خو شبوئے حیات حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
- شائع
-
- مؤلف:
- باقر شریف قرشی
- ذرائع:
- اقتباس ازکتاب :ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) کی سیرت سے خوشبوئے حیات
امام محمد باقر علیہ السلام ان ائمہ ٔ اہل بیت علیہم السلام میں سے ہیں جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچا نے کے لئے منتخب فر مایا ہے اور ان کو اپنے نبی وصایت کے لئے مخصوص قرار دیا ہے ۔
اس امام عظیم نے اسلامی تہذیب میں ایک انوکھا کردار ادا کیااور دنیائے اسلام میں علم کی بنیاد ڈالی ،امام نے یہ کا رنامہ اس وقت انجام دیا جب دنیائے اسلام میں ہر طرف فکری جمود تھا ،کو ئی بھی تعلیمی اور علمی مرکزنہیںتھا،جس کے نتیجہ میں امت مسلسل انقلابی تحریکوں سے دو چار ہورہی تھی جن میں سے کچھ بنی امیہ کے ظلم و تشدد اور بربریت سے نجات حاصل کرنا چا ہتے تھے اور کچھ لوگ حکومت پر مسلط ہو کر بیت المال کو اپنے قبضہ میں لینا چا ہتے تھے ۔انقلابات کے یہ نتا ئج علمی حیات کے لئے بالکل مہمل تھے اور ان کو عمومی زندگی کے لئے راحت کی کوئی امید شمار نہیں کیا جاسکتا ۔
امام محمد باقر نے علم کا منارہ بلند کیا ،اس کیلئے قواعد و ضوابط معین فرمائے ،اس کے اصول محکم کئے ، آپ اس کے تہذیبی راستے میں اس کے قائد اور معلم و استاد تھے ،آپ نے علوم کو بہت وسعت دی، ان ہی میں سے علم فضا اور ستاروں کا علم ہے جس سے اس زمانہ میں کو ئی واقف نہیں تھا، امام کو علم کے موجدین میں شمار کیا جا تا ہے ۔(١)
امام کے نزدیک سب سے زیادہ اہم مقصدہمیشہ کے لئے اہل بیت کی فقہ اسلا می کو نشر کرنا تھاجس
میں اسلام کی روح اور اس کا جوہر تھا ، امام نے اس کو زندہ کیا ،اس کی بنیاد اور اس کے اصول قائم کئے ، آپ کے پاس ابان بن تغلب ،محمد بن مسلم ، برید،ابو بصیر،فضل بن یسار ،معروف بن خربوذ، زرارہ بن اعین وغیرہ جیسے بڑے بڑے فقہاء موجود رہتے تھے وہ فقہا جنھوں نے ان کی تصدیق کیلئے روایات جمع کیں اور ان کی ذکاوت و ذہانت کا اقرار کیا،اور اہل بیت کے علوم کی تدوین کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے ،اگر یہ نہ ہوتے تو وہ بڑی فقہی ثروت جس پر عالم اسلام فخر کرتا ہے سب ضائع و برباد ہو جا تی ۔
امام کی سیرت کے اعتزاز و فخر کیلئے یہ ہے کہ آپ نے فقہا ء کی تربیت کی جس سے وہ بافضیلت ہوئے ،ان کو مرکزیت کے اعزاز سے نوازا،اور امت نے فتوے معلوم کرنے کے لئے اِن ہی فقہا ء کی طرف رجوع کیا امام نے ابان بن تغلب کے لئے فرمایا:''مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوے بتایا کر ومیں اپنے شیعوں میںتمہارے جیسے افراد دیکھنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔''۔(2)
