حضرت علی(ع)علوم رسول(ص) کے وارث ہیں


 تفسیر رازی اور کنزالعمال میں ہے کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا:نبی پاک صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مجھے علم کے ہزار دروازے عطاکیے جن میں سے ہر دروازے سے میرے لئے ایک ہزار دروازے اور کھلے ہیں۔ ۱
حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت علی(ع) خطبہ دے رہے ہیں اور فرمارہے ہیں:
مجھ سے سوال کرو۔ الله کی قسم تم قیامت تک ہونے والی جس چیز کے بارے میں مجھ سے سوال کرو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال کرو۔ الله کی قسم قرآن کی ہر ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ رات کو اتری یادن کو اتری۔ نیز میدان میں اتری یا پہاڑپر۔ ۲
یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی شان میں فرمایا: جیسا کہ حضرت جابر بن عبدالله انصاری رضی الله تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں :
انا مدينة العلم وعلی بابها فمن اراد المدينة فليات الباب
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔ پس جو شخص شہر میں داخل ہونا چاہے وہ دروازے پر آئے۔
امام حاکم اس حدیث کے تحت کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح السند ہے۔
ایک اور روایت میں ہے : من اراد العلم فليات الباب۔ ۳
جو کوئی علم حاصل کرنا چاہے وہ اس دروازے پر آئے۔

ایک اور روایت میں یوں کہا گیا ہے: میں نے حدیبیہ کے واقعے میں آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر یہ فرماتے ہوئے سنا:
هذا امير البررة وقاتل الفجرة منصور من نصره مخذول من خذله (يمدبها صوتہ ) انا مدينةالعلم وعلی بابها فمن اراد المدينة فليات الباب
یہ نیک لوگوں کا امیر اور بدکار لوگوں کا قاتل ہے۔ اس کی مدد کرنے والا کامیاب ہے اور اس کی مدد نہ کرنے ولا بے یارومددگار ہے۔ (اپنی آواز کو کھینچتے ہوئے فرمایا :) میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے۔ پس جو علم کا طالب ہو وہ اس دروازے پر آئے۔ ۴
حضرت ابن عباسنے اسے یوں نقل کیا ہے : انا مدينةالعلم وعلی بابها فمن اراد المدينة فلياتها من بابها۔
خود حضرت علی(ع) کی روایت یوں ہے ؛حضور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
انا مدينةالعلم وعلی بابها۔ ۵
میں علم کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے۔

حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع)کے حق میں فرمایا ؛
انا مدينة الحکمة وعلی بابها فمن اراد الحکمة فليات الباب۔

