البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 280295
ڈاؤنلوڈ: 7004

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 280295 / ڈاؤنلوڈ: 7004
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

ابو موسیٰ اشعری نے عصر کے بعد ان سے قسم لی کہ انہوں نے شہادت میں کسی قسم کی خیانت نہیں کی ، جھوٹ نہیںبولا اور نہ کوئی ردوبدل کیا اور نہ وصیت کو چھپایا ہے اس کے بعد ابو موسیٰ اشعری نے ان دونوں کی شہادت پر دستخط کئے،،(۱)

ii ) آیہ کریمہ کے نسخ نہ ہونے کی دوسری دلیل وہ روایات ہیں جن کے مطابق سورہ مائدہ آخر قرآن میں اور بیک وقت نازل ہوا اور اس کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی۔

iii ) کسی بھی آیت کا نسخ ہونا بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتا اور نسخ کے قائل حضرات جو دلیل بھی پیش کرتے ہیں اس سے ان کا مدعی ثابت نہیں ہوتا۔

نسخ کی ایک دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شاہد کیلئے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ عادل ہو اور لوگ اس سے راضی ہوں ارشاد ہوتا ہے:

( مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ ) ۲:۲۸۲

''گواہوں میں سے جو تمہیں پسند ہوں،،

( وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ ) ۶۵:۲

''اپنے لوگوں میں سے دو عادلوں کو گواہ قرار دے لو،،

کافر عادل ہو سکتا ہے اور نہ لوگ اس سے راضی ہو سکتے ہیں لامحالہ اہل کتاب کی شہادت کا حکم نسخ ہو گا

جواب: اولاً: پہلی آیت دین (قرض) کی اور دوسری آیت طلاق کی شہادت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وصیت کے گواہ کا عادل ہونا ضروری ہے۔

ثانیاً: بفرض تسلیم اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ دونوں آیات مطلق ہیں تو گزشتہ آیت ان کیلئے مقید قرار پائے گی اور مطلق ، مقید کی دلیل کیلئے ناسخ نہیںبن سکتا خصوصاً جب مقید کا زمانہ نزول ، مطلق سے مؤخر ہوجیسے

____________________

(۱) المنتقی ، ج ۲ ، ص ۹۴۲

۴۴۱

زیر بحث آیہ میں ہے۔

نسخ کی دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فاسق کی شہادت قابل قبول نہیں اور کافر یقیناً فاسق ہے اس لئے اس کی شہادت بھی قبول نہیں ہونی چاہئے۔

جواب: اس سے قبل بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اکثر علماء وصیت میں اہل کتاب کی شہادت کو جائز جانتے ہیں اس کے باوجود ان کی شہادت کے جائز نہ ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے اور عملی طورپر فاسق مسلمان کی شہادت کے مسترد ہونے اور کافر جو کہ اپنے مذہب میں عادل ہو ، کی شہادت کے مسترد ہونے میں کوئی ملازمہ نہیں پایا جاتا۔

نسخ کی تیسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ وصیت کے علاوہ بایق مسائل میں کافر کی شہادت بالافاق قابل قبول نہیں اور وصیت میں اس کی شہادت کے قبول ہونے اور نہ ہونے میں اختلاف ہے اس مختلف فیہ کو متفق علیہ پر محمول کیا جائے گا یعنی یہ کہا جائے گا کہ جس طرح وصیت کے علاوہ باقی امور میں مسلمان کیخلاف کافر کی شہادت قابل قبول نہیں اسی طرح وصیت میں بھی کافر کی شہادت ، مسلمان کیخلاف قابل قبول نہیں۔

جواب: نسخ کی یہ دلیل انتہائی حیرت انگیز ہے کیونکہ اس بات کی دلیل موجود ہے کہ وصیت میں کافر کی شہادت قابل قبول ہے اور اس دلیل کا کوئی معارض بھی نہیں کاش مستدل اپنی دلیل کا عکس پیش کرتا یعنی یہ کہ رسول اللہ (ص) کے زمانے میں کافر کی شہادت اجماعی طور پر قابل قبول تھی اور زمانہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اس مسئلے میں اختلاف کیا گیا اس لئے مختلف فیہ (رسول اللہ (ص) کے بعد کے زمانے) کو متفق علیہ (زمانہ رسول (ص) پر محمول کیا جانا چاہئے اور یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح زمانہ پیغمبر اکرم (ص) میں یہ شہادت جائز تھی ، زمانہ رسول اللہ (ص) کے بعد بھی جائز ہونی چاہئے۔

۴۴۲

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سوائے بعض فقہائے متاخرین کی تقلید کے زیر بحث آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے بھلا لوگوں میں سے ایک کے فتویٰ کی بنیاد پر ایسے حکم سے کس طرح دست بردار ہوا جا سکتا ہے جو قرآن کی رو سے ثابت ہو

