البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321620 / ڈاؤنلوڈ: 9591
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت

قرآن کی متعدد آیات میں وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رسالت کی بشارت دی ہے اور یہ بشارت تورات و انجیل میں مذکورہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ ) ۷:۱۵۷

''جو لوگ ہمارے نبی امی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (وہ نبی) جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے۔،،

( وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ ) ۶۱:۶

''اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خاد کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں (اور) جو کتاب توریت میرے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جن کا نام احمد ہوگا (اور) میرے بعد آئیں گے، ان کی خوشخبری سناتا ہوں۔،،

چنانچہ آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی بہت سے یہودیوں اور نصرانیوں نے آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کی اور آپ(ص) پر ایمان لائے۔ یہ سب اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ آپ(ص) کی دعوت اسلام کے وقت یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی اور اگر تورات و انجیل میں آپ(ص) کی نبوّت کی بشارت موجود نہ ہوتی تو یہی بات یہود و نصاریٰ کی طرف سے قرآن مجید کی تکذیب کے لیے کافی تھی اور وہ دعوت اسلام میں آپ کی تکذیب اور آپ کا شدت سے انکار کرسکتے تھے۔

پس ان میں سے اکثر یہودیوں اور نصرانیوں کا آپ(ص) کی زندگی میں اور آپ(ص) کی رحلت کے بعد بھی اسلام لانا اور آپ(ص) کی دعوت کی تصدیق کرنا اس امر کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ بشارت تورات و انجیل میں موجود تھی۔

۱۶۱

بنابرایں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) پرایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا جائے اور اس کے لیے کسی معجزے کی بھی ضرورت نہیں ہے جو آپ(ص) کی نبوّت کی تصدیق کرے۔

ہاں! ان لوگوں کے لیے معجزے کی ضرورت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اور ان کی کتب پر ایمان نہ لائے ہوں اور گذشتہ دلائل سے یہ ثابت ہوگیا کہ قرآن مجید نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوّت کا دائمی معجزہ اور حجت الہٰی ہے اور قرآن مجید کے علاوہ دوسرے معجزات گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات سے زیادہ قابل تصدیق ہیں۔

۱۶۲

قاریوں پر ایک نظر

تمہید

٭ ۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

٭ ۲۔ ابن کثیر مکّی

٭ ۳۔ عاصم بن بہدلۃ کوفی

٭ ۴۔ ابو عمر و بصری

٭ ۵۔ حمزہ کوفی

٭ ۶۔ نافع مدنی

٭ ۷۔ کسائی کوفی

٭ ۸۔ خلف بن ہشام بزار

٭ ۹۔ یعقوب بن اسحاق

٭ ۱۰۔ یزید بن قعقاع

۱۶۳

تمہید

سات مشہور قراءتوں کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ علماء اہل سنت میں سے بعض کی یہ رائے ہے کہ سب قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہیں۔ بعض لوگ اس قول کو ان کا مشہور قول قرار دیتے ہیں۔ علامہ ''سبکی،، سے تو یہ قول منقول ہے کہ دس قراءتیں متواتر ہیں۔(۱) بعض علماء اہل سنت تو حد سے بڑھ گئے اور اپنے زعم میں یہ کہا کہ جو یہ کہے کہ ان سات قراءتوں میں تواتر لازم نہیں اس کا یہ قول کفر ہے، اور یہ قول مفتی اندلس ''ابو سعید فرج ابن لب،، سے منسوب ہے۔(۲)

امامیہ کے نزدیک یہ قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ بلکہ بعض قراءتیں تو قاری کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ ہیں اور بعض قراءتیں خبر واحد(۳) کے ذریعے منقول ہیں۔ اس قول کو اھل سنت کے بعض علاء نے بھی اختیار کیا ہے اور بعید نہیں کہ یہ قول ان میں بھی مشہور ہو۔ ہمارے نزدیک یہی قول (قراءت کا متواتر نہ ہونا) صحیح ہے۔

اس مطلب کی تحقیق سے قبل دو چیزوں کا ذکر ضروری ہے:

اوّل: مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ےہ کہ قرآن مجید صرف تواتر(۴) کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پر بہت سے علماء شیعہ و سنی نے یوں استدلال کیا ہے:

قرآن ایسی کتاب ہے جس کے نقل کئے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ یہ دین اسلام کی اساس و بنیاد

____________________

(۱) مناھل العرفان، زرقائی، ص ۴۳۳۔

(۲) ایضا، ص ۴۲۸۔

(۳) خبر واحد وہ خبر ہے جس کو نقل کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس سے یقین حاصل ہوسکے۔

(۴) خبر متواتر وہ خبر ہے جسےنقل کرنے والوں کی اتنی کثرت ہو کہ اس خبر کی صداقت کا یقین ہو جائے۔

۱۶۴

کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے نبی کی رسالت پرالہٰی معجزہ ہے اور ہر وہ بات جس کے نقل کیے جانے کے عوامل و اسباب زیادہ ہوں اس کو لازمی طور پر متواتر ہونا چاہیے۔ اس قاعدہ کے تحت جو کلام بھی خبر واحد کے ذریعے نقل کیا جائے گا وہ ہرگز قرآن نہیں ہوسکتا۔

التبہ سیوطی فرماتے ہیں:

قاضی ابوبکر ''انتصار،، میں لکھتے ہیں: ''فقہاء او رمتکلمین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی آیۃ، خبر واحد، جس کا درجہ خبر مستفیض سے نیچے ہوتا ہے کے ذریعے نقل کی جائے تو اس پر قرآن کا حکم تو جاری ہوگا لیکن اس کا قرآن ہونا یقینی نہیں ہے، مگر اہل حق نے یہ قول پسند کرکے اسے ماننے سے انکار کردیا ہے۔،،(۱)

یہ قول جسے قاضی ابوبکر سے نقل کیا گیا ہے صاف بائل ہے اور اس کی وجہ بھی گزر چکی ہے۔

یعنی نقل قرآن کے عوامل و اسباب وافر مقدار میں ہونے کے باوصف صرف ایک یا دو آدمیوں کے ذریعے نقل ہونا اس خبر کے کذب کی قطعی دلیل ہے۔ چنانچہ اگر ایک یا دو آدمی کسی سربراہ مملکت کے شہر میں آنے کی خبر دیں اور ایسے آدمی کی آمد عام حالات میں لوگوں سے پوشیدہ نہ رہ سکتی ہو تو ایسی خبر کے جھوٹا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوگا جبکہ اسے دو ہی آدمی نقل کریں۔ جب اس خبر کا جھوٹا ہونا ثابت ہو تو پھر وہ انتظامات کےسے کئے جائیں گے جو ایک سربراہ مملکت کی کسی ملک میں آمد کے موقع پر کئے جاتے ہیں۔

__________________

(۱) الاتقان فی النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۲۴۳، طبع سوم۔

۱۶۵

پس خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نقل کیا جانا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ منقول، کلام الہٰی نہیں ہے اور جب اس کا کذب مسلم ہو تو پھر اس میں موجود احکام پر عمل کیسے ممکن ہے۔

ِبہر کیف مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن اور اس کے کلام الہٰی ہونے کا ثبوت خبر متواتر ہی کے ذریعے مل سکتا ہے۔ نیز اس بیان سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ تواتر قرآن اور عدم تواتر قراءت میں کوئی ملازمہ نہیں پایا جاتا۔ کیو نکہ تواتر قرآن اور تواتر لازمی ہونے کے دلائل سے کبھی تواتر قراءت ثابت نہیں ہوتا اور نہ تواتر قراءت کی نفی سے تواتر قرآن پر کوئی زد پڑسکتی ہے۔

