البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321270 / ڈاؤنلوڈ: 9577
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

پس خالق متعال نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ازدواج کی سنت حیوانات سے ہی مختص نہیں ہے بلکہ نباتات اور ان کی تمام اقسام میں بھی اس سنت پر عمل ہوتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

( وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ ) ۱۳:۳

''اور اس نے ہر طرح کے میووں کی دو دو قسمیں پیدا کیں۔

( سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ) ۳۶:۳۶

''وہ (ہر عیب سے) پاک صاف ہے جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے۔،،

جن رازوں کو قرآن کریم نے منکشف کیا ہے ان میں سے ایک حرکت زمین ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا ) ۲۰:۵۳

''وہ ہی ہے جس نے تمہارے (فائدے کے)واسطے زمین کو (گہوارہ) بنایا۔،،

توجہ فرمائیں! یہ آیہ شریفہ کس دلکش انداز میں حرکت کی طرف اشارہ اور اس حقیقت کو بے نقاب کررہی ہے جسے انسان صدیوں سے سمجھ سکا ہے، اس آیہ شریفہ میں زمین کو ''مہد،، (گہوارہ) سے تعبیر کیا جارہا ہے جو شیر خوار بچوں کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے تاکہ اس کی آہستہ اور پرسکون حرکت سے بچہ آرام کی نیند سوجائے۔ کرہئ زمین بھی انسان کے لیے گہوارہ کی مانند جس کی حرکت وضعی اور حرکت انتقالی کے نتیجے میں اس پر بسنے والی مخلوق کو آرام و سکون ملتا ہے، جس طرح گہوارے کی حرکت کے ساتھ ساتھ بچہ پرورش پاتاہے اسی طرح زمین کی روزانہ اورسالانہ حرکت کے نتیجہ میں انسان اور کائنات کی دوسری مخلوقات پرورش پاتی ہیں۔

۱۰۱

آپ نے دیکھا کہ اس آیہ کریمہ میں حرکت زمین کی طرف ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ زمین کے لئے حرکت کرتی ہے۔ اس لیے کہ یہ آیہ کریمہ ایسے زمانے میں نازل کی گئی جب تمام عقلاء زمین کے ساکن ہونے پر متفق تھے بلکہ اسے مسلمات میں شمار کیا جاتا تھا اور یہ امر قابل شک و تردید نہیں تھا۔(۱)

جن بھیدوں کو قرآن کریم نے چودہ صدیاں قبل آشکارا کیا ان میں سے ایک، ایک اور براعظم کے وجود کا انکشاف ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ) ۵۵:۱۷

''وہی (جاڑے گرمی کے) دونوں مشرقوں کا مالک اور دونوں مغربوں کا (بھی) مالک ہے۔،،

یہ آیہ کریمہ کئی سال تک مفسرّین کی توجہات کا مرکز بنی رہی اور اس کی تفسیر میں مختلف نظریئے قائم کئے گئے۔ بعض مفسرین نے فرمایا، ''مشرقین،، سے مراد شرق شمس اور غرب قمر ہے۔ بعض نے فرمایا ''مشرقین،،سے مراد موسم سرما و گرما کے طلوع و غروب ہیں۔ لیکن ظاہراً ایسا نہیں ہے، بلکہ اس آیہ شریفہ ''مشرقین،، ایک اور برّاعظم کی طرف اشارہ ہے جو کہ دوسری سطح پر ہے، جہاں سورج جب طلوع ہوتا ہے تو دوسری طرف غروب ہوجاتا ہے، اس نظریہ کی دلیل یہ آیہ شریفہ ہے:

( حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ ) ۴۳:۳۸

''جب (قیامت میں ) ہمارے پاس آئے گا تو (اپنے ساتھی شیطان سے) کہے گا کاش مجھ میں اور تجھ میں پورے پچھم کافاصلہ ہوتا۔،،

____________________

(۱) ایک ہزار ہجری کے بعدکلیلو نے جرت کرتے ہوئے زمین کی دو حرکتیں ''وضعیہ اور انتقالیہ،، ثابت کیں جس کی وجہ سے اس کی سخت توہین کی گئی اور اس پر اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ قریب المرگ ہویا۔ اس کے بعد اس عظیم علمی شخصیت کو طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا، جس کے بعد یورپی سائنس دان چرچ کی قدامت پسندانہ خرافات کے خوف سے اپنی جدید اور عمدہ تحقیق کو پوشیدہ رکھنے لگے جو ان فرسودہ خرافات کے خلاف تھی۔

۱۰۲

اس آیہ کریمہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقین کے درمیان فاصلہ ان تمام مسافتوں سے زیادہ ہے جنہیں انسان محسوس کرسکتا ہے اور شرق شمس اور شرق قمر کے درمیان فاصلہ اتنا زیادہ نہےں ہے جو تمام مسافتوں سے زیادہ ہو، اس لیے مشرقین سے مراد مشرق و مغرب کی مسافت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کرہئ ارض کے ایک حصّے کا مغرب، دوسرے حصّے کا مشرق ہے اور اسی صورت میں ''مشرقین،، کا اطلاق صحیح ہوگا۔ بنابراین آیہ کریمہ زمین کے جزء کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے جس کا انکشاف نزولِ قرآن کے سینکڑوں سال بعد کیا گیا ہے۔