اس مقام پر حسن اور زہری کا یہ قول بھی تعجب خیز ہے کہ آیت میں:

( وْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ ) ۵:۱۰۶

''ورنہ دو گواہ غیر (مومن) ہی سہی،،

سے مراد اہل کتاب نہیں بلکہ اس سے مراد اپنے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے قبیلے کے دو افراد ہیں(۱)

اس قول کی تردید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جو آیہ شریفہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں اس کے علاوہ یہ تفسیر ظہور قرآن سے بھی سازگار نہیں کیونکہ آیت میں مومنین سے خطاب کیا جا رہا ہے اس لئے لامحالہ غیر سے مراد ، غیر مومنین ہوں گے اور وہ کافر ہی ہو سکتے ہیں۔

ہاں ! آیت میں یہ اطلاق ضرور پایا جاتا ہے کہ وصیت میں ہر کافر کی شہادت قابل قبول ہے اگرچہ یہ کافر اہل کتاب میں سے نہ ہو ، چاہے مومنین میں سے کسی کو گمراہ رکھنا ممکن ہو یا نہ ہو لیکن روایات کثیرہ اس اطلاق کو اہل کتاب کی شہادت سے مقید کرتی ہیں یعنی صرف اہل کتاب کی شہادت قابل قبول ہے مطلق کافر کی نہیں اور یہی روایات اہل کتاب کی شہادت کواس صورت سے مختص کر دیتی ہیں جہاں دو مومنین کی شہادت ممکن نہ ہو یہ منجملہ ان امور اور مقدمات میں سے ہے جہاں قرآن کے اطلاق کو سنت (روایات) کے ذریعے مقید کیا گیا ہو۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۳۴

۴۴۳

۱۹۔( وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) ۶:۱۴۱

''اور وہ تو وہی خدا ہے جس نے بہت سے باغ پیدا کئے (جن میں مختلف اقسام کے درخت ہیں کچھ تو انگور کی طرح ٹیٹوں پر ) چڑھائے ہوئے اور (کچھ) بے چڑھاتے ہوئے اور کھجور کے درخت اور کھیتی جس کے پھل (مزے میں) مختلف قسموں کے ہیں اور زیتون اور انار (بعض تو صورت ، رنگ اور مزے ہیں ) ملتے جلتے اور (بعض) بے میل (لوگو!) جب یہ چیزیں پھیلیں تو ان کا پھل کھاؤ ، اور ان چیزوں کے کاٹنے کے دن خدا کا حق (زکوٰۃ) دیدو اور خبردار فضول خرچی نہ کرو کیونکہ وہ خدا (فضول خرچوں سے ہرگز الفت نہیں رکھتا،،۔

اکثر علمائے اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے البتہ اس کے نسخ ہونے کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں:

( i ) یہ آیت زکوٰۃ کے بارے میں نازل ہوئی اس کی رُو سے اس آیت میں مذکور اشیاء و اجناس میں زکوٰۃ واجب ہے لیکن گندم جو ، کھجور اور کشمش کے علاوہ باقی چیزوں کیلئے وجوب زکوٰۃ نسخ ہو گیا ہے اس قول کوشہرت حاصل ہے بلکہ صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی زمین سے اگنے والی ہر چیز پر زکوٰۃ کو واجب نہیں سمجھتا البتہ ابو حنیفہ اور زفر ، لکڑی ، گنا اورگھاس پھونس کے علاوہ باقی چیزوں پر زکوٰۃ کو واجب سمجھتے ہیں(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۳ ، ص ۹

۴۴۴

( ii ) یہ آیت ، جس میں عمومی طورپر زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جن کی رو سے زکوٰۃ صرف دسویں حصے ، اگر زمین بارانی ہو ، یا بیسویں حصے اگر زمین نہری ہو ، پر واجب کی گئی ہے سدی اور انس بن مالک نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور ابن عباس و محمد بن ح نیفہ کی طرف بھی یہی قول منسوب ہے(۱)

( iii ) یہ آیت زکوٰۃ کے بارے میں نہیں بلکہ ایک مستقل حق اور حصہ کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور یہ آیت ، آیت زکوٰۃ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے عکرمہ اور ضحاک نے اسی قول کو اختیار کیا ہے سعید بن جبیر کی طرف بھی یہی قول منسوب ہے۔(۲)

لیکن قول حق یہ ہے کہ اس آیت کا مدلول و مفہوم نسخ نہیں ہوا اس کے دلائل یہ ہیں:

اول: وہ روایات کثیرہ ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ آیت میں مذکورہ حق سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل حق ہے جس کا زکوٰۃ سے کوئی ربطہ نہیں اور وہ نسخ نہیں ہوا ان روایات میں سے ایک روایت وہ ہے جسے کلینی نے معاویہ بن حجاج کی سند سے نقل کیا ہے راوی کہتا ہے:

''میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو یہ کہتے سنا ہے : ہر زراعت میں دو حق ہوا کرتے ہیں، ایک حق وہ ہے جو تم سے وصول کیا جاتا ہے ایک حق وہ ہے جو تم خود ادا کرتے ہو میں نے عرض کیا: وہ کونسا حق ہے جو مجھ سے وصول کیا جاتا ہے اور وہ کون سا حق ہے جو میں خود ادا کرتا ہوں؟ آپ (ع) نے فرمایا: جو حق تجھ سے وصول کیا جاتا ہے وہ دسواں یا بیسواں حصہ ہے جو غلات اربعہ (گندم ، جو ، کھجور اور کشمش) سے بطے زکوٰۃ وصول کیا جاتا ہے اور جو حق تم ادا کرتے ہو وہ وہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے فرمان : ''واتوا حقہ یوم حصادہ،، میں اشارہ کیا جا رہا ہے ،،(۳)

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، للخاس ، ص ۱۴۰

(۲) ایضاً

(۳) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۳۳۸

۴۴۵

ثانی: سورہ انعام مکہ میں بیک وقت نازل ہوا جس کی تصریح بہت سی روایات میں کی گئی ہے ان میں سے ایک روایت حسن بن علی بن ابی حمزہ سے نقل کی گئی ہے۔

راوی کہتا ہے:

ابن مردویہ نے ابی سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے ''واتوا حقہ یوم حصادہ،، کی تفسیر میں فرمایا:

''اس حق سے مرادگندم اور جو کے وہ دانے ہیں جو کٹائی کے وقت خدشے سے گرتے ہیں،،(۱)

''قال ابو عبدالله ۔ع ۔ان سورة الانعام نزلت جملة ، شیعها سبعون الف ملک حتی نزلت علی محمد صلی الله علیه وآله فحظموها و بجلوها ، فان اسم الله عزوجل فیها فیی سبعین موضحاً ، ولو یعلم الناس ما فیی قراعتها ما ترکوها،، (۲)

''امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: تحقیق سورہ انعام بیک وقت نازل ہوا ہے اس سورہ کی تعظیم میں ستر ہزار فرشتوں نے اس کی مشایعت کی حتیٰ کہ یہ سورہ رسول اکرم (ص) پر نازل ہوا چنانچہ لگوں نے اس کی تکریم و تعظیم کی اس لئے کہ سورہ انعام میں ستر جگہ اللہ تعالیٰ کا نام آیا ہے اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس کی قرات اور تلاوت کی کیا فضیلت ہے تو کبھی بھی اس کی تلاوت ترک نہ کرتے،،۔

ابن عباس سے مروی ہے:

''نزلت سورة الانعام بمکة لیلاً جملة واحدة ، حولها سبعون الف ملک یجارون حولها بالتسبیح ،، (۳)

''سورہ انعام مکہ میں رات کے وقت بیک وقت نازل ہوا نزول کے دوران تعظیم کے طور پر ستر ہزار فرشتے اس کے ارد گرد تسبیح الٰہی میں مصروف تھے،،۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۲ ، ص ۱۸۲

(۲) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۳۱۳

(۳) اس کی روایت ابو عبید ، ابن منذر ، طبرانی اور ابن مردویہ نے کی ہے تفسیر شوکانی ، ج ۲ ، ص ۹۱

۴۴۶

اس میں کوئی شک نہیں کہ جس آیت کے ذریعے زکوٰۃ واجب ہوئی وہ مدینہ میں نازل ہوئی پھر یہ دعویٰ کیسے ممکن ہے کہ زیر بحث آیہ شریفہ زکوٰۃ کے بارے میں نازل ہوئی خارج کی نقل کے مطابق اس آیت کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔(۱) لیکن یہ قول ان گزشتہ روایات کے سراسر مخالف ہے جن کے مطابق سورہ انعام مکہ میں نازل ہوا اور زیر بحث آیت سورہ انعام کی آیت ہے اس کے علاوہ یہ قول بغیر کسی علم و یقین کے کہا گیا ہے۔

ثالث: آیت کے مطابق جس حق کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا وقت فصل کی کٹائی سے مختص کیا گیا ہے جب کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کٹائی کے وقت واجب نہیں ہوتی بلکہ گندم وغیرہ کی صفائی اور اس کے ناپ تول کے بعد واجب ہوتی ہے لا محالہ ماننا پڑے گا کہ آیت میں جس حق کا ذکر کیا گیا ہے وہ زکوٰۃ نہیں بلکہ کوئی اور حق ہے جس کی طرف گزشتہ روایات میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

