البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321036 / ڈاؤنلوڈ: 9574
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

میں تھا ساقط ہوگیا(۱) _

حضرت علی (ع) کو پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ علی (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنی جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت علی (ع) کی جان کو خطرے میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتی تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنی ہاشم کی مستورات کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ علی (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کی قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالی کی درگاہ میں نالہ کروں گی اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر(ص) کی قبر پر اللہ کی درگاہ میں استغاثہ کروں گی یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کی قبر کی طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسی صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسی سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کی دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۱

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہی کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی (ع) نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت علی (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتی ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں(۱) _

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کی مدت گرچہ تھوڑی اور آپ کی حیات کا زمانہ بہت ہی مختصر تھا، لیکن آپ کی حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت علی (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیری کرلیتی ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھی جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۷ و روضہ کافی، ص ۱۹۹_

۱۶۲

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنی مضبوطی سے کھڑی رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب علی (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھی آپ میدان میں آگئیں اور علی (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخری مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر علی (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنی پائیداری سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کی خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زاری شروع کردی اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت علی (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جی ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخری لحظہ اور قدرت تک علی (ع) سے دفاع کرتی رہوں گی اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت علی (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنی ہوگی، اس طرح عمل کر کے

۱۶۳

اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کی تائید کروں گی اور جناب ابوبکر کی خلافت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کروں گی اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھی شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کی خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ی اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گی کہ حق کی حکومت سے روگردانی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کی دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور ابھی سے تمام عالم کے مسلمانوں کی بتلا دینا چاہتی ہوں کہ بیداری اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابی حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کی تربیت شدہ تھیں، فداکاری اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسی بھی طاقت کے استعمال کی پرواہ نہ کی_

تیسرا مرحلہ فدک(۱)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ

____________________

۱) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_

۱۶۴

ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا(۱) _

کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_''وات ذا القربی حقه'' (۲) _ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت''وات ذاالقربی حقه'' نازل

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۰_

۲) سورہ اسراء آیت ص ۲۶_

۱۶۵

ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت''و آت ذاالقربی حقه'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(۲) _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا(۳) _

فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی(۴) _

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے(۵) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور تفسیر در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور کتاب در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷ ور غایة المرام ص ۳۲۳ میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے_

۴) سفینة البحار، ج ۲ ص ۲۵۱_

۵) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۶

دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا(۱) _

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کبوں فاطمہ (ع) کو بخشا

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مطالعے سے یہ امر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ ثروت اور مال کے شیدائی نہ تھے اور مال کو ذخیرہ کرنا اور جمع رکھنے کی کوشش نہیں کیا کرتھے اپنے مال کو اپنے ہدف یعنی خداپرستی کے لئے خرچ کردیا کرتے تھے، مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جناب خدیجہ کی بے حد اور بے حساب دولت کو اسی ہدف اور راستے میں خرچ کر رہے تھے اور خود اور آپ کے داماد اور لڑکی کمال سختی اور مضیقہ میں زندگی بسر کرتے تھے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۷

کبھی بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا کرتے تھے_ پیغمبر(ص) ان آدمیوں میں نہ تھے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے مال، دولت حاصل کرتے مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی اپنے گھر کے لئے ایک پشمی پردہ لٹکائے رکھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو چاندی کا دستبند پہنائیں_ اور خود گردن میں ہار پہنے رکھے_

سوچنے کی بات ہے اپنی زندگی اور بیٹی کی داخلی زندگی میں اتنا سخت گیر ہونے کے باوجود کس علت کی بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقیمت مال کو فاطمہ (ع) کے لئے بخش دیا تھا؟ آپ کا یہ غیر معمولی کام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ کی یوں علت بیان کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین کریں اور یہ بھی جانتے تھے کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کی رہبری اور حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کی خلافت کے لئے رکاوٹیں ڈالیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے بہت زیادہ گھرانے اور خاندان حضرت علی (ع) کی طرف سے بغض و کدورت رکھتے ہیں کیوں کہ علی (ع) شمشیر زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ایسے تھے کہ جن میں کا ایک یا ایک سے زائد آدمی زمانہ کفر میں علی (ع) کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پیغمبر(ص) کو علم تھا کہ خلافت اور مملکت کے چلانے کے لئے مال اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے ان حالات اور شرائط میں قوری کا جمع ہوجانا مشکل کام ہوگا_ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر علی (ع) فقراء اور بیچاروں کی مدد اور اعانت کرسکے اور ان کی معاشی احتیاجات برطرف کرسکے تو دلوں کا بغض اور کدورت ایک حد تک کم ہوجائے گا اور آپ کی طرف دل مائل ہوجائیں گے_