اسی بناء پر قرآنِ کریم میں ''مغرب،، اور ''مشرق،، جہاں واحد کی صورت میں استعمال کئے گئے ہیں، اس سے مراد جنس مشرق اور مغرب ہے۔ جس طرح ''خلق الانسان،، ہے۔ ورنہ انسان ایک نہیں اربوں ہیں۔ جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے:

( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رُخ کرلو، وہیں خدا کا سامنا ہے۔،،

اور جہاں ''مشرق،، اور ''مغرب،، کو تثنیہ کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد دوسرا براعظم ہے جو زمین کی دوسری سطح پر ہے۔ جہاں ''مغرب،، اور ''مشرق،، کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس سے مراد زمین کے مختلف حصے ہیں، جس طرح ان آیات میں ہے:

( وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ ) ۷:۱۳۷

''اور جن بے چاروں کو یہ لوگ کمزور سمجھتے تھے انہی کو (ملکِ شام کی) زمین کے پورپ پچھم (سب) کا وارث (و مالک) بنا دیا۔،،

۱۰۳

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ) ۳۷:۵

''جو سارے آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور مشرقوں کا پروردگار ہے۔،،

( فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ ) ۷۰:۴۰

''تو میں مشرقوں و مغربوں کی پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم ضرور اس بات کی قدرت رکھتے ہیں۔،،

ان آیات کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ طلوع شمس اور غروب شمس کے مقامات متعدد ہیں اور اس میں زمین کے گول ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کیونکہ جب سورج کرہئ ارض کے ایک رخ پر طلوع ہوگا تو لامحالہ دوسرے رُخ پر غروب ہوگا۔

یہ مسئلہ واضح ہے، متعدد مشرق و مغرب ثابت کرنے کے لیے کسی زحمت کی ضرورت نہیں ہے، جس میں قرطبی پڑگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''مشارق و مغارب،، سے مراد ایامِ سال کے مشرق و مغرب ہیں۔(۱) لیکن اس زحمت کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ طلوع آفتاب کی کوئی خاص اور معین جگہیں نہیں ہیں جن کی قسم کھائی جائے، بلکہ زمینوں کے حصّے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ''مشارق،، بھی مختلف ہیں۔ پس معلوم ہو ا کہ ''مشارق،، اور ''مغارب،، سے مراد زمین کے وہ حصّے ہیں

جو زمین کے گول اور متحرک ہونے کی وجہ سے بتدریج سورج کے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ائمہ (علیہم السلام) کی روایات، دعائیں اور خطبے بھی زمین کے گول ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

___________________

(۱) یعنی جتنے دن ہوں گے اتنے ہی مشرق و مغرب ہوں گے۔(مترجم)

۱۰۴

صحبنی رجل کان یمسی بالمغرب و یغلس بالفجر، و کنت انا اصلی المغرب اذا غربت الشمس، اصلی الفجر اذا استبان الفجر ۔فقال لی الرجل: ما یمنعک ان تصنع مثل ما اصنع؟ فان الشمس تطلع علی قوم قبلنا و تغرب عنا، و هی طالعة علی قوم آحرین بعد ۔فقلت: انما علینا ان نصلی اذا وجبت الشمس عنا و اذا طلع الفجر عندنا، و علی اولئک ان یصلوا اذا غربت الشمس عنهم (۱)

''بعض سفروں میں میرا ایک ہمسفر، نماز مغرب، رات گئے اور نماز صبح، آخر شب(۲) میں پڑھا کرتا تھا، جبکہ میں نماز مغرب، غروب آفتاب اور نماز صبح، طلوع فجر کے فورا بعد پڑھ لیا کرتا تھا۔ اس شخص نے مجھ سے کہا: آپ بھی میری طرح نماز پڑھیئے، بعض لوگوں پر (دوسرے شہروں میں) سورج ہم سے پہلے طلوع ہوجاتا ہے اور اس وقت ہماری طرف غروب ہوتا ہے اور بعض مقامات پر سورج ابھی موجود ہوتا ہے، میں نے اس شخص سے کہا: ہماری شرعی تکلیف یہ ہے کہ جب ہماری طرف سورج غروب ہو تو نماز مغرب پڑھیں اور جب ہمارے یہاں طلوع فجر ہو تو نماز صبح پڑھیں اور دوسرے شہروں کے لوگوں کی شرعی تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے شہروں کے غروب کے مطابق نماز پڑھیں۔،،

اس روایت میں امام کا ہمسفر، زمین گول ہونے کی وجہ سے مشرق و مغرب میں جو تفاوت پیدا ہوتا ہے اس سے اپنے مدعا پر استدلال کررہا تھا امام نے اس کی اس بات سے اتفاق کیا لیکن نماز کے سلسلے میں جو شرعی تکلیف ہے اس کی طرف اسے متوجہ کیا۔

