ولادت حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام
حضرت ابوالفضل العباس بن امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) 4 شعبان سن 26 ھ کو عثمان بن عفان کے دور خلافت میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوے.۔آپ کی کنیت " ابوالفضل" ہے. آپ کی والدہ مکرمہ حضرت فاطمہ بنت حزام جو کہ " ام البنین " کے نام سے مشھور ہے۔ اس نامدار خاتون سے امام علی بن ابیطالب (ع) کے 4 فرزند عباس، جعفر، عثمان، اور عبداللہ تھے اور چاروں بھائی اپنے امام حضرت امام حسین (ع) کی یاری کرتے کرتے یزید بن معاویہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں دس محرم کو کربلا میں شھید ہوے ۔
روایت میں آیا ہے کہ ایک دن امیر المومنین (ع) نے اپنے بھائی عقیل بن ابیطالب (ع) سے فرمایا: تم عرب نسل کے عالم ہو، میرے لۓ ایسی خاتون کو انتخاب کرو جس سے دلیر، طاقتور اور جنگجو فرزند پیدا ہوں ۔
عقیل نے انساب عرب اور عرب کی شایستہ اور لایق عورتوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے بعد اپنے بھائی امیر المومنین (ع) کو مشورہ دیا کہ حزام کلبی کی بیٹی فاطمہ ام البنین کے ساتھ شادی کرے، کیونکہ ان کے باپ دادا عربوں میں نہایت شجاع اور دلیر ہیں ۔
امیر المومنین (ع) نے بھی بھائی عقیل کے مشورہ پر ام البنین کے ساتھ شادی کی اور اس سے چار فرزند شجاع اور دلیر ہوے ۔
حضرت عباس (ع) امیر المومنین علی (ع) اور اپنی فھیم والدہ کے آغوش میں پرورش پائی اور امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جیسے بھائیوں کے ساتھ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں ساتھ رہے ۔ جب امیر المومنین علی (ع) کی خلافت کا آغازہوا حضرت عباس (ع) دس سال کے تھے اور اسی سن میں جنگ میں شرکت کرکے فعال کردار ادا کیا۔ ایک ماھر جنگجو کے مانند جنگ کیا
امیر المومنین علی (ع) کی شھادت کے بعد کسی لمحہ بھی اپنے بھائیوں کی ہمراہی اور یاری کرنے سے غافل نہ رہے اور انکے حفاظت کار تھے ۔ حضرت عباس (ع) کی وفاداری اور فداکاری عاشور کے دن اپنے اوج کو پہنچی
کربلا میں حضرت عباس (ع) نے ایک نرالی تاویخ رقم کی ، امام حسین (ع) کے فوج کے قابلترین اور ماہرترین سپہ سالار اور علمدار تھےاور آنحضرت کو بھی آپ سے نہایت محبت تھی اور آپ کے مشورے پر عمل کرتے تھے
عاشورا کے عصر کو جب شمر بن ذی الجوشن ، نے حضرت عباس اور ان کے بھائیوں جعفر ، عثمان ، اور عبداللہ ، کے لۓ امان نامہ بھیجکر چاہا کہ امام حسین (ع) کو جھوڑ کر عمر بن سعد کے ساتھ مل جاۓ یا دونوں کو چھوڑ کر وطن واپس چلے جائیں ـ حضرت عباس اور انکے بھائیوں نے شمر کے اس دعوت کو ٹھکرایا اور حضرت عباس نے کہا :تیرے ہاتھ ٹوٹیں اور تیرے امان نامے پر لعنت ہو ـ اے خدا کے دشمن کیا تم ہمیں حکم کرتے ہو کہ امام حسین (ع) کی مدد نہ کریں اور اسکے بدلے ملعون اور اسکے اولادوں کی اطاعت کریں ؟ کیا ہمیں امان ہےاور پیغمبر (ص) کے فرزند کیلۓ امان نہیں
اسی طر ح جب عاشور کی رات امام حسین (ع) نے اپنے تمام ساتھیوں سے کہا کہ رات کے اندھیرے کا سہارا لے کے یہاں سے چلے جاو اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاو دشمن کامعاملہ صرف مجھ سے ہے اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو ـ اس وقت سب سے پہلے حضرت عباس (ع) نے اپنی جانثاری اور وفاداری کا اعلان کیا۔ عرض کی اے امام ! کس لۓ آپ کو چوڑ دیں ؟ کیا آپ کے بعد زندہ رہیں ؟ خدا نہ کرے ہم آپ کو چھوڑکر دشمنوں کے مقابلے میں آپ کو اکیلا چھوڑیں ـ ہم آپ کے ساتھ رہیں گے اور اپنی آخری سانس تک آپ کی حمایت کریں گۓ
حضرت عباس (ع) کے بعد امام حسین (ع) کے دوسرے سارے ساتھیوں نے اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔
بحر حال ، اس عظیم انسان نے دسویں محرم کو قربانی اور فداکاری کی عظیم اور بے نظیر تاریخ وقم کی اور جب تک زندہ تھے امام حسین (ع) پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دی اور خمیہ گاہ کی طرف دشمن ترچھی آنکھ سے بھی حضرت امام حسین (ع) کے خیموں کی طرف دیکھنے کی جرئت نہ کر سکا اور جب بچوں کیلۓ پانی لینے گۓ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوۓ ۔ جب فرات سے پانی بھر کر واپس لوٹ رہے تھے دشمن نے پیچھے سے وار کرکے دائنا اور پھر بائنا بازرو قلم کیا اور چاروں طرف تیر باران کیا گیا ایک تیر آنکھ میں پیوست ہوا اور سرمبارک پر جب شدید ضرب لگا گھوڑے سے زمین پرگر اے گئے اور شمشیر، نیزے اور تیروں کی نوکوں نے حضرت کے بدن کو گھیر لیا
اس حال میں عباس بن علی (ع) نے امام حسین (ع) کو پکارا !یا حسین (ع) مجھے پالے !
