امام حسن کے واقعات بھی واقعات کربلا سے کچھ کم نہیں
مندرجہ بالا جملہ جب سے میں نے ایک عالم دین کی کتاب میں پڑھا تو ایک لگن پیدا ہو گئی کہ میں بھی امام کے بارے میں کچھ معلومات جمع کر کے مومنین کے بچوں کے لئے پیش کروں ۔آپ ؑ کے تمام اقدامات خواہ کسی صورت کے ہوں بالکل اسی طرح واجب الاحترام اورمطابق ِعقل و شرع ہیں جس طرح امام حسین ؑ کے تمام اعمال وافعال میزان ِ عقل و شرع میں نہایت موزوں اور قابل ِتعریف ہیں۔ صلح حسن نے دراصل امام حسین کی آنے والی قربانی اور ذبح عظیم کی گہری تاثیر کی داغ بیل ڈالی ۔ چنانچہ جب حسین ؑمظلوم کی شہادت عظمیٰ کا امام حسن ؑ کی شہادت کے دس سال بعد وقت آگیا تو امام حسین نے بڑی آن بان سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو اس درخت میں ثمر آیا جو امام حسن نے لگایاتھا۔اوراسلام کے بھیس میںاسلام کشی کا جو بھوت بنایا گیا تھا اس کا پردہ چاک ہو گیا۔اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ محمد اور آل محمد ؑ کیا چاہتے ہیں اور سلطنتوں کا بہاو ¿ کس طرف تھا۔
امام حسن ؑ کی صلح شیعہ حضرات کے نزدیک کسی طرح بھی قابل اعتراض نہیں ۔وہ انہیں امام ۔جانشین رسول ۔ صاحب اعجاز ۔علم وہبی کے مالک مانتے ہیں۔ ایک بڑے عالم دین سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ حسن ؑ اور حسین ؑ کی طرز زندگی بالکل مختلف بتائی جاتی ایک نے صلح اختیار کی اور دوسرے نے جنگ۔وہ بزرگ ایک موٹی سی چادر لے کر دریا پر گئے اور اس کو دریا کے پانی میں خوب اچھی طرح سے ڈبویا ۔اس کے بعد چونکہ پانی کے وزن سے چادر بہت بھاری ہو گئی تھی لہٰذا ایک شاگرد کو ایک سرا پکڑوایا اور خود دوسرا سرا پکڑا اور کہا اسے نچوڑو۔اب شاگر د ہاتھ دائیں طرف گھما کر پانی نچوڑ رہا تھا اور قبلہ کا ہاتھ ادہر سے اگر دیکھا جائے تو مخالف سمت میں چل رہا تھا تاکہ پانی نچوڑتا رہے ۔ جب چادر کا پانی نکل گیا تو مولانا نے شاگردوں سے پوچھا ۔کیا بات تم لوگوں کی سمجھ میں آئی۔ دیکھو چادر کو سکھانے کے لئے ایک کا ہاتھ CLOCKWISE اور دوسری سمت والے کا اس کی مخالف سمت میں چل رہا ہے مگر مقصد دونوں کا ایک ہی ہے کہ کپڑے سے پانی نکال دیا جائے۔اسی طرح سے دونوں شہزادوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ نانا کے دین اسلام کو کسی طرح سے بچا لیا جائے ۔ایک نے صلح کا طریقہ استعمال کیا دوسرے نے کربلا میں روز عاشورہ جنگ کر کے اور قربانیاں دے کر اسلام کو بچایا۔ اور حسین ؑ بھی بھائی حسن ؑ کی ۰۵ ہجری میں شہادت کے بعد ۰۱ سال تک صبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔
بحکم حق کہیں پر صلح کر لیتے ہیں دشمن سے کہیں پر جنگ ِ خاموشی جواب ِ جنگ ہوتی ہے
زمانہ یہ سبق لے فاطمہ ؑکے دل کے ٹکڑوں سے کہاں پر صلح ہوتی ہے کہاں پر جنگ ہوتی ہے
امام حسن ؑ ایک ایسے ہادی اور رہنما تھے کہ جنہوں نے بچپن ہی سے دین کی تبلیغ اور رہنمائی کا کا م شروع کر دیا تھا۔ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ سرکار رسالت کو گود میں لے کر کہنا پڑا کہ یہ دونوں میرے فرزند امام ہیں چاہے کھڑے رہیں یا بیٹھ جائیں ۔ یہ دونوں جوانان ِ جنت کے سردار ہیںاور ان کا باپ ان سے بھی افضل ہے ۔ اب اگر امت کے بوڑھے بھی جنت میں جانے کے خواہش مند ہوں گے تو ان کو ان شہزادوں کو جنت کا سردار ماننا پڑے گا اور ان کے بابا کو افضل ماننا پڑے گا۔جنت ان کے قبضے میں ہے اور کوثر ان کے باپ کے قبضے میں ہے۔ ان کی ماں خاتون جنت ہے ۔ ان سے واسطہ رکھنا ہی پڑے گا. جب ہی تو اصحاب کبار اپنے بچوں کی شکایت کے جواب میں کہا کرتے تھے کہ اگر حسن ؑ ابن علی ؑ تم کو غلام زادہ کہتے ہیں تو ان سے لکھوا لاو ¿۔ہم ان کے غلام بن کر جنت میں چلے جائیں گے۔
