امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام حسن مجتبی (ع) نے بہت ساری عورتوں سے ازدواج کر کے انھیں طلاق دیا ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

سوال کیا امام حسن مجتبی (ع) زیادہ طلاق دینے والے تھے؟

اجمالی جواب

 افسوس کے ساتھـ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کے حدیثی منابع کی بڑی آفتوں میں سے ایک آفت ، خودغرض ایجنٹوں کے توسط سے صیحح احادیث کے درمیان جعلی اور جھوتے احادیث درج کرنا ہےـ امام حسن مجتبی علیہ اسلام،دوسرے معصوم امام ہیں اور آپ(ع) ان شخصیتوں میں سے ہیں کہ افسوس کہ حدیث جعل کرنے والوں اور جھوٹے افراد نے حدیث کے روپ میں ان پر ناروا اتہامات لگائے ہیں ـ من جملہ آپ(ع) کے بارے میں ایسی روایتیں جعل کی گئی ہیں کہ جن کا معنی ازدواج کی کثرت اور زیادہ طلاق دینا ہے
افسوس کا مقام ہے کہ ان روایتوں کو شیعوں کی احادیث اور تاریخ کی کتابوں اوراہل سنت کی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا گیا ہےـ لیکن خوش قسمتی سے تاریخی اور عقیدتی لحاظ سے بہت سے شواہد موجود ہیں ، جن سے ان روایتوں کا جعلی ہونا واضح اور ثابت ہو جاتا ہے

تفصیلی جواب

 افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے حدیثی منابع کو درپیش بڑی آفتوں میں سے ایک آفت ، احادیث جعل کرکے انھیں صیحح احادیث کے بیچ میں درج کرنا ہےـ اس کام کے پیچھے سیاسی اورمذہبی وغیرہ عوامل تھے اور کبھی یہ کام اموی اور عباسی حکام کے منفور شخصیتوں کو صیحح دکھانے کی غرض سے اور کبھی قابل قدر شخصیتوں کو مسخ کرکے پیش کرنے کی غرض سے آنجام پاتا تھاـ اس لئےجعلی احادیث کے درمیان میں سے صیحح احادیث کو تشخیص دینا بہت ہی اہم لیکن مشکل کام ہے
امام حسن مجتبی علیہ اسلام ایک ایسی شخصیت ہیں ، جو مسموم اور جعلی احادیث کے حملوں کا نشانہ قرار پائے ہیں ، لیکن خوش قسمتی سے احمق دشمنوں نے اب کی بار ان پر تعدد ازدواج اور زیادہ اطلاق دینے کی تہمت لگائی ہےـ یہ ایک ایسا اتہام ہے جس کا امام حسن مجتبی علیئہ سلام جیسی شخصیت کے بارے میں بے بنیاد ہونا مکمل طور پر واضح ہے
اس قسم کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ امام علی (ع) نے اس مرد کو، جو اپنی بیٹی کے بارے میں حسن(ع) ، حسین(ع) اور عبداللہ بن جعفر سے خواستگاری کے سلسلہ میں مشورت کرنے کے لئے آپ(ع) کی خدمت میں آیا تھا، کو فرمایا:" جان لو کہ حسن(ع) زیادہ طلاق دیتا ہےـ اپنی بیٹی کو حسیں (ع) کے ساتھـ ازدواج کرنا کیونکہ وہ تیری بیٹی کے لئے بہتر ہےـ"[1]
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ امام صادق علیہ اسلام نے فرمایا: " حسن بن علی(ع) نے پچاس بیویوں کو طلاق دی ہے، یہاں تک حضرت علی علیہ اسلام کوفہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا:" اے کوفیو! حسن کو اپنی بیٹی نہ دینا کیونکہ وہ زیادہ طلاق دیتا ہے"ـ ایک شخص اٹھا اور کہا :" خدا کی قسم ہم ایسا ہی کریں گے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہراء(س) کے فرزند ہیں، اگر چاہے اپنی بیوی کو رکھے اور اگر نہ چاہے تو اسے طلاق دےـ"[2]
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ امام باقر علیہ اسلام نے فرما یا:" علی (ع) نے کو فیواں سے مخاطب ہو کر فرمایا: حسن(ع) کو کوئی عورت نہ دے کیونکہ وہ زیادہ طلاق دیتا ہےـ"[3]
اہل سنت کی بعض تاریخی کتابوں ، جیسے انساب الا شریف ،[4] قوت القلوب،[5] احیاء العلوم[6] اورابن ابی الحدید معتزلی[7] کی شرح ، نہج البلاغہ وغیرہ میں بھی یہی مطالب تکرار ہوئے ہیںـ چونکہ کہاوت ہے کہ جھوٹ جتنا بڑا ہو اسے قبول کرنا آسان تر ہوتا ہے، بعض جعلیات میں حضرت (ع) کی طلاق شدہ بیویوں کی تعداد کو تین سو تک پہنچا دیا گیا ہے[8]، کہ یہ سب روایتیں ضعیف ، فاقد اعتبار اور عقل و منطق کے خلاف ہیں
بہت سے تاریخی اور اعتقادی شواہد موجود ہیں جو مزکورہ روایتوں کے صحح نہ ہونے کی دلالت پیش کرتے ہیں، جن میں سے چند ایک کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