امام نے اِن فقہاء کے نفقہ کی ذمہ داری خود اپنے کا ندھوں پر لی ،ان کی زندگی میں اقتصادی طور پر پیش آنے والی ان کی تمام حاجتیں پوری کیں تاکہ ان کو تحصیل علم ،اس کے قواعد و ضوابط لکھنے اور اس کے اصول کو مدوّن کر نے میں کو ئی مشکل پیش نہ آئے ،جب آپ کے دار فا نی سے ملک بقا کی طرف کوچ کر نے کا وقت آیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند امام جعفر صادق کوان فقہاء کو نفقہ دینے کی وصیت فر ما ئی کہ ان کو تحصیل علم اور ان کو لوگوں کے درمیان نشر کرنے میں کو ئی معاشی مشکل پیش نہ آئے ۔
یہ فقہا جو کچھ امام سے سنتے اس کو مدوّن کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے اور ان کو روشن فکر افراد کے لئے تدریس کرتے ،امام کے شاگرد فقیہ جابر بن یزید جعفی سے ستر ہزار روایات نقل ہو ئی ہیں جن میں سے اکثر احادیث فقہ اسلامی سے متعلق ہیں ،اسی طرح ابان بن تغلب سے احادیث کا ایک بہت بڑا مجموعہ نقل ہوا ہے ، احکام میں زیادہ تر عبادات ،عقود اور ایقاعات سے متعلق بہت زیادہ روایات جمع کی ہیں، فقہ اہل بیت کے مؤسس اور ناشر کا یہی حق ہے ۔
آپ نے قرآن کریم کی تفسیر کا بڑا اہتمام کیا اس کے لئے مخصوص وقت صرف کیا ،اکثر مفسرین
نے آپ سے کسب فیض کیا ،اور آپ نے بعض آیات کی تفسیر میں وارد ہونے والی اپنے آباء و اجداد کی روایات کو مدوّن کیا ۔قرآن کریم کی تفسیر میں ایک خاص کتاب تحریر فرما ئی جس سے فرقہ ٔ جارودیہ کے سربراہ زیاد بن منذر نے روایت کی ہے ۔(3)اور ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام محمد باقر ''میں وہ آیات تحریر کی ہیں جن کی تفسیر امام باقر سے نقل کی گئی ہے ۔
امام نے بعض احا دیث انبیاء علیہم السلام کے حالات سے متعلق بیان فر ما ئیں ہیں جن میں انبیاء کا اپنے زمانہ کے فرعونوں کے ذریعہ قتل و غارت ،ان کی حکمتیں ،موعظے اور آداب بیان کئے گئے ہیں آپ نے سیرت نبویہ کو ایک مجموعہ کی صورت میں پیش کیا جس سے ابن ہشام ،واقدی اور حلبی وغیرہ جیسے مدوّن کرنے والوں نے نبی اکرم ۖ کے غزوے اور ان کی جنگوں کے حالات نقل کئے ہیں ، جس طرح ان سے آداب ِ سلوک ،حسن اخلاق اور حسن اعمال کے سلسلہ میں بھی متعدد احادیث نقل کی ہیں ۔
یہ بات شایانِ ذکر ہے کہ امام محمدباقر نے مسیحی ،ازراقہ ،ملحدین اور غالیوں کی جماعتوں سے مناظرے کئے اور مناظروں میں ان کو شکست دی خود فاتح ہوئے اور ان سب دشمنوں نے آپ کی علمی طاقت اور ان پر فوقیت کااعتراف کیا اور ہم یہ سب اپنی کتاب ''حیاةالامام محمد باقر '' میں ذکر کر چکے ہیں ۔
بہر حال تاریخ نے امام محمد باقر جیسے کسی امام کا تعارف نہیں کرایا،آپ نے اپنی پوری زندگی لوگوں میں علم نشر کرنے میں صرف کر دی ،آپ نے ''جیسا کہ راویوں نے کہا ہے ''یثرب میں ایک بہت بڑے مدرسہ کی بنیاد رکھی جس میں لوگوں کوعلم فقہ ،حدیث ،فلسفہ ،علم کلام اور قرآن کریم کی تفسیر کی غذا سے سیر کیا ۔