اس کی تفصیل قراءت پر ایک نظر کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔

ثانی: عدم تواتر قراءت ثابت کرنے کا بہترین طریقہ خود قاریوں کو پہچاننا اوررایوں اور روایت کے طریقے کو سمجھنا ہے۔

مشہور قاری، سات ہیں۔ ان کے ساتھ تین قاری اور ہیں۔ مجموعی طور پر دس قاری بن جاتے ہیں تین قاریوں کا ذکر ان سات کے بعد کیا جائے گا، اب آپ کے سامنے ایک ایک قاری کے حالات زندگی بیان کئے جاتے ہیں۔

۱۶۶

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی

اس کا نام: عبد اللہ بن عامر دمشقی۔ کنیت ابو عمران اور لقب یحصبی ہے۔ اس نے قرآن مغیرہ بن ابی شہاب سے پڑھا۔ ہیثم بن عمران کا کہنا ہے کہ عبد اللہ بن عامر، ولید بن عبد الملک کے دور میں اہل مسجد کا رئیس ہوا کرتاتھا۔ ا سکے خیال میں اس کا تعلق قبیلہئ حمیر سے تھا اور وہ اس کے نسب کو مخدوش سمجھتا تھا۔

عجلی اور نسائی نے اسے ثقہ لکھا ہے ابوعمرو اور دانی لکھتے ہیں:

بلال بن ابی الدرداء کے بعد عبد اللہ بن عامر کو دمشق کی قضاوت کا عہدہ مل گیا تھا۔ اہل شام نے اسے قراءت اور اس کے اختیار میں اس کو اپنا امام بنالیا تھا۔،،(۱)

ابن جزری کہتا ہے:

''قراءت ابن عامر کی سند میں نو اقوال ہیں ان میں سے صحیح قول یہی ہے کہ اس نے مغیرہ کے پاس پڑھاتھا۔،،

بعض کا کہنا ہے:

''یہ معلوم نہیں کہ ابن عامر نے قراءت کس سے پڑھی۔،،

عبد اللہ ابن عامر ۸ھ میں میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۲)

عبد اللہ ابن عامر کے راوی دو ہیں، جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت کی روایت کی ہے اور یہ راوی ہشام اور ابن ذکوان ہیں۔

ہشام: اس کی کنیت ابن عمارہ اور نہ نصیر بن میسرہ کا فرزند ہے۔ اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور پھر اسے اس کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کیا۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۲۷۴۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۴۰۴۔

۱۶۷

یحییٰ بن معین کا کہنا ہے:''یہ ثقہ ہے،،۔ نسائی کا کہنا ہے: ''اس پر اعتبار کرنے میں کوئی حرج نہیں،، اور دار قطنی کا کہنا ہے:''یہ بڑا جلیل القدر اور راست گو انسان تھا۔،،

یہ ۱۵۳ھ میں پیدا ہوا اور ۲۴۵ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔(۱)

آجری، ابی داؤد سے نقل کرتے ہیں:

''ابو ایوب (سلیمان بن عبد الرحمن) ہشام سے بہتر ہے کیونکہ ہشام نے چار سو احادیث نقل کیں جو کہ سب بے بنیاد ہیں۔،،

ابن وارۃ کا کہنا ہے:

''میں نے ایک زمانے میں فیصلہ کرلیا تھا کہ ہشام کی روایتیں بیان نہیں کروں گا، اس لیے کہ وہ حدیث فروش ہے۔،،

صالح بن محمد کہتا ہے:

''ہشام، حدیث نقل کرنےکے پیسے لیتا تھا اور پیشہ لیے بغیر وہ حدیث نقل ہی نہ کرتا تھا۔،،

مروزی کہتا ہے:

''احمد، ہشام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتا تھا: وہ متلون المزاج، بے وقعت اور گھٹیا آدمی تھا۔ اس کے بعد اس نے لفظ قرآن کا ایک قصہ اس سے نقل کیا اور اس نے برا منایا اور پھر کہا: جو کوئی اس کی اقتداء میں نماز پڑھے اسے اپنی نماز دوبارہ پڑھنی چاہیے۔،،(۲)

مؤلف: اس بات میں اختلاف ہے کہ کن کن راویوں نے اس سے روایت نقل کی ہے، اس کے لیے ''طبقات القرآئ،، وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۵۴۔۳۵۶۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۱۱، ص۵۲۔۵۴۔

۱۶۸

باقی رہا ابن ذکوان: اس کا نام عبد اللہ ابن احمد ابن بشیر ہے۔ کبھی وہ بشیر بن ذکوان بھی کہلاتا ہے، اس نے ایوب بن تمیم سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسے اس کے سامنے پیش کیا۔

ابو عمرو الحافظ کہتا ہے:

''کسائی جب شام آیا تو ابن ذکوان نے اس سے قراءت سیکھی۔،،

ابن ذکوان ۱۷۳ھ میں روز عاشورہ پیدا ہوا اور ۲۴۲ھ میں اس کا انتقال ہوگیا۔

مؤلف: ہشامکی طرح ذکوان کے ناقلوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ کس قسم کے لوگ اس سے قراءت نقل کرتے تھے۔

۱۶۹

۲۔ ابن کثیر مکّی

اس کا نام عبد اللہ بن کثیر بن عمر وبن عبد اللہ بن زاذان بن فیروزان بن ہرمز تھا۔ یہ مکّہ کا رہنے والا، قبیلہئ دار سے تعلق رکھتا تھا اور نسلی اعتبار سے یہ ایرانی تھا۔ کتاب الیتسیر کے مطابق اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب سے سیکھی اور اسی کے سامنے تصدیق کے لیے پیش کی۔ چنانچہ حافظ ابو عمرو الدانی وغیرہ اسی نظریے کو قطعی اور یقینی سمجھتے ہیں۔

حافظ (ابوالعلاء الہمدانی) کے نزدیک یہ قول ضعیف ہے اور اس کا کہنا ہے: ''یہ قول ہمارے نزدیک مشہور نہیں ہے۔،،

ابن کثیرنے اپنی قراءت کو ''مجاہدین جبیر،، اور ''ابن عباس،، کے غلام ''درباس،، کے سامنے بھی تصدیق کے لیے پیش کیا۔

ابن کثیر ۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

علی بن مدینی کہتے ہیں:

''ابن کثیر ثقہ تھے،،۔ ابن سعد کا کہنا ہ: ''یہ موثق آدمی ہیں،،۔ ابو عمرو دانی کہتا ہے: ''اس نے قراءت عبد اللہ بن سائب مخزومی سے سیکھی،،۔ لیکن مشہور یہی ہے کہ اس نے قراءت مجاہد سے سیکھی۔(۲)

عبد اللہ بن کثیر کے روای بھی دو ہیں جنہوں نے کئی واسطوں سے اس کی قراءت نقل کی ہے، یہ بزی اور قنبل ہیں۔

بزی: اس کا نام احمد بن محمد بن عبداللہ بن قاسم بن نافع بن ابی بزہ (بشار) ہے۔ اس کا تعلق ایران کے شہر ہمدان سے تھا۔ یہ سائب بن ابی سائب مخزومی کے ہاتھ پر ایمان لایا۔

ابن جزری کہتے ہیں:

____________________

(۱) طبقات القرائ، ص ۴۴۳۔۴۴۵۔

(۲) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۷۔

۱۷۰

''یہ استاد اور محقق تھے اور ان کا حافظہ مضبوط تھا۔،،

یہ ۱۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۵۰ھ میں انتقال کرگئے۔(۱)