شہزادہ ءصلح و امن ۔۔سردار جوانان ِ جنت ۔ سبط رسول ۔جانِ بتول۔ علی ؑ کا لاڈلا۔امام امت ۵۱ رمضان ۳ ہجری کو اس دنیا میں تشریف لائے۔۷ سال رسول کے زیر سایہ گزارا۔ نانا کے بعد ۰۹ دن یا ۵۷ دن خاتون جنت کا ساتھ رہا۔ماں کے بعد ۰۳ سال کا عرصہ بابا علی ِ ؑمرتضیٰ کے ساتھ گزارا۔ سنہ ۰۴ ہجری میں باپ کی شہادت کے بعد دس سال تک بیٹھ کر دین اسلام کی خدمت کی۔جن میں آپ کے چھوٹے بھائی امام حسین ؑ شریک کار رہے۔۷۴ سال کی عمر میںمعاویہ ابن سفیان نے جعدہ بنت اشعث کے ذریعے زہر دے کر آپ کو شہید کر دیا ۔آپ کی شہادت کی تاریخ وہی ہے جو نانا رسول خدا کی تھی یعنی ۸۲ صفر ۰۵ ہجری۔
رسول ٓللہ نے اپنے قول وفعل سے امام حسن ؑ کے فضائل بیان کئے ہیں۔نواسہ مسجد میں آجائے تو منبر سے اتر کر گودی میں بٹھا لیا کرتے تھے۔سجدے میں آجائے تو سر نہ اٹھاتے تھے۔عید کا دن تھا تو کاندھے پر بٹھا کر ناقہ بن گئے۔مباھلے کادن آیا تو انگلی پکڑ کر لے چلے۔تطہیر کی منزل آئی تو گلے سے لگا کر ضعف رسالت کو قوت میں تبدیل کر دیا۔ عید کا دن آیا تو بیٹی زہرا ؑ کی دہلیز پر بیٹھ کر امام حسن ؑ کے دہن اقدس کے بوسے لئے۔اور ہرنی کا بچہ آیا تو اسے شہزادے کے حوالے کر دیا۔
امیر امومنین ؑ علی ؑ ابن ابی طالب ؑ کے زمانے میں بھی اگر کوئی مسئلہ پوچھنے آتا تو آپ ؑ امام حسن ؑ سے ہی جواب دلواتے تھے۔سب ہی کی کتابوں میںہے کہ امام حسن ؑ گہوارہ سے ہی لوح محفوظ کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
امام حسن ؑ کے کردار پر نظر کی جائے تو اخلاق میں نبی کا انداز نظر آتا ہے ۔کردار میں علی ؑ کا انداز۔شجاعت میں ھاشم ؑ کا جلال ۔استقلال میں ابو طالب ؑ کے تیور ۔ ایمان و یقین میں عبدالمطلب ؑ کا نقشہ۔ خاندان کی عزت ۔ بزرگوں کی یادگار۔مذہب کا ذمہ دارا۔ اسلام کا خطیب۔صلح کا نقیب۔قرآن کامفسر۔اُمت کا مصلح۔کعبہ کا محافظ۔ اور سیرت رسول کا ایسا ورثہ دار کہ کہ ہجوم ِ مصائب میں طعن و طنز کے باوجود حدیبیہ کی تاریخ دہرا کر صلح کر لی اور اسلام کو ایک بڑے خطرے سے بچالیا۔قدرت کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ دونوں کی تاریخ وفات کو ایک کر دیا ۔ یعنی ۸۲ صفر۔ جس تاریخ کو پہلا مصلح دنیا سے گیا تھا اسی تاریخ کو دوسرا شہزادہ صلح بھی دنیا سے رخصت ہوا۔
قرآن مجید کی آیتیں اور مرسل اعظم ؑکے ارشادات امام حسن کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ آیة تطہیر عصمت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت مباھلہ صداقت کا اعلان کر رہی ہے۔ آیت صلح کردار پر روشنی ڈال رہی ہے ۔اور سورة دہر آپ کی سخاوت کا قصیدہ پڑھ رہی ہے ۔امام حسن امام معصوم ہیں ان کا ہر قول و فعل ، حرکت و سکون میزان عصمت میں تلا ہوا ہے۔، اور اعتراض سے بالا تر ہے۔ مستحق اتباع و تحسین ہے ممکن ہے کہ ہماری سمجھ میں کسی فعل کی مصلحت نہ آتی ہو۔
