارسال کیا جس میں  کئی سوالات مندرج تھے ۔حضرت نے بخط خود جواب تحریرفرمایا اورتمام سوالات کے جوابات تحریرا عنآیت فرمائے جس کے اجزاٴ یہ ہیں :

۱ ) جوہمارامنکرہے ،وہ ہم سے نہیں ۔

۲ ) میرے عزیزوں میں  سے جومخالفت کرتے ہیں ،ان کی مثال ابن نوح اوربرادران یوسف کی ہے ۔

۳ ) فقاع یعنی جوکی شراب کاپینا حرام ہے ۔

۴ ) ہم تمہارے مال صرف اس لئے (بطورخمس قبول کرتے ہیں کہ تم پاک ہوجاؤ اورعذاب سے نجات حاصل کرسکو۔

۵ ) میرے ظہورکرنے اورنہ کرنے کا تعلق صرف خداسے ہے جولوگ وقت ظہورمقررکرتے ہیں وہ غلطی پرہیں جھوٹ بولتے ہیں ۔

۶ ) جولوگ یہ کہتے ہیں کہ امام حسین قتل نہیں ہوئے وہ کافرجھوٹے ا ورگمراہ ہیں ۔

۷ ) تمام واقع ہونے والے حوادث میں  میرے سفراٴپراعتماد کرو ،وہ میری طرف سے تمھارے لئے حجت ہیں اورمیں  حجت اللہ ہوں ۔

۸ ) ” محمد بن عثمان “ امین اورثقہ ہیں اوران کی تحریرمیری تحریرہے ۔

۹ ) محمد بن علی مہریاراہوازی کادل انشاء اللہ بہت صاف ہوجائے گا اورانھیں کوئی شک نہ رہے گا ۔

۱۰ ) گانے والی کی اجرت و قیمت حرام ہے ۔

۱۱ ) محمد بن شاذان بن نیعم ہمارے شیعوں میں  سے ہے ۔

۱۲ ) ابوالخطاب محمدبن ابی زینب اجدع ملعون ہے اوران کے ماننے والے بھی ملعون ہیں ۔ میں  اورمیرے باپ دادا اس سے اور اس کے باپ دادا سے ہمیشہ بے زاررہے ہیں ۔

۱۳ ) جوہمارا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں  آگ بھررہے ہیں ۔

۱۴ ) خمس ہمارے سادات شیعہ کے لئے حلال ہے ۔

۱۵ ) جولوگ دین خدامیں  شک کرتے ہیں وہ اپنے خود ذمہ دارہیں ۔

۱۶ ) میری غیبت کیوں واقع ہوئی ہے ۔ یہ بات خداکی مصلحت سے متعلق ہے اس کے متعلق سوال بیکارہے۔ میرے آباؤاجداد دنیا والوں کے شکنجہ میں  رہے ہیں لیکن خدانے مجھے اس شکنجہ سے بچالیاہے جب میں  ظہورکروںگا بالکل آزاد ہوںگا ۔

) زمانہ ٴ غیبت میں  مجھ سے فائدہ کیاہے ؟ اس کے متعلق یہ سمجھ لوکہ میری مثال غیبت میں  ویسی ہے جیسے ابرمیں  چھپے ہوئے آفتاب کی ۔ میں  ستاروں کی مانند اہل ارض کے لئے امان ہوں تم لوگ غیبت اورظہورسے متعلق سوالات کا سلسلہ بندکرواورخداوندعالم کی بارگاہ میں  دعاکرو کہ وہ جلد میرے ظہورکاحکم دے ،اے اسحاق ! تم پراوران لوگوں پرمیراسلام ہو جوہدآیت کی اتباع کرتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۵۸ مجالس المومنین ص۱۹۰، کشف الغمہ ص۱۴۰)۔


