کریمہ اہل بیت حضرت معصومہ قم(ع)
قم میں حضرت معصومہ(ع) کا روضہ مشہد میں حضرت امام رضا (ع) کے روضہ اقدس کے بعد ایران کا دوسرا بارونق مزار ہے جہاں روزانہ ہزاروں زائرین آپ(ع) کی زیارت کرتے ہیں۔
حضرت معصومہ(ع) ، ساتویں امام فرزندِ رسول (ص) حضرت امام موسٰی بن جعفر (ع) کی دختر گرامی اور حضرت امام رضا (ع) کی ہمشیرہ ہیں۔
آپ (ع) کا اصل نام فاطمہ ہے۔ آپ (ع) اور امام رضا (ع) ایک ہی مادر سے پیدا ہوئے ہیں، جن کے مشہور نام خیزران ، ام البنین اور نجمہ ہیں ۔
تاریخی روایات کے مطابق حضرت فاطمہ معصومہ یکم ذی العقدہ ٣٧١ھ ق کو مدینہ منوّرہ میں پیدا ہوئیں ، لیکن آپ (ع) کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے ، ایک روایت کے مطابق آپ (ع) نے ١٠ ربیع الثانی کو وفات پائی جب کہ ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ آپ (ع) کی تاریخ رحلت ١٢ ربیع الثانی ٢٠١ ہج ہے ، بعض مآخذوں کے مطابق آپ (ع) نے ٨ شعبان کے دن دارِ فانی سے کوچ کیا۔
حضرت فاطمہ معصومہ (ع) اہل بیت رسول (ص) کی اُن ہستیوں میں سے ہیں جو مقام عصمت کے حامل نہ ہوتے ہوئے بھی عظیم شخصیت کی مالک تھیں جیسے حضرت زینب کبری (ع) اور حضرت ابولفضل العبّاس (ع)۔ آپ (ع) کی فضیلت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ حضرت امام جعفر الصادق (ع) نےآپ (ع) کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم (ع) کی ولادت سے قبل ہی آپ (ع) کے مدفن کی پیش گوئی کرتے ہوئے آپ (ع) کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی تھی۔ حضرت امام جعفر الصادق (ع) نے اپنے ایک صحابی سے حضرت امام موسٰی بن جعفر کی طرف بچپن میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ میرا بیٹا موسٰی ہے، خداوندِ عالم اس سے مجھے ایک بیٹی عطا کرے گا جس کا نام فاطمہ ہوگا ،
وہ قم کی سرزمین میں دفن ہوجائے گی اور جس نے قم میں اس کی زیارت کی ، اس پر بہشت واجب ہوگا ۔
ایک اور روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا : بہت جلد قم میں میری اولاد میں سےایک خاتون دفن ہوگی جس کا نام فاطمہ ہے اور جو اس کی قبر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ اس طرح کی احادیث و روایات حضرت معصومہ (ع) کے عظیم مقام و مرتبے کا منہ بولتا ثبوت ہیں، حضرت امام جعفر الصادق (ع) کی زباں سے زائر حضرت معصومہ (ع) کے لئے جنت کی بشارت اور وہ بھی وجوب کی حد تک بڑی اہمیت کی حامل ہے،
حضرت امام رضا (ع) کو چھوڑ کر ، حضرت امام موسٰی کاظم (ع) کی اولاد میں حضرت معصومہ(ع) ہی وہ ہستی ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین (ع) کی روایات ملتی ہیں ،
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ میں سب سے زیادہ اولاد حضرت امام موسٰی کاظم (ع) ہی کی تھیں۔