1ـ حضرت امام حسن مجتبی علیہ اسلام دوسری یا تیسری ہجری میں 15 رمضان المبارک کو پیدا ہوئے ہیں اور 28 سفر49 ہجری کو شہید ہوئے ہیںـ آپ(ع) کی عمر شریف 46 یا 47 سال سے یادہ نہیں تھی ـ با لفرض اگر حضرت(ع) کی پہلی شادی بیس سال کی عمرمیں انجام پائی ہو تو آپ(ع) کے والد گرامی کی شہادت کے سال 40 ہجری یعنی 18 یا17 سال کی مدت میں یہ شادیاں اور طلاق واقع ہوئے ہونے چاہئےـ جبکہ امام حسن مجتبی علیہ اسلام نے اپنے والد گرامی کے پانچ سالہ حکومت کے دوران تمام تین جنگوں یعنی جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں معلانہ طور پر شرکت کی ہے اور اس کے پیش نظر کہ حضرت (ع) نے بیس بار مدینہ سے پیدل جاکر حج کے فرائض انجام دئے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے پاس اتنی شادیاں کرنے کی فرصت پیدا ہوتی ـ اس لحاظ سے اس قسم کی روایتوں کو قبول کرنا ایک نا معقول امر ہے

2ـ اکثر روایتیں ، جو احادیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں امام صادق علیہ اسلام سے منقول ہیںـ یعنی یہ مطلب امام حسن مجتبی علیہ اسلام کے زمانہ کے ایک سوسال بعد پیش کیا جاتا ہے، کیونکہ امام جعفرصادق علیہ اسلام کی شہادت 148 ہجری میں اور حضرت امام مجتبىٰ علیہ اسلام کی شہادت 48 ہجری میں واقع ہوئی ہےـ اگر حقیقت میں یہ روایتیں حضرت امام صادق(ع)سے ہوں، تو سوچنے کا مقام ہے کہ حضرت امام صادق(ع)ایک صدی گزرنے کے بعد ان روایتوں کو بیان کرنے میں کیا مقصد رکھتے تھے؟ کیا وہ حضرت امام حسن مجتبىٰ علیہ اسلام کے خاندانی بحران کو طشت از جام کرنا چاہتے تھے؟! تعجب کی بات ہے کہ یہ مطلب اسی زمانہ میں ، اہل بیت اطہار علیہم اسلام کے جانی دشمن منصور دوانقی کی زبان پر جاری ہوتے ہیںـ مشہور مورخ مسعودی نے اپنی کتاب "مروج الزہب" میں، خراسانیوں کے ایک اجتماع میں منصور دوانقی کی ایک تقریر کو یوں نقل کیا ہے:" خدا کی قسم ہم نے فرزندان ابوطالب کو خلافت کرنے سے کبھی نہیں روکا ہے اور کسی صورت میں ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، یہاں تک کہ علی بن ابیطالب نے خلافت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور جب حکومت کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو حکمیت کے سامنے ہتھیارڈال دئے ـ لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا چہ می گوئیاں ہونے لگیں ، یہاں تک کہ ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور انھیں قتل کر ڈالاـ ان کے بعد ، حسن بن علی اٹھے ـ وہ ایسے شخص نہیں تھے کہ اگر کوئی مال پیش کیا جاتا، تو اسے لیتےـ معاویہ نے جالبازی اور حلیہ سے انھیں اپنا ولی عہد بنایاـ اور اس کے بعد انھیں معزول کیا ـ انہوں نے عورتوں کی طرف رخ کیاـ کوئی ایسا دن نہیں تھا جب وہ ازدواج نہ کرتے یا طلاق نہ دیتے ـ یہاں تک کہ بستر پر اس دنیا سے چلے گئےـ"[9]

