البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 277206
ڈاؤنلوڈ: 6797

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277206 / ڈاؤنلوڈ: 6797
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی

بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔

اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:

''بلغنی أن النبی قال: انزل القرآن علی سبعة أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترهیب، و جدل، و قصص، و مثل،،

''میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(۱)

گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔

۴۔ فصیح لغات

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:

۱۔ لغت قریش۔

۲۔ لغت ہذیل۔

۳۔ لغت ہوازن۔

۴۔ لغت یمن۔

۵۔ لغت کنانہ۔

۶۔ لغت تمیم۔

۷۔ لغت ثقیف۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۴۱

یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:

۱۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔

۲۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے:''نزل القراٰن بلغة مضر،، (۱) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قراءت پر اعتراض کیا جس میں وہ ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(۲)

اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمان کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس مںی وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(۳)

نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ''سورۃ فرقان کی قراءت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قراءت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) التبیان، ص ۶۴۔

(۲) ایضاً، ص ۶۵۔

(۳) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ۱۵۶۔

(۴) اس روایت کی طرف گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۴۲

پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت

بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:

لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔

____________________

(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔

۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف

سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قراءتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:

۱۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے''هن اطهرلکم،، یا''اطهرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ''ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔

۲۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ''ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ''باعد،، کو صیغہ امر ''باعد،، اور صیغہ ماضی ''باعد،، پڑھا جائے۔

۳۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ''ننشرھا،، اور ''ننشزھا،، 'را، اور 'زا، کے ساتھ۔

۴۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ''کالعھن المنفوش،، اور''کالصوف المنفوش،،۔

۵۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ''طلح منضود،، اور ''طلع منضود،،۔

۶۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ''وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ''وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۔،،

۷۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے''تسع و تسعون نعجة انثی،، میں''انثیٰ،، ۔''اما الغلام فکان کافراو کان أبواه مومنین،، میں ''فکان کافرا،، اور ''فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ''لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔

۲۴۴

جواب:

۱۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قراءتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

۲۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قراءتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قراءتیں، ایک قراءت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قراءتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ''طلح منضود،، اور ''کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔

۳۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ''ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ''طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ''طلح،، اور ''طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔

۴۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قراءتیں نہیں ہوسکتیں۔

۵۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قراءت کا ان اخلاقی قراءتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قراءتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔

۲۴۵

۶۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔

جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ''اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(۱)

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قراءتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قراءت سے کچھ مختلف ہے۔

____________________

۱) التبیان، ص ۵۹۔

۲۴۶

اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:

''کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:

۱۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،

۲۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،

۳۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،

۴۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،

۶۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور

۷۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،

جواب:

چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(۱)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۱۵۴۔

۲۴۷

حق تو یہ ہے کہ قراءت مںی جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔

۱۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ''باعد،، ماضی اور ''باعد،، امر یا ''امانٰتھم،، جمع اور ''امانتھم،، مفرد میں۔

۲۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ''ننشزھا،، اور ''ننشرھا،، میں۔

۳۔ مادہ اور ہیئت دونوںمیں اختلاف ہو۔ جیسے ''عھن،، اور ''صوف،، میں ہے۔

۴۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ''ارجلکم،، اور ''ارجلکم،، میں ہے۔

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔

۶۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔

۸۔ اکائیوں کی کثرت

سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

جواب:

یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔

۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں

سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قراءتیں ہیں۔

جواب:

اگر ان سات قراءتوں سے مراد مشہور سات قراءتیں ہیں تو تواتر قرااءات کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قراءتوں سے مراد کوئی سی سات قراءتیں ہیں تو قراءتیں صرف سات نہیں ہیں۔

اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قراءتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قراءتیں نہیں ہیں۔

یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ''وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ''اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔

ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔

۱۰۔ مختلف لہجے

دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ''اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۷۰۔

۲۴۹

اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ''قاف،، کو عراق کے عرب ''گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ''ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قراءتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قراءتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔

جواب:

اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:

۱۔ یہ تاویل حضرت عمر اور حضرت عثمان کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔

۲۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔

۳۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔

۴۔ لفظ ''سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔

۵۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔

۲۵۰

یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد ماءخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قراءت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔

اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟

یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعایت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔

سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔

گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً جب معصومین (علیہم السلام) کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف رایوں کاایجاد کردہ ہے۔

۲۵۱

مسئلہ تحریف قرآن

٭ معنوی تحریف کی تعریف

٭ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

٭ نسخ تلاوت

٭ تحریف، قرآن کی نظر میں

٭ تحریف اور سُنّت

٭ نماز میں سورتوں کی اجازت

٭ خلفاء پر تحریف کا الزام

٭ قائلین تحریف کے شبہات

٭ روایاتِ تحریف

٭ روایات کاحقیقی مفہوم

۲۵۲

اس موضوع میں وارد ہونے قبل مناسب ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کئے جائیں جن کا اصل مقصد سے تعلق ہے اور مقصد کی تحقیق اور وضاحت کے لیے ان سے بے نیاز نہیں رہا جاسکتا۔

۱۔ معنی تحریف کی تعریف

لفظ تحریف متعدد معنوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض معنیٰ میں قرآن میں تحریف بالاتفاق واقع ہوئی ہے اور بعض میں بالاتفاق واقع نہیں ہوئی اور کچھ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:(۱)

i ۔ کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ) (۴:۴۶)

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں۔،،

قرآن کریم میں اس معنیٰ میں تحریف واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ حقیقت قرآن کے معنی مقصود کے خلاف تفسیر کرنے کی کوشش کرنا تحریف ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بدعت اور فاسد مذاہب کے پیروکار ہمیشہ قرآن کی تعبیر اپنی آراء اور خواہشات کے مطابق کرکے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی تحریف سے شریعت نے بھی

___________________

(۱) ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۶۔

۲۵۳

منع فرمایا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی مذمّت کی ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے سعد الخیر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا:

''وکان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده، فهم یروونه ولا یرعونه، والجهال یعجبهم حفظهم للروایة، و العلماء یحزنهم ترکهم للرعایة،، (۱)

''قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء اس کی روایت کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں۔،،

ii ۔ تحریف کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اصل قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کے حروف اور حرکات میں کمی و زیادتی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ساری قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ان قراءتوں میں سے ایک قراءت کے مطابق ہے اور باقی قراءتیں یا زیادتی پر مشتمل ہیں یا ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

iii ۔ تحریف کا ایک معنیٰ یہ لیا جاتا ہے کہ ایک یا دو کلموں کی کمی یا زیادتی ہوئی ہے اور خود اصل قرآن محفوظ ہے۔

اس معنی کے اعتبار سے صدر اسلام اور صحابہ کرام کے دور میں تحریف بنتی ہے اور اس ضمن میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہی کافی ہے کہ حضرت عثمان نے متعدد قراءتوں کو جلا دیا تھا اور انہوں نے اپنے والیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اس قرآن کو جلا ڈالیں جو ان کا جمع کردہ نہیں ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ قرآن حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن سے مختلف تھے ورنہ انہیں جلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علماء نے وہ مقامات بھی اپنی تحریوں میں بیان کئے ہیں جہاں مختلف قرآنوں میں اختلاف موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن داؤد سبحستانی نے اپنی کتاب ''کتاب المصاحف،، میں تحریر کیا ہے۔ بنابرایں اس قسم کی تحرف حضرت عثمان کی طرف سے یا دوسرے قرآن لکھنے والوں کی طرف سے یقیناً واقع ہوئی تھی۔

____________________

(۱) الوافی، آخر کتاب الصلوٰۃ، ج ۵، ص ۲۷۴۔

۲۵۴

ہم آگے چل کر یہ بات بھی واضح کریں گے کہ حضرت عثمان نے جس قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا وہ عیناً وہی قرآن تھا جو مسلمانوںمیں رائج تھا اور حضرت رسول کریمؐ کے زمانے سے دست بہ دست ان تک پہنچا تھا۔ اس لیے تحریف زیادتی و کمی کی صورت میں اگر واقع ہوئی ہے تو ان قرآنوں میں واقع ہوئی تھی جو حضرت عثمان کے زمانے کے بعد ختم ہوگئے تھے اور اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی۔

