البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 320806 / ڈاؤنلوڈ: 9570
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

۷۔ ابوحرب بن ابی اسود اپنے والد سے نقل کرتا ہے:

''ابو موسیٰ اشعری نے بصرہ کے قاریوں کی دعوت کی اور یہ تین سو افراد تھے جو کہ سب کے سب قاری تھے۔ جب یہ لوگ ابو موسیٰ کے گھر میں داخل ہوئے تو ابو موسیٰ نے ان سے کہا: دیکھو! تم بصرہ کے نیک اور قاری حضرات ہو، قرآن کی تلاوت کرو اور لمبی لمبی آرزوئیں نہ رکھو تا کہ تم کہیں قسی القلب نہ ہوجاؤ۔ جس طرح تم سے پہلے کے لوگ قسی القلب ہوگئے تھے۔ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جو طویل اور سخت لہجے کے اعتبار سے سورہ براءت کی مانند تھا، لیکن اب میں اسے بھول چکا ہوں۔ اس میں سے مجھے صرف اتنا یاد ہے:''لو کان لابن آدم و ادیان من مال لابتغی و ادیاً ثالثا ولا یملا جوف ابن دم الا التراب،، اس کے علاوہ ہم ایک اور سورۃ بھی پڑھا کرتے تھے جو ''مسبحات،، کی مانند تھا۔ اسے بھی بھول چکا ہوں اور اس میں سے مجھے صرف اتناد یاد ہے:یا أیها الذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون، فتکتب شهادة فی أعناقکم فتسألون عنها یوم القیامة ۔،، (۱)

۸۔ زر روایت کرتا ہے کہ اُبیّ ابن کعب نے مجھ سے کہا:

''تم سورۃاحزاب میں کتنی آئتیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: تہتر آیات۔ اس نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ اس کی آئتیں سورۃ بقرہ جتنی یا اس سے بھی زیادہ تھیں۔،،(۲)

۹۔ ابن ابی داؤد اور ابن انباری نے ابن شہاب سے روایت کی ہے کہ ابن شہاب نے کہا:

''ہم نے سنا تھا کہ بہت سارا قرآن نازل ہوا تھا لیکن علماء و حافظ قرآن جنگ یمامہ میں قتل ہوگئے جس کی وجہ سے قرآن کا ایک بڑا حصہ لکھا نہ جاسکا اور ضائع ہوگیا۔،،(۳)

۱۰۔ عمرۃ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۳، ص ۱۰۰۔

(۲) منتخب کنز العمال باحاشیہ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۳۔

(۳) ایضاً، ص ۵۰۔

۲۶۱

جو لوگ نسخ تلاوت کے قائل ہیں اگر ان کی مراد یہ ہے کہ خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نسخ واقع ہوا ہے تو یہ دلیل کا محتاج ہے۔ اسے ثابت کرنا پڑے گا اور تمام علماء کرام کا اتفاق ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ کتاب (قرآن) جائز نہیں ہے۔ چنانچہ علماء کی ایک جماعت نے کتب اصول وغیرہ(۱) میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ بلکہ شافعی اوراس کے اکثر پیروکار اور ایسے علماء جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں، خبر متواتر کے ذریعے بھی نسخ کتاب (قرآن) کو جائز نہیں سمجھتے۔

ایک اور نقل کے مطابقاحمد بن جنبل کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ بعض علماء ایسے ہیں جو خبر متواتر کے ذریعے نسخ کتاب کو جائز تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کے قائل نہیں ہیں۔(۲)

بنابرایں خبر واحد کی بنیاد پر نسخ کتاب کو رسول اسلامؐ کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ نسخ کتاب نسبت رسول کرمؐ کی طرف دینا ان روایات کے منافی بھی ہے جن کے مطابق قرآن کا کچھ حصہ آپ کے بعد ضائع ہوگیا ہے۔

اور اگر مراد یہ ہو کہ نسخ تلاو، رسول کریمؐ کے بعد ان لوگوں سے ہوا ہے جو برسراقتدار تھے تو یہ عیناً تحیرف ہے۔ بنابرایں یہ کہا جاسکتا ے کہ علماء اہل سنت کی اکثریت تحریف کی قائل ہے۔ کیونکہ ان کی اکثریت نسخ تلاوت کی قائل ہے۔ چاہے نسخ تلاوت کے ساتھ آیہ کے حکم کو بھی نسخ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔

چنانچہ بعض علماء اہل سنت میں سے ماہرین علم اصول اس مسئلہ میں تردد سے کام لیتے ہیں کہ آیا مجنب کے لیے نسخ شدہ آیات کی تلاوت یا محدث کے لیے انہیں چھونا جائز ہے؟ بعض کے نزدیک نسخ شدہ آیات کو پڑھنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔ البتہ! بعض معتزلہ کا یہ نظریہ ہے کہ نسخ تلاوت جائز نہیں ہے۔(۳)

____________________

(۱) الموافقات لابی اسحاق الشاطبی، ج ۳، ص ۱۰۶ طبعۃ المطبعۃ الرحمانیۃ بمصر۔

(۲) الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، ج ۳، ص ۲۱۷۔

(۳) ایضاً، ص ۲۰۱۔۲۰۳۔

۲۶۲

مقام تعجب ہے کہ علمائے اہل سنت کی ایک جماعت تحریف کے قول کو کسی بھی سنی عالم کی طرف نسبت دینے پر راضی نہیں ہے۔ حتی کہ آلوسی نے صاحب ''مجع البیان،، طبرسی کی اس بات کی تکذیب کی ہے کہ سنیوں کا ایک فرقہ ''حشویہ،، تحریف کا قائل ہے۔ آلوسی کہتا ہے: ''علماء ال سنت میں سے کوئی بھی تحریف کا قائل نہیں ہے۔،،