۱۶۸

یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا_ در حقیقت یہ مستقبل کے حقیقی خلیفہ کے اختیار میں دے دیا تھا تا کہ اس کی زیادہ آمدنی فقراء اور مساکین کے درمیان تقسیم کریں شاید کینے اور پرانی کدروتیں لوگ بھول جائیں اور حضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں، خلافت کے آغاز میں اس کی بحرانی حالت میں اس مال سے استفادہ کریں اور خدا اور رسول (ص) کے ہدف کی ترقی اور پیشرفت میں اس سے بہرہ برداری کریں_ در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) نے اس ذریعے سے خلافت کی اقتصادی مدد کی تھی_

فدک جناب رسول خدا(ص) کی زندگی میں جناب زہرا(ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا آپ قوت لایموت یعنی معمولی مقدار اپنے لئے لیتیں اور باقی کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتیں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتیں_

جب جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکوت پر قبضہ کیا اور تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک آنجناب سے واپس لے لیں، چنانچہ انہوں نے حکم د یا کہ جناب فاطمہ (ع) کے کارکنوں اور عمال اور مزارعین کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ حکومت کے کارکن نصب کردیئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(۱) _

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلی عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ

____________________

۱) تفسیر نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۱۶۹

کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتی تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھی کبھار نیکی سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور بسا اوقات اعتراض بھی کردیتی تھیں اور کہتی تھیں خدیجہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلی عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میری یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا ہے(۱) _

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسی عورت سے بھی رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میری شادی سے تین سال پہلے فوت ہوچکی تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھی بھیج دیتے تھے(۲) _

____________________

۱) تذکرة الخواص، ص ۳۰۳ و مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۲۴_

۲) صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۸۸۸_

۱۷۰

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑی قیل و قال کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں اے خدیجہ کی بیٹی تو گمان کرتی ہے کہ تیری ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھی میری طرح کی ایک عورت تھی جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کی گفتگو سن لی اور جب جناب فاطمہ (ع) کی نگاہ باپ پر پڑی تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتی ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میری ماں کی توہین کی ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والی بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میری نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا(۱) _

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتی تھیں کیونکہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اسے اپنی سوکن کی اولاد پسند نہیں آتی اور عائشےہ کبھی اتنی سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھی اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کی شادی ہوچکی ہے آپ پھر بھی اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسی بات نہ کرتیں(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۱۶ ص ۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۵_

۱۷۱

آپ جناب فاطمہ (ع) کی جتنی زیادہ تعری کرتے اتناہی جناب عائشےہ کی اندرونی کیفیت دگرگوں ہوتی اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کی آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ آپ علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہی ہو(۱) _

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھی تھیں اور پیغمبر(ص) کی نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھی جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کی شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھی دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھی اپنی اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھی برے دن اور آگے ہیں(۲) _

____________________

۱) مجمع الزواید، ج ۹ ص ۲۰۱_

۲) ارشاد شیخ مفید، ص ۹۰_

۱۷۲

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کی سفارشات بھی ان کی نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کی مالی اور اقتصادی حالت اچھی ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھی ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو علی (ع) سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیری طرف مائل ہوجائیں گے(۱) _

جی ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملی کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور

____________________

۱) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص ۱۲۳_

۱۷۳

اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفی نہ تھا اور ان کے اصلی اقدام کی غرض و غایت سے بھی بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشی کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھی جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھی اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کی غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولی امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی پوری قدرت سے رکھتی ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتی تھیں کہ وہ اقتصادی دباؤ اور آمدنی کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقی خلیفہ حضرت علی (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت علی (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسی قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے علی (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھی فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی خلافت سے مبارزہ کر کے

۱۷۴

اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومی افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کی فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کی حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کی عادی ہوجائے گی اور پھر لوگوں کے حقوق کی مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبی رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ پیغمبر(ص) کی دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعی حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحی کے دامن اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کی خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کی تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کی نمونہ عورت کی رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستی کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزی کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھی جائے گی_

۱۷۵

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہی وجہ تھی کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کی حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) نای عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافی تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکاری اور شجاعت اور بردباری اور استقامت کی عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبری سے وراثت میں پائی تھی اور انہوں نے مبارزت اسلامی کے مرکز میں تربیت پائی تھی انہوں نے ان فداکاروں اور قربانی دینے والوں کے گھر میں زندگی گزاری تھی کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکی تھیں اور ان کے زخمی بدن کی مرہم پٹی کرچکی تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حکومت سے مرعوب نہیں ہوتی تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر

۱۷۶

نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذی القربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (ع) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی

۱۷۷

کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے(۱) _

ایک دن حضرت علی (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت علی (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا علی ایسی باتین چھوڑو(۲) _

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱، اور کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_ اور شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۷۴_

۲) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱_ کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_

۱۷۸

ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا(۱) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_

پھر بھی استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کی وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_

____________________

۱) نہج البلاغہ، ج ۳ ص ۴۵_

۱۷۹

آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبی نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فهب لی من لدنک وَلیاً یرثنی وَ یرث من آل یعقوب'' (۲)

جناب ابوبکر نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم الله فی اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (۳)