بزی نے قراءت، ابوالحسن احمد بن محمد علقمہ جو قواس کے نام سے مشہور تھا، ابو اخریط وہب بن واضح مکّی، ابو القاسم عکرمہ بن سلیمان بن کثیر بن عامر مکّی اور عبد اللہ بن زیاد بن عبد اللہ بن یسار مکّی سے سیکھی۔(۲)

عقیلی کہتا ہے:

''وہ (بزی)ناقابل اعتماد تھا۔،،

ابو حاتم کہتا ہے:

''بزی نقل احادیث میں ضعیف ہے اور اس سے روایات نقل نہیں کرتا۔،،(۳)

مؤلف: دوسرے راویوں کی طرح ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے جو بزی سے حدیث بیان کرتے ہیں۔

قنبل: اس کا نام محمد بن عبدالرحمن بن خالد بن محمد تھا۔ اس کی کنیت ''ابو عمرو،، تھی اور یہ قبیلہئ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور مکّہ کا رہنے والا تھا۔

اس نے قراءت احمد بن محمد بن عون نبال سے سیکھی۔ احمد بن محمد بن عون نبال نے قنبل کو مکّہ میں اپنی جگہ تعینات کیا اور قراءت کی ذمہ داری اسے سوپنی۔ قنبل نے بزی سے بھی قراءت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۱۹۔

(۲) النصر فی القرائٰ ت العشر، ج ۱، ص ۱۲۰۔

(۳) لسان المیزان، ج ۱، ص ۲۸۳۔

۱۷۱

آخر کار حجاز میں تعلیم قراءت کی ریاست اس کو نصیب ہوئی۔ مکّہ میں پولیس کے محکمے سے بھی منسلک رہا اور ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۲۹۱ھ میں وفات پائی۔(۴)

یہ ترقی کرتے کرتے پولیس افسر کے عہدے پر پہنچ گیا۔ جس کی وجہ سے اس کی سیرت و کردار داغدار ہوگیا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی عادت میں بھی تبدیلی آتی گئی حتیٰ کہ مرنے سے سات سال قبل یہ تعلیم قراءت کا کام بالکل ترک کرچکا تھا۔(۵)

مؤلف: اس کے راوی بھی محل نزاع ہیںکہ یہ کون لوگ تھے۔

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی

اس کی کنیت، ابو بکر اور نام عاصم بن ابی النجود ہے۔ یہ قبیلہ بنی اسد کا آزاد کردہ اور کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے قراءت زربن جیش، ابی عبد الرحمن سلمی اور ابی عمر وشیبانی سے سیکھی اورانہی سے اس کی تصدیق کرائی۔

ابوبکر بن عیاش کہتا ہے:

''عاصم مجھ سے کہا کرتا تھا: مجھے عبد الرحمن سلمیٰ کے سوا کسی او رنے قراءت کا ایک حرف بھی نہیں پڑھایا، میں عبد الرحمن سلمی سے قراءت پڑھتا تھا اور زر کے سامنے پیش کرکے اس سے تائید لیتا تھا۔،،

____________________

۴) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۰۵۔

۵) لسان المیزان، ج ۵، ص ۲۴۹۔

۱۷۲

''حفص،، کہتا ہے:

''عاصم نقل کرتا ہے کہ میں تجھے قراءت کی جو تعلیم بھی دی ہے وہ میں نے عبد الرحمن سلمی سے سیکھی ہے اور اس نے یہ علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے سیکھی ہے اور ابوبکر بن عیاش کو میں نے جو قراءت سکھائی ہے اس کا استفادہ زر بن جیش سے کیا ہے اور اس (زر بن جیش) نے ابن مسعود سے قراءت سیکھی ہے۔(۱)

ابن سعد کہتا ہے:

''عاصم معتمد تو تھا مگر اپنے بیان میں غلطیاں زیادہ کرتا تھا۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''وہ صاب سنت و قراءت تھا۔ وہ ثقہ اور قاریان قرآن کا پیشوا اور عثمان کے حامیوں سے تھا۔،،

''عاصم قابل اعتماد آدمی تھا۔ لیکن پھر بھی اس کی باتیں تزلزل سے خالی نہ تھیں۔،

ابن علیہ بھی عاصم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں:

''حدیث کے راویوں اور ناقلین میں عاصم کا نام جو بھی ہو، اس کا حافظہ کمزور تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''عاصم میں کوئی اور خرابی نہیں۔،،

ابن خراش کی نظر میں:

اس کی حدیث ''قابل ردّ و انکار ہے۔،،

عقیلی کا کہنا ہے:

''اس میں حافظہ کی کمزوری کے علاوہ کوئی اور عیب یا خامی ہیں تھی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص۳۴۸۔

۱۷۳

دار قطنی کی رائے ہے:

''اس کا حافظہ قابل اعتراض ہے۔،،

حماد بن سلمہ کا کہنا ہے:

''عاصم زندگی کے آخری ایّام میں کھوٹے کھرے میں تمیز نہیں کرسکتا تھا۔،،

عاصم نے ۱۲۷ھ یا ۱۲۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

عاصم بن بہدلہ سے دو آدمیوں حفص اور ابوبکر نے بلاواسطہ قراءت نقل کی ہے۔

حفص: اس کے والد کا نام سلیمان اور تعلق بنی اسد سے تھا، وہ عاصم کا پروردہ تھا۔

ذہبی کا کہنا ہے:

نقل حدیث میں اس کا کوئی حافظہ نہیں تھا۔ لیکن قراءت قرآن کے سلسلے میں یہ قابل اطمینان تھا اور یہ قراءت کو صحیح طرح حفظ کرلیتا تھا۔،،

حفص کہتا ہے:

''سورہ روم کے ایک حرف کے علاوہ قراءت میں کسی اور مقام پر میرا عاصم سے اختلام نہیں ہے اور وہ حرف سورہ روم کی آیت ۳:''الله الذی خلقکم من ضعف،، میں ''ض،، ہے میں اسے پیش کے ساتھ پڑھتا تھا جبکہ عاصم اسے زبر کے ساتھ پڑھتا تھا۔،،

حفص کا سال پیدائش ۹۰ھ اور سال وفات ۱۸۰ھ ہے۔(۲)

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۵، ص ۳۹۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۵۴۔

۱۷۴

ابن ابی حاتم، عبد اللہ سے اور وہ اپنے باپ سے ناقل ہے:

''حفص متروک الحدیث اور ناقابل اعتماد تھا۔،،

عثمان دارمی وغیرہ ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا۔،،

ابن مدینی لکھتے ہیں:

''حفص نقل حدیث میں کمزور اور ناقابل اعتماد ہے، اسی وجہ سے میں عمداً اس سے حدیث نقل نہیں کرتا۔،،

بخاری فرماتے ہیں:

''ماہرین علم رجال نے اسے ترک کردیا ہے۔،،

مسلم کہتے ہیں:

''حفص متروک آدمی ہے۔،،

نسائی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''حفص قابل اعتماد نہیں تھا اور نہ اس کی احادیث لکھی جاتی ہیں۔،،

صالح بن محمد کا کہنا ہے:

''حفص کی حدیثیں لکھنے کے قابل نہیں، کیونکہ اس کی تمام حدیثیں جھوٹی اور بے بنیاد ہیں۔،،

ابن خراش کا کہنا ہے:

حفص جھوٹا اور متروک الحدیث انسان ہے اور اس کا کام ہی احادیث گھڑنا ہے۔،،

۱۷۵

ابن حیان کا کہنا ہے:

''حفص حدیثوں کی سند تبدیل کردیتا تھا اور جس حدیث کی سند نہ ہوتی اس کی سند خود ہی بنالیتا تھا۔،،