میں حکمت کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہے۔ پس جو طالب حکمت ہو وہ اس دروازے پر آئے۔
حضرت علی(ع) ہی سے ایک اور روایت مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛
انا دارالحکمة وعلی بابها۔
حضرت ابوذر غفاری کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کے حق میں فرمایا؛
علی(ع) میرے علم کا دروازہ ہے اور میرے بعد میں میری امت کے لئے پیغام کو کھل کر بیان کرنے والاہے۔
انس بن مالک کی روایت ہے کہ آپ نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:
انت تبين لامتی ما اختلفوا فيه بعدی. آپ میری امت کے لئے ان چیزوں کو کھول کر بیان کریں گے جن میں وہ میرے بعد اختلاف کریں گے۔
اس حدیث کے تحت امام حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے۔ ۶
ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:
آپ میری طرف سے ( میری امانتوں کو ) ادا کریں گے، لوگوں تک میری آواز پہنچائیں گے اور میرے بعد لوگ جن باتوں میں اختلاف کریں گے انہیں کھول کر بیان کریں گے۔ ۷
الله تعالیٰ نے حضرت علی(ع) کو ان کے بچپنے کے دوران ایک دفعہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ساتھ کسی گھر میں اکٹھے ہونے کی توفیق دی۔ وہاں الله تعالیٰ نے اپنے آخری نبی(ص) کو اس بات کا موقع دیا کہ وہ اپنے ابن عم کو علم منتقل کریں۔چنانچہ امام حاکم کی روایت ہے کہ الله تعالیٰ نے علی ابن ابی طالب(ع) کو جن نعمتوں سے نوازا ان میں سے ایک آپ کے بارے میں الله تعالیٰ کا یہ کرم اور ارادہ تھا کہ ایک دفعہ قریش قحط کے بحران میں مبتلاہوگئے۔ اس وقت حضرت ابوطالب(ع) کے اہل وعیال کی تعداد زیادہ تھی۔ پس نبی پاک صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا عباس سے ( جو بنی ہاشم میں سب سے زیادہ آسودہ حال تھے) فرمایا:
اے ابولفضل ! آپ کے بھائی ابوطالب کثیرالعیال ہیں۔ اس قحط نے لوگوں کا جو حال کردیا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آئیے ان کے پاس چلتے ہیں اور ان کے بچوں سے ان کا بوجھ تھوڑا کم کرتے ہیں۔ ان کے بیٹوں میں سے ایک میں لے لوں گا اور ایک آپ لے لیں اور ہم ابوطالب کے بدلے ان کی پرورش کریں گے۔
حضرت عباس نے کہا: ٹھیک ہے وہ دونوں چلے یہاں تک کہ حضرت ابوطالب کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے:
ہم آپ کے بال بچوں کا بوجھ کم کرنا چاہتے ہیں یہاں تک کہ لوگ اس مشکل سے نکل آئیں۔
حضرت ابوطالب نے ان دونوں سے کہا:
عقیل کو میرے پاس چھوڑو۔ پھر جو چاہو سو کرو۔
پس رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کو چنا اور اپنی طرف کرلیا۔ حضرت عباس نے جناب جعفرکو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس کے بعد سے جناب جعفر ہمیشہ حضرت عباس کے پاس رہے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوگئے اور عباس سے بے نیاز ہوگئے۔ ۸
زید بن علی بن الحسین اپنے والد او راپنے جد سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ایک گھر سے جہاں آپ کے چچا عباس اورحضرت حمزہ بھی ساتھ تھے حضرت علی(ع)، حضرت جعفر اور جناب عقیل کو دیکھاجو ایک زمین میں کام کررہے تھے۔ اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں بھتیجوں سے کہا:
ان میں سے انتخاب کیجئے۔
ان دونوں میں ایک نے کہا:
میں جعفرکو منتخب کرتا ہوں۔
دوسرے نے کہا:
میں عقیل کو منتخب کرتا ہوں۔
تب آپ نے فرمایا :
میں نے آپ دونوں کو انتخاب کا موقع دیا اور آپ دونوں اپنا اپنا انتخاب کرلیا اور الله تعالیٰ نے علی(ع) کو میرے لئے پسند کرلیا۔ ۹
امام بذات خود اس بارے میں فرماتے ہیں: اور تم جانتے ہو کہ رسوللله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے میری قریبی رشتہ داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم میرے بچپن میں مجھے اپنی گود میں بٹھاتے تھے۔ آپ مجھے اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں سلاتے تھے، اپنے بدن مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ آپ پہلے کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پا یا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی۔الله تعالیٰ نے اس وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا۔ جو شب و روز انہیں عظیم خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا اور میں ان کے پیچھے یوں لگا رہتا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ آپ(ص) ہر سال ( کوہ ) حرا میں کچھ دن قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور ام المومنین حضرت خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چاردیواری میں اسلام نہ تھا، البتہ ان کا تیسرا میں تھا۔ میں وحی رسالت کا نور دیکھتا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔
جب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (ابتدائی) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی چیخ سنی۔ تب میں نے پوچھا :

یا رسول الله(ص) یہ آواز کیسی ہے ؟
فرمایا:
یہ شیطان ہے جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے۔ ( اے علی(ع) ) جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ میرے جانشین اور وزیر ہو اور بھلائی کی راہ پر ہو۔
حضرت علی علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:
میں آپ کے پاس تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپ(ص) کے پاس آئی اور انہوں نے آپ (ص)سے کہا:
اے محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ ایسا دعویٰ نہ آپ کے باپ دادا نے کیا اور نہ آپ کے خاندان میں سے کسی اور نے۔ ہم آپ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں اگر آپ(ص) نے اسے پورا کرکے دکھا دیا تو ہم بھی یقین کریں گے کہ آپ نبی و رسول ہیں۔ ورنہ ہم یہ جان لیں گے کہ آپ (نعوذبالله) جادو گر اور جھوٹے ہیں۔
حضرت(ص) نے فرمایا:
تمہارا کیا مطالبہ ہے؟
انہوں نے کہا:

آپ ہمارے لئے اس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑسمیت اکھڑ کر آپ کے سامنے ٹھہر جائے۔
آپ نے فرمایا:
بلاشبہ الله ہر چیز پرقادرہے۔ اگر میں نے ایسا کر دکھایا تو کیا تم ایمان لے آؤ گے اور حق کی شہادت دوگے؟
انہوں نے کہا:
ہاں!
فرمایا: اچھا تو تمہارے مطالبے کو دکھائے دیتا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو۔ تم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں چاہ (بدر) میں جھونک دیا جائے گا اور کچھ وہ ہیں جو ( جنگ) احزاب میں جتھا بندی کریں گے۔
پھر آپ نے فرمایا:اے درخت اگر تو الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میں الله کارسول(ص) ہوں تو تو اپنی جڑوں سمیت اکھڑ اور بحکم خدا میرے سامنے ٹھہر جا۔
اس ذات کی قسم جس نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور درخت اپنی جڑوں کے ساتھ اکھڑ آیا اور اس طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑ کھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑ پھڑا ہٹ کی سی آواز آتی تھی یہاں تک کہ وہ جھومتا ہوا حضور کائنات صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آکر ٹھہر گیا۔ اس درخت نے اپنی شاخیںآ نحضرت(ص) پر اور کچھ شاخیں میرے کندھے پر ڈال دیں۔ اس وقت میں آپ (ص) کے دائیں جانب کھڑا تھا۔ جب قریش نے یہ دیکھا تو نخوت و غرور سے کہنے لگے:
اسے حکم دیں کہ آدھا آپ کے پاس آئے اور ادھا اپنی جگہ پر رہے۔

چنانچہ آپ نے اسے یہی حکم دیا تو اس کا آدھا حصہ آپ(ص) کی طرف آیا اس طرح سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ جائے۔ پھر انہوں نے کفر اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:
اچھا اب اس نصف حصے کو حکم دیں کہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا۔

چنانچہ آپ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا۔ میں نے کہا: لا الہ الا اللہ اور میں سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرنے والا ہوں کہ اس درخت نے بحکم خدا آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے اور آپ کے کلام کی عظمت کو ثابت کرنے کے لئے جو کچھ کیا وہ حقیقت ہے۔
یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے: یہ تو جادوگر اور پرلے درجے کا جھوٹا ہے۔ اس کا جادو عجیب اور اس میں بڑا چابکدست ہے۔ (پھر کہنے لگے) اس امر پر آپ کی تصدیق اس قسم کے لوگ ہی کر سکتے ہیں (ان کا اشارہ میری طرف تھا)۔ ۱۰
یوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی(ع) کی کمسنی کے ایام میں ہر روز ان کے لئے اخلا ق حسنہ کے پرچم بلند کرتے جاتے تھے اور انہیں اپنی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ نیز بڑا ہونے پر ان کو علم اس طرح عطا کرتے تھے جس طرح پرندہ اپنے بچے کو دانہ کھلاتا ہے اور آپ حضرت علی(ع) کے ساتھ خصوصی سرگوشیاں کرتے تھے۔
سنن ترمذی وغیرہ میں ایک روایت مذکور ہے کہ جابرنے کہا: طائف کے واقعے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کو بلایا اور ان کے ساتھ سرگوشی میں مشغول ہو گئے۔ لوگوں نے کہا:

اپنے ابن عم کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرگوشی طویل ہو گئی ہے۔
یہ سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس سے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ سرگوشی کی ہے۔
ایک اور روایت میں ہے: طائف کے واقعے میں آپ(ص)نے علی(ع) کو بلایا اور ان کے ساتھ طویل سرگوشی کی۔ آپ کے کسی صحابی نے کہا: الحدیث ۲
جندببن ناجیہ یا ناجیہبن جندب کی روایت میں مذکور ہے کہ غزوہ طائف کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی(ع) کے ساتھ کافی دیر کھڑے رہے پھر چل پڑے۔ تب حضرت ابوبکرنے کہا:

اے اللہ کے رسول(ص) آج علی(ع) کے ساتھ آپ کی سرگوشی طویل ہو گئی۔
فرمایا:
میں نے علی (ع) سے سرگوشی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے سرگوشی کی ہے۔ ۱۱

