سفیر حسینی
جناب مسلم جناب عقیل ابن ابوطالب کے فرزند اور عقیل امام علی کے بھائی اس طرح مسلم امام حسین (ع) کے چچا زاد بھائی ہیں آپ کی مادر گرامی کا نام 'علیہ تھا' اس وقت ہمیں جناب مسلم کے تمام حالات زندگی بیان کرنامقصود نہیں ہیں بلکہ آپ کی حیات طیّبہ کے ایک درخشان ترین گوشہ کا جایزہ لیتے ہوئے تاریخ کے اوراق میںپوشیدہ آپ کے سنہرے الفاظ میںلکہے جانے والے کارناموںکو آشکار کرنا ہے۔
اہل کوفہ کے خطوط
امام حسین (ع) کے نام جب کوفہ والوں کی طرف سے امام حسین (ع) کو بلانے کے لئے ہزاروں خط آچکے تو امام حسین (ع) نے جناب مسلم ابن عقیل کو طلب کیا اورآپ کے ساتھ قیس ابن مسہروعبد الرحمن ابن عبدللہ اور بعض دوسرے افرادکو(کہ جنہیں کوفہ والوں نے امام کے پاس اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا ) اپنا ایلچی معین کیا اور روانگی سے پہلے کچہ امور کی انجام دہی کا حکم دیا۔
الف۔ ہر حال میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
ب۔حکومت کے رازوں کو پوشیدہ رکہنا۔
ج۔لوگوں کے ساتھ لطف اور مہربانی کا سلوک کرنا۔
د۔اگرکوفہ کے لوگ آپس میں متحد ہوں تو فورً اامام کو اطلاع دینا۔
اس کے بعد امام نے اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا خط لکھا
'اما بعد: بیشک میں اپنے چچا زاد بھائی اور اپنے گہرانے کے مورد اعتماد شخص،مسلم ابن عقیل کو تمھارے پاس روانہ کر رہا ہوں اور میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمھاری محبت و ہمدلی اتحادوہمبستگی کے بارے میں مجہے جلد از جلد اطلاع دیں بس مجہے اپنی جان کی قسم !امام وہ ہے جو حق کے ساتھ قیام کرے۔ 'والسلام'
جناب مسلم کا مکہ سے کوچ کرنا
ماہ رمضان المبارک کے آخری ایام چل رہے تہے کہ جب مسلم ابن عقیل نے مکّہ سے سفر کا آغاز کیا آپ کوفہ جانے سے پہلے مدینہ تشریف لائے، مسجد نبوی میں آئے وہاں پر نماز ادا کی اس کے بعد اپنے اہل و عیال سے رخصت ہوئے اور'قیس'سے دو راہنماؤں( راستہ بتانے والوں)کو اجرت پر لیاتاکہ راستے سے آگاہ کرتے رہیں لیکن درمیان راہ آفتاب کی حرارت کے سبب دونوں کا برا حال ہو گیا یھاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت کی وجہ سے دونوں نے راستے ہی میں دم توڑدیا۔
جناب مسلم راستے کو طے کرتے رہے یھاں تک کہ ایک ایسے مقام پر پہونچ گئے جھاں پانی موجود تھا وہاں پہنچ کر پیاس بجھائی جب جسم میں کچہ جان پڑی توآپ نے ایک خط کہ جس میں راستے کی سختی(گرمی اور فقدان آب )کے باریمیںذکر تھا جناب'قیس'کے ھاتہ امام کے لئے روانہ کر دیا ۔
جناب مسلم ابن عقیل کے پہلے خط کا مضمون
اما بعد:جب میں مدینہ سے نکلا تو میںنے دو راہنمائوں کو راستے سے آگاہی کے لئے اجرت پر اپنے ساتھ لے لیا تھا لیکن اس کے باوجود راستے کو گم کر دیا گرمی کی حرارت اور پیاس کی شدت نے ہم پر غلبہ کر لیا تھااس وقت پانی نصیب ہوا کہ جب ہمارے دونوںساتھی(راہنما)جام شھادت نوش کرچکے تہے اور میری آخری سانسیں میری نجات کا سبب بنیںایسا محسوس ہوتا ہے کہ یھاں سے آگے بڑہنا ہمارے لئے مناسب نہیںہے۔
