البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321037 / ڈاؤنلوڈ: 9574
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

میں تھا ساقط ہوگیا(۱) _

حضرت علی (ع) کو پکڑا اور مسجد کی طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھلیں تو دیکھا کہ علی (ع) کو مسجد لے گئے ہیں فوراً اپنی جگہ سے ا ٹھیں چونکہ حضرت علی (ع) کی جان کو خطرے میں دیکھ رہی تھیں اور ان کا دفاع کرنا چاہتی تھیں لہذا نحیف جسم پہلو شکستہ کے باوجود گھر سے باہر نکلیں اور بنی ہاشم کی مستورات کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوگئیں دیکھا کہ علی (ع) کو پکڑے ہوئے ہیں آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا میرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا کی قسم اپنے سر کے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر اسلام(ص) کا پیراہن سر پر رکھ کر اللہ تعالی کی درگاہ میں نالہ کروں گی اور تم پر نفرین اور بدعا کروں گی_ اس کے بعد جناب ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا کیا تم نے میرے شوہر کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا ہے اور میرے بچوں کو یتیم کرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہیں نہ چھوڑا تو اپنے بال پریشان کردوں گی اور پیغمبر(ص) کی قبر پر اللہ کی درگاہ میں استغاثہ کروں گی یہ کہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسین (ع) کا ہاتھ پکڑا اور رسول خدا(ص) کی قبر کی طرف روانہ ہوگئیں آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس جمعیت پر نفرین کریں اور اپنے دل ہلادینے والے گریہ سے حکومت کو الٹ کر رکھ دیں_

حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ وضع بہت خطرناک ہے اور کسی صورت میں ممکن نہیں کہ حضرت زہرا (ع) کو اپنے ارادے سے روکا جائے تو آپ نے سلمان فارسی سے فرمایا کہ پیغمبر(ص) کی دختر کے پاس جاؤ اور انہیں بددعا کرنے سے منع کردو_

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۱۹۸_

۱۶۱

جناب سلمان جناب زہرا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے پیغمبر(ص) کی دختر آپ کے والد دنیا کے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرین نہ کیجئے_

جناب زہرا (ع) نے فرمایا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو میں ان متجاوزین سے دادخواہی کروں_ سلمان نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی (ع) نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ اپنے گھر لوٹ جائیں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت علی (ع) کا حکم دریافت کیا تو آپ نے کہا جب انہوں نے حکم دیا ہے تو میں اپنے گھر لوٹ جاتی ہوں اور صبر کا آغاز کروں گی_ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ اور گھر لوٹ آئیں(۱) _

مختصر مبارزہ

حضرت زہرا (ع) کے زمانہ جہاد اور مبارزہ کی مدت گرچہ تھوڑی اور آپ کی حیات کا زمانہ بہت ہی مختصر تھا، لیکن آپ کی حیات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھی_

پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے دیکھا کہ حکومت کے حامیوں نے حضرت علی (ع) کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا ہے تو آپ عام عورتوں کی روش سے ہٹ کر جو معمولاً ایسے مواقع میں کنارہ گیری کرلیتی ہیں گھر کے دروازے کے پیچھے آگئیں اور استقامت کا مظاہرہ کیا_

دوسرے: جب دروازہ کھول لیا گیا تب بھی جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹیں

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۴۳ ص ۴۷ و روضہ کافی، ص ۱۹۹_

۱۶۲

بلکہ اپنے آپ کو میدان کارزار میں بر قرار رکھا اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئیں اتنی مضبوطی سے کھڑی رہیں کہ تلوار کے نیام سے آپ کے پہلو کو مارا گیا اور تازیانے سے آپ کے بازو سیاہ کردیئےئے_

تیسرے: جب علی (ع) گرفتار کرلئے گئے اور چاہتے تھے کہ آپ کو وہاں سے لے جائیں تب بھی آپ میدان میں آگئیں اور علی (ع) کے دامن کو پکڑلیا اور وہاں سے لے جانے میں مانع ہوئیں اور جب تک آپ کا بازو تازیانے سے سیاہ نہ کردیا گیا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_

چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخری مورچہ گھر کو بنایا اور گھر میں آکر علی (ع) کو باہر لے جانے سے ممانعت کی، اس مورچہ میں اتنی پائیداری سے کام لیا کہ دروازے اور دیوار کے درمیان آپ کا پہلو ٹوٹ گیا اور بچہ ساقط ہوگیا_

اس مرحلہ کے بعد آپ نے سوچا کہ چونکہ میرا یہ مبارزہ گھر کے اندر واقع ہوا ہے شاید اس کی خبر باہر نہ ہوئی ہو لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ مجمع عام گریہ و بکا اور آہ و زاری شروع کردی اور جب تمام طریقوں سے نا امید ہوگئیں تو مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں پر نفرین اور بد دعا کریں، لیکن حضرت علی (ع) کے پیغام پہنچنے پر ہی آپ کے حکم کی اطاعت کی اور واپس گھر لوٹ آئیں_

جی ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ آخری لحظہ اور قدرت تک علی (ع) سے دفاع کرتی رہوں گی اور یہ سوچا تھا کہ جب میدان مبارزہ میں وارد ہوگئی ہوں تو مجھے اس سے کامیاب اور فتحیاب ہوکر نکلنا ہوگا اور حضرت علی (ع) کو بیعت کے لئے لے جانے میں ممانعت کرنی ہوگی، اس طرح عمل کر کے

۱۶۳

اپنے شوہر کے نظریئے اور عمل اور رفتار کی تائید کروں گی اور جناب ابوبکر کی خلافت سے اپنی ناراضگی کا اظہار کروں گی اور اگر مجھے مارا پیٹا گیا تب بھی شکستہ پہلو اور سیاہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے کے باوجود جناب ابوبکر کی خلافت کو بدنام اور رسوا کردوں ی اور اپنے عمل سے جہان کو سمجھاؤں گی کہ حق کی حکومت سے روگردانی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اپنی حکومت کو دوام دینے کے لئے پیغمبر (ص) کی دختر کا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) کے فرزند کو ماں کے پیٹ میں شہید کرنے پر بھی تیار ہوجاتے ہیں اور ابھی سے تمام عالم کے مسلمانوں کی بتلا دینا چاہتی ہوں کہ بیداری اور ہوش میں آجاؤ کہ انتخابی حکومت کا ایک زندہ اور واضح فاسد نمونہ یہ ہو رہا ہے_

البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولایت کے مکتب کی تربیت شدہ تھیں، فداکاری اور شجاعت کا درس ان دو گھروں میں پڑھا تھا اپنے پہلو کے شکستہ ہونے اور مار پیٹ کھانے سے نہ ڈریں اور اپنے ہدف کے دفاع کے معاملے میں کسی بھی طاقت کے استعمال کی پرواہ نہ کی_

تیسرا مرحلہ فدک(۱)

جب سے جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تخت خلافت پر بیٹھے اسی وقت سے ارادہ کرلیا تھا کہ فدک کو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدک ایک علاقہ

____________________

۱) فدک کا موضوع اور اس میں حضرت فاطمہ (ع) کا ادعا مفصل اور عمیق اس کتاب کے آخر میں بیان کیا گیا ہے_

۱۶۴

ہے جو مدینے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس میں کئی ایک باغ اور بستان ہیں اور علاقہ قدیم زمانے میں بہت زیادہ آباد تھا اور یہودیوں کے ہاتھ میں تھا، جب اس علاقے کے مالکوں نے اسلام کی طاقت اور پیشرفت کو جنگ خیبر میں مشاہدہ کیا تو ایک آدمی کو رسول خدا(ص) کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ سے صلح کی پیش کش کی پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی صلح کو قبول کرلیا اور بغیر لڑائی کے صلح کا عہدنامہ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا اس قرار داد کی روسے فدک آدھی زمین جناب رسول خدا(ص) کے اختیار میں دے دی گئی اور یہ خالص رسول(ص) کا مال ہوگیا(۱) _

کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے جو زمین بغیر جنگ کے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) کی ہوا کرتی ہے اور باقی مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہوا کرتا_

فدک کی زمینیں پیغمبر(ص) کی ملکیت اور اختیار میں آگئی تھیں آپ اس کے منافع کو بنی ہاشم اور مدینہ کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کیا کرتے تھے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی_''وات ذا القربی حقه'' (۲) _ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے اللہ تعالی کے دستور اور حکم کے مطابق فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا اس باب میں پیغمبر(ص) سے کافی روایات وارد ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند _ یہ ہیں_

ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت''وات ذاالقربی حقه'' نازل

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۰_

۲) سورہ اسراء آیت ص ۲۶_

۱۶۵

ہوئی تو پیغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے(۱) _

عطیہ کہتے ہیں کہ جب آیت''و آت ذاالقربی حقه'' نازل ہوئی تو پیغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو بلایا اور فدک انہیں بخش دیا(۲) _

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے اپنی زندگی میں فدک فاطمہ (ع) کو بخش دیا تھا(۳) _

فدک کا علاقہ معمولی اور کم قیمت نہ تھا بلکہ آباد علاقہ تھا اور اس کی کافی آمدنی تھی ہر سال تقریباً چوبیس ہزار یا ستر ہزار دینار اس سے آمدنی ہوا کرتی تھی(۴) _