3ـ اگر یہ بات حقیقت ہوتی ، تو ان کے جانی دشمنوں اور بہانہ تلاش کرنے والوں کو آپ(ع) کی زندگی کے دوران اس پر اعتراض کرنا چاہئے تھا، جبکہ وہ آپ(ع) کے بارے میں معمولی چیزوں ، یہاں تک کہ آپ(ع) کے لباس کے رنگ پر بھی اعتراض کرتے تھےـ اگر یہ بات صیحح ہوتی تو دشمنوں کے لئے ایک بڑا بہانہ اور نقطہ ضعف ہاتھـ آتا اور ضرور اس پر انگلی اٹھا تے ـ لیکن اس زمانے کے بارے میں ایسی کوئی گزارش نقل نہیں کی گئی ہے

4ـ تاریخ کی کتابوں میں امام حسن مجتبی علیہ اسلام کی بیویوں، فرزندوں اور دامادوں کی جو تعداد نقل کی گئی ہے، وہ حضرت (ع) کی بیویوں کی اس تعداد سے سازگار نہیں ہےـ آپ کے زیادہ سے زیادہ فرزندوں کی تعداد 22 اور کم سے کم 12 بتائی گئی ہے آپ کی بیویوں کے طور پر صرف 13 نام ذکر ہوئے ہیں لیکن ان میں سے تین بیویون کے حالات کے علاوہ کسی کی تفصیلات معلوم نہیں ہیںـ اس کے علاوہ تاریخ کی کتابوں میں آپ(ع) کے تین داماد وں کے علاوہ کسی کا ذکر نہیں ہوا ہےـ[10]

5ـ طلاق کے قبیح ہونے کے بارے میں بہت سی روایتیں دلالت کرتی ہیںـ یہ روایتیں شیعوں اور اہل سنت کی حدیث کی کتابوں میں مکرر طورپر نقل ہوئی ہیںـ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" خدا کے پاس حلال کاموں میں سب سے قابل نفرت کام طلاق ہےـ"[11] امام صادق علیہ اسلام نے فرمایا:" شادی کرنی چاہئے لیکن طلاق نہیں دینا نہیں ، کیونکہ طلاق عرش الی کو ہلاکر رکھتا ہےـ"[12]اس کے علاوہ حضرت امام صادق علیہ اسلام اپنے والد بزرگوار سے نقل کرتے ہیں:" خدا وند متعالی اس شخص کو دشمن رکھتا ہے جو زیادہ طلاق دیتا ہو اور جنسی لذت کے تنوع کے پیچھے جاتا ہو"[13]
اس کے پیش نظر کیا ممکن ہے کہ ایک معصوم امام مکرر طور پر ایسا کام انجام دے اور ان کے والد بھی انھیں اس کام سے نہ روک سکیں !!

6ـ امام حسن مجتبی علیہ اسلام اپنے زمانے کے عابد تریں اور زاہد ترین انسان تھےـ[14] وہ ہر وقت اس طرح اپنے پروردگار سے رازو نیاز کرتے تھے:" میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کا احساس کرتا ہوں کہ میں اس حالت میں اس کی ملاقات کروں جبکہ میں اس کے گھر کی طرف پیدل نہ گیا ہوںـ"[15] آپ(ع) بیس بار مدینہ سے پیدل حج پر چلے گئے اور حج کے اعمال بجا لائے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ(ع) اس قسم کے اعمال کے مرتکب ہو چکے ہو گے؟