تاریخ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی اہمیت اس وقت اورعروج پر پہنچ گئی جب آپ نے امپراطوری رومی شہنشاہیت کے چنگل سے اسلامی سکہ کو آزاد کر ایا اور اس کی ڈھلائی نیزاس پر تحریر کی جانے والی عبارت بھی تعلیم فرما ئی اور اس کے بعد آپ کی برکت سے اسلامی سکہ رائج ہو گیا۔چنانچہ اس سلسلہ میں روایت ہے :عبد الملک نے ایک کاغذ پر نظر ڈالی تو اُس پر مصری زبان میں کچھ لکھا ہوا دیکھااُس کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا تو وہ عیسائیت کے تین نعرے ''باپ ،بیٹا اور روح '' تھے تو اس کواچھانہیں لگا ،اس نے
اپنے مصر کے گورنرعبدالعزیز بن مروان کو انھیں باطل کرنے کیلئے لکھا اور اس کو حکم دیاکہ سکوںپرنعرئہ توحید''شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہُ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَ'' لکھا جائے ، اور اس نے اپنے تمام گورنروں اور والیوں کوسکوں پرروم کے نقش شدہ شعارکو باطل کرنے کاحکم دیا،جس کسی کے پاس وہ نقش شدہ شعار ملے اس کو سزادینے کیلئے کہا،ڈھالنے والوں نے سکوں پر یہ شعار لکھا ،اس کو پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلا دیا،جب بادشاہ روم کو یہ معلوم ہوا تو وہ بہت غصہ ہوا ،اس نے عبدالملک سے سکوں کو ان کی پہلی صورت میں ہی لانے کیلئے کہا اور اس نے اپنے خط کے ساتھ ایک ہدیہ عبدالملک کے پاس روانہ کیا جب وہ ہدیہ عبدالملک کے پاس پہنچا تو اس نے وہ ہدیہ بادشاہ روم کو واپس کردیا اور اس کے خط کا کو ئی جواب نہیں دیا ،باد شاہ روم نے اور زیادہ ہدیہ روانہ کیا اور دوسری مرتبہ خط میں تحریر کیا کہ وہ سکوں کو ان کی پہلی حالت میں ہی پلٹا دے عبد الملک نے کو ئی جواب نہیں دیا اور پھراس کا ہدیہ واپس کر دیا ، قیصر روم نے عبد الملک کویہ دھمکی دیتے ہوئے تحریر کیا کہ میں درہم و دینار کے اوپر نبی ۖ کے سلسلہ میں نا سزا الفاظ لکھواکر تمام اسلامی ممالک میں رائج کرادونگا اور تم کچھ نہ کرسکوگے ، عبدالملک نے اپنے تمام حوالی و موالی جمع کر کے ا ن کے سامنے یہ بات پیش کی تو روح بن زنباع نے اس سے کہا : بادشاہ تم بہتر جانتے ہو کہ اس موقع پر کون اسلام کی مشکل کشا ئی کر سکتا ہے لیکن عمداً اس کی طرف رخ نہیں کرتے۔ بادشاہ نے انکار کرتے ہوئے کہا :خدا تجھے سمجھے بتا تو سہی وہ کو ن ہے ؟
روح بن زنباع نے کہا :علیک بالباقرمن اہل بیت النب ۖ۔میری مراد فرزند رسول امام محمد باقر ہیں ۔
عبدالملک نے روح بن زنباع کے مشورہ کا مثبت جواب دیا اور اس نے فوراً مدینہ کے گورنر کوامام محمد باقر اور ان کے چاہنے والوں کو بھیجنے کے لئے تحریر کیا اور ان کے لئے سو ہزار درہم دینے اوران کے خرچ کیلئے مزیدتین لاکھ درہم اضافہ کرنے کا وعدہ کیا ،یثرب کے والی نے عبدالملک کی بات کو عملی جا مہ پہنایا، امام محمد باقر یثرب سے دمشق پہنچے، عبدالملک نے رسمی طور پر آپ کا استقبال کیا اور اس کے بعد اپنا مطلب بیان کیا امام نے اس سے فرمایا :تم گھبرائو نہیں یہ دو اعتبار سے کو ئی بڑی بات نہیں ہے : ایک تو یہ کہ صاحب روم نے جو تمھیں رسول اللہ ۖ کے متعلق دھمکی دی ہے اس میں خدا اس کو آزاد نہیں چھوڑے گا ''یعنی وہ جو چا ہے کر ے''،دوسرے یہ کہ اس میں حیلہ و دھوکہ ہے ۔