اس کے ثبوت کے لئے دو چیزوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے یعنی فدک کا علاقہ وسیع اور بیش قیمت تھا اسے دو چیزوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے_

پہلی: جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) کے جواب ہیں، جب آپ نے فدک کا مطالبہ کیا تھا تو فرمایا تھا کہ فدک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مال نہ تھا بلکہ یہ عام مسلمانوں کے اموال میں سے ایک مال تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) اس کے ذریعے جنگی آدمیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے اور اس آمدنی کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے(۵) _

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور تفسیر در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲

۳) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۲ اور کتاب در منثور، ج ۴ ص ۱۷۷ ور غایة المرام ص ۳۲۳ میں اس موضوع کی احادیث کا مطالعہ کیجئے_

۴) سفینة البحار، ج ۲ ص ۲۵۱_

۵) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۶

دوسرے: جب معاویہ خلیفہ ہوا تو اس نے فدک مروان ابن حکم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند یزید کے درمیان مستقیم کردیا(۱) _

ان دونوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ فدک ایک پر قیمت اور زرخیز علاقہ تھا کہ جس کے متعلق جناب ابوبکر نے فرمایا کہ رسول خدا اس کی آمدنی سے لوگوں کو جنگ کے لئے روانہ کرتے تھے، اور خدا کی راہ میںخرچ کیا کرتے تھے_

اگر فدک معمولی ملکیت ہوتا تو معاویہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدمیوں کے درمیان تقسیم نہ کرتا_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فدک کبوں فاطمہ (ع) کو بخشا

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے مطالعے سے یہ امر بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ آپ ثروت اور مال کے شیدائی نہ تھے اور مال کو ذخیرہ کرنا اور جمع رکھنے کی کوشش نہیں کیا کرتھے اپنے مال کو اپنے ہدف یعنی خداپرستی کے لئے خرچ کردیا کرتے تھے، مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جناب خدیجہ کی بے حد اور بے حساب دولت کو اسی ہدف اور راستے میں خرچ کر رہے تھے اور خود اور آپ کے داماد اور لڑکی کمال سختی اور مضیقہ میں زندگی بسر کرتے تھے

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج۱۶ ص ۲۱۶_

۱۶۷

کبھی بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھا کرتے تھے_ پیغمبر(ص) ان آدمیوں میں نہ تھے کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اولاد کے لئے مال، دولت حاصل کرتے مگر یہی پیغمبر(ص) نہ تھے کہ جو نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لڑکی اپنے گھر کے لئے ایک پشمی پردہ لٹکائے رکھے اور حسن (ع) اور حسین (ع) کو چاندی کا دستبند پہنائیں_ اور خود گردن میں ہار پہنے رکھے_

سوچنے کی بات ہے اپنی زندگی اور بیٹی کی داخلی زندگی میں اتنا سخت گیر ہونے کے باوجود کس علت کی بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقیمت مال کو فاطمہ (ع) کے لئے بخش دیا تھا؟ آپ کا یہ غیر معمولی کام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ کی یوں علت بیان کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر(ص) اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور خلیفہ معین کریں اور یہ بھی جانتے تھے کہ لوگ اتنی آسانی سے آپ کی رہبری اور حکومت کو قبول نہیں کریں گے اور آپ کی خلافت کے لئے رکاوٹیں ڈالیں گے اور یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے بہت زیادہ گھرانے اور خاندان حضرت علی (ع) کی طرف سے بغض و کدورت رکھتے ہیں کیوں کہ علی (ع) شمشیر زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ایسے تھے کہ جن میں کا ایک یا ایک سے زائد آدمی زمانہ کفر میں علی (ع) کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پیغمبر(ص) کو علم تھا کہ خلافت اور مملکت کے چلانے کے لئے مال اور دولت کی ضرورت ہوتی ہے ان حالات اور شرائط میں قوری کا جمع ہوجانا مشکل کام ہوگا_ پیغمبر(ص) جانتے تھے کہ اگر علی (ع) فقراء اور بیچاروں کی مدد اور اعانت کرسکے اور ان کی معاشی احتیاجات برطرف کرسکے تو دلوں کا بغض اور کدورت ایک حد تک کم ہوجائے گا اور آپ کی طرف دل مائل ہوجائیں گے_

۱۶۸

یہی وجہ تھی کہ آنحضرت نے فدک جناب فاطمہ (ع) کو بخش دیا_ در حقیقت یہ مستقبل کے حقیقی خلیفہ کے اختیار میں دے دیا تھا تا کہ اس کی زیادہ آمدنی فقراء اور مساکین کے درمیان تقسیم کریں شاید کینے اور پرانی کدروتیں لوگ بھول جائیں اور حضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوجائیں، خلافت کے آغاز میں اس کی بحرانی حالت میں اس مال سے استفادہ کریں اور خدا اور رسول (ص) کے ہدف کی ترقی اور پیشرفت میں اس سے بہرہ برداری کریں_ در حقیقت پیغمبر اسلام(ص) نے اس ذریعے سے خلافت کی اقتصادی مدد کی تھی_

فدک جناب رسول خدا(ص) کی زندگی میں جناب زہرا(ع) کے تصرف اور قبضے میں تھا آپ قوت لایموت یعنی معمولی مقدار اپنے لئے لیتیں اور باقی کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتیں اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیتیں_

جب جناب ابوبکر نے مسلمانوں کی حکوت پر قبضہ کیا اور تخت خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک آنجناب سے واپس لے لیں، چنانچہ انہوں نے حکم د یا کہ جناب فاطمہ (ع) کے کارکنوں اور عمال اور مزارعین کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ حکومت کے کارکن نصب کردیئے جائیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا(۱) _

فدک لینے کے اسباب

فدک لینے کے لئے دو اصلی عوامل قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ جن کے بعد جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ

____________________

۱) تفسیر نورالثقلین، ج ۴ ص ۲۷۲_

۱۶۹

کرلیا تھا کہ فدک جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لیا جائے_

پہلا عامل: تاریخ کے مطالعے سے یہ مطلب روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جناب عائشےہ دو چیزوں سے ہمیشہ رنجیدہ خاطر رہتی تھی_ پہلی: چونکہ پیغمبر اسلام(ص) جناب خدیجہ سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور ان کا کبھی کبھار نیکی سے ذکر کیا کرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہوجاتی تھی اور بسا اوقات اعتراض بھی کردیتی تھیں اور کہتی تھیں خدیجہ ایک بوڑھی عورت سے زیادہ کچھ نہ تھیں آپ ان کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں_ پیغمبر(ص) جواب دیا کرتے تھے، خدیجہ جیسا کون ہوسکتا ہے؟ پہلی عورت تھیں جو مجھ پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال میرے اختیار میں دے دیا، میرے تمام کاموں میں میری یار و مددگار تھیں خداوند عالم نے میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا ہے(۱) _

جناب عائشےہ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہ جتنا کسی عورت سے بھی رشک نہیں کیا حالانکہ آپ میری شادی سے تین سال پہلے فوت ہوچکی تھیں کیونکہ رسول خدا(ص) ان کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) کو حکم دے رکھا تھا کہ خدیجہ کو بشارت دے دیں کہ بہشت میں ان کے لئے ایک قصر تیار کیا جاچکا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) کوئی گوسفند ذبح کرتے تو اس کا گوشت جناب خدیجہ کے سہیلیوں کے گھر بھی بھیج دیتے تھے(۲) _

____________________

۱) تذکرة الخواص، ص ۳۰۳ و مجمع الزوائد، ج ۹ ص ۲۲۴_

۲) صحیح مسلم ج ۲ ص ۱۸۸۸_

۱۷۰

جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن جناب رسول خدا(ص) گھر میں آئے تو دیکھا کہ جناب عائشےہ حضرت زہراء کے سامنے کھڑی قیل و قال کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں اے خدیجہ کی بیٹی تو گمان کرتی ہے کہ تیری ماں مجھ سے افضل تھی، اسے مجھ پر کیا فضیلت تھی؟ وہ بھی میری طرح کی ایک عورت تھی جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ کی گفتگو سن لی اور جب جناب فاطمہ (ع) کی نگاہ باپ پر پڑی تو آپ نے رونا شروع کردیا_ پیغمبر نے فرمایا فاطمہ (ع) کیوں روتی ہو؟ عرض کیا کہ جناب عائشےہ نے میری ماں کی توہین کی ہے رسول خد ا(ص) خشمناک ہوئے اور فرمایا: عائشےہ ساکت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت کرنے والی بچہ دار عورتوں کو مبارک قرار دیا ہے_ جناب خدیجہ سے میری نسل چلی، لیکن خداوند عالم نے تمہیں بانجھ قرار دیا(۱) _

دوسرا عامل: پیغمبر اکرم(ص) حد سے زیادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے آپ کے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا کر رکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب میں مبتلا رہتی تھیں کیونکہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اسے اپنی سوکن کی اولاد پسند نہیں آتی اور عائشےہ کبھی اتنی سخت ناراحت ہوتیں کہ پیغمبر(ص) پر بھی اعتراض فرما دیتیں اور کہتیں کہ اب جب کہ فاطمہ (ع) کی شادی ہوچکی ہے آپ پھر بھی اس کا بوسہ لیتے ہیں_ پیغمبر(ص) اس کے جواب میں فرماتے ہیں تم فاطمہ (ع) کے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ایسی بات نہ کرتیں(۲) _