ابن جوزی کتاب ''موضوعات،، میں عبد الرحمن بن مہدی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حفص کے بارے میں کہا کرتا تھا:

''خدا کی قسم! اس سے کوئی روایت نقل کرنا جائز نہیں ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''حفص نقل احادیث میں کمزور ہے۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حفص ان افراد میں سے ہے جن کی تمام حدیثیں ختم ہوگئی ہیں اور سوائے چند جھوٹی حدیثوں کے ان کے پاس کچھ نہیں۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی وہی ہے جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔ (یعنی یہ مجہول اور گمنام افراد ہیں۔ مترجم)

ابوبکر: اس کا نام شیعہ اور یہ عباس بن سالم حناط کا بیٹھا تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس نے تین مرتبہ اپنی قراءت تصدیق کے لیے عاصم کے سامنے پیش کی، اس کے علاوہ عطا بن سائب اور اسلم منقری کے سامنے بھی اپنی قراءت پیش کی۔ شیعہ نے طویل عمر پائی لیکن انتقال سے سات سال (ایک روایت کے مطابق سات سال سے زیادہ) قبل قراءت سے دستبردار ہوگیا تھا۔ یہ قراءت اور احکام میں پیشوا اور عالم باعمل سمجھا جاتا تھا۔ کبھی تو وہ خود کہا کرتا تھا کہ میں نصف اسلام ہوں۔ وہ سنت کا پیشوا تھا۔ مرتے وقت جب اس کی ہمیشرہ رونے لگی تو اس سے کہنے لگا: تمہارے رونے کی کیا وجہ ہے۔ گھر کے اس کونے کی طرف دیکھو جہاں بیٹھ کر میں نے اٹھارہ ہزار مرتبہ قرآن ختم کیا ہے۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۲، ص ۴۰۱۔

۱۷۶

یہ ۹۵ھ میں پیدا ہوا اور ۱۹۳ھ میں وفات پائی۔ ایک قول کے مطابق ۱۹۴ھ میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں عبد اللہ ابن احمد اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں:

''وہ قابل اعتماد تھے لیکن ان سے غلطیان زیادہ سرزد ہوتی تھیں۔،،

عثمان دارمی اس کے بارے میں کہتے ہیں:

''یہ حدیث کے سلسلے میں کوئی خاص قابل اعتماد نہیں۔،،

ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے ابوبکر بن عیاش اور ابو الاحوص کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو انہوں نے کہا:

''میں ان میں سے کسی کی تائید نہیں کرتا۔،،

ابن سعد کہتا ہے:

'' وہ سچا اور قابل اعتماد تھا۔ وہ احادیث اور کچھ دوسرے علوم سے آشنا ضرور تھا، مگر اس سے غلطیاں زیادہ ہوتی تھیں۔،،

یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں:

''اس کی حدیث میں تزلزل پایا جاتا ہے۔،،

ابو نعیم کا کہنا ہے:

____________________

(۱) طبقات القراء ج ۱، ص ۳۲۵۔۳۲۷۔

۱۷۷

''ہمارے علماء اور بزرگوں میں ابوبکر سے زیادہ غلطیاں کسی سے بھی سرزد نہیں ہوتی تھیں۔،،

بزاز کہتا ہے:

''ابوبکر کا حافظہ نہیں تھا اور وہ حافظ حدیث نہ تھا۔،،(۱)

۴۔ ابو عمرو بصری

اس کانام زبان بن علا بن عمار مازنی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔ بعض کا خاال ہے کہ یہ نسلاً ایرانی تھا۔ حجاج بن یوسف کے خوف سے فرار ہو کر ابو عمرو اپنے والد کے ہمراہ حجاز آگیا اور مکّہ و مدینہ میں اس نے قراءت سیکھی۔ کوفہ اور بصرہ میں بھی اس نے بہت سے استادوں سے قراءت سیکھی۔ سات مشہور قاریوں میں سے کسی کے بھی اتنے استاد نہ تھے۔

پانچ سو سال تک اہل شام ابن عامر کی قراءت پر عمل کرتے رہے اور بعد میں اس کی قراءت ترک کردی۔ کیونکہ اہل عراق میں سے ایک شخص مسجد اموی میں ابو عمرو کی قراءت کے مطابق قراءت کی تعلیم دیا کرتا تھا اورا س کے درس میں لوگ جمع ہوتے تھے۔ اس کے بعد شام میں ابو عمرو کی قراءت مشہور ہوگئی۔

اصعمی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے والدابو عمرو کو یہ کہتے سنا ہے:

''میں نے اپنے سے پہلے کسی کو عالم نہیں پایا۔،

___________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۱۲، ص ۳۵۔۳۷۔

۱۷۸

ابوعمرو ۶۸ھ میں پیدا ہوئے اوربہت سے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ ۱۵۴ھ میں ان کا انتقال ہوا۔(۱)

دوری، ابن معین سے نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو موثق اور قابل اعتماد انسان تھے۔،،

ابو خیثمہ کہتے ہیں:

''ابو عمرو بن علاء او رکوئی اعتراض تو نہیں تھا لیکن وہ حافظ حدیث نہ تھے۔،،

نصر بن علی جھضمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ شعبہ نے ان سے کہا:

''ابو عمرو کی قراءت میں دقت اور غور کرو، وہ جس قراءت پر بھی عمل کرے اسے نوٹ کرو۔ کیونکہ وہ مستقبل قریب میں قراءت کا استاد بننے والا ہے۔،،

ابو معاویہ ازہری تہذیب میں نقل کرتے ہیں:

''ابوعمرو قراءت کی اقسام ، الفاظ عرب، عمدہ و نایاب کلام عرب اور فصیح اشعار عرب سے، سب سے زیادہ آشنا تھے۔،،(۲)

ابوعمرو کی قراءت دو راویوں نے یحییٰ بن مبارک کے واسطے سے نقل کی ہے۔ یہ دو راوی ''دوری،، اور ''موسی،، ہیں۔

یحییٰ بن مبارک: ان کے بارے میں ابن جزری کہتے ہیں:

''یہ نحوی قاری، ثقہ اور جلیل القدر عالم تھے۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۸۸۔۲۹۲۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۲، ص ۱۷۸۔۱۸۰۔

۱۷۹

یہ بغداد میں داخل ہوئے اور یزیدی کے نام سے شہرت پائی کیوں کہ یہ خلیفہ مہدی عبّاسی کے ماموں یزید بن منصور حمیری سے زیادہ مانوس تھے اور اسی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور اس کے بیٹوں کی تربیت کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی قراءت ابوعمرو کے سامنے پیش کی اور ابوعمرو نےان کو تعلیم قراءت کے لیے اپنا جانشین مقرر کیا۔ انہوں نے ابوعمرو کے علاوہ حمزہ سے بھی قراءت سیکھی، انہوں نے ابوعمرو، دوری اور ابو شعیب سوسی سے قراءت نقل کی ہے۔ یہ قراءت میں صاحب نظریہ تھے اور بعض مقامات پر بعض حروف میں ابوعمرو سے اختلاف رکھتے تھے۔

ابن مجاہد کا کہنا ہے:

''ابوعمرو کے باقی شاگرد یحییٰ سے بہتر ہیں۔ لیکن اس کے باوجود قراءت میں اس پر اس لیے اعتماد کیا جاتا ہے کہ نقل قراءت کے علاوہ ان کا کوئی اور مشغلہ نہ تھا اور ابوعمرو کے شاگردوں میں سب سے زیادہ حافظہ اسی کا تھا۔،،

انہوں نے ۲۰۲ھ میں ۷۴ سال کی عمر میں مرو میں وفات پائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ مرتے وقت ان کی عمر نوے سال سے زیادہ سو سال کے لگ بھگ تھی۔(۱)

دوری: اس کا نام حفص بن عمرو بن عبدالعزیز دوری تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ ازد سے تھا اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک قابل اعتماد اور جلیل القدر انسان تھے۔ تمام مطالب اور مسائل حفظ کرلیتے تھے، وہ سب سے پہلے انسان ہیں جس نے مختلف قراءتوں کو جمع کیا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۷۵۔۳۷۷۔

۱۸۰

۲۴۶ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۱)

دارقطنی کا کہنا ہے: ''یہ ضعیف ہیں،،۔ اور عقیلی کا کہنا ہے: ''یہ قابل اعتماد ہیں۔،،(۲)

مؤلف: جنہوں نے دوری سے قراءت نقل کی ہے وہ گذشتہ راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

سوسی: اس کانام صالح اور کنیت ابو شعیب تھی۔ اس کے والد کا نام زیاد بن عبد اللہ ہے۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''موسی مسائل حفظ کرتا اور لکھتا اور یہ باوثوق آدمی تھا۔،،

اس نے قراءت ابو محمد یزیدی سے سیکھی اور اسی کو تصدیق کے لیے سنائی اور یہ ابو محمد یزیدی کے اصحاب میں سے تھا۔ ۲۶۱ھ کے آغاز میں اس نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔(۳)

ابوحاتم کا کہنا ہے:

''یہ راست گو انسان تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد تھا۔،،

___________________

(۱) ایضاً،ج ۱، ص ۰۲۵۵

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۲، ص۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۳۳۲۔

۱۸۱

ابن حیان نے بھی اس کو قابل اعتماد قرار دیا ہے اور ابو عمرو دانی کا کہنا ہے:

''نسائی نے قراءت سوسی سے نقل کی ہے۔ مسلم بن قاسم اندلسی نے بلا وجہ اور بغیر کسی دلیل کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی مجہول اور گمنام ہیں۔

۵۔ حمزہ کوفی

یہ حبیب بن عمارۃ بن اسماعیل کا بیٹا اور اس کی کنیت ابو عمارۃ ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا اور قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے بچپن میں صحابہ کو درک کرلیا تھا اس نے سلمان بن اعمش اور حمران بن اعین سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لیے سنائی۔

کتاب''الکفایة الکبریٰ و الیتسیر،، میں مذکور ہے کہ اس نے مغیرہ بن مقسم، منصور ادرلیث بن ابی سلیم سے قراءت سیکھی۔ صاحب کتاب ''الیتسیر و المستنیر،، لکھتے ہیں کہ اس نے قراءت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سیکھی۔ ان کا کہنا ہے:

''حمزہ نے شروع میں قراءت حمران سے سیکھی اور اعمش، ابو اسحاق اور ابن ابی لیلیٰ کو تصدیق کے لئے سنائی اور عاصم و اعمش کے بعد علم قراءت میں امامت اور پیشوائی کا منصب اسی کے سپرد کیا گیا وہ اس فن کا امام، قابل وثوق اور بے نظیر آدمی تھا۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۴، ص ۳۹۲۔

۱۸۲

عبد اللہ عجلی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے حمزہ سے مخاطب ہو کر کہا:

''آپ کو دو موضوعات ''قرآن،، اور ''فرائض،،(۱) میں ہم پر بالا دستی حاصل ہے ان میں ہم آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔،،

سفیان ثوری کا کہنا ہے:

''قرآن،، اور ''فرائض،، میں حمزہ کے ہم پایہ کوئی آدمی نہیں ہے۔،،

عبداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں:

''حمزۃ کا استاد اعمش جب بھی حمزہ کو دیکھتا تو کہتا: یہ عالم قرآن ہے۔،،

حمزہ ۸۰ھ میں پیدا ہوا اور ۱۵۶ھ میں اس کا انتقال ہوا۔(۲)

ابن معین کہتا ہے۔

''حمزہ باوثوق اور قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''اس (حمزہ) میں کوئی حرج نہیں۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد اور نیک انسان تھا۔،،

___________________

(۱) یعنی مسائل میراث (مترجم)

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۶۱۔

۱۸۳

ابن سعد کا کہنا ہے:

''حمزہ نیک آدمی تھا، اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں، یہ ایک سچا انسان تھا اور علم قراءت میں خاص روش کا مالک تھا۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حمزہ سچا انسان تھا لیکن اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کی حدیث میں کوئی پختگی نہیں ہے۔،،

بعض اہل حدیث نے قراءت میں بھی اس پر تنقید کی ہے اور بعض حضرات اس کی قراءت کے مطابق پڑھی گئی نماز کو باطل سمجھتے ہیں۔

ساجی اور ازدی کا کہنا ہے:

اس کی قراءت پر علماء میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں اور وہ ایک مذموم حالت کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں۔،،

اس کے علاوہ ساجی کا کہنا ہے:

''میں نے سلمۃ بن شبیب کو یہ کہتے ہوئے سنا: احمد بن حنبل اس شخص کی اقتداء کرنا پسند نہیں کرتے تھے جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتا ہو۔،،

آجری، احمد بن سنان سے نقل کرتے ہیں:

''یزید بن ہاروں کو حمزہ کی قراءت سے سخت نفرت تھی۔،،

احمد بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

''اگر مجھ میں قدرت ہوتی تو ان لوگوں کو زدو کوب کرتا جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتے ہیں۔،،

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں:

''حمزہ کی قراءت میرے نزدیک بدعت ہے۔،،

۱۸۴

ابن دری کہتا ہے:

''میں چاہتا ہوں کہ کوفہ سے حمزہ کی قراءت کامکمل خاتمہ ہو جائے۔،،(۱)

اس کے دو راوی ہیں جنہوں نے بالواسطہ اس سے قراءت نقل کی ہے اور یہ ''خلف بن ہشام،، اور ''خلاد بن خالد،، ہیں۔

خلف: اس کی کنیت ابو محمد تھی اور اس کا تعلق بنی اسد سے تھا۔ اس کے والد کا نام ہشام بن ثعلب بزاز تھا، جو بغداد کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کہتا ہے:

''خلف دس قاریوں میں سے ایک ہے۔ سلیم کے واسطے سے حمزہ کی قراءت روایت کرنے والوں میں سے یہ ایک ہے۔ اس نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا اور تیرہ سال کی عمر میں علم قراءت کی تحصیل میں مشغول ہوگیا اور وہ ثقہ، جلیل القدر، زاہد و عابد اور دانشمند انسان تھا۔،،

ابن اشتہ کا کہنا ہے:

''خلف نے قراءت میں حمزہ کی روش اپنائی لیکن وہ ایک سو بیس مقامات پر حمزہ سے اختلاف رکھتا تھا۔،،

یہ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوا اور ۲۲۹ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

لالکائی کا کہنا ہے:

''عباس دوری سے جب اس داستان کے متعلق پوچھا گیا جو احمد بن جنبل نے خلف کے بارے میں نقل کی ہے تو عباس دوری نے جواب میں کہا: میں نے خود احمد بن حنبل سے یہ داستان نہیں سنی البتہ میرے دوسرے نقل کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے پاس خلف کا نام لیا گیا اور باتوں باتوں میں یہ بِھی کہا گیا کہ خلف شراب پیتا تھا

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۳، ص۲۷۔

(۲) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۲۷۲۔

۱۸۵

تو احمد نے کہا: ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت ہے لیکن اس کے باوجود (واللہ) وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''خلف بغدادی ہے اور قابل اعتماد آدمی ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''خلف کہا کرتا تھا: میں نے اپنی چالیس سال کی نمازیں دوبارہ پڑھی ہیں، کیونکہ اس دوران میں کوفیوں کے مسلک کے مطابق شراب پیتا تھا۔،،