شیخ محمدبن محمد کے نام امام زمانہ کامکتوب گرامی

 علماٴ کابیان ہے کہ حضرت امام عصرعلیہ السلام نے جناب شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن نعمان کے نام ایک مکتوب ارسال فرمایا ہے ۔ جس میں  انھوں نے شیخ مفید کی مدح فرمائی ہے اوربہت سے واقعات سے موصوف کوآگاہ کیا ہے ان کے مکتوب گرامی کا ترجمہ یہ ہے : میریے نیک برادراورلائق محب، تم پرمیراسلام ہو ۔ تمہیں دینی معاملہ میں  خلوص حاصل ہے اورتم ہمارے بارے میں  یقین  کامل رکھتے ہو ۔ہم اس خداکی تعریف کرتے ہیں جس کے سواکوئی معبود نہیں ہے ۔
ہم درود بھیجتے ہیں حضرت محمد مصطفی اوران کی پاک آل پرہماری دعاء ہے کہ خداتمہاری توفیقات دینی ہمیشہ قائم رکھے اورتمہیں نصرت حق کی طرف ہمیشہ متوجہ رکھے ۔تم جوہمارے بارے میں  صدق بیانی کرتے رہتے ہو ،خدا تم کواس کااجرعطافرمائے ۔تم نے جوہم سے خط وکتابت کاسلسہ جاری رکھا اوردوستوں کوفائدہ پہونچایا ، وہ قابل مدح وستائش ہے ۔ ہماری دعاہے کہ خداتم کو دشمنوں کے مقابلہ میں  کامیاب رکھے ۔ اب ذرا ٹہرجاؤ ۔ اورجیساہم کہتے ہیں اس پرعمل کرو ۔ اگرچہ ہم ظالموں کے امکانات سے دورہیں لیکن ہمارے لئے خداکافی ہے جس نے ہم کوہمارے شیعہ مومنین کی بہتری کے لئے ذرائع دکھائے دئیے ہیں ۔
جب تک دولت دنیا فاسقوں کے ہاتھ میں  رہے گی ۔ ہم کوتمہاری خبریں  پہونچتی رہیں گی اورتمہارے معاملات کے متعلق کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہ رہے گی ۔ ہم ان لغزشوں کوجانتے ہیں جولوگوں سے اپنے نیک اسلاف کے خلاف ظاہرہورہی ہیں ۔ (شاید اس سے اپنے چچا جعفرکی طرف اشارہ فرمایاہے ) انھوںنے اپنے عہدوں کوپس پشت ڈال دیاہے ،گویاوہ کچھ جانتے ہی نہیں ۔ تاہم ہم ان کی رعآیتوں کوچھوڑنے والے نہیں اورنہ ان کے ذکربھولنے والے ہیں اگرایساہوتا توان پرمصیبتیں  نازل ہوجاتیں  اوردشمنوں کوغلبہ حاصل ہوجاتا ،پس ان سے کہو کہ خداسے ڈرواورہمارے امرونہی کی حفاظت کرو اوراللہ اپنے نورکاکامل کرنے والاہے ،چاہے مشرک کیسے ہی کراہت کریں ۔ تقیہ کوپکڑے رہو ،میں  اس کی نجات کاضامن ہوں جوخداکی مرضی کاراستہ چلے گا ۔
ا س سال جمادی الاول کامہینہ آئے گا تواس کے واقعات سے عبرت حاصل کرنا تمہارے لئے زمین وآسمان سے روشن آیتیں  ظاہرہوںگی ۔مسلمانوں کے گروہ حزن وقلق میں  بمقام عراق پھنس جائیں گے اور ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے رزق میں  تنگی ہوجائے گی پھریہ ذلت ومصیبت شریروںکی ھلاکت کے بعد دورہوجائےگی ۔ ان کی ھلاکت سے نیک اورمتقی لوگ خوش ہوں گے لوگوں کوچاہیے کہ وہ ا یسے کام کریں جن سے ان میں  ہماری محبت زیادہ ہو ۔یہ معلوم ہوناچاہیے کہ جب موت یکایک آجائے گی توباب توبہ بند ہوجائے گا اورخدائی قہرسے نجات نہ ملے گی خدا تم کونیکی پرقائم رکھے ،اورتم پررحمت نازل کرے ۔
“ میرے خیال میں  یہ خط عہد غیبت کبری کاہے ،کیونکہ شیخ مفید کی ولادت ۱۱ ذیقعدہ ۳۳۶ ہجری ہے اوروفات ۳ رمضان ۴۱۳ میں  ہوئی ہے اورغیبت صغری کااختتام ۱۵ شعبان ۳۲۹ میں  ہواہے علامہ کبیرحضرت شہید ثالث علامہ نوراللہ شوشتری مجالس المومنین کے ص ۲۰۶ میں  لکھتے ہیں کہ شیخ مفید کے مرنے کے بعد حضرت امام عصرنے تین شعر ارسال فرمائے تھے جومرحوم کی قبرپرکندہ ہیں ۔