مختصر یہ کہ جو لوگ دیگر اصحاب کے مصاحف متواتر نہ ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ صحیح بھی یہی ہے تو اس معنیٰ میں اگرچہ

تحریف صدر اوّل میں واقع ہوئی تھی لیکن حضرت عثمان کے دور کے بعد اس قسم کی تحریف منقطع ہوگئی اور وہی قرآن ہمارے پاس باقی رہ گیا ج ورسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر ثابت ہے۔

جو لوگ تمام قرآنوں کے متواتر ہونے کے قائل ہیں ان کو لامحالہ متنازع فیہ معنیٰ میں تحریف قرآن اور قرآن کے کسی حصّے کے صائع ہونے کا قائل ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں طبری اور دوسرے لوگوں کی تصریح کا ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عثمان نے سات حروف میں سے چھ کو کالعدم کر دیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور قرآن کو ایک ہی حرف میں منحصر کردیا۔(۱)

iv ۔ قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریمؐ پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریمؐ نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔

مثلاً بسم اللہ کے بارے میں مسلمانوں نے اتفاق کیا ہے کہ رسول کریمؐ نے سورہ براءت کے علاوہ تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرمائی ہے اس کے باوجود علماء اہلسنت کا اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ قرآن کا حصّہ ہے؟

ان میں سے بعض نے یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مالکی نظریہ یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر نمازی اختلاف سے نکلنے کے لیے اس کو پڑھے مکروہ نہیں ہے۔

____________________

(۱) قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کے باب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۵۵

ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ شیعوں کے نزدیک مسلم ہے کہ بسم اللہ سوائے سورہ توبہ کے باقی سورتوں کی جزء ہے اور یہ قول بعض علماء اہل سنت نے بھی اختیار کیا ہے چنانچہ اس کی تفصیل سورہ فاتحہ کی تفسیر کے دوران بیان کی جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہ وجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔

v ۔ تحریف کا پانچواں معنی یہ ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا بعض حصہ قرآن نہیں ہے۔

تحریف کی اس قسم کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ے بلکہ اس کا باطل ہونا بدیہی و آشکار ہے۔

vi ۔ کمی کے اعتبار سے تحریف ہو۔ بایں معنی کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے وہ اس سارے قرآن پر مشتمل نہ ہو جو آسمان سے نازل ہوا ہے بلکہ اس کا بعض حصہ لوگوں کے ہاتھ سے ضائع ہوگیا ہو۔

ا س معنی میں تحریف محل بحث ہے۔ بعض اس تحریف کے قائل ہیں اور بعض منکر ہیں۔

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

مسلمانوں میں مشہور قول یہی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اور جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی مکمل قرآن ہے جو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا ہے۔ بہت سے علماء اعلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ جیسے رئیس المحدثین شیخ صدوق محمد بن بابویہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عقیدہئ عدم تحریف، عقائد امامیہ کا ایک حصہ ہے۔ انہی علماء میں شیخ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوقی ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر التبیان میں اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس قول کو اپنے محترم استاد سید مرتضیٰ علم الہدیٰ سے نقل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدم تحریف پر علم الہدیٰ کی نہایت مضبوط دلیل بھی نقل کی ہے۔

انہی علماء میں مشہو رمفسر طبرسی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر مجمع البیان کے مقدمے میں ا س کی تصریح فرمائی ہے۔

انہی علماء میں شیخ الفقہا الشیخ جعفر بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ''کشف الغطائ،، میں قرآن پر بحث کے دوران عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے۔

۲۵۶

انہی علماء میں جلیل القدر علامہ شہشھانی بھی شامل ہیں۔ انہو ںنے اپنی کتاب ''العروۃ الوثقیٰ،، میں قرآن مجید پر بحث کے دوران اسی نظریئے کو اختیار کیا ہے اور اکثر مجتہدین کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے۔