____________________

۱) بحار الانوار، ج ۱۶ ص ۳_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۸۵_

۱۷۱

آپ جناب فاطمہ (ع) کی جتنی زیادہ تعری کرتے اتناہی جناب عائشےہ کی اندرونی کیفیت دگرگوں ہوتی اور اعتراض کرنا شروع کردیتیں_

ایک دن جناب ابوبکر پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے تھے کہ آپ نے جناب عائشےہ کی آواز اور چیخنے کو سنا کہ رسول خدا(ص) سے کہہ رہی ہیں کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ آپ علی (ع) اور فاطمہ (ع) کو میرے اور میرے باپ سے زیادہ دوست رکھتے ہیں، جناب ابوبکر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے کہا کیوں پیغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات کر رہی ہو(۱) _

ان دو باتوں کے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھی تھیں اور پیغمبر(ص) کی نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود میں آئی یہ مطلب بھی جناب عائشےہ کو رنج پہنچاتا تھا، بنابرایں جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب عائشےہ کے دل میں کدورت اور خاص زنانہ کیفیت کا موجود ہوجانا فطری تھا اور آپ کبھی اپنے والد جناب ابوبکر کے پاس جاتیں اور جناب فاطمہ (ع) کی شکایت کرتیں ہوسکتا ہے کہ جناب ابوبکر بھی دل سے جناب فاطمہ (ع) کے حق میں بہت زیادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں کہ کبھی اپنی اس کیفیت کو بجھانے کے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام لیں_

جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وفات پاچکے تو جناب فاطمہ (ع) رویا کرتیں اور فرماتیں کتنے برے دن آگئے ہیں جناب ابوبکر فرماتے کہ ابھی برے دن اور آگے ہیں(۲) _

____________________

۱) مجمع الزواید، ج ۹ ص ۲۰۱_

۲) ارشاد شیخ مفید، ص ۹۰_

۱۷۲

دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبکر سوچتے تھے کہ حضرت علی (ع) کے ذاتی کمالات اور فضائل اور علم و دانش کا مقام قابل انکار نہیں اور پھر پیغمبر(ص) کی سفارشات بھی ان کی نسبت بہت معروف اور مشہور ہیں پیغمبر (ص) کے داماد اور چچازاد بھائی ہیں اگر ان کی مالی اور اقتصادی حالت اچھی ہوئی اور ان کے ہاتھوں میں دوپیہ بھی ہوا تو ممکن ہے کہ ایک گروہ ان کا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت کے لئے خطرے کا موجب بن جائے یہ ایک نکتہ تھا کہ جس کا ذکر جناب عمر نے جناب ابوبکر سے کیا اور جناب ابوبکر سے کہا کہ لوگ دنیا کے بندے ہوا کرتے ہیں اور دنیا کے سوا ان کا کوئی ہدف نہیں ہوتا تم خمس اور غنائم کو علی (ع) سے لے لو اور فدک بھی ان کے ہاتھ سے نکال لو جب ان کے چاہنے والے انہیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انہیں چھوڑ دیں گے اور تیری طرف مائل ہوجائیں گے(۱) _

جی ہاں یہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے کہ جناب ابوبکر نے مصمم ارادہ کرلیا کہ فدک کو مصادرہ کر کے واپس لے لیں اور حکم دیا کہ فاطمہ (ع) کے عمال اور کارکنوں کا باہر کیا جائے اور اسے اپنے عمال کے تصرف میں دے دیا_

جناب زہراء (ع) کا رد عمل

جب جناب فاطمہ (ع) کو اطلاع ملی کہ آپ کے کارکنوں کو فدک سے نکال دیاگیا ہے تو آپ بہت غمگین ہوئیں اور

____________________

۱) ناسخ التواریخ جلد زہرائ، ص ۱۲۳_

۱۷۳

اپنے آپ کو ایک نئی مشکل اور مصیبت میں دیکھا کیونکہ حکومت کا نقشہ حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفی نہ تھا اور ان کے اصلی اقدام کی غرض و غایت سے بھی بے خبر نہ تھے_

اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) کو ان دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا تھے_

پہلا راستہ یہ تھا کہ جناب ابوبکر کے سامنے ساکت ہوجائیں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشی کرلیں اور کہیں کہ ہمیں تو دنیا کے مال و متاع سے کوئی محبت اور علاقہ نہیں چھوڑو فدک بھی جناب ابوبکر لے جائیں اس کے ساتھ یہ بھی اس کے لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جناب خلیفہ کو خوش کرنے کی غرض سے پیغام دالواتیں کہ تم میرے ولی امر ہو میں ناچیز فدک کو آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں_

دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی پوری قدرت سے رکھتی ہیں اپنے حق کا دفاع کریں_

پہلا راستہ اختیار کرنا حضرت زہراء (ع) کے لئے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ حکومت کے پوشیدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھیں جانتی تھیں کہ وہ اقتصادی دباؤ اور آمدنی کے ذریعے قطع کردینے سے اسلام کے حقیقی خلیفہ حضرت علی (ع) کے اثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ہمیشہ کے لئے حضرت علی (ع) کا ہاتھ حکومت سے کوتاہ ہوجائے اور وہ کسی قسم کا خلافت کے خلاف اقدام کرنے سے مایوس ہوجائیں اور یہ بھی جانتی تھیں کہ فدک کو زور سے لے لینے سے علی (ع) کے گھر کا دروازہ بند کرنا چاہتے تھے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اب بہت اچھی فرصت اور مدرک ہاتھ آگیا ہے اس وسیلہ سے جناب ابوبکر کی انتخابی خلافت سے مبارزہ کر کے

۱۷۴

اسے بدنام اور رسوا کیا جائے اور عمومی افکار کو بیدار کیا جائے اور اس قسم کی فرصت ہمیشہ ہاتھ نہیں آیا کرتی_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ اگر میں جناب ابوبکر کے دباؤ میں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ کروں تو جناب ابوبکر کی حکومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے کی عادی ہوجائے گی اور پھر لوگوں کے حقوق کی مراعات نہ ہوسکے گی_

جناب فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ اگر میں نے اپنے حق کا دفاع نہ کیا تو لوگ خیال کریں گے اپنے حق سے صرف نظر کرنا اور ظلم و ستم کے زیر بار ہونا اچھا کام ہے_

جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر میں نے ابوبکر کو بدنام نہ کیا تو دوسرے خلفاء کے درمیان عوام فریبی رواج پاجائے گی_

حضرت فاطمہ (ع) نے فکر کی کہ پیغمبر(ص) کی دختر ہوکر اپنے صحیح حق سے صرف نظر کرلوں تو مسلمانوں خیال کریں گے کہ عورت تمام اجتماعی حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے حق کے احقاق کے لئے مبارزہ کرے_

حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا کہ میں جو وحی کے دامن اور ولایت کے گھر کی تربیت یافتہ ہوں اور میں اسلام کی خواتین کے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ایک اسلام کی تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے میرے اعمال اور رفتار کو ایک اسلام کی نمونہ عورت کی رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر میں اس مقام میں سستی کروں اور اپنے حق کے لینے میں عاجزی کا اظہار کروں تو پھر اسلام میں عورت عضو معطل سمجھی جائے گی_

۱۷۵

جی ہاں یہ اور اس قسم کے دیگر عمدہ افکار تھے جو جناب فاطمہ (ع) کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ پہلا راستہ اختیار کرتیں یہی وجہ تھی کہ آپ نے ارادہ کرلیا تھا کہ توانائی اور قدرت کی حد تک اپنے حق سے دفاع کریں گی_

البتہ یہ کام بہت زیادہ سہل اور آسان نہ تھا کیوں کہ ایک عورت کا مقابلہ جناب خلیفہ ابوبکر سے بہت زیادہ خطرناک تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) نای عورت کا کہ جو پہلے سے پہلو شکستہ بازو سیاہ شدہ اور جنین ساقط شدہ تھیں، ان میں سے ہر ایک حادثہ اور واقعہ عورت کے لئے کافی تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_

لیکن فاطمہ (ع) نے فداکاری اور شجاعت اور بردباری اور استقامت کی عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خدیجہ کبری سے وراثت میں پائی تھی اور انہوں نے مبارزت اسلامی کے مرکز میں تربیت پائی تھی انہوں نے ان فداکاروں اور قربانی دینے والوں کے گھر میں زندگی گزاری تھی کہ جہاں کئی دفعہ وہ شوہر کے خون آلود کپڑے دھوچکی تھیں اور ان کے زخمی بدن کی مرہم پٹی کرچکی تھیں وہ ان جزئی حوادث سے خوف نہیں کھاتی تھیں اور جناب ابوبکر کی حکومت سے مرعوب نہیں ہوتی تھیں_

جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے کو کئی ایک مراحل میں انجام دیا_

بحث اور استدلال

جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور فرمایا کہ تم نے کیوں میرے کارکنوں کو میری ملکیت سے باہر