امام حسین (ع) کی طرف سے جناب مسلم کے اس خط کا جواب
اما بعد:البتہ مجہے یہ خوف ہے کہ تمھاری یہ پیش بینی ان چیزوں کے علاوہ نہ ہو کہ جن کی میں نے تمہیں نصیحت کی ہے جیسا کہ میں نے تمہیں حکم دیا ہے ا سی کے مطابق قدم آگے بڑھائو۔ ' والسلام'
ہم کو اس غم انگیز داستان سے چند چیزوں کا سبق ملتا ہے
١۔ انسان کو صرف چند ناگوار حادثوں کی بنیاد پر آنے والے وقت میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے باریمیں بدگمانی سے کام نہیں لینا چاہئے۔
٢۔ انسان کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کے ساتھ ساتھ اپنے وظیفہ کو پہنچانے،اگر امام وقت کوئی نصیحت کرے تو اس پر عمل پیراہو اور اگر کسی کام کا حکم دے تو اس کے انجام دینے کی حتی الامکان کوشش کرے۔
٣۔اور چاہیے کہ پیغام خدا اور رسول کو پہنچانے میں دلیری اور جوانمردی سے کام لے۔
جب مسلم اس مقام (طی ّ)پر پہونچے جھاں پانی موجود تھاتوآپ نے کچہ دیر آرام کیا پھر کوفہ کی جانب چلنا شروع کر دیا یھاں تک کہ ایک ایسے شخص کو دیکھا کہ جس نے ایک ہرن کو اپنے تیر کا نشانہ بنا کر مار ڈالا تھا جب مسلم نے اس منظر کو دیکھاتوکھا:
'اگر خدا نے چاھا توہمارا دشمن مارا جائیگا،،
جناب مسلم کا کوفہ میں وارد ہونا
مسلم کوفہ کی طرف چلتے جا رہے تہے یھاں تک کہ شوال کی پانچویں تاریخ کو کوفہ میں داخل ہوگئے آپ سب سے پہلے جناب مختار ابن ابی عبید کے گہر پہنچے مختار نے امام کے چاہنے والوں کو بلانا شروع کر دیا تاکہ سب مسلم کے اردگرد جمع ہو جائیں جب سب لوگ جمع ہوگئے تو اب مسلم نے امام حسین (ع) کے اس خط کو جوآپ نے ان لوگوں کے خطوط کے جواب میںآپ کے ھاتہ بھیجا تھا ،پڑہنا شروع کیا لوگوں میںشور گریہ وبکا بلند ہوگیااور اسی درمیان کوفہ کے خطباء وسخنوران مانند عابس شاکری،اور حبیب اسدی،نے مسلم کے حضور میں زور دار تقریر یں کیں اور اپنا اپنا مدعا بیان کیا ۔
جب اس واقعہ خبر 'لقمان ابن بشیر انصار ی ،،کو پہنچی جو اس وقت کوفہ کاگورنر تھا وہ کہڑا ہوا اور اس نے بھی زور دار تقریر کی اور لوگوں کو ڈرایادہمکایا اس کے بعد' عبید اللہ ابن سعید حضرمی'جو بنی امیہ کا ہم پیمان تھا بعنوان اعتراض اپنی جگہ سے اٹھا اور مجلس کو چہوڑ کر باہر چلا گیااور اس نے 'عمار ابن عقبہ'کے ساتھ ملکر، لقمان(گورنر کوفہ)کے اس قصہ کو یزید کے لئے ایک خط میں لکہ بھیجااور اس میں یہ بھی توضیح دے دی کہ تو نے کوفہ میں جس حاکم کو انتخاب کیا ہے یا تو کمزور اور ناتوان ہے یا پھر جان بوجہ کر نادانی کر رہا ہے عبداللہ کے بعد سارے حکومت کے ٹکڑوں پر پلنے والے لوگوں مثل' عمار ابن عقبہ'و'عمر ابن سعد ابن ابی وقا ص 'نے بھی اسی طرح کے مضامین کے خطوط یزید کے پاس لکہ لکہ کر بھیج ڈالے ۔
جناب مسلم کا مختار کے گہرمیں قیام کرنے کا سبب
