استشراق اور مستشرقین کا تعارف
موجودہ سال کے اوایل میں جناب حجج الاسلام شیخ توحیدی اور شیخ نوری اپنے سالانہ دورہ کے سلسلہ میں جب حوزہ علمیہ قم المقدسہ ایران میں تشریف لائے تو ان کے ساتھ ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا اس وقت بندہ حقیر کو مستشرقین کے بارے میں ایک مقالہ لکھنے کی تاکید کی گئی ،بندہ نے ہاں میں جواب دیاجبکہ در حقیقت مستشرقین کے تعارف اور ان کی شناخت کیلئے ایک ضخیم کتاب درکار ہے․
بہر حال (الاٴمر فوق الاٴدب) کے عنوان کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ میں کچھ مطالب قارئیںکی نذر کر رہا ہوں․
مستشرقین کی تعریف:
کلمہ مستشرق، استشراق سے ہے استشراق باب استفعال کا مصدر ہے اس کے معنی ہےں ((مشرق کی شناخت))جو کہ انگریزی اصطلاح میں orientalism کا ترجمہ ہے اگرچہ EAST اور ORIENT دونوں مشرق کا معنی دیتے ہیں لیکن لفظ East عام طور پر ہر چیز کی مشرقی سمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے البتہ کبھی کبھی سر زمین مشرق کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوا ہے جبکہ لفظ Orient کا استعمال اکثر یورپ اور بحیرہ روم کے مشرق میں واقع سر زمین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے․(۱)یہ لفظ ۱۷۶۶ء ء کے آغاز میں فادر بولینوس کے بارے میں لاطینی دائرة المعارف (انسکلوپیڈیا) میں استعمال ہوا ہے یا بعض دانشمند حضرات کے مطابق ۱۷۷۰ءء یا ۱۷۸۰ءء میں پہلی مرتبہ برطانیہ میں اس کا استعمال ہوا ہے اس کے بعد ۱۷۹۹ءء فرانسیسی زبان میں اور ۱۸۳۸ءء فرانس کی اکیڈمک ڈکشنری اور ۱۸۱۲ءء میں آکسفورڈ ڈکشنری میں وارد ہوا ہے ․(۲)
اصطلاحی معنی:
محققین استشراق کے اصطلاحی معنی کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیںجو اس طرح ہیں:۱) علی بن ابراہیم النملہ ( جو مستشرقین کے بارے میں دقیق معلومات رکھتے ہیں) کہتے ہیں کہ میرے نزدیک مستشرقین سے مراد وہ غیر مسلمان دانشور حضرات ہیں ( جو کہ چاہیے مشرق زمین میں رہنے والے ہو یا مغرب زمین میں ) مسلمانوں کے فرہنگ اعتقادات ، اور آداب و رسوم کے بارے میں تحقیق کرے چاہے وہ مسلمان گروہ اورقوم مشرق زمیں میں رہنے والے ہو یا جنوب میں، چاہے عربی بولنے والے ہو یا غیر عربی․ (۱)
۲) دوسری تعریف:
بعض دانشور حضرات مستشرقین کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں ( استشراق یعنی غیر مسلمانوں کا مسلمانوں کے علوم پر قبضہ کرنا با قطع نظر از اینکہ خود مستشرق جغرافی وفرہنگی اور فکری لحاظ سے مغربی نہ ہو یعنی ضروری نہیں ہے کہ خود مستشرق مغربی ہو بلکہ مشرقی ہی کیوں نہ ہولیکن مسلمانوں کے علوم پر قابض ہوتے ہیں․(۲)تیسری تعریف:
