مظلومیت ہی مظلومیت
مظلومت ہی مظلومیت
قطعہ
نبی و آل نبی کا ہے احترام بہت وہ منزلت ہے،خدا کی کتاب شاہد iiہے
سعودیوں نے بقیع پہ ستم وہ رکھے روا اداس قبریں ہیں اور آفتاب شاہد iiہے
نہیں ہے فاصلہ زیادہ بقیع کا روضے iiسے ستم ہیں جتنے،رسالتمآب شاہد iiہے
ہے ایک بیٹی نبی کی،وہ ایک iiاکلوتی سلوک کیا ہوا،قبرِ خراب شاہد iiہے
وہ جو اٹھارہ برس میں ضعیفہ لگتی iiتھی کمر خمیدہ پہ جس کا شباب شاہد ہے
وہ جس کے خانۂ رشک جناں کوآگ iiلگی جلا ہوا وہ اسی گھر کا باب شاہد ہے
وہی جو پہلو شکستہ ہوئی ولی iiکیلیے وفا پہ محسن با اضطراب شاہد ہے
ہے ایک سبط پیمبر،کریم آل iiعبا وطن میں جس کی غریبی کا باب شاہد iiہے
وہی حسن کہ ہے جنت میں سروری جن iiکی لسانِ سرور و عالیجناب شاہد ہے
وہی کہ قبر بھی نانا کے پاس مل نہ iiسکی انوکھا سرخ کفن کا حساب شاہد iiہے
ہے ایک خون کے آنسو بہانے والا iiامام وہ جس کے حال پہ گریاں سحاب شاہد iiہے
وہی جو سجدوں میں ضرب المثل رہا iiیکتا عبادتوں کا حسیں انتساب شاہد iiہے
ہے ایک وہ کہ الہٰی علوم کا iiباقر اسی لقب کا الہٰی خطاب شاہد ہے
سلام جس کو نبی کے ملے ہیں جابر iiسے ستم کی زدمیں وہ عزت مآب شاہد iiہے
وہی جو بچپنے میں کربلا کو دیکھ iiآیا وہ دینِ حق کا لہو رنگ نصاب شاہد iiہے
ہے ایک صدق میں صادق نبی کا لخت جگر صداقتوں کی وراثت کا باب شاہد iiہے
ستم کی زد میں ہے صادق امام کا بھی iiمزار کھلی ہوئی وہ غموں کی کتاب شاہد iiہے
وہ جس کی قبر کے پہ مظلومیت برستی iiہے وہ جس کی قبر کاہر سنگ ہے آب،شاہد ہے
مسدس
مسرتیں ہوئیں احزان،ہر ایک حزن iiطویل
دعا کے ہاتھ اٹھانے لگے ہیں جبرائیل
چمن کے حال پہ گریاں ہوئے عقیل و iiنبیل
ہیں مستیوں میں مگن اب جہان بھر کے رذیل
زبانِ حال بقیع ہے ظہور ہو iiجائے
ہر ایک حزن بقیع اب سرور ہو جائے
سلام تربت پہ جن کی چھائی تمازت ہے
آج تک نزد خدا انھیں کا بلندتر مقام ہو!
اب تک رلارہا ہے وہ جس کو بقیع کا iiحال
حضرت ولی عصر پہ میرا سلام iiہو
امت کی بے وفائی کی دیکھو عجب iiمثال
جیسے نبی سے لینا اسے انتقام iiہو
جنت البقیع (قطعات)
بقیع کے حال پہ نادم نہیں ہے کچھ iiامّت نبی جو آل کا پوچھیں،جواب کیا دےگی
خدا کے پاس بھی جانا ہے یہ مسلم iiہے خدا کے سامنے سارا حساب کیا دے iiگی
ہے قبر جس کی مخفی شبِ قدر کی iiطرح وہ اپنے حق سے ہو گئی محروم iiفاطمہ
غربت رہی برستی وہ جس پر تمام iiعمر اب تک اسی طرح سے ہے مظلوم iiفاطمہ
نہ جلتا خانۂ صادق،بقیع بھی بچ iiجاتا سقیفے والے وہاں پر جو کچھ حیا iiکرتے
وہ ابتدا تھی،تسلسل اسی کا رائج iiہے اے کاش پاس جو ہوتے تھے کچھ وفا کرتے
اے کلمہ پڑھنے والو!آنکھوں کو اپنی iiکھولو دستِ وھابیت سے کیا ظلم ہو رہے iiہیں
آباد ہے مدینہ ،اونچی عمارتیں iiہیں ویران سے بقیع میں معصوم سو رہے iiہیں
بعد شہادت کے بھی دل دکھاتے iiہیں کتنے ظالم ہیں اس دنیا والے iiلوگ
کلمہ پڑھ کے آل نبی پہ ظلم و iiستم! عقل کے اندھے ہیں یہ دل کے کالے iiلوگ