امام حسین (ع) جب اپنے بھائي کے پارہ پارہ بدن کے پاس پہنچۓ ، نہایت متاثر اور غمگین ہوے ان کی جدائي پر رو رہے تھے اپنے کمرپر ہاتھ رکھ کر فرمایا: ألآن اِنْكَسَرَ ظَهري وَ قَلّت حيلَتي؛ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور تدبیر اتمام کو پہنچ گئی۔
امام زین العابدین (ع) جو کہ کربلا میں حاضر تھے اور اپنے چاچا عباس (ع) کی بے نظیر فداکاری اور مجاھدت کو نذیک سے دکھا تھا ، انکی فداکاری اور معنوی مقام کے بارے میں فرماتے تھے : رَحَمَ الله العبّاس، فَلَقَدْ آثَر، و أبلي، و فدي اخاه بنفسه حتّي قطعت يداه، فابدله الله(عزّ و جلّ) بهما جناحين يطير بهما مع الملائكه في الجنّة، كما جعل لجعفر بن ابي طالب(ع)، و انّ للعباس عند الله (تبارك و تعالي) منزلة يغبطه بها جميع الشّهداء يوم القيامة۔
بعنی :خدا میرے چاچا عباس (ع) کو رحمت کرے کہ اپنے آپ کو اپنے بھائی پر فدا کیا یہاں تک کہ دونوں بازوں قلم ہوے اور اللہ تعالی نے ان دوہاتھوں کے بدلے دو پر دیۓ جن سے وہ جنت میں اڑتے ہیں جسطرح انکا چاچا جعفر بن ابیطالب (ع) کو دو پر عنایت ہوے ہیں ۔ بار گاہ الہی میں حضرت عباس (ع) کا ایسا مقام اور ایسی فضیلت ہے کہ ہر شھید اسکی آرزو کرتا ہے
حضرت عباس (ع) 34 سال کی عمر میں شھید ہوۓ اور آپ کا ایک چھوٹا فرزند تھا جن کا نام" عبید اللہ " تھا ـ ان سے آپ کی نسل با برکت آگۓ چلی ۔
آداب زیارت حضرت عباس علیہ السلام
علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ھیں :حضرت عباس علیہ السلام کا زائر پہلے در سقیفہ کے پاس کھڑے ھو اور داخلہٴ حرم کی دعا پڑھ کر حرم میں وارد ھو، پھر اپنے کو قبر پر گرا دے، اور حضرت کی زیارت پڑھے، نماز و دعا کے بعد پائے اطھر کی طرف جائے اور وھاں پر اس زیارت کو پڑھے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ھے” السلام عليک يااباالفضل العباس“زیارت علمدار کربلا علیہ السلام کے بعد زائر دو رکعت نما زادا کرے چونکہ روایت میں اس کی تاکید وارد ھوئی ھے.