اس سے زیادہ تعجب آلوسی کی اس بات پر ہوتا ہے کہ طبرسی تحریف کا انکار کرکے اپنے ہم مسلک دوسرے علمائے شیعہ پر عقیدہئ تحریف جو دھبہ لگا ہے اس کو چھپانہ چاہتا ہے۔(۱) حالانکہ گذشتہ مباحث میں یہ بتا ثابت ہوچکی ہے کہ شیعوں میں مشہور قول یہی ہے اور شیعہ علماء و محققین کا اتفاق ہے کہ تحریف نہیں ہوئی بلکہ مرحوم طبرسی نے اپنی تفسیر ''مجمع البیان،، میں عدم تحریف پر سید مرتضیٰ علم الہٰدی کے طویل کلام اور ان کی محکم دلیل کو بھی نقل فرمایا ہے۔

تحریف، قرآن کی نظر میں

اس تمہیدی بحث کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں:

حق یہی ہے کہ تحریف متنازعہ فیہ معنو ںمیں قرآن میں بالکل واقع نہیں ہوئی ذیل میں ہم عدم تحریف پر دلائل پیش کرتے ہیں۔

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

یہ آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور کوئی بھی مجرم اس میں کسی قسم کی کمی کرنے یا اس سے کھیلنے کی جسارت نہیں کرسکا۔ البتہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں انہوں نے اس آیہ کی چند تاویلیں کی ہیں:

____________________

(۱) روح المعانی، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۶۳

i ۔ اس آیہ شریفہ میں ذکر سے مراد خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہے اور قرآن میں ذکر، رسول کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( قَدْ أَنزَلَ اللَّـهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا ) ۶۵:۱۰

''خدا نے تمہارے لیے ذکر نازل کیا (اور)

( رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّـهِ ) :۱۱

''اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہارے سامنے واضح آیتیں پڑھتا ہے۔،،

بنابرایں مذکورہ آیات کا ترجمہ یہ ہوگا:

''ہم نے رسول بھیجا اور اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔،،

جواب: اس تاویل کا بطلان صاف ظاہر ہے۔ اس لیے کہ دونوں آیات میں ذکر سے مراد قرآن ہے نہ کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیذات۔ اس لیے کہ ان ایتوں میں ''تنزیل،، اور ''انزال،، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو قرآن سے مناسبت رکھتے ہیں۔ اگر ذکر سے مراد رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ذات ہوتی تو ''انزال،، کی بجائے ''ارسال،، یا ''ارسال،، کے معنی سے ملتا جلتا کوئی دوسرا لفظ استعمال ہوتا۔ اس کے علاوہ اگر دوسری آیہ (۶۵:۱۰) میں یہ احتمال (ذکر بمعنی رسول ) صحیح بھی ہو تو پہلی آیہ (۹۵:۹) میں ذکر بمعنی رسول نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ آیہ ہے:

( وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ) ۱۵:۶

''(اے رسول کفارمکہ تم سے) کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس کو (یہ سودا ہے) کہ اس پر وحی او رکتاب نازل ہوئی ہے۔ تو تو (اچھا خاصا) سڑی ہے۔،،

۲۶۴

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوسکتا کہ اس آیہ شریفہ میں ذکر بمعنی قرآن ہے اور یہ اس بات کا قرینہ اور موید ہے کہ بعد والی آیہ (آیہ حفظ) میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہے۔

ii ۔ دوسری تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس آیہ میں حفظ سے مراد، قرآن کا ہر قسم کے اعتراضات اور تنقیدوں سے محفوظ رہنا ہے اور قرآن کے بلند معانی اور تعلیمات باطل نہیں ہوسکتیں۔

جواب: اس تاویل کا باطل ہونا پہلے سے بھی زیادہ آشکار ہے۔ کیونکہ اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کفار کی تنقیدوں سے محفوظ ہے تو یقیناً یہ باطل ہے۔ ا س لیے کہ کفار کی طرف سے قرآن پر اتنے اعتراضات ہوئے ہیں ک ہجن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

اگر اعتراض سے مراد یہ ہو کہ قرآن کی روش و اسلوب اتنا مستحکم و منفرد ہے کہ کوئی معترض اس پر صحیح و بجا اشکار نہیںکرسکتا اور کسی کے شک و تردد سے اس میں کسی قسم کا تزلزل نہیں آسکتا تو یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہے لیکن یہ نزول قرآن کے بعد اس کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے۔ جیسا کہ آیہ کا مفہوم ہے ۔ کیونکہ قرآن اپنی خصوصیات کے اعتبار سے خود اپنا محافظ ہے اور اس کے لیے وہ کسی دوسرے محافظ کا محتاج نہیں ہے۔ چنانچہ آیہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ نزول قرآن کے بعد اس کا تحفظ اللہ کے ذمے ہے۔

iii ۔ تیسری تاویل یہ کی گئی ہے کہ آیہ کریمہ میں قرآن سے مراد قرآن کے تمام نسخے نہیں بلکہ فی الجملہ کوئی قرآنی نسخہ ہے۔ بنابرایں ممکن ہے آیہ شریفہ اس قرآن کی طرف اشارہ کررہی ہو جو حضرت ولی عصر(ع) کے پاس محفوظ ہے۔

