البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 277375
ڈاؤنلوڈ: 6804

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277375 / ڈاؤنلوڈ: 6804
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۲۴۶ھ میں انہوں نے وفات پائی۔(۱)

دارقطنی کا کہنا ہے: ''یہ ضعیف ہیں،،۔ اور عقیلی کا کہنا ہے: ''یہ قابل اعتماد ہیں۔،،(۲)

مؤلف: جنہوں نے دوری سے قراءت نقل کی ہے وہ گذشتہ راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

سوسی: اس کانام صالح اور کنیت ابو شعیب تھی۔ اس کے والد کا نام زیاد بن عبد اللہ ہے۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''موسی مسائل حفظ کرتا اور لکھتا اور یہ باوثوق آدمی تھا۔،،

اس نے قراءت ابو محمد یزیدی سے سیکھی اور اسی کو تصدیق کے لیے سنائی اور یہ ابو محمد یزیدی کے اصحاب میں سے تھا۔ ۲۶۱ھ کے آغاز میں اس نے ستر سال کی عمر میں وفات پائی۔(۳)

ابوحاتم کا کہنا ہے:

''یہ راست گو انسان تھا۔،،

نسائی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد تھا۔،،

___________________

(۱) ایضاً،ج ۱، ص ۰۲۵۵

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۲، ص۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۳۳۲۔

۱۸۱

ابن حیان نے بھی اس کو قابل اعتماد قرار دیا ہے اور ابو عمرو دانی کا کہنا ہے:

''نسائی نے قراءت سوسی سے نقل کی ہے۔ مسلم بن قاسم اندلسی نے بلا وجہ اور بغیر کسی دلیل کے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔،،(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی مجہول اور گمنام ہیں۔

۵۔ حمزہ کوفی

یہ حبیب بن عمارۃ بن اسماعیل کا بیٹا اور اس کی کنیت ابو عمارۃ ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا اور قبیلہ بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے بچپن میں صحابہ کو درک کرلیا تھا اس نے سلمان بن اعمش اور حمران بن اعین سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لیے سنائی۔

کتاب''الکفایة الکبریٰ و الیتسیر،، میں مذکور ہے کہ اس نے مغیرہ بن مقسم، منصور ادرلیث بن ابی سلیم سے قراءت سیکھی۔ صاحب کتاب ''الیتسیر و المستنیر،، لکھتے ہیں کہ اس نے قراءت میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سیکھی۔ ان کا کہنا ہے:

''حمزہ نے شروع میں قراءت حمران سے سیکھی اور اعمش، ابو اسحاق اور ابن ابی لیلیٰ کو تصدیق کے لئے سنائی اور عاصم و اعمش کے بعد علم قراءت میں امامت اور پیشوائی کا منصب اسی کے سپرد کیا گیا وہ اس فن کا امام، قابل وثوق اور بے نظیر آدمی تھا۔،،

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۴، ص ۳۹۲۔

۱۸۲

عبد اللہ عجلی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے حمزہ سے مخاطب ہو کر کہا:

''آپ کو دو موضوعات ''قرآن،، اور ''فرائض،،(۱) میں ہم پر بالا دستی حاصل ہے ان میں ہم آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔،،

سفیان ثوری کا کہنا ہے:

''قرآن،، اور ''فرائض،، میں حمزہ کے ہم پایہ کوئی آدمی نہیں ہے۔،،

عبداللہ بن موسیٰ کہتے ہیں:

''حمزۃ کا استاد اعمش جب بھی حمزہ کو دیکھتا تو کہتا: یہ عالم قرآن ہے۔،،

حمزہ ۸۰ھ میں پیدا ہوا اور ۱۵۶ھ میں اس کا انتقال ہوا۔(۲)

ابن معین کہتا ہے۔

''حمزہ باوثوق اور قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''اس (حمزہ) میں کوئی حرج نہیں۔،،

عجلی کا کہنا ہے:

''یہ قابل اعتماد اور نیک انسان تھا۔،،

___________________

(۱) یعنی مسائل میراث (مترجم)

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۶۱۔

۱۸۳

ابن سعد کا کہنا ہے:

''حمزہ نیک آدمی تھا، اس کے پاس بہت سی احادیث تھیں، یہ ایک سچا انسان تھا اور علم قراءت میں خاص روش کا مالک تھا۔،،

