البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 277402
ڈاؤنلوڈ: 6805

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277402 / ڈاؤنلوڈ: 6805
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت

قرآن کی متعدد آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی بشارت دی ہے اور یہ بشارت تورات و انجیل میں مذکورہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ ) ۷:۱۵۷

''جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (وہ نبی) جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے۔،،

( وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ ) ۶۱:۶

''اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خاد کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں (اور) جو کتاب توریت میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جن کا نام احمد ہوگا (اور) میرے بعد آئیں گے، ان کی خوشخبری سناتا ہوں۔،،

چنانچہ آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی بہت سے یہودیوں اور نصرانیوں نے آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کی اور آپ(ص) پر ایمان لائے۔ یہ سب اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ آپ(ص) کی دعوت اسلام کے وقت یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی اور اگر تورات و انجیل میں آپ(ص) کی نبوّت کی بشارت موجود نہ ہوتی تو یہی بات یہود و نصاریٰ کی طرف سے قرآن مجید کی تکذیب کے لیے کافی تھی اور وہ دعوت اسلام میں آپ کی تکذیب اور آپ کا شدت سے انکار کرسکتے تھے۔

پس ان میں سے اکثر یہودیوں اور نصرانیوں کا آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی اسلام لانا اور آپ(ص) کی دعوت کی تصدیق کرنا اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی۔

۱۶۱

بنابرایں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پرایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا جائے اور اس کے لیے کسی معجزے کی بھی ضرورت نہیں ہے جو آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کرے۔

ہاں! ان لوگوں کے لیے معجزے کی ضرورت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کی کتب پر ایمان نہ لائے ہوں اور گذشتہ دلائل سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن مجید نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت کا دائمی معجزہ اور حجت الہٰی ہے اور قرآن مجید کے علاوہ دوسرے معجزات گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات سے زیادہ قابل تصدیق ہیں۔

۱۶۲

قاریوں پر ایک نظر

تمہید

٭ ۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

٭ ۲۔ ابن کثیر مکّی

٭ ۳۔ عاصم بن بہدلۃ کوفی

٭ ۴۔ ابو عمر و بصری

٭ ۵۔ حمزہ کوفی

٭ ۶۔ نافع مدنی

٭ ۷۔ کسائی کوفی

٭ ۸۔ خلف بن ہشام بزار

٭ ۹۔ یعقوب بن اسحاق

٭ ۱۰۔ یزید بن قعقاع

۱۶۳

تمہید

سات مشہور قراءتوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ علماء اہل سنت میں سے بعض کی یہ رائے ہے کہ سب قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہیں۔ بعض لوگ اس قول کو ان کا مشہور قول قرار دیتے ہیں۔ علامہ ''سبکی،، سے تو یہ قول منقول ہے کہ دس قراءتیں متواتر ہیں۔(۱) بعض علماء اہل سنت تو حد سے بڑھ گئے اور اپنے زعم میں یہ کہا کہ جو یہ کہے کہ ان سات قراءتوں میں تواتر لازم نہیں اس کا یہ قول کفر ہے، اور یہ قول مفتی اندلس ''ابو سعید فرج ابن لب،، سے منسوب ہے۔(۲)

امامیہ کے نزدیک یہ قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ بلکہ بعض قراءتیں تو قاری کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور بعض قراءتیں خبر واحد(۳) کے ذریعے منقول ہیں۔ اس قول کو اھل سنت کے بعض علاء نے بھی اختیار کیا ہے اور بعید نہیں کہ یہ قول ان میں بھی مشہور ہو۔ ہمارے نزدیک یہی قول (قراءت کا متواتر نہ ہونا) صحیح ہے۔

اس مطلب کی تحقیق سے قبل دو چیزوں کا ذکر ضروری ہے:

اوّل: مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ےہ کہ قرآن مجید صرف تواتر(۴) کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پر بہت سے علماء شیعہ و سنی نے یوں استدلال کیا ہے:

قرآن ایسی کتاب ہے جس کے نقل کئے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ یہ دین اسلام کی اساس و بنیاد

____________________

(۱) مناھل العرفان، زرقائی، ص ۴۳۳۔

(۲) ایضا، ص ۴۲۸۔

(۳) خبر واحد وہ خبر ہے جس کو نقل کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس سے یقین حاصل ہوسکے۔