۱۷۶

نکال دیا ہے؟ میرے باپ نے اپنی زندگی میں فدک مجھے ہبہ کردیا تھا جناب ابوبکر نے جواب دیا اگر چہ میں جانتا ہوں کہ تم جھوٹ نہیں بولتیں لیکن پھر بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ایمن اور حضرت علی (ع) کو گواہ کے طور پر لے گئیں، جناب ام ایمن نے جناب ابوبکر سے کہ تجھ خدا کی قسم دیتی ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا(ص) نے میرے بارے میںفرمایا ہے کہ ام ایمن بہشتی ہیں، جناب ابوبکر نے جواب دیا، یہ میں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ایمن نے فرمایا میں گواہی دیتی ہوں کہ جب یہ آیت ''و آت ذی القربی حقہ'' نازل ہوئی تو رسول خدا(ص) نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دیا تھا_

حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس قسم کی گواہی دی جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ فدک جناب فاطمہ (ع) کو لوٹا دیں لہذا ایک تحریر ایک کے متعلق لکھی اور وہ حضرت زہراء (ع) کو دے دی_

اچانک اسی وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دریافت کیا جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ چونکہ جناب فاطمہ (ع) فدک کا دعوی کر رہی تھیں اور اس پر گواہ بھی پیش کردیئےیں لہذا میں نے فدک انہیں واپس کردیا ہے جناب عمر نے وہ تحریر زہراء کے ہاتھ سے لی اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبکر نے بھی جناب عمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ علی (ع) کے علاوہ کوئی اور آدمی گواہ لے آئیں یا ایم ایمن کے علاوہ کوئی دوسری عورت بھی گواہی دے جناب فاطمہ (ع) روتی ہوئی جناب ابوبکر کے گھر سے باہر چلے گئیں_

ایک اور روایت کی بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہی دی

۱۷۷

کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے(۱) _

ایک دن حضرت علی (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئے اور فرمایا کہ کیوں فدک کو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) کو دیاتھا ان سے لے لیا ہے؟ آپ نے جواب دیاانہیں اپنے دعوی پر گواہ لے آنے چاہئیں اور چونکہ ان کے گواہ ناقص تھے جو قبول نہیں کئے گئے_ حضرت علی (ع) نے فرمایا اے ابوبکر، کیا تم ہمارے بارے میں اس کے خلاف حکم کرتے ہو جو تمام مسلمانوں کے لئے ہوا کرتا ہے_ جناب ابوبکر نے کہا کہ نہیں_ حضرت علی (ع) نے فرمایا کہ اب میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ اگر کچھ مال کسی کے ہاتھ میں ہو اور میں دعوی کروں کہ وہ میرا مال ہے اور فیصلہ کرانے کے لئے جناب کے پاس آئیں تو آپ کس سے گواہ کا مطالبہ کریں گے؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ آپ سے گواہ طلب کروں گا کیوں کہ مال کسی دوسرے کے تصرف میں موجود ہے، آپ نے فرمایا پھر تم نے کیوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا ہے در انحالیکہ فدک آپ(ص) کی ملکیت اور تصرف میں موجود ہے، جناب ابوبکر نے سوکت کے سوا کوئی چارہ نہ دیکھا لیکن جناب عمر نے کہایا علی ایسی باتین چھوڑو(۲) _

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس فیصلے مین حق حضرت زہراء کے

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱، اور کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_ اور شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۷۴_

۲) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۲۱_ کشف الغمہ ج ۲ ص ۱۰۴_

۱۷۸

ساتھ ہے کیونکہ فدک آپ کے قبضے میں تھا اسی لئے تو حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے_ جی ہاں دنیا کے اموال سے فدک ہمارے اختیار میں تھا لیکن ایک جماعت نے اس پر بھی بخل کیا اور ایک دوسرا گروہ اس پر راضی تھا(۱) _

قضاوت کے قواعد اور قانون کے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ دوسری طرف جو ابوبکر تھے انہیں گواہ لانے چاہیئے تھے، لیکن جناب ابوبکر نے فیصلے کے اس مسلم قانون کی مخالفت کی، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے میں کامیاب ہوگوئیں اور اپنی حقانیت کو مضبوط دلیل و برہان اور منطق سے ثابت کردیا اور حضرت ابوبکر مجبور ہوگئے کہ وہ فدک کے واپس کردینے کا دستور بھی لکھ دیں یہ اور بات ہے کہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت کی منطق کو میدان میں لائے اور لکھی ہوئی تحریر کو پھاڑ دیا اور گواہوں کے ناقص ہونے کا اس میں بہانا بنایا_

پھر بھی استدلال

ایک دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبکر کے پاس گئیں اور باپ کی وراثت کے متعلق بحث اور احتجاج کیا آپ نے فرمایا اے ابوبکر، میرے باپ کا ارث مجھے کیوں نہیں دیتے ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ پیغمبر(ص) ارث نہیں چھوڑتے_

____________________

۱) نہج البلاغہ، ج ۳ ص ۴۵_

۱۷۹

آپ نے فرمایا مگر خداوند عالم قرآن میں نہیں فرماتا:

''و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

کیا جناب سلیمان جناب داؤد کے وارث نہیں بنے؟ جناب ابوبکر غضبناک ہوئے اور کہا تم سے کہا کہ پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا زکریا نبی نے خدا سے عرض نہیں کیا تھا_

''فهب لی من لدنک وَلیاً یرثنی وَ یرث من آل یعقوب'' (۲)

جناب ابوبکر نے پھر بھی وہی جواب دیا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمایا کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا:

''یوصیکم الله فی اولادکم للذکر حظ الانثیین'' (۳)

کیا میں رسول اللہ (ص) کی اولاد نہیں ہوں؟ چونکہ جناب ابوبکر حضرت زہراء (ع) کے محکم دلائل کا سامنا کر رہے تھے اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ اسی سابقہ کلام کی تکرار کریں اور کہیں کہ کیا میں نے نہیں کہا کہ پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_

جناب ابوبکر نے اپنی روش اور غیر شرعی عمل کے لئے ایک حدیث نقل کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھی

____________________

۱) سورہ نحل آیت ۱۶_

۲) سورہ مریم آیت ۶_

۳) سورہ نساء آیت ۱۱_

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

اس طرح جدید قرآنی نسخے مرتب کرکے مصر، شام، مکّہ، مدینہ اور کوفہ و بصرہ بھجوا دیئے، اور آج کا موجودہ قرآن انہی نسخوں کے مطابق ہے۔ باقی جتنے بھی قرآنی نسخے تھے وہ جمع کروا دیئے گئے اور ایک نسخہ تک باقی نہ رہا۔(۱)

یہ دعویٰ ہذیان اور مجذوب کی بڑ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ حجاج جو بنی امیہ کے والیوں میں سے ایک والی تھا، اس کی کیا جراءت تھی کہ قرآن میں تحریف کرنے کی جسارت کرتا بلکہ وہ فروع دین میں سے بھی کسی میں رد و بدل کرنے کا مرتکب نہیں ہوسکتا تھا، چہ جائیکہ وہ قرآن میں تحریف کا مرتکب ہوتا جو اساس دین اور سرچشمہئ شریعت ہے۔ اس کی کیا قدرت اورمجال تھی کہ وہ سارے اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے قرآنلوں کی طرف دست تجاوز دراز کرتا۔

اگر اس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا تو مؤرخین نے اس عظیم المیہ کا ذکر کیوں نہیں کیا اورکیوں اسے اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا؟ حالانکہ اس غیر معمولی سانحہ کا تقاضہ تھا کہ یہ تاریخ میں ثبت ہو جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو حجاج کے زمانے میں کسی مسلمان نے اسے نقل کیا ہے اور نہ اس کے دور حکومت کے بعد کسی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تمام مسلمانوں نے حجاج کے دور حکومت کے بعد بھی اس سنگین جرم سے چشم پوشی کی ہو۔

فرض کیجیئے حجاج میں یہ قدرت تھی کہ وہ قرآن کے تمام نسخوں کو اکٹھا کرلے اور تمام اسلامی ممالک میں ایک نسخہ بھی باقی نہ رہنے دے۔ لیکن کیا مسلمانوں کے سینوں اور حافظان قرآن کے دلوں سے بھی وہ قرآن کو خارج کرسکتا تھا؟ جبکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ جسے خدا ہی جانتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن بنی امیہ کے خلاف کوئی آیہ ہوتی تو حجاج سے پہلے معاویہ اسے قرآن سے خارج کرنے کی کوشش کرتا جس کی قدرت و طاقت حجاج سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر معاویہ اس جرم کا مرتکب ہوتا تو اصحاب امیر المومنین (ع)معاویہ کے خلاف جہاں دوسرے احتجاجات اور دلائل پیش کرتے تھے جو تاریخ، کتب حدیث اور علم کلام میں ثبت ہیں، وہاں تحریف قرآن کے مسئلے

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۲۵۷۔

۲۸۱

کو بھی اٹھاتے۔ حالانکہ تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریف کا دعویٰ کرنے والے عقلی بدیہیات کے مخالف اور منکر ہیں۔ ایک ضرب المثل مشہور ہے۔

''حدث الرجل بما لا یلیق فان صدق فهو لیس بعاقل،،

''کسی آدمی سے غیر معقول بات کریں، اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو سمجھ لیں کہ وہ عقلمند نہیں ہے۔،،

قائلین تحریف کے شبہات

تحریف کے قائل جن شبہات اور غلط فہمیوں کا سہارا لیتے ہیں ان کا بھی ذکر کرنا اور جواب دینا ضروری ہے:

پہلا شبہ:

تورات اور انجیل میں یقیناً تحریف ہوئی ہے اور شیعہ و سنی روایات متواترہ سے ثابت ہے کہ گذشتہ اقوام میںجو واقعات رونما ہوئے ہیں اس امت میں بھی ضرور واقع ہوں گے۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی کتاب ''اکمال الدین،، میں فرماتے ہیں کہ غیاث بن ابراہیم نے امام صادق(ع) سے اور آپ نے اپنے آباؤ اجداد(ع) سے نقل فرمایا ہے:

''قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم کل ما کان فی الأمم السالفة، فانه یکون فی هذه الامة مثله حذو النعل بالنعل، و القذه بالقذه،، (۱)

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: جو کچھ گذشتہ اُمّتوں میں واقع ہوا ہے، بعینہ موبہ مو اس امت میں بھی واقع ہوگا۔،،

_____________________

(۱) بحار، باب افتراق الامۃ بعد النبی(ص) علی ثلاث و سبعین فرقہ، ج ۸، ص ۴، اس حدیث کے بعض حوالے اہل سنت کی سند سے اسی کتاب میں گزر چکے ہیں۔

۲۸۲

اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں تحریف ضرور واقع ہوئی ہوگی ورنہ اس حدیث کا معنی صحیح نہ ہوگا۔

جواب:

i ۔ ایسی روایات، جن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، سب کی سب خبر واحد ہیں جو باعث علم و عمل نہیں ہوسکتیں ان کے متواتر ہونے کا دعویٰ بلا دلیل ہے اور کتب اربعہ (اصول کافی، تہذیب، من لایحضرہ الفقیہ اور استبصار) میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تورات میں تحریف ہونے اور قرآن میں تحریف ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں ہے (تورات میں تحریف ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن میں بھی تحریف ہو)۔

ii ۔ اگر یہ دلیل درست ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن میں اضافہ بھی ہوا ہو جس طرح تورات و انجیل میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا بطلان واضح ہے۔

iii ۔ گذشتہ امتوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو اس امت میں رونما نہیں ہوئے۔ مثلاً بچھڑے کی پوجا کرنا، بنی اسرائیل کا چالیس سال سرگداں رہنا، فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا، حضرت سلیمانؑ کا جن و انس پر حکومت کرنا، حضرت عیسیٰؑ کو آسمان کی طرف لے جانا، حضرت موسیٰ! کے وحی حضرت ہارونؑ کا حضرت موسیٰؑ سے پہلے وفات پانا، حضرت موسیٰؑ سے نو معجزات رونما ہونا۔ بغیر باپ کے حضرت عیسیٰؑ کی ولادت،گذشتہ اقوام میں سے بہت سی قوموں کا بندروں اور خنزیروں کی صورت میں مسخ ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات ایسے ہیں جوگذشتہ اقوام میں تو واقع ہوئے ہیں لیکن اس اُمّت میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ معصومؑ کی مراد ہو نہیں جو ظاہری طور پر روایات سے سمجھی جاتی ہے۔ لامحالہ ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ بعض باتوں میں اس امت کو گذشتہ امتوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ہر واقعہ میں نہیں۔

۲۸۳

بنابرایں اگرچہ قرآن کا کوئی حصہ کم نہیں کیا گیا لیکن قرآن کے حروف اور الفاظ برقرار رکھتے ہوئے اس کے احکام اور حدود کی پیروی نہ کرنے پر بھی تحریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ اس بحث کے آغاز میں مذکورہ روایت کا مفہوم بھی یہی تھا۔ اس کی تائید و تاکید ابو واقدلیثی کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

''خیبر کی طرف جاتے ہوئے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مشرکین کے ایک درخت کے قریب سے گزرے جو ''ذات انواط،، کہلاتا تھا، مشرکین اس پر اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے، اصحاب پیغمبرؐ نے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) جسطرح مشرکین کے پاس ''ذات انواط،، ہے ہمارے لیے بھی ایک ''ذات انواط،، کا بندوبست فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! یہ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ کی قوم نے کہا تھا کہ آپ ہمارے لیے بھی بہت سے خداؤں کا انتظام کریں جس طرح ان کے کئی خدا ہیں۔ قسم بخدا! تم بھی گذشتہ اقوام کی سنت پر عمل کرو گے۔،،(۱)

یہ روایت تصریح کرتی ہے کہ اس امت میں رونما ہونے والے واقعات بعض جہات سے گذشتہ اقوام کے واقعات سے مشابہت رکھتے ہیں، ہر لحاظ سے نہیں۔

iv ۔ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایات سند کے اعتبار سے متواتر ہیں اور ان کا معنی بھی وہی ہے جیسا کہ تحریف کے قائل حضرات کہتے ہی، پھر بھی ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گذشتہ زمانے میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں قرآن میں کو ئی کمی بیشی ہونے والی ہو۔ کیوں کہ بخاری کی روایت کے مطابق قیامت تک اس اُمّت کے واقعات گذشتہ اُمّتوں کے واقعات کی مانند رونما ہوتے رہیں گے۔

بنابرایں ان روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدر اسلام یا خلفاء کے دور میں قرآن میں تحریف واقع ہوئی ہے۔

_____________________

(۱) صحیح ترمذی، باب ''ما جاء لترکبن سنن من کان قبلکم،، ج ۹، ص ۲۶۔

۲۸۴

دوسرا شبہ:

تحریف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امیر المومنین (ع)کے پاس موجودہ قرآن کے علاوہ ایک اور قرآن تھا جسے آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا مگر انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ یہ قرآن کچھ ایسے حصوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن امیر المومنین (ع)کے پاس موجود قرآن سے کم ہے اور یہی وہ تحریف ہے جس کی نفی و اثبات میں اختلاف ہے اور اس موضوع کی روایات بہت سی ہیں۔

i ۔ ان میں سے ایک روایت میں ہے کہ امیر المومنین (ع)نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا:

''یا طلحة ان کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد صلی الله علیه و آله عندی باملاء رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و خط یدی، و تأویل کل آیة أنزلها الله تعالیٰ علی محمد ؐو کل حلال ،أو حرام، أو حدّ، أو حکم، أو شیء تحتاج الیه الأمة الی یوم القیامة، فهو عندی مکتوب باملاء رسول الله و خط یدی، حتی أرش الحدش ۔۔۔،، (۱)

''اے طلحہ! قرآن کی ہر آیت جو خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمائی، میرے پاس موجود ہے، جس کی املاء رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے لکھوائی اور میں نے اپنے ہاتھ سے لکھی۔ ہر اس آیت کی تاویل جو خدا نے محمدؐ پر نازل فرمائی، ہر حلال، حرام، حد، حکم اور ہر وہ چیز جس کی امت محمدیؐ کو قیامت تک احتیاج ہے میرے پاس رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی دی ہوئی املاء میں میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے۔ حتیٰ کہ اس میں ایک خراش کی حد (سزا) تک کا ذکر موجود ہے۔،،

______________________

(۱) مقدمہ تفسیر ا لبرھان، ص ۲۷، ا س روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ موجودہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب قرآن ہی ہے۔

۲۸۵

ii ۔ امیر المومنین (ع)کا ایک زندیق سے استدلال کے بارے میں ہے:

''أتی بلکتاب کملاً مشتملاً علی التأویل و التنزیل، و المحکم و المتشابه ،و الناسخ و المنسوخ، لم یسقط منه حرف ألف و لا لام فلم یقباوا ذلک،، (۱)

''آپ نے ایک ایسی مکمل کتاب پیش کی جو تاویل و تنزیل، محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ پر مشتمل تھی اور اس میں سے ایک الف اور لام تک ضائع نہیں ہوا تھا۔ مگر ان لوگوں نے قبول نہیں کیا۔،،

iii ۔ کافی میں جابر کی سند سے امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:

''ما یستطیع احد ان یدعی ان عنده جمیع القرآن کله، ظاهره و باطنه غیر الاوصیائ،، (۲)

''سوائے اوصیاء کرامؑ کے کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ قرآن کا ظاہر و باطن غرض سارا قرآن اس کے پاس موجود ہے۔،،

iv ۔ جابر امام محمد باقر(ع) سے روایت کرتے ہیں:

''سمعت اءبا جعفرؑ یقول ما ادّعی اءحد من

''لوگوں میں سے جو بھی قرآن کو اس طرح جمع کرنے کا دعویٰ کرے

الناس أنه جمع القرآن کله کما أنزل الا کذاب، و ما جمعه وحفظه کما نزله الله تعالیٰ الا علی بن ابی طالب و الأئمة من بعده علیهم السلام،، (۳)

جس طرح وہ نازل ہوتا تھا وہ کذاب ہوگا۔ سوائے امیر المومنین (ع)اور باقی ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے کسی نے بھی قرآن کو اس طرح جمع اور محفوظ نہیں کیا جس طرح وہ نازل ہوا تھا۔،،