اس قسم کی دوسری روایت میں امام فرماتے ہیں:

انما علیک شرقک و مغربک

''تجھے اپنے مشرق و مغرب کا خیال رکھنا چاہیے،،

اسی طرح امام زین العابدین اپنی صبح و شام کی دعاؤں میں فرماتے ہیں:

و جعل لکل واحد منهما حداً محدوداً، و أمداً ممدوداً، یولج کل واحد منهما فی صاحبه، و یولج

''اور خدا نے ایک خاص اندازے کے مطابق دن اور رات کے لیے ایک معین حد اور خاص مدّت مقرر کی وہ دن

____________________

(۱) الوسائل، ج ۱، ص ۲۳۷، باب ۱۱۶، ان الوقت المغرب غروب شمس۔

(۲) قبل از طلوع فجر (مترجم)

۱۰۵

صاحبه فیه بتقدیر منه للعباد (۱)

کو رات میں داخل کرتا ہے اور اسی وقت رات کو دن میں داخل کرتا ہے، اسی اندازے کے مطابق جو اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔،،

امام اپنے اس شیریں اور دلکش بیان سے زمین گول ہونے کی وضاحت فرمارہے ہیں، چونکہ یہ مطلب اس زمانے کے لوگوں کے ذہنوں سے بہت دور تھا اس لیے آپ نے ایک بلیغ انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اگر امام یہ بتانا چاہتے کہ کبھی رات گھٹ جاتی ہے اور دن اسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے اور کبھی دن گھٹ جاتا ہے اور رات اسی تناسب سے لمبی ہو جاتی ہے، جس کا مشاہدہ عام لوگ بھی کرتے ہیں تو امام صرف پہلے جملے ''یولج کل واحد منھما فی صاحبہ،، پر اکتفاء کرتے اور دوسرے جملے ''یولج صاحبہ فیہ،، کی ضرورت نہ ہوتی اس بناء پر دوسرا جملہ یہ بتانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ جب دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت رات کو بھی دن میں داخل کیا جاتا ہے اسی طرح جب رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو دن کو بھی رات میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ ظاہر کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا جملہ پہلے جملے کی حالت بیان کررہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام کی یہ تعبیر زمین کے گول ہونے کے علاوہ اس حقیقت پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جب ہمارے یہاں رات کو دن میں داخل کیا جاتا ہے تو اسی وقت دوسرے شہروںمیں دن کو رات میں داخل کیا جاتا ہے اگر امام اس اہم نکتے کی طرف اشارہ نہ فرمانا چاہتے تو اس دوسرے جملے ''و یولج صاحبہ،، کا کوئی فائدہ نہ ہوتا بلکہ یہ معنوی اعتبار سے پہلے جملے کی تکرار ہوتا۔

ہم اس کتاب میں اعجاز قرآن کے انہی مذکورہ پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم وحی الہٰی ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے وی الہی ہونے کو ثابت کرنے کےلئے یہی دلیل کافی ہے کہ قرآن وہ یگانہ مدرسہ ہے جس کی فارغ التحصیل ذات اقدس حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ہیں جن کا کلام سمجھنے کے بعد بڑے بڑے دانش مند فخر کرتے ہیں اور جن کے بحر علم سے نامور محققین سیراب ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) صحیفہ سجادیہ کامل

۱۰۶

نہج البلاغۃ کے خطبات آپ کے سامنے ہیں۔ جب آپ کسی موضوع پر لب کشائی فرماتے تو اس میں کسی اور کے لیے گنجائش باقی نہ رہنے دیتے۔ حتیٰ کہ جن کو آپ کی معرفت نہیںہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی ساری عمر اسی موضوع پر تحقیق کرنے میں گزار دی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے علوم و معارف وحی الہٰی سے جاملتے ہیں کیونکہ جو آدمی جزیرۃ العرب خاص کر حجاز کی تاریخ سے آگاہ ہے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ علوم سرچشمہئ وحی سے نہیں لئے گئے۔

نہج البلاغۃ کی تعریف میں یہ جملہ بہترین کہا گیا ہے:

''انه دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق،،

''بیشک یہ کلامِ خالق سے نیچے اور کلامِ مخلوق سے بالاتر ہے۔،،

بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ علی (علیہ السلام) جیسے فصیح و بلیغ اور دریائے علم و عرفان انسان کا اعجاز قرآن کی تصدیق کرنا خود اس کی دلیل ہے کہ قرآن اعجام الہٰی ہے۔ کیونکہ یہ مسلم ہے کہ آپ نے جہالت سے دھوکے میں آکر تصدیق نہیں کی اور یہ ممکن بھی نہیں اس لیے کہ آپ فصاحت و بلاغت کے بادشاہ، تمام اسلامی علوم کا سرچشمہ اور علوم و معارف کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ دوست اور دشمن آپ کی شخصیت اور فضیلت کے معترف ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ آپ کی تصدیق ظاہری اور سطحی ہو جو دنیاوی منفعت اور جاہ و مال کی خاطر کی گئی ہو، کیونکہ آپ کی ذات مجسمہئ زہد و تقویٰ ہے، جس نے دنیا اور اس کی زینتیں پس پشت ڈال دی تھیں اور مسلمانوں کی حکومت کو اس وقت ٹھکرا دیا تھا جب سیرت شیخین پر چلنے کی شرط لگائی گئی تھی، یہ وہی علی (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے معاویہ کے ساتھ اتنی بھی نرمی نہ برتی کہ چند دن اس کے پاس شام کی حکومت رہنے دیتے جبکہ آپ جاتنے تھے کہ اس کو حکومت سے معزول کرنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔

لہٰذا ماننا پڑے گا کہ اعجاز قرآن کی یہ تصدیق ایک حقیقی تصدیق تھی جو واقعے کے بالکل مطابق تھی اور جس کی اساس سچا ایمان تھا۔

۱۰۷

اعجازِ قُرآن اور اوہام

٭ پہلا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ دوسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ تیسرا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چوتھا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ پانچواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ چھٹا اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ ساتواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ آٹھواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ نواں اعتراض ۔۔۔ جواب

٭ قرآن کا مقابلہ

۱۰۸

قرآن نے پوری انسانیت کو قرآن کی ایک سورۃ کی مثل لانے کا چلنج کیا۔ مگر کوئی انسان اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔ دشمنانِ اسلام و دین کو یہ امر نہایت گراں گزرا اور انہوں نے اپنے خیالی شبہارت کے ذریعے قرآن کریم کو اس کے بلند مقام سے گرانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے فاسد مذہب کی تائید کرسکیں۔

بہتر ہے کہ ہم ذیل میں وہ شبہات بیان کریں جن پر انہوں نے اپنا وقت ضائع کیا ہے تاکہ ان دشمنان قرآن و اسلام کی علمی سطح سامنے آجائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ خواہشات نفسانی انہیں کس طرح گمراہ کن راستوں اور ہلاکتوں کے گڑھے میں پھینکتی ہیں۔

پہلا اعتراض

قرآن کی کچھ باتیں بلاغت کے اعتبار سے معیاری نہیں ہیں کیونکہ وہ عربی قواعد کے خلاف ہیں اور ایسی باتیں معجزہ نہیں ہو سکتیں۔

جواب:

یہ اعتراض دو لحاظ سے باطل ہے:

اولاً: قرآنِ کریم فصحاء و بلغاء عرب کے درمیان نازل ہوا اور ان کو ایک سورۃ تک کے مقابلے کا چیلنج کیا اور یہ بھی اعلان کردیا کہ چاہے سب ملک کر اس کے مقابلے میں آجائیں لیکن قرآن سے مقابلہ کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ اگر قرآن میں کلام و قواعدِ عرب کے خلاف کوئی بات ہوتی تو عرب بلغاء جو اسلوب لغت اور اس کی خصوصیات سے آگاہ تھے، فوراً اس کی نشاندھی کرتے، اسے قرآن کے خلاف حجّت و دلیل قرار دیتے اور انہیں زبانوں اور تلواروں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اگر قرآن میں ایسی کوئی بات ہوتی تو تاریخ اسے محفوظ کرلیتی۔ اسے دشمنانِ اسلام تواتر کے ساتھ نقل کرتے اور اس کا چرچا ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کسی بات کو خبرِ واحد بھی نقل نہیں کیا گیا۔

۱۰۹

ثانیاً: قرآن کریم ایسے دور میں نازل کیا گیا، جب قواعد عربی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ان قواعد و ضوابط کو نزولِ قرآن کے بعد بلغاء کے کلمات کے تتبع اور ان کی ترکیبوں کی جستجو کرکے مرتب کیا گیا اور اسے ایک مستقل علم کی شکل دی گئی۔ بغرض تسلیم اگر قرآن کو وحی الہٰی نہ مانا جائے، جس کا کہ فریق مدعی ہے، تب بھی اس کے بلیغ عربی کلام ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ اس بناء پر قرآن کو قواعدِ عربیہ کا مدرک ہونا چاہیے اور اس کا مرتبہ پیغمبر اسلامؐ کے ہم عصر دوسرے بلغاء کے کلام سے کم نہیں ہونا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عربی گرائمر کے جدید کلیے قرآن کے خلاف ہوں تو یہ جدید کلیوں کے ٹوٹنے کے متراف ہوگا اور ان کی وجہ سے قرآن استعمال پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ یہ اعتراض اس وقت درست ہوتا جب قرآن کی تمام قراءتیں مورد اعتراض عبارت پر متفق ہوتیں۔