ساجی کہتا ہے:

''حمزہ سچا انسان تھا لیکن اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کی حدیث میں کوئی پختگی نہیں ہے۔،،

بعض اہل حدیث نے قراءت میں بھی اس پر تنقید کی ہے اور بعض حضرات اس کی قراءت کے مطابق پڑھی گئی نماز کو باطل سمجھتے ہیں۔

ساجی اور ازدی کا کہنا ہے:

اس کی قراءت پر علماء میں چہ میگوئیاں ہوتی ہیں اور وہ ایک مذموم حالت کی طرف اس کی نسبت دیتے ہیں۔،،

اس کے علاوہ ساجی کا کہنا ہے:

''میں نے سلمۃ بن شبیب کو یہ کہتے ہوئے سنا: احمد بن حنبل اس شخص کی اقتداء کرنا پسند نہیں کرتے تھے جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتا ہو۔،،

آجری، احمد بن سنان سے نقل کرتے ہیں:

''یزید بن ہاروں کو حمزہ کی قراءت سے سخت نفرت تھی۔،،

احمد بن سنان کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے:

''اگر مجھ میں قدرت ہوتی تو ان لوگوں کو زدو کوب کرتا جو حمزہ کی قراءت پر عمل کرتے ہیں۔،،

ابوبکر بن عیاش کہتے ہیں:

''حمزہ کی قراءت میرے نزدیک بدعت ہے۔،،

۱۸۴

ابن دری کہتا ہے:

''میں چاہتا ہوں کہ کوفہ سے حمزہ کی قراءت کامکمل خاتمہ ہو جائے۔،،(۱)

اس کے دو راوی ہیں جنہوں نے بالواسطہ اس سے قراءت نقل کی ہے اور یہ ''خلف بن ہشام،، اور ''خلاد بن خالد،، ہیں۔

خلف: اس کی کنیت ابو محمد تھی اور اس کا تعلق بنی اسد سے تھا۔ اس کے والد کا نام ہشام بن ثعلب بزاز تھا، جو بغداد کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کہتا ہے:

''خلف دس قاریوں میں سے ایک ہے۔ سلیم کے واسطے سے حمزہ کی قراءت روایت کرنے والوں میں سے یہ ایک ہے۔ اس نے دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا اور تیرہ سال کی عمر میں علم قراءت کی تحصیل میں مشغول ہوگیا اور وہ ثقہ، جلیل القدر، زاہد و عابد اور دانشمند انسان تھا۔،،

ابن اشتہ کا کہنا ہے:

''خلف نے قراءت میں حمزہ کی روش اپنائی لیکن وہ ایک سو بیس مقامات پر حمزہ سے اختلاف رکھتا تھا۔،،

یہ ۱۵۰ھ میں پیدا ہوا اور ۲۲۹ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

لالکائی کا کہنا ہے:

''عباس دوری سے جب اس داستان کے متعلق پوچھا گیا جو احمد بن جنبل نے خلف کے بارے میں نقل کی ہے تو عباس دوری نے جواب میں کہا: میں نے خود احمد بن حنبل سے یہ داستان نہیں سنی البتہ میرے دوسرے نقل کرتے ہیں کہ احمد بن حنبل کے پاس خلف کا نام لیا گیا اور باتوں باتوں میں یہ بِھی کہا گیا کہ خلف شراب پیتا تھا

____________________

(۱) تہذیب التہذیب، ج ۳، ص۲۷۔

(۲) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۲۷۲۔

۱۸۵

تو احمد نے کہا: ہمارے نزدیک یہ واقعہ ثابت ہے لیکن اس کے باوجود (واللہ) وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد ہے۔،،

نسائی کہتا ہے:

''خلف بغدادی ہے اور قابل اعتماد آدمی ہے۔،،

دار قطنی کا کہنا ہے:

''خلف کہا کرتا تھا: میں نے اپنی چالیس سال کی نمازیں دوبارہ پڑھی ہیں، کیونکہ اس دوران میں کوفیوں کے مسلک کے مطابق شراب پیتا تھا۔،،

خطیب بغدادی، اپنی تاریخ میں محمد بن حاتم کندی سے نقل کرتے ہیں:

''یحییٰ بن معین سے جب خلف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: ''اسے اتنا بھی معلوم نہیں

تھا کہ علم حدیث کیا چیز ہے۔،،(۱)

مؤلف: خلف سے قراءت نقل کرنے والے راویوں کے بارے میں گفتگو بعدمیں کی جاھے گی۔

خلاد بن خالد: ابو عیسیٰ شیبانی کے نام سے مشہور ہے اور یہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''خلاد، علم قراءت میں پیشوا اور قابل اطمینان آدمی ہے اور وہ اس علم کا دانشمند، محقق اور استاد ہے۔،،

اس نے قراءت سلیم سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔ اپنے ساتھیوں میں اس کا حافظہ سب سے تیز تھا اور یہ سب سے زیادہ قابل قدر تھا۔ ۲۲۰ھ میں اس نے وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی طرح گمنام اور مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۳، ص۱۵۲۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۲۷۴۔

۱۸۶

۶۔ نافع مدنی

اس کا نام نفع بن عبد الرحمن ابی نعیم ہے۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''نافع، سات مشہور قاریوں او علماء میں سے ایک ہے۔ یہ باوثوق اور نیک آدمی ہے۔ یہ اصل میں اصفہان کا ہے۔،،

اس نے اہل مدینہ کے تابعین کی ایک جماعت سے قراءت سیکھی اور انہیں کو تصدیق کے لئے سنائی۔

سعید ابن منصور نے کہا کہ میں نے مالک بن انس کو یہ کہتے سنا ہے:

''اہل مدینہ کی قراءت، سنت اور روش پیغمبرؐ ہے۰ اس (مالک بن انس) سے پوچھا گیا: کیا قراءت اہل مدینہ سے مراد، نافع کی قراءت ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں۔،،

عبد اللہ بن احمد حنبل کہتے ہیں:

''میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ کون سی قراءت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: اہل مدینہ کی قراءت۔ میں نے کہا: اگر یہ قراءت میسر نہ ہو تو؟ انہوں نے جواب دیا: عاصم کی قراءت کو۔،

نافع نے ۱۶۹ھ میں وفات پائی۔(۱)

ابو طالب نے احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے:

''لوگ قرآن نافع سے سیکھتے تھے لیکن نقل حدیث میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔،،

دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے:

''نافع قابل اعتماد آدمی تھا۔،،

نسائی کہتا ہے:

''نافع میں کوئی عیب نہیں تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۳۰۔

۱۸۷

ابن حیان نے بھی نافع کو قابل اعتماد افراد میں شمار کیا ہے۔

ساجی کا کہنا ہے:

''نافع راست گو آدمی ہے۔ لیکن احمد اوریحییٰ کی رائے اس کے بارے میں مختلف ہے۔ احمد کہتا ہے: اس کی حثیت قابل قبول نہیں اوریحییٰ کا کہنا ہے: یہ قابل اعتماد ہے۔،،(۱)

نافع کی قراءت دو راویوں ''قانون،، اور ''ورش،، نے بلا واسطہ نقل کی ہے۔

قالون: اس کا نام عیسیٰ اور کنیت ابو موسیٰ ہے اور اس کے والد کا نام میناء ابن وردان ہے اور یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ ہے۔

منقول ہے کہ یہ نافع کاپروردہ تھا۔ قراءت میں اس کی ہوشیاری او زیرکی کی وجہ سے نافع نے اس کا نام ''قالون،، رکھا، کیونکہ رومی لغت میں قالون کا معنی ''عمدہ،، ہے۔

عبد اللہ بن علی کہتے ہیں:

''اسے قانون کالقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پر دادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''اسے قانون کا لقب اس لیے دیا گیا کہ وہ اصل میں رومی تھا اور اس کا پردادا رومیوں کا غلام تھا۔،،

اس نے قراءت نافع سے سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔

____________________

(۱) تہذیب التہذیب،ج ۱۰، ص ۴۰۷۔

۱۸۸

ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

''قالون گونگا تھا اور وہ لبوں کے اشاروں سے قرآن پڑھتا اور ہونٹوں کے اشارے سے ہی لوگوں کو قراءت کی اغلاط کی طرف متوجہ کرتی تھا۔،،

یہ ۱۲۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۲۰ھ میں وفات پاگئے۔(۱)

ابن حجر کہتے ہیں:

''قالون قراءت میں قابل اعتماد اور باوثوق ہے۔ لیکن حدیث کے اعتبار سے اس کی احادیث کسی حد تک قابل درج ہیں۔،،

احمد بن صالح مصری سے قالون کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے:

''کیا ہر کس و ناکس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔،،(۲)

مؤلف: قالون کے راوی بھی دوسرے قاریوں کے راویوں کی طرح گمنام ہیں۔

ورش: اس کا نام عثمان اور اس کے والد کا نام سعید ہے۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''میرے دور میں تعلیم قراءت کی ریاست کا منصب مصر میں ورش کے حوالے کردیا گیا۔ قراءت میں اس کا اپنانظریہ ہے جس میں اس نے نافع سے اختلاف کیا ہے۔ قراءت میں یہ قابل اعتماد ہے اور اس کی باتیں حجت و مدرک کی حیثیت رکھتی ہیں۔،،

یہ ۱۱۰ھ میں مصر میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷ھ میں وہیں انتقال کرگئے۔(۳)

مؤلف: اس کی قراءت کے راویوں کا حال بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۵۔

(۲) لسان المیزان، ج ۴، ص ۴۰۸۔

(۳) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۵۰۲۔

۱۸۹

۷۔ کسائی کوفی

اس کا نام علی اور یہ کسائی کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے والد کا نام حمزہ ابن عبداللہ بن بہمن بن فیروز ہے اور یہ قبیلہ بنی اسد سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے بنی اسد نے آزاد کرایا تھا۔ اس کے آباؤ اجداد ایرانی تھے۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا پیشوا ہے جسے ''حمزہ زیارت،، کے بعد کوفہ میں علم قراءت کی ریاست سونپی گئی۔ اس نے قراءت حمزہ سے سیکھی اور اسی سے اس کی تائیدلی۔ اس نے اپنی قراءت چار مرتبہ حمزہ کو سنائی۔ وہ قراءت میں صرف حمزہ پر اعتماد کرتا تھا۔،،

ابو عبید اپنی کتاب ''القرءات،، میں کہتا ہے:

''قراءت میں کسائی کی روش مخصوص تھی اور حمزہ کی بعض قراءتیں اس نے قبول کیں اور بعض ترک کردیں۔،،

کسائی کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ جو تاریخ وفات ہماری نظر میں صحیح ہے اور بعض مؤرخین نے بھی اسے لکھا ہے وہ ۱۸۹ھ ہے۔(۱)

اس نے ''حمزہ زیارت،، سے بطور مذاکرہ اور محمد بن عبدالرحمن بن لیلی، عیسیٰ بن عمرو اعمش اور ابوبکر بن عیاش سے قراءت سیکھی اور انہیں سے حدیث کا درس حاصل کیا۔ ان کے علاوہ سلیمان بن ارقم، امام جعفر صادق (علیہ السلام)، عزرمی اور ابن عیینہ سے بھی قراءت سیکھی۔ اس نے خلیفہ رشید اور پھر اس کے بیٹے امین کو قراءت کی تعلیم دی۔(۲)

''مرزبانی،،، ''ابن اعرابی،، سے نقل کرتا ہے:

''اگرچہ کسائی گناہگار تھا اور ہر وقت شراب پیتا تھا اور بعض دوسرے گناہوں کا بھی علی الاعلان مرتکب ہوتا تھا،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۱، ص ۵۳۵۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۷، ص ۳۱۳۔

۱۹۰

اس کے باوجود وہ ایک سچا آدمی، قاری قرآن، مضبوط و تیز حافظہ کا مالک اور عربی زبان کا ماہر تھا۔،،(۱)

کسائی کی قراءت کے دو بلا واسطہ راوی لیث بن خالد اور حفص بن عمر ہیں۔

لیث: اس کی کنیت ابو الحارث تھی، والد کا نام خالد اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا۔ اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ ایک معروف، قابل اعتماد، استاد حاذق اور مضبوط حافظے والا انسان ہے اور یہ کسائی کے بڑے شاگردوں میں سے ہے۔،،

اس نے کسائی سے قراءت سیکھی۔ اس کی تاریخ وفات ۲۴۰ھ ہے۔(۲)

مؤلف: اس کے راویوں کی حالت بھی گذشتہ راویوں کی طرح ہے۔

حفص بن عمر دوری کے حالات، عاصم کے حالات کے ضمن میں بیان کیے جاچکے ہیں۔

یہ تھے سات قاری۔ جن کی قراءتوں اور راویوں کے مفصل حالات کا یہاں ذکر کیا گیا۔

قاسم بن فیرہ نے اپنے قصیدہ ''لامیہ،، معروف بہ ''شاطبیہ،، میں سات قاریوں اور ان کے راویوں کے نام نظم کی صورت میں بیان کئے ہیں۔

دس قاریوں میں سے تین قاریوں کے نام یہ ہیں:

خلف ۔ یعقوب اور یزید بن قعقاع۔

____________________

(۱) معجم الادبائ، ج ۵، ص ۱۸۵۔

(۲) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۴۔

۱۹۱

۸۔ خلف بن ہشام بزار

خلف کے حالات، حمزہ کے حالات کے ذیل میں بیان کئے جاچکے ہیں۔ اس کی قراءت کے راوی ''اسحاق،، اور ''ادریس،، ہیں۔

اسحاق: اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اسحاق کے والد کا نام ابراہیم بن عثمان بن عبد اللہ اور اس کی کنیت ابو یعقوب تھی۔ اصل میں یہ مروز کا باشندہ تھا اور بعد میں اس نے بغداد کو اپنا وطن بنالیا۔یہ خلف کی قراءت کا ناقل، اس کے کتابخانے کا مسؤل اور قابل اعتماد انسان تھا۔،،

اس نے ۲۸۶ھ میں وفات پائی۔(۱)

مؤلف: قراءت اسحاق کے راوی بھی دیگر راویوں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

ادریس: اس کے بارے ابن جزری کا کہنا ہے:

''ا سکا نام ادریس اور اس کے والد کا نام عبد الکریم حداد تھا۔ اس کی کنیت ابو الحسن تھی اور یہ بغداد کا رہنے والا تھا، یہ علم قراءت کا امام، مضبوط حافظہ کا مالک اور قابل اطمینان انسان ہے، اس نے قراءت خلف بن ہشام سے سیکھی۔،،

دار قطنی سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:

''باوثوق بلکہ اس سے بھی بہتر ہے۔،،

اس نے ۲۹۲ء میں وفات پائی۔(۲)

مؤلف: اس کے راوی بھی دوسروں کی طرح مجہول الحال ہیں۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۱۵۵۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۱۵۴۔

۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق

اس کا نام یعقوب، والد کا نام اسحاق اور اس کی کنیت ابو محمد ہے، یہ قبیلہ حضرمی کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ دس قاریوں میں سے ایک ہے۔،،

یعقوب کا کہنا ہے:

''میں نے سلام سے ڈیڑھ سال اور شہاب بن شرنفۃ مجاشعی سے پانچ دن قراءت سیکھی۔ شہاب نے نو دن مسلمہ نے محارب المحاربی سے اور مسلمۃ نے ابی الاسود دؤلی سے اور اس نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے قراءت سیکھی۔،،

اس نے ۲۰۵ھ میں ۸۸ سال کی عمر میں وفات پائی۔(۱)

اس کے بارے میں احمد اور ابو حاتم کا کہنا ہے:

''یہ صادق انسان تھا۔،،

ابن حیان نے بھی اسے قابل اطمینان افراد میں شمار کیا ہے لیکن ابن سعد کا کہنا ہے:

''علمائے رجال کی نظر میں یہ کوئی پایہ کا محقق نہیں ہے۔،،(۲)

اس کی قراءت کے دو راوی ''رویس،، اور ''روح،، ہیں۔

رویس: اس کا نام محمد، والد کا نام متوکل معروف بہ لؤلؤ تھا۔ اس کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور یہ بصرہ کا رہنے والا تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت میں استاد اور مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔ فن قراءت میں اسے خاصی مہارت اور شہرت حاصل تھی۔ اس نے یعقوب حضرمی سے قراءت سیکھی اور تصدیق کے لیے اسی کو سنائی۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ،ج ۲، ص ۳۸۔