ان حضرات کے نام جنھوں نے زمانہٴ غیبت صغری میں  امام کودیکھا ہے

 چاروکلائے خصوصی اورسات وکلائے عمومی کے علاوہ جن لوگوں نے حضرت امام عصرعلیہ السلام کودیکھا ہے ان کے اسماء میں  سے بعض کے نام یہ ہیں :
بغداد کے رہنے والوں میں  سے ( ۱) ابوالقاسم بن رئیس ( ۲) ابوعبداللہ ابن فروخ ( ۳) مسرورالطباخ( ۴ ۔ ۵) احمدومحمدپسران حسن ( ۶) اسحاق کاتب ازنوبخت ( ۷) صاحب الفراٴ ( ۸) صاحب الصرة المختومہ ( ۹) ابوالقاسم بن ابی جلیس ( ۱۰) ابوعبداللہ الکندی ( ۱۱) ابوعبداللہ الجنیدی ( ۱۲) ہارون الفراز ( ۱۳) النیلی (ہمدان کے باشندوں میں سے) ( ۱۴) محمد بن کشمر( ۱۵) و جعفربن ہمدان (دینورکے رہنے والوں میں  سے ) ( ۱۶) حسن بن ہروان( ۱۷) احمدبن ہروان (ازاصفہان ) ( ۱۸) ابن بازشالہ (ازضیمر) ( ۱۹) زیدان (ازقم) ( ۲۰) حسن بن نصر ( ۲۱) محمدبن محمد ( ۲۲) علی بن محمد بن اسحاق ( ۲۳) محمدبن اسحاق ( ۲۴) حسن بن یعقوب (ازری ) ( ۲۵) قسم بن موسی ( ۲۶) فرزند قسم بن موسی ( ۹۲۷ ابن محمد بن ہارون ( ۲۸) صاحب الحصاقہ ( ۲۹) علی بن محمد ( ۳۰) محمد بن یعقوب کلینی ( ۳۱) ابوجعفرالرقاٴ (ازقزوین) ( ۳۲) مرواس ( ۳۳) علی بن احمد (ازفارس ) ( ۳۴) المجروح (ازشہزور) ( ۳۵) ابن الجمال (ازقدس) ( ۳۶) مجروح (ازمرو) ( ۳۷) صاحب الالف دینار ( ۳۸) صاحب المال والرقة البیضاٴ ( ۳۹) ابوثابت (ازنیشابور) ( ۴۰) محمدبن شعیب بن صالح (ازیمن) ( ۴۱) فضل بن برید ( ۴۲) حسن بن فضل ( ۴۳) جعفری ( ۴۴) ابن الاعجمی ( ۴۵) شمشاطی (ازمصر) ( ۴۶) صاحب المولودین ( ۴۷) صاحب ا لمال ( ۴۸) ابورحاٴ (ازنصیبین) ( ۴۹) ابومحمدابن الوجنا(ازاہواز) ( ۵۰) الحصینی (عایة المقصود جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

زیارت ناحیہ اوراصول کافی

 کہتے ہیں کہ اسی زمانہ غیبت صغری میں  ناحیہ مقدسہ سے ایک ایسی زیارت برآمد ہوئی ہے جس میں تمام شہداٴ کربلا کے نام اورانکے قاتلوں کے آسماٴہیں ۔ اس ”زیارت ناحیہ “ کے نام سے موسوم کیاجاتاہے ۔ اسی طرح یہ بھی کہاجاتاہے کہ اصول کافی جوکہ حضرت ثقة الاسلام علامہ کلینی المتوفی ۳۲۸ کی ۲۰ سالہ تصنیف ہے وہ جب ا مام عصرکی خدمت میں  پیش ہوئی توآپ نے فرمایا : ” ھذا کاف لشیعتنا۔“ یہ ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے زیارت ناحیہ کی توثیق بہت سے علماء نے کی ہے جن میں  علامہ طبرسی اورمجلسی بھی ہیں دعائے سباسب بھی آپ ہی سے مروی ہے ۔


