البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 279565
ڈاؤنلوڈ: 6962

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 279565 / ڈاؤنلوڈ: 6962
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

قرطبی کہتے ہیں

''تمام علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے جس کا رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)

اسلام (ص) کے زمانے میں رواج تھا ابن عباس ، ابیی بن کعب اور ابن جبیر نے اس آیہ شریفہ کو یوں پڑھا ہے( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) (۱)

علماء کے ان تمام اقوال کی موجودگی میں حسن کا یہ قول کسی توجہ اور اہمیت کے قابل نہیں رہتا کہ استمتاع سے مراد نکاح دائمی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نکاح متعہ کو حلال قرار نہیں دیا نیز اس قول کی نسبت مجاہد اور ابن عباس کی طرف دی گئی ہے لیکن اس نسبت کی تکذیب و تردید حسن اور ابن عباس کی ان روایات سے ہو جاتی ہے جن کے مطابق یہ آیہ کریمہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے بہرحال ان کثیر روایات کے ہوتے ہوئے جو نکاح مؤقت (متعہ) کو ثابت کرتی ہے ہمیں اس کے اثبات کیلئے کسی زحمت میں پڑنے اور کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔

جہاں تک امرثانی ، یعنی متعہ ، جواز کے بعد دوبارہ حرام قرار دیا گیاہو ، کا تعلق ہے اسے ہم نہیں مانتے نسخ کے قائل حضرات ان چند چیزوں کاسہارا لیتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان میں سے کوئی چیز ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

۱۔ آیہ شریفہ :( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ) ۶۵:۱

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (مسلمانوں سے کہہ دو) کہ جب تم اپنی بیبیوں کو طلاق دو تو ان کی عدت (پاکی) کے وقت طلاق دو،،۔ اس قول کی نسبت ابن عباس کی طرف دی گئی ہے(۲) لیکن یہ نسبت صحیح نہیں ہے کیونکہ ابن عباس زندگی بھر اس بات پر مصر رہے کہ متعہ حلال ہے۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۵ ، ص ۱۳۰ ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ابن عباس ، ابیی بن کعب ، سعید بن جبیر اور سعدی اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ،

(۲) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۰۵

۴۰۱

یہ دعویٰ بذات خود درست نہیں کیونکہ اگر اس بنیاد پر آیہ کریمہ کو ناسخ قرار دیا جائے کہ مطلقہ عورتوں کیلئے عدہ کو واجب قرار دیا گیا ہے اور جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کے عدہ کی مدت طلاق والی عورت سے کم ہے۔

اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے اور کسی دوسری آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کے عدہ کی مدت برابر ہونا ضروری ہے۔

اگرا س بنیاد پر آیہ طلاق کو آیہ متعہ کا ناسخ قرار دیا جائے کہ نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوا کرتی تو اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ آیہ کریمہ کا مقصد ، ان موارد اور مقامات کو بیان کرنا نہیں کہ طلاق کہاں واقع ہوتی ہے اور کہاں واقع نہیں۔

ہوتی۔ تفسیر منار میں بعض مفسرین سے یہ تہمت منقول ہے کہ شیعہ ، نکاح متعہ میں عدہ کو واجب نہیں سمجھتے(۱)

سبحانک الھم ۔ بارالہا! گواہ رہنا کہ یہ شیعوں پر بہت بڑا الزام ہے متقدین اور متاخرین شیعہ فقہاء کی کتب قارئین کے سامنے ہیں آج تک کسی شیعہ فقیہ کی طرف یہ قول منسوب نہیں یہ فتویٰ شاذ و نادر قول کے طور پر بھی فقہی کتب میں موجود نہیں چہ جائیکہ یہ کوئی اجماعی مسئلہ ہو ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب شیعہ اور ان پر الزامات لگانے والے داد گاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اس دن وہی لوگ خسارے میں ہوں گے جو باطل پر ہیں ۔وهنالک یخسرالمبطلون (۲)

۲۔ یہ آیہ متعہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ ) ۴:۱۲

''اور جو کچھ تمہاری بیبیاں چھوڑ (کر مر) جائیں پس تمہارے آدھے آدھ ہے،،

___________________

(۱) تفسیر ا لمنار ، ج ۵ ، ص ۱۳۔۱۴

(۲) آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تفسیر کے موقع پر ان الزامات کا ذکر کریں گے۔

۴۰۲

یہ آیت زوج اور زوجہ کے درمیان میراث کو ثابت کرتی ہے جبکہ نہ متعہ والی عورت کو شوہر سے ارث ملتا ہے اور نہ شوہر کو متعہ والی بیوی سے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ والی عورت درحقیقت زوجہ نہیں ہے اس طرح یہ آیت آیہ متعہ کیلئے ناسخ قرار پاتی ہےیہ قول سعید بن مسیّب ، سالم بن عبداللہ اور عاصم ابن ابی بکر کی طرف منسوب ہے(۱)

جواب: جس دلیل سے نکاح متعہ میں میراث کی نفی ہوتی ہے وہ آیت ارث کا مخصص ہے اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مطلق زوجیت (ہر قسم کی زوجیت و ہمسری) میراث کی مستوجب ہو بلکہ یہ ثات ہے کہ کافر کو مسلمان سے اور قاتل کو مقتول سے ارث نہیں ملتا اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زوج اور زوجہ اس صورت میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے جب ان کا نکاح دائمی ہو ظاہر ہے یہ حقیقت نسخ سے مختلف ہے۔

۳۔ آیہ متعہ ، سنت (روایات )کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس سلسلے میںامیر المومنین (ع) سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے ابن عباس سے فرمایا:

''انک رجعل تاثه ، ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نهی عن المتعة وعن لحوم الحمر الاهلیة زمن خیبر،،

''تم ایک گمراہ آدمی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر متعہ اور پالتو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا،،

ربیع بن سبرۃ نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

''رآیت رسول الله ص قائماً بین الرکن و الباب وهو یقول : یاایها الناس انیی قد کنت اذنت لکم فیی الاستمتاع من النساء ، وان الله قد حرم ذلک الی یوم القیامة فمن کان عنده منهن شییء فلیخل سبیله ، ولا تاخذوا مما آتیتموهن شیاً،،

''میں نے رسول اللہ (ص) کو رکن اور درخانہ کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے یہ فرماتے سنا۔ اے لوگو! میں نے تمہیں متعہ کی اجازت دی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کیلئے حرام قرار دے دیا ہے ، تم میں سے جس کے پاس بھی کوئی ایسی عورت ہے اسے چھوڑ دےاور جو کچھ ان عورتوں کو دیا ہے وہ واپس نہ لے،،۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۰۵۔۱۰۶

۴۰۳

سلمہ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے:

''رخص رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عام اوطاس فیی المتعة ثلاثاً ثم نهی عنها،،

جنگ اوطاس کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین دن کیلئے نکاح مؤقت کی اجازت دیاور اس کے بعد اس سے منع فرمایا دیا،،

جواب: اولاً اس سے پہلے کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا۔

ثانیاً ان روایات کا ائمہ اہل بیت (ع) کی ان متواتر روایات سے تعارض ہے جو متعہ کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ رسول اللہ (ص) نے کبھی بھی متعہ سے منع نہیں فرمایا:

ثالثاً پیغمبر اکرم (ص) کے کسی دور میں متعہ کی حرمت ثابت ہونے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ آیہ متعہ نسخ ہو گئی ہے کیونکہ عن ممکن ہے کہ حرمت کا زمانہ حلیت متعہ کے زمانے سے مقدم ہو اور اہل سنت کی بہت سی روایات موجود ہیں جن کی رو سے متعہ رسول اللہ (ص) کے آخری ایام سے لے کر خلافت حضرت عمر تک جائز رہا۔

اگر ان روایات کی مخالف کوئی دوسری روایت موجود ہو اسے ٹھکرا دینا چاہئے قارئین کی آگاہی کیلئے ہم ذیل میں اس قسم کی چند روایات پیش کرتے ہیں:

۱۔ ابوزبیر روایت کرتے ہیں:

''میں نے جابر بن عبداللہ کو یہ کہتے سنا : ہم رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں مٹھی بھر کھجور اور کچھ مقدار آٹا دے کر متعہ کیا کرتے تھے حتیٰ کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعہ میں اس پر پابندی لگا دی،،(۱)

۲۔ ابو نضرۃ روایت کرتے ہیں:

''میں جابر بن عبداللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: متعہ حج اور متعہ نساء کے بارے

____________________

(۱) صحیح مسلم ، باب نکاح متعہ ، ج ۴ ، ص ۱۴۱

۴۰۴

میں ابن عباس اور ابن زبیر کا آپس میں اختلاف ہے جابر بن عبداللہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں حج تمتع اور متعہ نساء کرتے رہے ہیں اس کے بعد حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا جس کے بعد ہم نے دوبارہ نہیں کیا،،(۱)

۳۔ ابو نضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

حج تمتع اور متعہ نساء رسول اللہ (ص) کے زمانے میں رائج تھے اس کے بعد حضرت عمر نے ان سے روک دیا تو ہم رک گئے،،(۲)

۴۔ ابو نضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

''رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم حج تمتع اور نکاح متعہ کرتے رہے لیکن جب حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا تو ہم نے انہیں ترک کر دیا،،(۳)

۵۔ ابونضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

''میں نے کہا: ابن زبیر متعہ سے روکتے ہیں اور ابن عباس متعہ کا حکم دیتے ہیں؟ جابر نے کہا: تم خبر کو اس کے اہل کے پاس لے آئے ہو ہم رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ کرتے رہے لیکن جب حضرت عمر کو خلافت ملی تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کر کے کہا: رسول اللہ (ص) وہی رسول ، اور قرآن وہی قرآن ہے حج تمتع اور متعہ نساء رسول اللہ (ص) کے زمانے میں مباح و جائز تھے میں انہیں حرام قرار دے رہا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دوں گا اور جو شخص کسی عورت سے نکاح موقت کرے گا میں اسے سنگسار کروں گا،،(۴)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، باب نکاح متعہ ، ج ۴ ، ص ۱۴۱

(۲) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۳۲۵

(۳) ایضاً ص ۳۵۶۔۳۶۳

(۴) سنن بیہقی ، ج ۷ باب نکاح متعہ ، ص ۲۰۶

۴۰۵

۶۔ عطاء روایت کرتے ہیں:

''جس وقت جابر بن عبداللہ عمرہ سے فارغ ہو کر آئے تو ہم ان کے گھر گئے اس دوران لوگوں نے ان سے کچھ مسائل پوچھے جن میں متعہ بھی زیر بحث آیا تو جابر بن عبداللہ نے فرمایا: ہاں ! ہم رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور خلافت میں متعہ کرتے رہے،،(۱)

احمد نے اپنی مسند میں بھی اس روایت کو بیان کیا ہے البتہ اس میں اس جملے کا بھی اضافہ ہے: حتیٰ کہ حضرت

عمر کی خلافت کا آخری دور آیا،،(۲)

۷۔ عمران بن حصین روایت کرتے ہیں:

''کتاب الٰہی میں آیہ متعہ نازل ہوئی اور رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم اس آیت پر عمل کرتے رہے اس کے بعد ایسی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی جو اسے نسخ کرے اور نہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی وفات تک اس سے منع فرمایا،،(۳)

رازی نے اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کے موقع پر اس روایت کو اس اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے:

''پھر ایک آدمی نے اپنی رائے کے مطابق جوجی میں آیا کہہ دیا،،(۴)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ ، باب نکاح متعہ ، ص ۱۳۱

(۲) مسند احمد ، ج ۳، ص ۳۸۰

(۳) ایضاً ج ۴ ، ص ۲۳۶

(۴) یہ روایت اسی اضافے کے ساتھ صحیح مسلم ، ج ۴ ، باب جواز التمتع ، ص ۴۸ میں بھی موجود ہے۔

۴۰۶

۸۔ عبداللہ ابن مسعود نے روایت کی ہے:

''ہم رسول اللہ (ص) کے ہمراہ مشغول جہاد تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں نہیں تھیں ہم نے رسول اللہ (ص) سے عرض کی : یارسول اللہ (ص) کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنالیں ؟ آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایااور ہمیں ایک کپڑے حق مہر پر نکاح موقت کی اجازت دے دی اس کے بعد عبداللہ ابن مسعود نے اس آیہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷(۱)

''اے ایماندارو! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

مولف: عبداللہ ابن مسعودکا اس آیہ کی تلاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اللہ اور رسول (ص) کی طرف سے حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ حرمت کا حکم رسول اللہ (ص) کے بعد کسی کا ایجاد کردہ ہے:

۹۔ شعبہ نے حکم بن عیینہ سے روایت بیان کی ہے:

''میں نے حکم سے پوچھا: کیا آیہ متعہ نسخ ہوئی ہے ؟ حکم نے کہا : نہیں۔ اس کے بعد کہا : امیر المومنین (ع) نے فرمایا: اگر حضرت عمر نے متعہ حرام قرار نہ دیا ہوتا تو کوئی شقی ہی زنا میں مبتلا ہوا،،(۲)

اس روایت کوقرطبی نے عطاء کے واسطے سے ابن عباس سے نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ ، ص ۱۳۰ ، بخاری میں اس حدیث کی تحریف سے آگاہی کیلئے اسی کتاب کاضمیمہ نمبر ۷ ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) تفسیر طبری ، ج ۵ ، ص ۹

(۳) تفسیر قرطبی ، ج ۵ ، ص ۱۳۰

۴۰۷

مولف: شاید اس روایت میں شقی سے مراد وہی ہے جس کی تفسیر ابوہریرہ کی روایت میں بیان کی گئی ہے ابوہریرہ کہتے ہیں:

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جہنم میں شقی لوگ ہی داخل ہوں گے آپ (ص) سے پوچھا گیا شقی کون لوگ ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: شقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتے اور معصیت الٰہی کو ترک نہیں کرتے،،(۱)

۱۰۔ عطاء روایت بیان کرتے ہیں:

''میں نے ابن عباس کو یہ کہتے سنا : عمر پر خدا رحمت کرے متعہ خدا کی طرف سے پیغمبر (ص) کی امت پر ایک رحمت تھی اگر عمر نے متعہ کو حرام قرار نہ دیا ہوتا تو بہت ہی کم لوگ زنا کے محتاج ہوتے،،(۲)

وہ روایات جن کاذکر نسخ کے قائل حضرات دلیل کے طور پر کرتے ہیں ، کئی قسم کی ہیں ان میں سے بعض روایات ایسی ہیں جن کا سلسلہ سندربیع بن سبرۃ تک پہنچتا ہے یہ روایات اس نے اپنے والد سے نقل کی ہیں اور یہ زیادہ تعداد میں ہیں ان میں سے بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے رکن اور مقام یا درکعبہ اور مقام کے درمیان کھڑے ہو کر قیامت تک کیلئے متعہ کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا۔

بعض روایات ایسی ہیں جن کے مطابق امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ کو حرام قرار دیا اور بعض روایات ایسی ہیں جو سلمہ بن اکوع سے منقول ہیں۔

جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن کا سلسلہ سند سبرۃ تک پہنچتا ہے یہ روایات اگرچہ بہت طریقوں سے نقل کی گئی ہیں لیکن یہ ایک ہی آدمی کی روایات ہیں اور خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ ان ہی روایات میں سے بعض کامضمون بعض روایات کے بے بنیاد اور جھوٹا ہونے کا واضح ثبوت ہے

____________________

(۱) مسند احمد ، ج ۲ ، ص ۳۴۹

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۴۷

۴۰۸

کیونکہ یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی کہ رسول اللہ (ص) رکن و مقام یا درکعبہ و مقام کے درمیان (جہاں لوگوں کابہت بڑا اجتماع ہوتا تھا) کھڑے ہو کر متعہ کی حرمت کا اعلان فرمائیں اور یہ اعلان صرف سبرۃ سن سکے اور یہ بھی نامعقول معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں میں سے صرف سبرۃ(۱) سے نقل کرے۔

اس مجمع سے مہاجرین و انصار کہاں گئے جو رسول اللہ (ص) کے ہر قول و فعل کو آنکھوں سے لگاتے اور اسے محفوظ کرل یتے تھے اور وہ راوی کہاں غائب ہو گئے تھے جو رسول اللہ (ص) کے ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں کو بھی زیادہ اہمیت دیتے اور انہیں محفوظ کرل یتے تھے یہ سب حضرات کیوں غائب تھے اور قیامت تک متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت کو نقل کرنے میں سبرۃ کے ساتھ کیوں شریک نہیں ہوئے۔