____________________

(۱) تفسیر صافی المقدمہ السادسہ، ص ۱۱۔

(۲) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ، باب ۷۶۔ ص ۱۳۰۔

(۳) الوافی، ج ۲، کتاب الحجۃ باب ۷۶، ص ۱۳۰۔

۲۸۶

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امیر المومنین (ع)کے پاس ایک ایسا قرآن موجود تھا جو سوروں کی ترتیب کے اعتبار سے موجودہ قرآن سے مختلف تھا۔ جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے اور یہ محتاج دلیل نہیں۔ اگرچہ یہ بھی اپنے مقام پر درست ہے کہ امیر المومنین (ع)کا قرآن کچھ ایسی زاید چیزوں پر مشتمل تھا جو موجودہ قرآن میں نہیں ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں جو تحریف کی وجہ سے حذف کردی گئی ہیں بلکہ صحیح اور حق یہ ہے کہ ان زاید چیزوں میں کلام کی تفسیر اور اس کی تاویل بیان کی گئی ہے یا مقصود الہٰی کی تشریح کی گئی ہے۔

دراصل اس شبہ یا دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ تنزیل سے مراد وہ کلام ہو جو بطور قرآن نازل کیا گیا ہو اور تاویل سے کسی لفظ سے ایسی مراد کا قصد کیا جائے جو ظاہری معنی کے خلاف ہو۔ لیکن یہ دونوں معنی متاخرین کی اصطلاح ہیں۔

لغت میں ان دونوں معنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تا کہ روایات میں تاویل و تنزیل سے یہ معانی مراد لیے جائیں۔

تاویل جو ''اول،، کا مزید فیہ ہے اس کا معنی رجوع اور برگشت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:''اول الحکم الی اهله ای رده الیهم،، (یعنی) ''حکم کو اپنے اہل کی طرف پلٹاؤ،،۔

کبھی تاویل سے انجام کار مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیہ کریمہ میں یہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے:

( وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ) ۱۲:۶

''اور (تمہارا پروردگار) تمہیں خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔،،

( نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ) :۳۶

''ہم کو اس کی تعبیر بتاؤ۔،،

( هَـٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ ) :۱۰۰

''یہ تعبیر ہے میرے اس خواب کی۔،،

۲۸۷

( ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا ) ۱۸:۸۲

''یہ حقیقت ہے ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔،،

ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر لفظ تاویل انجام کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بنابرایں تاویل قرآن سے مراد کلام کی بازگشت اور اس کا انجام ہے۔ چاہے یہ ظاہری معنی ہو جسے ہر اہل لغت سمجھ سکتا ہے یا ایک مخفی معنی ہو جسے صرف راسخین فی العلم سمجھتے ہیں۔

تنزیل بھی ثلاثی مزید فیہ ہے جس کی اصل نزول ہے، کبھی تنزیل نازل شدہ چیز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

( إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ) ۵۶:۷۷

''بیشک یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔،،

( فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ) : ۷۸

''جو کتاب (لوح) محفوظ میں ہے۔،،

( لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) : ۷۹

''اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک ہیں۔،،

( تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ) :۸۰

''سارے جہاں کے پروردگار کی طرف سے (محمدؐ پر) نازل ہوا ہے۔،،

اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خدا کی طرف سے بطور وحی نازل ہونے والی ہر چیز قرآن ہی ہو۔ بنابراین ان روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے قرآن میں جو زاید چیزیں تھیں وہ قرآنی آیات کی تفسیر ان میں ان آیات کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہ روایات ہرگز اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ یہ زاید چیزیں قرآن کا حصہ تھیں۔

۲۸۸

امیر المومنین (ع)کے قرآن میں منافقین کے جو نام مذکور ہیں وہ بھی اسی (تنزیل و تاویل) کے ذی میں آتے ہیں۔ کیونکہ ان منافقین کے نام یقیناً بطور تفسیر ذکر کئے گئے ہیں (اور وہ قرآن کا حصہ نہیں ہےں) اس امر پر وہ قطعی دلائل بھی دلالت کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا کوئی بھی حصہ ضائع نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ منافقین کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا جو برتاؤ تھا اس کا بھی یہ تقاضا نہیں کہ منافقین کے نام قرآن کی صورت میں نازل کیے جاتے کیونکہ آپ کا شیوہ یہ تھا کہ منافقین کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ شریک کرتے اور ان کی منافقت، جسے آپ بخوبی جانتے تھے، کو راز میں رکھتے تھے۔ یہ ایسی چیز ہے جو آپ کی سیرت اور حسن اخلاق سے آگاہ آدمی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ان منافقین کے ناموں کی قرآن میں تصریح کردی جائے اور دن رات خود منافقین اور مسلمانوں کو یہ تاکید کی جائے کہ منافقین پر لغت بھیجیں۔ کیا اس قسم کی روش کا احتمال بھی دیا جاسکتا ہے تاکہ اس کی صحت اوربطلان کے بارے میں سوچا جائے اور اس کے اثبات کے لیے ان روایات سے تمسک کیا جائے جن کے مطابق امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے لیے بعض منافقین کے نام موجود ہیں؟!

البتہ تمام منافقین کو ابو لہب، جو کہ برملا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے دشمنی کا مظاہرہ کرتا تھا اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی یہ جانتے تھے کہ یہ مشرک ہی مرے گا، پر قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) ہاں! بعید نہیں کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے امیر المومنین (ع)اور اپنے دیگر اصحاب کے یے بعض منافقین کی نشاندھی فرمائی ہو۔

گذشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے ہوا کہ اگرچہ مصحف (قرآن) علی (علیہ السلام) میں کچھ زاید چیزیں موجود ہیں مگر یہ اس قرآن کا حصہ نہیں ہیں جس کی تبلیغ کا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو حک دیا گیا تھا اور ان زاید چیزوں کو قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ نظریہ بذات خود باطل ہے اور اس کے بطلان پر وہ تمام قطعی دلائل دلالت کرتے ہیں جن سے تحریف قرآن کی نفی ہوتی ہے۔

____________________

) ۱) یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر قرآن میں ابولہب کا نام آسکتا ہے تو باقی منافقین کے نام کیوں نہیں آسکتے۔ (مترجم)

۲۸۹

تیسرا شبہ

تحریف کی تیسری دلیل کے طور پر اہل بیت عصمتؑ کی ان متواتر روایات کو پیش کیا جاتا ہے جو تحریف پر دلالت کرتی ہےں۔

جواب:

یہ روایات متنازع فیہ معنی میں تحریف واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتیں۔

وضاحت:

بہت سی روایات سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں،کیونکہ ان میں سے کچھ تو احمد بن محمد سیاری کی کتاب سے منقول ہیں جس کے فاسد المذاہب ہونے پر تمام علمائے رجال کا اتفاق ہے، اس کے علاوہ یہ تناسخ کا بھی قائل تھا۔ کچھ روایات علی بن احمد کوفی سے منقول ہیں جو علمائے رجال کے نزدیک کذاب اور فاسد المذاہب تھا۔

یہ روایات اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ کثرت سے ہیں اس لیے اتنا ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ بعض روایات ضرور ائمہ اطہار (ع) سے صادر ہوئی ہیں اور کم از کم اس کا ظن غالب ضرور حاصل ہو جاتا ہے۔

ان میں سے بعض روایات ایسی بھی ہیں جو معتبر طریقوں سے روایت کی گئی ہیں۔ لہٰذا ہر روایت کی سند کے بارے میں بحث کی ضرورت نہیں ہے۔

روایات تحریف

اس مقام پر یہ بحث ضروری ہے کہ ان روایات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ان سے یکساں اسفادہ نہیں ہوتا، لہذا ہم ذ یل میں ان روایات کے مفاہیم اور خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

۲۹۰

یہ روایات کئی قسم کی ہیں:

i ۔ پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں لفظ تحریف کا ذکر ہے اور اس طرح وہ تحریف پر دلالت کرتی ہیں، ایسی روایتیں بیس ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کرتے ہیں اور ان جیسی دیگر روایات کا ذکر نہیں کرتے۔

پہلی روایت: علی بن ابراہیم قمی اپنی سند کے ذریعے ابوذر سے نقل کرتے ہیں:

''لما نزلت هذه الآیة: یوم تبیض وجوه و تسود وجوه، قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ترد امتی علی یوم القیامة علی خمس رایات ثم ذکر أن رسول الله صلی الله علیه و آله یسأل الریات عما فعلوا بالثقلین فتقول الرایة الأولی: أما الاکبر فحر فناه، و نبذناه وراء ظهورنا، و أما الأصغر فعادیناه، و أبغضناه، و ظلمناه و تقول الرایة الثانیة أما الأکبر فحر فناه، و مزقناه، و خالفناه، و أما الأصغر فعادیناه و قاتلناه ،،

''جب آیت کریمہ: ''یوم تبیض وجوہ و تسود وجود،، نازل ہوئی تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: روز قیامت میری امت پانچ جھنڈے اٹھائے میرے سامنے پیش ہوگی۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہر گروہ سے پوچھیں گے: ثم ثقلین کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے؟ پہلا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر (قرآن) میں تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دیا اور ثقل اصغر (عترت پیغمبرؐ) سے بغض و عداوت رکھی اور اس پر ظلم کیا۔ دوسرا گروہ کہے گا: ہم نے ثقل اکبر میں تحریف کی۔ اسے پھاڑا، ٹکڑے ٹکڑے کیا اور اس کی مخالفت کی اور ثقل اصغر سے دشمنی روا رکھی اور اس سے جنگ لڑی۔،،

دوسری روایت: ابن طاؤس اور سید محدث جزائری نے اپنی سندوں سے حسن بن حسن سامری سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حدود الہٰی سے تجاوز کرنے والے کے بارے میں حذیفہ سے فرمایا:

''انه یضل الناس عن سبیل الله، و یحرف کتبابه، و یغیر سنتی،،

''یہ لوگوں کی راہ خدا سے منحرف، کتاب خدا میں تحریف اور میریؐ سنت کو تبدیل کرتا ہے۔

۲۹۱

تیسری روایت: سعد بن عبداللہ قمی نے اپنی سند سے جابر جعفی اور اس نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''دعا رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) بمنی قال: أیها الناس انی تارک فیکم الثقلین أما ان تمسکتم بهما لن تضلوا کتاب الله و عترتی والکعبة البیت الحرام ثم قال ابوجعفر : اما کتابالله فحرفوا، و أما الکعبة فهدموا، و أما فتقلوا، و کل ودائع الله قد نبذوا و منها قد تبرأوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے منیٰ میں دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ وہ دوگرانقدر چیزیں قرآن اور میری عترتؑ ہیں اور دیکھو! کعبہ، واجب الاحترام ہے۔ اس کے بعد امام(ع) نے فرمایا: لوگوں نے کتاب خدا میں تحریف کی، کعبہ کو گرایا، اور عترت پیغمبرؐ کو شہید کردیا۔ غرض انہوں نے خدا کی تمام امانتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ان سے دور ہوگئے۔،،

چوتھی روایت: خصال میں صدوق نے اپنی سند سے جابر سے اور انہوں نے رسول اسلامؐ سے راویت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''یجیئ یوم القیامة ثلاثة یشکون: المصحف، و المسجد، العترة یقول المصحف یا رب حرفونی و مزقونی، و یقول المسجد یا رب عطلونی و ضیعونی، و تقول العترة یا رب قتلونا، و ردونا، و شر دونا،،

''تین چیزیں بارگاہ الہی میں شکایت کریں گی: قرآن، مسجد اور عترت پیغمبرؐ قرآن کہے گا: پالنے والے! لوگوں نے مجھ میں تحریف کی اور مجھے پھاڑ ڈالا۔ مسجد کہے گی: مجھے لوگوں نے بے آباد رکھا اور ضائع کردیا اور عترت محمد(ص) کہے گی: یارب! لوگوںنے ہمیں شہید کیا اور جلا وطن کیا۔،،

۲۹۲

پانچویں روایت: علی بن سوید کہتے ہیں: میں نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) کو ایک خط لکھا جب آپ زندان میں تھے۔ علی بن سوید نے اپنے خط اور امام(ع) کے جواب کا مکمل ذکر کیا ہے، جس میں آپ نے فرمایا:

''کتبت الی أبی الحسن موسیٰ و هو فی الحبس کتابا الی أن ذکر جوابه بتمامه، و فیه سوله اؤتمنوا علی کتاب الله فحرفوه و بدلوه،،

''لوگوں میں کتاب الہٰی بطور امانت چھوڑ دی گئی مگر انہوں نے اس میں تحریف کی اور اسے تبدیل کردیا۔،،

چھٹی روایت: ابن شہر آشوب، اپنی سند سے عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے روز عاشور اپنے خطبے میں فرمایا:

''انما انتم من طواغیت الامة، و شذاذ الأحزاب، و نبذة الکتاب، و نفئة الشیطان، و عصبة الآثام، و محر فی الکتاب،،

''تم اس امت کے طاغوت، گھٹیا گروہ، قرآن کو پس پشت ڈالنے والے، شیطان کی اولاد، گناہ کے پتلے او رکتاب خدا میں تحریف کرنے والے لوگ ہو۔،،

ساتویں روایت: ابن قولویہ نے کتاب ''کامل الزیارات،، میں جسن بن عطیہ اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اذا دخلت الحائر فقل: اللهم العن الذین کذبوا رسلک، وهدموا کعبتک، و حرفوا کتابک،،

''جب تم سید الشہداءؑ کے حرم میں داخل ہو تو کہو: ان لوگوں پر تیری لعنت ہو جنہوں نے تیرے رسولوں کی تکذیب کی، تیرے کعبہ کو منہدم کیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔

آٹھویں روایت: حجال نے قطبہ بن میمون سے اور اس نے عبد الاعلیٰ سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:

''قال أبو عبدالله(ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه،،

''عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں۔،،

۲۹۳

روایات کا حقیقی مفہوم

اس مضمون کی روایات کا جواب یہ ہے اور آخری روایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریف سے مراد قاریوں کا اختلاف اور قرااءات کے سلسلے مںی ان کا ذاتی اجتہاد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت اور اصل قرآن تو محفوظ ہے۔ صرف قراءت کی کیفیت میں اختلاف ہے اور تحریف کی بحث کے آغاز میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں قرآن میں یقیناً تحریف ہوئی ہے چونکہ سات کی سات قرااءات متواتر نہیں ہیں بلکہ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر بھی ہوں پھر بھی اس معنی میں قرآن میں تحریف ہوئی ہے اس لیے کہ قرااءات زیادہ ہیں اور یہ سب کی سب ظنی اجتہادات پر مشتمل ہیں جن سے قہری طور پر قراءت کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اس روایت کا مستدل کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں تک باقی روایات کا تعلق ہے ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں تحریف سے مراد آیات قرآنی کو غلط معانی پر محمول کرنا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اہل بیتؑ کے فضائل کا انکار، ان سے دشمنی کرنا اور جنگ لڑنا ہے۔ اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ سید الشہداءؑ کے خطبے میں تحریف کی نسبت آپ کے مقابلے میں آنے والے بنی امیہ کی طرف دی گئی ہے۔

آغاز بحث میں مذکورہ روایت میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:

''و کان من نبذهم الکتاب أنهم أقاموا حروفه، و حرفوا حدوده،،

''ان لوگوں نے کتاب الہٰی کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ اس کے حروف کو تو برقرار رکھا مگر اس کی حدود میں تحریف کی۔،،

i ۔ ہم یہ بھی بتاچکے ہیں کہ قرآن میں اس معنی (الفاظ قرآن سے غلط معنی اخذ کرنا) میں یقیناً تحریف واقع ہوئی ہے۔ یہ ہمارے محل نزاع سے خارج ہے کیونکہ اگر قرآن میں یہ تحریف واقع نہ ہوئی ہوتی تو عترت پیغمبرؐ کے حقوق محفوظ رہتے، رسول اسلامؐ کا احترام برقرار رہتا اور آہل رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حقوق پامال کرکے رسول گرامیؐ کو اذیت نہ دی جاتی۔

۲۹۴

ii ۔ دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآنی آیات میں ائمہ ہدیٰؑ کے نام موجود تھے جو تحریف کے نتیجے میں نکال دیئے گئے ہیں اور یہ روایات کثرت سے ہیں۔ان میں چند یہ ہیں:

الف۔ کافی کی روایت ہے جسے محمد بن فضیل نے ابو الحسن موسیٰ ابن جعفر(علیہما السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ولایۃ علی بن ابی طالب مکتوب فی جمیع صحف الانبیاء و لن یبعث اللہ رسولا الا بنبوۃ محمد و ''ولایۃ،، و صیہ۔ صلی اللہ علیہما و آلھما،،

''امیر المومنین (ع)کی ولایت تمام انبیاءؑ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو اس وقت تک نہیں بھیجا جب تک اسے خاتم الانبیائؐ کی نبوّت اور آپ کے وصی (علیہ علیہ السلام) کی ولایت سے آگاہ نہیں کیا۔،،

ب۔ عیاشی میں امام صادق(ع) سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''لو قرأ القرآن کما انزل لألفینا مسمین،،

''اگر قرآن کی اسی طرح تلاوت کی جاتی جس طرح اسے نازل کیا گیا تھا تو لوگ ہمیں نام سے پہچانتے۔،،

ج۔ کافی، تفسیر عیاشی میں امام محمد باقر(ع) سے اور کنزالفوائد میں مختلف سندوں سے ابن عباس سے اور تفسیر فرات بن ابراہیم کوفی میں متعدد سندوں سے اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے:

''قالوا: قال امیر المومنین (ع)القرآن نزل علی اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام ، و لنا کرائم القرآن،،

''امیر المومنین (ع)نے فرمایا: قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے۔ اس کا ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں، ایک چوتھائی سیرت اور مثالوں کے بارے میں اور ایک چوتھائی واجبات اور دیگر احکام کے بارے میں ہے اور قرآن کی عزت و کرامت ہماری ذات سے مختص ہے۔،،

۲۹۵

د۔ کافی میں امام محمد باقر(ع) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''نزل جبرئیل بهذه الآیة علی محمد هکذا: و ان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فی علی فاتوا سورة من مثله،،

''جبرئیل آنحضرتؐ کی خدمت میں یہ آیت اس طرح لے کر آیا تھا: ''علیؑ کے بارے میں کچھ ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اس میں اگر شک ہو تو اس کی مانند ایک سورہ پیش کرکے دکھاؤ۔،،

جواب: بعض چیزوں تفسیر قرآن کے طور پر نازل ہوا کرتی تھیں جو کہ خود قرآن نہیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا ان روایات سے بھی یہی مراد ہونی چاہیے کہ اگر قرآن میں ائمہ (ع) کے نام موجود تھے تو بطور تفسیر ہوں گے اور قرآن کا حصہ نہیں ہوں گے۔