انشاء اللہ ہم ثابت کریں گے کہ تمام مشہور قراءتیں قاریوں کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور یہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر کے ساتھ منقول نہیں ہیں۔ اس بناء پر ان میں سے کسی پر اگر اعتراض کیا جائے تو یہ صرف اسی قراءت پر اعتراض ہوگا اور اس سے قرآن کی عظمت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔

۱۱۰

دوسرا اعتراض

کلام بلیغ معجزہ نہیں ہوسکتا، اگرچہ انسان اس کی نظیر پیش نہ کرسکے۔ کیونکہ اس کی بلاغت اور اس کے معجزہ ہونے کے تمام افراد نہیں سمجھ سکتے بلکہ بعض خاص اور محدود افراد سمجھ سکتے ہیں۔

معجزہ وہ ہوسکتا ہے جس کے اعجاز کو تمام انسان سمجھ سکیں، کیونکہ ہر فرد مکلّف ہے کہ وہ صاحب معجزہ کی تصدیق کرے۔

جواب:

پہلے اعتراض کی طرح اس اعتراض کا بھی کوئی وزن نہیں ہے، اس لیے کہ معجزہ کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ تمام لوگ معجزہ کو درک کرسکیں۔ اگر معجزہ کے لیے یہ شرط ہوتی تو کوئی معجزہ معجزہ نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اعجاز کو مخصوص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو دوسروں کے نزدیک تواتر سے ثابت ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بتایا ہے کہ قرآن کو دوسرے معجزات کی نسبت یہ امتیاز حاصل ہے اگرچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تواتر کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، لیکن قرآن ایک ایسا ابدی معجزہ ہے جو اس وقت تک باقی رہے گا جب تک عرب قوم باقی ہے بلکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک ایسا آدمی موجود ہے جو لغت عرب کی خصوصیات سمجھ سکتا ہے، چاہے وہ عرب نہ بھی ہو۔

۱۱۱

تیسرا اعتراض

کوئی بھی انسان جو عربی لغت سے آشنائی رکھتا ہو، الفاظ قرآن میں سے کسی کلمہ کی مثل پیش کرسکتا ہے۔ جب ایک کلمے کی مثل لانا ممکن ہے تو پورے قرآن کی مثل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ مثلوں (یکساں چیزوں) کاحکم ایک ہی ہوا کرتا ہے۔(۱)

جواب:

یہ ایسا اعتراض ہے جو ذکر اور شمار میں لانے کے قابل ہی نہیں۔ کیونکہ کلمات قرآن میں سے ایک کلمہ، بلکہ جملوں میں سے ایک جملہ کے مثل لانے پر بھی قادر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ پورے قرآن یا ایک سورۃ کی مثل لانے پر بھی قادر ہو، کیونکہ مواد اور مفردات پر قادر ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ترکیب پر بھی قادر ہو۔

اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ ہر انسان دو تین ا نٹییں جوڑ سکتا ہے اس لیے وہ پوری عمارت بنانے پر بھی قادر ہے، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا کہ چونکہ ہر عرب ایک کلمہ مفردات بنانے کی قدرت رکھتا ہے اس لیے وہ خطبے اور قصیدے بھی کہہ سکتا ہے اور یہی شبہ و اعتراض اس کا باعث بنا کہ نظام (نامی شخص) اور اس کے تابعین اعجازِ قرآن کے بارے میں صرفہ(۲) کے قائل ہوگئے اور یہ قول و نظریہ انتہائی ضعیف ہے کیونکہ:

____________________

(۱) اگر یکساں چیزوں میں سے ایک جائز ہے تو دوسری بھی جائز ہوگی اور اگر ایک ناجائز ہے تو دوسری بھی ناجائز ہوگی۔ (مترجم)

(۲) یعنی انسان تو قرآن کی نظیر لانے پر قادر ہے مگر خدا اس میں مانع ہے۔

۱۱۲

اولاً: اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ خدا انسان کو قرآن کی نظیر پیش کرنے کی قدرت دے سکتا ہے لیکن خدا نے یہ قدرت کسی کو بھی عطا نہیں کی تو یہ مطلب بذاتِ خود صحیح ہے لیکن یہ صرف قرآن سے مختص نہیں ہے بلکہ ہر معجزہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے اور اگر ''صرفہ،، کا مطلب یہ ہو کہ لوگ تو قران کی نظیر پیش کرنے پر قادر ہیں لیکن خدا ان کو مقابلہ کرنے سے روکتا ہے تو اس بُطلان واضح ہے۔ کیونکہ بہت سوں نے قرآن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور انوہں نے اپنی عاجزی کا اعتراف کرلیا۔

ثانیاً: اعجاز قرآن اگر صرفہ کی وجہ سے ہوتا تو قرآن کے اس چیلنج سے قبل عربوں کے کلام میں اس کی نظیر موجود ہونی چاہیے تھی اور اگر اس کی نظیر موجود ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا کیونکہ اس کے نقل کئے جانے کے عوامل اور مقتضی بہت سے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگو ںکے کلام میں کہیں بھی اس کی نظیر موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسے نقل کیا گیا ہے۔