آئمہ علیہم السلام کے علم اللہ کے خاص عطا کردہ تھے انہوں نے کسی اسکول میں نہیں پڑھا تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ روم نے حاکم ِ شام سے دو سوال کے جواب مانگے تھے وہ عاجز آگیا تو اس نے مسئلے کو امام حسن ؑ کے سامنے پیش کیا اور آپ نے بتا دیا کہ زمین پر وہ جگہ جو آسمان کے ٹھیک وسط میں واقع ہے وہ پشت ِ خانہ ءکعبہ ہے ۔ اور زمین کا وہ خطہ جس پر سورج کی روشنی صرف ایک بار پڑی وہ نیل کی گہرائی ہے جس پر ایک دفعہ حضرت موسیٰ کے گزرتے ہوئے سورج کی روشنی پڑی تھی اور اس کے بعد پھر دریا حائل ہوگیا۔
امام حسن ؑ کا دستر خوان مدینہ منورہ میں بہت مشہور تھا ۔ ایک شخص مہمان آیا اورجب وہ کھانے بیٹھا تو ایک لقمہ کھاتا تھا اور ایک لقمہ بچا کر رکھ لیتا تھا ۔امام نے فرمایا تو صاحب عیال ہے َ؟ اس نے کہا۔ نہیں ۔ میں نے مسجد میں ایک شخص کو جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے دیکھا ہے چاہتا ہوں کہ اس کی بھی کچھ مدد کر دوں۔ امام نے فرمایا ۔ بھئی وہ میرے با با علی ؑ مرتضےٰ ہیں ۔ان کی زندگی کا یہی معمول ہے ۔ہم اہل بیت جو دنیا کو کھلاتے ہیں وہ اور ہوتا ہے اور جس پر خود اپنی زندگی گزارتے ہیں وہ اور ہوتا ہے۔ہمارے لئے نعمتوں کا دسترخوان اللہ نے آخرت میں بچھایا ہے۔
ایک دفعہ معاویہ نے مدینہ آکر اعلان کیا کہ لوگ بادشاہ کو آکر سلام کریں اور بادشاہ سب کو انعام و اکرام تقسیم کرے گا۔ یہانتک کہ امام حسن ؑ کو اس کے کارندے مجبور کر کے اس کے پاس لے آئے۔ امام حسن جب پہنچے تو اس نے ارکان سلطنت سے کہا کہ حسن اس لئے دیر سے آئے ہیں کہ میرا خزانہ ختم ہو جائے۔ لہذا میں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ صبح سے سارا دن جتنا مال ،سارا اہل مدینہ کو انعام دیا ہے اس سے زیادہ ان کو دوں۔ یہ کہہ کر اس نے خزانہ منگوایااور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ امام جب جانے لگے تو معاویہ کے ایک ملازم نے آپ کی جوتیاں سیدھی کر دیں ۔مولا نے حکم دیا کہ یہ سب دولت میری جوتی سیدھی کرنے کے عوض اس ملازم کو دے دی جائے۔ مولا کی سخاوت پر حضرت معاویہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
شہادت امام حسن
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ امام حسن اپنے اہلبیت سے فرمایا کرتے تھے کہ میں بھی زہر سے اسی طرح شہید کیا جاو ¿ں گا جس طرح رسول ِ خدا ۔ لوگوں نے پوچھا ایسا کام کون کرے گا ۔آپ نے فرمایا میری زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس۔معاویہ اس کے پاس پوشیدہ طریقے سے زہر بھجوائے گا اور حکم دے گا کہ وہ مجھ کو کھلا دے۔۔۔۔۔(جلاءالعیون ۔قطب راوندی) ۔۔جعدہ سے یہ معاویہ نے وعدہ کیا تھا کہ تجھ کو ایک لاکھ درہم دوں گا اور اپنے بیٹے یزید سے تیری شادی کر دوں گا۔ (مروجالذہب مسعودی)معاویہ نے امام حسن ؑ کو زہر دینے کے بعد علیٰ الاعلان خوشی منائی اور آواز ِ تکبیر بلند کی۔ امام کا جنازہ جب قبر رسولؑ پر لے گئے تو انتہائی دردناک منظر پیش آیا جس پر مومنین قیامت تک روئیں گے۔ بلکہ انسانیت ماتم کرے گی۔مردہ جسم پر تیروں کی بارش کی گئی حتیٰ کہ میت کے جسم سے متعدد تیر نکالے گئے۔امام کو اپنے نانا کے پہلو میں دفن نہیں کرنے دیا گیا ۔ اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