حضرت علی(ع) اس بات کے بہت دلداہ تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ فیض حاصل کریں یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :
ياَيها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَينَ يدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَةً۔ ۱۲
اے ایمان والو! جب تم رسول(ص) سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دیا کرو۔
لوگوں کو صدقہ دیئے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی سے منع کیا گیا ہے پس کسی نے بھی آپ سے سرگوشی نہیں کی سوائے علی ابن ابی طالب (ع) کے۔
حضرت علی(ع) نے فرمایا:
میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے فروخت کیا۔ پس جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرتا تو ایک درہم صدقہ دے دیتا یہاں تک کہ کچھ نہیں بچا۔ ۱۳
ایک اور روایت میں ہے:
میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہموں سے بدل لیا۔ پس جب بھی رسول (ص) کے پاس آتا توعلامہ زمحشری نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دس بار سوالات کئے اور ہر بار صدقہ دیا۔
ایک اور روایت میں حضرت علی(ع) سے مروی ہے:

قرآن کی ایک آیت ایسی ہے جس پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا تھا اور نہ میرے بعد کوئی عمل کرے گا۔ وہ ہے آیت نجویٰ:
ياَيها الَّذِينَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَيتُمُ الرَّسُوْلَ
میرے پاس ایک درہم تھا الخ
پھر فرمایا:
اس کے بعد یہ آیت منسوخ ہو گئی اور پھر کسی نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے بعد خدا کا یہ قول نازل ہوا:
ءَ اَشْفَقْتُمْ اَنْ تُقَدِّمُوْا بَينَ يدَیْ نَجْوٰکُمْ صَدَقَاتٍ ج۱۴
کیا تم اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقہ دینے سے ڈر گئے ہو؟ ۱۵

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت علی (ع) یوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہے اور آپ نے حضور (ص) کی زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑا۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں:
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات قریب ہوئی تو فرمایا: میرے حبیب کو بلاؤ۔

کوئی شخص ابوبکرکو بلا لایا۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا پھر اپنا سر نیچے رکھ دیا اور فرمایا:
میرے حبیب کو بلاؤ۔
کوئی شخص حضرت عمرکو بلا لایا۔ آپ(ص) نے اسے دیکھ کر اپنا سر نیچے رکھ دیا۔ اس کے بعد فرمایا:
میرے حبیب کو بلاؤ۔
اب کی بار علی(ع) کو بلا لائے۔ جب آپ(ص) نے علی(ع) کو دیکھا تو انہیں اپنی چادر میں داخل کیا اور انہیں اپنے پہلو میں لیے رہے یہاں تک کہ آپ(ص) کی روح نکل گئی جبکہ آپ کا ہاتھ حضرت علی (ع) کے اوپر تھا۔۱۶
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت بیمار ہو گئے۔ اس وقت آپ کے پاس عائشہاور حفصہموجود تھیں۔ اتنے میں حضرت علی(ع) داخل ہوئے۔جب آپ(ص) نے علی(ع) کو دیکھا تو اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:
میرے قریب آؤ۔ میرے قریب آؤ۔
حضرت علی(ع) نے آپ کو ٹیک دی اور آپ کے پاس بیٹھے رہے یہاں تک کہ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ ۱۷
حضرت ام سلمہنے کہا:
میں قسم کھا سکتی ہوں کہ حضرت علی(ع) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے قریبی تھے۔ ہم صبح کے وقت عیادت کے لیے گئے۔ آپ بار بار پوچھتے تھے: علی(ع) آگئے؟ علی(ع) آگئے؟ حضرت فاطمہ زہراء (ع)نے کہا: شاید آپ(ص) نے انہیں کسی کام سے بھیجا ہے۔ پھر حضرت علی(ع)آ گئے۔
جناب ام سلمہ کہتی ہے:

میں نے اندازہ لگایا کہ شاید آپ(ص) کو حضرت علی(ع) سے کوئی کام ہے۔ ہم سب کمرے سے نکل کر دروازے کے پاس بیٹھ گئے۔ میں ان سب کی بہ نسبت دروازے کے زیادہ قریب تھی۔ پس آپ(ص) حضرت علی کے اوپر جھک گئے اور ان کے ساتھ راز کی باتیں اور سرگوشیاں کرنے لگے۔ پھراسی دن آپ کی وفات ہوئی۔
امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح السند ہے۔ ۱۸