7ـ مطلاق " زیادہ طلاق دینے " کی صفت جاہلیت کے زمانے میں بھی قابل مذمت تھیـ جب حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ سے اپنے خواستگاروں کے بارے میں صلاح مشورہ کیا کہ ان میں سے کس کو مثبت جواب دیں گیں، تو ورقہ نے جواب میں کہا : شیبہ کافی بدگمان شخص ہے، اور عقبہ بوڑھا ہے، ابو جہل ایک متکبر اور بخیل شخص ہے اور صلت ایک مطلاق(زیادہ طلاق دینے والا) ہےـ اس وقت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے کہا:" ان پر خداکی نفرین ہو ، کیا تم جانتے ہو کہ کسی اور مرد نے میری خواستگاری کی ہے؟
قابل غور بات ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ جو خصلت زمانہ جاہلیت میں بھی قابل مذت تھی اور اس زمانے کی عورتیں حاضر نہیں تھیں کہ کسی "مطلاق"( زیادہ طلاق دینے والے ) کے ساتھـ شادی کریں، اور حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے ایک زاہد و متقی فرزند کے بارے میں ایسی توصیف کی ہوگی؟ اور ایک معصوم امام اس قسم کی ناپسند خصلت سے آلودہ ہو جائے جو خدا کے غضب کا سبب بنتی ہو؟!
یہ چند ثبوت تھے جو ان روایتوں کے بے بنیاد ہونے کی دلالت پیش کرتے ہیں
اس بنا پر ان ضعیف مضامین اور جعلی روایتوں کو ایک ایسی شخصیت کے بارے میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے، جن کی متعدد روایات کے مطابق پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعریف و تمجید کی ہوـ[16]
مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
1ـ حیاۃ الا مام الحسن (ع) تالیف :باقر شریف القرشی ج2،ص457ـ472 (دارالکتب العمیہ)
2ـ"نظام حقوق زن در اسلام"، تالیف : شہید مطہری،ص306ـ309 (انتشارات صدرا)
3ـ"زندگی امام حسن(ع) تالیف : مہدی پیشوائی،ص31ـ39(انتشارات جوان)
4ـ" الامام المجتبی" تالیف: حسن المصطفوی، ص228ـ234 (مکتبالمصطفوی)
5ـ"ازگوشہ وکنار تاریخ" تالیف: سید علی شفیعی،ص88(کتاب خنہ صدرا)
6ـ "زندگانی امام مجتبىٰ(ع)" تالیف: سید ہاشم رسولی محلاتی،ص469ـ484 (دفتر نشر فرہنگ اسلامی)
7ـ "حقائق و پنہان" تالیف: احمد زمانی،331ـ354 (انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی)[17]

[1] البرقی محاسن،ج2 ،ص601.
[2] الکافی،ج6،ص56،ح5و4
[3] دعائم الاسلام،ج2،ص257،ح980
[4] انساب الاشراف، ج3،ص25.
[5] قوت القلوب،ج2،ص246.
[6] محجھ البیضا،ج3،ص69.
[7] شرح نھج البلاغہ،ج3، ص 69.
[8] ملاحظہ ہو; قوت القلوب ابوطالب مکی.
[9] مروج الزھب،3 ص 300.
[10] حیاۃ الامام الحسن(ع) ،ج 2، ص463ـ469 و ص457.
[11] سنن ابی داود،ج2 ، ص632، ح2178.
[12] وسائل الشیعہ ،ج15، ص268; مکارم الاخلاق، ص225 :تزوجوا و لا تطلقوافان الطلاق یھتز منہ العرش.
[13] وسائل الشیعہ ،ج15،ص 267،ح3، ان اللہ عزوجل یبغض کل مطلاق و ذواق.
[14] فراید السمطین ،ج2، ص68: بحارلانوار،ج 16، ص 60.
[15] بحارالانوار،ج43، ص399،انی لاستحیی من ربی ان القاہ ولم امش الی بیتہ ، فمشی عشرین مرۃ من المدینۃ علی رجلیہ.
16 مقالہ : تاملی دراحادیت کثرت طلاق ، مھدی مھریزی ، مجلہ پیام زن ، تیر 77 ، شمارہ 76.

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک