امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

احادیث اہل سنت میں امام مہدی عج کا ذکر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

المهدي مني يقضوا اثري ولا يخطئ

 احادیث اہل سنت کے منابع حدیث سے نقل ہوئی ہیں اور احادیث کا ترجمہ بھی عربی عبارت کے عین مطابق ہے اور ان احادیث میں بیان ہونے والے عقائد لازماً مکتب اہل بیت (ع) کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتے اور بعض جگہوں پر ان مسائل میں ہمارا اختلاف ہے اور چونکہ کوشش کی گئی ہے کہ اہل سنت کے ہاں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور، ان کے ظہور کی حقانیت، ان کی عصمت اور ان کی ذریت فاطمہ و علی سے ہونا مقصد تها لہذا احادیث کو عینا نقل کیا گیا ہے.
وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ ہر شخص اپنی جدو جہد سے امام نہیں بن سکتا خدائے تعالیٰ جس کو چاہے اس منصب کے لئے منتخب فرمالیتا ہے. امام مہدی علیہ السلام بارہویں امام ہیں اور حضرت حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین ابن علی علیہم السلام کے فرزند ہیں گویا ان کے جد امجد علی ابن ابیطالب علیہ السلام اور جدّّۀ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں اور حضرت رسول اللہ نے فرمایا ہے:
ان الله جعل ذرية کل نبي من صلبه و جعل ذريتي من صلب علي بن ابي طالب (عليهما السلام)
بے شک خداوند متعال نے ہر نبی کی ذریت اس کے اپنے صلب سے قرار دی اور میری ذریت علی ابن ابیطالب علیہما السلام کے صلب سے قرار دی ہے.
یہاں اس نبی کے اقوال اہل سنت کے راویوں اور محدثین سے نقل کئے جارہے ہیں جو بولتے ہیں تو مصدر وحی سے متصل ہوکر بولتے ہیں اور انسانی معاشروں اور احکام دین یا بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے ان کی کوئی بھی پیشین گوئی خدا کی طرف سے وحی پر مبنی ہوتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) کا انکار اور آپ (ص) کے ارشادات کا انکار خدا اور اس کے فرامیں و ارشادات کا انکار ہے اور یہ انکار باعث کفر ہے. چنانچہ انکار مہدی علیہ السلام کا انکار کفر ہے کیونکہ
وما ينطق عن الهويٰ ان هو الا وحي يوحي (نجم)
(حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) جو بولتے ہیں اپنی طرف سے نہیں بولتے آپ جو بولتے ہیں وحی کی بنیاد پر بولتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی کی ایک قسم آیات پر مشتمل ہے اور وہ قرآن کی تشکیل کرتی ہے اوردوسری قسم اتصال کی صورت میں ہے اور جو فیوضات اتصال کی بنا پر رسول اللہ الاعظم (ص) پر وارد ہوتے ہیں وہ وحی کی دوسری قسم ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو بولتے یا کرتے ہیں وہ آپ (ص) کے قلب پر وارد ہوتا ہے. جو آیات ہیں ان سے قرآن کی تشکیل ہوتی ہے اور جو دیگر ارشادات ہیں وہ تفسیر آیات اور بیان احکام ہے یا پھر قیامت تک کے حوادث و وقائع کی پیشین گوئیاں ہیں.
ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بارے میں احادیث من جانب اللہ ہیں۔ اس لئے انکار مہدی علیہ السلام کو کفر قرار دیا گیا ہے کیونکہ آیات الہٰی اور احادیث رسول کا انکار لازم آتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہدی موعود علیہ السلام کی ضرورت ظہور سے متعلق کئی طریقوں سے تفصیل کے ساتھ خبریں دی ہیں۔ چنانچہ دارقطنی ‘ طبرانی‘ ابو نعیم‘ حاکم وغیرہ نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ:
قال رسول الله (ص) لا يذهب الدنيا حتيٰ يبعث الله تعاليٰ رجلاً من اهل بيتي يواطئ اسمه اسمي ...
دنیا ختم نہ ہوگی جب تک کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو مبعوث نہ کرے جو میرے اہل بیت (ع) سے ہوگا اس کا نام میرے نام کے جیسا ہوگا۔
احمد بن حنبل نے مسند میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ:
قال (ص) لا تقوم والساعة حتي يملک رجل من اهل بيتي ...