اس سے بڑھ کر خود حضرت عمر نے اس روایت کو کیوں نقل نہیں کیا تاکہ تحریم کی نسبت اپنی طرف دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اس کے علاوہ سبرۃ کی روایات آپس میں بھی سازگار نہیں ہیں اور ان میں سے بعض ، بعض کی تکذیب و تردید کرتی ہیں کیونکہ بعض روایات کے مطابق متعہ ، فتح مکہ کے سال حرام قرار دیا گیا(۲) اور بعض کے مطابق حجتہ الوداع کے سال حرام قرار دیا گیا(۳) خلاصہ یہ کہ سبرۃ کی یہ روایات کئی اعتبار سے ناقابل عمل ہیں۔

جہاں تک اس روایت کاتعلق ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) سے مروی ہے ، وہ یقیناً من گھڑت ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ باب النکاح متعہ ، ص ۱۳۲۔۱۳۳

(۲) سنن ابن ماجہ طبع اول ، ج ۱ ، باب النہی عن نکاح المتعہ ، ص ۳۰۹۔ سنن ابی داؤد، ج ۱ ، باب نکاح المتعہ ، ص ۳۲۴

(۳) المنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۱۹۔ ابن ماجہ ، ج۱ ، ص ۳۰۹

۴۰۹

فتح مکہ کے سال متعہ جائز تھا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خیبر میں امیر المومنین (ع) ابن عباس کے سامنے متعہ کے حرام قرار دیئے جانے پر استدلال کریں یہی وجہ ہے کہ بعض علماء کرام نے یہ احتمال دیا ہے کہ گزشتہ روایت میں زمانہ خیبر سے مرادپالتو گدھے کے حرام قرار دیئے جانے کے زمانے کی طرف اشارہ ہو ، تحریم متعہ کے زمانے کی طرف نہیں اس احتمال کو منتقی اور سنن بیہقی میں ابن عیینہ سے نقل کیا گیا ہے لیکن یہ احتمال دو جہتوں سے باطل ہے:

i ۔ یہ احتمال عربی قواعد کیخلاف ہے کیونکہ اس روایت میں ایک ہی مرتبہ ، آغاز کلام میں نہی کا ذکر کیا گیا ہے لہٰذا ظرف (زمانہ تریم) بھی ایک ہی ہونا چا ہئے اس لئے کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے :اکرمت زیداً و عمرواً یوم الجمعته (یعنی) میں نے جمعہ کے دن عمرو کی عزت کی اس میں زید اور عمرو کے احترام کا زمانہ لازماً ایک ہونا چاہئے لیکن اگر متکلم کی مراد یہ ہو کہ صرف عمرو کے احترام کا دن جمعہ تھا تو اسے کیوں کہنا چاہئے:اکرمت زیداً اواکرمت عمرواً یوم الجمته (یعنی) میں نے زید کی عزت کی اور عمرو کی عزت جمعہ کے دن کی۔

ii ۔ یہ احتمال بخاری ، مسلم اور احمد کی روایت کے منافی ہے جو انہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کی ہے اس روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:

''نھی رسول اللہ (ص) عن متعتہ النسآء یوم خیبر ''رسول اللہ (ص) نے خیبر کے دن متعتہ النساء اور پالتو گدھے کاگ وشت حرام قرار دیا،،

بیہقی نے باب متعہ میں عبداللہ بن عمر سے بھی روایت بیان کی ہے جس کے مطابق متعہ کو خیبر کے دن حرام قرار دیاگیا ہے(۱)

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۷ ، ص ۲۰۲

۴۱۰

باقی رہی وہ روایت جو سلمہ بن اکوع نے اپنے باپ سے نقل کی ہے:

''رخص رسول الله (ص) فی متعة النسآء عام اوطاط ثلاثه ایام ثم نهی عنها،،

''رسول اللہ (ص) نے جنگ اوطاس کے موقع پر تین دن کے لئے متعہ کی اجازت دی اور پھر اس سے منع فرمایا،،

یہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا اس کے علاوہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ابن عباس ، ابن مسعود ، جابر ، عمرو بن حریث اور ان جیسے دوسرے صحابہ اور تابعین سے یہ پوشیدہ نہ رہتی بھلا یہ روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے جبکہ حضرت ابوبکر نے اپنے پورے دور خلافت میں اور حضرت عمر نے اپنے دور خلافت کے زیادہ تر عرصے میں اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ اپنی خلافت کے آخری دنوں میں اسے حرام قرار دیا۔

اس سے قبل ابن حزم کا وہ کلام بھی گزر چکا ہے جس کےم طابق صحابہ اورتابعین کی ایک جماعت متعہ کو حلال و مباح سمجھتی رہی اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو ابن جریر نے تہذیب الآثار میںسلمان بن یسار سے اور اس نے ام عبداللہ دختر ابی خثیمہ سے نقل کی ہے : ام عبداللہ دختر ابی خثیمہ کہتی ہیں:

''ان رجلا قدم من ا لشام فزل علیها فقال : ان العزبة قد اشندت علیی فابغینی امراة انمتع معها قالت: فدلله علی امراة فشارطها و اشهدوا علی ذلک عدولاً ، فمکث معها ماشاء الله ان یمکث ، ثم انه خرج فاخبر عن ذلک عمر بن الخطاب ، فارسل الیی فسالنیی احق ماحدیت ؟ قلت : نعم قال : فاذاقدم فآذنینیی به ، فلما قدم اخبرته فارسل الیه فقال: ماحملک علی الذی فعلته ؟ قال : فعلته مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ثم لم ینهنا عنه حتی قبضه الله ثم مع ابیی بکر فلم ینهنا عنه حتی قبضه الله ، ثم معک فلم تحدث لنا فه نهاً ققال عمر : اما و الذین نفسیی بیده او کنت تقدمت فیی نهی لرجمعتک ، یسنوا حتی یعرف النکاح من السفاح،،