خطیب بغدادی، اپنی تاریخ میں محمد بن حاتم کندی سے نقل کرتے ہیں:

''یحییٰ بن معین سے جب خلف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: ''اسے اتنا بھی معلوم نہیں

تھا کہ علم حدیث کیا چیز ہے۔،،(۱)

مؤلف: خلف سے قراءت نقل کرنے والے راویوں کے بارے میں گفتگو بعدمیں کی جاھے گی۔

خلاد بن خالد: ابو عیسیٰ شیبانی کے نام سے مشہور ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''خلاد، علم قراءت میں پیشوا اور قابل اطمینان آدمی ہے اور وہ اس علم کا دانشمند، محقق اور استاد ہے۔،،

اس نے قراءت سلیم سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا حافظہ سب سے تیز تھا اور یہ سب سے زیادہ قابل قدر تھا۔ ۲۲۰ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی طرح گمنام اور مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۳، ص۱۵۲۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۷۴۔

۱۸۶

۶۔ نافع مدنی

اس کا نام نفع بن عبد الرحمن ابی نعیم ہے۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''نافع، سات مشہور قاریوں او علماء میں سے ایک ہے۔ یہ باوثوق اور نیک آدمی ہے۔ یہ اصل میں اصفہان کا ہے۔،،

اس نے اہل مدینہ کے تابعین کی ایک جماعت سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لئے سنائی۔

سعید ابن منصور نے کہا کہ میں نے مالک بن انس کو یہ کہتے سنا ہے:

''اہل مدینہ کی قراءت، سنت اور روش پیغمبرؐ ہے۰ اس (مالک بن انس) سے پوچھا گیا: کیا قراءت اہل مدینہ سے مراد، نافع کی قراءت ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔،،

عبد اللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں:

''میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ کون سی قراءت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: اہل مدینہ کی قراءت۔ میں نے کہا: اگر یہ قراءت میسر نہ ہو تو؟ انہوں نے جواب دیا: عاصم کی قراءت کو۔،

نافع نے ۱۶۹ھ میں وفات پائی۔(۱)

ابو طالب نے احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے:

''لوگ قرآن نافع سے سیکھتے تھے لیکن نقل حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔،،

دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے:

''نافع قابل اعتماد آدمی تھا۔،،

نسائی کہتا ہے:

''نافع میں کوئی عیب نہیں تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۱۸۷

ابن حیان نے بھی نافع کو قابل اعتماد افراد میں شمار کیا ہے۔

ساجی کا کہنا ہے:

''نافع راست گو آدمی ہے۔ لیکن احمد اوریحییٰ کی رائے اس کے بارے میں مختلف ہے۔ احمد کہتا ہے: اس کی حثیت قابل قبول نہیں اوریحییٰ کا کہنا ہے: یہ قابل اعتماد ہے۔،،(۱)

نافع کی قراءت دو راویوں ''قانون،، اور ''ورش،، نے بلا واسطہ نقل کی ہے۔

قالون: اس کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو موسیٰ ہے اور اس کے والد کا نام میناء ابن وردان ہے اور یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ ہے۔

منقول ہے کہ یہ نافع کاپروردہ تھا۔ قراءت میں اس کی ہوشیاری او زیرکی کی وجہ سے نافع نے اس کا نام ''قالون،، رکھا، کیونکہ رومی لغت میں قالون کا معنی ''عمدہ،، ہے۔

عبد اللہ بن علی کہتے ہیں:

''اسے قانون کالقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پر دادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''اسے قانون کا لقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پردادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۱۰، ص ۴۰۷۔

۱۸۸

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''قالون گونگا تھا اور وہ لبوں کے اشاروں سے قرآن پڑھتا اور ہونٹوں کے اشارے سے ہی لوگوں کو قراءت کی اغلاط کی طرف متوجہ کرتی تھا۔،،

یہ ۱۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

ابن حجر کہتے ہیں:

''قالون قراءت میں قابل اعتماد اور باوثوق ہے۔ لیکن حدیث کے اعتبار سے اس کی احادیث کسی حد تک قابل درج ہیں۔،،

احمد بن صالح مصری سے قالون کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:

''کیا ہر کس و ناکس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔،،(۲)

مؤلف: قالون کے راوی بھی دوسرے قاریوں کے راویوں کی طرح گمنام ہیں۔

ورش: اس کا نام عثمان اور اس کے والد کا نام سعید ہے۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''میرے دور میں تعلیم قراءت کی ریاست کا منصب مصر میں ورش کے حوالے کردیا گیا۔ قراءت میں اس کا اپنانظریہ ہے جس میں اس نے نافع سے اختلاف کیا ہے۔ قراءت میں یہ قابل اعتماد ہے اور اس کی باتیں حجت و مدرک کی حیثیت رکھتی ہیں۔،،

یہ ۱۱۰ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷ھ میں وہیں انتقال کرگئے۔(۳)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۵۔

(۲) لسان المیزان، ج ۴، ص ۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۵۰۲۔

۱۸۹

۷۔ کسائی کوفی

اس کا نام علی اور یہ کسائی کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے والد کا نام حمزہ ابن عبداللہ بن بہمن بن فیروز ہے اور یہ قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے بنی اسد نے آزاد کرایا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا پیشوا ہے جسے ''حمزہ زیارت،، کے بعد کوفہ میں علم قراءت کی ریاست سونپی گئی۔ اس نے قراءت حمزہ سے سیکھی اور اسی سے اس کی تائیدلی۔ اس نے اپنی قراءت چار مرتبہ حمزہ کو سنائی۔ وہ قراءت میں صرف حمزہ پر اعتماد کرتا تھا۔،،

ابو عبید اپنی کتاب ''القرءات،، میں کہتا ہے:

''قراءت میں کسائی کی روش مخصوص تھی اور حمزہ کی بعض قراءتیں اس نے قبول کیں اور بعض ترک کردیں۔،،

کسائی کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ جو تاریخ وفات ہماری نظر میں صحیح ہے اور بعض مؤرخین نے بھی اسے لکھا ہے وہ ۱۸۹ھ ہے۔(۱)

اس نے ''حمزہ زیارت،، سے بطور مذاکرہ اور محمد بن عبدالرحمن بن لیلی، عیسیٰ بن عمرو اعمش اور ابوبکر بن عیاش سے قراءت سیکھی اور انہیں سے حدیث کا درس حاصل کیا۔ ان کے علاوہ سلیمان بن ارقم، امام جعفر صادق (علیہ السلام)، عزرمی اور ابن عیینہ سے بھی قراءت سیکھی۔ اس نے خلیفہ رشید اور پھر اس کے بیٹے امین کو قراءت کی تعلیم دی۔(۲)

''مرزبانی،،، ''ابن اعرابی،، سے نقل کرتا ہے:

''اگرچہ کسائی گناہگار تھا اور ہر وقت شراب پیتا تھا اور بعض دوسرے گناہوں کا بھی علی الاعلان مرتکب ہوتا تھا،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۵۳۵۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۷، ص ۳۱۳۔

۱۹۰

اس کے باوجود وہ ایک سچا آدمی، قاری قرآن، مضبوط و تیز حافظہ کا مالک اور عربی زبان کا ماہر تھا۔،،(۱)