اس سے ہم اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں کہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے اور یہ بشر کی طاقت سے باہر ہے۔

۱۱۳

چوتھا اعتراض

اگر اعجام قرآن مان بھی لیا جائے پھر بھی نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت ثابت نہیں ہوتی جن پر یہ نازل ہوا ہے، کیونکہ قرآن کے قصّے اور واقعات عہد جدید و قدیم کے قصّوں اور واقعات سے مختلف ہیں جن کا وحی الہٰی ہونا تواتر سے ثابت ہے۔

جواب:

قرآن کی طرف سے عہد جدید و قدیم کی کتب میں موجود خرافات اور بے ہودہ قصّوں ہی کی وجہ سے ان کے وحی الہٰی ہونے میں باقی ماندہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن خرافات، شبہات اور ان باتوں سے پاک ہے جن کی خدا اور

انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے نسبت دینا عقلی طور پر جائز نہیں ہے اس بناء پر قرآن کا کتبِ عہدین کے خلاف ہونا ہی اس کے وحیِ الہٰی ہونے کی دلیل ہے۔ ہم گذشتہ مباحث میں کتبِ عہدین میں موجود خرافات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔

پانچواں اعتراض

قرآن کریم تضاد کا شکار ہے۔ لہٰذا وحی الہٰی نہیں ہوسکتا ان کے خیال میں یہ تضاد بیانی دو جگہ کی گئی ہے۔

پہلی جگہ: خدا کا یہ فرمان:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ ) ۳:۴۱

''ارشاد ہوا کہ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے بات نہ کرسکو گے مگر اشارے سے۔،،

اس آیت کے متضاد ہے:

( قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَ لَيَالٍ سَوِيًّا ) ۱۹:۱۰

''حکم ہوا تمہاری پہچان یہ ہے کہ تم تین رات (دن) برابر لوگوں سے بات نہیں کرسکو گے۔،،

۱۱۴

جواب:

کبھی تو ''یوم،، سے مراد دن کی سفیدی ہوتی ہے، جس طرح اس آیت کریمہ میں ہے:

( سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''خدا نے اسے (ہوا کو) سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر چلایا۔،،

''مقرر کردیا اس کو ان پر سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار،،

اور کبھی ''یوم،، سے مراد دن رات کا مجموعہ ہوتا ہے، جس طرح اس آیت میں ہے:

( تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ) ۱۱ :۶۵

''تب صالح نے کہا اچھا تین دن تک (اور) اپنے اپنے گھر میں فائدہ اٹھالو۔،،

اسی طرح کبھی ''لیل،، سے مراد وہ سارا عرصہ ہوتا ہے جس میں سورج غائب رہتا ہے۔ چنانچہ آیہ میں ہے:

( وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ) ۹۲:۱

''رات کی قسم جب (سورج) کو چھپالے۔،،

( سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا ) ۶۹:۷

''سات رات اور آٹھ دن لگاتار ان پر ہوا چلائی۔،،

اور کبھی اس سے رات کی تاریکی اور دن دونوں مراد ہوتے ہیں جس طرح اس آیہ میں ہے:

( وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ) ۲:۵۱

''اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے موسی سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔،،

۱۱۵

لفظ لیل و نہار ان دونوں معنوں میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور مذکورہ ان دونوں آیتوں میں ''یوم،، اور ''لیل،، دوسرے (دن اور رات کے) معنی ہیں استعمال کیے گئے ہیں۔ تضاد کا تو ہم اس صورت میں ہوسکتا تھا جب ''یوم،، اور ''لیل،، پہلے معنی(۱) میں استعمال ہوں۔ یہ سب ایک واضح اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ لیکن بعض توہم پرست قرآن کی عظمت کم کرنے کے خیال سے اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں جبکہ ان دونوں کلموں ''یوم،، و ''لیل،، کے استعمال سے انجیل پر جو تضاد بیانی لازم آتی ہے اس سے یہ غافل ہیں یا تغافل سے کام لیتے ہیں۔

انجیل متیٰ کے بارہویں باب میں مذکور ہے:

''مسیح نے خبر دی کہ ان کا جسم تین دن یا تین رات زیر زمین مدفون رہے گا۔،،

جبکہ اسی انجیل متیٰ اور باقی تین انجیلوں کا اتفاق ہے کہ حضرت مسیح روز جمعہ کے آخری کچھ وقت، ہفتہ کی رات اور زمین اور اتوار کی رات، صبح سے پہلے تک زیر زمین رہے۔

انجیلوں کے آخری حصّے کا مطالعہ کری اور پھر انجیل متیٰ کے لکھنے ولوں اور اس کی وحی الہٰی سمجھنے والوں سے پوچھیں کہ تین دن اور تین راتیں کیسے بنتی ہیں؟