مشہور محّدث مولیٰ محسن کاشانی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دونو ںکتب(۱) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔

جلیل عالم اور مجاہد شیخ محمد بلاغی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر ''آلاء الرحمن،، میں یہی فرمایا ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے بھی عدم تحریف کا قول بہت سے بزرگ علماء سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ المشایخ شیخ مفید، شیخ بہائی، محقق قاضی نور اللہ اور اس پایہ کے دیگر علماء کرام ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جس نے بھی امامت کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس سلسلے میں جو ناخوشگوار واقعات تاریخ میں پیش آئے ہیں، ان سب کا ذکر انہوں نے کیا ہے لیکن تحریف قرآن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہذا اگر ان کا نظریہ تحریف قرآن کا ہوتا تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعہ سے کہیں زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔

مختصر یہ کہ علماء محققین میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔

رافعی کہتے ہیں:

''اہل کلام میں سے کچھ لوگ، جن کو سوائے ظن و تاویل اور ہر امر اور قول میں جدلی اسلوب اختیار کرنے کے اس فن میں دست رسی حاصل نہیں تھی، کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ قرآن میں سے کچھ چیزیں ساقط ہوگئی ہوں۔ یہ بات انہوں نے

____________________

(۱) الوافی، ج ۵، ص ۲۷۴ اور علم الیقین، ص ۱۳۰۔

۲۵۷

جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)

طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔

مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔

۳۔ نسخ تلاوت

اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:

۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:

''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔

(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔

۲۵۸

سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن اشتر نے اپنی کتاب ''مصاحف،، میں لیث بن سعد سے روایت کی ہے:

''سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے قرآن جمع کیا اور زید نے ان کے لیے لکھا اور جب حضرت عمر آیہ رجم لے کر آئے تو اس نے اسے نہیں لکھا، اس لیے کہ حضرت عمر اکیلے تھے۔(۱)

مؤلف: آیہ رجم، جس کے بارے میں حضرت عمر کا دعویٰ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے اور اسے قبول نہیں کیا گیا، اس کی چند صورتیں روایت ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ یہ ہیں:

i ۔''اذا زنی الشیخ و الشیخه فارجموهما البتة، نکالاً من الله، و الله عزیز حکیم،،

ii ۔''الشیخ و الشیخ ةفارجموهما البتة بما قضیا من اللذة،،

iii ۔''ان الشیخ و الشیخه اذا زنیا فارجموهما ألبتة،،

بہرحال موجودہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے رجم کا حکم نکالا جاسکے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

۲۔ طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:

''قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پر مشتمل ہے۔،،(۲)

جبکہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس مقدار کے ایک تہائی بھی نہیں ہے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان، ج ۱، ص ۱۰۱۔

(۲) الاتقان،ج ۱، ص ۱۲۱۔

۲۵۹

۳۔ ابن عباس نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

''اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو بر حق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں سنگساری کی آیہ بھی تھی۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری رفمائی۔ اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ پھر کہا: ہم اس آیہ کو اسطرح پڑھتے تھے:''ولا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم،، یا''ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم،، (۱)

۴۔ نافع روایت کرتا ہے کہ ابن عمر نے کہا:

''تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔(۲)

۵۔ عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:

''رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں سورہ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔،،(۳)

۶۔ ابو یونس کی دختر حمیدہ ناقل ہے:

''میرے والد جو ۸۰ سالہ تھے، حضرت عائشہ کے قرآن سے یہ آیہ پڑھا کرتے تھے:

''ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یاأیها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما، و علی الذین یصلون الصفوف الأول،، حمیدہ کہتی ہے: قرآن میں حضرت عثمان کے تغیر و تبدل کرنے سے پہلے کی یہ بات ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) مسند احمد، ج ۱، ص ۴۸۔

(۲) الاتقان،ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

(۳) ایضاً۔

(۴) الاتقان، ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

۲۶۰