کسائی کی قراءت کے دو بلا واسطہ راوی لیث بن خالد اور حفص بن عمر ہیں۔

لیث: اس کی کنیت ابو الحارث تھی، والد کا نام خالد اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک معروف، قابل اعتماد، استاد حاذق اور مضبوط حافظے والا انسان ہے اور یہ کسائی کے بڑے شاگردوں میں سے ہے۔،،

اس نے کسائی سے قراءت سیکھی۔ اس کی تاریخ وفات ۲۴۰ھ ہے۔(۲)

مؤلف: اس کے راویوں کی حالت بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

حفص بن عمر دوری کے حالات، عاصم کے حالات کے ضمن میں بیان کیے جاچکے ہیں۔

یہ تھے سات قاری۔ جن کی قراءتوں اور راویوں کے مفصل حالات کا یہاں ذکر کیا گیا۔

قاسم بن فیرہ نے اپنے قصیدہ ''لامیہ،، معروف بہ ''شاطبیہ،، میں سات قاریوں اور ان کے راویوں کے نام نظم کی صورت میں بیان کئے ہیں۔

دس قاریوں میں سے تین قاریوں کے نام یہ ہیں:

خلف ۔ یعقوب اور یزید بن قعقاع۔

____________________

(۱) معجم الادبائ، ج ۵، ص ۱۸۵۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۴۔

۱۹۱

۸۔ خلف بن ہشام بزار

خلف کے حالات، حمزہ کے حالات کے ذیل میں بیان کئے جاچکے ہیں۔ اس کی قراءت کے راوی ''اسحاق،، اور ''ادریس،، ہیں۔

اسحاق: اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اسحاق کے والد کا نام ابراہیم بن عثمان بن عبد اللہ اور اس کی کنیت ابو یعقوب تھی۔ اصل میں یہ مروز کا باشندہ تھا اور بعد میں اس نے بغداد کو اپنا وطن بنالیا۔یہ خلف کی قراءت کا ناقل، اس کے کتابخانے کا مسؤل اور قابل اعتماد انسان تھا۔،،

اس نے ۲۸۶ھ میں وفات پائی۔(۱)

مؤلف: قراءت اسحاق کے راوی بھی دیگر راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

ادریس: اس کے بارے ابن جزری کا کہنا ہے:

''ا سکا نام ادریس اور اس کے والد کا نام عبد الکریم حداد تھا۔ اس کی کنیت ابو الحسن تھی اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا، یہ علم قراءت کا امام، مضبوط حافظہ کا مالک اور قابل اطمینان انسان ہے، اس نے قراءت خلف بن ہشام سے سیکھی۔،،

دار قطنی سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:

''باوثوق بلکہ اس سے بھی بہتر ہے۔،،

اس نے ۲۹۲ء میں وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کے راوی بھی دوسروں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۵۵۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۱۵۴۔

۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق

اس کا نام یعقوب، والد کا نام اسحاق اور اس کی کنیت ابو محمد ہے، یہ قبیلہ حضرمی کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ دس قاریوں میں سے ایک ہے۔،،

یعقوب کا کہنا ہے:

''میں نے سلام سے ڈیڑھ سال اور شہاب بن شرنفۃ مجاشعی سے پانچ دن قراءت سیکھی۔ شہاب نے نو دن مسلمہ نے محارب المحاربی سے اور مسلمۃ نے ابی الاسود دؤلی سے اور اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے قراءت سیکھی۔،،

اس نے ۲۰۵ھ میں ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں احمد اور ابو حاتم کا کہنا ہے:

''یہ صادق انسان تھا۔،،

ابن حیان نے بھی اسے قابل اطمینان افراد میں شمار کیا ہے لیکن ابن سعد کا کہنا ہے:

''علمائے رجال کی نظر میں یہ کوئی پایہ کا محقق نہیں ہے۔،،(۲)

اس کی قراءت کے دو راوی ''رویس،، اور ''روح،، ہیں۔

رویس: اس کا نام محمد، والد کا نام متوکل معروف بہ لؤلؤ تھا۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت میں استاد اور مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔ فن قراءت میں اسے خاصی مہارت اور شہرت حاصل تھی۔ اس نے یعقوب حضرمی سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۲، ص ۳۸۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۱، ص ۳۸۲۔

۱۹۳

دانی کا کہنا ہے:

''یہ یعقوب کے ماہر شاگردوں میں سے تھا۔،،

اس سے محمدبن ہارون تمار اور امام ابو عبد اللہ زبیر بن احمد زبیری شافعی نے قراءت نقل کی ہے۔

اس نے ۳۳۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

روح: اس کی کنیت ابو الحسن، والد کا نام عبد المومن اور تعلق قبیلہ ھذل سے تھا اور یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا، اس کا شمار دانشمندان علم نحو میں ہوتا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''وہ قراءت میں استاد او رجلیل القدر شخصیت تھا، وہ موثق اور قوی حافظہ کا مالک تھا۔،،

اس نے قراءت یعقوب حضرمی سے سیکھی اور اس کا شمار یعقوب کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا۔ اس نے ۲۳۴ھ یا ۲۳۵ھ میں وفات پائی۔(۲)

مولف: جنہو ں نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ان کی حالت بھی گذشتہ رایوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۳۴۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۸۵۔

۱۹۴

۱۰۔ یزید بن قعقاع

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس کا نام یزید اور والد کا نام قعقاع تھا۔ اس کی کنیت ابو جعفر ہے۔ اس کا تعلق قبیلہ مخزوم سے اور یہ مدینہ کا رہنے والا تھا، وہ اپنے فن میں امام تھا اور اس کا شمار دس مشہور قاریوں اور تابعین میں ہوتا ہے۔ یہ ایک معروف اور جلیل القدر شخصیت ہے۔،،

اس نے عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، عبد اللہ بن عباس اور ابوھریرہ سے قراءت سیکھی اور انہی کو تصدیق کے لیے سنائی۔

یحییٰ بن معین کہتا ہے:

''ابن قعقاع، قراءت میں اہل مدینہ کاامام تھا اور اسی لیے اس کا نام قاری رکھا گیا، وہ ایک قابل اعتماد انسان تھا لیکن اس نے احادیث کم نقل کی ہیں۔،،

ابن ابی حاتم کا کہنا ہے:

''میں نے اس کے بارے میں اپنے والد سے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا: وہ بیان حدیث میں نیک انسان ہے۔،،

اس نے ۱۳۰ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔(۱)

ابو جعفر (ابن قعقاع) کی قراءت کے دو راوی ''عیسیٰ،، اور ''ابن جماز،، ہیں۔

عیسیٰ: اس کے والد کا نام ''وردان،، اور کنیت ابو الحارث تھی۔ یہ مدینہ کا رہنے والا حذاء کے نام سے مشہور تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''عیسیٰ، قراءت کااستاد اور امام تھا۔ یہ راویئ حدیث، محقق، قوی حافظہ رکھنے والا محتاط انسان تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۸۲۔

۱۹۵

اس نے قراءت شروع میں ابو جعفر اور شیبہ سے اور بعد میں نافع سے سیکھی۔

دانی اس کے بارے میں کہتا ہے:

''عیسیٰ، نافع کے پرانے اور جلیل القدر شاگردوں میں سے ہے۔ نقل حدیث اور سند میں یہ نافع کا شریک رہا ہے۔،،

میرے خیال میں عیسیٰ کا سن وفات ۱۶۰ھ ہے۔(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی مانند ہیں۔

ابن جماز: اس کا نام سلیمان اور والد کا نام مسلم بن جماز تھا، اس کی کنیت ابوالربیع تھی۔ یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ تھا اور اس نے مدینہ کو اپنا وطن بنایا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا استاد اور جلیل القدر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔،،