مقام حیرت ہے کہ مغربی سائنس دان اور مفکّرین کتب عہدین، جو خرافات اور تضادات سے بھری پڑی ہیں، پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے جو بشر کی ہدایت اور دنیا و آخرت میں سبکی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن تعصّب ایک ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں اور حق کے متلاشی کم ہی ہوتے ہیں۔

____________________

(۱) یوم: دن کی روشنی ۔۔۔ لیل: رات کی تاریکی۔ (مترجم)

۱۱۶

دوسری جگہ: قرآن کبھی تو اعمال کی نسبت بندوں کی طرف دیتا ہے اورکہتا ہے کہ بندے اپنے ارادہ و اختیار سے اعمال انجام دیتا ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ) ۱۸:۲۹

''بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے۔،،

اس معنی کی اور بہت سی آیات ہیں جو انسانوں کے اپنے اعمال اور افعال میں خود مختار ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور کبھی

یہ افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتا ہے اور اسی کو مختار کل قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ ) ۷۶:۳۰

''جب تک خدا کو منظور نہ ہو تو لوگ کچھ بھی چاہ نہیں سکتے۔،،

مخالفین قرآن کا گمان یہ ہے کہ اس آیہ کے مطابق بندے اپنے افعال میں مجبور ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک واضح تضاد ہے اور ان آیات کی توجیہ و تاویل کرناظاہر قرآن کے خلاف اور دعویٰ بلا دلیل ہے۔

جواب: ہر انسان فطری طور پر یہ سمجھتا ہے کہ بعض افعال اس کی قدرت اور اختیار میں ہیں جنہیں وہ انجام بھی دے سکتا ہے اور ترک بھی کرسکتا ہے۔ یہ ایک فطری حکم اور فیصلہ ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں! اگر بیرونی عوامل کی وجہ سے کوئی شک و شبہ پیدا ہوجائے تو دوسری بات ہے۔

چنانچہ تمام عقلاء کا اتفاق ہے کہ برے کاموں پر انسان کی مذمت کی جاتی ہے اور نیک کاموں پر اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنے کاموں میں خود مختار ہے اور وہ یہ افعال انجام دینے پر مجبور نہیں ہے۔

۱۱۷

مثلاً عقلمند بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اگرچہ بعض افعال اس کے دائرہئ اختیار میں ہیں چاہے وہ انہیں انجام دے اور چاہے انہیں ترک کردے لیکن ان کے اکثر مقدمات اس کے اختیار سے باہر ہیں۔ مثلاً ان مقدمات میں انسان کا اپنا وجود، زندگی، کسی فعل کو درک کرنا اور اس فعل کا شوق اور اسے چاہنا، اس فعل کا انسانی خواہشات میں سے کسی ایک خواہش سے سازگار ہونا اور اس کے ایجاد پر قادر ہونا۔ یہ امور ان مقدّمات میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے اس قسم کے مقدّمات انسان کے اختیار سے خارج ہیں اور ان امور کی موجد اور فاعل حقیقی وہی ذات ہے جو خود انسان کی موجد اور خالق ہے۔

یہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے کہ انسان میں موجود ان اشیاء کا خالق انہیں خلق فرمانے کے بعد منعزل اور دست بردار نہیں ہو جاتا بلکہ یہ اشیاء اپنی بقاء کے لیے ہر لمحہ میں اس موثر اور خالق حقیقی کی محتاج ہےں۔

خالق کائنات کی مثال ایک معمار کی سی نہیں ہے کہ وہ اپنی کاریگری سے ایک مرتبہ دیوار بنا دے اور اس کے بعد دیوار اپنے بنانے والے سے بے نیاز ہو جائے اور بنانے والے کے مرنے کے بعد بھی یہ دیوار قائم دائم رہے۔ اور نہ اس مؤلف کی طرح ہے کہ کتاب اپنے وجود میں تو اس کی محتاج ہے لیکن اپنی بقا میں اس سے بے نیاز ہے بلکہ خالق کائنات کی مثال (''و للہ المثل الا علیٰ،، یعنی اگرچہ خدا تمام مثالوں سے بالاتر ہے) اس بجلی کے پاور ہاؤس کی مانند ہے جو روشنی کے لیے مؤثر ہے۔ ظاہر ہے جب تک تاروں کے ذریعے پاور ہاؤس سے کرنٹ نہ ملے روشنی نہیں ہوسکتی اور روشنی، ایک مرتبہ روشنی ملنے کے بعد بھی اپنی بقاء میں لمحہ بہ لمحہ اس کرنٹ اور پاور کی محتاج ہے اور جب بلب کی تار پاور ہاؤس سے جدا ہو جائے تو فوراً اس کی روشنی ختم ہو جاتی ہے گویا کہ روشنی کبھی تھی ہی نہیں۔