آپ (ع) کے برادر گرامی حضرت امام رضا (ع) سے روایت کی گئی ہے : من زارھا عارفاً ِبحقّھا فلہُ الجنّۃُ " جس نے اُن (حضرت معصومہ(ع) ) کے حق کو جانتے ہوئے ، اُن کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے" آئیے آپ کو حضرت معصومہ(ع) کے علمی مقام اور فضل و دانش سے متعلق ایک واقعہ سناتے ہیں ۔ ایک دن محبّان اہل بیت (ع) کا ایک گروہ اپنے رہبر و آقا حضرت امام موسٰی کاظم (ع) سے کچھ علمی جوابات حاصل کرنے کے لئے مدینہ منورہ وارد ہوا ،
آپ (ع) سفر پر تھے لہٰذا اس گروہ کے افراد نے اپنے سوالات لکھ کر آپ (ع) کے دولتکدے کے افراد کے حوالے کئے ، وہ لوگ جاتے وقت حضرت امام موسٰی کاظم (ع) کے دولتکدے پر گئے تو دیکھا حضرت معصومہ(ع) نے اُن تمام سوالات کے جواب لکھ دیئے تھے ، جب کہ اس وقت آپ (ع) کم سن تھیں ، وہ لوگ اپنے سوالات کے جواب پا کر بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس چل پڑے ، راستے میں وہ حضرت امام موسٰی کاظم (ع) سے ملے تو پورا واقعہ آپ(ع) کو سنایا ، امام (ع) نے ان سے وہ جوابات مانگے ،
جب آپ (ع)نے دیکھا حضرت معصومہ (ع) نے تمام سوالات کےجواب صحیح لکھے ہیں ، آپ(ع) نے فرمایا: فداھا ابوھا " اُس کا باپ اُس پر قربان ہو" یہ واقعہ حضرت معصومہ قم کی علمی منزلت کی ایک واضح دلیل ہے۔ حضرت معصومہ(ع) اسلامی علوم پر دسترس رکھتی تھیں ، آپ(ع) عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ محدثہ بھی تھیں ، آپ (ع) سے متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں ، ان میں سے ایک مشہور حدیث ، واقعہ غدیر سے متعلق ہے۔ حضرت معصومہ(ع) کی معروف و غیر مشہور زیارتوں میں آپ (ع) کو حجّت ، امین ، حمیدہ ، رشیدہ ، تقیہ ، نقیہ ، رضیہ ، طاہرہ اور برّہ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔غرض یہ کہ حضرت معصومہ (ع) معصومین (ع) کی طرح معصوم عن الخطا تو نہیں تھیں لیکن آپ گناہوں سے پاکیزگی کے مقام پر فائز ہیں یعنی آپ(ع) کی عصمت اکتسابی ہے ، آپ کو شفاعت کا مقام بھی حاصل ہے ،حضرت امام جعفرالصادق(ع) سے روایت کی گئی ہے کہ : اُس (حضرت معصومہ (ع) ) کی شفاعت سے ہمارے تمام چاہنے والے بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔ " آخرت میں شفاعت کے علاوہ دنیا میں بھی حضرت معصومہ(ع) کی ذات اقدس کرامات کا سرچشمہ ہے آپ (ع) کے روضہ اقدس پرلاچار اور مضطر لوگوں کی حاجات روا ہوتی ہیں، بیماروں کو شفا ملتی ہے اور دلوں میں نور ہدایت بھر جاتا ہے۔ قم کی عظیم دینی درسگاہ بھی آپ (ع) ہی کی مرہون منت ہے ، ابتدا سے لے کر آج تک علماء ، محدثین ، فقہا اور دانشور آپ کے روضے کے نزدیک علم و دانش کی اشاعت میں مصروف رہے ہیں ۔
تاریخِ قم میں کہا گیا ہے کہ قم کو محبّان اہل بیت (ع) کے ایک گروہ نے آباد کیا جو اموی دور میں حکام کے مظالم سے بچنے کے لئے فرار ہو کر آئے تھے ، اس سے پہلے یہاں خانہ بدوش لوگ پانی اور چارے کے ذخائر کی وجہ سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے ،