عبدالملک نے کہا : وہ کیا ہے ؟
امام نے فرمایا :
''تم اسی وقت حکاک اور کا ریگروں کو بلائواور اپنے سامنے اُن سے درہم و دینار کے سکّے ڈھلوائو سکّہ کے ایک طرف سورئہ تو حید اور دو سری طرف پیغمبر اسلام ۖ کا نا م نامی لکھواور سکہ کے مدار میں جس شہر میں وہ سکّے بنے ہیں اس شہر کا نام اور سَن لکھا جائے ''۔
آپ نے اس کو سکہ کی کیفیت اور وزن وغیرہ اور ان کو ڈھالنے کے طریقہ کی تعلیم دی،اس کے بعد اس رنگ کے سکوں کو تمام عالم اسلام میں رائج کر نے کا حکم دیااور رومی سکوں کو خلاف قانون قرار دیا ،اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کو سخت سزا دی جا ئے گی ۔عبدالملک نے امام کے اس فرمان کو نافذ کر دیا ،جب بادشاہ روم کو یہ معلوم ہوا تو وہ بہت حیرا ن ہوا اور اس کی تمام آرزوئوں پر پا نی پھر گیا پہلے تمام سکّے خلاف قانون قرار دئے گئے اور امام کے بنوائے ہوئے سکوں سے معاملات انجام دئے جا نے لگے اور وہی سکّے عباسیوں کے زمانہ تک رائج رہے ۔(5)
عالم اسلام امام محمد باقر کا ممنون کرم ہے کہ امام نے اس پر احسان کیا اور اس کو روم کا غلام بننے سے نجات دی ،اور حاکم اسلام سے اسلامی ملک میں مستقل طور پراسلامی نعرہ ایجادکرادیا ۔
ہم امام محمد باقر کے اقوال بیان کر نے سے پہلے ان کے بعض اعلیٰ صفات بیان کر رہے ہیں جن کی وجہ سے عالم اسلام آج بھی اپنا سر بلند کئے ہوئے ہے ۔
آپ کاحلم
امام محمد باقر کی ایک نمایاں صفت حلم ہے ،سوانح حیات لکھنے والوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام نے اس شخص پر ستم روا نہیںسمجھا جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ،آپ ہمیشہ ان سے خو شروئی اور احسان کے ساتھ پیش آتے ،مؤ رخین نے آپ کے عظیم حلم کی متعدد صورتیں روایت کی ہیں ۔اُن ہی میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ ایک شامی نے آپ کی مختلف مجلسیں اور خطبات سُنے جس سے وہ بہت متعجب اور
متأثر ہوا اور اما م کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا :جب میں نے آپ کی مجلسیںسنیں لیکن اس لئے نہیں کہ آپ کو دوست رکھتا تھا ،اور میں یہ نہیں کہتا: میں آپ اہل بیت سے زیادہ کسی سے بغض نہیںرکھتا ،اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ اور امیرالمو منین کی اطاعت آپ سے بغض رکھنے میں ہے ،لیکن میں آپ کو ایک فصیح و بلیغ ، ادیب اور خوش گفتار انسان دیکھتا ہوں ،میں آپ کے حسنِ ادب کی وجہ سے ہی آپ سے رغبت کرنے لگا ہوں ۔ امام نے اس کی طرف نظر کرم ولطف و مہربانی سے دیکھا ،محبت و احسان و نیکی کے ساتھ اس کا استقبال کیا ، آپ نے اس کے ساتھ نیک برتاؤ کیا یہاں تک کہ اس شخص میں استقامت آئی ،اس پر حق واضح ہو گیا ، اس کا بغض امام کی محبت میں تبدیل ہو گیا وہ امام کا خادم بن گیا یہاں تک کہ اس نے امام کے قدموں میں ہی دم توڑا،اور اس نے امام علیہ السلام سے اپنی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے وصیت کی ۔(١)