کیا میں رسول اللہ (ص) کی اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسی سابقہ کلام کی تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنی روش اور غیر شرعی عمل کے لئے ایک حدیث نقل کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھی

____________________

۱) سورہ نحل آیت ۱۶_

۲) سورہ مریم آیت ۶_

۳) سورہ نساء آیت ۱۱_

۱۸۰

۲۴۶ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۱)

دارقطنی کا کہنا ہے: ''یہ ضعیف ہیں،،۔ اور عقیلی کا کہنا ہے: ''یہ قابل اعتماد ہیں۔،،(۲)

مؤلف: جنہوں نے دوری سے قراءت نقل کی ہے وہ گذشتہ راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

سوسی: اس کانام صالح اور کنیت ابو شعیب تھی۔ اس کے والد کا نام زیاد بن عبد اللہ ہے۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''موسی مسائل حفظ کرتا اور لکھتا اور یہ باوثوق آدمی تھا۔،،

اس نے قراءت ابو محمد یزیدی سے سیکھی اور اسی کو تصدیق کے لیے سنائی اور یہ ابو محمد یزیدی کے اصحاب میں سے تھا۔ ۲۶۱ھ کے آغاز میں اس نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔(۳)

ابوحاتم کا کہنا ہے:

''یہ راست گو انسان تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد تھا۔،،

___________________

(۱) ایضاً،ج ۱، ص ۰۲۵۵

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۲، ص۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۳۳۲۔

۱۸۱

ابن حیان نے بھی اس کو قابل اعتماد قرار دیا ہے اور ابو عمرو دانی کا کہنا ہے:

''نسائی نے قراءت سوسی سے نقل کی ہے۔ مسلم بن قاسم اندلسی نے بلا وجہ اور بغیر کسی دلیل کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی مجہول اور گمنام ہیں۔

۵۔ حمزہ کوفی

یہ حبیب بن عمارۃ بن اسماعیل کا بیٹا اور اس کی کنیت ابو عمارۃ ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا اور قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے بچپن میں صحابہ کو درک کرلیا تھا اس نے سلمان بن اعمش اور حمران بن اعین سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لیے سنائی۔

کتاب''الکفایة الکبریٰ و الیتسیر،، میں مذکور ہے کہ اس نے مغیرہ بن مقسم، منصور ادرلیث بن ابی سلیم سے قراءت سیکھی۔ صاحب کتاب ''الیتسیر و المستنیر،، لکھتے ہیں کہ اس نے قراءت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سیکھی۔ ان کا کہنا ہے:

''حمزہ نے شروع میں قراءت حمران سے سیکھی اور اعمش، ابو اسحاق اور ابن ابی لیلیٰ کو تصدیق کے لئے سنائی اور عاصم و اعمش کے بعد علم قراءت میں امامت اور پیشوائی کا منصب اسی کے سپرد کیا گیا وہ اس فن کا امام، قابل وثوق اور بے نظیر آدمی تھا۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۴، ص ۳۹۲۔

۱۸۲

عبد اللہ عجلی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے حمزہ سے مخاطب ہو کر کہا:

''آپ کو دو موضوعات ''قرآن،، اور ''فرائض،،(۱) میں ہم پر بالا دستی حاصل ہے ان میں ہم آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔،،

سفیان ثوری کا کہنا ہے:

''قرآن،، اور ''فرائض،، میں حمزہ کے ہم پایہ کوئی آدمی نہیں ہے۔،،

عبداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں:

''حمزۃ کا استاد اعمش جب بھی حمزہ کو دیکھتا تو کہتا: یہ عالم قرآن ہے۔،،

حمزہ ۸۰ھ میں پیدا ہوا اور ۱۵۶ھ میں اس کا انتقال ہوا۔(۲)

ابن معین کہتا ہے۔

''حمزہ باوثوق اور قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''اس (حمزہ) میں کوئی حرج نہیں۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد اور نیک انسان تھا۔،،

___________________

(۱) یعنی مسائل میراث (مترجم)

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۶۱۔

۱۸۳

ابن سعد کا کہنا ہے:

''حمزہ نیک آدمی تھا، اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں، یہ ایک سچا انسان تھا اور علم قراءت میں خاص روش کا مالک تھا۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حمزہ سچا انسان تھا لیکن اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کی حدیث میں کوئی پختگی نہیں ہے۔،،

بعض اہل حدیث نے قراءت میں بھی اس پر تنقید کی ہے اور بعض حضرات اس کی قراءت کے مطابق پڑھی گئی نماز کو باطل سمجھتے ہیں۔

ساجی اور ازدی کا کہنا ہے:

اس کی قراءت پر علماء میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں اور وہ ایک مذموم حالت کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں۔،،

اس کے علاوہ ساجی کا کہنا ہے:

''میں نے سلمۃ بن شبیب کو یہ کہتے ہوئے سنا: احمد بن حنبل اس شخص کی اقتداء کرنا پسند نہیں کرتے تھے جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتا ہو۔،،

آجری، احمد بن سنان سے نقل کرتے ہیں:

''یزید بن ہاروں کو حمزہ کی قراءت سے سخت نفرت تھی۔،،

احمد بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

''اگر مجھ میں قدرت ہوتی تو ان لوگوں کو زدو کوب کرتا جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتے ہیں۔،،

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں:

''حمزہ کی قراءت میرے نزدیک بدعت ہے۔،،

۱۸۴

ابن دری کہتا ہے:

''میں چاہتا ہوں کہ کوفہ سے حمزہ کی قراءت کامکمل خاتمہ ہو جائے۔،،(۱)

اس کے دو راوی ہیں جنہوں نے بالواسطہ اس سے قراءت نقل کی ہے اور یہ ''خلف بن ہشام،، اور ''خلاد بن خالد،، ہیں۔

خلف: اس کی کنیت ابو محمد تھی اور اس کا تعلق بنی اسد سے تھا۔ اس کے والد کا نام ہشام بن ثعلب بزاز تھا، جو بغداد کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کہتا ہے:

''خلف دس قاریوں میں سے ایک ہے۔ سلیم کے واسطے سے حمزہ کی قراءت روایت کرنے والوں میں سے یہ ایک ہے۔ اس نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا اور تیرہ سال کی عمر میں علم قراءت کی تحصیل میں مشغول ہوگیا اور وہ ثقہ، جلیل القدر، زاہد و عابد اور دانشمند انسان تھا۔،،

ابن اشتہ کا کہنا ہے:

''خلف نے قراءت میں حمزہ کی روش اپنائی لیکن وہ ایک سو بیس مقامات پر حمزہ سے اختلاف رکھتا تھا۔،،

یہ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوا اور ۲۲۹ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

لالکائی کا کہنا ہے:

''عباس دوری سے جب اس داستان کے متعلق پوچھا گیا جو احمد بن جنبل نے خلف کے بارے میں نقل کی ہے تو عباس دوری نے جواب میں کہا: میں نے خود احمد بن حنبل سے یہ داستان نہیں سنی البتہ میرے دوسرے نقل کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے پاس خلف کا نام لیا گیا اور باتوں باتوں میں یہ بِھی کہا گیا کہ خلف شراب پیتا تھا

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۳، ص۲۷۔

(۲) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۲۷۲۔

۱۸۵

تو احمد نے کہا: ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت ہے لیکن اس کے باوجود (واللہ) وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''خلف بغدادی ہے اور قابل اعتماد آدمی ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''خلف کہا کرتا تھا: میں نے اپنی چالیس سال کی نمازیں دوبارہ پڑھی ہیں، کیونکہ اس دوران میں کوفیوں کے مسلک کے مطابق شراب پیتا تھا۔،،

خطیب بغدادی، اپنی تاریخ میں محمد بن حاتم کندی سے نقل کرتے ہیں:

''یحییٰ بن معین سے جب خلف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: ''اسے اتنا بھی معلوم نہیں

تھا کہ علم حدیث کیا چیز ہے۔،،(۱)

مؤلف: خلف سے قراءت نقل کرنے والے راویوں کے بارے میں گفتگو بعدمیں کی جاھے گی۔

خلاد بن خالد: ابو عیسیٰ شیبانی کے نام سے مشہور ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''خلاد، علم قراءت میں پیشوا اور قابل اطمینان آدمی ہے اور وہ اس علم کا دانشمند، محقق اور استاد ہے۔،،

اس نے قراءت سلیم سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا حافظہ سب سے تیز تھا اور یہ سب سے زیادہ قابل قدر تھا۔ ۲۲۰ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی طرح گمنام اور مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۳، ص۱۵۲۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۷۴۔

۱۸۶

۶۔ نافع مدنی

اس کا نام نفع بن عبد الرحمن ابی نعیم ہے۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''نافع، سات مشہور قاریوں او علماء میں سے ایک ہے۔ یہ باوثوق اور نیک آدمی ہے۔ یہ اصل میں اصفہان کا ہے۔،،

اس نے اہل مدینہ کے تابعین کی ایک جماعت سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لئے سنائی۔

سعید ابن منصور نے کہا کہ میں نے مالک بن انس کو یہ کہتے سنا ہے:

''اہل مدینہ کی قراءت، سنت اور روش پیغمبرؐ ہے۰ اس (مالک بن انس) سے پوچھا گیا: کیا قراءت اہل مدینہ سے مراد، نافع کی قراءت ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔،،

عبد اللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں:

''میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ کون سی قراءت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: اہل مدینہ کی قراءت۔ میں نے کہا: اگر یہ قراءت میسر نہ ہو تو؟ انہوں نے جواب دیا: عاصم کی قراءت کو۔،

نافع نے ۱۶۹ھ میں وفات پائی۔(۱)

ابو طالب نے احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے:

''لوگ قرآن نافع سے سیکھتے تھے لیکن نقل حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔،،

دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے:

''نافع قابل اعتماد آدمی تھا۔،،

نسائی کہتا ہے:

''نافع میں کوئی عیب نہیں تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۱۸۷

ابن حیان نے بھی نافع کو قابل اعتماد افراد میں شمار کیا ہے۔

ساجی کا کہنا ہے:

''نافع راست گو آدمی ہے۔ لیکن احمد اوریحییٰ کی رائے اس کے بارے میں مختلف ہے۔ احمد کہتا ہے: اس کی حثیت قابل قبول نہیں اوریحییٰ کا کہنا ہے: یہ قابل اعتماد ہے۔،،(۱)

نافع کی قراءت دو راویوں ''قانون،، اور ''ورش،، نے بلا واسطہ نقل کی ہے۔

قالون: اس کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو موسیٰ ہے اور اس کے والد کا نام میناء ابن وردان ہے اور یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ ہے۔

منقول ہے کہ یہ نافع کاپروردہ تھا۔ قراءت میں اس کی ہوشیاری او زیرکی کی وجہ سے نافع نے اس کا نام ''قالون،، رکھا، کیونکہ رومی لغت میں قالون کا معنی ''عمدہ،، ہے۔

عبد اللہ بن علی کہتے ہیں:

''اسے قانون کالقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پر دادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''اسے قانون کا لقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پردادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۱۰، ص ۴۰۷۔

۱۸۸

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''قالون گونگا تھا اور وہ لبوں کے اشاروں سے قرآن پڑھتا اور ہونٹوں کے اشارے سے ہی لوگوں کو قراءت کی اغلاط کی طرف متوجہ کرتی تھا۔،،

یہ ۱۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

ابن حجر کہتے ہیں:

''قالون قراءت میں قابل اعتماد اور باوثوق ہے۔ لیکن حدیث کے اعتبار سے اس کی احادیث کسی حد تک قابل درج ہیں۔،،

احمد بن صالح مصری سے قالون کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:

''کیا ہر کس و ناکس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔،،(۲)

مؤلف: قالون کے راوی بھی دوسرے قاریوں کے راویوں کی طرح گمنام ہیں۔

ورش: اس کا نام عثمان اور اس کے والد کا نام سعید ہے۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''میرے دور میں تعلیم قراءت کی ریاست کا منصب مصر میں ورش کے حوالے کردیا گیا۔ قراءت میں اس کا اپنانظریہ ہے جس میں اس نے نافع سے اختلاف کیا ہے۔ قراءت میں یہ قابل اعتماد ہے اور اس کی باتیں حجت و مدرک کی حیثیت رکھتی ہیں۔،،

یہ ۱۱۰ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷ھ میں وہیں انتقال کرگئے۔(۳)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۵۔

(۲) لسان المیزان، ج ۴، ص ۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۵۰۲۔

۱۸۹

۷۔ کسائی کوفی

اس کا نام علی اور یہ کسائی کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے والد کا نام حمزہ ابن عبداللہ بن بہمن بن فیروز ہے اور یہ قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے بنی اسد نے آزاد کرایا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا پیشوا ہے جسے ''حمزہ زیارت،، کے بعد کوفہ میں علم قراءت کی ریاست سونپی گئی۔ اس نے قراءت حمزہ سے سیکھی اور اسی سے اس کی تائیدلی۔ اس نے اپنی قراءت چار مرتبہ حمزہ کو سنائی۔ وہ قراءت میں صرف حمزہ پر اعتماد کرتا تھا۔،،

ابو عبید اپنی کتاب ''القرءات،، میں کہتا ہے:

''قراءت میں کسائی کی روش مخصوص تھی اور حمزہ کی بعض قراءتیں اس نے قبول کیں اور بعض ترک کردیں۔،،

کسائی کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ جو تاریخ وفات ہماری نظر میں صحیح ہے اور بعض مؤرخین نے بھی اسے لکھا ہے وہ ۱۸۹ھ ہے۔(۱)

اس نے ''حمزہ زیارت،، سے بطور مذاکرہ اور محمد بن عبدالرحمن بن لیلی، عیسیٰ بن عمرو اعمش اور ابوبکر بن عیاش سے قراءت سیکھی اور انہیں سے حدیث کا درس حاصل کیا۔ ان کے علاوہ سلیمان بن ارقم، امام جعفر صادق (علیہ السلام)، عزرمی اور ابن عیینہ سے بھی قراءت سیکھی۔ اس نے خلیفہ رشید اور پھر اس کے بیٹے امین کو قراءت کی تعلیم دی۔(۲)

''مرزبانی،،، ''ابن اعرابی،، سے نقل کرتا ہے:

''اگرچہ کسائی گناہگار تھا اور ہر وقت شراب پیتا تھا اور بعض دوسرے گناہوں کا بھی علی الاعلان مرتکب ہوتا تھا،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۵۳۵۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۷، ص ۳۱۳۔

۱۹۰

اس کے باوجود وہ ایک سچا آدمی، قاری قرآن، مضبوط و تیز حافظہ کا مالک اور عربی زبان کا ماہر تھا۔،،(۱)

کسائی کی قراءت کے دو بلا واسطہ راوی لیث بن خالد اور حفص بن عمر ہیں۔

لیث: اس کی کنیت ابو الحارث تھی، والد کا نام خالد اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک معروف، قابل اعتماد، استاد حاذق اور مضبوط حافظے والا انسان ہے اور یہ کسائی کے بڑے شاگردوں میں سے ہے۔،،