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ ہوگی جب تک کہ میرے اہل بیت سے ایک شخص دنیا پر حکومت نہ کرے
اور ابو داﺅد نے بھی اس طرح کی ایک روایت نقل کی ہے:۔
عن زر بن عبدالله عن النبي (ص) قال لو لم يبق من الدنيا الا يوم واحد لطول الله ذالک اليوم حتيٰ يبعث رجلا من اهل بيتی يواطئ اسمه اسمي...
اگر بالفرض دنیا ختم ہونے کو ایک ہی دن باقی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اس ایک ہی دن کو اتنا طویل فرمادےگا کہ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص مبعوث ہوجائے جس کا نام میرے نام کے مشابہ ہوگا۔
العرف الوری فی اخبار المہدی میں ابن ماجہ اور حاکم اور ابو نعیم کے نے ثوبان سے روایت کی ہے:
ثم يحي خليفة الله المهدي فاذاسمعتم به فاتوه فبايعوه ولو حبو اعلی الثلج فانه خليفة الله المهدي
پھر اللہ کا خلیفہ مہدی آئےگا پس جب تم اس کی خبر سنو تو ان کے پاس جاﺅ اور ان کی بیعت کرو اگرچہ کہ تمہیں برف پر سے رینگتے ہوئی جانا پڑے بی شک مہدی اللہ کا خلیفہ ہے۔
اس حدیث شریفہ سے ثابت ہے کہ مہدی علیہ السلام خلیفة اللہ ہیں۔ اور ان کی بیعت فرض ہے کیونکہ فبایعوہ“ کا مستفاد یہی ہے اور ” لوحبوا علی الثلج“ کے الفاظ تاکید اکید اور ” فانہ خلیفة الله“ کے الفاظ توجیہ فرضیت پر دلالت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے حضرت مہدی علیہ السلام کا معصوم عن الخطا ہونا ثابت ہوتا ہے چنانچہ اکابراہل سنت نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ (ص) نے فرمایا۔
المهدي مني يقضوا اثري ولا يخطئ
مہدی علیہ السلام میری اولاد سے ہوگا میرے نقش قدم پر چلےگا خطا نہ کرےگا۔
علامہ طحطاوی نے حاشیہ دارالمختار میں تحریر کیا ہے کہ:
المهدي ليس بمجتهد اذا المجتهد يحکم بالقياس وهو يحرم عليه القیاس لان المجتهد يخطئ وهو لا يخطئ قط فانه معصوم في احکامه بشهادة النبي و هو مبني علي عدم جواز الاجتهاد في حق الانبياء
مہدی مجتہد نہیں ہیں کیونکہ مجتہد کے احکام قیاسی ہوتے ہیں اور مہدی کے لئے قیاس حرام ہے اس لئے کہ مجتہد خطا کرتا ہے اور مہدی علیہ السلام سے ہرگز خطا نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنے احکام میں معصوم ہے جس کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی ہے اور آنحضرت کی یہ شہادت اس امر پر مبنی ہے کہ انبیاء و خلفائے الہٰی کے لئے اجتہاد جائز نہیں۔
البتہ شیعہ مکتب میں قیاس حتی مجتہد کے لئے بهی حرام ہے اور یہ جناب ابوحنیفہ کے اختراعات میں سے ہے اور شیعہ مکتب میں امام معصوم کا کلام مجتہدین کے اجتہاد کی بنیاد ہوتا ہے کیونکہ وہ جو بولتے یا کرتے ہیں در حقیقت رسول اللہ کی حدیثیں ہیں. جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
میری حدیث میرے والد کی حدیث اور میرے والد محمد بن علی علیہما السلام کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین علیہما السلام کی حدیث ہے اور علی ابن الحسین علیہما السلام کی حدیث حسین بن علی علیہما السلام کی حدیث ہے اور امام حسین علیہ السلام کی حدیث امام حسن ابن علی علیہما السلام کی حدیث ہے اور امام حسن علیہ السلام کی حدیث حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی حدیث ہے اور امام علی علیہ السلام کی حدیث رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جبرئیل کے توسط سے اللہ تعالی سے اخذ کیا ہے.