امام نے اس طرزعمل سے اپنے جد رسول اسلام ۖ کی اتباع کی جنھوں نے اپنے بلند اخلاق کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کوایک دوسرے سے قریب کیا ان کے احساسات اور جذبات کو ہم آہنگ کیا اور تمام لوگوںکو کلمہ توحید کے لئے جمع کیا ۔
آپ کاصبر
آپ نے دنیا کے مصائب اور گردش ایام کے المیہ پر صبر کیا ،صبر آپ کی ذات کا جزء تھا ، آپ نے تلواروں کی سختیوں میں بھی صبر کیا ،اپنے آباء طاہرین سے خلافت کے چھینے جانے ،اور حکومت کے منبروں اور اذانوںمیں اپنے آباء واجداد پر سب و شتم ہونے پر بھی صبر کیا ،آپ نے ان سب کو سنا اور ذرا بھی ترش روئی نہیں کی بلکہ صبر و تحمل سے کام لیا ،اپنے غصہ کو پی گئے ،اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کر دئے ،وہی اپنے بندوں کے ما بین حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والا ہے ۔
آپ نے سب سے زیادہ اس بڑی مصیبت پر صبر کیا کہ اموی حکومت آپ اہل بیت کے شیعوںپر بہت زیادہ ظلم و ستم کر رہی تھی ،ان کی آنکھیں نکال دیتی ،ہاتھ کاٹ دیتی ،ان کوگمان اور تہمت لگا کر قتل کردیتی تھی ،حالانکہ آپ ان کی مدد اور ان کو نجات دینے پر قادرنہیں تھے ۔
آپ کا عظیم صبر یہ تھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو آپ کے گھر میں سے چیخنے کی آواز آ ئی ،آپ کے بعض مو الیوں نے جلدی سے وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک کنیز بچہ کو اپنے ہاتھوں پر لئے ہوئے تھی اچانک بچہ زمین پر گرگیا اور اس نے دم توڑ دیا ہے ،امام نے فرمایا : ''الحمد للّٰه علی ماأعطیٰ وله ما اخذَ۔ان لههم عن البکاء و خُذوا ف جهازه،واطلبوا السکينة و قولوالها (ای جارية )انتِ حرّة لِوَجْه اللّٰه لِمَا تَدَاخَلِکِ مِنَ الرَّوعِ''۔
''تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو اس نے دیا ہے وہ اسے بھی لے لے گا ،انھیں گریہ کرنے سے روکا ،اس (بچہ )کے کفن و دفن کا انتظام کرنے کے لئے فرمایا ،ان کو سکون و اطمینان سے رہنے کا حکم دیا ، اور اس (کنیز )سے فرمایا خدا کا خوف جو تیرے دل میں آگیا ہے میں نے اس کی وجہ سے تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا ہے ''
اس کے بعد امام آکر اپنے اصحاب سے گفتگو کرنے لگے کچھ دیر کے بعد آپ کے غلام نے آکر عرض کیا ہم نے اس کا جنازہ تیار کر دیا ہے آپ نے اپنے اصحاب کو اس ما جرے کی خبر دی اور اس کے جنازہ پر نماز پڑھنے اور اس کو دفن کر نے کا حکم دیا ۔(5)
آپ کا ایک اور صبر جو آپ کی بلند شخصیت پر دلالت کر تا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کا ایک بااثر فرزند تھا جو بیمار ہو گیا جس کی وجہ سے آپ سخت رنجیدہ ہوئے اور بچہ نے دم توڈیا ،امام نے نہایت صبر سے کام لیا ، آپ کے اصحاب نے عرض کیا :فرزند رسول! ہم آپ کے سلسلہ میں کچھ خوف کھا رہے ہیں آپ نے ان کو بڑے ہی اطمینان اور اللہ کے فیصلہ پر راضی رہتے ہوئے یوں جواد دیا :''اِنّاندعُوااللّٰه فيما يحبُّ،فَاِذا وَقَعَ ما نکره لَمْ نُخَالِفِ اللّٰه فِيمَا بحِبُّ''۔(7)