اس نے کسائی سے قراءت سیکھی۔ اس کی تاریخ وفات ۲۴۰ھ ہے۔(۲)

مؤلف: اس کے راویوں کی حالت بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

حفص بن عمر دوری کے حالات، عاصم کے حالات کے ضمن میں بیان کیے جاچکے ہیں۔

یہ تھے سات قاری۔ جن کی قراءتوں اور راویوں کے مفصل حالات کا یہاں ذکر کیا گیا۔

قاسم بن فیرہ نے اپنے قصیدہ ''لامیہ،، معروف بہ ''شاطبیہ،، میں سات قاریوں اور ان کے راویوں کے نام نظم کی صورت میں بیان کئے ہیں۔

دس قاریوں میں سے تین قاریوں کے نام یہ ہیں:

خلف ۔ یعقوب اور یزید بن قعقاع۔

____________________

(۱) معجم الادبائ، ج ۵، ص ۱۸۵۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۴۔

۱۹۱

۸۔ خلف بن ہشام بزار

خلف کے حالات، حمزہ کے حالات کے ذیل میں بیان کئے جاچکے ہیں۔ اس کی قراءت کے راوی ''اسحاق،، اور ''ادریس،، ہیں۔

اسحاق: اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اسحاق کے والد کا نام ابراہیم بن عثمان بن عبد اللہ اور اس کی کنیت ابو یعقوب تھی۔ اصل میں یہ مروز کا باشندہ تھا اور بعد میں اس نے بغداد کو اپنا وطن بنالیا۔یہ خلف کی قراءت کا ناقل، اس کے کتابخانے کا مسؤل اور قابل اعتماد انسان تھا۔،،

اس نے ۲۸۶ھ میں وفات پائی۔(۱)

مؤلف: قراءت اسحاق کے راوی بھی دیگر راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

ادریس: اس کے بارے ابن جزری کا کہنا ہے:

''ا سکا نام ادریس اور اس کے والد کا نام عبد الکریم حداد تھا۔ اس کی کنیت ابو الحسن تھی اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا، یہ علم قراءت کا امام، مضبوط حافظہ کا مالک اور قابل اطمینان انسان ہے، اس نے قراءت خلف بن ہشام سے سیکھی۔،،

دار قطنی سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:

''باوثوق بلکہ اس سے بھی بہتر ہے۔،،

اس نے ۲۹۲ء میں وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کے راوی بھی دوسروں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۵۵۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۱۵۴۔

۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق

اس کا نام یعقوب، والد کا نام اسحاق اور اس کی کنیت ابو محمد ہے، یہ قبیلہ حضرمی کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ دس قاریوں میں سے ایک ہے۔،،

یعقوب کا کہنا ہے:

''میں نے سلام سے ڈیڑھ سال اور شہاب بن شرنفۃ مجاشعی سے پانچ دن قراءت سیکھی۔ شہاب نے نو دن مسلمہ نے محارب المحاربی سے اور مسلمۃ نے ابی الاسود دؤلی سے اور اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے قراءت سیکھی۔،،

اس نے ۲۰۵ھ میں ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں احمد اور ابو حاتم کا کہنا ہے:

''یہ صادق انسان تھا۔،،

ابن حیان نے بھی اسے قابل اطمینان افراد میں شمار کیا ہے لیکن ابن سعد کا کہنا ہے:

''علمائے رجال کی نظر میں یہ کوئی پایہ کا محقق نہیں ہے۔،،(۲)

اس کی قراءت کے دو راوی ''رویس،، اور ''روح،، ہیں۔

رویس: اس کا نام محمد، والد کا نام متوکل معروف بہ لؤلؤ تھا۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت میں استاد اور مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔ فن قراءت میں اسے خاصی مہارت اور شہرت حاصل تھی۔ اس نے یعقوب حضرمی سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۲، ص ۳۸۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۱، ص ۳۸۲۔

۱۹۳

دانی کا کہنا ہے:

''یہ یعقوب کے ماہر شاگردوں میں سے تھا۔،،

اس سے محمدبن ہارون تمار اور امام ابو عبد اللہ زبیر بن احمد زبیری شافعی نے قراءت نقل کی ہے۔

اس نے ۳۳۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

روح: اس کی کنیت ابو الحسن، والد کا نام عبد المومن اور تعلق قبیلہ ھذل سے تھا اور یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا، اس کا شمار دانشمندان علم نحو میں ہوتا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''وہ قراءت میں استاد او رجلیل القدر شخصیت تھا، وہ موثق اور قوی حافظہ کا مالک تھا۔،،

اس نے قراءت یعقوب حضرمی سے سیکھی اور اس کا شمار یعقوب کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا۔ اس نے ۲۳۴ھ یا ۲۳۵ھ میں وفات پائی۔(۲)

مولف: جنہو ں نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ان کی حالت بھی گذشتہ رایوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۳۴۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۸۵۔