کتب ''الکامل،، اور ''المستنیر،، کے مطابق اس نے شروع میں قراءت ابو جعفر اور شیبہ سے سیکھی اور بعد میں تصدیق کے لیے نافع کو سنائی۔ میرے خیال میں اس نے ۱۷۰ھ کے بعد وفات پائی۔(۲)

اب تک جن دس قاریوں اور ان کے راویوں کا ذکر کیاگیا ہے، سوانح نگاروں میں انہیں کی شہرت ہے۔ لیکن ان مذکورہ طریقوں کے علاوہ جن قراءتوں کی روایت کی گئی ہے وہ مدون شکل میں نہیں ہےں۔

ان دس قاریوں کے دیگر راویوں کے بارے میں سوانح نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کررہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۶۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۳۱۵۔

۱۹۶

قراءتوں پر ایک نظر

٭ تواتر قرآن کے منکرین کی تصریح

٭ تواتر قراءت کے دلائل

٭ قراءتیں اور سات اسلوب

٭ حجیت قراءت

٭ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

۱۹۷

اس سے قبل قاریوں سے متعلق تمہیدی بحث کے دوران قراءت کے تواتر اور عدم تواتر کے بارے میں بعض علمائے کرام کی رائے بیان کی گئی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ محققین تواتر قراءت کے منکر ہیں۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا قرآن کے تواتر ہونے پر اتفاق ہے۔

اب ہم ذیل میں قراءت کے متواتر نہ ہونے پر چند دلائل پیش کرتے ہیں:

۱۔ راویوں کے حالات زندگی کے مطالعہ اور ان میں تحقیق سے حتماً یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے نقل کی گئی ہیں خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔ چونکہ قاریوں کے حالات زندگی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے لہذا ان قراءتوں کے تواتر کا دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ بعض راویان قراءت کا موثق ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔

۲۔ اگر قاریوں کے قراءت حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقوں پر غور کیا جائے تو بھی قطعاً یہ ثابت ہوجاتا ے کہ یہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے ان قاریوں تک پہنچی ہیں، خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔

۳۔ ہر قراءت کے سلسلہ سند کا قاریوں تک منتہی ہونا تواتر اسناد کو قطع کردیتا ہے اگر چہ ہر طبقہ میں قراءتوں کے قاریوں کا کذب پر اتفاق ممتنع اور محال ہو۔ ا سلیے کہ ہر قاری صرف اپنی قراءت نقل کرتا ہے، جو خبر واحد ہے۔

۴۔ ہر قاری اور اس کے پیروکاروں کا صحت قراءت کے لیے استدلال کرنا اور دوسروں کی قراءت سے اعراض و احتراز اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ان قراءتوں کا مسند و مدرک قاریوں کا اپنا اجتہاد اور اپنی ذاتی رائے ہے۔ کیوں کہ اگر یہ قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوتیں تو ان کی صحت ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔

۵۔ بعض علماء و محققین کا بعض روایات قراءت کا انکار کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ قراءت متواتر نہیں کیونکہ اگر یہ قراءتیں متواتر ہوتیں تو ان کا انکار درست نہ ہوتا۔

۱۹۸

چنانچہ ابن جریر طبری نے ابن عامر کی قراءت تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس نے ان سات مشہور قراءتوں میں سے بعض کو ہدف تنقید قرار دیا ہے۔

بعض علماء نے حمزہ کی قراءت کو بھی مورد اشکار و اعتراض قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض نے ابوعمرو کی اور بعض نے ابن کثیر کی قراءت رد کردی ہے اور بہت سے دانشمندوں نے تو ہر اس قراءت کے تواتر کو مسترد کردیا ہے جس کی وجہ اور منشاء لغت عرب میں موجود نہ ہو اور اس سلسلے میں بعض قاریوں کی خطا و لغزش کا حکم لگایا ہے۔(۱)

حمزہ کے حالات زندگی میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس (حمزہ) کی قراءت کو حنبلیوں کے امام، احمد بن حنبل، یزید بن ہارون، ابن مہدی(۲) ، ابوبکر بن عیاش اور ابن درید نے تسلیم نہیںکیا۔

زرکشی کہتے ہیں:

''قراءتیں توقیفی(۳) ہیں۔ علماء کی ایک جماعت ،جس میں زمخشری بھی شامل ہیں، نے اسسے اختلاف کیا ہے۔ کیو نکہ ان کا خیال ہے کہ قراءتیں اختیاری ہیں اور ان کا دارو مدار فصحاء کے اختیار و انتخاب اوربلغاء کے اجتہاد پر ہے۔،،

____________________

(۱) معتصم باللہ طاہر بن صالح بن احمدالجزائری کی کتاب ''التبیان،، ص ۱۰۶، طبع ''المنار،،،، ۱۳۳۴ھ۔

(۲) اس کا نام عبدالرحمن بن مہدی ہے ''تہذیب التہدیب، ج ۶، ص ۲۸۰ میں مذکور ہے: احمد بن سنان کہتے ہیں: میں نے علی ابن المدینی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ''عبد الرحمن بن مہدی لوگوں میں سب سے زیادہ عالم ہیں،، اس جملے کو اس نے کئی بار دہرایا۔ خلیلی نے کہا''ابن مہدی امام ہے اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے،، اس کے بارے میں شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے دنیا میں اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں دیکھا۔

(۳) یعنی، جو تلفظ رسولؐ نے فرمایا وہی تلفظ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ قاری کو کسی قرت کے انتخاب کا اختیار نہیں ہے۔ (مترجم)

۱۹۹

اس کے بعد زرکشی حمزہ کے اس قراءت کو رد کرتے ہیں جس میں ''والارحام،، کو زیر دی گئی ہے۔ ابی زید، اصمعی اور یعقوب حضرمی سے منقول ہے کہ انہوں نے حمزہ کی اس قراءت کو غلط قرار دیا ہے جس میں اس نے ''وما انتم بمصرخی،، میں تشدید کے ساتھ زیر دی ہے نیز انہوں نے ابو عمرو کی اس قراءت کوبھی تسلیم نہیں کیا جس میں اس نے ''یغفرلکم،، میں ''ر،، کو لام میں مدغم کرکے پڑھا ہے اور زجاج کا کہنا ہے: ''اس طرح پڑھنا فاش غلطی ہے۔،،(۱)

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم قراءت کے بعض ماہرین کا کلام پیش کیا جائے جس میں انہوں نے قراءت کے متواتر نہ ہونے کی تصریح کی ہے تاکہ حق اپنی بہترین صورت میں ظاہر ہ وجائے۔

۱۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''ہر وہ قراءت جو لغتِ عرب کے مطابق ہو، اگرچہ ایک پہلو ہی سے ہو اور عثمانیوں کے قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہو، خواہ اس کا احتمال ہی ہو اور اس کی سند بھی صحیح ہو تو ایسی قراءت صحیح ہوگی اور اس کو رد کرنا جائز نہیں اور اس کا انکار حلال نہیں ہے، بلکہ یہ ان سات اسلوبوں میں سے ایک اسلوب ہوگا جس کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے اور واجب ہے کہ لوگ اسے قبول کرلیں چاہے یہ قراءت ان سات مشہور قاریوں میں سے کسی کی ہو یا دس میں سے کسی کی ہو یا ان دس کے علاوہ کسی اور قابل قبول قاری کی ہو لیکن اگر کسی کی قراءت میں ان تین اہم شرائط و ارکان میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو وہ قراءت ضعیف، شاذ و نادر اور باطل سمجھی جائے گی چاہے یہ قراءت ان سات قاریوں میں سے کسی کی ہو یا ان سے بڑے کی ہو۔،،

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۷۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689