''بیشک ہم خدا کو اسی چیز کے سلسلہ میں پکارتے ہیں جس کو وہ چا ہتا ہے ،پس جس چیزکو ہم پسند نہیں کرتے ہیں وہ واقع ہوتی ہے ،تو ہم اس چیز میں اللہ کی مخالفت نہیں کرتے جس کو وہ دوست رکھتا ہے ''
فقیروں پر مہربان فقیروں پر مہربانی کر نا
امام کے بلند اخلاق میں سے تھا ،آپ ان کا بڑی فراخدلی اور اکرام و تکریم کے ساتھ استقبال کر تے ،آپ نے اپنے اہل و عیال سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر کو ئی سائل سوال کرے تو اس کو یہ نہ کہنا :اے فقیر یہ لے لو ۔بلکہ اس سے کہو :اے اللہ کے بندے خدا تم کو اس میں برکت دے ۔(8)
جیسا کہ آپ نے اپنے اہل کویہ حکم دیا تھاکہ فقراء کو اچھے القاب سے یاد کریں ،حقیقت میں آپ نے یہ اخلاق اپنے جد رسول اسلام کے اخلاق سے منتخب فرمائے تھے وہ رسول جو اخلاق میں تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔
امام محمد باقر کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چیز یہ تھی کہ آپ اپنے برادران ،قاصد ، خبر نشر کرنے والے اورامیدوار سے محبت کر تے تھے ،(9)امام کی پیدائش ہی نیکی سے محبت ،لوگوں کے ساتھ صلۂ رحم اور ان کوخو ش کرنے کے لئے ہو ئی تھی ۔
ابن صباغ کا کہنا ہے : محمد بن علی بن الحسین کا علم و فضل ،ریاست ،امامت ،شیعہ اور سنی سب کے لئے تھی ،آپ کرم میں مشہور تھے ،کثرت عیال اور متوسط حال ہونے کے باوجود آپ لوگوں کے ساتھ فضل و احسان کرنے میں مشہور تھے۔(10)
امام فرماتے تھے :''صلۂ اخوان اور معارف کے علاوہ دنیا میں کو ئی نیکی و اچھا ئی نہیں ہے ''۔(11)
آپ کی عبادت
امام محمد باقر علیہ السلام متقین کے امام اور عابدوں کے سردار تھے ، آپ اللہ کی اطاعت میںعظیم اخلاص سے پیش آتے تھے ،جب آپ نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو اللہ کے خوف و خشیت سے آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا(12) ،آپ دن اور رات میں ایک سو پچاس رکعت نماز پڑھتے (13) اور کثرت نماز کی وجہ سے
امت کے علمی امور اور عام مراجعہ میں کو ئی رکا وٹ نہیں ہو تی تھی ، آپ سجدوں میں یہ دعا پڑھتے تھے : ''سبحانک اللهمّ انت ربّ حقّاحقا،سجدت لک يارب تعبدا ورقا، اللهم انَّ عمل ضعيف فضاعفه ل۔اللّهمَّ قِنِیْ عذابک يوم تبعث عبادکَ،وتُبْ علَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرحيمُ ''۔
''اے خدا تو پاک و منزہ ہے ،میرے پروردگار تو برحق ہے ،اے میرے پروردگار میں بندگی اور غلامی کی وجہ سے تیرا سجدہ کرتا ہوں ،خدایا میرا عمل ضعیف ہے ،تو اس کو میرے لئے دُوگنا کردے ، مجھے اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھ جس دن تیرے بندے اٹھا ئے جا ئیں گے ،میری توبہ قبول کرلے ،تو ،توبہ قبول کرنے والا ہے ''۔