غرض حضرت مہدی علیہ السلام سے متعلق جتنی احادیث موجود ہیں اتنی کثرت کسی دوسرے مسئلے کے بارے میں کم ملےگی۔ برزنجی نے ” اشارة فی اشراط الساعة “ میں لکھا ہے کہ:
واعلم ان الا حاديث الواردة فيه علي اختلاف رواياتها لا تکاد تنحصر ولو تعرضنا لتفصيلها لطال الکتاب و خرج عن موضوعه
واضح ہو کہ مہدی علیہ السلام سے متعلق احادیث اتنی کثیر وارد ہوئی ہیں کہ ان کا حصر نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ہم اسکی تفصیل بیان کرنا چاہیں تو کتاب طویل ہو جائےگی اور یہ اس کا موضوع بھی نہیں۔
جب علمائے حدیث و اصول نے احادیث کی اتنی کثرت دیکھی اور سب حدیثوں کو ظہور مہدی علیہ السلام کے بارے میں متفق علیہ پایا تو انہوں نے مسئلہ مہدویت کو تواترکے درجہ میں داخل کرلیا چنانچہ علامہ قاضی منتجب الدین جویزی نے لکھا:
واما ما اختاره‘ السلف واتفقوا في شانه فقد ذکر في القرطبي وقد تواتر الاخبار و استقاضت بکثرة رواتها عن النبي (ص) في المهدي (مخزن الدلايل)
بہر حال سلف نے جو اختیار کیا اور مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو اتفاق کیا ہے وہ قرطبی میں مذکور ہے مہدی علیہ السلام سے متعلق جو حدیثیں ہیں اپنے روایوں کی کثرت کی وجہ تواتر کے درجے کو پہنچ گئی ہیں۔
شیخ ابن حجر ہیثمی نے ” القول المختصر“ میں تحریر کیا ہے کہ:
قال بعض ائمة الحفاظ ان کَونَ المهدي من ذرية رسول الله (ص) تواترت عنه (ص)
بعض حفاظ ائمہ حدیث نے فرمایا ہے کہ مہدی علیہ السلام کا آل رسول (ص) سے ہونا حضرت رسول (ص) سے متواتراً مروی ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ” لمعات شرح مشکوة کے باب الساعة میں لکھا ہے کہ:۔
قدوردت فيه الاحاديث کثيرة متواتر المعني
مہدی علیہ السلام کے بارے میں متواتر المعنی کثیر احادیث وارد ہیں۔
نیز لکھتے ہیں کہ:۔
قد تظاهرت الاحاديث البالغة حد التواتر معناً في کون المهدي من اهل بيت من ولد فاطمة (س)
مہدی علیہ السلام اہل بیت رسول (ص) اولاد فاطمہ (س) سے ہونے کی احادیث تواتر معنوی کی حد تک پہنچ گئی ہیں۔
بحرالعلوم عبدالعلی نے ” اشراط الساعة “ میں لکھا ہے کہ:۔
احاديثي که دال اند بر خروج امام مهدي کثير اند که مبلغ آں بتواتر رسيده
مہدی کی بعثت پر دلالت کرنے والی حدیثیں اتنی کثیر ہیں کہ تواتر کی حد کو پہنچ گئی ہیں۔
اکابر اہل سنت و علماءحدیث و اصول کے ایسے بہت سارے اقوال ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مہدی علیہ السلام کی بعثت کی احادیث متواتر ہونے پر جمہور کا اتفاق ہے کیونکہ سب احادیث مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں یک زبان ہیں البتہ اختلاف ہے تو آثار و علامات میں ہے۔
نیز یہ امر بھی ذہن نشین ہونا چاہئے کہ جو امور تواتر کے درجے میں ہوں ان سے قطعی و یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔ جن کا انکار نقل و عقل کے خلاف ہے۔ حافظ ابن حجرکی نے ”شرح نخبة الفکر“ میں تحریر کیا ہے کہ:
وهذا کون المتواتر مفيد اللعلم اليقين و هو المعتمد لان خبر المتواتر يفيد العلم الضروري وهو الذي يضطر الانسان اليه بحيث لا يمکنه رفعه
متواتر سے علم یقین کا فائدہ ہوتا ہے اور لائق اعتبار ہے۔ کیونکہ خبر متواتر علم ضروری کا ایسا فائدہ دیتی ہے کہ جس کو ماننے پر ہر آدمی مجبور ہوتا ہے حتی کہ اس کا رد کرنا ممکن نہیں۔
اور اہل سنت کے ہاں اصول فقہ کی معتبر کتاب ” اصول الشاشی“ میں لکھا ہے کہ:
ثم المتواتر يوجب العلم القطعي و يکون رده کفر
حدیث متواتر سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور اس کو رد کرنا کفر ہے۔