جواب: یہ احتمال تمام احتمالات سے زیادہ ناقابل توجہ ہے۔ کیونکہ اگر قرآن محفوظ ہے تو اسے جن کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یعنی عام لوگوں کے لیے محفوظ رہنا چاہیے۔ صرف امام(ع) کے پاس محفوظ رہنا تو ایسا ہی ہے جیسے لوح محفوظ میں محفوظ ہو یا ایک فرشتے کے پاس محفوظ ہو۔ یہ ایک بے ربط مطلب لگتا ہے اور یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی کہے میں نے آپ کو ایک تحفہ بھیجا ہے اور وہ میرے یا میرے کسی خاص آدمی کے پاس محفوظ ہے۔

۲۶۵

یہ قول انتہائی تعجب خیز ہے کہ آیہ کریمہ میں حفظ قرآن سے مراد کسی ایک قرآنی نسخے کی حفاظت ہے، تمام قرآنی نسخوں کی حفاظت نہیں۔ گویا کہ یہ لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ذکر سے مراد وہ قرآن ہے جو تحریر میں آجائے یا جس کا تلفظ کیا جائے اور اس کے متعدد نسخے بنے ہوں، حالانکہ ذکر سے مراد یہ نہیں ہے کیونکہ قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کو کوئی دوام حاصل نہیں ہے۔ بنابرایں آیہ حفظ سے قرآن مکتوب مراد نہیں لیا جاسکتا۔

ذکر سے مراد وہ مطالب، معانی و مفاہیم ہیں جن کو قرآن مکتوب یا قرآن ملفوظ کے ذریعے ادا کیا جائے اور یہی وہ معانی ہیں جو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل کیے گئے ہیں اور اس کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے اس کو مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے اور ضائع ہونے نہیں دیا اور عام انسانوں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں شاعر اور قصیدہ اور کلام محفوظ ہے۔ اس کا مطلن یہی ہوتا ہے کہ یہ کلام محفوظ ہے اور ضائع نہیں ہوا بایں معنی کہ اس تک بہرحال رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

ہاں! اس مقام پر ایک اور شبہ موجود ہے، جس کے ذریعے عدم تحریف پر آیہ کریمہ سے استدلال کو ردّ کیا جاتا ہے۔ اس شبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ فریق مخالف جو تحریف کا مدعی ہے وہ اس (زیر بحث) آیہ شریفہ میں بھی تحریف کا احتمال دیتا ہے کیونکہ یہ بھی اس قرآن ہی کا حصہ ہے جس میں تحریف واقع ہوئی ہے بنابرایں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اس آیہ شریفہ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس میں وہی لوگ مبتلا ہوسکتے ہیں جنہوں نے عترت پیغمبرؐ ک وخلافت الہٰیہ سے محروم کر دیا(۱) اور انؑ کے اقوال و افعال پر ایمان نہیں لائے۔ ان لوگوں کے پاس اس شبہ کا کوئی حل نہیں ہے۔

____________________

(۱) جی چاہتا ہے یہ عرض کروں: جنہوں نے خلافت الہٰیہ کو عترت پیغمبر(ص) سے محروم کردیا۔(مترجم)

۲۶۶

لیکن جو لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ مخلوق پر حجت خدا اور وجوب اطاعت میں قرآن کے ہم پلّہ ہے ان کے نزدیک یہ شبہ بے وزن ہے۔ کیونکہ عترت پیغمبرؐ کا موجودہ قرآن سے استدلال کرنا اور اپنے اصحاب کے استدلال پر راضی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ قرآن حجت اور واجب العمل ہے، اگرچہ کوئی ا س کی تحریف کا قائل ہو۔ البتہ تحریف کی صورت میں کتاب اس وقت حجت ہوگی جب عترت پیغمبرؐ اس کی تائید و تصدیق کرے۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ ) (۴۱:۴۱)

''اور یہ قرآن تو یقینی ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔،،

( لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ) (:۴۲)

''کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی پھٹک سکتا ہے او رنہ اس کے پیچھے سے اور خوبیوں والے دانا (خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوتی ہے۔،،

اس آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ باطل کی تمام قسمیں قرآن مجید سے دور ہےں۔ ا س لیے کہ جب کسی چیز کے اصل وجود کی نفی کی جائے تو اس کی تمام قسموں اور مصادیق کی نفی ہوجاتی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریف باطل کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ لہٰذا یہ قرآن کے نزدیک بھی نہیں جاسکتی۔

اعتراض: ہماری اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے احکام میںکسی قسم کی تناقض گوئی نہیں ہے اور اس کی کوئی خبر جھوٹی نہیں ہوسکتی، چنانچہ اس تاویل کی تائید میں علی بن ابراہیم قمی کی روایت پیش کی جاتی ےہ جو انہوں نے اپنی تفسیر میں امام باقر(ع) سے روایت کی ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

۲۶۷

''لا یاتیه الباطل من قبل التوراة ولا من قبل الانجیل، و الزبور، ولا من خلفه ای لاتیه من بعده کتاب یبطله،،

''نہ تو قرآن تورات، انجیل اور زبور کے ذریعے باطل قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی ایسی کتاب آسکتی ہے جس سے قرآن باطل ہوجائے۔،،

اس کے علاوہ مجمع البیان کی روایت بھی بطور ثبوت پیش کی جاتی ے جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

''لیس فی اخباره عما مضی باطل، ولا فی اخباره عما یکون فی المستقبل باطل،،

''نہ قرآن کی گذشتہ سے متعلق خبروں میں باطل کا شائبہ ہے اور نہ مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں میں۔،،

جواب: اس روایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ باطل صرف اسی چیز میں منحثر ہے جس کا روایت میں ذکر ہے تاکہ آیہ شریفہ باطل کی تمام قسموں کی نفی کرسکے۔ خصوصاً جب ہم ان روایات کو دیکھتے ہیں جو یہ کہتی ہےں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کسی خاص زمان یا مکان سے مختص نہیں بلکہ یہ ہر دور، ہر مکان اور ہر موقع کے لیے ہیں۔ بنابرایں آیہ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن ہر دور میں باطل کی تمام اقسام سے منزہ و مبّرا رہا ہے۔ لہذا قرآن کو تحریف سے بھی پاک ہونا چاہیے جو باطل کی ایک اہم اور واضح قسم ہے۔

تحریف کے باطل (جس کی آیہ قرآن سے نفی کرتی ہے) کے ذیل میں آنے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آیہ کریمہ میں عزت کو کتاب کی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور کسی بھی چیز کے عزیز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تغیر و تبدل اور ضائع ہونے کا خطرہ نہ ہو۔

پس آیہ کریمہ میں باطل سے صرف تناقض اورکذب مراد لینا کتاب کے عزیز ہونے سے سازگار نہیں۔ کتاب تب ہی عزیز ہوگی جب یہ ہر قسم کے باطل سے پاک و منزہ ہو۔

۲۶۸

تحریف اور سنت

۳۔ عدم تحریف کی تیسری دلیل ثقلین (قرآن و عترت) کے بارے میں روایات ہیں۔ وہ ثقلین جن کو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اپنے بعد امت میں چھوڑا اور ساتھ ساتھ یہ خبر بھی دی کہ یہ دونوں (قرآن اور عترت) ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ آپ کے پاس جمع ہوں گے اور آپ نے امت کو ان سے متمسک رہنے کا حکم دیا۔

اس مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں جو فریقین کی مختلف اسناد سے منقول ہیں۔(۱) ان روایات سے عدم تحریف پر دو پہلوؤں سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔

i ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ے کہ خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب سے تمسک واجب نہ ہو۔ کیونکہ تحریف کی وجہ سے وہ کتاب تو امت کے ہاتھ سے ضائع ہوگئی جبکہ قیام قیامت تک کتاب الہٰی سے تمسک رکھنا واجب ہے۔ بنابرایں عقیدہئ تحریف یقیناً باطل ہے۔

وضاحت: ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ عترت پیغمبرؐ اور کتاب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں اور قیامت تک لوگوں میں باقی رہیں گے۔ بنابرایں کسی ایسے انسان کا ہونا ضروری ے جو قرآن کے دوش بدوش رہے اور قرآن کا ہونا بھی ضروری ہے جو عترتؑ کے دوش بدوش رہے۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر یہ رسول اعظمؐ کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان دونوں سے تمسک کے نیتجے میں امت گمراہی سے محفوظ رہے جس کی خود رسلو کریمؐ نے اس حدیث میں تصریح فرمائی ہے۔

یہ بھی واضح امر ہے کہ عترتؑ سے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ ا سؑ سے محبت کی جائے، جن کاموں کا وہ حکم دے نہیں بجا لایا جائے، جن کاموں سے منع کرے ان سے باز رہا اور اس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور یہ ایسا امر ہے جس کے لیے خود امام(ع) سے ملاقات اور بالمشافہ احکام حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ امام(ع) کے زمان غیب سے پہلے بھی سب لوگوں کے لیے امام(ع) سے ملاقات یا بالمشافہ گفتگو کرنا ممکن نہیں تھا چہ جائیکہ زمان غیبت میں یہ کام ممکن ہو۔

____________________

(۱) ان روایات کے حوالے کی طرف اسی کتاب کے صفحہ ۱۸ میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۶۹

یہ کہنا کہ بعض لوگوں کی امام(ع) تک رسائی ضروری ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات اور دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس شرط کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ پس شیعہ حضرات زمان غیبت میں بھی اپنے ائمہ سے متمسک، ان سے محبت رکھتے اور انؑ کے فرامین کی اطاعت کرتے ہیں۔ تازہ واقعات میں انؑ کی احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرنا بھی ائمہ (ع) کے اوامر و فرامین میں سے ہے۔

لیکن قرآن سے تمسک اسی صورت میں ممکن ہے جب قرآن تک رسائی ہوسکے لہٰذا امت میں قرآن کا ہونا لازمی امر ہے تاکہ وہ اس سے متمسک ہوسکے اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔

ہمارے اس بیان سے اس بات کا بطلان بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن امام زمان(عج) کے پاس موجود اور محفوظ ہے کیونکہ قرآن سے تمسک کے لیے اس کا وجود کافی نہیں ہے اور جب تک یہ ہماری دسترسی میں نہ ہو اس سے تمسک ناممکن ہے۔

اعتراض: اس دلیل پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ثقلین تو صرف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کی آیات احکام (فقہی احکام) میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو آیات احکام ہی سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔ بنابرایں حدیث ثقلین باقی آیات میں تحریف ہونے کی نفی نہیں کرتی۔

جواب: خدا نے تمام قرآن انسانوں کی ہدایت اور ہر لحاظ سے ممکنہ کمال تک رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ چاہے وہ آیات احکام ہوں یا دوسری آیات اور اس سے قبل ہم فضل قرآن کی بحث میں یہ چیز بیان کرچکے ہیں کہ قرآن ظاہری طور پر تو قصہ لگتا ہے مگر باطن اور حقیقت میں یہ موعظہ اور نصیحت ہے۔ اس کے علاوہ تحریف کے قائل لوگوں کی اکثریت کا دعویٰ یہ ہے کہ تحریف، ولایت اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات میں واقع ہوئی ہے جبکہ آیات ولایت کی پیروی و اطاعت کی سخت تاکید کی گئی ہے۔

ظاہر ہے ان آیات (آیات ولایت وغیرہ) کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہوگی جب ان کا قرآن ہو نا ثابت ہو۔