جناب مسلم ابن عقیل کا مختار کے گہرمیں قیام کرنے کا سبب ،یہ تھاکہ آپ کا شمار کوفہ میں رہنے والے شیعوں میں بڑی اور جانی پہچانی شخصیتوں میں کیا جاتا تھا اورآپ امام حسین (ع) کے ساتھ وفادار تہے اس کے علاوہ مختار'لقمان ابن بشیر'حاکم وقت کوفہ کے داماد بھی تہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک جناب مسلم مختار کے گہر میں قیام پذیر رہتے حاکم کوفہ آپ پر کسی قسم کا تعرض نہیں کر سکتا تھا مسلم کا یہ انتخاب(کہ آپ نے مختار کے گہر کو اپنی قیام گاہ کیلئے چنا) آپ کی حکمت عملی ،تیز ہوشی اور موقعیت اجتماعی پر تسلط کی دلیل ہے ۔
کوفیوں کی مسلم کے ہاتہوں پر بیعت
جب لوگوں کو مسلم کے کوفہ میں آنے کی اطلاع ملی تو گروہ گروہ اکٹھاہوکرآناشروع ہوگئے اور امام حسین (ع) کے نائب کے ہاتہوں پر بیعت کرنے کاسلسلہ جاری ہوگیایھاں تک کہ جناب مسلم کے دفتر میں بیعت کرنے والوں کی تعدا داسّی ہزار سے بھی زیادہ ہو گئی لیکن تواریخ میں مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرنے والوں کی تعداد میں کچہ اختلاف پایا جاتا ہے :
بیعت کنندگان کے مختلف ارقام
١۔ جناب مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرنے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار تھی۔
٢۔ جناب مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرنے والوں کی تعدادپچّیس ہزار تھی۔
٣۔ جناب مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرنے والوں کی تعداد اٹھائیس ہزار تھی۔
٤۔ جناب مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار سے بھی زیادہ تھی۔
مسلم کے ہاتہوں پر بیعت کرتے وقت لوگوں کا آپ سے عہد و پیمان
لوگوں نے اپنے بہت زیادہ اشتیاق اور رغبت کے ساتھ مسلم سے بیعت کرنے کیلئے کچہ اصول قائم کر لئے تہے
١۔ لوگوں کو کتاب خدا اور سنت رسول کی طرف دعوت دینا
٢۔ ظالموں اور بیداد گروں سے جنگ کرنا
٣۔ ناتوان اور کمزور طبقہ کی حمایت اور ان سے دفاع کرنا
٤۔ معاشرے کے محروم لوگوں کی حال و احوال پرسی کرنا
٥۔ مال غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان برابر تقسیم کرنا
٦۔ مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلوانا
٧۔ اہلبیت کی مدد اور نصرت کرنا
٨۔ جن لوگوں کے دلوں میں بغض و کینہ نہیں پایا جاتا ان سے مصالحت کرنا
٩۔ تجاوز کار، دوسروں کے حقوق کو غصب اوران پر ظلم کرنے وا لے لوگوں سے جنگ کرنا
اس عہد و پیمان سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ:
ہمیں بھی معقول اور مقبول اصول کی پیروی کرنی چاہئے اور یہ دیکہنا چاہئے کہ کس طرح لوگوں نے حق کے صحیح راستے کو دوبارہ پا لیا تھا۔
بیعت کے بعد مسلم کا امام حسین (ع) کے نام خط