بعض دانشمند حضرات استشراق کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ استشراق سے مراد مغربی دانشمندوں کی وہ علمی تلاش اور کوششوں کے مجموعہ کا نام ہے جومشرقی ممالک کی جغرافیایی، منابع اور معدنیات، تاریخ ، قومی زبان ، ادبیات و ہنر ، آداب و رسوم، فرہنگ و عادات اور ادیان و تمدن کی شناخت کیلئے بروی کار لائی جاتی ہے تا کہ مشرقی ممالک سے مادی اور معنی ثروت اور دولت سے اپنے ممالک کیلئے فائدہ حاصل کرے ․(۳)اس کے علاوہ استشراق کے بارے میں اور بھی تعریفین مفکرین اور محققین کی طرف سے نقل ہوئی ہیں لیکن یہاں پر مذکورہ تعریفوں پر اکتفا کروں گا․
مستشرقین کے اہداف اور مقاصد:
اگر مستشرقین کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین کے اہداف اور مقاصد تین امور پر مشتمل ہیں:۱۔ ہدف تبشیری اور دینی:
اس سے مراد یہ ہے کہ مستشرقین دین مسیحیت کی تبلیغ اور ترویج کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دین اسلام کو تضعیف اور اسکی تحریف کرنے میں کوشان رہتے ہیں اس کے بارے میں ایک مستشرق ( جس کا نام رودپارت ہے) کہتا ہے کہ اگر مستشرقین پر طائرانہ نظر سے دیکھا جائے تو مسیحیت کی تقویت اور اسلام کی تضعیف کیلئے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں․(۴)ایک اور مستشرق ( جس کانام سیردسون ہے) کہتا ہے کہ مغربی لوگ اسلام کے بارے میں جو اطلاعات رکھتے ہیں وہ متعصب مسیحی لوگوں کی طرف سے تحریف شدہ گذارشات پر مشتمل ہیں اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پر بی جا تہمتیں لگائی گئی ہیں اس کام میں سب سے زیادہ کلیسا والوں کا ہاتھ ہے․
بابزین، ایک اور مستشرق اس بارے میں کہتا ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں مستشرقین کی فعالیت فقط جنبہ مسیحیت پر مشتمل تھی، کیونکہ مسلمان انجیل کی تکذیب کرتے تھے اس کے مقابلے میں مستشرقین قرآن کو جھٹلاتے تھے اور کہتے تھے کہ قرآن کو انجیل سے لیا گیا ہے․
ایک مسلمان محقق جناب ابراہیم علی ابن النملة نے تبشیری مستشرقین کو چہار گروہ میں تقیسم کی ہے․
(۱) بعض تبشیری مستشرقین ابتدا ہی سے مسیحیت کی تبلیغ میں مصروف تھے اور بعد میں شرق شناسی میں داخل ہوئے تا کہ اس شرق شناسی کو اپنے مقصد اور ہدف ( تبشیری) کیلئے استعمال کرے․
(۲) دوسرا گروہ، وہ ہے کہ شرق شناسی کا آغاز بغیر انگیزہ تبشیری کیا ہے ، اور زمانہ کے گذر نے کے ساتھ ساتھ کلیسا کے تحت تاثیر میں آئے اور پھر تبشیری کی فعالیت کا آغاز کیا ہے․
(۳) تیسرا گروہ، وہ ہے کہ تبشیری کا آغاز رسمی طور پر نہیں کیا تھا لیکن کلیسا کے ساتھ ان کا رابطہ بر قرار ہوا، اور ان کے ساتھ ہر کام میں تعاون کرتے تھے اور ان کو ہر قسم کی اطلاعات فراہم کرتے تھے اور بعد میں ہدف تبشیری میں مشغول ہوئے․
(۴) چوتھا گروہ، وہ ہے کہ شرق شناسی کو ہدف تبشیری کے ساتھ آغاز کیا تھا لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ اپنی غلطی سے آگاہ ہوئے ان افراد میں سے ایک فرد نے اس اشتباہ سے بچانے کیلئے اپنا نام تبدیل کرکے ناصر الدین رکھا، اور بعد میں اس نے ایک کتاب بھی سیرہ پیامبر اکرم ﷺ پر لکھی ، ایک اور شخص( جس کا نام جرمانوس تھا) نے اپنے نام تبدیل کرکے عبدالکریم رکھا، اور وہ انڈیا میں مسیحیت کے بارے میں فعالیت کرتا تھا اور اس نے ۱۵۰ عدد کتاب اسلام کے بارے تالیف کی ہے․
۲ ۔ دوسرا ہدف، سیاسی اور استعماری:
چونکہ اکثر مسلمان مشرق زمین میں رہتے ہیں شرق شناسی استعماری اور سیاسی، صلیبی جنگ کے بعد آغاز ہوئی ہے جنگ صلیبی کے دوران مغربی لوگ مشرقی علاقوں میں داخل ہوئے اور ساتھ ساتھ سفارتخانہ کے بہانہ سے مختلف مراکز بنائے گئے اور بعد میں یہ مراکز سیاسی امور میں بھی مداخلت کرتے تھے اور ۱۶،۱۷ صدی کے درمیان مستشرقین کلیساؤں پر مکمل طور پر قابض ہوئے، یہاں تک کہ اسلام ستیزی کا کام باقاعدہ آغاز کرے اور ایک جلسہ عام میں اعلان کیا گیا کہ ((اگر اسلام ایک بڑا طاقتور بن کر اس دنیا میں اُبھر جائے تو ہمارے لئے بڑے خطر کا سامنا ہوگا اگر مسلمانوں کو متفرق اور مختلف گروپوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ خطر ٹل سکتا ہے)) اس اعلان کے بعد اسلامی اور مشرقی چھوٹی چھوٹی حکومتین، استعماری ممالک جیسے فرانسیسی، ایٹلی اور برطانیہ و․․․ کے کنٹرول میں آئیں․ اسکے بارے میں (( امانونو فرانسوی)) کہتا ہے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیئے کیونکہ ایک بڑا خطر ہمارے سامنے ہے مستشرقین میں سے بلاشر، ویلام اور مکیسون اس قسم کے اہداف کے علمبردار ہیں․تیسرا ہدف، ہدف علمی:
مستشرقین کا ایک گروہ صرف ہدف علمی رکھتے تھے وہ صرف اپنی علمی بضاعت و اطلاعات کے افزایش کیلئے اس شرق شناسی کو اپنا پیشہ قرار دیا تھا، اور ان کی اسلام سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں تھی بلکہ وہ اپنی اطلاعات کیلئے اسلام کے منابع اور فرہنگ کا مطالعہ کرتے تھے․ اور مسلمانوں کے مختلف ممالک کے علمی مراکز میں جا کر علمی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے اور قرآن پر ریسرچ کرتے تھے اس قسم کے دانشمند حضرات اپنی علمی تحقیق کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں بطور یادگار چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ان دانشمندون کے مطالعہ کا اصلی محور قرآن پاک تھا اور یہ کتابین ہمارے لئے بھی بہت مفید ہیں ان کتابون میں سے ایک مہم کتاب ((المعجم المفہرس لاٴلفاظ القرآن)) ہے یہ کتاب اصل میں ((گوستاؤ فلوگل)) نے لکھی ہے عبدالباقی الفواد نے جامعة الازہر کے عمائدین کی درخواست پر عربی میں ترجمہ کیا ہے، اس ہدف علمی کی سر کردہ شخصیات میں سے چند افراد یہ ہیں:(۱) ماریا شمل :
یہ ایک عورت ہے اس نے پیامبر کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہے اور مختلف قسم کے مقالات لکھ کر علمی جرائد میں چھب چکے ہیں․(۲) توماس: یہ برطانیہ کا باشندہ ہے اس نے بھی ایک کتاب اسلام کے بارے میں لکھی ہے․
(۳) ہوتکہ: اس شخص نے بھی بہت سے مقالات اور کتابیں لکھی ہے اسکی ایک کتاب کا نام شمس العرب ہے، اس کے علاوہ گوستاولابون، کربن، ریچارد میشل، مارگارت ایک امریکی خاتون ہے، سلستر فرانسوی و․․․․ یہ تمام مستشرقین فقط اپنی اطلاعات اور علم کی پیاس کو بجھانے کیلئے شرق شناسی کا کام کرتے تھے․
شرق شناسی کے مراحل:
محققین نے اپنی کتابوں میں شرق شناسی کیلئے دس مرحلے بیان کئے ہیں ہم یہاں پر ان تمام مراحل کو بطور خلاصہ ذکر کررہے ہیں:پہلا مرحلہ:
شرق شناسی کے پہلے مرحلہ میں شرق شناسی عام کا نام لیا جاتا ہے شرق شناسی عام سے مراد یہ ہے کہ مستشرقین اس مرحلہ میں اسلام سے کوئی سرو کار نہیں تھا بلکہ تجارتی تعلقات کی بنیاد پر مغربی دانشمند حضرات مشرقی ممالک میں داخل ہوا کرتے تھے، بعض محققین کے مطابق اس مرحلہ کا آغاز اسلام سے پہلے چھٹی صدی میلادی میں ((ہیردوس)) نامی مورخ کے ذریعے سے ہوا ہے اسی لیے ((ہیردوس)) کو مغرب میں بابائے تاریخ سے نوازا گیا ہے، اور مستشرقین اس مرحلہ میں مشرقی ممالک میں سیر و تفریح اور تجارت کے بہانے سے آتے تھے اور مورخ (( ہیردوس)) نے اس وقت عراق، شام، مصر اور جزیرة العرب میں سفر کیا اس نے اپنے سفر نامہ میں ان تمام ممالک کے مشاہدات، تجارتی اجناس و اشیاء رسم و رواج اور عوام کی شناخت کے متعلق بہت سے مطالب کو زیر تحریر لایا ہے اور یہ سفر نامہ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں پندرہویں صدی میلادی میں چھب کر منظر عام پر آئی ہے․دوسرا مرحلہ :
اس مرحلہ میں مستشرقین اسلام سے آشنا ہو جاتے ہیں چونکہ پیامبر اکرم نے دنیا کے اورتمام مذاہب اور ادیان کے پیروکاروں کو آئین مقدس اسلام کی دعوت اور اس نتیجہ میں یہود و نصاری مشرق و مغرب سے گروھی و انفرادی شکل میں اس نئے دین اور پیامبر کی شناخت کیلئے مدینہ آئے تو ان کا مقصد اسلام کے متعلق تحقیق کرنا بھی ہوتا تھا ان میں سے بعض اسلام کو قبول کرتے اور بعض واپس اپنے شہروں جاکر لوگوں اور حکمرانوں کو اس نئے دین اور پیامبر کی نوید دیتے تھے اس مرحلہ میں مستشرقین اسلام اور قرآن پر کوئی تنقیدی جملے کا اظہار نہیں کرتے تھے صرف اسلام اور پیامبر اکرم کی معمولی شناخت کی حد تک تھے تو بعض لوگ اسلام کو قبول کرتے اور بعض اسلام کو قبول نہیں کرتے تھے جو اسلام کو قبول نہیں کرتے کوئی اظہار خیال نہیں کرتے ہیں․ اور یہ مرحلہ بعثت پیامبر کے ساتھ شروع ہوا․(۱)تیسرا مرحلہ :
یہ مرحلہ آٹھویں صد میلادی میں شروع ہوا اس مرحلہ میں مستشرقین اسلام پر تنقیدی اور مغرضانہ مطالب بیان کرتے ہیں، مثلاً : یوحنا دمشقی ( جو آٹھویں صدی میلادی میں بنی امیہ کے دربار میں نوکری کر رہا تھا) پہلا عیسائی شخص ہے جس نے رسمی طور پر منظم سازش اور پالیسی کے ساتھ تنقیدی نظر سے شناخت اسلام کا کام شروع کیا اور اسلام کے خلاف درجہ ذیل عناوین کتابیں لکھی ہیں:۱) محاورة مع المسلمین یعنی مسلمانوں کے ساتھ گفتگو․
۲) ارشادات النصاری الی جدل المسلمین یعنی مسلمانوں سے مجادلہ کرنے کیلئے عیسائیوں کی رہنمائی․ (۱)
دوسرا شخص ( جس نے اسلام کے اوپر تنقیدی کتاب لکھی ہے) ثیوفانس ببزانسی ہے اس کی لکھی ہوئی کتاب کا نام زندگانی محمد (ص) ہے وہ اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ پیامبر اکرم (ص) خدا کے پیامبر نہیں تھے بلکہ آپ نے اسلام کی تعلیمات کو شام کے یہودی اور عیسائی علماء سے حاصل کیا ہے اور آپ کے پیرو کار بھی آپ کو مسیح موعود سمجھتے تھے․(۲)
چوتھا مرحلہ:
مورخین کے مطابق مشرقی ممالک اور مغربی جزیرة العرب کے لوگوں نے پہلی پانچ صدیوں میں اسلام کی دعوت پر لبیک کہا اور لوگ دین اسلام کے دائرہ میں جوق در جوق داخل ہو گئے اسکی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسلامی عقاید محکم دلایل پر استوار تھے اور زندگی بسر کرنے اور معاشرتی قوانین میں جامعیت، دین اسلام کی انسانیت اور معنویت پر خاص توجہ تھی اور پیامبر اسلام کے حقیقی پیشواؤں کے اخلاقی کردار بھی اس میں بہت موثر تھے لیکن دین جب اسپین ((اندلس)) اور فرانس کے باڈر تک پہنچا تو پوپ اور کلیسا والے اس دین سے وحشت زدہ ہوگئے جسکی حکمرانی اس دور میں پورے یورپ میں پھیلی ہوئی تھی اسلئے انہوں نے اسلام پر تنقیدی نگاہ سے تحقیق کرنا شروع کیا ، لیکن تحقیقی میدان میں پوپ کی لابی کی شدید علمی کمزوری اور شکست آشکار ہو گئی جس کے نتیجہ میں اہل کلیسا ھٹ ڈھری لٹرائی جھگڑے اور فوجی طاقت کے استعمال پر اتر ائے دو سو سالوں میں مشتمل صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تا کہ اسلامی تمدن کے دارالخلافہ اندلس کو نابود کر کے اسلامی ثقافت کی پیش قدمی کو روک سکیں․(۳)تقریباً دو سو سال ۱۰۹۵ء ء سے ۱۲۹۱ ءء تک صلیبی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا البتہ بعض مورخین کے نزدیک صلیبی جنگوں کا سلسلہ تیرہویں صدی عیسوی میں ختم نہیں ہوا بلکہ اس جنگ کا رخ افریقا کی اسلامی سر زمین کی طرف پھیر دیا گیا․(۴)
یہ جنگیں اتنی اہم تھیں کہ ان کے متعلق مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں جیسے ڈاکٹر ممدوح حسین کی تاٴلیف ((الحروب الصلیبیة فی شمال افریقیة)) اور اسی طرح کتاب ((استشراق)) جسمیں تمام صلیبی صہیونستی جنگوں کا ذکر ہے․(۵)
پانچواں مرحلہ:
جنگ صلیبی کے بعد مسیحیان متوجہ ہوئے کہ جنگ اور ترقی یافتہ اسلحہ کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں اس لیے انہوں نے قرآن کے بارے میں تحقیق (ریسرچ) کرنا شروع کیا سب سے پہلے قرآن کا ترجمہ کرنا شروع کیا اس کام کیلئے ایک روحانی پاپ ( جس کا نام پطرس ہے) کی خدمات حاصل کی روحانی پوپ پطرس فرانس میں پیدا ہوا تھا․اس کے گھر والوں نے اسکو بچپن ہی سے علم دین پڑھنے میں مشغول کر دیا جب وہ سترہ سالہ ہوگیا تو ہو کس قدیس کے ہاتھوں شعبہ روحانیت میں شامل ہو گیا پطروس نے کئی سال مسلسل اپنی خدمات کی انجام دہی اور جد و جہد کے بعد تیس ۳۰ سال کی عمر میں مشرقی فرانس میں کلونی کلیسا کا سر براہ بنا پھر اس نے اسی کلیسا میں ہی کو قرآن کا ترجمہ شروع کیا اور اسکا ترجمہ انگریزی زبان میں پہلا ترجمہ قرآن تھا ․ (۱) اس طرح مستشرقین جنگ و اسلحہ کو چھوڑ کر دوبارہ علمی میدان میں اسلام کے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے․چھٹا مرحلہ:
اس مرحلہ میں مستشرقین اسلامی علوم اورتمدن کو مغربی ممالک میں منتقل کر دیتے ہیں ․ اور یہ مرحلہ تیرہویں صدی عیسوی میں شروع ہوا، چونکہ مغرب والے صدیوں سے تاریکی اور اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے․ تیرہویں صدی میں اس قدر بیداری کی منزل تک جاپہنچے کہ اسکی ثقافتی اور علمی ترقی کو دیکھ کر مسلمان رشک کرنے لگے اور اسکی وجہ یہ تھی کہ مغرب والے مسلمان کے ممالک آکر مختلف لائبریوں سے ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ((جسمیں مسلمان کی ثقافت اور تمدن کے بارے میں بحث کی گئی تھی )) اپنے ممالک میں منتقل کر دی گئی․واسلی ولادیمر ( جو کہ ایک روسی مستشرق ہے) اس بارے میں کہتا ہے کہ ( رؤس میں پہلی مرتبہ شرق شناسی شاہ عباس کبیر کی لائبریری اردبیل ․(۲) سے روس پہنچنے کے بعد کامیابی کی منزل پر پہنچ گئی ہے اور اس کامیابی کی قیمت کوئی بھی انسان نہیں کرسکتا ہے اور اس کے خطی نسخوں کا مجموعہ اب بھی روس کی لائبریریوں میں موجود ہے․(۳)
ساتواں مرحلہ:
اس مرحلہ میں مستشرقین اسلامی کتابوں کا نشر اور اس کو چھاپ کرکے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنا شروع کردیتے ہیں اس کام کو پہلی مرتبہ اٹیلی باشندہ کا ایک جوان ( جس کا نام باتیتستا یا باتیستا ہے ) کے ذریعہ سے ہوا اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ عربی حروف تہجی کو جدا جدا کر کے ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا اسی حساب سے ایک پبلکشنر (چھاپ خانہ) کی بنیاد ڈالی ۱۵۸۶ئم کو عربی حروف کو بہترین اور خوبصورت ترین انداز میں بنایا پھر اسی پبلکشنر سے عربی کتابوں کا نشر تیزی سے شروع ہوا، اہم ترین کتابیں جو کہ اس چھاپ خانہ سے نشر ہوئی تھی ابن سینا کی کتابیں تھیں اٹیلی کے بعد پرس اور برطانیہ میں بھی اسی کام کا آغاز ہوا․اسلامی کتابوں کے نشر کرنے میں مستشرقین کے اہداف:
اسلامی کتابوں کو نشر کرنے میں مستشرقین کے چند اہداف تھے ان میں سے مہم ترین اہداف یہ ہیں․۱) دین اسلام کو کلیساؤں میں تعارف کرانا اور اس کے ذریعہ اسلام کا مقابلہ کرنے کی راہ ڈھونڈنا․
۲) مسلمانوں کی غیر معتبر کتابوں کو نشر کرنا جیسے کتاب فصل الخطاب مرحوم محدث نوری․
۳) مسلمانوں کی مفید کتابوں سے فائدہ اُٹھانا․
۴) مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور تفرقہ پیدا کرنا خصوصاً قراٴت قرآن کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف نظریوں کو اچھال کر کے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا و․․․
آٹھواں مرحلہ:
شرق شناسی آٹھویں مرحلہ میں استعماریت کی روپ اختیار کر دیتی ہے، سہولویں اور سترہویں صدی کے درمیان مغربی ممالک نے ایک کمپنی کی بنیاد پہلی مرتبہ انڈیا میں ڈالی اسی بہانے سے مغربی لوگ انڈیا میں داخل ہوگئے تھوڑے عرصہ کے بعد اس کمپنی کو مزید تقویت دی گئی․ مزید تقویت ملنے کے بعد اس کمپنی کی باگ دوڑ ھالنیڑ والوں نے سنبھال لی ۱۸۳۰ء عیسوی میں فرانس نے الجزائر پر قبضہ کر لیا اور ۷۰ سال تک اس ملک کو اپنے ناجائز قبضے میں رکھا اس کے بعد سوڈان اور انڈونیشا پر بھی قبضہ کرنا شروع کردیا اور یہ ناجائز قبضہ بیسویں صدی تک جاری رہا اسی طرح مستشرقین اسلامی ممالک پر زبردستی قابض ہوگئے اور اسلام کے خلاف کام کو تیزی کے ساتھ جاری رکھا․نواں مرحلہ:
اگر استشراق کی تاریخ پر تحقیقی نظر دوڑایا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ نویں مرحلہ سے استشراق علمی کا آغاز ہوتا ہے ، اور اس مرحلہ میں بعض مستشرقین جیسے جان اسپوزی ، رایسکہ، وینسنگ ، گستاٴو فلوگل ( مجمع المفہرس لالفاظ قرآن کا مؤلف) یوہان فوک ، جان دیون برطانوی، موریس بکاری، ہانری کربن، ایزوتسوچاپنی و․․․ بدون ہدف شخصی بلکہ اپنی علمی بضاعت کو بڑھانے کیلئے اسلام شناسی کرتے تھے، اس کے بارے میں جان اسپوزی ( جو کہ ایک امریکی مستشرق ہے) کہتا ہیں استشراق جدید ( جو کہ محض استشراق علمی ہے) استشراق قدیم ( جو کہ مغرضانہ اور اسلام ستیزی سے مربوط ہے) سے جدا ہونا چاہیئے اور میں راضی نہیں ہوں کہ مجھے ایک مستشرق کے نام سے مشہور کرے بلکہ لوگ مجھے ایک اسلام شناس کے نام سے پہچان لے․ اور یہ مرحلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا ہے․دسواں مرحلہ:
اس مرحلہ میں مستشرقین شیعہ اور انقلاب اسلامی ایران کے بارے میں تحقیق کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کے بارے میں ایک مستشرق جس ( کانام رود ینسون ہے) کہتا ہے دین مبین اسلام ہمیشہ مغرب والوں کو مغلوب کر دیتا ہے اور مغرب والوں کیلئے ایک بڑا تہدید اور خطر بن کر ابھر تا ہے ہم انسویں صدی میں اسلام کی شکست کا نظارہ کر رہے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد ہماری تمام آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور اسلام پہلے کی طرح سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم دین بن کر پورے مغربی ممالک کیلئے ایک تہدید بن کر ابھرا ہے․وسلام
جاری ہے․
منابع و مصادر:
۱) المورید: انگریزی ڈکشنری منیر البعلبکی فرہنگی ڈاکٹر آریان پور․۲) دراسات الاستشراق ۔ علی بن ابراہیم النملة․
۳) شرق و اسلام شناسی غربیان: ڈاکٹر محمد حسن زمانی․
۴) قرآن و مستشرقان : ڈاکٹر محمد حسن زمانی․
۵) الاستشراق و الدراسات الاسلامیة․
۶) الاستشراق و الخلیفة الفکریة: ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب․
۷) فرہنگ کامل خاورشناسان․
۸) الحروب الصلیبیة فی شمال افریقیة : ممدوح حسین․
۹) خاورشناسی در روسیہ و اروپا․
۱۰) المستشرقون و الاسلام: ڈاکٹر محمد قطب․
۱۱) قرآن و مستشرقان : مجلہ شمارہ ۱․
۱۲) ذاتی ڈائری از درس استاد محمدی․