پس عقیدہ ظہور مہدی علیہ السلام ایک آرزو نہیں ہے، یہ ایک افسانوی تصور بھی نہیں ہے بلکہ ضروریات دین میں سے ہے اور ہم نے یہاں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے بعض حدیثیں نقل کی ہیں جن سے ثابت ہے کہ جس طرح قیامت پر اعتقاد لازم ہے ظہور مہدی علیہ السلام پر بھی اعتقاد لازم و واجب ہے اور سلف صالحین کی پیروی کے دعویدار بھی ایسی مستند و مستحکم پیشینگوئی سے ہرگز رو گردانی نہیں کرسکتے۔
البتہ اہل سنت کے اکابرین میں ابن خلدون کو اہل بیت سے عداوت کی بنا پر پہچانا جاتا ہے اور اس نے مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو اختلاف کیا ہے وہ حتی علمائے اہل سنت کے ہاں بھی مسلماتِ اہل سنت کے صریح مغائر ہے اور اس نے جن روایات پر جرح کی ہے ان کی تعدیل بھی کی جاتی رہی ہے۔ مناظر احسن گیلانی صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ نے ” مکاتیب امام غزالی“ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ:
” اس قسم کا مغالطہ جس سے ابن خلدون نے مسلمانوں کے ” نظریہ مہدویت“ کو مضمحل کرنے میں کام لیا تھا ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ کرکے کہ آئندہ مہدی علیہ السلام کی شکل میں مسلمانوں کو ایک نجات دہندہ ملےگا اس خیال کو اس نے غیر عقلی عقیدہ قرار دیا ہے وجہ یہ بیان کی ہے کہ قوموں کا حال بھی افراد کا ہے بچپن جوانی بڑھاپی کے دور سے جیسے افراد گذرتے ہیں قوموں کو بھی ان ہی ادوار سے گذرنا پڑتا ہے مسلمان جوانی کے بعد پیرانہ سالی کے حدود میں داخل ہوچکے ہیں اب دوبارہ ان کی نئی زندگی کی امید ایسی ہوئی جیسی کسی بوڑھے آدمی کے متعلق جوان ہونے کی خوش خیالی میں کوئی مبتلا ہو۔ لیکن ابن خلدون نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام اور امت اسلامیہ کا تعلق کسی خاص نسل یا خون یا وطن کے باشندوں سے نہیں ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک قوم مثلاً عرب یا ترک اپنے ادوار ختم کرچکی ہوں لیکن کوئی دوسری تازہ دم قوم مسلمان ہوکر اسلام کو پھر ترو تازگی بخش سکتی ہے۔ تیرہ سو سال سے اس کا تجربہ ہورہا ہے اور ہوتا رہےگا اور اسی ابن خلدون کے خیال کی غلطی ظاہر ہوتی ہے۔ باقی مہدی علیہ السلام کے متعلق جو حدیث کی کتابوں میں روایتیں ہیں ان پر ابن خلدون نے جو اعتراضات کئے ہیں ان کی بھی محدثانہ حیثیت سے کوئی وقعت نہیں ہے اور مہدی علیہ السلام کا عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے (مکاتیب امام غزالی صفحہ (۳۲)مطبوعہ کراچی (پاکستان)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ اسلام پوری دنیا پر حکومت کرے گا اور کوئی بھی ایسا گھر نہ رہے گا جس سے لا الہ الا اللہ کی صدا بلند نہ ہورہی ہو مگر ابن خلدون جو کسی خاص فلسفے سے متاثر اور قرآن سے ناواقف نظر آتا ہے اس مسلمہ اسلامی عقیدے کی تردید کررہا ہے ، اس زمانے میں بھی دشمنان امام مہدی اور اہل بیت (ع) کی عالمی حکومت کو حاسدانہ انداز سے جھٹلانے والے کئی لوگ «قرب قیامت» کی پیشین گوئیاں کررہے ہیں اور وہ بھی در حقیقت قرآن کو جھٹلانے کا ارتکاب کررہے ہیں:
ارشاد ربانی ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبه 33)
وہ خدا وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ آپ (ص) اسے تمام ادیان پر غلبہ بخش دیں خواہ مشرکوں کو یہ بات بری ہی کیوں نہ لگے.
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (الفتح 28)
وہ خدا وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ آپ (ص) اسے تمام ادیان پر غلبہ بخش دیں اور یہی کافی ہے کہ خدا خود ہی اس امر کا گواہ ہے.
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف 9)
وہ خدا وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ آپ (ص) اسے تمام ادیان پر فاتح کردیں خواہ مشرکوں کو یہ بات بری ہی کیوں نہ لگے.
