حضرت زینب (س) کی سیرت حریت پسند مسلمانوں کی روش ہے
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل نے کہا: حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے عاشورا کے بعد پیغام رسانی کے سلسلے میں بیداری کی ایک لہر کھڑی کردی جو مسلم امہ کے درمیان یزیدیوں کے خلاف زبردست نفرت کا باعث ہوئی اور حضرت زینب (س) نے اسلام کے دفاع، امامت و ولایت کی پاسداری اور راہ حق میں استقامت کے سلسلے میں اپنا کردار بخوبی سرانجام دیا.
اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین محمد حسن اختری نے واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سیدہ ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کے کردار اور مقام و منزلت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: عاشورا کے قضیئے کے دو بنیادی مراحل تھے جن میں سے ایک میں مردوں میں سے حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام نے کردار ادا کیا اور دوسرے مرحلے میں خواتین سے حضرت سیدہ ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کا کردار تھا اور یہی دو ان دو مرحلوں کے بنیادی کردار ہیں اور تاریخ و حدیث سے ثابت ہے کہ سیدہ زینب (س) ایک پیروکار اور فرمانبردار کی حیثیت سے اپنے زمانے کے امام (ع) کی خدمت میں استوار رہی ہیں اور امام (ع) کے حکم کی تعمیل کرتی رہی ہیں.
انھوں نے کہا: اس قضیئے میں حضرت سیدہ زینب (س) ایک اصلی اور بنیادی کردار کی حیثیت سے خداوند متعال کی طرف سے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیشگی فرمان کے عین مطابق ایک عظیم فریضہ سنبھالی ہوئی ہیں اور ان کے لئے ایک خاص مقام اور خاص فریضہ مقرر کیا گیا ہے.
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل نے سیدہ زینب (س) کی کردار کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہوئی کہا: حضرت سیدہ (س) کا ایک کردار عاشورا سے قبل کی واقعات سے تعلق رکھتا ہی جبکہ ان کا دوسرا کردار عاشورا کی بعد واقعات سے تعلق رکھتا ہی اور یہ دونوں مرحلے ایک دوسرے کو مکمل کردیتے ہیں. یعنی اگر پہلا مرحلہ رونما نہ ہوتا اور عاشورا کا واقعہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر منتج ہوتا اور یزید اس حماقت کا ارتکاب نہ کرتا اور خاندان رسول اللہ (ص) کو اسیر کرکے کوفہ و شام نہ لے کر جاتا تو سیدہ کا کردار کسی بھی بیداری کی لہر کا باعث نہ بن سکتا اور اس زمانے کی دنیا کو کربلا کے حقائق کی خبر تک نہ پہنچتی.
انھوں نے کہا: حضرت زينب(س) نے دوسرے مرحلے میں اپنی الہی ذمہ داری کے تحت ابلاغ، بیداری کی موج کھڑی کرنے اور اپنے زمانے کے امام (ع) کا پیغام پہنچانے اور آپ (ع) کے اہداف و مقاصد کی وضاحت کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا جس کے نتیجے میں مسلم امہ کو اس واقعے کے حقائق اورقیام عاشورا کے مقاصد سے آگہی حاصل ہوئی اور بہت سے مسلمان حق اور ناحق کے درمیان تمیز کرسکے.
انھوں نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام میں عقیلۂ بنی ہاشم (س) کا کردار بنیادی کردار ہے اور اس کردار نے بنی امیہ کے خلاف نفرت کی لہر کھڑی کردی اور یزید اور یزیدی امت میں شدید نفرت سے دوچار ہوئے؛ عاشورا کا واقعہ ابدیت میں تبدیل ہوا جو ایک زندہ واقعے کی حیثیت سے پوری تاریخ میں زندہ اور قائم و دائم ہے.
انھوں نے کہا: حضرت زينب(س) نے وقار و عظمت، ذمہ داری، شجاعت، امامت و ولایت کی اطاعت، اللہ کی راہ میں دلیری، عقیدی کی راہ میں استقامت، اسلام کے دفاع اور ولایت و امامت کی پاسدارای کی راہ میں صبر و قوت ارادی کے مثالی ثبوت پیش کئے. اور یہ سب اسلامی نظام کے اہم ترین اور مقدس ترین مقاصد ہیں. اور سیدہ ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کا یہ کردار تاریخ کے تمام مراحل خاص طور پر ہمارے اس زمانے کے لئے عظیم پیغام کا حامل ہے اور یہی ایک حریت پسند مسلمان کی راہ و روش ہے.
عالمی اہل بیت (ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل نے اس سال روز عاشور بعض افراد کی طرف سے مسلمانان عالم بالخصوص اہل تشیع کے مقدسات کی توہین کی مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو یزیدی اقدام اور ناقابل درگذرگناہ قرار دیا اور کہا: آج ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو یزیدیوں کی مانند امام حسین علیہ السلام اور عاشورائے حسینی کے خلاف توہین اور بے حرمتی کے مرتکب ہوئے اور ان کی گستاخی یہاں تک پہنچی کہ انھوں نے امامت و ولایت کے سلسلے میں اپنی بے اعتقادی کا اعلانیہ طور پر اظہار کیا ہمیں ان کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا اور ولایت فقیہ کی پشت پناہی کرنی پڑے گی.
انھوں نے کہا: آج ہمیں ایک حقیقی مسلمان کی حیثیت سے ـ حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی مانند ـ یزیدیوں، منافقین اور امامت و ولایت کے دشمنوں کے مد مقابل ڈٹ جانا ہوگا جو استکباری حکومتوں اور عالمی سامراج کی حمایت کے بل بوتے پر اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیعیان عالم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی مانند اسلامی جمہوری نظام اور ولایت فقیہ کی حمایت کریں گے اور اس کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں گے.
حجت الاسلام والمسلمین محمد حسن اختری نے کہا: ہمارے دشمنوں کو جان لینا چاہئے کہ جس طرح کہ یزیدی قوتیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی آگہی بخشی کے خلاف نہ ٹہر سکیں اور سیدہ (س) نے صرف 40 روز کے دوران اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کا پیغام بہترین انداز میں دنیا والوں تک پہنچایا اور بنی امیہ کو رسوائے دنیا و آخرت کیا ہماری ملت بھی ولایت فقیہ کے دشمنوں کو اپنے کئے پر پشیمان کردے گی. جیسا کہ ملت ایران نے 30 دسمبر کو ملک کے تمام شہروں میں عمومی قیام کرکے دکھایا.