آپ قنوت اور سجود میں دو سری دعا ئیں بھی پڑھا کرتے تھے جن کو ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام محمد باقر '' میں ذکر کیا ہے ۔
آپ کا زہد آپ دنیا کے زاہدوں میں سے تھے ،آپ نے رونق زندگا نی سے منھ موڑ لیا تھا آپ کے گھر میں کوئی بھی عمدہ لباس اور سامان نہیں تھا اور آپ اپنی مجلسوں میں چٹائی پر تشریف فرما ہوتے تھے ۔ (14)
امام نے دنیا پر بڑی گہرا ئی کے ساتھ نظریں دوڑائیں اس میں سے حق کے علاوہ دنیا کے زرق و برق سے زہد اختیار کیااور قلب منیب کے ساتھ اللہ سے لو لگا ئی ۔
جابر بن یزید جعفی کا کہنا ہے :مجھ سے محمد بن علی نے فرمایا ہے :
''یاجابران لَمَحْزُون وانِّ لمُشْتّغِلُ القَلْبِ۔۔۔''۔''اے جابر میں محزون و رنجیدہ ہوں اورمیرا دل مشغول ہوگیا ہے''
جابر نے جلدی سے عرض کیا :آپ کس چیز سے رنجیدہ ہیں اور آپ کا دل کس سے مشغول ہوگیا ہے ؟۔
فرمایا :''اے جابر جس کا دل دین خدا کے امور میںداخل ہوجاتا ہے تو اس کے علاوہ دوسری چیزوں
سے دور ہو جاتا ہے ۔۔۔اے جابر دنیا کیا ہے ؟اور کیا ہو سکتی ہے ؟کیا یہ اس مرکب کے علاوہ کچھ اور ہے جس پر تم سوار ہو،یا کپڑا ہے جس کو تم پہنے ہو ،یا وہ عورت ہے جو تم کو مل گئی ہے ۔۔۔''۔(15)
امام کے دنیا اور اس کے غرور سے پرہیز کے سلسلہ میں متعدد کلمات نقل ہو ئے ہیں ۔
دلچسپ حکمتیں امام محمد باقر سے دلچسپ مختصرکریمانہ ، اچھی ،مفید مجرب حکمتیںنقل ہو ئی ہیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
١۔امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے :''جو خود اپنے نفس کو مو عظہ نہ کر سکے اس کو دو سروں کا موعظہ فا ئدہ نہیں پہنچاتا ''۔
٢۔امام محمد باقر علیہ اسلام کا فرمان ہے:''اللہ کی نا فرمانی کرنے والا خدا کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا ،اس کے بعد آپ نے یہ شعر پڑھا :
''لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقاً لَأطَعْتَه
ِإنَّ المُحِبَّ لِمَنْ أَحَبَّ مُطِيعُ ''
''اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم اپنے محبوب کا کہنا مانتے کیونکہ چاہنے والا محبوب کا کہنا مانتا ہے '' ۔
٣۔امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے:
''اعرف المؤدّة فی قلب اخیک بمالہ فی قلبک ''۔
''اپنے دل میں اپنے مو من بھا ئی کی محبت دیکھ کر اس کے دل میں مو جوداپنی محبت کا اندازہ لگائو''۔
٤۔امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے:''مومن،مومن کا بھا ئی ہے ،اس کو برا بھلا نہیں کہتا اسے کسی چیز سے محروم نہیں رکھتا اس کے متعلق برا گمان و خیال نہیں کرتا ہے ''۔
٥۔امام محمد باقر علیہ السلام کا فرمان ہے:''اللہ فرماتا ہے : اے ابن آدم ،جو چیزیں میں نے تجھ پر حرام کر دی ہیں ان سے پرہیز کر اور لوگوں میں سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار بن جا ''۔
٦۔امام محمد باقر کا فرمان ہے:''انسان پر ہر مصیبت اس کے گناہ کی وجہ سے پیش آ تی ہے ''۔(16)