(۴) خبر متواتر وہ خبر ہے جسےنقل کرنے والوں کی اتنی کثرت ہو کہ اس خبر کی صداقت کا یقین ہو جائے۔

۱۶۴

کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے نبی کی رسالت پرالہٰی معجزہ ہے اور ہر وہ بات جس کے نقل کیے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہوں اس کو لازمی طور پر متواتر ہونا چاہیے۔ اس قاعدہ کے تحت جو کلام بھی خبر واحد کے ذریعے نقل کیا جائے گا وہ ہرگز قرآن نہیں ہوسکتا۔

التبہ سیوطی فرماتے ہیں:

قاضی ابوبکر ''انتصار،، میں لکھتے ہیں: ''فقہاء او رمتکلمین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی آیۃ، خبر واحد، جس کا درجہ خبر مستفیض سے نیچے ہوتا ہے کے ذریعے نقل کی جائے تو اس پر قرآن کا حکم تو جاری ہوگا لیکن اس کا قرآن ہونا یقینی نہیں ہے، مگر اہل حق نے یہ قول پسند کرکے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔،،(۱)

یہ قول جسے قاضی ابوبکر سے نقل کیا گیا ہے صاف بائل ہے اور اس کی وجہ بھی گزر چکی ہے۔

یعنی نقل قرآن کے عوامل و اسباب وافر مقدار میں ہونے کے باوصف صرف ایک یا دو آدمیوں کے ذریعے نقل ہونا اس خبر کے کذب کی قطعی دلیل ہے۔ چنانچہ اگر ایک یا دو آدمی کسی سربراہ مملکت کے شہر میں آنے کی خبر دیں اور ایسے آدمی کی آمد عام حالات میں لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ سکتی ہو تو ایسی خبر کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا جبکہ اسے دو ہی آدمی نقل کریں۔ جب اس خبر کا جھوٹا ہونا ثابت ہو تو پھر وہ انتظامات کےسے کئے جائیں گے جو ایک سربراہ مملکت کی کسی ملک میں آمد کے موقع پر کئے جاتے ہیں۔

__________________

(۱) الاتقان فی النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۲۴۳، طبع سوم۔

۱۶۵

پس خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نقل کیا جانا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ منقول، کلام الہٰی نہیں ہے اور جب اس کا کذب مسلم ہو تو پھر اس میں موجود احکام پر عمل کیسے ممکن ہے۔

ِبہر کیف مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن اور اس کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت خبر متواتر ہی کے ذریعے مل سکتا ہے۔ نیز اس بیان سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ تواتر قرآن اور عدم تواتر قراءت میں کوئی ملازمہ نہیں پایا جاتا۔ کیو نکہ تواتر قرآن اور تواتر لازمی ہونے کے دلائل سے کبھی تواتر قراءت ثابت نہیں ہوتا اور نہ تواتر قراءت کی نفی سے تواتر قرآن پر کوئی زد پڑسکتی ہے۔

اس کی تفصیل قراءت پر ایک نظر کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔

ثانی: عدم تواتر قراءت ثابت کرنے کا بہترین طریقہ خود قاریوں کو پہچاننا اوررایوں اور روایت کے طریقے کو سمجھنا ہے۔

مشہور قاری، سات ہیں۔ ان کے ساتھ تین قاری اور ہیں۔ مجموعی طور پر دس قاری بن جاتے ہیں تین قاریوں کا ذکر ان سات کے بعد کیا جائے گا، اب آپ کے سامنے ایک ایک قاری کے حالات زندگی بیان کئے جاتے ہیں۔

۱۶۶

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

اس کا نام: عبد اللہ بن عامر دمشقی۔ کنیت ابو عمران اور لقب یحصبی ہے۔ اس نے قرآن مغیرہ بن ابی شہاب سے پڑھا۔ ہیثم بن عمران کا کہنا ہے کہ عبد اللہ بن عامر، ولید بن عبد الملک کے دور میں اہل مسجد کا رئیس ہوا کرتاتھا۔ ا سکے خیال میں اس کا تعلق قبیلہئ حمیر سے تھا اور وہ اس کے نسب کو مخدوش سمجھتا تھا۔