حضرت ابن عباسسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:


جس شخص کویہ بات پسند ہو کہ میری طرح زندگی گزارے اور میری طرح دنیا سے جائے اور اس باغ عدن میں رہے جس کے درخت میرے رب نے لگائے ہیں تو وہ میرے بعد علی(ع) کی مدد کرے اور ان کے مددگار کی مدد کرے اور میرے بعد والے اماموں کی پیروی کرے کیونکہ وہ میری عترت ہیں اور میری طینت سے خلق ہوئے ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور علم عطا کیا ہے۔ وائے ہو میری امت کے ان لوگوں پر جو ان کی فضیلت کا انکار کرے اور ان
کے معاملے میں میرا لحاظ نہ رکھے۔ خدا انہیں میری شفاعت نصیب نہ کرے۔ ۱۹

حوالہ جات
۱ تفسیر کبیررازی زیر آیة ” ان الله اصطفیٰ اٰدم “ کنز العمال ج ۶ صفحہ ۳۹۲،۳۰۵۔
۲ تفسیر ابن جریر طبری ج ۲۶ صفحہ ۱۱۶،طبقات ابن سعد ج ۲ صفحہ ۱۰۱، فتح الباری ج ۱۰ صفحہ ۲۲۱، حلیة الاولیأ صفحہ ۶۷، ۶۸، کنزالعمال ج ۱صفحہ ۲۲۸،
۳ المستدرک ج ۳ صفحہ ۱۲۶،۱۲۷، تاریخ بغداد ج ۴ صفحہ ۳۴۸، ج ۷ صفحہ ۱۷۲، اسد الغایہ ج صفحہ ۲۲، مجمع الزوائد ج ۹ صفحہ ۱۱۴، فیض القدیر ج ۳ صفحہ ۴۶۔ کنزالعمال ج ۱۲ صفحہ ۲۰۱، الصواعق المحرقہ صفحہ ۷۳۔
۴ تاریخ بغداد لخطیب ج ۲صجحہ ۳۷۷۔
۵ کنز العمال ج ۱۲ صفحہ ۲۱۲، الریاض النضرہ ج ۲صفحہ ۱۹۳۔
۶ تاریخ بغداد ج ۱۱ صفحہ ۲۰۴، سنن ترمذی ج ۱۳ صفحہ ۱۷۱ باب مناقب علی بن ابی طالب، کنزالعمال ج ۲صفحہ ۱۵۶، مستدرک حاکم ج ۳ صفحہ ۱۲۲۔

۷ حلیة الاولیاء ج ۱ صفحہ ۶۳۔
۸ مستدرک حاکم ج ۳ صفحہ ۶۳۔
۹مستدرک امام حاکم ج ۳ صفحہ ۵۷۶، ۵۷۷
۹ نہج البلاغہ مع شرح مفتی الدیار محمد عبدہ المصری ج۲ صفحہ ۱۸۲، ۱۸۴ خطبہ نمبر ۱۹۰
۱۰ سنن ترمذی باب مناقب علی بن ابی طالب (ع) ج۱۳ صفحہ ۱۷۳، تاریخ بغداد ج۷ صفحہ ۴۰۲، اسد الغابہ ج۴ صفحہ ۲۷
۱۱ کنز العمال ج۱۲ صفحہ ۲۰۰ حدیث نمبر ۱۱۲۲، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۶۵
۱۲سورہ مجادلہ آیت ۱۲
۱۳ تفسیر در منثور ج۶ صفحہ ۱۸۵، تفسیر طبری ج۲۸ صفحہ ۱۴، ۱۵، اسباب النزول صفحہ ۳۰۸
۱۴ سورة مجادلہ آیت ۱۳
۱۵ الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۶۵، درمنثور ج۶ صفحہ ۱۸۵، تفسیر کشاف ج۵ صفحہ ۷۶ طبع بیروت
۱۶ الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۳۷مطبعة دار التالیف مصر، ذخائر العقبیٰ صفحہ ۷۲۔
۱۷ مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۳۶
۱۸ مسند احمد ج۶ صفحہ ۳۰۰، خصائص نسائی صفحہ ۴۰، مستدرک علیٰ الصحیحین ج۳ صفحہ ۱۳۸
۱۹ حلیة الاولیاء ج۱ صفحہ ۸۶