''شام سے ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا : میں بے ہمسری سے تنگ آ گیا ہوں ۔ میرے لئے کسی عورت کابندوبست کرو جس سے میں متعہ کر لوں میں نے ایک عورت کی طرف اس کی رہنمائی کی۔ چنانچہ ان دونوں کے درمیان مقررہ مدت کیلئے قرارداد یعنی عقدمتعہ انجام پایا اور اس موقع پر عادل گواہ بھی رکھے گئے اور ایک عرصے تک یہ دونوں ساتھ رہے اس کے بعد یہ دونوں جدا ہو گئے ۔

۴۱۱

اس کی اطلاع حضرت عمر بن خطاب کو ملی اور انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھا: کیا یہ خبر درست ہے ؟ میں نے اس خبر کی تصدیق کی اس پر حضرت عمر نے کہا: اگر یہ شخص دوبارہ مدینہ آئے تو مجھے اطلاع دینا جس وقت یہ شخص مدینہ آیا تو میں نے اس کی اطلاع حضرت عمر کو دے دی۔ حضرت عمر نے اس شخص کو اپنے پاس بلا کر پوچھا: تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ اس نے جواب دیا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میںیہ عمل انجام دیتے رہے ہیں مگر آپ (ص) نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بھی ہم عقد متعہ کرتے رہے مگرا نہوںنے بھی ہمیں نہیں روکا اور ان کا انتقال ہو گیا آپ کے دور خلافت میں بھی ہم اسے ایک عرصے تک انجام دیتے رہے ۔ (ابھی اس سے منع کرنے کی کیا وجہ ہے) اس پر حضرت عمر نے جواب دیا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں نے اس سے قبل اس کی حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا تو تجھے حتماً سنگسار کر دیتا آئندہ کیلئے نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کر دو تاکہ حلال نکاح اور حرام نکاح میں فرق رہے،،۔

دوسری روایت وہ ہے جسے ابن جزیر نے اپنی مسند میں ابو یعلی سے اور ابوداؤد نے اپنے ناسخ میں حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے اس روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

''لولاما سبق من رایی عمر بن الخطاب لامرت بالمتعة ، ثم مازنی الاشقیی'' (۱)

''اگر مجھ سے پہلے عمر نے متعہ کو حرام قرار نہ دیا ہوتا تو میں متعہ کا حکم دیتا پھر کوئی شقی ہی زنا کا مرتکب ہوتا،،۔

ان دونوں روایات میں چند نکات ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ کو حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے ۔

i ۔ حضرت امیر المومنین (ع) اور ایک صحابی گواہی دے رہے ہیں کہ متعہ ، پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں اور اس کے بعد ایک عرصے تک حرام نہیں تھا اور اسے حضرت عمر نے حرام قرار دیا۔

ii ۔ عادلوں کا عقد متعہ پر گواہ رہنا اور ان کا اس سے منع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حضرات متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۲۹۴

۴۱۲

iii ۔ حضرت عمر کا شامی کی اس بات کی تردید نہ کرنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے منع نہیں فرمایا اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

iv ۔ حضرت عمر کا شامی سے یہ کہنا : ''اگر میں نے اس سے قبل اس کی حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا تو تجھے سنگسار کر دیتا،،۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس واقعہ سے پہلے حضرت عمر نے متعہ سے نہیں روکا تھا۔

v ۔ حضرت عمر کا یہ کہنا : آئندہ کیلئے نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کر دو،، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے قبل مسلمانوں میں متعہ کارواج عام تھااور حضرت عمر نے اس اعلان کے ذریعے یہ چاہا کہ اس کی ممنوعیت لوگوں تک پہنچ جائے تاکہ لوگ اس سے رک جائیں۔

ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر کی جانب سے متعہ کو حرام قرار دینے میں اس واقعہ کا بالواسطہ یابلاواسطہ دخل ہو کیونکہ حضرت عمر کاشامی کے اس عمل کا برا منانا جبکہ اس حدیث کے مطابق مسلمانوں میں متعہ کاعام رواج تھا اور اس واقعہ کا حضرت عمر کے علم میں آ جانا جبکہاس قسم کے واقعات کی اطلاع عموماً حاکم وقت تک نہیں پہنچتی ، ایسے امور ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس داستان میں ایک اہم راز مضمر ہے جس سے راوی آخرتک لاعلم رہے یا ان راویوں نے جان بوجھ کر اس داستان کے اصل راز کو پردے میں ہی رہنے دیا۔

ان سب کے علاوہ سلمہ بن اکوع کی روایت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے متعہ سے منع فرمایا تھا بنا برایں یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ روایت یوں واردہوئی ہو۔

''رخص رسول الله (ص) متعة النساء عام امطاس ثلاثا ایام ثم نهی عنها،، نہی کا صیغہ مجمہول ہو اور ترجمہ یہ ہو:

جنگ اوطاط کے موقع پر تین دن کے لئے رسول اللہ (ص) نے متعہ کی اجازت دی اور پھر اس سے روک دیا گیا ہو سکتا ہے کہ روکنے و الے حضرت عمر ہوں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی وفات کےبعد متعہ حرام قرار دیا۔

۴۱۳

خلاصہ کلام یہ کہ کسی قابل قبول دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ سے منع فرمایا ہو بلکہ رسول اللہ (ص) کے منع نہ فرمانے کا بنی ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر نے حرام قرار دینے کی نسبت اپنی طرف دی ہے اور کہا ہے:

''متعتان کانتا علی عهد رسول الله (ص) وانا انهی عنهما و اعاقب علیهما،، (۱)