قم آنے والے افراد میں علماء محدثین بھی شامل تھے۔عباسی دور میں سادات کی بڑی تعداد عرب ممالک سے ہجرت کر کے قم آئے ، ان میں حضرت امام تقی (ع) کے فرزندِ ارجمند حضرت موسٰی مبرقع (ع) قابل ذکر ہیں جن کا مزار بھی قم میں ہے۔ قم کی دینی درسگاہ مختلف تاریخی ادوار میں آباد رہی، لیکن اس درسگاہ کواُس وقت خاص اہمیت مل گئی جب ١٣٤٠ ہج میں آیت اللہ العظمی حائری یزدی (رح) اراک شہر سے ہجرت کر کے قم آئے ، آپ کے ساتھ آپ (رح) کے شاگرد ارجمند حضرت امام خمینی (رح) بھی قم آئے۔ آیت اللہ حائری یزدی (رح) کی وفات کے بعد آیت اللہ بروجردی (رح) نے اس درسگاہ کو فروغ دیا ، اُن کی رحلت کے بعد امام خمینی (رح) سمیت دیگر مراجع دین نے علم و دانش کے فروع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ١٩٦٢ء بارگاہ حضرت معصومہ (ع) سے ہی حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کا آغاز ہوا۔ اسی لئے قم کو شہرِ علم و قیام (انقلاب) اور شہر علم وشہادت بھی کہتے ہیں ، اس شہر کے باشندوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے بیش بہا قربانیاں دیں اور یہ سب حضرت معصومہ (ع) کے وجود اقدس کے طفیل ہے ۔ حضرت معصومہ فاطمہ (ع) نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے عزیز برادر حضرت امام رضا (ع) کے سایہ عطوفیت میں گذارا کیوں کہ آپ (ع) کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم (ع) زیادہ تر عباسی خلیفہ ہارون کے زیرعتاب اور پابند سلاسل رہے ، حضرت معصومہ (ع) کم سن تھیں جب آپ (ع) کے والد کو مقیّد کیا گیا۔ اسی لئے جب جب خلیفہ مامون عباسی نے حضرت امام رضا (ع) کو ایک سازش کے تحت مدینہ منورہ سے خراسان بلایا ، آپ (ع) بھائی کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور ایک سال بعد خود بھی ایران کی طرف روانہ ہوئیں ، لیکن ساوہ پہنچ کر آپ (ع) بیمار ہوگئیں ،
بعض روایات کے مطابق ساوہ میں آپ (ع) کے قافلے پر دشمنانِ اہل بیت (ع) نے حملہ کیا اور آپ (ع) کے ٢٣ حقیقی اور چچازاد بھائیوں کو شہید کیا گیا ، آپ (ع) سے یہ منظر دیکھا نہ گیا اور بیمار ہوگیئں اور حضرت زینب کبری (ع) کی طرح اعزا واقارب کی لاشوں کو چھوڑ کر قم روانہ ہوئیں۔ مؤرخین کے مطابق ساوہ میں بیماری کے بعد آپ (ع) نے قافلہ والوں سے قم لے جانے کو کہا۔ ایک اور روایت ہے کہ حضرت معصومہ (ع) کو ساوہ کی ایک عورت نے زہر دیا تھا جس کے اثر سے آپ علیل ہوئیں۔ جب قم کے باشندوں کو معلوم ہوا آپ (ع) ساوہ پہنچی ہیں تو شہر کے عمائدین نے آپ (ع) کو قم تشریف لانے کی دعوت دی ۔ بہرحال حضرت معصومہ قم پہنچنے کے ١٧ دن بعد رحلت کر گئیں۔اس مدت میں آپ (ع) خداوند عالم سے راز و نیاز میں مصروف رہیں ، آپ (ع) کا محراب عبادت آج بھی قم کے مدرسہ ستیّہ میں موجود ہے جسے بیت النور بھی کہا جاتا ہے۔ قم کے معززین میں حضرت معصومہ (ع) کو دفن کرنے کے مسئلے پر اختلاف ہوا ، بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ قادر نامی بزرگ آپ (ع) کے جسد مبارک کو قبر میں اتاریں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی طرف سے دو نقاب پوش نمودار ہوئے جنہوں نے آپ (ع) کی نماز جنازہ پڑھ کر آپ (ع) کو سپرد خاک کیا۔ وفات کے وقت حضرت معصومہ (ع) کی عمر صرف٢٨ سال تھی۔