۲۷۰

ii ۔ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ کتاب خدا حجت نہ رہے۔ جب کتاب خدا حجت نہ رہے گی تو اس کے ظاہری معانی پر عمل بھی نہ ہوسکے گا اور کوئی بھی تحریف کا قائل اس وقت تک موجودہ قرآن کی طرف رجوع نہیں کرسکے گا جب تک ائمہ معصومین(ع) اس کی تصدیق نہ کریں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس سے استدلال ائمہ معصومین(ع) کی تائید و تصدیق پر موقوف ہے۔ حالانکہ حدیث ثقلین اور دیگر متواتر روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک مستقل مدرک، مرجع اور حجت ہے بلکہ ثقلین میں سے ثقل اکبر ہے۔ اس کی حجیت ثقل اصغر (ائمہ معصومین(ع)) کی حجیت کے تابع نہیں ہے۔

عقیدہ تحریف سے کتاب خدا اس لیے حجت نہیں رہتی کہ جب تحریف کے قائل ہوں گے تو یہ احتمال باقی رہے گا کہ موجودہ قرآن کی کوئی بھی آیت جو کسی مطلب پر دلالت کرتی ہے، ہوسکتا ہے اس کے ساتھ قرآن کا کچھ اور حصہ بھی ملا ہوا تھا جو موجودہ مفہوم کے خلاف تھا مگر تحریف کی وجہ سے وہ حصہ ضائع ہوگیا۔ جب تک یہ احتمال باقی رہے گا قرآن کے ان معانی پر عمل نہیں ہوسکے گا جو موجودہ قرآن سے سمجھے جائیں گے اور اس احتمال کی نفی اصالۃ عدم قرینہ کی وجہ سے بھی نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ اس اصل کی دلیل عقلاء کی یہ سیرت ہے کہ وہ کلام سے ظاہر ہونے والے معنی پر عمل کرتے ہیں اور اس معنی کے خلاف کسی قرینہ کے احتمال کو اہمیت نہیں دیتے۔

ہم اصول کی مباحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ عقلاء اس سیرت کو اپناتے ہیں جہاں کلام متکلم سے منفصل اور جدا کسی مستقل قرینہ کا احتمال دیاجائے کلام متکلم سے متصل قرینہ کا احتمال ہو اور قرینہ کے ضائع ہونے کی وجہ بھی بیان کے موقع پر متکلم کی غفلت کا احتمال ہو یا سامع استفادہ سے غفلت برتے۔

لیکن اگر قرینہ متصلہ کا احتمال ہو اور اس سے مستفاد نہ ہونے کی وجہ متکلم یا سامع کی غفلت نہ ہو تو عقلاء اس کلام سے ظاہر ہونے والے معانی پر عمل نہیں کرتے۔

۲۷۱

مثال کے طور پر اگر کسی انسان کو کسی ایسے شخص کا خط موصول ہوتا ہے جس کی اطاعت ضروری ہو اور اس خط میں ایک گھر خریدنے کا حکم ہے، مگر اس خط کا کچھ حصہ ضائع ہوچکاہے اور احتمال ہے کہ خط کا ضائع شدہ حصہ اس گھر کی کچھ خصوصیات مثلاً وسعت، قیمت اور محل وقوع پر مشتمل تھا، جس کے خریدنے کاحکم دیا گیا ہے تو اس صورت میں عقلاء کبھی بھی اس احتمال کو کالعدم تصور کرکے خط کے باقی مادنہ مندرجات پر عمل نہیں کریں گے اور اس حکم کے امتثال امر کی خاطر جو گھر بھی میسر آجائے اسے نہیں خریدیں گے اور نہ ہی ایسے شخص کو اپنے مولا کافرمانبردار کہا جائے گا۔

شاید ہمارے محترم قارئین کو وہم ہو کہ اس بیان کے مطابق تو فقہ اور استنباط احکام شرعیہ کی بنیاد منہدم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ احکام شریعہ کے اہم اور عمدہ دلائل معصومین(ع) کی روایات ہیں۔

ان روایات میں بھی یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کلام معصومین(ع) کے ساتھ قرینہ ملا ہوا تھا جو ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ لیکن اگر محترم قارئین معمولی سی بھی توجہ کریں تو یہ شبہ زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکے گا۔ کیونکہ روایات کے سلسلے میں کلام راوی پر اعتماد کیا جاتا ہے بایں معنی کہ اگر کلام میں کوئی قرینہ متصلہ ہوتا تو راوی اس کا ضرور ذکر کرتا۔ راوی کے ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قرینہ متصلہ کلام معصومؑ میں بھی نہ تھا۔ یہ احتمال چونکہ کالعدم ہے کہ شاید قرینہ موجود ہو یا راوی سے غفلت سر زد ہوئی ہو۔ اس لیے اس احتمال کو بھی کالعدم تصور کیا جائے گا کہ شاید قرینہ موجود تھا جو راوی کی غفلت کی وجہ سے رہ گیا ہے ۔ اس قاعدے کی رو سے کہ جس چیز کا وجود مشکوک ہو اسے کالعدم فرض کیا جاتا ہے، قرینہ اور راوی کی غفلت دونوں احتمالوں کی نفی کی جائے گی۔

استدلال کے دوسرے پہلو کا نتیجہ نہ نکلا کہ عقیدہئ تحریف سے یہ لازم آتا ہے کہ ظواہر قرآن سے تمسک جائز نہ ہو۔