غیبت کبری میں  امام مہدی کامرکزی مقام

 امام مہدی علیہ السلام چونکہ اسی طرح زندہ اورباقی ہیں جس طرح حضرت عیسی ،حضرت ادریس  ،حضرت خضر،حضرت الیاس ۔ نیز دجال بطال ، یاجوج ماجوج اورابلیس لعین زندہ اورباقی ہیں اوران سب کامرکزی مقام موجود ہے ۔ جہاں یہ رہتے ہیں مثلا حضرت عیسی چوتھے آسمان پر(قرآن مجید) حضرت ادریس  جنت میں  (قرآن مجید) حضرت خضراورالیاس ،مجمع البحرین یعنی دریائے فارس وروم کے درمیان پانی کے قصرمیں  (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۱۷۶) اوردجال بطال طبرستان کے جزیرہ مغرب میں  (کتاب غایۃ المقصود جلد ۱ ص ۱۰۲) اوریاجوج ماجوج بحیرہٴ روم کے عقب میں  دوپہاڑوں کے درمیان (کتاب غایۃ المقصود جلد ۲ ص ۴۷)
اورابلیس لعین ،استعمارارضی کے وقت والے پایہٴ تخت ملتان میں (کتاب ارشادالطالبین علامہ اخوند درویزہ ص ۲۴۳) تو لامحالہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کابھی کوئی مرکزی مقام ہوناضروری ہے جہاں آپ تشریف فرماہوں اوروہاں سے ساری کائنات میں  اپنے فرائض انجام دیتے ہوں اسی لئے کہاجاتاہے کہ زمانہ غیبت میں  حضرت امام مہدی علیہ السلام (جزیرہ خضراٴاوربحرابیض)
میں  اپنی اولاد اپنے اصحاب سمیت قیام فرماہیں اوروہیں سے باعجازتمام کام کیاکرتے اورہرجگہ پہنچاکرتے ہیں ،یہ جزیرہ خضراٴ سرزمین ولآیت بربرمیں  درمیان دریائے اندلس واقع ہے یہ جزیرہ معموروآبادہے ، اس دریاکے ساحل میں  ایک موضع بھی ہے جوبشکل جزیرہ ہے اسے اندلس والے (جزیرہ رفضہ ) کہتے ہیں ،کیونکہ اس میں  ساری آبادی شیعوںکی ہے اس تمام آبادی کی خوراک وغیرہ جزیرہ خضراسے براہ بحرابیض سال میں  دوبار ارسال کی جاتی ہے ۔ملاحظہ ہو(تاریخ جہاں آرا۔ ریاض العماء ،کفایة المہدی ،کشف القناع ، ریاض المومنین ،غایۃ المقصود ،رسالہ جزیرہ خضراء وبحرابیض اورمجالس المومنین علامہ نوراللہ شوشتری وبحارالانوار،علامہ مجلسی کتاب روضة الشہداء علامہ حسین واعظ کاشفی ص ۴۳۹ میں  امام مہدی کے اقصائے بلاد مغرب میں  ہونے اوران کے شہروں پرتصرف رکھنے اورصاحب اولادوغیرہ ہونے کاحوالہ ہے ۔ امام شبلنجی علامہ عبدالمومن نے بھی اپنی کتاب نورالابصارکے ص ۱۵۲ میں  اس کی طرف بحوالہ کتاب جامع الفنون اشارہ کیاہے ، غیاث اللغاث کے ص ۷۲ میں  ہے کہ یہ وہ دریاہے جس کے جانب مشرق چین ،جانب غربی یمن ، جانب شمالی ہند، جانب جنوبی دریائے محیط واقع ہے ۔ اس بحرابیض واخضرکاطول ۲ ہزارفرسخ اورعرض پانچ سوفرسخ ہے اس میں بہت سے جزیزی آباد ہیں جن میں  ایک سراندیب بھی ہے اس کتاب کے ص ۲۹۵ میں  ہے کہ ”صاحب الزمان“ حضرت امام مہدی علیہ السلام کالقب ہے علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ جس مکان میں  رہتے ہیں اسے ”بیت الحمد“ کہتے ہیں ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۳) ۔


جزیرہ خضراٴ میں  امام علیہ السلام سے ملاقات


حضرت امام مہدی علیہ السلام کی قیام گاہ جزیرہ خضراٴ میں  جولوگ پہنچے ہیں۔ ا ن میں  سے شیخ صالح ،شیخ زین العابدین ملی بن فاضل مازندرانی کانام نمایاں طورپرنظرآتاہے ۔ آپ کی ملاقات کی تصدیق ، فضل بن یحیی بن علی طبیعی کوفی وشیخ عالم عامل شیخ شمس الدین نجح حلی وشیخ جلال الدین ، عبداللہ ابن عوام حلی نے فرمائی ہے ۔ علامہ مجلسی نے آپ کے سفرکی ساری وؤیداد ایک رسالہ کی صورت میں  ضبط کیاہے ۔
جس کامفصل ذکربحارالانوار میں  موجود ہے رسالہ جزیرہ خضراء کے ص ۱ میں  ہے کہ شیخ اجل سعیدشہید بن محمد مکی اورمیرشمس الدین محمد اسداللہ شوشتری نے بھی تصدیق کی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کہتاہے کہ حضرت کی ولادت حضرت کی غیبت ،حضرت کاظہوروغیرہ جس طرح رمزخداوندی اوررازالہی ہے اسی طرح آپ کی جائے قیام بھی ایک رازہے جس کی اطلاع عام ضروری نہیں ہے ،واضح ہوکہ کولمبس کے ادراک سے قبل بھی امریکہ کاوجود تھا۔

امام غائب کاہرجگہ حاضرہونا

 احادیث سے ثابت ہے کہ امام علیہ السلام جوکہ مظہرالعجائب حضرت علی کے پوتے ،ہرمقام پرپہونچتے اورہرجگہ اپنے ماننے والوں کے کام آتے ہیں ۔ علماٴ نے لکھا ہے کہ آپ بوقت ضرورت مذہبی لوگوں سے ملتے ہیں لوگ انھیں دیکھتے ہیں یہ اوربات ہے کہ انھیں پہچان نہ سکیں ۔(غایۃ المقصود)۔