۱۹۴

۱۰۔ یزید بن قعقاع

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس کا نام یزید اور والد کا نام قعقاع تھا۔ اس کی کنیت ابو جعفر ہے۔ اس کا تعلق قبیلہ مخزوم سے اور یہ مدینہ کا رہنے والا تھا، وہ اپنے فن میں امام تھا اور اس کا شمار دس مشہور قاریوں اور تابعین میں ہوتا ہے۔ یہ ایک معروف اور جلیل القدر شخصیت ہے۔،،

اس نے عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، عبد اللہ بن عباس اور ابوھریرہ سے قراءت سیکھی اور انہی کو تصدیق کے لیے سنائی۔

یحییٰ بن معین کہتا ہے:

''ابن قعقاع، قراءت میں اہل مدینہ کاامام تھا اور اسی لیے اس کا نام قاری رکھا گیا، وہ ایک قابل اعتماد انسان تھا لیکن اس نے احادیث کم نقل کی ہیں۔،،

ابن ابی حاتم کا کہنا ہے:

''میں نے اس کے بارے میں اپنے والد سے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا: وہ بیان حدیث میں نیک انسان ہے۔،،

اس نے ۱۳۰ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔(۱)

ابو جعفر (ابن قعقاع) کی قراءت کے دو راوی ''عیسیٰ،، اور ''ابن جماز،، ہیں۔

عیسیٰ: اس کے والد کا نام ''وردان،، اور کنیت ابو الحارث تھی۔ یہ مدینہ کا رہنے والا حذاء کے نام سے مشہور تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''عیسیٰ، قراءت کااستاد اور امام تھا۔ یہ راویئ حدیث، محقق، قوی حافظہ رکھنے والا محتاط انسان تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۸۲۔

۱۹۵

اس نے قراءت شروع میں ابو جعفر اور شیبہ سے اور بعد میں نافع سے سیکھی۔

دانی اس کے بارے میں کہتا ہے:

''عیسیٰ، نافع کے پرانے اور جلیل القدر شاگردوں میں سے ہے۔ نقل حدیث اور سند میں یہ نافع کا شریک رہا ہے۔،،

میرے خیال میں عیسیٰ کا سن وفات ۱۶۰ھ ہے۔(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی مانند ہیں۔

ابن جماز: اس کا نام سلیمان اور والد کا نام مسلم بن جماز تھا، اس کی کنیت ابوالربیع تھی۔ یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ تھا اور اس نے مدینہ کو اپنا وطن بنایا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا استاد اور جلیل القدر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔،،

کتب ''الکامل،، اور ''المستنیر،، کے مطابق اس نے شروع میں قراءت ابو جعفر اور شیبہ سے سیکھی اور بعد میں تصدیق کے لیے نافع کو سنائی۔ میرے خیال میں اس نے ۱۷۰ھ کے بعد وفات پائی۔(۲)

اب تک جن دس قاریوں اور ان کے راویوں کا ذکر کیاگیا ہے، سوانح نگاروں میں انہیں کی شہرت ہے۔ لیکن ان مذکورہ طریقوں کے علاوہ جن قراءتوں کی روایت کی گئی ہے وہ مدون شکل میں نہیں ہےں۔

ان دس قاریوں کے دیگر راویوں کے بارے میں سوانح نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کررہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۶۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۳۱۵۔

۱۹۶

قراءتوں پر ایک نظر

٭ تواتر قرآن کے منکرین کی تصریح

٭ تواتر قراءت کے دلائل

٭ قراءتیں اور سات اسلوب

٭ حجیت قراءت

٭ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

۱۹۷

اس سے قبل قاریوں سے متعلق تمہیدی بحث کے دوران قراءت کے تواتر اور عدم تواتر کے بارے میں بعض علمائے کرام کی رائے بیان کی گئی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ محققین تواتر قراءت کے منکر ہیں۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا قرآن کے تواتر ہونے پر اتفاق ہے۔

اب ہم ذیل میں قراءت کے متواتر نہ ہونے پر چند دلائل پیش کرتے ہیں:

۱۔ راویوں کے حالات زندگی کے مطالعہ اور ان میں تحقیق سے حتماً یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے نقل کی گئی ہیں خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔ چونکہ قاریوں کے حالات زندگی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے لہذا ان قراءتوں کے تواتر کا دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ بعض راویان قراءت کا موثق ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔

۲۔ اگر قاریوں کے قراءت حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقوں پر غور کیا جائے تو بھی قطعاً یہ ثابت ہوجاتا ے کہ یہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے ان قاریوں تک پہنچی ہیں، خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔

۳۔ ہر قراءت کے سلسلہ سند کا قاریوں تک منتہی ہونا تواتر اسناد کو قطع کردیتا ہے اگر چہ ہر طبقہ میں قراءتوں کے قاریوں کا کذب پر اتفاق ممتنع اور محال ہو۔ ا سلیے کہ ہر قاری صرف اپنی قراءت نقل کرتا ہے، جو خبر واحد ہے۔