بیعت کرنے والوں کی کثیر تعداد نے جناب مسلم کواس طرح سے مطمئن کر دیا تھا کہ اگر امام کوفہ تشریف لے آئیں تو تمام امور از سر نو انجام پائیں گے آپ نے خط میں امام کو لکھا کہ کوفہ میں اٹھارہ ہزار لوگ آپکے نام پربیعت کر چکے ہیں اور اس خط میں آپ نے امام سے یہ بھی خواہش کی کہ آپ جلد از جلد کوفہ تشریف لے آئیں کیونکہ کوفہ والے بے انتھاآپ کے دیدار کے مشتاق ہیںجناب مسلم نے اپنے اس نامہ کو بھی انہیں خطوط میں جو کوفہ والوں نے امام کے نام لکہے تہے شامل کر دیااور ان خطوط کو لیجانے کے لئے عابس ابن ابی شبیب شاکری کے سپرد کر دیا تاکہ قیس مسہر صیداوی کے ساتھ مل کرامام تک پہنچا دیں۔
یزید اور کوفہ
جناب مسلم کی طرف سے امام کو لکہے جانے والے دعوت نامہ کی خبر یزید کو مل چکی تھی اور وہ کسی نئے حاکم کوفہ کے انتخاب کے بارے میں سوچ رہا تھا اس نے اپنے باپ معاویہ کے وفادار غلام 'سرجوں'کو بلایا اور اس کو کوفہ کے حالات،'نعمان ابن بشیر'اور لوگوں کی جناب مسلم کے ھاتہ پر بیعت کرنے کے بارے میں بتایا اور کوفہ کے نئے گورنر کے سلسلہ میں اس سے مشورہ چاھا'سرجوں 'نے کھا کہ اگر تیرا باپ معاویہ اس وقت زندہ ہوتا توتو اس کی بات کو مانتا یا نہیں ؟یزید نے کھا ھاں ضرور'سرجوں' یزید کی ابن زیاد سے دشمنی اور عداوت کے باریمیں پہلے ہی سے باخبر تھا معاویہ کے اس حکم نامہ کوجو اس نے اپنی موت سے قبل عبیداللہ کے نام لکہ کر اس کو کوفہ کا حاکم نصب کیا تھا ،نکالا اور یزید کو دکھایا اس کو دیکہتے ہی یزید نے عبیداللہ ابن زیاد کو جو اس وقت بصرہ کاگوررنر تھا، کوفہ کی حکومت بھی اسی کے سپرد کر دی اوریہ حکم نامہ ایک خط کے ساتھ مسلم ابن عمر وباہلی کے ذریعے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس بھیج دیا ۔
یزید کا خط
عبیداللہ ابن زیاد کے نام یزید نے عبید اللہ ابن زیادکے نام جو خط لکھا اس کا مضمون اس طرح ہے'ایک دن جن لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے وہی لوگ دوسرے دن مورد مذمت قرارپاتے اور دو چار ننگ وعار ہوجاتے ہیں اور کچہ چیزیں جو نا پسند ہوتی ہیں دلپسند اور اچہی بن جاتی ہیں، تیرامقام و منزلت وہ ہے کہ جس کا تو سزاوار ہے اور ایک عرب شاعر کا یہ قول نقل کیا :
تیرا مقام بلند ہوا اور اتنا بلند ہواکہ آسمانوں سے بھی اونچا ہو گیا ٠٠٠ اورتو مقام ومنزلت کے اعتبار سے سورج کی بلندی کے مانند ہے۔
اس خط میںیزید نے عبید اللہ کو حکم دیا کہ جتنا بھی جلدی ہو سکے کوفہ کے لئے روانہ ہو جا اور مسلم ابن عقیل کو دستگیر کرنے کے بعد اس کو قتل یا تبعید(شہر بدر)کردے۔
عبرت اور درس
اہل باطل اور دنیا پرستوں کی اس سیاست سے جو درس لیا جا سکتا ہے اور اکثر مشاہدہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ باطل پر ست لوگ وقت پڑنے پر ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتے ہیں تاکہ اپنے بیہودہ اورناپسند اہداف تک پہونچ سکیںاسی طرح مومنین اور متقین کو بھی (چونکہ مشترکات ان کے درمیان بہت زیادہ پائے جاتے ہیں)ایک محور پر متحد ہوکر کفروشرک کے طرفداروں کو ایک فراموش نشدنی درس دیناچاہئے ۔
-------