۲۷۲

اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے اس بیان کی ضرورت نہیں کہ تحریف کی وجہ سے بعض بلا تعیین آیات کے ظاہری معنی کے درہم برہم ہونے کا اجمالی علمحاصل ہو جاتا ہے یعنی اگرچہ تحریف شدہ آیات کی تعیین نہیں کی گئی لیکن اجمالی طور پر اتنا جان لیتے ہیں کہ کسی نہ کسی آیہ میں تحریف ہوئی ہے جس کی وجہ سے قرآن قابل عمل نہیں رہتا کوینکہ اگر اس بیان کے ذریعے مذکورہ نتیجے تک پہنچنا چاہیں تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا:

اولاً قرآن میں تحریف واقع ہونے سے مذکورہ بالا اجمالی علم لازم نہیں آتا۔ ثانیاً یہ اجمالی علم واجب العمل نہیں ہے کیونکہ اجمالی علم اس صورت میں واجب العمل ہوتا ہے جب جس چیز کے واجب ہونے کا احتمال ہے ان سب سے واسطہ پڑے، یعنی سب واجب ہوسکتے ہیں۔

ہماری اس بحث میں ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ ان احتمالی تحریف شدہ آیات میں سے کچھ آیات ایسی ہیں جن کا تعلق احکام سے نہیں ہے۔ اس قسم کی آیات کا کوئی عملی اثر نہیں ہوا کرتا۔

بعض اوقات تحریف کے حامی حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگرچہ تحریف کی وجہ سے قرآن کی حجیت ختم ہو جاتی ہے لیکن ظواہر قرآن سے ائمہ (ع) کے استدلال اور انؑ کی طرف سے استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت بحال ہوجاتی ہے۔

یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے اس لیے کہ ائمہ (ع) اپنے استدلال اور استدلال اصحاب کی تائید سے قرآن کی حجیت نہیں بنا رہے بلکہ وہ اس لیے استدلال اور استدلال کی تائید کرتے تھے کہ قرآن کی حجیت پہلے سے بذات خود ثابت تھی۔

۲۷۳

نماز میں سورتوں کی اجازت

۴۔ عدم تحریف کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ ائمہ (ع) نے واجب نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از کم ایک مکمل سورۃ پڑھنے کا حکم دیا ہے اور نماز آیات میں ایک مکمل سورۃ یا زیادہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے ہر رکوع سے پہلے ایک حصہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور جب سے شریعت میں نماز کااعلان کیا گیا ہے یہ احکام ثابت اور موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ائمہ نے تقیہ کے طور پر یہ احکام بیان فرمائے تھے، کیونکہ اس وقت تقیہ کا کوئی موقع نہیں تھا۔

بنابرایں جو حضرت تحریف کے قائل ہیں وہ ایسے سورے پر اکتفا نہیں کرسکتے جس میں تحریف کا احتمال ہو کیونکہ جس عمل کے واجب ہونے کا یقین ہو اس کی ادائیگی کا یقین حاصل کرنا واجب ہے (اور جس سورۃ میں بھی تحریف کا احتمال ہو اس کو پڑھ کر یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ واجب ادا ہوگیا ہے، کیونکہ ممکن ہے تحریف شدہ سورۃ پڑھا گیا ہو)۔

کبھی تحریف کے قائل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورۃ پڑھنا واجب ہی ہیں ہے، اس لیے کہ کسی بھی سورہ کو پڑھنے کے بعد انسان یہ یقین حاصل نہیں کرسکتا کہ اس نے ایک مکمل سورہ پڑھ لیا ہے۔ جب ایسا یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ خداناممکن کام کی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔

یہ دعویٰ تب درست ہوگا جب قرآن کی تمام سورتوںمیں تحریف کااحتمال ہو۔ لیکن اگر قرآن میں ایسی سورتیں موجود ہیں جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو، جیسے سورۃ توحید ہے، تو مکلف پر واجب ہے کہ وہ سورۃ توحید کے علاوہ کوئی اور سورۃ نہ پڑھے۔ اگرچہ ائمہ (ع) نے قرآن سے ہر سورۃ کے پڑھنے کی اجازت دی ہے لیکن تحریف کے قائل اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ گو تحریف کی وجہ سے ائمہ (ع) کی اجازت سے قبل ہر آیہ پڑھنا جائز نہیں تھا لیکن ائمہ (ع) کی اجازت کے بعد کسی بھی سورہ کو پڑھا جاسکتا ہے۔

۲۷۴

یہ نتیجہ اس لیے اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ ائمہ (ع) کی طرف سے ہر سورہ پڑھنے کی اجازت ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اگر تحریف واقع ہوئی ہوتی تو اس قسم کی اجازت سے واجب نماز کا بلاوجہ فوت ہونا لازم آتا ہے اوراگر قرآن کے بعض سوروں میں تحریف کا احتمال ہوتا اور باقیوں میں نہ ہوتا تو ائمہ (ع) صرف انہیں سورتوں کو واجب قرار دیتے جن میں تحریف کا احتمال نہ ہو اور یہ تقیہ کے خلاف بھی نہ سمجھا جاتا، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ ائمہ (ع) نے سورۃ توحید اور سورۃ قدر کو ہر نماز میں پڑھنا مستحب قرار دیا ہے۔

ائمہ (ع) کی نظر میں اس بات سے کون سی چیز مانع تھی کہ وہؑ سورہ توحید اور سورہ قدر یا کسی اور ایسے سورہ کو واجب قرار دے دیتے جس میں تحریف کا احتمال نہ ہو۔

مگر یہ کہ تحریف کے قائل یہ کہیں کہ پہلے قرآن سے ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب تھا اور بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور موجودہ قرآن سے ہر سورہ کو پڑھنا جائز قرار دیا گیا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تحریف کے قائل حضرات اس قسم کے نسخ کے قائل ہوں گے کیونکہ رسول اسلامؐ کے بعد یقیناً کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اگرچہ نسخ کا ممکن اور محال ہونا متنازع فیہ ہے جو ہماری اس بحث سے خارج ہے۔