عجلی اور نسائی نے اسے ثقہ لکھا ہے ابوعمرو اور دانی لکھتے ہیں:

بلال بن ابی الدرداء کے بعد عبد اللہ بن عامر کو دمشق کی قضاوت کا عہدہ مل گیا تھا۔ اہل شام نے اسے قراءت اور اس کے اختیار میں اس کو اپنا امام بنالیا تھا۔،،(۱)

ابن جزری کہتا ہے:

''قراءت ابن عامر کی سند میں نو اقوال ہیں ان میں سے صحیح قول یہی ہے کہ اس نے مغیرہ کے پاس پڑھاتھا۔،،

بعض کا کہنا ہے:

''یہ معلوم نہیں کہ ابن عامر نے قراءت کس سے پڑھی۔،،

عبد اللہ ابن عامر ۸ھ میں میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۲)

عبد اللہ ابن عامر کے راوی دو ہیں، جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت کی روایت کی ہے اور یہ راوی ہشام اور ابن ذکوان ہیں۔

ہشام: اس کی کنیت ابن عمارہ اور نہ نصیر بن میسرہ کا فرزند ہے۔ اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور پھر اسے اس کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کیا۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۲۷۴۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۴۰۴۔

۱۶۷

یحییٰ بن معین کا کہنا ہے:''یہ ثقہ ہے،،۔ نسائی کا کہنا ہے: ''اس پر اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں،، اور دار قطنی کا کہنا ہے:''یہ بڑا جلیل القدر اور راست گو انسان تھا۔،،

یہ ۱۵۳ھ میں پیدا ہوا اور ۲۴۵ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔(۱)

آجری، ابی داؤد سے نقل کرتے ہیں:

''ابو ایوب (سلیمان بن عبد الرحمن) ہشام سے بہتر ہے کیونکہ ہشام نے چار سو احادیث نقل کیں جو کہ سب بے بنیاد ہیں۔،،

ابن وارۃ کا کہنا ہے:

''میں نے ایک زمانے میں فیصلہ کرلیا تھا کہ ہشام کی روایتیں بیان نہیں کروں گا، اس لیے کہ وہ حدیث فروش ہے۔،،

صالح بن محمد کہتا ہے:

''ہشام، حدیث نقل کرنےکے پیسے لیتا تھا اور پیشہ لیے بغیر وہ حدیث نقل ہی نہ کرتا تھا۔،،

مروزی کہتا ہے:

''احمد، ہشام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتا تھا: وہ متلون المزاج، بے وقعت اور گھٹیا آدمی تھا۔ اس کے بعد اس نے لفظ قرآن کا ایک قصہ اس سے نقل کیا اور اس نے برا منایا اور پھر کہا: جو کوئی اس کی اقتداء میں نماز پڑھے اسے اپنی نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔،،(۲)

مؤلف: اس بات میں اختلاف ہے کہ کن کن راویوں نے اس سے روایت نقل کی ہے، اس کے لیے ''طبقات القرآئ،، وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۵۴۔۳۵۶۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۱۱، ص۵۲۔۵۴۔

۱۶۸

باقی رہا ابن ذکوان: اس کا نام عبد اللہ ابن احمد ابن بشیر ہے۔ کبھی وہ بشیر بن ذکوان بھی کہلاتا ہے، اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسے اس کے سامنے پیش کیا۔

ابو عمرو الحافظ کہتا ہے:

''کسائی جب شام آیا تو ابن ذکوان نے اس سے قراءت سیکھی۔،،

ابن ذکوان ۱۷۳ھ میں روز عاشورہ پیدا ہوا اور ۲۴۲ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔

مؤلف: ہشامکی طرح ذکوان کے ناقلوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ کس قسم کے لوگ اس سے قراءت نقل کرتے تھے۔

۱۶۹

۲۔ ابن کثیر مکّی

اس کا نام عبد اللہ بن کثیر بن عمر وبن عبد اللہ بن زاذان بن فیروزان بن ہرمز تھا۔ یہ مکّہ کا رہنے والا، قبیلہئ دار سے تعلق رکھتا تھا اور نسلی اعتبار سے یہ ایرانی تھا۔ کتاب الیتسیر کے مطابق اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب سے سیکھی اور اسی کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کی۔ چنانچہ حافظ ابو عمرو الدانی وغیرہ اسی نظریے کو قطعی اور یقینی سمجھتے ہیں۔

حافظ (ابوالعلاء الہمدانی) کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے اور اس کا کہنا ہے: ''یہ قول ہمارے نزدیک مشہور نہیں ہے۔،،

ابن کثیرنے اپنی قراءت کو ''مجاہدین جبیر،، اور ''ابن عباس،، کے غلام ''درباس،، کے سامنے بھی تصدیق کے لیے پیش کیا۔

ابن کثیر ۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

علی بن مدینی کہتے ہیں:

''ابن کثیر ثقہ تھے،،۔ ابن سعد کا کہنا ہ: ''یہ موثق آدمی ہیں،،۔ ابو عمرو دانی کہتا ہے: ''اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب مخزومی سے سیکھی،،۔ لیکن مشہور یہی ہے کہ اس نے قراءت مجاہد سے سیکھی۔(۲)

عبد اللہ بن کثیر کے روای بھی دو ہیں جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت نقل کی ہے، یہ بزی اور قنبل ہیں۔

بزی: اس کا نام احمد بن محمد بن عبداللہ بن قاسم بن نافع بن ابی بزہ (بشار) ہے۔ اس کا تعلق ایران کے شہر ہمدان سے تھا۔ یہ سائب بن ابی سائب مخزومی کے ہاتھ پر ایمان لایا۔

ابن جزری کہتے ہیں:

____________________

(۱) طبقات القرائ، ص ۴۴۳۔۴۴۵۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۷۔

۱۷۰

''یہ استاد اور محقق تھے اور ان کا حافظہ مضبوط تھا۔،،

یہ ۱۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۵۰ھ میں انتقال کرگئے۔(۱)

بزی نے قراءت، ابوالحسن احمد بن محمد علقمہ جو قواس کے نام سے مشہور تھا، ابو اخریط وہب بن واضح مکّی، ابو القاسم عکرمہ بن سلیمان بن کثیر بن عامر مکّی اور عبد اللہ بن زیاد بن عبد اللہ بن یسار مکّی سے سیکھی۔(۲)

عقیلی کہتا ہے:

''وہ (بزی)ناقابل اعتماد تھا۔،،

ابو حاتم کہتا ہے:

''بزی نقل احادیث میں ضعیف ہے اور اس سے روایات نقل نہیں کرتا۔،،(۳)

مؤلف: دوسرے راویوں کی طرح ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے جو بزی سے حدیث بیان کرتے ہیں۔

قنبل: اس کا نام محمد بن عبدالرحمن بن خالد بن محمد تھا۔ اس کی کنیت ''ابو عمرو،، تھی اور یہ قبیلہئ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور مکّہ کا رہنے والا تھا۔

اس نے قراءت احمد بن محمد بن عون نبال سے سیکھی۔ احمد بن محمد بن عون نبال نے قنبل کو مکّہ میں اپنی جگہ تعینات کیا اور قراءت کی ذمہ داری اسے سوپنی۔ قنبل نے بزی سے بھی قراءت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۱۹۔

(۲) النصر فی القرائٰ ت العشر، ج ۱، ص ۱۲۰۔

(۳) لسان المیزان، ج ۱، ص ۲۸۳۔

۱۷۱

آخر کار حجاز میں تعلیم قراءت کی ریاست اس کو نصیب ہوئی۔ مکّہ میں پولیس کے محکمے سے بھی منسلک رہا اور ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۲۹۱ھ میں وفات پائی۔(۴)

یہ ترقی کرتے کرتے پولیس افسر کے عہدے پر پہنچ گیا۔ جس کی وجہ سے اس کی سیرت و کردار داغدار ہوگیا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی عادت میں بھی تبدیلی آتی گئی حتیٰ کہ مرنے سے سات سال قبل یہ تعلیم قراءت کا کام بالکل ترک کرچکا تھا۔(۵)

مؤلف: اس کے راوی بھی محل نزاع ہیںکہ یہ کون لوگ تھے۔

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی

اس کی کنیت، ابو بکر اور نام عاصم بن ابی النجود ہے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا آزاد کردہ اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے قراءت زربن جیش، ابی عبد الرحمن سلمی اور ابی عمر وشیبانی سے سیکھی اورانہی سے اس کی تصدیق کرائی۔

ابوبکر بن عیاش کہتا ہے:

''عاصم مجھ سے کہا کرتا تھا: مجھے عبد الرحمن سلمیٰ کے سوا کسی او رنے قراءت کا ایک حرف بھی نہیں پڑھایا، میں عبد الرحمن سلمی سے قراءت پڑھتا تھا اور زر کے سامنے پیش کرکے اس سے تائید لیتا تھا۔،،

____________________

۴) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۰۵۔

۵) لسان المیزان، ج ۵، ص ۲۴۹۔

۱۷۲

''حفص،، کہتا ہے:

''عاصم نقل کرتا ہے کہ میں تجھے قراءت کی جو تعلیم بھی دی ہے وہ میں نے عبد الرحمن سلمی سے سیکھی ہے اور اس نے یہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے سیکھی ہے اور ابوبکر بن عیاش کو میں نے جو قراءت سکھائی ہے اس کا استفادہ زر بن جیش سے کیا ہے اور اس (زر بن جیش) نے ابن مسعود سے قراءت سیکھی ہے۔(۱)

ابن سعد کہتا ہے:

''عاصم معتمد تو تھا مگر اپنے بیان میں غلطیاں زیادہ کرتا تھا۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''وہ صاب سنت و قراءت تھا۔ وہ ثقہ اور قاریان قرآن کا پیشوا اور عثمان کے حامیوں سے تھا۔،،

''عاصم قابل اعتماد آدمی تھا۔ لیکن پھر بھی اس کی باتیں تزلزل سے خالی نہ تھیں۔،

ابن علیہ بھی عاصم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

''حدیث کے راویوں اور ناقلین میں عاصم کا نام جو بھی ہو، اس کا حافظہ کمزور تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''عاصم میں کوئی اور خرابی نہیں۔،،

ابن خراش کی نظر میں:

اس کی حدیث ''قابل ردّ و انکار ہے۔،،

عقیلی کا کہنا ہے:

''اس میں حافظہ کی کمزوری کے علاوہ کوئی اور عیب یا خامی ہیں تھی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص۳۴۸۔

۱۷۳

دار قطنی کی رائے ہے:

''اس کا حافظہ قابل اعتراض ہے۔،،

حماد بن سلمہ کا کہنا ہے:

''عاصم زندگی کے آخری ایّام میں کھوٹے کھرے میں تمیز نہیں کرسکتا تھا۔،،

عاصم نے ۱۲۷ھ یا ۱۲۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

عاصم بن بہدلہ سے دو آدمیوں حفص اور ابوبکر نے بلاواسطہ قراءت نقل کی ہے۔

حفص: اس کے والد کا نام سلیمان اور تعلق بنی اسد سے تھا، وہ عاصم کا پروردہ تھا۔

ذہبی کا کہنا ہے:

نقل حدیث میں اس کا کوئی حافظہ نہیں تھا۔ لیکن قراءت قرآن کے سلسلے میں یہ قابل اطمینان تھا اور یہ قراءت کو صحیح طرح حفظ کرلیتا تھا۔،،

حفص کہتا ہے:

''سورہ روم کے ایک حرف کے علاوہ قراءت میں کسی اور مقام پر میرا عاصم سے اختلام نہیں ہے اور وہ حرف سورہ روم کی آیت ۳:''الله الذی خلقکم من ضعف،، میں ''ض،، ہے میں اسے پیش کے ساتھ پڑھتا تھا جبکہ عاصم اسے زبر کے ساتھ پڑھتا تھا۔،،

حفص کا سال پیدائش ۹۰ھ اور سال وفات ۱۸۰ھ ہے۔(۲)

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۹۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۵۴۔

۱۷۴

ابن ابی حاتم، عبد اللہ سے اور وہ اپنے باپ سے ناقل ہے:

''حفص متروک الحدیث اور ناقابل اعتماد تھا۔،،

عثمان دارمی وغیرہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا۔،،

ابن مدینی لکھتے ہیں:

''حفص نقل حدیث میں کمزور اور ناقابل اعتماد ہے، اسی وجہ سے میں عمداً اس سے حدیث نقل نہیں کرتا۔،،

بخاری فرماتے ہیں:

''ماہرین علم رجال نے اسے ترک کردیا ہے۔،،

مسلم کہتے ہیں:

''حفص متروک آدمی ہے۔،،

نسائی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا اور نہ اس کی احادیث لکھی جاتی ہیں۔،،

صالح بن محمد کا کہنا ہے:

''حفص کی حدیثیں لکھنے کے قابل نہیں، کیونکہ اس کی تمام حدیثیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔،،

ابن خراش کا کہنا ہے:

حفص جھوٹا اور متروک الحدیث انسان ہے اور اس کا کام ہی احادیث گھڑنا ہے۔،،

۱۷۵

ابن حیان کا کہنا ہے:

''حفص حدیثوں کی سند تبدیل کردیتا تھا اور جس حدیث کی سند نہ ہوتی اس کی سند خود ہی بنالیتا تھا۔،،

ابن جوزی کتاب ''موضوعات،، میں عبد الرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حفص کے بارے میں کہا کرتا تھا:

''خدا کی قسم! اس سے کوئی روایت نقل کرنا جائز نہیں ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''حفص نقل احادیث میں کمزور ہے۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حفص ان افراد میں سے ہے جن کی تمام حدیثیں ختم ہوگئی ہیں اور سوائے چند جھوٹی حدیثوں کے ان کے پاس کچھ نہیں۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی وہی ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔ (یعنی یہ مجہول اور گمنام افراد ہیں۔ مترجم)

ابوبکر: اس کا نام شیعہ اور یہ عباس بن سالم حناط کا بیٹھا تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس نے تین مرتبہ اپنی قراءت تصدیق کے لیے عاصم کے سامنے پیش کی، اس کے علاوہ عطا بن سائب اور اسلم منقری کے سامنے بھی اپنی قراءت پیش کی۔ شیعہ نے طویل عمر پائی لیکن انتقال سے سات سال (ایک روایت کے مطابق سات سال سے زیادہ) قبل قراءت سے دستبردار ہوگیا تھا۔ یہ قراءت اور احکام میں پیشوا اور عالم باعمل سمجھا جاتا تھا۔ کبھی تو وہ خود کہا کرتا تھا کہ میں نصف اسلام ہوں۔ وہ سنت کا پیشوا تھا۔ مرتے وقت جب اس کی ہمیشرہ رونے لگی تو اس سے کہنے لگا: تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے۔ گھر کے اس کونے کی طرف دیکھو جہاں بیٹھ کر میں نے اٹھارہ ہزار مرتبہ قرآن ختم کیا ہے۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۲، ص ۴۰۱۔

۱۷۶

یہ ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۱۹۳ھ میں وفات پائی۔ ایک قول کے مطابق ۱۹۴ھ میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں عبد اللہ ابن احمد اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں:

''وہ قابل اعتماد تھے لیکن ان سے غلطیان زیادہ سرزد ہوتی تھیں۔،،

عثمان دارمی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''یہ حدیث کے سلسلے میں کوئی خاص قابل اعتماد نہیں۔،،

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے ابوبکر بن عیاش اور ابو الاحوص کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو انہوں نے کہا:

''میں ان میں سے کسی کی تائید نہیں کرتا۔،،

ابن سعد کہتا ہے:

'' وہ سچا اور قابل اعتماد تھا۔ وہ احادیث اور کچھ دوسرے علوم سے آشنا ضرور تھا، مگر اس سے غلطیاں زیادہ ہوتی تھیں۔،،

یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں:

''اس کی حدیث میں تزلزل پایا جاتا ہے۔،،

ابو نعیم کا کہنا ہے:

____________________

(۱) طبقات القراء ج ۱، ص ۳۲۵۔۳۲۷۔

۱۷۷

''ہمارے علماء اور بزرگوں میں ابوبکر سے زیادہ غلطیاں کسی سے بھی سرزد نہیں ہوتی تھیں۔،،

بزاز کہتا ہے:

''ابوبکر کا حافظہ نہیں تھا اور وہ حافظ حدیث نہ تھا۔،،(۱)

۴۔ ابو عمرو بصری

اس کانام زبان بن علا بن عمار مازنی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔ بعض کا خاال ہے کہ یہ نسلاً ایرانی تھا۔ حجاج بن یوسف کے خوف سے فرار ہو کر ابو عمرو اپنے والد کے ہمراہ حجاز آگیا اور مکّہ و مدینہ میں اس نے قراءت سیکھی۔ کوفہ اور بصرہ میں بھی اس نے بہت سے استادوں سے قراءت سیکھی۔ سات مشہور قاریوں میں سے کسی کے بھی اتنے استاد نہ تھے۔

پانچ سو سال تک اہل شام ابن عامر کی قراءت پر عمل کرتے رہے اور بعد میں اس کی قراءت ترک کردی۔ کیونکہ اہل عراق میں سے ایک شخص مسجد اموی میں ابو عمرو کی قراءت کے مطابق قراءت کی تعلیم دیا کرتا تھا اورا س کے درس میں لوگ جمع ہوتے تھے۔ اس کے بعد شام میں ابو عمرو کی قراءت مشہور ہوگئی۔

اصعمی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے والدابو عمرو کو یہ کہتے سنا ہے:

''میں نے اپنے سے پہلے کسی کو عالم نہیں پایا۔،

___________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۱۲، ص ۳۵۔۳۷۔

۱۷۸

ابوعمرو ۶۸ھ میں پیدا ہوئے اوربہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ۱۵۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔(۱)

دوری، ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو موثق اور قابل اعتماد انسان تھے۔،،

ابو خیثمہ کہتے ہیں:

''ابو عمرو بن علاء او رکوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن وہ حافظ حدیث نہ تھے۔،،

نصر بن علی جھضمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ شعبہ نے ان سے کہا:

''ابو عمرو کی قراءت میں دقت اور غور کرو، وہ جس قراءت پر بھی عمل کرے اسے نوٹ کرو۔ کیونکہ وہ مستقبل قریب میں قراءت کا استاد بننے والا ہے۔،،

ابو معاویہ ازہری تہذیب میں نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو قراءت کی اقسام ، الفاظ عرب، عمدہ و نایاب کلام عرب اور فصیح اشعار عرب سے، سب سے زیادہ آشنا تھے۔،،(۲)

ابوعمرو کی قراءت دو راویوں نے یحییٰ بن مبارک کے واسطے سے نقل کی ہے۔ یہ دو راوی ''دوری،، اور ''موسی،، ہیں۔

یحییٰ بن مبارک: ان کے بارے میں ابن جزری کہتے ہیں:

''یہ نحوی قاری، ثقہ اور جلیل القدر عالم تھے۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۸۸۔۲۹۲۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۲، ص ۱۷۸۔۱۸۰۔

۱۷۹

یہ بغداد میں داخل ہوئے اور یزیدی کے نام سے شہرت پائی کیوں کہ یہ خلیفہ مہدی عبّاسی کے ماموں یزید بن منصور حمیری سے زیادہ مانوس تھے اور اسی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور اس کے بیٹوں کی تربیت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی قراءت ابوعمرو کے سامنے پیش کی اور ابوعمرو نےان کو تعلیم قراءت کے لیے اپنا جانشین مقرر کیا۔ انہوں نے ابوعمرو کے علاوہ حمزہ سے بھی قراءت سیکھی، انہوں نے ابوعمرو، دوری اور ابو شعیب سوسی سے قراءت نقل کی ہے۔ یہ قراءت میں صاحب نظریہ تھے اور بعض مقامات پر بعض حروف میں ابوعمرو سے اختلاف رکھتے تھے۔

ابن مجاہد کا کہنا ہے:

''ابوعمرو کے باقی شاگرد یحییٰ سے بہتر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود قراءت میں اس پر اس لیے اعتماد کیا جاتا ہے کہ نقل قراءت کے علاوہ ان کا کوئی اور مشغلہ نہ تھا اور ابوعمرو کے شاگردوں میں سب سے زیادہ حافظہ اسی کا تھا۔،،

انہوں نے ۲۰۲ھ میں ۷۴ سال کی عمر میں مرو میں وفات پائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ مرتے وقت ان کی عمر نوے سال سے زیادہ سو سال کے لگ بھگ تھی۔(۱)

دوری: اس کا نام حفص بن عمرو بن عبدالعزیز دوری تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ ازد سے تھا اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک قابل اعتماد اور جلیل القدر انسان تھے۔ تمام مطالب اور مسائل حفظ کرلیتے تھے، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جس نے مختلف قراءتوں کو جمع کیا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۷۵۔۳۷۷۔

۱۸۰