''نکاح متعہ اور حج تمتع رسول اللہ (ص) کے زمانے میں انجام پاتے تھے اور میں ان دونوں پر پابندی لگا رہا ہوں اور اس کی مخالفت کرنے والے کو سزا دونگا،،

اگر متعہ کو رسول اللہ (ص) نے حرام قرار دیا ہوتا تو حضرت عمریوں فرماتے '''نهی النبی (ص) عنهما،، رسول اللہ (ص) نے ان دونوں سے منع فرمایا،،۔

چوتھی چیز جس کا ذکر منکرین متعہ ، جو کتاب و سنت کی رو سے جائز ہے ، کے نسخ کے طور پر کرتے ہیں وہ علماء کا اجماع ہے۔

جواب: اجماع اس وقت تک حجت اور قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور پشت پناہی قول معصوم (ع) نے کرے گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ کو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں اور خلافت حضرت عمر کے دور میں بھی ایک عرصے تک حرام قرار نہیں دیا گیا کیا یہ معقول ہے کہ صرف ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیادپر ، جو معصوم عن الخطاء بھی نہیں ، کتاب خدا اور سنت رسول (ص) کو ٹھکرا دیا جائے اگر ہر آدمی کے فتویٰ سے احکام خدا نسخ ہو سکتے ہیں تو وہ احکام بھی نسخ ہو سکتے ہیں ، جو قرآن کریم اور سنت قطعیہ سے ثابت ہیں اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ مجتہدین کی رائے اور فتاویٰ سے نماز ، روزہ اور حج جیسے مسلم واجبات کا نسخ ہونا بھی جائز ہو جس کے ماننے کیلئے کوئی مسلمان تیار نہیں۔

____________________

(۱) یہ روایت جابر کی پانچویں روایت میں بھی ذکر کی گئی ہے ابو صالح کاتب اللیث نے اپنے نسخ میں اور طحاوی اور ان جریر نے تہذیب الآثار میں اور ابن عسا کرنے بھی اسے نقل کیا ہے البتہ ان دونوں کی روایت میں اس جملے کا اضافہ ہے ان دونوں کے مرتکب کو سزا دوں گا کنز العمال المتعہ ، ج ۸ ، ص ۲۹۳۔۲۹۴۔

۴۱۴

اس کے علاوہ متعہ کو حرام قرار دینے پر علماء کا اجماع ثابت بھی نہیں کیونکہ ایسے مسئلے پر اجتماع کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جس کے مخالف اصحاب نبی (ص) اور ان کے بعد کے دوسرے علماء کرام ہوں خصوصاً جب ان اصحاب پیغمبر (ص) کا قول ائمہ اہل بیت (ع) ، جن سے ہر قسم کے رجس و پلیدی کو خدا نے دور رکھا ہے ، کے قول کے مطابق ہو ان تمام بحثوںکا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ متعہ کو صرف حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے۔

یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ کتاب اللہ اور سنت پیغمبر (ص) دوسروں سے زیادہ اتباع و پیروی کے مستحق ہیں اور اسی لئے عبداللہ ابن عمر نے حج تمتع کی اجازت دے دی تھی اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا:

''کیف مخالف اباک و قد نهی عن ذلک : فقال لهم : ویلکم الاتتقون ۔۔۔۔۔۔افرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم احق انتتبعوا سنته ام سنة عمر ؟،، (۱)

''آپ اپنے والد کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں انہوں نے تو حج تمتع سے منع کر دیا ہے عبداللہ ابن عمر نے جواب میں کہا: مقام افسوس ہے تم خوف خدا نہیں رکھتے؟ سنت رسول (ص) قابل اتباع ہے یا سنت عمر؟،،

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آیہ متعہ کے نسخ کے قائل حضرات جن چیزوں کا سہارا لیتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی آیہ متعہ کے حکم ، جس کا جواز شریعت اسلام میں قطعی طورپر ثابت ہے ، کیلئے ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

متعہ کی سزا۔۔۔۔۔۔سنگساری

بہت سی روایات ، جن میں سے بعض کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے ، سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے متعہ کرنے

والے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اس سلسلے کی پہلی روایت وہ ہے جسے جابر نے نقل کیا ہے۔

____________________

(۱) مسند احمد ، ج ۲ ، ص ۹۵

۴۱۵

''تمتعنا مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فلما قام عمر قال ان الله کان یحل لرسوله ماشاء بماشاة ، و ان القرآن قد نزل منازله ، فاتموا الحجة و العمرة لله کما امر کم ، و ابتوا نکاح هذا النساء فلن اوتیی برجل نکح امراة الی اجل الا رجمته بالحجارة،، (۱)

''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہتے ہوئے متعہ انجام دیتے رہے لیکن جب حضرت عمر مسند خلافت پر آئے تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ جس کو چاہتاہے اور جیسے چاہتا ہے اپنے رسول کیلئے حلال قرار دیتا ہے قرآن مجید اپنے مخصوص اہداف کے تحت اتاراگیا حج اور عمرہ کوا سی طرح مکمل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہےاور عورتوں سے دائمی نکاح کیا کرو میرے پاس اگر کوئی ایسا آدمی لایا گیا جس نے کسی عورت سے نکاح موقت کیاہو گا تو میں اسے سنگسار کروں گا،،۔

دوسری روایت : شافعی نے مالک سے ، اس نے ابن شہاب سے اور اس نے عروہ سے روایت کی ہے کہ خولہ بنت حکیم نے حضرت عمر بن خطاب سے جا کر کہا:

''ان ربیعة بن امیة استمتع بامراة مولدة فحملت منه فخرج عمر یجر رداء ه فزعاً ۔فقال : هذه المتعة ولو کنت تقدمت فیه لرجمته ،،(۲)

بتحقیق ربیعہ بن امیہ نے ایک جوان عورت سے متعہ کیا ہے اور اس سے حمل بھی ٹھہرا ہے اس خبر کو سن کر حضرت عمر غضب کے عالم میں اپنی چادر کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہا: اگر میں نے اس سے قبل منع کیا ہوتا تو اس کو سنگسار کر دیتا،،۔

تیسری روایت: نافع نے عبداللہ ابن عمر سے روایت بیان کی ہے:

''انه سئل عن متعة النساء ، فقال : حرام ، اما ان عمر بن الخطاب لو اخذ فیها احداً لرجمه ،، (۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم باب متعہ بالحج و العمرۃ ، ج ۴ ، ص ۳۶ ۔ طیالسی نے تقریباً بہیی روایت جابر سے اپنی مسند کی ج ۸ ، ص ۲۴۷ میں نقل کی ہے۔

(۲) سنن بیہقی باب نکاح المتعہ ، ج ۷ ، ص ۲۰۶

(۳) ایضاً

۴۱۶

''عبداللہ ابن عمر سے پوچھا گیا : متعتہ النساء حرام ہے یا حلال ؟ انہوں نے جواب دیا: حرام ہے۔ اگر حضرت عمر ایسے آدمی کو گرفتار کرتے جس نے متعہ کیا ہو تو اسے سنگسار کرتے،،۔ متعہ کے بارے میں عبداللہ بن زبیر کا مسلک بھی وہی تھاجو حضرت عمر کا تھا کیونکہ جب اس نے متعہ کو جواز سے انکار کیا تو عبداللہ بن عباس نے اس سے کہا:

''انک لجلف جاف فلعمری لقسد کانت المتعة تفعل علی عهد امام المتقین ، رسول الله ۔فقال له ابن الزبیر فجرب بنفسک فوالله لئن فحلتها لارجمنک باحجارک،، (۱)

''تم ایک ناداان اور خرمغز آدمی ہو اس لئے کہ بخدا امام المتقین (رسول اللہ ) (ص) کے زمانے میں متعہ عام تھا ابن زبیر نے کہا بہتر ہے کہ تم اپنے نفس پر اسے (متعہ) آزما دیکھو ! بخدا اگر تم متعہ کرو گے تو تمہیں سنگسار کروںگا،،۔

مقام حیرت ہے وہ مسلمان کس طرح سنگساری کا مستحق ہوا جس نے حضرت عمر کے فتویٰ کی مخالفت کی ہو جبکہ اس (مسلمان) کے عمل کی دلیل اور مدرک کتاب الٰہی اور سنت رسول ہو فرض کیا (جو ازمتعہ کے قائل) اس شخص سے اجتہادی غلطی ہو گئی لیکن کیاشک و شبہ کی بنیاد پر حد ساقط نہیں ہو جاتی اگرچہ یہ (اجتہادی غلطی) محض فرضی ہے کیونکہ کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آیہ متعہ ، جو متعہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے ، نسخ ہو گئی ہو۔

صاحبان نظر ملا خطہ فرمائیں کہ حضرت عمر اور ابو حنیفہ کے فتویٰ میں کتنا تفاوت ہے اس لئے کو ابو حنیفہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت سے باطل عقد کرے یا اپنی محرم عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے اور نکاح کے باطل اور حرام ہونے کو جانتے ہوئے اس سے ہمبستری کرے تو اس (مرد) سے حد ساقط ہے(۲) اور یہ کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو کسی کام کیلئے اجیر بنائے اور اس سے زنا کر لے تو بھی حد ساقط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجرت کا نام دیا ہے اور اس قسم کا حکم حضرت عمر سے بھی منقول ہے(۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم باب نکاح المتعتہ ، ج ۴ ، ص ۱۳۳

(۲) الہدایہ ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۱۴۷

(۳) احکام القرآن للجصاص ، ص ۲ ، ص ۱۴۶

۴۱۷

متعہ کے بارے میں چند بے بنیادشبہات

صاحب تفسیر منار نے اس زعم باطل کا اظہار کیا ہے کہ متعہ ، عفت و پاکدامنی کیخلاف ہے اور اس کا مقصد شہوت پرستی اور زنا ہے کیونکہ یہ کام سراسر عفت و پاکدامنی کیخلاف ہے کہ ایک عورت کچھ عرصے کیلئے کرایہ پر اپنے آپ کو کسی مرد کے حوالے کر دے اس طرح یہ عورت اس شعر کا مصداق بنے گی۔

کرة حذفت بصوالجة

فتلقفها رجل رجل

اس شعر کے حوالے سے عورت کو اس گیند سے تشبیہ دی ہے جس کو یکے بعد دیگرے پاؤں سے ٹھوکریں ماری جاتی ہیں۔ نیز صاحب منار کایہ گمان بھی ہے کہ متعہ درج ذیل آیات کے منافی ہے کیونکہ متعہ والی عورت نہ زوجہ ہے نہ کنیز ، اس لئے اس سے ہمبستری عفت و تقویٰ کیخلاف ہے۔

( وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ) ۲۳:۵

''اور جو (اپنی ) شرمگاہوں کو (حرام سے) بچاتے ہیں،،

( إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ) : ۶

''مگر اپنی بی بیوں سے یہ اپنی زرخرید لونڈیوں سے کہ ان پر ہرگز الزام نہیں ہو سکتا،،

( فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ) : ۷

''پس جو شخص اس کے سوا (کسی اور طریقہ سے شہوت پرستی کی ) تمنا کرے تو ایسے ہی لوگ حد سے بڑھ جانے و الے ہیں،،