اگر ان روایات سے یہ معنی اخذ نہ کئے جائیں تو سرے سے ان روایات کو رد کرنا پڑے گا کیونکہ یہ روایات کتاب و سنت اور ان قطعی دلیلوں کے خلاف ہیں جن سے عدم تحریف ثابت ہوتی ہے۔ روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ روایات کو قرآن و سنت کے مقابلے میں پیش کرنا ضروری ہے اور جو روایت کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ٹھکرا اور دیوار پر مار دینا واجب ہے۔

قرآن میں امیر المومنین (ع)کے نام کی تصریح نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل حدیث غدیر ہے۔ کیونکہ حدیث غدیر می اس بات کی تصریح ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خدا کی طرف سے حکم و تاکید اور اپنےؐ تحفظ کی ضمانت لینے کے بعد امیر المومنین کو اپنا ولی نصب فرمایا۔

اگر قرآن میں امیر المومنین (ع)کا نام موجود ہوتا تو اس تقرری اور مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع کے اہتمام کی ضرورت نہ ہوتی اور نہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو کسی قسم کا خطرہ محسوس ہوتا۔

۲۹۶

خلاصہ یہ کہ حدیث غدیر کی صحت سے ان روایات کا کذب ثابت ہوتا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ ائمہ (ع) کے اسماء قرآن مجید میں موجود ہیں۔ یہ نکتہ خاص کر قابل توجہ ہے کہ حدیث غدیر، حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اسلامؐ کی زندگی کے آخری ایام میں صادر ہوئی تھی جب سارا قرآن نازل ہوچکا اور مسلمانوں میں پھیل گیا تھا اور آخری روایت جو کافی میں نقل کی گئی ہے وہ بذات خود قابل تصدیق نہیں ہے۔

ان سب کے علاوہ جب پیغمبراکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی نبوت کو ثابت اور قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا جارہا ہو تو ایسے موقع پر علی (علیہ السلام) کا نام ذکر کرتنا مقتضیٰ حال کے مطابق نہیں ہے اور ان تمام روایات کی معارض کافی کی صحیحہ ابی بصیر ہے۔ ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام(ع) سے آیہ:

( أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹ کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

''قال: فقال نزلت فی علی بن ابی طالب و الحسن ؑو الحسین ؑفقلت له: ان الناس یقولون فما له لم یسم علیا و أهل بیته فی کتاب الله ۔قال: فقولوا لهم ان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) نزلت علیه الصلاة و لم یسم الله لهم ثلاثا ،و لا أربعاً، حتی کان رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) هو الذی فسر لهم ذلک ۔۔۔(۱)

''یہ آیت کریمہ علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا: مولا! لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے قرآن میں آپ اور آپ کے اہل بیتؑ کے نام کیوں ذکر نہیں فرمائے؟ آپ نے فرمایا: تم ان لوگوں کو جواب میں کہو کہ خدا نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نماز بھی نازل فرمائی ہے، لیکن قرآن میں تین یا چار رکعتوں کاذکر کسی بھی جگہ نہیں ہے بلکہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی تفسیر فرمایا کرتے تھے۔،،

بنابرایں یہ روایت ان تمام روایات پر مقدم ہوگی ارویہ ان روایات کا صحیح مطلب و مقصد بیان کررہی ہے اور

____________________

(۱) الوافی، ج ۲، باب ۳۰، مانص اللہ و رسولہ علیہم، ص ۶۳۔

۲۹۷

یہ کہ قرآن میں علیؑ کا نام بطور تفسیر و تنزیل بیان کیا گیا ہے ۔ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے، جس کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو۔

اس کے علاوہ جنہوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا تھا انہوں نے اپنے استدلال میں یہ کبھی نہیں کہا کہ حضرت علی(علیہ السلام) کا نام (بطور خلیفہ) قرآن میں موجود ہے۔ اگر آپ کا نام قرآن میں موجود ہوتا تو یہ ان لوگوں کے لئے ایک بہترین دلیل بنتی اور وہ اس کا ذکر ضرور کرتے ۔

اس دلیل کو اس اعتبار سے بھی زیادہ تقویت حاصل ہوتی ہے کہ (مستدل کے زعم میں) جمع قرآن کا مسئلہ، مسئلہ خلافت کے تصفیہ کے کافی عرصہ بعد پیش آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کسی آیہ میں علی (علیہ السلام) کا نام موجود نہیں تپا جس کو حذف کردیا گیا ہو۔

iii ۔ تیسری قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں اضافہ اور کمی کی صورت میں تحریف واقع ہوئی ہے اور یہ کہ امت نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد بعض کلمات قرآن کو تبدیل کرکے دوسرے کلمات کو رکھ دیا ہ۔ وہ روایات یہ ہیں:

الف۔ علی بن ابراہیم قمی نے حریز کی سند سے حضرت ابی عبد اللہ امام صادق (علیہ السلام) سے سورہ حمد کی آیہ کو یوں بیان فرمایا ہے:

صراط من أنعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و غیر الضالین

ب۔ عیاشی نے ہشام بن سالم سے راویت کی ہے۔ ہشام فرماتے ہیں میں نے حضرت ابو عبداللہ صادق(ع) سے آیہ کریمہ:

( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

آیہ کریمہ اصل می ''آل ابراہیم و آل محمد علی العالمین،، تھی لوگوں نے ایک اسم کی جگہ دوسرے کو رکھ دیا ہے۔ یعنی لوگوں نے قرآن میں تبدیلی کی ہے اور آل محمد کی جگہ آل عمران رکھ دیا ہے۔

۲۹۸

جواب:

ان روایات کی سند ضعیف ہے اور اگر اس سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ روایات قرآن، سنت اور اجماع مسلمین کے خلاف ہیں جن کے مطابق قرآن میں ایک حرف کی بھی زیادتی نہیں ہوئی ہے، حتیٰ کہ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں وہ بھی اس معنی میں تحریف کے قائل نہیں ہیں۔

علماء کی ایک جماعت نے قرآن میں زیادتی و اقع نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے اور یہ کہ جو کچھ بھی بین دفتین موجود ہے، سب کا سب قرآن ہے اور ایک لفظ بھی زیادہ نہیں ہے۔ جن حضرات نے اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے ان میں شیخ مفید، شیخ طوسی، شیخ بہائی اور دیگر علمائے کرام شامل ہیں۔

اس سے قبل احتجاج طبرسی کی وہ روایت بھی بیان کی جاچکی ہے جس کے مطابق قرآن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

iv ۔ چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن کے مطابق قرآن میں تحریف کمی کی صورت میں واقع ہوئی ہے۔

جواب:

ان روایات کو اس معنی پر حمل کیا جائے گا جس پر مصحف امیر المومنین (ع)میں موجود اضافات کو حمل کیا گیا ہے اور اگر کسی روایت کو اس معنی پر حمل نہ کیا جاسکے تو اسے ٹھکرا دیا جائے گا کیونکہ یہ قرآن و سنت کی مخالف سمجھی جائے گی۔

ہم نے اپنی بحثوں کے دوران اس قسم کی روایات کاایک اور معنی بھی کیا ہے۔ شاید یہ معنی سب سے قریب ہو مگر اختصار کی خاطر اس معنی کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی اور جگہ اس کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔

اس قسم کی بعض بلکہ اکثر روایات کی سند ضعیف ہے اور بعض روایات کا تو بذات خود کوئی صحیح معنی نہیں بنتا اور علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ یا تو اس قسم کی روایات کی تاویل کرنی چاہےے یا انہیں ٹھکرادینا چاہیے۔

۲۹۹

ان علمائے کرام میں سے ایک محقق کلباسی ہیں۔ ان سے منقول ہے:

''وہ تمام روایات اجماع علماء کے خلاف ہیں جو قرآن میں تحریف پر دلالت کرتی ہیں۔،،

آپ مزید فرماتے ہیں:

''اس قول کی کوئی دلیل نہیں کہ موجودہ قرآن میں کسی قسم کی کمی موجود ہے۔ اس لیے کہ اگر اس میں کسی قسم کی کمی واقع ہوئی ہوتی تو یہ مشہور ہوجاتی بلکہ بطور تواتر اس کو نقل کیا جاتا کیونکہ غیر معمولی اور اہم واقعات کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں بطور تواتر نقل کیا جائے اور تحریف فی القرآن سے بڑھ کر اور کون سا واقعہ اہم ہوسکتا ہے۔،،

''شارح وافیہ،، محقق بغدادی نے اس بات کی تصریح کی ہے اور اسے محقق کرکی سے نقل فرمایا ہے جنہوں نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔ محقق کرکی اس رسالہ میں فرماتے ہیں:

''جو روایات بھی قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں یا تو ان کی تاویل کرنی چاہیے یا انہیں ٹھکرا دینا چاہیے، چونکہ جو حدیث بھی قرآن، سنت متواترہ اور اجماع کے خلا ف ہو اور قابل تاویل نہ ہو اسے ٹھکرانا ضروری ہے۔،،

مؤلف: محقق کرکی نے اپنے اس کلام میں اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی طرف اس سے قبل ہم نے اشارہ کیاتھا۔ یعنی روایات متواترہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو روایت بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو ٹھکرانا لازمی ہے ان متواترہ روایات میں سے ایک روایت یہ ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689