حرم مطھرحضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام
بارگاہ مقدس بابُ الحوائج قمر بنی ھاشم سقائے سکینہ آقا ابوالفضل العباس علیہ السلام کا حرم امام حسین علیہ السلام سے تقریباََ۳۵۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع ھے۔
خداوند عالم نے حرم ابوالفضل العباس کی تعمیر کیلئے ھردورمیں کچھ افرد کو منتخب کیا، لہٰذا ھر دور میں حرم قمر بنی ھاشم علیہ السلام کو بہتر سے بہتر تعمیر کیا گیا اسی بنا پر ھم بھی ذیل میں کچھ مثالیں تحریر کر رھے ھیں ۔
۱۔ شاہ طھماسپ نے ۱۰۳۲ ق۔ میں گنبد مطھر کی نقاشی اور بیل بوٹے بنوائے، اور صندوق قبر پر ضریح مبارک رکھی، صحن و ایوان تعمیر کرائے، پہلے دروازہ کے سامنے مھمان سرا تعمیر کرایا اور ھاتھ کے بنے ھوئے قالینوں سے فرش کو مزین کیا -
۔ ۱۱۵۵ق۔ میں نادرشاہ نے حرم مطھر کے لئے گران قیمت ہدیئے ارسال کئے اورحرم کی آئینہ کاری کرائی۔
- ۱۱۵۷ق۔ میں نادرشاہ کا وزیر جب زیارت سے مشرف ھوا تو اس نے صندوق قبر کو تبدیل کرایا اور ایوان تعمیر کرائے، روشنی کے لئے شمع آویزاں کرائیں، جس سے حرم بقعہ نور بن گیا ۔
۔ ۱۲۱۶ق۔ میں جب وھابیوں نے کربلائے معلی کو لوٹا تو حرم حسین علیہ السلام اور حرم حضرت عباس علیہ السلام میں جو کچھ تھا اس کو بھی لے گئے، حرم کی جدید تعمیر کے لئے فتح علی شاہ نے کمر ھمت کسی، اور سونے کے ٹکڑوں سے حرم امام حسین علیہ السلام کے گنبد مبارک کو مزین کیا اور حضرت عباس علیہ السلام کے حرم کو بیل بوٹوں کی نقاشی سے آراستہ کرایا، قبلہ کی طرف ایوان بنوائے اور نھایت نفیس لکڑی سے تعویذ قبر امام حسین علیہ السلام بنوائی، اور چاندی کی ضریح نصب کی۔
۔ مجتہد اعظم شیخ مازندرانی کے حکم سے مرحوم حاج شکراللہ نے اپنی ساری ثروت خرچ کرکے حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں طلا کاری کرائی اور سونے کی تختی پر سونے کے حرف میں مغربی ایوان پر اپنا نام” شکراللہ“ کتبہ کرایا جو آج تک موجود ھے یہ واقعہ ۱۳۰۹ ق کا ھے ۔
۔محمد شاہ ہندی حاکم لکھنوٴ نے پہلے دروازہ کے سامنے والے ایوان طلا کو درست کرایا، اور سلطان عبدُالحمید کے حکم سے اس ایوان کا رواق بہترین لکڑی کی چھت کے ساتھ بنوایا گیا۔
ایوان طلا کے مقابلہ میں چاندی کادر ھے، وہ خود حرم مطھر کے خادم مرحوم سید مرتضیٰرحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۵۵ ق۔ میں بنوایا تھا.۔روضئہ اقدس میں جو جدید ضریح ھے وہ ۱۳۸۵ ق۔ میں مزین کی گئی اس نفیس اور زیبا ضریح کو اصفھان (ایران) میں پہلے بنایا گیا اور پھر اس کو اس وقت کے مرجع وقت حضرت علامہ آیةاللہ العظمٰی حاج سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ھاتھوں سے قبر منور پر رکھ اگیا۔
مقام دست راست(دایاں بازو)۔
کربلائے معلی کی زیارتوں میں یہ وہ مبارک مقام ھے کہ جھاں روز عاشورا سقائے اہل حرم علیہ السلام کا دایاں بازو قطع کیا گیا تھا، اس کے بعد حضرت نے مشک کو بائیں بازو میں سنبھالا تاکہ کسی طرح مشک کو خیام حسینی تک پہنچا سکے ۔
مقام دست چپ(بایاں بازو)۔
حرم حضرت عباس علیہ السلام کے باب قبلہ سے چند قدم کے فاصلہ پر یہ مقام واقع ھے، اور یھی وہ مقام ھے، جھاں سقائے سکینہ کا بایاں بازو کاٹا گیا تھا، اس کے بعد علمدار حسینی نے مشک کو اپنے دانتوں میں تھام لیا اور خیموں کی طرف چلے تاکہ پانی کو خیموں تک پہنچا دے، مگر ظالموں نے تیروں کی بارش شروع کردی جس کی وجہ سے ایک تیر مشک سکینہ علیھا السلام پر لگا اور تمام پانی بہہ گیا، اب غازی علیہ السلام کی ھمت جواب دے گئی، اس منظر کو پیام اعظمی نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ھے:
بچوں نے اپنے ھاتھوں سے ساغرپٹک دئے