۴۱۸

اس کے بعد صاحب منار لکھتے ہیں:

''حضرت عمر نے متعہ کو اپنی طرف سے حرام قرار نہیں دیا اور اگر کسی روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عمر نے تحریم کی نسبت اپنی طرف دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر نے اس کی تحریم کاصرف اعلان کیا ہے یا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے متعہ کی تحریم پر عملدرآمد کرایا ہے،،۔

اس کے بعد صاحب منار اپنی اس بات سے توبہ استغفار کرتے ہیں (۳۲۸) انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔

''حضرت عمر نے اپنے ذاتی اجتہادکی بنیاد پر متعہ کو حرام قرار دیا اور باقی صحابہ نے ان کی پیروی کی،،(۱)

مولف: جہاں تک متعہ کے عفت و پاکدامنی کے منافی ہونے کاتعلق ہے یہ اعتراض اس زعم باطل پر مبنی ہے کہ متعہ والی عورت زوجہ نہیں ہے گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ والی عورت شرعی زوجہ ہے اور اس سے اس تو ہم و گمان کا بھی بے بنیاد ہونا ثابت ہو جاتا ہے کہ متعہ کا جواز اس آیہ شریفہ کے منافی ہے جو زوجات اور کنیزوں کے علاوہ باقی عورتوں سے اجتناب کا حکم دیتی ہے کہ عقد متعہ ، عقد دائمی کی طرح ایک شرعی ازدواج ہے اور متعہ والی عورت زوجات کے ذیل میں آتی ہے۔

باقی رہا یہ اشکال کہ عقد متعہ میں عورت اپنے آپ کو کرایہ پر دیتی ہے اور یہ کہ متعہ والی عورت اس گیند کی مانند ہے جس کو یکے بعد دیگرے ہاتھوں ہاتھ اڑایا جاتا ہے اگر یہ اعتراض صحیح ہو تو یہ رسول اللہ (ص) کی طرف سے متعہ کی تشریح پر اعتراض ہو گا کیونکہ یہ تشبیہ اور قباحت صرف ایک زمانے سے مختص نہیں بلکہ اگر یہ قبیح ہے تو ہر زمانے اورہر دور میں قبیح ہو گا اور اگر قبیح نہیں تو کسی زمانے میں بھی قبیح نہیں ہو گا اور کونسا مسلمان ایسا ہے جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں متعہ کے حلال ہونے میں شک کرے بلکہ گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ ، حضرت عمر کے دور خلافت تک حلال تھا اور اس پر عمل بھی ہوتا رہا۔

____________________

(۱) تفسیرا لمنار ، ج ۵ ، ص ۱۳۔۱۶

۴۱۹

مقام تعجب ہے کہ صاحب المنار مدعی ہے کہ اس کا مقصد حق گوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہ کہ وہ کسی خاص مذہب کے سلسلے میں متعصب نہیں ہے جبکہ اس کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ یہ اسلام کے ایسے حکم کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے جس کا جواز کتاب اللہ ، سنت پیغمبر (ص) اور اجماع مسلمین سے ثابت ہے اگر کوئی اختلاف ہے تو اس بات میں ہے کہ یہ حکم جواز کے بعد دوبارہ نسخ ہوا ہے کہ نہیں۔

مزید براں اگر عورت کے ایک مرد سے دوسرے مردکی طرف منتقل ہونے میں کوئی قباحت ہوتی تو اس قباحت کی وجہ سے عقد دائمی میں طلاق بھی حرام قرار دی جانی چاہئے تھے کیونکہ اس کے نتیجے میں بھی عورت ایک مرد سے دوسرے مرد کی طرف منتقل ہوتی ہے نیز ملکیت کے ذریعے کنیزوں کے نقل و انتقال کو بھی منع کر دیا جانا چاہئے تھا حالانکہ کسی بھی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا لیکن صاحب المنار کو اس اشکال کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ استرقاق (غلام اور کنیز بنانے) کو حرام سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بہت سے مفاسد مترتب ہوتے ہیں جنہیںعلماء نے نظر انداز کر دیا ہے اس کا یہ فتویٰ بھی ہے کہ اگر کوئی پہلے سے طلاق کی نیت رکھتا ہو تو اس کا عقد دائمی باطل ہے اس نے اپنے اس فتوی میں تمام فقہائے اسلام کی مخالفت کی ہے۔

یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ صاحب المنار نے حضرت عمر کی طرف سے متعہ کے حرام قرار دیئے جانے کی ناقابل قبول تاویل و توجیہ کی ہے کیونکہ اس مقام پر تین احتمال دیئے جا سکتے ہیں:

i ۔ رسول اللہ (ص) کے مقابلے میں حضرت عمر نے اجتہاد کیا ہو گا اور متعہ کو حرام قرار دیا۔

ii ۔ اپنے اجتہاد کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ کو حرام قرار دیا ہے۔

iii ۔رسول اللہ (ص) کی طرف سے متعہ کو حرام قرار دینے کی روایت نقل کی ہو گی۔

یہ احتمال صحیح نہیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ (ص) کی روایت نقل کی ہو کیونکہ یہ احتمال تحریم کی اپنی طرف نسبت دینے سے سازگار نہیں چونکہ متعدد روایات کے مطابق حضرت عمرنے تحریم متعہ کی نسبت اپنی طرف دی ہے بالفرض اگر ایسی روایت موجود بھی ہے تو یہ روایت ان تمام روایات کی معارض ہو گی جن کے مطابق خلافت حضرت عمر میں کافی عرصے تک متعہ حلال تھا حضرت عمر ،خلافت ابوبکر کے دوران کہاں تھے

۴۲۰