خلاصہئ بحث ی ہہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ائمہ (ع) نے موجودہ قرآن میں سے کوئی سا بھی سورہ پڑھنے کا حکم دیا ہے جس میں تقیہ کا شائبہ تک نہیں ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا کہ کوئی سا سورہ پڑھ لیا جائے یا آپ کے زمانے میں کوئی اور حکم تھا اور یہ حکم بعد میں وضع کیا گیا۔

دوسری صورت (یعنی رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں حکم کوئی اور تھا) تو ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ نسخ ہے جو آنحضرتؐ کے بعد یقیناً واقع نہیں ہوا اگرچہ یہ بذات خود ممکن ہے۔ لامحالہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں بھی یہی حکم تھا جو ائمہ اطہار (ع) نے بیان فرمایا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

۲۷۵

یہ استدلال صرف نماز سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس مقام پر ہوسکتا ہے جہاں ائمہ اطہار (ع) نے ایک مکمل سورہ یا آیۃ کو پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

خلفاء پر تحریف کا الزام

۵۔ عدم تحریف کی پانچویں دلیل یہ ہے کہ تحریف کے قائل رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر تحریف کا الزام عائد کرسکتے ہیں یا حضرت عثمان پر یا کسی اور حکمران پر یہ الزام عائد کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں دعوے باطل ہیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف سے تحریف اس لیے نہیں ہوسکتی کہ:

i ۔ تحریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر اور مکمل قرآن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یا انہوں نے عمداً تحریف کی ہوگی۔

ii ۔ ایسی آیات میں تحریف ہوئی ہوگی جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔

یا

iii ۔ عمداً تحریف کی صورت میں تحریف شدہ آیات ان کی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

یہ تینوں احتمالات باطل ہیں۔

i ) مکمل قرآن تک ان کی دست رسی نہ ہونے کا احتمال بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔ کیونکہ پیغمبر اسلامؐ کا قرآن حفظ کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کا حکم دینے اور آپ کے زمانے میں اور آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کا قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے ہم قطعی طور پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ صحابہ کرام کے پاس قرآن جمع شدہ یا متفرق طور پر، سینوں میں یا کاغذات میں، ضرور محفوظ ہوگا۔

۲۷۶

وہ صحابہ کرام جنہوں نے زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبات کی حفاظت و نگہداری میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، اس کلام پاک کی حفاظت میں کیسے کوتاہی کرتے جس کی راہ میں انہوں نے اپنی جان تک کی بازی لگا دی، وطن سے جلاوطن ہوناگوارا کیا، بیوی بچوں کی جدائی برادشت کی اور اسی قرآن کی راہ میں ان کٹھن ارو طاقت فرسا مراحل سے گزرے جن سے انہوں نے تاریخ کو سرخ کردیا۔

اس کے باوجود کوئی عاقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ ان حضرات نے قرآن کی حفاظت میںمعمولی سی بھی غفلت اورکوتاہی کی ہوگی جس سے قرآن ضائع ہوگیا اور اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کی ضرورت پڑی ہو؟

عقلی اور تاریخی اعتبار سے جس طرح قرآن میں اضافہ ہونا قابل قبول نہیں اسی طرح یہ احتمال بھی قابل قبول نہیں۔

اس کے علاوہ حدیث ثقلین بھی اس احتمال کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اگر آپ کے زمانے میں قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہوگیا ہو تو ''انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ و عترتی،، کہنا درست نہ ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں سارا نہیں بلکہ کچھ قرآن چھوڑا جارہا ہوتا۔

بعض روایات میں تو اس بات کی تصریح موجود ہے کہ رسول اسلامؐ کے زمانے میں ہی قرآن کی مکمل تدوین اور جمع آوری ہوچکی تھی۔ کیونکہ کسی موضوع سے متعلق متفرق یا سینوں میں محفوظ مطالب کو کتاب نہیں کہا جاسکتا اور ہم آئندہ صفحات میں یہ بحث کریں گے کہ آپ کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کی سعادت کس نے حاصل کی۔

اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں مسلمانوں نے جمع قرآن کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کے حفظ اور تلاوت کو اتنی اہمیت دینے کے باوجود اس کی جمع آوری کو آپ نے اتنی اہمیت کیوں نہ دی جس کی وجہ سے وہ ضائع نہ ہو جائے؟

۲۷۷

کیا آپ اس غفلت و کوتاہی کے نتائج سے آگاہ نہ تھے؟

یا وسائل کے فقدان کی وجہ سے قرآن کی جمع آوری پر قادر نہیں تھے؟

ii ) دوسرا یہ احتمال کی شیخین نے عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں تھا، بذات خود بعید ہے اس لیے کہ اس قسم کی تحریف سے ان کی کوئی غرض وابستہ نہیں ہوسکتی۔ عملی اعتبار سے یقیناً ان سے اس قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی۔

وہ اس طرح کی تحریف کر بھی کس طرح سکتے تھے جبکہ خلافت کی بنیاد ہی سیاست اور دینی معاملات کو اہمیت دینے پر قائم تھی۔ اگر ان سے تحریف ہوئی ہے تو ان کی بیعت سے انکار کرنے والوں نے اپنے احتجاج میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ سعد بن عبادہ اور اس کے ساتھیوں نے اعتراض کے طور پر اس کا ذکر کیوں نہیں کیا اورحضرت امیر المومنین (ع)نے اپنے خطبہئ شقشقیہ اور دیگر خطبات میں جہاں ان کی اور خامیاں بیان فرمائی ہیں، تحریف قرآن کا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟

یہ دعویٰ بھی ناممکن اور غیر معقول ہے کہ تحریف کی وجہ سے مسلمانوں نے شیخین پر اعتراض تو کیا ہو لیکن اس کی خبر ہم تک نہ پہنچی ہو۔

iii ) تیسرا یہ احتمال کہ عمداً ان آیات میں تحریف کی ہو جن کا تعلق ان کی حکومت سے تھا، یہ تحریف بھی یقیناً واقع نہیں ہوئی کیونکہ امیر المومنینؑ، آپ کی زوجہئ صدیقہ طاہرہؑ اور آپ کے کچھ اصحابؓ نے خلافت کے سلسلے میں شیخین پر اعتراض کیا، رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے مروی روایات کے ذریعے ان کے خلاف دلائل پیش کئے، مہاجرین و انصار کو بھی اس سلسلے میں گواہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ منجملہ ان روایات کے حدیث غدیر کے ذریعے بھی احتجاج کیا گیا۔

۲۷۸

مرحوم طبرسی نے کتاب ''احتجاج،، میں حضرت ابوبکر کے خلاف بارہ آدمیوں کے احتجاج کو نقل کیا ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر کے سامنے آنحضرتؐ کی نص صریح کو بیان کیا۔

مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب''بحار الانوار،، میں ایک مکمل باب کو خلافت سے متعلق امیر المومنین (ع)کے احتجاج و دلائل سے مختص کیا ےہ۔

پس اگر قرآن میں ان کی حکومت اور خلافت سے متعلق کوئی آیہ ہوتی جس میں انہوں نے تحریف کی ہوتی تو اس کا ذکر احتجاج کے طور پر ضرور کیا جانا چاہیے تھا بلکہ خلافت کے موضوع پر باقی دلیلیوں کی نسبت ان آیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے تھی۔ خصوصاً جبکہ خلافت کا معاملہ بقول ان کے جمع قرآن سے پہلے پیش آیاتھا۔

اس کے باوجود صحابہ کرام کی طرف سے ابتدائی خلافت سے لے کر حضرت علیؑ کی خلافت تک تحریف قرآن کا ذکر نہ آنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔

باقی رہا یہ احتمال کہ حضرت عثمان نے تحریف کی ہو، یہ پہلے سے بھی زیادہ بعید اور ضعیف ہے ،کیونکہ:

i ۔ حضرت عثمان کے زمانے میں اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ حضرت عثمان قرآن میں سے کچھ کم کرہی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی وہ کم کر سکتا تھا جس کا مقام حضرت عثمان سے زیادہ بلند ہوتا۔

ii ۔ اگر یہ تحریف ان آیات میں کی ہوتی جن کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس تحریف کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی اور ان آیات میں بھی یقیناً تحریف نہیں ہوسکتی جن کا تعلق خلافت سے ہوتا۔ اس لیے کہ اگر اس قسم کی کوئی آیہ ہوتی اور وہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہوتی تو خلافت ہی حضرت عثمان تک نہ پہنچتی۔

iii ۔ اگر تحریف قرآن کے مرتکب حضرت عثمان ہوتے تو یہ قائلین حضرت عثمان کے لیے معقول عذر اور بہترین دلیل بنتی اور قائلین کو یہ جواز پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ حضرت عثمان نے بیت المال کے سلسلے میں سیرت شیخین کی مخالفت کی ہے یا اس کے علاوہ دوسرے احتجاجوں کی ضرورت نہ ہوتی۔

۲۷۹

iv ۔ اگر حضرت عثمان نے تحریف کی ہوتی تو حضرت امیر المومنین (ع)کو چاہیے تھا کہ حضرت عثمان کے بعد تحریف شدہ حصے دوبارہ قرآن میں شامل فرما دیتے ،جس طرح قرآن رسول اسلامؐ اور شیخین کے زمانے میں پڑھا جاتا تھا اور آپ کا یہ عمل قابل تنقید نہ ہوتا اپنے ہدف تک پہنچنے میں یہ زیادہ مؤثر ہوتا اور خون حضرت عثمان کے انتقام کے نام پر قیام کرنے والوں کے خلاف یہ ایک مستحکم دلیل بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کا یہ عمل اس اقدام سے بھی ہم آہنگ ہوتا جس کے ذریعے آپ نے حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیریں بیت المال میں لوٹانے کا حکم دیا تھا۔ ا سلسلے میں آپ فرماتے ہیں:

''والله لو وجدته قد تزوج به النساء و ملک به الاماء لرددته فان فی العدل سعة، و من ضاق علیه العدل فالجور علیه أضیق،، (۱)

''خدا کی قسم! اگر مجھے کہیں ایسا مال بھی نظر آئے جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہو تو اسے بھی واپس پلٹا دوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی شک میں اور زیادہ تنگی مسحوس ہوگی۔

بیت المال کے بارے میں امیر المومنین (ع)کا مؤقف یہ ہے۔ اب اہل انصاف خود بتائیں کہ اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہوتی تو امیر المومنین (ع)کا موقف کیا ہوتا۔

بنابرایں امیر المومنین (ع)کا موجودہ قرآن کی تائید کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی۔

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے آج تک کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔

البتہ بعض تحریفی حضرت کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ جب حجاج بن یوسف ثقفی نے بنی امیہ کی مدد شروع کی تو اس نے قرآن سے ان آیات کو حذف کرادیا جو بنی امیہ کی مذمت میں نازل ہوئی تھیں اور ان کی جگہ ایسی آیات کا اضافہ کردیا جو قرآن کا حصہ نہیں تھیں۔

____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۵۔

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689