اپنے شیعوں کو آپ کی نصیحت
امام محمد باقر نے اپنے شیعوں کو متعدد نصائح اور بلند و بالا تعلیمات دی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے: امام نے اپنے بعض اصحاب کے ایک وفد کو شیعوں کی ایک جماعت کے پاس بھیجا کہ وہ ان کو مندرجہ ذیل پیغام سنائیں :
امام کا فرمان ہے :''ہمارے شیعوں کو ہمارا سلام کہنا ،ان کو اللہ کے عظیم تقویٰ کی وصیت کرنا ، مالدار، فقیروںتک رسائی کریں ،ان کے صحت مند افراد بیماروں کی عیادت کریں ،ان کے زندہ افراد مرنے والوں کے جنازوں میں حاضر ہوں،ان کے گھروں میں جاکر ان کی احوال پر سی ملاقات کریں کیونکہ آپس میں ملاقات کرنے سے ہمارا امر زندہ ہوتا ہے ، خداوند عالم اس شخص پر رحم کرے جس نے ہمارے امر کو زندہ کیا اور اس نے نیک عمل انجام دیا، اور ان سے کہنا :ہم اللہ سے ان کے لئے صرف نیک عمل کے خواستگار ہیں ، وہ ہر گز ہماری ولایت تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ کہ وہ متقی و پرہیز گار اور کو شش کریں ،لوگوں میںقیامت کے دن سب سے زیادہ وہی شخص حسرت و ندامت اٹھائے گا جس کو عمل کرنے کا طریقہ بتایا گیا اور پھر بھی اس نے اس کی مخالفت کی''۔(17)
آپ کی شہادت
امام محمد باقر کو ان گناہگار ہاتھوں نے زہر دغا سے شہید کیا جن کا نہ اللہ پر ایمان تھا اور نہ وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے ،اس مجرم کے سلسلہ میں کہا گیا ہے :وہ ہشام تھا ۔دوسرا قول یہ ہے :وہ ابراہیم تھا لیکن زیادہ تر احتمال یہی ہے کہ وہ ہشام ہی تھا ،چونکہ وہ خاندان عصمت و طہارت سے بغض و کینہ رکھتا تھا ، ہشام وہی ہے جس نے شہید زید بن علی کو قیام و انقلاب برپا کرنے کیلئے ابھارا،چونکہ اس نے زید بن علی پر بہت زیادہ ظلم و ستم روا رکھا اور آپ کورسوا کیا یہاں تک کہ آپ حکومت کے خلاف قیام کر نے پر مجبور ہو گئے اور اسی کے دور حکومت میں شہید کر دئے گئے ،لیکن امام محمد باقر کو قتل کرنے کی وجہ آپ کے فضل و شرف ،علم کی شہرت ہونا ،اور مسلمانوں کا آپ کی ہیبت اور عبقریات کے سلسلہ میں گفتگو کرنا تھا ۔
جب امام کو زہر دیا گیا تو وہ آپ کے تمام بدن میں سرایت کر گیا ،زہر نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اثرکیا ،جس سے آپ موت کے بہت نزدیک پہنچ گئے ،آپ اللہ کی یاد میں منہمک ہو گئے ،قرآنی آیات کی تلاوت کرنے لگے جب آپ کو موت کے آنے کا بالکل یقین ہو گیا تو آپ اللہ کے ذکر ویاد میں مشغول رہے ،آپ کی عظیم روح اللہ کی بارگاہ میں پہنچی جس کا اللہ کے ملائکہ ٔ مقربین نے بڑھ کر استقبال کیا ،آپ کی موت سے رسالت اسلامیہ کے ایک متقی و پرہیز گار صفحہ کا خاتمہ ہو گیا اور اسلامی معاشرہ علوم کے درمیان پیچ و خم کھاتا رہ گیا ۔
آپ کے بدن مبارک کو آپ کے پدر بزرگوار امام زین العابدین اور امام حسن کے جوار میں دفن کر دیا گیاآپ کے ساتھ علم ،حلم امر بالمعروف اور لوگوں کے ساتھ احسان بھی چلا گیا ۔
..............