اسی طرح پوری کائنات اپنے وجود اور بقاء دونوں میں اپنے موجد اور خالق کی محتاج ہے اور ہر آن و لحظہ اس کی مدد کی نیاز مند ہے اور اس رحمتِ واسعہ سے مستفیض ہوتی رہتی ہے جو ہر چیز کو شامل ہے۔ اس بیان کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ انسانی اعمال و افعال، جبر و تفویض کا ایک درمیانی راستہ ہے اور انسان جبر و تفویض دونوں سے بہرہ مند ہے۔ کیونکہ اگرچہ انسان فعل و ترک میں خدا داد قدرت سے کام لینے میں خود مختار ہے لیکن جس قدرت و طاقت سے یہ کام انجام پارہا ہے وہ ہر آن اور ہر لمحہ اللہ کی طرف سے مل رہی ہوتی ہے۔

۱۱۸

اس بنا پر افعال ایک لحاظ سے بندوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور دوسرے اعتبار سے خدا کی طرف اور یہ قرآنی آیات اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں یعنی افعال و اعمال میں انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان افعال میں قدرت الہٰی کار فرما نہ ہو۔ ہم ذیل میں اس سے ملتی جلتی ایک مثال پیش کریں گے تاکہ ''امر بین الامرین،، کی حقیقت قارئین محترم کے سامنے واضح ہو جائے اس کے شیعہ امامیہ قائل ہیں۔ ائمہ معصومین نے جس کی تصریح فرمائی ہے اورکتابِ الہٰی بھی جس کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

فرض کیجئے کسی انسان کا ہاتھ مفلوج ہے اور وہ اسے حرکت نہیں دے سکتا لیکن ایک ڈاکٹر کرنٹ کے ذریعے وہ ہاتھ قابل حرکت بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یعنی جب ڈاکٹر بجلی کی تار کے ذریعے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا۔ جب جب ڈاکٹر مریض کے ہاتھ کو بجلی دے رہا ہو اور مریض اپنے ہاتھ کو حرکت دینا اور اس سے کام لینا شروع کردے اور ادھر ڈاکٹر بجلی کے ذریے برابر اس کو طاقت پہنچا رہاہو تو اس صورت میں مریض کا اپنے ہاتھ کو حرکت دینا ''امر بین الامرین،، کے مصداق ہے۔ کیونکہ نہ تو اس حرکت کو مستقلاً مریض کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ جب تک ڈاکٹر قوت نہ پہنچائے مریض اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے سکتا اور نہ اسے مستقل طور پر ڈاکٹر کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اس لیے کہ اگرچہ طاقت ڈاکٹر کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے لیکن ہاتھ میں حرکت مریض کے ارادے کے نتیجے میں وجود میں آئے گی۔

اس بنا پر اس فاعل کو نہ تو فعل پر مجبور کیا گیا ہے چونکہ وہ با ارادہ ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فعل مکّمل طور پر فاعل کو تفویض کردیا گیا ہے اس لیے کہ مدد اور طاقت تو اسے دوسرے سے ملی ہے۔ فاعل مختار انسانوں سے جتنے بھی کام صادر ہوتے ہیں وہ سب اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سارے افعال انسان کی مشیئت اور اس کے ارادے سے انجام پاتے ہیں لیکن بندے کی مشیئت اور اس کا ارادہ، مشیئت و ارادہئ خدا کی مرہونِ منت ہے۔ قرآن کی آیات بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس طرح یہ جبر کو باطل قرار دیتی ہیں جس کے اکثر اہل سنت قائل ہیں۔ کیونکہ یہ آیات خود مختاری کو ثابت کرتی ہیں اور مکمل تفویض کو بھی باطل قرار دیتی ہےں جس کے بعض اہل سنت قائل ہیں کیونکہ یہ آیات افعال کی نسبت خدا کی طرف دیتی ہیں۔ ان آیات کی تفسیر کے دوران ہم اس بحث کی تفصیل بیان کریں گے۔ اور ان دونوں نظریات ''جبر،، اور ''تفویض،، کو باطل ثابت کریں گے۔

۱۱۹

ہم نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کے ارشادات سے مستفاد ہے۔ یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں خالق متعال نے ہر قسم کے رجس اور آلودگی سے پاک و منزہ فرمایا ہے، ان کی بعض روایات کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔

راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا:

قلت: أجبر الله العباد علی المعاصی؟ قال: لا ۔قلت: ففوض الیهم الأمر؟ قال: لا ۔قال: قلت : فماذا؟ قال: لطف من ربک بین ذلک (۱)

''کیا خدا نے اپنے بندوں کو معصیت پر مجبور کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے کہا: کیا ہر چیز کو ان کے سپرد کردیا ہے؟

آپ نے فرمایا: نہیں۔

میں نے پوچھا: پھر حقیقت حال کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: ان دونوں کے درمیان خدا کی طرف سے ایک لطف ہے۔،،

ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

لا جبر ولاقدر، و لکن منزلة بینهما (۲)

''نہ جبر اور نہ تفویض بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک مرحلہ ہے۔،،

امامیہ اثنا عشری کی کتبِ احادیث میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں۔

___________________

(۱) کافی: کتاب التوحید، باب الجبر و القدر و المر بین الامرین۔

(۲) ایضاً۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689