۴۔ ہر قاری اور اس کے پیروکاروں کا صحت قراءت کے لیے استدلال کرنا اور دوسروں کی قراءت سے اعراض و احتراز اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ان قراءتوں کا مسند و مدرک قاریوں کا اپنا اجتہاد اور اپنی ذاتی رائے ہے۔ کیوں کہ اگر یہ قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوتیں تو ان کی صحت ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔

۵۔ بعض علماء و محققین کا بعض روایات قراءت کا انکار کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ قراءت متواتر نہیں کیونکہ اگر یہ قراءتیں متواتر ہوتیں تو ان کا انکار درست نہ ہوتا۔

۱۹۸

چنانچہ ابن جریر طبری نے ابن عامر کی قراءت تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس نے ان سات مشہور قراءتوں میں سے بعض کو ہدف تنقید قرار دیا ہے۔

بعض علماء نے حمزہ کی قراءت کو بھی مورد اشکار و اعتراض قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض نے ابوعمرو کی اور بعض نے ابن کثیر کی قراءت رد کردی ہے اور بہت سے دانشمندوں نے تو ہر اس قراءت کے تواتر کو مسترد کردیا ہے جس کی وجہ اور منشاء لغت عرب میں موجود نہ ہو اور اس سلسلے میں بعض قاریوں کی خطا و لغزش کا حکم لگایا ہے۔(۱)

حمزہ کے حالات زندگی میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس (حمزہ) کی قراءت کو حنبلیوں کے امام، احمد بن حنبل، یزید بن ہارون، ابن مہدی(۲) ، ابوبکر بن عیاش اور ابن درید نے تسلیم نہیںکیا۔

زرکشی کہتے ہیں:

''قراءتیں توقیفی(۳) ہیں۔ علماء کی ایک جماعت ،جس میں زمخشری بھی شامل ہیں، نے اسسے اختلاف کیا ہے۔ کیو نکہ ان کا خیال ہے کہ قراءتیں اختیاری ہیں اور ان کا دارو مدار فصحاء کے اختیار و انتخاب اوربلغاء کے اجتہاد پر ہے۔،،

____________________

(۱) معتصم باللہ طاہر بن صالح بن احمدالجزائری کی کتاب ''التبیان،، ص ۱۰۶، طبع ''المنار،،،، ۱۳۳۴ھ۔

(۲) اس کا نام عبدالرحمن بن مہدی ہے ''تہذیب التہدیب، ج ۶، ص ۲۸۰ میں مذکور ہے: احمد بن سنان کہتے ہیں: میں نے علی ابن المدینی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ''عبد الرحمن بن مہدی لوگوں میں سب سے زیادہ عالم ہیں،، اس جملے کو اس نے کئی بار دہرایا۔ خلیلی نے کہا''ابن مہدی امام ہے اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے،، اس کے بارے میں شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے دنیا میں اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں دیکھا۔

(۳) یعنی، جو تلفظ رسولؐ نے فرمایا وہی تلفظ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ قاری کو کسی قرت کے انتخاب کا اختیار نہیں ہے۔ (مترجم)

۱۹۹

اس کے بعد زرکشی حمزہ کے اس قراءت کو رد کرتے ہیں جس میں ''والارحام،، کو زیر دی گئی ہے۔ ابی زید، اصمعی اور یعقوب حضرمی سے منقول ہے کہ انہوں نے حمزہ کی اس قراءت کو غلط قرار دیا ہے جس میں اس نے ''وما انتم بمصرخی،، میں تشدید کے ساتھ زیر دی ہے نیز انہوں نے ابو عمرو کی اس قراءت کوبھی تسلیم نہیں کیا جس میں اس نے ''یغفرلکم،، میں ''ر،، کو لام میں مدغم کرکے پڑھا ہے اور زجاج کا کہنا ہے: ''اس طرح پڑھنا فاش غلطی ہے۔،،(۱)

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم قراءت کے بعض ماہرین کا کلام پیش کیا جائے جس میں انہوں نے قراءت کے متواتر نہ ہونے کی تصریح کی ہے تاکہ حق اپنی بہترین صورت میں ظاہر ہ وجائے۔

۱۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''ہر وہ قراءت جو لغتِ عرب کے مطابق ہو، اگرچہ ایک پہلو ہی سے ہو اور عثمانیوں کے قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہو، خواہ اس کا احتمال ہی ہو اور اس کی سند بھی صحیح ہو تو ایسی قراءت صحیح ہوگی اور اس کو رد کرنا جائز نہیں اور اس کا انکار حلال نہیں ہے، بلکہ یہ ان سات اسلوبوں میں سے ایک اسلوب ہوگا جس کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے اور واجب ہے کہ لوگ اسے قبول کرلیں چاہے یہ قراءت ان سات مشہور قاریوں میں سے کسی کی ہو یا دس میں سے کسی کی ہو یا ان دس کے علاوہ کسی اور قابل قبول قاری کی ہو لیکن اگر کسی کی قراءت میں ان تین اہم شرائط و ارکان میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو وہ قراءت ضعیف، شاذ و نادر اور باطل سمجھی جائے گی چاہے یہ قراءت ان سات قاریوں میں سے کسی کی ہو یا ان سے بڑے کی ہو۔،،

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۷۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689