(۲) تہذیب التہذیب،ج ۱۱، ص ۳۸۲۔

۱۹۳

دانی کا کہنا ہے:

''یہ یعقوب کے ماہر شاگردوں میں سے تھا۔،،

اس سے محمدبن ہارون تمار اور امام ابو عبد اللہ زبیر بن احمد زبیری شافعی نے قراءت نقل کی ہے۔

اس نے ۳۳۸ھ میں وفات پائی۔(۱)

روح: اس کی کنیت ابو الحسن، والد کا نام عبد المومن اور تعلق قبیلہ ھذل سے تھا اور یہ اسی قبیلے کا آزاد کردہ اور بصرے کا رہنے والا تھا، اس کا شمار دانشمندان علم نحو میں ہوتا تھا۔

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''وہ قراءت میں استاد او رجلیل القدر شخصیت تھا، وہ موثق اور قوی حافظہ کا مالک تھا۔،،

اس نے قراءت یعقوب حضرمی سے سیکھی اور اس کا شمار یعقوب کے نامور شاگردوں میں ہوتا تھا۔ اس نے ۲۳۴ھ یا ۲۳۵ھ میں وفات پائی۔(۲)

مولف: جنہو ں نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا ان کی حالت بھی گذشتہ رایوں کی طرح ہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۲۳۴۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۸۵۔

۱۹۴

۱۰۔ یزید بن قعقاع

اس کے بارے میں ابن جزری کا کہنا ہے:

''اس کا نام یزید اور والد کا نام قعقاع تھا۔ اس کی کنیت ابو جعفر ہے۔ اس کا تعلق قبیلہ مخزوم سے اور یہ مدینہ کا رہنے والا تھا، وہ اپنے فن میں امام تھا اور اس کا شمار دس مشہور قاریوں اور تابعین میں ہوتا ہے۔ یہ ایک معروف اور جلیل القدر شخصیت ہے۔،،

اس نے عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، عبد اللہ بن عباس اور ابوھریرہ سے قراءت سیکھی اور انہی کو تصدیق کے لیے سنائی۔

یحییٰ بن معین کہتا ہے:

''ابن قعقاع، قراءت میں اہل مدینہ کاامام تھا اور اسی لیے اس کا نام قاری رکھا گیا، وہ ایک قابل اعتماد انسان تھا لیکن اس نے احادیث کم نقل کی ہیں۔،،

ابن ابی حاتم کا کہنا ہے:

''میں نے اس کے بارے میں اپنے والد سے پوچھا تو انہو ںنے جواب دیا: وہ بیان حدیث میں نیک انسان ہے۔،،

اس نے ۱۳۰ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔(۱)

ابو جعفر (ابن قعقاع) کی قراءت کے دو راوی ''عیسیٰ،، اور ''ابن جماز،، ہیں۔

عیسیٰ: اس کے والد کا نام ''وردان،، اور کنیت ابو الحارث تھی۔ یہ مدینہ کا رہنے والا حذاء کے نام سے مشہور تھا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''عیسیٰ، قراءت کااستاد اور امام تھا۔ یہ راویئ حدیث، محقق، قوی حافظہ رکھنے والا محتاط انسان تھا۔،،

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۲، ص ۳۸۲۔

۱۹۵

اس نے قراءت شروع میں ابو جعفر اور شیبہ سے اور بعد میں نافع سے سیکھی۔

دانی اس کے بارے میں کہتا ہے:

''عیسیٰ، نافع کے پرانے اور جلیل القدر شاگردوں میں سے ہے۔ نقل حدیث اور سند میں یہ نافع کا شریک رہا ہے۔،،

میرے خیال میں عیسیٰ کا سن وفات ۱۶۰ھ ہے۔(۱)

مؤلف: اس کی قراءت کے راوی بھی گذشتہ راویوں کی مانند ہیں۔

ابن جماز: اس کا نام سلیمان اور والد کا نام مسلم بن جماز تھا، اس کی کنیت ابوالربیع تھی۔ یہ قبیلہ زہرہ کا آزاد کردہ تھا اور اس نے مدینہ کو اپنا وطن بنایا۔

ابن جزری کا کہنا ہے:

''یہ قراءت کا استاد اور جلیل القدر ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط حافظہ کا مالک تھا۔،،

کتب ''الکامل،، اور ''المستنیر،، کے مطابق اس نے شروع میں قراءت ابو جعفر اور شیبہ سے سیکھی اور بعد میں تصدیق کے لیے نافع کو سنائی۔ میرے خیال میں اس نے ۱۷۰ھ کے بعد وفات پائی۔(۲)

اب تک جن دس قاریوں اور ان کے راویوں کا ذکر کیاگیا ہے، سوانح نگاروں میں انہیں کی شہرت ہے۔ لیکن ان مذکورہ طریقوں کے علاوہ جن قراءتوں کی روایت کی گئی ہے وہ مدون شکل میں نہیں ہےں۔

ان دس قاریوں کے دیگر راویوں کے بارے میں سوانح نگاروں میں اختلاف پایا جاتا ہے جس کی طرف اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کررہے۔

____________________

(۱) طبقات القرائ، ج ۱، ص ۶۱۶۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۳۱۵۔

۱۹۶

قراءتوں پر ایک نظر

٭ تواتر قرآن کے منکرین کی تصریح

٭ تواتر قراءت کے دلائل

٭ قراءتیں اور سات اسلوب

٭ حجیت قراءت

٭ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

۱۹۷

اس سے قبل قاریوں سے متعلق تمہیدی بحث کے دوران قراءت کے تواتر اور عدم تواتر کے بارے میں بعض علمائے کرام کی رائے بیان کی گئی اور اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا کہ محققین تواتر قراءت کے منکر ہیں۔ جبکہ تمام مسلمانوں کا قرآن کے تواتر ہونے پر اتفاق ہے۔

اب ہم ذیل میں قراءت کے متواتر نہ ہونے پر چند دلائل پیش کرتے ہیں:

۱۔ راویوں کے حالات زندگی کے مطالعہ اور ان میں تحقیق سے حتماً یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے نقل کی گئی ہیں خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔ چونکہ قاریوں کے حالات زندگی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے لہذا ان قراءتوں کے تواتر کا دعویٰ درست نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ بعض راویان قراءت کا موثق ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔

۲۔ اگر قاریوں کے قراءت حاصل کرنے کے ذرائع اور طریقوں پر غور کیا جائے تو بھی قطعاً یہ ثابت ہوجاتا ے کہ یہ قراءتیں خبر واحد کے ذریعے ان قاریوں تک پہنچی ہیں، خبر متواتر کے ذریعے نہیں۔

۳۔ ہر قراءت کے سلسلہ سند کا قاریوں تک منتہی ہونا تواتر اسناد کو قطع کردیتا ہے اگر چہ ہر طبقہ میں قراءتوں کے قاریوں کا کذب پر اتفاق ممتنع اور محال ہو۔ ا سلیے کہ ہر قاری صرف اپنی قراءت نقل کرتا ہے، جو خبر واحد ہے۔

۴۔ ہر قاری اور اس کے پیروکاروں کا صحت قراءت کے لیے استدلال کرنا اور دوسروں کی قراءت سے اعراض و احتراز اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ان قراءتوں کا مسند و مدرک قاریوں کا اپنا اجتہاد اور اپنی ذاتی رائے ہے۔ کیوں کہ اگر یہ قراءتیں بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوتیں تو ان کی صحت ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہ ہوتی۔

۵۔ بعض علماء و محققین کا بعض روایات قراءت کا انکار کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ قراءت متواتر نہیں کیونکہ اگر یہ قراءتیں متواتر ہوتیں تو ان کا انکار درست نہ ہوتا۔

۱۹۸

چنانچہ ابن جریر طبری نے ابن عامر کی قراءت تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس نے ان سات مشہور قراءتوں میں سے بعض کو ہدف تنقید قرار دیا ہے۔

بعض علماء نے حمزہ کی قراءت کو بھی مورد اشکار و اعتراض قرار دیا ہے۔ اسی طرح بعض نے ابوعمرو کی اور بعض نے ابن کثیر کی قراءت رد کردی ہے اور بہت سے دانشمندوں نے تو ہر اس قراءت کے تواتر کو مسترد کردیا ہے جس کی وجہ اور منشاء لغت عرب میں موجود نہ ہو اور اس سلسلے میں بعض قاریوں کی خطا و لغزش کا حکم لگایا ہے۔(۱)

حمزہ کے حالات زندگی میں بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ اس (حمزہ) کی قراءت کو حنبلیوں کے امام، احمد بن حنبل، یزید بن ہارون، ابن مہدی(۲) ، ابوبکر بن عیاش اور ابن درید نے تسلیم نہیںکیا۔

زرکشی کہتے ہیں:

''قراءتیں توقیفی(۳) ہیں۔ علماء کی ایک جماعت ،جس میں زمخشری بھی شامل ہیں، نے اسسے اختلاف کیا ہے۔ کیو نکہ ان کا خیال ہے کہ قراءتیں اختیاری ہیں اور ان کا دارو مدار فصحاء کے اختیار و انتخاب اوربلغاء کے اجتہاد پر ہے۔،،

____________________

(۱) معتصم باللہ طاہر بن صالح بن احمدالجزائری کی کتاب ''التبیان،، ص ۱۰۶، طبع ''المنار،،،، ۱۳۳۴ھ۔

(۲) اس کا نام عبدالرحمن بن مہدی ہے ''تہذیب التہدیب، ج ۶، ص ۲۸۰ میں مذکور ہے: احمد بن سنان کہتے ہیں: میں نے علی ابن المدینی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ''عبد الرحمن بن مہدی لوگوں میں سب سے زیادہ عالم ہیں،، اس جملے کو اس نے کئی بار دہرایا۔ خلیلی نے کہا''ابن مہدی امام ہے اس کے مقابلے میں کوئی نہیں ہے،، اس کے بارے میں شافعی کا کہنا ہے کہ میں نے دنیا میں اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں دیکھا۔

(۳) یعنی، جو تلفظ رسولؐ نے فرمایا وہی تلفظ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ قاری کو کسی قرت کے انتخاب کا اختیار نہیں ہے۔ (مترجم)

۱۹۹

اس کے بعد زرکشی حمزہ کے اس قراءت کو رد کرتے ہیں جس میں ''والارحام،، کو زیر دی گئی ہے۔ ابی زید، اصمعی اور یعقوب حضرمی سے منقول ہے کہ انہوں نے حمزہ کی اس قراءت کو غلط قرار دیا ہے جس میں اس نے ''وما انتم بمصرخی،، میں تشدید کے ساتھ زیر دی ہے نیز انہوں نے ابو عمرو کی اس قراءت کوبھی تسلیم نہیں کیا جس میں اس نے ''یغفرلکم،، میں ''ر،، کو لام میں مدغم کرکے پڑھا ہے اور زجاج کا کہنا ہے: ''اس طرح پڑھنا فاش غلطی ہے۔،،(۱)

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علم قراءت کے بعض ماہرین کا کلام پیش کیا جائے جس میں انہوں نے قراءت کے متواتر نہ ہونے کی تصریح کی ہے تاکہ حق اپنی بہترین صورت میں ظاہر ہ وجائے۔

۱۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''ہر وہ قراءت جو لغتِ عرب کے مطابق ہو، اگرچہ ایک پہلو ہی سے ہو اور عثمانیوں کے قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہو، خواہ اس کا احتمال ہی ہو اور اس کی سند بھی صحیح ہو تو ایسی قراءت صحیح ہوگی اور اس کو رد کرنا جائز نہیں اور اس کا انکار حلال نہیں ہے، بلکہ یہ ان سات اسلوبوں میں سے ایک اسلوب ہوگا جس کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے اور واجب ہے کہ لوگ اسے قبول کرلیں چاہے یہ قراءت ان سات مشہور قاریوں میں سے کسی کی ہو یا دس میں سے کسی کی ہو یا ان دس کے علاوہ کسی اور قابل قبول قاری کی ہو لیکن اگر کسی کی قراءت میں ان تین اہم شرائط و ارکان میں سے کوئی ایک مفقود ہو تو وہ قراءت ضعیف، شاذ و نادر اور باطل سمجھی جائے گی چاہے یہ قراءت ان سات قاریوں میں سے کسی کی ہو یا ان سے بڑے کی ہو۔،،

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۷۔

۲۰۰