ان تین آیات میں واضح کردیا گیا ہے کہ دین اسلام کو پوری دنیا پر حاوی ہونا ہے اور اس کو دنیا پر حکومت کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
بظاہر دین کی خاطر پوری زندگی گذارنے والوں کی عداوت اہل بیت (ع) مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آئی جبکہ قرآن مجید میں محبت اہل بیت (ع) کو اجر رسالت قرار دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہی کہ
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (الشوري 23)
کہہ دو: «میں اپنی رسالت کے عوض تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے میرے اقرباء اور اہل بیت کی مودت کے.
گو کہ ان لوگوں کے ہاں اولویت عداوت اہل بیت (ع) کو حاصل ہے اور اس سلسلے میں قرآن سے تمسک کے بلندبانگ دعؤوں کے برعکس قرآن کی صریح آیات کی تنقیض تک کا ارتکاب کردیتے ہیں.
فی الواقع ابن خلدون کی جرح خلاف اصول ہے کیونکہ تواتر کی صورت میں راویوں کے ضعف و قوت سے بحث نہیں کی جاتی ۔ ابن حجر نے میں تحریر کیا ہے کہ:
والمتواتر لا يبحث عن رجاله بل يجب العمل به من غير بحث لا يحابه اليقين وان وردعن الفساق بل عن الکفرة(ماخوذاز ابراز الوهم المکنون)
خبر متواتر کی شان یہ ہے کہ اس کے راویوں سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ اس پر بغیر بحث کے عمل کرنا واجب ہے کیونکہ خبر متواتر موجب یقین ہوتی ہے اگرچہ وہ روایت فاسقوں بلکہ کافروں سے ہوتی ہے۔

 

وضاحت:

اس کے علاوہ سلف اہل سنت و اکابر علماء حدیث و اصول کے مقابلے میں ایک مورخ کے ذاتی خیالات کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
نیز یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ ” خلفائے بنی عباس کے زمانے میں اس قسم کی احادیث پروپیگنڈے کے لئے وضع کرلی گئی ہیں “ یہ بات اصول منقول کے خلاف ہے اور غیر معقول ۔ کیونکہ ان روایات سے صاف ظاہر ہے کہ راویوں کے زمانے اور ظہور مہدی علیہ السلام کے زمانے میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ پس جن لوگوں نے اپنی ذاتی ضروریات و مصالح کے لئے بعثت مہدی علیہ السلام کی روایات وضع کرلی ہوں ‘ ان کو ایسی روایات وضع کرنے سے ان کی ضروریات و مصلحتوں میں کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا جن کا وقوع صدیوں بعد ہونے کی خبر دےگئی ہے۔!
آخر میں ایک عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ روایت سنی اور شیعہ کتب احادیث میں متفق علیہ ہے اور حتی کہ ایک راوی نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ:
من مات و لم یعرف امام زمانه مات میتة الجاهلیة
جو اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے.
اس روایت میں تین اہم چیزوں کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
1- ہر زمانے کا ایک امام ہوتا ہے.
2- مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت رکھتا ہو.
3- اگر کوئی شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے.
اب اگر مجھ سے کوئی پوچھے تو میں بتاؤں گا کہ میرے امام زمانہ حضرت م ح م د المہدی المنتظر حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین ابن علی علیہم السلام کی فرزند ہیں گویا ان کی جد امجد علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جدّّۀ ماجدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہیں اور حضرت رسول اللہ نے فرمایا ہے:
ان الله جعل ذرية کل نبي من صلبه و جعل ذريتي من صلب علي بن ابي طالب (عليهما السلام)
بے شک خداوند متعال نے ہر نبی کی ذریت اس کے اپنے صلب سے قرار دی اور میری ذریت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے صلب سے قرار دی۔
میں پوچھنا چاہتا ہوں-

ان لوگوں سے جو اپنے سوا کسی کو بھی مسلمان کہنا گوارا نہیں کرتے اور اپنے عقائد کے مخالفیں کے گلے کاٹ کرجنت میں جانا چاہتے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو شیعوں کے گلے کاٹنے پر جنت کے سرٹیفیکٹ ایشو کرتے ہیں - کہ ان کے زمانے کا امام کون ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ ہر زمانے کا ایک امام ہوتا ہے تو ان لوگوں کا امام کون ہے؟ کیا وہ رسول اللہ کے اس ارشاد کے مطابق ہر زمانے کے لئے امام کے قائل بھی ہیں یا نہیں؟
جاہلیت کی موت سے مراد بھی واضح ہے یعنی یہ کہ وہ شخص جو اپنے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بعثت رسول (ص) سے قبل عالم جاہلیت میں شرک و کفر کی حالت میں مر جاتے تھے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک