سفیر خدا، نفس رسول ، حضرت علی کرم اللہ وجہ



ترتیب : امامِ اول (اہل تشیع)، خلیفہ چہارم (اہل سنت)
جانشین : حسن ابن علی
تاریخ ولادت : جمعہ، 13 رجب، 22 قبل ہجری
جائے ولادت : خانۂ کعبہ، مکہ مکرمہ
لقب : ابو تراب
کنیت : ابو الحسن
والد : ابو طالب ابن عبد المطلب علیہ السّلام
والدہ : فاطمہ بنت اسد علیہ السّلام
تاریخ وفات : 21 رمضان، 40 ہجری
جائے وفات : نجف، عراق
وجۂ وفات: شہادت
مولا علی کرم اللہ وجہہ واحد شخصیت ہیں جو اللہ کے گھر میں پیدا ہوئے اور اللہ کے گھر میں ہی شہادت پائی
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
با کعبہ ولادت با مسجد شہادت

شجرہ نسب

 حضرت علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہربن مالک بن النضر بن کنعانہ بن حزیمہ بن مد رکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ہے۔
امیر المو مین، امام المتقین ۔ علی مر تضیٰ ، شیرِ خدا خاتم النبین حضور اکرم کے چچا زاد تھے۔جو حضرت علی کے اجداد تھے وہ حضور کے اجداد تھے۔ انکے والد وہ تھے جنہیں حضور اکرم کے ماں اور باپ دو نوں کی طرف سے سگا ہو نے کا شرف حا صل تھا۔ ماں وہ تھیں جو حضور کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ محترمہ کی ڈھارس بنی ہو ئی تھیں ۔
مورخین کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پیدائش 13رجب المرجب سنِ عا م الفیل لغایت 10ء یعنی حضور کی نبوت سے 13سال پہلے اور ہجرت سے 23سال پہلے ہوئی۔اس طرح ہجرت کے وقت آپ کی عمر 23سال تھی۔جب آپ کی ولادت ہوئی تو حضور حضرت ابو طالب کے ہمراہ سفرِ تجارت پر گئے ہوئے تھے۔ان کی والدہ محترمہ نے انکا نام اسد اور حیدر اور صفدر بھی رکھا جو کہ بعد میں ہر طرح سے اسمِ بہ مسمہٰ ثابت ہوئے۔
پھر جب سرورِ کا ئنات اور حضرت ابو طالب واپس آئے، تو ہادی برحق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن آپ کے منہ میں ڈالا اور علی نام رکھا ۔حالانکہ حضرت ابو طالب نے ان کا نام زید رکھا تھا جو زیادہ مشہور نہ ہو سکا ۔کیونکہ فورا ً ہی حضور نے علی نام رکھدیا تھااور اسی نام سے وہ پکارنے لگے نیزیہ بھی حضور اکرم نے فر مایا کہ یہ نام ان کا طے ہو چکا ہے۔ چونکہ وہ تین سال کی عمر سے حضورکے زیر کفالت آگئے تھے لہذا وہی نام را ئج ہوکر مشہورِ عام کی سند پاگیا۔
حضرت علی کی کنیت کئی ہیں وہ ہیں ابو تراب ،ابو القسم اور الہاشمی جس میں ابو تراب حضور کا عطا کر دہ ہے ، القسم کے بارے میں مو رخین میں اختلاف ہے۔ ایک مورخ نےلکھا ہے کہ جب بچپن میں حضور کی حفا ظت کر تے ہو ئے حضرت علی کرم اللہ وجہ نےان بچو ں کی ہڈی پسلیاں توڑدیں ، جو حضور پر اینٹ اور پتھر بر سا رہے تھےتو یہ انکو عطا ہوا ۔
جبکہ ابن َ کثیرِ نے لکھا ہے کہ یہ ایک جنگ میں ایک کافر نے نعرہ لگا یا کہ میں قسم (شیر) ہو ں تو انہوں جواب میں فر مایا کہ میں ابو القسم ہوں ۔واللہ عالم ۔ الہاشمی کے بارے میں وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ نجیب الطر فین ہیں ۔ یعنی والداور والدہ دونوں کی طر ف سے نجیب الطر فین یعنی ہا شمی ہیں ۔ حضر ت علی کی والدہ اوران کے والد کے چچا کی صاحبزادی تھیں اور وہ پہلے فر زند تھے جن کے ماں اور باپ دونوں ہا شمی تھے۔ آپ کی والدہ کاشجرہ نسب اس طر ح ہے۔
ان القابات کے علاوہ ایک لقب بعد میں دربار ِ رسالت سے اور عطا ہوا تھا۔ جوکہ انکی بے مثال شجاعت کی بنا پر عطا ہوا وہ “ شیر ِخدا “ ہے
ان کی پرورش یوں بھی مبارک تھی کہ وہ تمام کے تمام ایامِ، دورِ شیر خوارگی چھوڑ کر حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے زیرِ سایہ رہی۔ وہ ایک لمحہ کے لیئے بھی حضور ان کو تنہا نہیں چھو ڑتے تھے ۔
جب حضور کی شادی حضرت خدیجہ الکبریٰ سے ہو ئی، تو حضور اپنے آبائی مکان سے ان کے مکان میں منتقل ہو گئے جو کہ متحمول آبادی میں تھا ۔ اور مولا علی کو اپنے ساتھ لےگئے اور یہیں سےحضرت ابوبکر (رض )کو شرفِ ہمسا ئیگی حاصل ہوا۔ پھر انہیں ایک اور بھی شرف حا صل ہے کہ کسی اور کی اولاد کو حضور نے اپنی اولاد نہیں فر مایا سوائے آلِ بتول اور حضرت علی کے ۔ اس کا ثبوت ہمیں قر آن میں آیت مباہلہ کی تفسیر میں مل جا ئے گا۔ جس میں اکثر مفسرین نے لکھا کہ حضور جب حجرے سے باہر تشریف لا ئے تو ان کے پیچھے جو نفوس ھے ان کی تر تیب یہ تھی کہ پہلے حضور اکرم پھر حضرت علی ، ان کے پیچھے حضرت بی بی فا طمہ پھر امام حسن علیہ السلام اور امام حضرت حسین علیہ السلام ۔
فشار قبر تو منزل میرے شباب کی ہے
میں مطمئن ہوںمجھے فکر کب عذاب کی ہے
رہونگا قبر میں تا روز حشر میں محفوظ
زمین کے سینے میں خوشبو ابو تراب کی ہے
(صفدر ہمدانی)

حلیہ مبارک

 آپ انتہا ئی خو بصورت تھے ۔ گو رنگ گندمی تھا چشم مبارک بڑی اور سفید مگر سرخی لیئے ہو ئے ،پیشانی کشادہ تھی اور سر پر بال ذرا پیچھ ہٹ کر شروع ہوتے تھے۔ قد چھو ٹا۔ ریش مبارک بڑی جس نے آپ کے شانوں اور سینہ مبارک کچھ حصوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ آپ کے سینہ اور دونوں کاندھوں کےدرمیان بھی بال بہت تھے ۔ چال اور گفتگو دونوں میں انکساری تھی ۔
قیام دین اسلام بنیادی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیئے قبول اسلام کی اصطلاح درست نہیں ہے کیونکہ وہ پیدا ہی دین برحق پر ہوئے تھے اور کبھی بھی نہ بتوں کی پرستش کی اور نہ ہی عہد جہالت کی فضا میں سانس لی لیکن اکثر تاریخ اسلام کی کتب میں یہ درج ہے کہ جب انہوں نے حضور (ص)کو نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ آپ لو گ یہ کیا کر رہے ہیں ۔یہ وہ وقت تھا کہ ابھی حضور کو (ص) تبلیغ کا حکم ہی نہیں ہوا تھا ۔ پہلی و حی نازل ہو چکی تھی ۔ جس کی تصدیق سب سے پہلے حضرت خدیجہ الکبریٰ نے کی اور مزید تصدیق حضرت ورقہ بن نو فل نے کی ۔
پھر جب ان دو نوں کو عبادت کرتےدیکھا تو حضرت علی نے سوال کیا کہ آپ لو گ یہ کیا کر رہے ہیں ۔ اس پرحضور(ص) کوبتانا پڑا کہ مجھے اللہ نے نبی مبعوث کیا ہے اور ہم اس کی عبادت کر رہے ہیں ۔ انہوں نےفرمایا کہ میں بھی ایمان لاتا ہوں ۔مگر حضور (ص) نے فرمایا کہ پہلے اپنے والد ِ محترم سے پو چھ لو۔ مگر ساتھ میں یہ بھی ہدایت فرمادی کہ( ابھی تبلیغ کا حکم نہیں ہے )لہذا اس کا ذکر مت کر نا ۔
اہل تشیح کی کتب میں اس واقعے کا ذکر ہے لیکن الگ انداز میں کیونکہ مسلک شیعت کی اساسی فکر کے مطابق مولا علی دین حقہ پر ظہور ہوئے تھے اور انکا نور بھی نور محمد سے خلق ہوا تھا یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پہلی خواہش تھی کہ جس کی قبولیت کو حضور (ص) نے مشروط فر مایا ورنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب سے ان کی کفالت میں آئے تھے وہ ان کی ہر خواہش پوری فر ماتے تھے ۔ اس وقت تو وہ خاموش رہے مگر دوسرے دن پھر ضد کی تو انہوں نےان کو بھی شامل ِ جما عت فر مالیا ۔ اور اس طرح وہ تیسرے فرد تھے جو کہ اہل ِایمان میں شا مل ہو ئے ۔
باقی لوگ بعد میں ایمان لائے۔ کیونکہ حضور (ص) پر مبعوث ہونے کے بعد تین دور گزرے ہیں ایک پہلی وحی جس کے راز دار یہ تین اور ورقہ بن نوفل تھے ۔ پھر دوسری وحی اس میں پہلی وحی کے درمیا ن بہت بڑا وقفہ تھا ۔ اور اس میں بھی صرف اہل ِ خاندان کو دعوت کا حکم تھا ۔ پھر بہت بعد میں دعوت ِعام کا حکم ہو ا ۔ جس کے بعد دوسرےلو گ مسلمان ہو نا شروع ہو ئے ۔
اسی طرح فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم(ص) نے بتوں کو توڑ دینے کا حکم صادر فرمایا تھا تو بت ”ھبل“ جس کا مکہ کے سب سے بڑے بتوں میں شمار ھوتا تھا، بہت بھاری اور بڑے پتھر سے بنا ھوا تھا اور کعبے کے عین اوپر نصب کیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے آپ کے کندھوں پر پاؤں رکہ کر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر بت ھبل کو وھاں سے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ دینی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں بھی یگانہ روزگار تھے۔ جو لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تندی اور سختی کی شکایت کیا کرتے تھے، آپ ان سے فرماتے کہ علی (ع) کا گلہ نہ کرو اور نہ ھی ان کو ملامت اور سرزنش کرو کیونکہ وہ خدا کا عاشق ھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ، اپنے ماتحتوں کے ساتھ مہربانی، غریب اور بیکس لوگوں کے ساتھ ھمدردی، غریبوں اور فقیروں کےساتھ کرم و سخاوت کی داستانیں زبان زد خاص و عام ھیں۔
آپ کے ھاتھ جو کچھ بھی آتا تھا اس کو خدا کی راہ میں غریبوں اور بیکس لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے اورخود بڑی تنگی میں بہت ھی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ آپ کھیتی باڑی کو بے حد پسند کرتے تھے لیکن جس زمین کو آباد کرتے اس کو غریبوں اور فقیروں کے لئے وقف کردیتے تھے۔
محسوس دل میں جب بھی ہو تھوڑی سی بے کلی
لگنے لگیں یہ جاگتی آنکھیں جلی جلی
نسخہ نجف سے آیا ہے دل کے سکون کا
ہر دم علی علی کہو ہر دم علی علی
(صفدر ہمدانی)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا آسمانی فیصلہ

 اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشعیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔

حدیث پاک میں ہے
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔
(المعجم الکبير للطبراني، 10 : 156، ح : 10305)
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ھمیشہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ھجرت فرمائی۔ اس رات بھی جبکہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور پختہ ارادہ کئے ھوئے تھے کہ رات کے آخری حصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے گھر میں داخل ھو کر آپ کو بستر مبارک پر ھی قتل کر دیں گے تو حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مبارک پر سو گئے اور آپ گھر سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ھوگئے
پھرمولائے کائنات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس لوٹا کر اپنی والدہ ماجدہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی (حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا) اور گھر کی دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر مدینہ روانہ ھوگئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان دوستی اور برادری کا معاھدہ کرتے تو حضرت علی کو اپنا بھائی کھہ کر پکارا کرتے تھے۔
حضرت علی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی تمام جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں حاضر رھے سوائے جنگ تبوک کے کیونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو مدینہ میں اپنی جگہ قائم مقام کے طور پر مقرر فرمایا تھا۔ لہذا حضرت علی نہ تو کبھی کسی جنگ میں پیچھے رھے اور نہ ھی کبھی کسی دشمن سے شکست کھائی اور نہ ھی کسی کام میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ھر گز حق سے جدا نہیں ھے، اور حق علی سے جدا نہیں ۔
یہ امر تاریخی حقائق میں سے ھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جنگ خیبر میں ایک زبردست حملہ کیا اور قلعے کے دروازے کے حلقے میں ھاتھ ڈال کر ایک جھٹکے کے ساتھ قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر دور پھینک دیا تھا۔

گھریلو زندگی

 مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ان کی اولاد اطہار کُل اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے اور ایسا ہو بھی کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔
مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ُ حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے، وہ گھر دنیا کی آرائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا ۔
محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی کرم اللہ وجہہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لے کر گھر پر آتے تھے .بازار سے جو خرید کرسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دیتے تھے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑو دیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں .
حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو دنیا کے بہترین انسا نوں میں سے ایک بہترین انسان ، شو ہر ،باپ صلہ رحمی اور حقوق العباد کا پاس کرنے والے اور بقول مخبرِ صادق سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے، امام المتقین، بے مثل بہادر، انتہائی طاقتور، اورفن حرب کے ماہرتھے۔

اولاد

 آپ کے بچوں کی تعداد 28 سے زیادہ تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت زینب علیہ السّلام بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے تھیں۔ باقی ازواج سے آپ کو جو اولاد ہوئی، ان میں حضرت حنیفہ، حضرت عباس بن علی علیہ السّلام شامل ہیں۔ علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد یہ ہیں :
۔ سیدنا حسن علیہ السّلام ۔ سیدنا حسین علیہ السّلام ۔ زینب علیہ السّلام ۔ ام کلثوم علیہ السّلام ۔ عباس علیہ السّلام ۔ عمر ابن علی ۔ جعفر ابن علی ۔ عثمان ابن علی ۔ محمد الاکبر ( محمد بن حنفیہ) ۔ عبداللہ ۔ ابوبکر ۔ رقیہ ۔ رملہ ۔ نفیسہ ۔ خدیجہ ۔ ام ہانی ۔ جمانی ۔ امامہ ۔ مونا ۔ سلمیٰ [حوالہ درکار]
نغمہ جو ملک گایئں وہ تسبیح فاطمہ
حیدر جو گنگنایئں وہ تسبیح فاطمہ
جو خود نبی سنایئں وہ تسبیح فاطمہ
جبریل لے کے آیئں وہ تسبیح فاطمہ
(صفدر ہمدانی)
امام السالکین ، امام الا ولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو اولیا ئے اللہ کے سر تاج ہیں، جو اٹھارہ سلسلہ تصوف کے منبہ اور ملجا ہیں جن سے وہ اولیا ئے کرام پیدا ہو ئے جن کی وجہ سے اسلام پھیلا اور آج تک زندہ ہے۔ اگر علی کرم اللہ وجہہ کی روحانیت کا لگایا ہوا شجر نہ ہو تا تو آج کچھ نہ ہوتا ۔وہ حضور اکرم کے ساتھ ہر غزوہ میں ساتھ رہے ہیں سوائے غزوہ تبوک کے ۔اس میں بھی شامل ہو نے کی کو شش فرما ئی حضور نے بقول ابنِ کثیر یہ فر ماکر واپس فر مایا کہ کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ تم کو مجھ سے وہی نسبت ہو ،جو حضرت ہا رون کو حضرت مو سیٰ سے تھی ۔
اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جلوت میں ہو تے تو ساتھ، اور اگر خلوت میں ہو تے تواستوانہ علی پر تشریف فرما رہتے (جسے اب استوانہ حارث کا نا م دیدیا گیا ہے۔آپ کا حجرہ مبا رک بھی حضور کی ابدی آرام گاہ کے سر ہانے تھا جو کہ چبوترہِ اصحابِ صفہ کے درمیان واقع تھا۔ ان کی پوری زندگی نبی کا پرتو تھی ۔
اہلِ سنت میں ان سے رو حانی فیض کا سلسلہ ان کے صاحبزادگان سے لیکر حضرت موسیٰ کاظم سے گذ تا ہوا حضرت حسن بصری (رض) کو یا حضرت معروف کرخی (رض) کو منتقل ہو جاتا ہے۔ حضرت حسن بصری کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے یکے بعد دیگرے تینوں یعنی حضرت علی ،حضرت حسن اور حسین سے بیعت کی اور ایک مصنف نے یہ بھی لکھا کہ حضرت حسن بصری حضرت اویس قرنی کے پو تے تھے واللہ عالم ۔میں نے یہا ں حضرت حسن بصری (رض) کا ذکر یو ں کیا کہ اولیا ئے کرام میں سب سے پہلے ان کا نام آتا ہے۔
آجکل بغیر رو حانیت کے دین نفرت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، اور بناہی رہتا۔ یہ اولیا ئے اللہ ہی تھے جن کی انسا نیت سے محبت کی وجہ سے دین پھیلا اور قائم اور دائم رہا۔حضرت علی کے ولی ہو نے پر چاروں آئمہ اسلام میں سے کسی کو بھی کلام نہیں ہے۔
علی ہی سلطان اولیاء ہے علی کی بیعت میں ہر ولی ہے
علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے
(صفدر ہمدانی)

جہاد

 مدینہ میں آکر پغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا. آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا . بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیا اور تکلیفیں پہنچائیں. پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی۔
اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنہوں نے کہ آپ کو انتہائی ناگوار حالات میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت و امداد کاوعدہ کیا تھا, آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندر رہ کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھ تعداد بہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے, ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی. جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے.
اس لڑائی میں زیادہ رسول پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے. علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا. 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا. جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے.
تقریباً ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا. اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تنہا بھیجا اور انہوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیا جس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔
غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سرغنہ عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا. آپ کو غصہ آگیا اور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا,
اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی. چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کو قتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔
آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔
غزوات کی تفصیل مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

1 * غزوہ بدر :

 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلوار سے ھلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔

2 * غزوہ احد :

7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔
ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

3 * غزوہ خندق (احزاب):

شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔

4 * غزوہ بنی قریظہ:

 ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔

5 * غزوہ بنی مصطلق:

شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔

6 * غزوہ خیبر:

 محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔

7 * جنگِ موتہ:

 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔

8 * غزوہ فتح (فتحِ مکہ):

 رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

9 * غزوہ حنین:

 شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

10* غزوہ تبوک:

 رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔
حضورۖ نے جتنے بھی غزوات میں حصہ لیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے دم قدم رہے۔ جنگ کے دوران آپ ایک وقت میں متعدد گھڑ سواروں سے لڑتے اور اس کے ساتھ ساتھ رسول پاک پر بھی نظر رکھتے اور ان کی طرف بڑھنے والے ہر دشمن کا کام تمام کردیتے۔
علی ہے صفدر علی ہے حیدر علی شجاع ہے علی ہے غازی
علی ہے جرات شجاعت علی نماز ہے علی نمازی
اسی سے پروردگار خوش ہے وہ جس کسی سے علی ہے راضی
علی کا دشمن بھی مانتا ہے علی نے ہاری نہیں ہے بازی
(صفدر ہمدانی )

اعزاز

مولائے کایئانات حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفیٰ اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں چند سیل میں منقول ہیں ۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صلب سے نبی کی ذریت

 1. حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔
( المعجم الکبير لطبراني، 3 : 44، ح : 2630 )
2 تاریخ اسلام میں ہے کہ حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی اوصاف وکمالات اور خدمات کی بنا پر رسول (ص) ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو بیان کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ ” علی (ع) مجھ سے ہیں اور میں علی (ع) سے ہوں ” کبھی یہ کہا کہ ” میں علم کاشہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے ” کبھی یہ کہا ” تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی(ع) ہے ” کبھی یہ کہاکہ ” علی (ع) کومجھ سے وہی نسبت [...]
3 کبھی یہ کہ وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا.
4 عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا. جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آ خر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

5 زکر علی عبادت ہے

اصحاب رسول اخوت و محبت کے لازوال رشتے میں بندھے ہوئے تھے، یہ عظیم انسان حضور کے براہ راست تربیت یافتہ تھے ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار کی تشکیل خود معلم اعظم حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی، حکمت اور دانائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے گھر کی باندی تھی، ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے رگ و پے میں موجزن تھا۔ مواخات مدینہ کی فضا سے اصحاب رسول کبھی باہر نہ آ سکے یہ فضا اخوت و محبت کی فضا تھی، بھائی چارے کی فضا تھی۔ محبت کی خوشبو ہر طرف ابر کرم کی طرح برس رہی تھی، صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار میں کوئی فرق نہ تھا۔ اعتماد اور احترام کے سرچشمے سب کی روحوں کو سیراب کر رہے تھے اور عملاً ثابت ہو رہا تھا کہ فکری اور نظریاتی رشتے خون کے رشتوں سے زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوتے ہیں۔
گھر میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن رہی تھیں۔ وہ فرما رھے تھے کہ “ اللہ کی عزت کی قسم اگرکسی کی ساری رات حب علی میں علی علی کرتے گزر گئی تو خدا کے حضور یہ ورد عبادت میں شمار ہو گا کیونکہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے مطابق علی کا ذکر عبادت ہے۔
6 چہرہ علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھنا بھی عبادت
اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چہرہ پرنور کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ حضرت علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔
یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت علی شیر خدا کا ذکر جمیل بھی عبادت ہے ۔
اس کی عطا یہ بات ہے اپنی کہی نہیں
عشق علی کی ناؤ کبھی ڈوبتی نہیں
حب علی نہیں ہے تو پھر زندگی ہے یوں
چہرے پہ جیسے آنکھ تو ہے روشنی نہیں ہے
(صفدر ہمدانی)
7 حضرت عمرو بن ذی مرو اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم غدیرخم کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں علی اس کے ولی ہیں۔ ’’ اے اللہ تو اس سے الفت رکھ جو علی سے الفت رکھتا ہے اور تو اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھتا ہے اور تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی اعانت کر جو علی کی اعانت کرتا ہے۔،،
المعجم الکبير للطبراني، 4 : 17، ح : 3514
گویا حضرت علی کے چہرہ انور کو دیکھتے رہنا بھی عبادت، ان کا ذکر بھی عبادت، حضور فرماتے ہیں کہ علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں ارشاد ہوا کہ جس کا ولی میں ہوں علی اس کا مولا ہے پھر ارشاد ہوا کہ جس کا میں مولا علی بھی اس کا مولا اور یہ کہ میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ، علم کا حصول اگر چاہتے ہو تو علی کے دروازے پر آ جاؤ اور دوستی اور دشمنی کا معیار بھی علی ٹھہرے۔

8 حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا تحقیق اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
(ايضاً : 132)

9 دونوں جہانوں کے سید

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب (دوست) ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 12

10 علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 356)

11 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں۔ (کنزالعمال، 11 : 619 )

12 جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
(مجمع الزوائد، 9 :

13 اس حدیث کو روایت کرنے والوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت مالک بن حویرث، ابو سعید خدری، حضرت عمار بن یاسر، حضرت براء بن عازب، عمر بن سعد، عبداللہ ابن مسعود، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔
جو شخص ولایت علی کا منکر ہے وہ نبوت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو فیض علی کا منکر ہے وہ فیض مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی منکر ہے جو نسبت علی کا منکر ہے، وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے، جو قربت علی کا باغی ہے وہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے، جو حب علی کا باغی ہے وہ حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی باغی ہے اور جو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باغی ہے وہ خدا کا باغی ہے۔

14 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔

15 بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
انت مني و انا منک
اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
(صحيح البخاري، 2 : 610)

16 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔
فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔ اس مفہوم کی دیگر روایات کئی کتب سنن نسائي،ابن ماجہ ) میں بھی منقول ہیں۔
(جامع الترمذي، 2، 213)

17 حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔
(صحيح مسلم، 1 : 60)

18 حضرت علی شیر خدا نے فرمایا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ علی! مجھے اس رب کی قسم ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا کہ سوائے مومن کے تجھ سے کوئی محبت نہیں کر سکتا اور سوائے منافق کے کوئی تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔

19 حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ می گوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا :
حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔
(المستدرک للحاکم، 3 : 125)
ریگ صحرا ہے یا نور کا اک شعلہ ہے
آج پھر لہجے میں قدرت کے کوئی بولا ہے
ہاتھ میں ہاتھ علی کا لیئے گویا ہیں حضور
جس کا میں مولا ہوں ہاں اس کا علی مولا ہے
( صفدر ہمدانی )
20 حضرت علی کرم اللہ وجہہ نبی کے قائم مقام حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔
(صحيح مسلم،صحيح البخاري، ابن ماجہ )
کتاب خدا کی ہر آیت جلی ہے
مگر زہن مشکوک میں کھلبلی ہے
یہ ہجرت کی شب کھل گئی تھے حقیقت
علی ہے محمد ، محمد علی ہے
( صفدر ہمدانی )
مولا علی کرم اللہ وجہہ از روئے قرآن مجید اور احادیث آیت نمبر 1
يا ايها الرسول بلغ ماانزل اليک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله يعصمک من الناس ان الله لا يهدی القوم الکفرين ( پارہ 6 سورۃ المائدہ آيت 67 )
اے رسول! پہنچا دیجئے جو اتارا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے اور آپ نے ایسا نہ کیا تو نہیں پہنچایا آپ نے اللہ تعالی کا پیغام اور اللہ تعالی بچائے گا آپ کو لوگوں ( کے شر سے ) یقینا اللہ تعالی ہدایت نہیں دیتا کافروں کی قوم کو
امام فخر الدین رازی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس براء بن عازب اور محمد بن علی کے بقول لکھا ہے کہ یہ آیت مبارکہ مولا علی کرم اللہ وجہ کے حق میں نازل ہوئی اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب مولائے کائنات علی کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا
من کنت مولا ه فعلی مولاه اللهم وآل من والاه وعاد من عاداه
جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے اے اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھتا ہو اور اس شخص کو دشمن رکھ جو علی کے ساتھ دشمنی رکھے
مولائے کایئانات بننے کی سب سے پہلی مبارکباد انہیں حضرت عمر فارق اعظم رضی تعالی عنہا نے دی اور فرط مسرت و محبت سے پکار اٹھے
بخ بخ لک ياابن ابی طالب اصبحت مولای ومولی کل مسلم
" مبار ک ہو مبارک ہو آپ کو اے حضرت علی ابن طالب آج سے آپ ہر مسلم کے مولا تو بنے ہی تھے ، آج سے آپ عمر فاروق کے بھی مولا بن گئے
"
اصبحت مولای ومولی کل مومن ومومنة
( اے ابن ابی طالب ) آپ میرے اور تمام مومنین اور تمام مومنات کے مولا ہوئے
آیت نمبر 2
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ( پارہ 6 سورہ مائدہ آیت 3 )
آج میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لئے تمہارا دین اور پوری کر دی ہے تم پر اپنیے نعمت اور میں نے پسند کر لیا ہے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین
جناب علامہ حافظ ابو بکر احمد بن علی خطبیب بغدادی متوفی 463ھ اپنی تاریخ میں رقمطراز ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جو شخص اٹھارہ ذوالحجہ کو روزہ رکھے گا اسے ساتھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور اٹھارہ ذوالحجہ کو یوم غدیر خم ہے جب سید عالی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مولاعلی کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا
الست ولی المومنين ؟
قالو بلی يا رسول الله صلی الله عليه وسلم

حضور نے فرمایا
من کنت مولاہ فعلی مولاہ
( تاریخ بغداد جلد نمبر 8 ص 290 مطبوعہ مصر سن اشاعت 1931ء)
صحيح مسلم شريف ميں حضرت سعد بن ابي وقاص رضي اللہ عنہ سے روايت ہے.
3 جب یہ آیت (مباھلہ) کہ ’’ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلالیتے ہیں،، نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو جمع کیا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
(الصحيح لمسلم، 2 : 27
جب آیت مباہلہ نازل ہوئی توحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا کہ

1 ۔ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ۔
بیٹوں کو لانے کا وقت آیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو پیش کردیا۔

2۔ ہم اپنی ازواج کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ۔
عورتوں کا معاملہ آیا تو حضرت فاطمہ کو پیش کردیا اور اپنے نفس کو لانے کی بات ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ علی کرم اللہ وجہہ کو لے آئے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی جان کے درجے پر رکھا۔ آیت اور حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور فرمائیں آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ

تعالوا ندع ابناء ناو ابناء کم و نساء نا و نسائکم و انفسنا و انفسکم
آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔
(آل عمران 3 : 61)

4 حضرت علی کرم اللہ وجہہ اہل بیت میں‌شامل ہیں (آیت تطہیر )

عَنْ صَفِيَه بِنْتِ شَيْبَه، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاہً وَ عَلَيْه مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ اسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی اﷲ عنهما فَاَدْخَلَه، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَه، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَة رضی اﷲ عنها فَاَدْخَلَها، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ رضی الله عنه فَاَدْخَلَه، ثُمَّ قَالَ : (انَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهرَکُمْ تَطْهيْرًا). رَوَاه مُسْلِمٌ.
’’حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
( مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل اھل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424،
و ابن ابي شيبہ في المصنف، 6 / 370، الحديث رقم : 36102،
و احمد بن حنبل في فضائل الصحابہ، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، )

5 غدیر خم کا واقعہ

 مسلم معاشرے کی سب سے بڑی مشکل، نفاق تھاجوان افراد کی مختل کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان کے اندر سے روح ایمان کو سلب کرکے انھیں اپنی طرف مائل کر لیتاتھا ۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاھری طور پر تو مسلمان تھے لیکن قانونی طور پر ان سے پیش آنامشکل تھا ۔
یہ گروہ بعثت کی ابتدا ھی سے مسلمانوں کے درمیان مو جودتھا اور بعض تو ابتدا ھی سے منا فقانہ نیت سے مسلمان ہو ئے تھے ،لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔جیسے جیسے اسلام کی قوت بڑھتی جا رھی تھی ویسے ویسے منا فقین بھی اپنے کو منظم کر تے جا رھے تھے اور اسلام کی ظاھر ی عبا زیب تن کئے ہو ئے اسلام کے نئے پودے پر کفار و مشرکین سے بھی زیادہ مھلک وار کر تے تھے ۔
پیغمبر اسلام(ص) کی حیات طیبہ کے آخر ی سالوں میں منا فقین عملی طور پر میدان میں آگئے تھے ،وہ مٹینگیں کیا کر تے تھے ،اسلام اور پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف سا زش کر تے اور ماحول خراب کیا کر تے تھے جس کی بہترین گواہ قرآن کریم کی آیات ھیں ۔ اگر ھم قرآن کر یم کی آیات کے نا زل ہو نے کی ت تیب کاجائزہ لیں تو منا فقین سے متعلق اکثرآیات پیغمبر اکر م(ص) کی حیات طیبہ کے آخری سالوں میں نازل ہوئی ھیں ۔[7]
منافقین ظا ھری طور پرتو مسلمان تھے لیکن با طنی طور پر کفر والحاد اور شرک کی طرف ما ئل تھے ان کے دل میں یہ آرزو تھی کہ دین اسلام کو ھر اعتبار سے نقصان پہنچا یا جا ئے اورکسی طرح اپنی پرانی حا لت پرپلٹ جا ئے لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جا نتے تھے کہ ھم اس ھدف کو آسانی سے نھیں حا صل کر سکتے اور کم سے کم پیغمبر اکرم(ص) کی حیات طیبہ میں تو ایسا ہو نا نا ممکن ھے ۔لہٰذا انھوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ بنایا ۔
انھو ں نے حجہ الوداع کے سال میں اپنے درمیان کئی عہد نا موں پر دستخط کئے تھے اور ان میں اسلام کے خلاف کئی دقیق اور پیچیدہ سازشیں تیارکی تھیں۔[8]
عَنْ زَيْدِ بْنِ ارْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّة الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، امَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَانِّي قَدْ دُعِيْتُ فَاجَبْتُ، اِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، احَدُهمَا اکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْهمَا، فَاِنَّهمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : انَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ انَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ اخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاہُ فَهذَا وَلِيُه، اللّٰهمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاه وَ عَادِ مَنْ عَادَاه.
رَوَاہُ الْحَاکِمُ. وَ قَالَ هذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ. (البخاری و المسلم)

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔
میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت ( قریبی رشتہ دار )۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے،
اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم رحمھما اللہ ، کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576،
والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464،
والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ غدیر
حمد وثناء اللہ کی ذات سے مخصوص ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ، اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں ۔ہم برائی اور اپنے برے کاموں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی دوسرا ہادی و راہنما نہیں ہے ۔اور جس نے بھی گمراہی کی طرف ہدایت کی وہ اس کے لئے نہیں تھی ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ،اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
ہاں اے لوگو!وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق کو لبیک کہوں اور تمھارے درمیان سے چلا جاؤں تم بھی جواب دہ ہو اور میں بھی جواب دہ ہوں ۔
اس کے بعد فرمایا کہ : میرے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے ؟کیا میں نے تم سے متعلق پنی ذمہ داری کو پوراکردیا ہے ؟یہ سن کر پورے مجمع نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے بہت کوششیں کیںاوراپنی ذمہ داری کو پوراکیا اللہ آپ کو اس کا اچھا اجر دے ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اس پوری دنیا کامعبود ایک ہے اور محمد اس کا بندہ اور رسول ہے اور جنت و جہنم وآخرت کی جاویدانی زندگی میں کوئی شک نہیں ہے ؟ سب نے کہا کہ صحیح ہے ہم گواہی دیتے ہیں ۔،،
اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” اے لوگو!میں تمھارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں ،میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد میری ان دونوں یادگاروں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو ۔
اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور بلند آواز میں سوال کیا کہ ان دو اہم چیزوں سے کیا مراد ہے؟
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ایک اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ کی قدرت میں ہے اور دوسرا تمھارے ہاتھوں میں ،اور دوسرے میری عترت اور اہلبیت ہیں،اللہ نے مجھے خبردی ہے کہ یہ ہرگز ایک دوسرے جدا نہ ہوں گے ۔
ہاں اے لوگوں! قرآن اور میری عترت پر سبقت نہ کرنا ،اور دونوں کے حکم کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا ،ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔
اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑ کر اتنا اونچا اٹھایا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی سب کو نظر آنے لگی،علی کرم اللہ وجہہ سے سب لوگوں کو متعارف کرایا ۔
اس کے بعد فرمایا: ” من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ،وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دار “
جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ،[4] اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں[5]
6 عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّۃَ وَ بَرَہَ النَّسْمَاَ اِنَّه لَعَهدُ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم اِلَيَّ اَنْ لَا يُحِبَّنِيْ اِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ اِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاه مُسْلِمٌ.
’’ حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ (علی رض) سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ (علی رض) سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
اعلان ہو رہا ہے خدا کے سفیر کا
سایہ رھے سروں پہ جناب امیر کا
چھوٹے نہ حشر تک کبھی دامان اہلبیت
پیغام ہے یہ دوستو خم غدیر کا
( صفدر ہمدانی )

7 رسول اور علی ایک ہی درخت ہے

 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام لوگ جدا جدا درختوں سے ہیں مگر میں اور علی ایک ہی درخت سے ہیں۔
(معجم الاوسط للطبرانی، 5 : 89، ح : 4162)

8 حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
علی مع القرآن والقرآن مع علي لن يتفر قاحتي ير دا علي الحوض
علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں (اس طرح جڑے رہیں گے اور) جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر مل کر میرے پاس آئیں گے۔
(ايضاً، 124)
یہ کہہ کر بات ختم کر دی علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، قرآن اللہ رب العزت کی آخری الہامی کتاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چلتا پھرتا قرآن کہا جاتا ہے اوپر ہم نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات سے علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو جدا نہیں کرتے۔ یہاں قرآن سے علی کے تعلق کی بھی وضاحت فرمائی کہ قرآن و علی اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ روز جزا بھی یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے گا اور علی اور قرآن اسی حالت میں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔
اور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے ماں باپ سے محبت کی وہ قیامت کے روز میرے ساتھ میری قربت کے درجہ میں ہو گا۔
( جامع الترمذي، 5 : 642، ح : 3733 )

9 جلال نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت گفتگو

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت غضب میں ہوتے تھے تو کسی میں یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلام کرے سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔
(2) المستدرک للحاکم، 3 : 130 )

10 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قوت فیصلہ دعائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثمر

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھے بھیج تو رہے ہیں لیکن میں نوجوان ہوں میں ان لوگوں کے درمیان فیصلے کیونکر کروں گا؟ میں جانتا ہی نہیں ہوں کہ قضا کیا ہے؟ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا پھر فرمایا اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کر اور اس کی زبان کو استقامت عطا فرما، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پیدا فرمایا مجھے دو آدمیوں کے مابین فیصلے کرتے وقت کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
(المستدرک، 3 : 135)
یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بصیرت دانائی اور قوت فیصلہ ضرب مثل بن گئی۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد عہد خلافت راشدہ تک تمام دقیق علمی، فقہی اور روحانی مسائل کے لئے لوگ آپ سے ہی رجوع کرتے تھے۔ خود خلفائے رسول سیدنا صدیق اکبر، فاروق اعظم اور سیدنا عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی رائے کو ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور آپ نے ان تینوں خلفاء کے دور میں مفتی اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اسی دعا کی تاثیر تھی کہ آپ فہم فراست علم و حکمت اور فکر و تدبر کی ان بلندیو ں پر فائز ہوئے جو انبیائے کے علاوہ کسی شخص کی استطاعت میں ممکن نہی

11 مولا علی شوہر بتول

 عن عبدالله قال فی روايه طويله و منها وجدت فی کتاب ابی بخط يدہ فی هذا الحديث قال اما ترضين ان زوجتک اقدم امتی سلما واکثرهم علما واعطمهم حلما۔
اخرجه احمد فی المسند والطبرانی فی المعجم الکبير 229/20وحسام الدين ہندی فی کنز العمال الحديث الرقم ٤٢٩٢٣،٤٧٢٤والسيوطی فی جمع الجوامع الحديث رقم ٣٧٢٤،٤٧٢٤۔

حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ علیہا السلام سے فرمایا کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔

12 عن عبدالله بن عکيم قال :قال رسول الله ان الله تعالی اوحی الی فی علی ثلاثه اشیاءليله اسری بی انه سيد المومنين و امام المتقين وقائد الغر (المحجلين ۔رواہ الطبرانی۔)
(اخرجه الطبرانی فی المعجم الصغير 88/2 )

حضرت عبداللہ بن عکیم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکریم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے شب معراج وحی کے ذریعے مجھے علی کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں ، متقین کے امام ہیں ، اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے ۔
اس حدیث کو امام طبرانی نے اپنی المعجم الصغیر میں بیان کیا ہے۔

عن ابن عباس قال : ما نزل فی احد من کتاب الله تعالی ما نزل فی علی رواه ابن عساکر فی تاريخه۔
اخرجه ابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير 363/42والسيوطی فی تاريخ الخلفاء:٢٣١


13 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی جتنی آیات حضرت علی کے حق میں نازل ہوئیں کسی اور کے حق میں نازل نہیں ہوئیں اس حدیث کو امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے ۔

14 قبول اسلام میں اول اور نماز پڑھنے میں اول

 عن ابی حمزۃ رجل من الانصار قال سمعت زيد بن ارقم يقول اول من اسلم علی ـ رواي الترمذی وقال هذا حديث حسن صحيح
ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے

15 اخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح ابواب المناقب بابا مناقب علی الحديث رقم 3735 والطبرانی فی العجم الکبير الحديث رقم 12151 والھيثمی فی مجمع الزوائد
فی روايۃ عنه اول من اسلم مع رسول الله صلی الله عليه وسلم علی رواہ احمد ـ

حضرت زید بن ارقم سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی ہیں اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے
اخرجہ احمد بن حنبل فی المسند والحاکم فی المستدرک الحدیث الرقم 4663 وابن ابی شیبہ فی المصنف الحدیث رقم 32106 والطبرانی فی المعجم الکبیر الحدیث رقم 1102

16 لوگوں میں اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ محبوب

 عن انس بن مالک قال : کان عند النبی صلی الله عليه وسلم طير فقال اللهم ائتنی باحب خلقک اليک ياکل معی هذا الطير فجاء علی فاکل معه ـ رواهالترمذی
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا اللہ اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے

اخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح ابوباب المناقب باب مناقب علی بن ابی طالب الحديث رقم 3721 و الطبرانی فی المعجم الاوسط الحديث رقم 9372 وابن حيان فی الطبقات المهدثين باصبهان
مولا کہیں کہ امام یا مشکل کشا کہیں
یا پھر نصیریوں کی طرح یا خدا کہیں
خیبر شکن علی ولی عاشق رسول
پروردگار اور بتا اور کیا کہیں
( صفدر ہمدانی )
17 حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی تھے اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے الحدیث الرقم 3874

18 حضرت حسن بن علی نے حضرت علی کی شہادت کے موقع پر خطاب فرمایا اے اہل کوفہ یا اہل عراق تحقیق تم میں ایک شخصیت تھی جو آج رات قتل کر دیئے گئے یا آج وفات پا جائیں گے۔ نہ کوئی پہلے علم میں ان سے سبقت لے سکا اور نہ بعد میں آنے والے ان کو پا سکیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کو کسی سریہ میں بھیجتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ان کے دائیں اور حضرت میکائیل علیہ السلام ان کے بائیں طرف ہوتے، پس آپ ہمیشہ فتح مند ہوکر واپس لوٹتے۔
(مصنف ابن ابي شيبہ، 12 : 60)

19 حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا بے شک جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چار آدمیوں میں میری ذات اور آپ اور حسن و حسین ہوں گے اور ہماری اولاد ہمارے پیچھے ہو گی اور ہمارے پیروکار ہمارے دائیں اور بائیں جانب ہوں گے۔
(المعجم الکبير، 3 : 119، ح : 950 )

20 محبت علی میں افراط و تفریط کرنے والے گمراہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان کم کی اور نصاریٰ نے بڑھائی اور گمراہی و ہلاکت کے حقدار ٹھہرے اسی طرح میری وجہ سے بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے۔
ایک وہ محبت کرنے والا جو مجھے بڑھائے اور ایسی چیز منسوب کرے جو مجھ میں نہیں اور دوسرا وہ بغض رکھنے والا شخص جو میری شان کو کم کرے۔
1. مسند احمد بن حنبل، 1 : 160
2. المستدرک، 3 : 123
3. مسند ابي لعلي، 1 : 407
4. مجمع الزوائد، 9 : 133
21 حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی علمی شخصیت پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:
فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيدِه لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِيمَا بَينَکُمْ وَ بَينَ السَّاعَه وَ لَا عَنْ فِيه تَهدِي مِاَئه وَ تُضِلُّ مِاَئه الاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَها وَ قَائِدَها وَ سَائِقِها“[8]
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔
یہ کلمات امام علی کرم اللہ وجہہ کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔
بعدِ رسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمات حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے زندگی بھر پیغمبر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ دیا تھا ۔وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے جسد اطہر مبارک کو کس طرح چھوڑتے , چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی رحلت کے وقت آپ کی عمر33 سال کی تھی اگر چہ آپ تمام فضائل دینی میں سے سب سے بڑھ کر تھے اور تمام اصحاب کے درمیان ممتاز تھے ۔اس کے باوجود خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ و منسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا .
مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا .
آپ نے بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے .
ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفادملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے .
جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنائ خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے-
اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے ليے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے ليے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں-
اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں حضرت علی علیہ السّلام اسے اپنے ليے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

علی جو آئے تو علم پھیلا دہر میں فکر جمیل جاگی
ملک بشر پہ ہو جو نازاں تو قسمت سلسبیل جاگی
ملا خرد کو شعر اور آگہی کی دلیل جاگی
پروں کو جریل نے سمیٹا خوشا دعائے خلیل جاگی
علی کی خوشبو نبی سے آئے نبی نے خوشبو علی سے لی ہے
علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے
(صفدر ہمدانی)
قرآن مجیداور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمات اگر کوئی تاریخ اسلام پر صرف ایک سرسری سی نگاہ ڈالے تو اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور قرآن مجید کے درمیان گہرے ربط کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ قرآن کی جمع آوری سے لیکر اسکی تفسیر وتاویل تک اور اعراب گذرای سے لیکر آج کی رائج قراٴت تک، ہر جگہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام ما ہ کامل کی مانند روشن و منور نظر آتا ہے۔
قرآن کی جمع آوری: یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ قرآن کی جمع آوری سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں ہوئی۔
ابن ابی الحدیدمعتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں یوں تحریر کیا ہے کہ
,, سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں) قرآن حفظ کیا کرتے تھے (جبکہ کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرتا تھا) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سب سے پہلے وہ شخص ہیں جس نے قرآن کی جمع آوری کی‘ ‘
ابوالعلا و الموفق، خطیب خوارزمی نے علی بن رباح سے نقل کیا ہے کہ
,, پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو قران کی تالیف کا حکم دیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی قرآن کو لکھا اور اس کی تالیف کی ( 2 ) یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قرآن کی تالیف ،اسلام میں سب سے پہلی تالیف ہے۔
خود مولائے کائنات فرماتے ہیں کہ,
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ اس کو آپ نے مجھے سکھایا اور لکھوایا اور میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور آپ نے اس کی تاویل و تفسیر و ناسخ و منسوخ مجھے بتایا “ (

علم نحو کی ایجاد اور قرآن کی اعراب گذاری:

علم نحو ایسا علم ہے جس کے بغیر قرآن کوسمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے خود عرب زبان کو بھی علم نحو کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اس علم کے ایجادکے بارے میں تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے علم نحو کی تاسیس کی اور پھر ابو الاسود دویلی کو اس کی تعلیم دی۔
ابوالاسود دویلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کسی گہری سوچ میں غرق ہیں میں نے اس کا سبب پوچھا آپ نے کہا کہ تمھارے شہر کے (غیر عرب) لوگ قرآن کو غلط پڑھتے ہیں اس لئے میں عربی زبان کے اصول کو غیر عرب کے لئے لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ میں نے کہا اگر آپ ایسا کریں تو یقینا عربی زبان ہم میں محفوظ ہو جائے گی ۔پھر کچھ دنوں بعد میں دوبارہ مولا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے میری طرف ایک صحیفہ بڑھایا جس میں تحریر تھا:
,, بسم الله الرحمٰن الرحيم الکلام کله اسم و فعل و حرف فالاسم ما انباٴ عن المسمیٰ والفعل ما انباٴ عن حرکه المسمی والحرف ماانباٴ عن معنی ليس باسم ولا فعل “
آپ نے مجھ سے کہا کہ تم اس کام کو آگے بڑھاؤ اور جان لو کہ
,, الاسماء ثلاثه ظاهر و مضمر وشی, ليس بظاهر ولا مضمر وانما يتفاضل العلماء فی معرفه ما ليس بمضمر ولا ظاهر “
اس کے بعد میں نے ذکر نہیں کیا تھا آپ نے پوچھا کہ تم نے ,,لکن“ کو کیوں نہیں ذکرکیا میں نے کہا کہ اسے میں نے نواصب میں سے نہیں سمجھا آپ نے فرمایا کہ یہ نواصب میں سے ہے اس لئے اسے بھی ان میں بڑھالو۔
اس کے بعد ایک دن جب ابوالاسود دویلی نے ایک شخص کو اس طرح قرآن پڑھتے دیکھا ,, ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ“ (رسولہ لام کو زیر کےساتھ) تو انھوں نے قرآن کے حروف پر اعراب لگائے اس طرح سے کہ زبر کی جگہ حرف کے اوپر ایک نقطہ زیر کی جگہ حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش کی جگہ حر ف کے سامنے ایک نقطہ لگایا تا کہ قرآن پڑھنے میں آسانی ہو (10 )
قرآن کی رائج قرائتیں: یوں تو پہلے قرآن کی بہت سی قرائتیں تھیں لیکن اس وقت مشہور قرائتیں صرف 7 ہیں۔ ان ساتوں میں سب سے زیادہ مشہور رائج اور دقیق ،قراٴت عاصم ہے، اس قراٴت کو تمام مسلمین نے صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت مانا ہے۔
اس صحیح ترین اور معتبر ترین قراٴت کا سلسلہ امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔ اس لئے کہ عاصم نے یہ قراٴت ابوعبد الرحمٰن سے سیکھی اور ابوعبدالرحمٰن نے اس کے لئے امیر المومنین علیہ السلام کے سامنے زانو ادب تہہ کئے۔ اس طرح قرآن کی قراٴت کے بارے میں بھی امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنا فرض نبھایا تھا۔
مذکورہ امور کی وضاحت کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی سچائی کا پتہ چلتا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ ,, علی مع القرآن والقرآن مع علی“ یعنی علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ہے۔
قرآن کے بارے میں امام حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وصیت
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:
''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَة الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِه'' (1) قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ اسْتَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُمْ''
قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔
وَاسْتَنْصِحُوہُ عَلٰی انفُسِکُمْ ،
اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دل سوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔
اس بنا پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (انَّ هذَا الْقُرآنَ يهدِيْ لِلَّتِي هيَ اقوَمُ وَ يبَشِّرُ المُؤمِنِينَ الَّذِینَ يعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ انَّ لَهم اجرًا کَبِيراً)(سوره ئ اسرائ، آيت 9)
''بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''۔
یہ بات بہت واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیں ہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔
تفسیر بالرائے واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیرکیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہاور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔
قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:
وَ لاتَتَّخِذُوْا آياتِ اللّٰه هزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَة اللّٰه عَلَيکُمْ وَ مَاانزَلَ عَلَيکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَة يعِظُکُمْ بِه وَ اتَّقُوْا اللّٰه وَ اعْلَمُوْا انَّ اللّٰه بِکُلِّ شَیءٍ عَلِيمٍ) (سوره بقره، آيت 231)
یعنی ''خبردار! آیاتالٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اسنے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یادرکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔
دوسرے بیان میں پیغمبر(ص) سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمای
''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَايه فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰه الکَذِبَ'' (3) جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں
''وَاتَّهمُوا عَلَيه آرَائَکُم'' (5) جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔
''وَاسْتَغِشُّوافِيه اَهوَائَکُمْ'' اپنی خواہشات کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔
اس بنا پر دین کا جوہر ہےکہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی ۔
حضرت علی (ع) کی علمی شخصیت پیغمبر عظیم الشان اسلام کا ارشاد گرامی ھے کہ ”میں علم کا شھر ھوں اور علی اس کا دروازہ“ ، جن افراد کو شھر علم تک پہنچنا ھے ان کو دو دفعہ علی (ع) کا محتاج ھونا ضروری ھے ایک دفعہ جاتے ھوئے اور دوسری مرتبہ واپس آتے ھوئے، امام علیہ السلام نہج البلاغہ میں اپنی علمی شخصیت کو یوں بیان کرتے ھیں:
فَاٴسْاٴلُوْنِي قَبْلَ اٴنْ تَفْقِدُوْنِي فَوَ الَّذِي نَفْسِي بِيدِہِ لَاتَسْاٴلُوْنِي عَنْ شَيٍ فِيمَا بَينَکُمْ وَ بَينَ السَّاعَةِ وَ لَا عَنْ فِئة تَهدِي مِاَئةً وَ تُضِلُّ مِاَئةً إلاَّ اٴَنْبَاتُکُمْ بِنَاعِقَها وَ قَائِدَها وَ سَائِقِها“
”مجھ سے بوچھ لو قبل اس کے کہ میں تمھارے درمیان نہ رھوں، مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ھے، ممکن نھیں ھے کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمھیں جواب نہ دے سکوں، میں آج سے قیامت تک کے واقعات کی خبر دے سکتا ھوں، ایک گروہ جو سو بندوں کو ھدایت کرتا ہ ے یا سو بندوں کو گمراہ کرتا ھے وہ بھی بتا سکتا ھوں، اُن کے ھانکنے والے ان کے رہبروں اور ان کے سربراھوں کے بارے میں مطلع کرسکتاھوں“۔
یہ کلمات امام علی علیہ السلام کے علم کی ایک جھلک ھے، اور شاھد ھے کہ کائنات میں آپ جیسا عالم نہ تھا نہ ھوگا، اور یہ آپ کی اولویت پر واضح دلیل ھے۔
علی کا لہجہ خدا کا لہجہ زبان قران کی زباں ہے
علی شجاعت میں حرف آخر محبت کا آسماں ہے
علی امامت کا ماہ کامل علی رسالت میں بھی عیاں ہے
علی سے لوح و قلم کی قسمت علی ابد تک کی کہکشاں ہے
ہر اک حکومت ہر یک خلافت علی کے ٹکڑوں پہ ہی پلی ہے
علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،علی علی ہے ،
(صفدر ہمدانی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی چار سال نو ماہ کا دور خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تین مر تبہ خلافت کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھا جس کی تفصیل ابنِ کثیر نے لکھی ہے۔ پہلی مرتبہ فو را ً حضور اکرم کے انتقال کے بعد جب حضرت عباس نے فر مایا کہ چلو جہا ں خلیفہ کا انتخا ب ہو رہا ہے، ہم بھی چلیں مگر حضرت علی نے انکا ر فر مادیا ،کہ آپ چا ہیں تو تشریف لے جا ئیں میں نہیں جا ؤنگا ۔
پھر دوسرا واقعہ یہ ہو تا ہے کہ حضرت عمر نے ایک پینل بنا دیا کہ خلیفہ ان میں سے ہو گا، جن میں سے حضرت علی کثرتِ را ئے سے منتخب ہو گئے، حضرت عبد الر حمٰن بن عوف نے ان کا ہا تھ پکڑ کر کے فر مایا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر تا ہوں، کیا آپ اللہ، رسول اور شیخین کا اتبا ع فر ما ئیں گے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگر خلیفہ بننا چا ہتے تو فر ما سکتے تھے کہ ہاں !اور بعد میں اس سے پھر جا تے جیسے کہ تا ریخِ اسلام میں لو گ معا ہدوں سے پھر تے رہے ہیں ۔مگر انہوں نے یہ فر ماکر خلافت رد فر مادی کہ نہیں ! میں شیخین کا اتبا ع نہیں کرو نگا۔
انہو ں نے یہ ہی سوال حضرت عثمان سے کیا اور انہو ں نے اقرار کر لیا، لہذا سب نے ان کے ہا تھ پر بیعت کر لی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شہا دت کے بعد سب حضرت علی کے آگے پیچھے گھو م رہے ہیں، کو ئی اور آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں ہے۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک با غ میں جا کر چھپ جا تے ہیں۔ مگر لو گ وہا ں بھی ڈھو نڈ لیتے ہیں ۔ کہ اب آپ کے سوا کو ئی بھی نہیں ہے جو دین کو بچا سکے ،تو بھی آپ فر ماتے ہیں کہ تین دن تک خلا فت خالی رکھو تین دن میں بھی جب کو ئی دعویدار نہیں بنتا ہے تو آپ مجبو راً قبول فر ما لیتے ہیں کہ دین کو بچا نا تھا ۔ اس لیئے کہ جو شخص جو کی رو ٹی کھا تا ہو ، مو ٹے جھو ٹے کپڑے پہنتا ہو، اس کے لیئے کسی قسم کی حکو مت سوا ئے مزید ذمہ داری کے کچھ بھی نہیں تھی۔
یہاں وہ حدیث بھی ہمارے سامنے ہے کہ حضور اکرم نے فر مایا کہ علی سے بغض مت رکھو ، جس نے اس سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور یہ کہ وہ تم سب میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈر نے والا ہے ً اور یہ ہی الفا ظ غزوہ خیبر کے مو قعہ پر ارشاد فر ما ئے ۔ کہ ً میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دو نگا جو کہ اس قلعہ کو فتح کریگا اور جس کو اللہ اور اس کے رسول سب سے زیادہ پسند کر تے ہیں ۔ لوگ تمام رات منتظر رہے صبح جس کو ملا وہ سب کو معلوم ہے ۔وہ مولائے کایئنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت ایک انقلابی تحریک تھی ۔ ان کے مخالفین اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر کسی بھی جرم، غداری اور اسلامی قوانین کی واضح اور اعلانیہ خلا ف ورزی کی پروا نہیں کرتے تھے اور ھر بدنامی کو اپنے صحابی اور مجتہد ھونے کے بہانے سے دھوڈالتے تھے لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسلامی قوانین پر سختی سے کار بندرھتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی خلافت کے پہلے دن کاخطاب
”خبر دار !تم لوگ جن مشکلات و مصائب میں پیغمبر اکرم کی بعثت کے موقع پر گرفتار تھے آج دوبارہ وھی مشکلات تمھیں در پیش ھیں اور انھی مشکلات نے پھر تمھیں گھیرلیا ھے ۔
تمھیں چاھئے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کرلو صاحبان علم و فضیلت کو سامنے آنا چاھئے جو پیچھے دھکیل دئیے گئے ھیں اور وہ لوگ جو ناجائز اور بےجا طور پر سامنے آگئے ھیں ان کو پیچھے ھٹا دینا چاھئے ۔
آج حق وباطل کا مقابلہ ھے ، جو شخص اہلیت و صلاحیت رکھتاھے اسے حق کی پیروی کرنی چاھئے ۔ اگر آج ھر جگہ باطل کا زور ھے تو یہ کوئی نئی چیز نھیں ھے اور اگر حق کم ھوچکا ھے تو کبھی کبھی ھوتا ھے کہ جو چیز ایک دفعہ ھاتہ سے نکل جائے وہ پھر دوبارہ واپس آجائے ۔،،(نھج البلاغہ خطبہ 15)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور خلافت میں ان کی خدمات اور اصلاحات میں عقلی ، دینی اور اجتماعی علوم و فنون کے بارے میں گیارہ ھزار مختصر لیکن پر معنی متفرقہ فقرے موجود ھیں۔

(1) آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامی علوم ومعارف

(2) کونہایت فصیح و بلیغ اور سلیس و رواں زبان میں بیا ن کیا ھے ۔

(3) آپ نے عربی زبان کی گرامر بھی تدوین کی اور اس طرح عربی زبان وادبیات کی بنیادڈالی تھی ۔ آپ اسلام میں سب سے پھلے شخص ھیں جس نے الہی اور دینی فلسفے پرغور و خوض کیا تھا۔

(4) آپ ھمیشہ آزاد استدلال اور منطقی دلائل کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پردنیا کے فلسفیوں نے بھی اس وقت تک توجہ نھیں کی تھی ، آپ نے ان کو پیش کیا اور اس بارے میں اس قدر توجہ اورانھماک مبذول فرماتے تھے

5) حتیٰ عین جنگ کے دوران(بھی آپ(ع) علمی بحث ومباحثہ میں مشغول ھوجاتے تھے ۔

6) آپ نے اسلامی ، مذھبی اور دینی دانشوروں پرمشتمل ایک بہت بڑی جماعت تربیت دی تھی ۔ان افراد کے درمیان نہایت پارسا ، زاھد اور اھل علم و معرفت افرادمثلا ً اویس قرنی ، کمیل بن زیاد ، میثم تماراور رشید ھجری وغیرہ موجود تھے جواسلامی عرفاء اورعلماء میں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پہچانے جاتے ھیں ۔

7 اس کے علاوہ ایک دوسری جماعت کی تشکیل اورتربیت کی تھی جس میں بعض لوگ علم فقہ ، علم کلام ، علم تفسیر اور علم قراٴت وغیر ہ میں اپنے زمانے کے بہتیرین علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنے زمانہ خلافت میں جو تقریباً چار سال نو مہینے جاری رھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور روش پر عمل پیرا رھے۔ آپ نے اپنی خلافت کو ایک تحریک یا انقلاب میں تبدیل کردیا اور اس کے ساتھ اصلاحات بھی شروع کیں لیکن چونکہ یہ اصلاحات بعض مفاد پرست لوگوں کے نقصان میں تھیں اس لئے بعض اصحاب پیغمبر جن میں حضرت عائشہ صدیقہ ، طلحہ، زبیر، اور امیر معاویہ تھے، خلیفہ سوم حضرت عثمان (رض) کے خون کو بہانہ بنا کر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ھوگئے اور اس طرح انہوں نے شورش شروع کردی ۔
حضرت علی نے اس سورش کو روکنے کے لئے ام المومنین حضرت عائشہ ،طلحہ اورزبیر کے ساتھ بصرہ کے نزدیک جنگ کی جو -------”جنگ جمل“کے نام سے مشہورھے۔
ایک دوسری جنگ امیر معاویہ کے ساتھ عراق اورشام کی سرحد پر لڑی جس کو ”جنگِ صفین“کہا جاتا ھے ۔ یہ جنگ ڈیڑھ سال تک جاری رھی۔
اسی طرح ایک اور جنگ نہروان کے علاقے میں خوارج کے ساتھ کی جس کو”جنگِ نہروان“کھتے ھیں۔ آپ کے زمانہ خلافت میں آپ کا زیادہ وقت داخلی شورشوں اور فتنوں کو ختم کرنے میں گزرا۔
امام شافعی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں ”میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں جس میں تین صفتیں ایسی تین صفتوں کے ساتھ جمع تھیں جو کسی اوربشر میں جمع نہیں ہوئیں، فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبرورائے اورعلم کےساتھ عملی کارگزاریاں۔
مکتوباتِ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت سید ابوالحسن علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آغوش رسالت میں پرورش پائی شمع نبوت سے براہ راست اکتاب نور کیا، قرآن مجید اور رحمت دو عالم کی مراسلہ نگاری آپ ہی سے متعلق رہی جو آپ کو دوسرے ہم عصروں سے ممتاز کرنے میں ممدو معاون ہوئی واقعہ یہ ہے کہ انبیائے کرام کے علاوہ کسی شخصیت میں تمام صلاحیتیں یکجا دکھائی دیتی ہیں تو وہ حضرت سید ابوالحسن کرم اللہ وجہ الکریم کی ذات گرامی ہے، علم و عمل، خطابت، شجاعت، سخاوت، تدبر و حلم اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال حضرت سید ابوالحسن کرم اللہ وجہ الکریم کے خطبات و مکتوبات اور اقوال عربی ادب میں بلند پایہ حیثیت کے حامل ہیں۔
مکتوبات حضرت علی قدم قدم پر علم و کمال کے نئے راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھاتے ہیں یہ ایک ایسی شخصیت کے مکتوبات ہیں جو بعد از رسول سب سے بلند تر صاحب علم و عمل ہیں، مگر بُعد میں جکڑے ذہنوں نے اسے صرف رسول اکرم کے عم زاد، داماد اور چوتھے خلیفہ کے طور پر ہی دیکھا اور رکھا حالانکہ ارشاد رسالت مآب موجود ہے ”میں علم کا شہر اور علی اس کا دروازہ ہیں“۔
حضرت عثمان فرماتے ہیں ”یوں تو خطابت میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) بھی مشہور تھے لیکن دونوں حضرات اپنے خطبے تیار کر کے لاتے تھے مگر حضرت ابوالحسن علی جو کچھ فرماتے تھے فی البدیہہ اور ارتجالاً فرماتے تھے۔ (البیان والسبین 2/591)
امام العالمین حضرت سید ابوالحسن علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قرآن و احادیث کے بعد سب سے پہلے اور آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ملفوظات نے مدون ہو کر کتابی شکل اختیار کر لی تھی۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے جملے چوٹی کے ادیبوں اور مایہ ناز خطیبوں نے اپنی تقریروں میں دہرانے شروع کر دیئے تھے۔
مفتی شیخ محمد حمید متوفی لکھتے ہیں
علی ابن ابی طالب کرم اللہ ایک نورانی عقل جو جسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے بھی مشابہ نہیں ہے“۔ حضرت سید ابوالحسن علی کرم اللہ وجہہ تلوار کے ایسے دھنی ہیں کہ ان سا دوسرا کوئی نہیں مگر جب آپ کے افکار یکجا کئے جائیں تو لسانیات، عمرانیات اور ادبیات کے ماہرین حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ یہ ادب پارے کسی ایسے شخص کے بھی ہو سکتے ہیں جس کی تلوار کی چمک اور کھنک ہی مقابل کی روح کھینچ لیا کرتی تھی۔

1 والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام:

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر اٹھاتے ہیں ،یہاں کے باشندوں کو حسنِ سلوک سے خوش رکھو ، اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہیں کھول دو،مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی سے پیش آتے ہو اور ا ن پر سختی روا رکھتے ہو۔
بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے،اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا ،اور پھر انہیں تم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے،اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گناہگار ہوں گے،دیکھو ابنِ عباس!خدا تم پر رحم کرے( رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو ، اس میں جلد بازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس ( ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں تمہیں اس حسنِ ظن کے مطابق ثابت ہونا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے، اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے۔
والسلام۔

2 ایک عامل کے نام:۔

تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی ،سنگدلی ،تحقیر آمیز برتاؤ اور تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے۔میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر نہیں آتے کہ انہیں نزدیک کیا جائے اور معاہدے کی بنا پر انہیں دور پھینکا اور دھتکارا بھی نہیں جا سکتا۔
لہذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک بھی ہو،اور کبھی سختی کر لو اور کبھی نرمی برتو اور قرب و بعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار کرو۔
والسلام۔

3 زیاد ابنِ ابیہ کے نام:۔

میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کیا ہے تو یاد رکھو! کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست و بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کر کے چھوڑے گی۔
والسلام۔

4 زیاد ابن ابیہ کے نام ایک اور مکتوب :۔

میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ ، آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ،صرف ضرورت بھر کے تحت مال روک کر باقی محتاجی کے دن کے لیے آگے بڑھاؤ،کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجزو انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا،حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو،اور یہ طمع رکھتے وہ کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لیے قرار دے گا، حالانکہ تم عشرت سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بے کسوں اور بیواؤں کو محروم رکھا ہے ،انسان اپنے ہی کیے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا ۔ والسلام۔

5 عبداللہ ابن عباس کے نام :۔

عبداللہ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں نے اس کلام سے حاصل کیا اتنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا:۔
انسان کو کبھی ایسی چیز کا پا لینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہو تی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں۔
یہ خوشی اور غم بے کار ہے،تمہاری خوشی صرف آخرت کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ہونا چاہیے۔اور اس میں کوئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے۔اور جو چیز دنیا سے پا لو اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بے قرار ہو کے افسوس کرنے نہ لگوبلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے۔

6 جب حضرت کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا:۔
اے ابنِ حنیف!
مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے ، اور بڑے بڑے پیالے تمہاری جانب بڑھائے جا رہے تھے ، مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے ہاں فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں،جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو،اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نورِ علم سے کسبِ ضیاء کرتا ہے،دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان سے دو پھٹی پرانی چادر وں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ، سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو.
خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا،اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلے میں جو( پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے،بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پرواہ نہیں کی،اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے، بھلامیں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں گا ہی کیا جبکہ نفس کی منزل قبر قرار پانے والی ہے جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی.
وہ تو ایک گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گورکن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے،اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی، میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الہٰی کے ذریعے اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے .
اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گہیوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانے چن لینے کی دعوت دے،جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو،اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو،کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں،درانحالیکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں،یا میں ایسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہاری بیماری کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو،اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کی ترس رہے ہوں،کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے .
مگر میں زمانے کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں،میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہو ں اس بندھے ہوئے چوپائے کی طرح جسے اپنے چارے ہی کی فکر رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح کہ جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے ، کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں یا بے کار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ گمراہیوں کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکنے کی جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں .
میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی کہے گا کہ جب ابن ابی طالب کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانی نے اسے حریفوں سے بھڑنے اور دلیروں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا،مگر یاد رکھو جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے ، اور تروتازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے.
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت ہے جو ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی دو شاخوں کو ایک دوسرے سے اور کلائی کو بازو سے ہوتی ہے، خدا کی قسم اگر تمام عرب ایکا کر کے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھاؤں گا اور موقع پاتے ہی ان کی گردن دبوچ لینے کے لیے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹی کھوپڑی والے بے ہنگم ڈھانچے سے زمین کو پاک کر دوں ، تاکہ کھلیان کے دانوں سے کنکر نکل جائے۔
آخر میں لکھتے ہیں ۔۔ خوشا نصیب اس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا ، سختی اور مصیبت میں صبر کیے پڑا رہا، روتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدار رکھا، اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر ان لوگوں کے ساتھ فرشِ خاک پر پڑ رہا کہ جن کی آنکھیں خوفِ حشر سے بیدار ، پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یادِ الٰہی میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرت استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں، یہی اللہ کا گروہ ہے اور بے شک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے۔
اے ابن حنیف اللہ سے ڈرو اور اپنی ہی روٹیوں پر قناعت کرو تاکہ جہنم کی آگ سے چھٹکارا پا سکو۔
والسلام۔

7 حارث ہمدانی کے نام:

قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اس سے پند و نصیحت حاصل کرو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو اور گزشتہ حق کی باتوں کی تصدیق کرو اور گذری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کرو کیونکہ ہر دور دوسرے سے ملتا جلتا ہے اور اس کا آخر بھی اپنے اول سے جا ملنے والا ہے ، اور یہ دنیا سب کی سب فنا ہونے والی اور بچھڑ جانے والی ہے .
دیکھو!
اللہ کی عظمت کے پیشِ نظر حق بات کے علاوہ اس کے نام کی قسم نہ کھاؤ،موت اور موت کے بعد کی منزل کو بہت زیادہ یاد کرو،موت کے طلب گار نہ بنو ،مگر قابلِ اطمینان شرائط کے ساتھ اور ہر اس کام سے بچو جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو اور عام مسلمانوں کے لئے اسے نا پسند کرتا ہو، ہر اس کام سے دور رہو جو چوری چھپے کیا جا سکتا ہو، مگر اعلانیہ کرنے میں شرم دامن گیر ہوتی ہو اور ہر اس فعل سے کنارہ کش رہو کہ جب اس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے برا قرار دے یا معذرت کرنے کی ضرورت پڑے .
اپنی عزت و آبرو کو چہ میگوئیوں کے تیرو ں کا نشانہ نہ بناؤ،جو سنو اسے لوگوں سے واقعہ کی حیثیت سے بیان نہ کرتے پھرو کہ جھوٹا قرار پانے کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا اور لوگوں کو ان کی ہر بات میں جھٹلانے بھی نہ لگو کہ یہ پوری پوری جہالت ہے، غصہ کو ضبط کرو اور اختیار و اقتدار ہوتے ہوئے عفودرگزر سے کام لو،اور غصہ کے وقت بردباری اختیار کرو، اور دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے معاف کر و تو انجام کی کامیابی تمہارے ہاتھ رہے گی .
اور اللہ نے جو نعمتیں تمہیں بخشی ہیں ان پر شکر بجا لاتے ہوئے ان کی بہبود ی چاہو،اور اس کی دی ہوئی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو ضائع نہ کرو، اور اس نے جو انعامات تمہیں بخشے ہیں ان کا اثر تم پر ظاہر ہونا چاہیے۔
اور یاد رکھو کہ ایمان والوں میں سب سے افضل وہ ہے جو اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال اور مال کی طرف سے خیرات کرے، کیونکہ تم آخرت کے لیے جو کچھ بھی بھیج دو گے، وہ ذخیرہ بن کر تمہارے لیے محفوظ رہے گا اور جو پیچھے چھوڑ جاؤ گے اس سے دوسرے فائدہ اٹھائیں گے،اور اس آدمی کی صحبت سے بچو جس کی رائے کمزور اور افعال برے ہوں کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے.
بڑے شہروں میں رہائش رکھو کیونکہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی مرکز ہوتے ہیں،غفلت اور بے حیائی کی جگہوں اور ان مقامات سے کہ جہاں اللہ کی اطاعت میں مدد گاروں کی کمی ہو پرہیز کرو اور صرف مطلب کی باتوں میں اپنی فکر پیمائی کو محدود رکھو،اور بازاری اڈوں میں اٹھنے بیٹھنے سے الگ رہو،کیونکہ یہ شیطان کی بیٹھکیں اور فتنوں کی آماجگاہ ہوتی ہیں،اور جو لوگ تم سے پست حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے لئے شکر کا ایک راستہ ہے ۔
جمعہ کے دن نماز میں حاضر ہوئے بغیر سفر نہ کرنا مگر یہ کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے جانا ہو یا کوئی معذوری درپیش ہو،اور اپنے تمام کاموں میں اللہ کی اطاعت کرو،کیونکہ اللہ کی اطاعت دوسری چیزوں پر مقدم ہے،اپنے نفس کو بہانے کر کر کے عبادت کی راہ پر لاؤاور اس کے ساتھ نرم رویہ رکھو،دباؤ سے کام نہ لو ، جب وہ دوسری فکروں سے فارغ البال اور چونچال ہو اس وقت اس سے عبادت کا کام لو، مگر جو واجب عبادتیں ہیں ان کی بات دوسری ہے،انہیں تو بہر حال ادا کرنا ہے اور وقت پر بجا لانا ہے.
اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ موت تم پر آ پڑے اس حال میں کہ تم اپنے پرودگار سے بھاگے ہوئے دنیا طلبی میں لگے ہو،اور فاسقوں کی صحبت سے بچے رہناکیونکہ برائی برائی کی طرف بڑھا کرتی ہے،اور اللہ کی عظمت و توقیر کا خیال رکھواور اس کے دوستوں سے دوستی کرو اور غصہ سے ڈرو کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے۔
والسلام۔

علی علم ہے قلم ہے علی قسم شاہ لافتی ہے
علی ہی ہے مظہر العجائب علی کے سر تاج حل اتٰی ہے
علی کے دم سے سخن جواں ہے علی محمد کا واسطہ ہے
علی صیحفہ علی وظیفہ علی کی مدحت میں قل کفا ہے
(صفدر ہمدانی)
سفیرخدا ، نفس رسول مولائے کایئانات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو 19 رمضان 40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز فجر میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔
جب آپ کے قاتل ابن ملجم کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔
اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔
دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہےآخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت مولائے متقیان،امیر المومنین،یعسوب الدین،حیدر کرار،غیر فرار،باب العلم، معدن الحلم،علی مرتضیٰ،شیر خدا علی ابن ابی طالب کی شہادت ہوئی۔ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے ۔
اتری نظر میں شہر نجف کی ہر ایک گلی
یہ زندگانی موت کے قالب میں جب ڈھلی
پوچھا کسی نے قبر میں مجھ سے امام کون
خاک شفا پکار اٹھی یا علی علی
(صفدر ہمدانی)
امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ارشادات (از کتاب نہج البلاغہ)

اللہ وحدہ لاشریک لہ سے محبت

ارشاد الٰہی ہے : ”کچھ لوگ اللہ کے ساتھ (ذات وصفات اور حقوق میں) اوروں کو شریک بتاتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے ہونی چاہیے۔ اور ایمان والے تو اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں“۔ (بقرہ ع20 پ2 )
حضرت امیرالمومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے تھے .

1 میں خدائے پاک کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمت کی تکمیل، اس کی عزت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اوراسکی نافرمانی سے بچنے کیلئے اس کی مدد کا طالب ہوں اس کی کفالت کا محتاج ہوں جسے وہ ہدایت دے وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس کا وہ دشمن ہوجائے وہ نجات نہیں پاسکتا جس کا وہ ضامن ہوجائے وہ پریشان نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہم ہمیشہ اسی سے تمسک کرتے اور مدد مانگتے ہیں جب تک وہ ہمیں زندہ رکھے، آنے والے خطرات سے وہ بچائے گا کیونکہ یہی ایمان کی محکم بنیاد، پہلا عمل خیر، رضائے الٰہی کا ذریعہ اور شیطان سے دوری کا سبب ہے۔ (نہج البلاغہ، ص:181 خطبہ صفین)

2 امیرالمومنین یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے:
”تمام حمد اس خدا کی جس نے مجھے مردہ رکھا ہے نہ بیمار، نہ میری رگوں میں جراثیم ہیں نہ برے اعمال کا نتیجہ بھگت رہا ہوں میں اس کا بے اختیار بندہ اور اپنے نفس پر ظلم و جور کا خوگر ہوں۔ تیری حجت مجھ پر تمام ہوچکی، میرے لیے اب عذر کی گنجائش نہیں۔ خدا وندا مجھے کوئی طاقت نہیں کہ کوئی شے حاصل کروں، ہاں تو جو عطا کرے کسی چیز سے بچنے کی طاقت نہیں، ہاں جس سے تو بچاوے خداوندا تجھ سے پناہ چاہتا ہوں۔(نہج البلاغہ)

3 جوتیرا نافرمان ہو وہ تیری سلطنت کو کم نہیں کرسکتا، جو تیرا فرمانبردار ہو وہ تیری سلطنت کو بڑھا نہیں سکتا۔ ہرراز تیرے لیے آشکار ہے اور ہر عیب تیرے سامنے ہے۔ تو قدیم ازلی ہے تیرا کوئی شریک نہیں تیری کوئی حد نہیں اور توآخری منزل ہے۔ (نہج البلاغہ ،ص:384

4 خدا نعمتوں، بخششوں اور روزیوں کو تقسیم کرکے احسان کرنے والا ہے، مخلوق اس کی عیال ہے، اس نے سب کے رزق کی ذمہ داری لی ہے نہ اس کا بے انداز ذخیرہ ختم ہوتا ہے نہ اس کے اکرام و انعام کے خزانوں کو دنیا کی مانگیں ختم کرسکتی ہیں۔ (نہج البلاغہ،ص:340)

5 اپنے لخت جگر محمد بن حنفیہ کو فنون حرب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا : ”یقین رکھو کہ مدد فتح خدا کی طرف سے ہوتی ہے“۔ (نہج البلاغہ ،ص:210)

6 خدا کے بندو! اسی سے فتح و کامیابی اور حاجت روائی چاہو، اسی کی طرف دست سوال بڑھاؤ اسی سے بخشش کی بھیک مانگو۔ تمہارے اوراس کے درمیان کوئی پردہ نہیں میرا ایمان ہے وہی اوّل وآخر ہے، میں اسی سے مدد چاہتا ہوں، اسی پر توکل کرتاہوں، وہی مجھے کافی اور مددگار ہے، وہی قادر وتوانا ہے۔ (نہج البلاغہ)

7 حضرت علی کرم اللہ وجہہ توحید کی شہادت اور رب کی صفات یوں بیان فرماتے ہیں: ”اللہ کے سوا کوئی خالق رازق، معبود، نفع و نقصان دینے والا، کم و بیش کرنے والا، دینے اور روکنے والا، مصائب ٹالنے والا، بھلا پہنچانے والا، کام آنے والا، شفا دینے والا، آگے کرنے والا اور پیچھے کرنے والا کوئی نہیں۔ مخلوق کا پیدا کرنا، اسے سنبھالنا اسی کا خاصہ ہے۔ اس کے ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، تمام جہانوں کا پالنے والا وہ رب بہت بابرکت ہے۔ (عماد الاسلام ،ج:1، ص:181)

8 خاتم المرسلین علیہ الصلوٰہ والسلام سے محبت ارشاد الٰہی ہے بے شک اللہ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا کہ ایک عظیم پیغمبر ان کی قوم سے ان پرمقرر فرمادیا جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو (ہرقسم کے عیوب سے) پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و سنت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی جہالت میں تھے۔ (پ4ع8)

9 یہ کتاب اللہ (قرآن تمہارے درمیان خاموش نہیں) بولنے والا ہے اس کی زبان نہیں تھکتی اس کے ستون نہیں گرتے اوراس کے مددگار کبھی شکست نہیں کھاتے۔ (نہج البلاغہ ص:433)

10 میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور حضرت محمد … اس کے بندے اور برگزیدہ رسول ہیں نہ ان کے فضل و کمال کی کوئی برابری کرسکتا ہے اور نہ ان کی رحلت کے بعد تلافی ممکن ہے تاریک گمراہیوں، بے حد جہالتوں اور سخت مزاجی کے بعد آنحضرت … کے نور ہدایت سے شہر کے شہر جگمگااٹھے۔ (نہج البلاغہ ص:455)

11 آپ نے اپنے فرمانبردار صحابہ کرام رضي اللہ عنہ کو ساتھ لے کر اپنے مخالفوں سے جنگ کی آپ لوگوں کو کھینچ کرنجات کی طرف لارہے تھے قبل اس کے کہ ان پر موت آپڑے ان کو ہدایت کی طرف بڑھا رہے تھے یہاں تک کہ تھکے ماندوں کو بھی نجات کی سرحد پر پہنچادیتے تھے سوائے اس منکر کافر کے جس میں کوئی نیکی نہ ہو آپ … نے ان کو نجات کی منزل دکھا دی اوراس مرتبہ تک پہنچادیا کہ ان کی چکی گھومنے لگی اورنیزوں کی کجی دور ہوگئی (کہ انھوں نے فتوحات کرتے کرتے قیصر و کسریٰ کو بھی دارالاسلام بنادیا تھا) (نہج البلاغہ ص:375)

12 خدا نے آپ … کے ذریعے پرانے کینے دبا دئیے آتش انتقام بجھادی بھائیوں کو آپس میں ملادیااور مشرکین کے ہم سروں کو منتشر کردیا، حق کی پستی کو عزت بخشی اور کفر کی عزت کو ذلت سے بدل دیا ان (جماعت رسول) کا کلام، امر خدا کا پیغام اور خاموشی بولتی زبان تھی غور فرمائیے حضرت علی حضور … کی بار بار تعریف تلامذہ نبوت کی کامیابی اور ان کے ہدایت یافتہ ناجی ہونے کی شکل میں کررہے ہیں دھوپ دن کی نشانی اور آفتاب کے چمکنے کی دلیل ہے چند صحابہ کرام کے سوا سب سے بغض آفتاب نبوت سے دشمنی ہے۔

13 کلمہ طیبہ ہی کلمہ اسلام ہے ہم سب گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک اور یکتا ہے اوراسکا کوئی شریک نہیں اور یہ بھی کہ حضرت محمد … اس کے بندے اور پیغمبر ہیں یہ دو شہادتیں ایمان کی بات کو اٹھاتی اور عمل کو بلند کرتی ہیں جس ترازو میں یہ رکھی جائیں وہ ہلکا نہیں ہوتا جس سے اٹھالی جائیں اسکا وزن نہیں ہوتا (نہج البلاغہ صفحہ نمبر400)

14کتاب وسنت کی اتباع اوراہمیت خداوند عالم نے ایسی ہادی کتاب نازل فرمائی جس میں ہر برائی اوراچھائی کو واضح کیاگیا پس تم بھلائی کی راہ اختیار کرو ہدایت پاؤگے برائی سے منھ پھیرلوتاکہ سیدھی راہ پر چل سکو (نہج البلاغہ ص:144)

15 اگر تم ثابت قدم رہے تو تمہارا حق ہے کہ تمہارے تصفیہ کے لئے ہم کتاب خدا اور سیرت رسول پر عمل پیرا ہوں ان کے حق کو قائم اور طریقے کو بلند رکھیں (نہج البلاغہ 509)

16 تمہارے لئے رسول … کی تابعداری کافی ہے دنیا کے نقص و عیب اوراس کی رسوائیوں، برائیوں سے بچنے کے لیے آپ کی ذات تمہاری رہنما ہے پس تم اپنے طیب و طاہر نبی … کے نقش قدم پر چلو کیونکہ آپ نے دنیا کا بقدر ضرورت ذائقہ چکھا کبھی اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا آپ دنیا سے بھوکے نکلے اور بسلامت آخرت میں پہنچ گئے۔ (مختصراً نہج البلاغہ صفحہ 487)

17 بدعت کی مذمت کوئی بدعت عمل میں نہیں آتی مگر سنت چھوٹ جاتی ہے۔ لہٰذا بدعت سے بچو اور روشن طریقہ سنت پر جمے رہو سب سے افضل وہ کام ہیں، جو شریعت سے ثابت ہیں اور سب سے برے وہ کام ہیں جو دین میں نئی ایجاد اور بدعت ہوں۔ (نہج البلاغہ صفحہ 229)

18 پس تم فتنوں کی راہ دکھانے والے اور بدعتوں کے نشان نہ بنو۔ جماعت مومنین (تلامذہ نبوت) کی گرہ اصول اوراطاعت کے پابند رہو۔ (ایضاً)

19 اب قرآن و سنت کی آواز سے بہرہ ہی قاصر رہے گا۔اوراندھا ہی محروم رہے گا۔ جسے اللہ کی آزمائشوں سے فائدہ نہ ہو وہ کسی اور کے وعظ سے فائدہ نہیں پاسکتا کیونکہ آدمی دو قسم کے ہیں ایک شریعت و سنت کے پابند اور دوسرے بدعتی جن کے پاس نہ سنت کی سند ہے نہ (آسمانی) دلیل اور برہان کی روشنی ہے۔ (نہج البلاغہ:524)

20 اپنی جماعت سے خارج ہونے والے بدبخت ابن ملجم کے حملہ کے بعد وصیت فرمائی ”کہ سارے عالم میں کسی کو خدا کا شریک نہ کرو اور حضرت محمد … کے طریقہ کو ضائع نہ کرو، پس ان دونوں ستونوں - توحید و سنت کو ہمیشہ قائم رکھو ان دونوں چراغوں کو جلائے رکھو، جب تک متحد رہوگے۔ تم میں برائی نہ آئیگی کل تک تمہارا ساتھی تھا آج تمہارے لئے عبرت بنا ہوں اور کل میں تم سے جدا ہوجاؤں گا۔ خدا وند عالم تمہیں اور مجھے بخش دے (نہج البلاغہ:455)

21 حضور … کو غسل دیتے وقت فرمارہے تھے اگریہ بات نہ ہوتی کہ آپ نے صبر کا حکم دیا اور رونے پیٹنے سے منع فرمایا ہے تو ہم یقینا اپنے سرکا پانی آپ کی وفات کی مصیبت پر رورو کر خشک کردیتے اور اپنا کوئی علاج نہ کراتے۔ (نہج البلاغہ، جلاء العیون صفحہ46)

22 تمام نیک مسلمانوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت ارشاد الٰہی ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں آپ … کے ساتھی کافروں پر سخت باہم مہربان ہیں تم ان کو رکوع و سجود میں دیکھتے ہو وہ خدا کا فضل اوراس کی رضا چاہتے ہیں (وہ حضور … کو پسند ہیں) جیسے لہلہاتی تیار فصل کسان کو پسند آتی ہے صحابہ کرام رضي اللہ عنہم (کی ترقی اور کثرت) سے کافر جلتے ہیں اللہ نے ان ایمان و اعمال صالحہ والوں سے بخشش اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ (سورہ الفتح آخری آیت پارہ24)

23 آگے سورہ حجرات رکوع نمبرایک میں ہے ”اگر ایمان والوں کے دو گروہ لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو۔ مومن تو بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم ہو“ حضرت امیرالمومنین ان آیات کا مصداق تھے ہر مسلمان سے صلح و محبت کرتے تھے۔

24 صفین میں حضرت حسنین رضي اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ ان دونوں کو جنگ سے روک دو۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رسول اللہ … کی نسل ختم نہ ہوجائے۔ (نہج البلاغہ صفحہ 583)

25 حضرت عثمان رضي اللہ عنہ سے پہلے ایک خلیفہ (حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے متعلق فرمایا خداوندا انہیں کارگزاریوں کی جزا مرحمت فرما اس نے کجی کو سیدھا کیا، مرض کا علاج کیا، فتنہ فساد کو پیچھے چھوڑ دیا، سنت کو قائم کیا پاک دامن اور کم عیب دنیا سے رخصت ہوگیا دنیا میں اچھائیوں کو پالیا اور شر سے آگے نکل گیا، خدا کی اطاعت کا حق ادا کیا اور کما حقہ خدا سے ڈرتا رہا (نہج البلاغہ صفحہ 649 خطبہ 334 )

26 حضور … کے بعد مسلمانوں کے حاکم (ابوبکر رضي اللہ عنہ وعمر رضي اللہ عنہ ) ایسے بنے کہ خود بھی شریعت پر ثابت قدم رہے اور لوگوں کو بھی شریعت پر ثابت قدم رکھا یہاں اسلام نے اپنا سینہ زمین پر ٹیک دیا (یعنی وہ خوب مستحکم اور مضبوط ہوگیا) (نہج البلاغہ)

27 اتحاد المسلمین: جنگ جمل میں اعلان صلح کرتے ہوئے فرمایا جاہلیت اور اس کے اعمال کی بدبختی کے ذکر کے بعد فرمایا اسلام اور مسلمانوں کی نیک بختی باہمی محبت اور ایک جماعت ہونے میں ہے اور بیشک اللہ نے اپنے نبی کے بعد مسلمانوں کو ابوبکرصدیق رضي اللہ عنہ پھر عمر فاروق رضي اللہ عنہ اور پھر عثمان رضي اللہ عنہ کی خلافتوں پر متفق رکھا پھر یہ (شہادت عثمان رضي اللہ عنہ کا) حادثہ ان لوگوں نے برپا کیا جو دنیا کے طالب ہیں اور اس فضیلت پر حسد کرتے ہیں جس کا اللہ نے مسلمانوں پر احسان فرمایا ہے یہ اسلام کے اعمال اور مسلمانوں کو پس پشت پھینکنا چاہتے ہیں اوراللہ اپنا کام پورا کرنے والا ہے پھر فرمایا کہ میں صبح (مدینہ کو) کوچ کررہا ہوں اور تم بھی میرے ساتھ لوٹو وہ لوگ ہرگز میرے ساتھ نہ چلیں جنھوں نے کچھ بھی حضرت عثمان رضي اللہ عنہ کے قتل میں معاونت کی یہ گھٹیا لوگ ہیں اپنے آپ پر پھٹکار کریں۔ (تاریخ طبری ابن خلدون وغیرہ)
رستے الگ الگ سہی پر در تو ایک ہے
جیسے تمام خلق میں حیدر تو ایک ہے
حسن علی میں حسن محمد یوں جلوہ گر ہے
دو آیئنے ہیں کہنے کو منظر تو ایک ہے
(صفدر ہمدانی)

28 آپ اپنے فوجیوں سے حضرت طلحہ رضي اللہ عنہ وزبیر رضي اللہ عنہ کی شہادت پر بہت دکھی تھے ۔ یہ آیت پڑھتے تھے ”ہم ان صحابہ رضي اللہ عنہ کو باہمی، رنجشوں سے پاک کرکے جنت میں آ منے سامنے بھائیوں کی طرح باعزت بٹھائیں گے“۔ (پارہ:14 ع:4) اور حضرت طلحہ رضي اللہ عنہ کا شل ہاتھ چوم کر روتے اور فرماتے اس ہاتھ نے احد میں رسول اللہ … کو شہید ہونے سے بچایا تھا۔ (تاریخ طبری ابن عساکر)

29 شان صحابہ رضي اللہ عنہ میں نے محمد … کے صحابہ کو دیکھا میں تم سے کسی کو ان جیسا نہیں پاتا وہ صبح کو جہاد کی دھول میں اٹے ہوتے راتیں سجدوں اور قیام کی حالت میں گزارتے وہ اپنی آخرت یاد کرتے تو معلوم ہوتا کہ انگاروں پر کھڑے ہیں۔ (نہج البلاغہ جلد1،صفحہ 71)

30 وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو فوراً قبول کیا قرآن پڑھا تو اسے خوب اپنایا جب انہیں قتال کی دعوت دی گئی تو تلواریں سونت کر ایسے میدان میں آگئے جیسے شیردار اونٹنی دودھ پلانے آتی ہے اور وہ جتھہ جتھہ ہوکر زمین میں پھیل گئے اور جنگ کے لئے قطار درقطار ہوگئے اورکچھ شہید ہوئے اورکچھ غازی بن کر واپس آئے۔ (نہج البلاغہ)

31 میں بھی مہاجرین کا ایک فرد ہوں جہاں وہ گئے میں بھی گیا جہاں سے وہ پلٹے میں بھی پلٹا (یعنی پہلے تین خلفاء کی بیعت وحمایت پرہم سب مہاجرین متفق رہے) اور اللہ نے ان کو گمراہی پر جمع نہیں کیا تھا۔ (نہج البلاغہ)

32 لوگو! سواد اعظم (مسلمانوں کی بڑی اکثریت) کا ضرور اتباع کرو کیونکہ اللہ کا دست نصرت جماعت پر ہے تنہا پسندی اور علیحدگی سے بچو کیونکہ جماعت سے الگ رہنے والا الگ بکری کی طرح شیطان بھیڑیے کا شکار بنے گا۔ (نہج البلاغہ صفحہ 195)

33 خلافت: بیشک میری بیعت بھی اسی قوم مہاجرین و انصار نے کی ہے انہی شرائط پر جن پرانھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضي اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضي اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضي اللہ عنہ کی بیعت خلافت کی تھی اب موجود کو اختیار نہیں کہ وہ کسی اورکو خلیفہ چنے۔ نہ غیر کو بیعت رد کرنے کا حق ہے۔ یہ خلیفہ چننے والی مجلس شوریٰ تو مہاجرین وانصار کی ہے وہ اگر کسی پر اتفاق کرکے امام نامزد کردیں تو وہی اللہ کا پسندیدہ (بنایا ہوا) امام ہوتا ہے۔ (نہج البلاغہ جلد3 صفحہ 8 وتاریخ ندوی جلد1 صفحہ 263)

34 جب آپ کے ساتھیوں نے شامیوں کو برا کہا تو فرمایا کہ میں پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے والے بنو۔ لیکن تم ان کے اعمال و اوصاف کا تذکرہ کرو تو اچھی بات ہے براکہنے کی بجائے یہ دعا مانگو ”اے اللہ! ہمارے اوران کے خونوں کی حفاظت اور ہمیں باہم صلح عطا فرما اوران کو ہدایت دے“ (خطبہ صفحہ204)

35 دوفرقے میرے بارے میں (غلط عقائد واعمال کی وجہ سے) برباد اور جہنمی ہوں گے ۔

(الف) محبت میں حد سے بڑھنے والا (کہ ناحق مجھ میں خدا اور رسول کی صفات مانے گا)

(ب) دشمنی میں حد سے بڑھنے والا اور مجھ پر جھوٹ وافتراء باندھنے والا (کہ قرآن وسنت کے مقابل نیا مذہب بنالے گا) میرے متعلق بہترین عقیدہ وعمل والے وہ اکثریتی مسلمان ہیں جودرمیانی راہ چلتے ہیں (مجھے برگزیدہ صحابی خلیفہ شاگرد رسول … مانتے ہیں تم ان کی راہ پر چلو) (نہج البلاغہ)
آج افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان خود تو گروہوں اور فرقوں میں بٹے ہی ہوئے ہیں ہر ایک فرقہ دوسری کو غلط اور خود کو درست کہتا ہے اور بعض تو دوسرے کو کافر کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔لیکن سب سے بڑا ظلم ہم نے یہ کیا کہ مولا علی جیسی عظیم الشان شخصیات کو بھی کہ جو آفاقی شخصیات ہے مسالک کی بھینٹ چڑھا دیا۔ علی تو وہ ہیں کہ جن سے غیر مسلم اقوام نے علم لیا، شجاعت لی اور درس اخوت لیا۔ لیکن اسے بدقسمتی اور بد بختی کے علاوہ اور کیا کہیں کہ ہم مسلمان خاص طور پر حصول علم کے سلسلے میں در علی سے فیضیاب نہیں ہو سکے ۔
بات دشمن بھی کہے سچ تو اسے رد نہ کرو
دین پھیلانے میں پابندئی سرحد نہ کرو
وسعت قلب و نظر شرط ہے مومن کے لیئے
دین کو مسجد و منبر میں مقید نہ کرو
(صفدر ہمدانی)
( اس مضمون کی تیاری کے لیئے جناب شمس جیلانی کی تحریروں کے علاوہ مقامی لائیبریری اور انٹرنیٹ کے مواد سے بھی مدد لی گئی ہے. اور تمام رباعیات جناب صفدر ہمدانی کی کتاب “معجزہ قلم “ سے لی گیئں.