اس حق سے مراد زکوٰۃ نہ ہونے کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں رات کے وقت گندم وغیرہ کی کٹائی سے نہی کی گئی ہے روایت میں اس نہی کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محروم ہو۔ جاتے ہیں(۲)

جعفر بن محمد بن ابراہیم نے جعفر بن محمد کی سند سے ، اس نے اپنے والد سے اور اس نے اپنے جد سے روایت نقل کی ہے:

''ان رسول الله ۔ص ۔نهی عن الجداد باللیل ، والحصاد باللیل ۔قال جعفر: اراه من اجل المساکین،، (۳)

''رسول اللہ (ص) نے رات کے وقت درخت سے کھجور اتارنے اور گندم وغیرہ کی کٹائی سے منع فرمایا ہے (روایت کے ناقل) جعفر کہتے ہیں: شاید اس نہی کی وجہ یہ ہو کہ اس سے مساکین محروم رہ جاتے ہیں،،۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۷ ، ص ۹۹

(۲) تفسیر برہان ، ج ۱ ، ص ۳۳۸

(۳) سنن بیہقی ، ج ۴ ، ص ۱۳۳

۴۴۷

ایک اشکال اور اس کا جواب:

بعض حضرات نے اس آیت کی یہ توجیہ کی ہے کہ ممکن ہے یوم حصاد (کٹائی کا دن)زکوٰۃ کے واجب ہونے کا وقت ہو اور زکوٰۃ کی ادائیگی کاوقت گندم کی صفائی کے بعد ہو بنا برایں اس حق سے مراد زکوٰۃ لی جا سکتی ہے کیونکہ اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی صفائی کے بعد واجب ہوتی ہے لیکن زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو جاتی ہے جب کٹائی کا وقت آ جائے۔

لیکن یہ احتمال صحیح نہیں ہے کیونکہ :

۱۔ یہ احمال اس معنی کے خلاف ہے جو آیت سے ظاہری طور پر عرف میں سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ صریح آیت کے خلاف ہے کیونکہ ظرف کا تعلق اسی چیز سے ہوتا ہے جس پر مادہ فعل دلالت کرتا ہے ، اس سے نہیں ہوتا جس پر ہیئت فعل دلالت کرتا ہے یعنی یوم حصاد ادائیگی (جس پر ''اتوا،، کے حروف دلالت کرتے ہیں) کا زمانہ ہے وجوب کا زمانہ نہیں جس پر ''اتوا،، کی ہیئت (مخصوص صورت) دلالت کرتی ہے مثلاً اگر کہا جائے :''اکرم زیداً یوم الجمعته،، (یعنی) ''جمعہ کے روز زید کا احترام کرو،، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ احترام کرنے کا زمانہ جمعہ کا دن ہے ایسا نہیں ہے کہ احترام واجب ہونے کا زمانہ جمعہ ہو لیکن عملاً اکرام انجام دینے کا زمانہ کوئی دوسرا دن ہو۔

۲۔ زکوٰۃ اس وقت واجب نہیں ہوتی جب کٹائی کاوقت آ جائے بلکہ اس وقت واجب ہوتی ہے جب خوشہ کے اندر موجود دانہ گندم یا جو بن جائے اور گندم یا جو کہلائے بنا برایں آیت میں یوم حصاد کا ذکر کرنا اس بات کاقطعی شاہد ہے کہ اس حق سے مراد زکوٰۃ نہیں کوئی اور حق ہے۔

حق سے مراد زکوٰۃ نہ ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسراف سے نہی فرمائی ہے اور اسراف سے نہی ، زکوٰۃ سے سازگار نہیں کیونکہ زکوٰۃ جو دسویں یا بیسویں حصے کی صورت میں ایک معینہ مقدار ہے اس میں

۴۴۸

اسراف کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ آیہ کریمہ میں حق سے مراد زکوٰۃ نہیں، کوئی اور حق ہے ، تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آیہ زکوٰۃ اس آیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس میں بغیر تعین کے حق ادا کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں نسخ کا دعویٰ اس بات پر موقوف ہے کہ فصلوں میں زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق واجب ہو تاکہ یہ وجوب زکوٰۃ کے ذریعے نسخ ہو لیکن نسخ کے قائل حضرات کیلئے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کیونکہ اگرچہ ''آتواحقہ،، میں صیغہ امردو باتوں (وجوب اور دوام و استمرار) میں ظہور رکھتا ہے مگر صیغہ امر کو ان دونوں ظہوروں میں باقی رکھنا ممکن نہیں کیونکہ زکوٰۃ کے علاہ کوئی بھی حق دائماً واجب نہیں اس لئے ان دونوں ظہوروں میں سے ایک سے دستبردار ہونا پڑیگا یعنی یا یہ کہا جائے کہ اس امر کا مدلول وجوب نہیں، البتہ ایک امر استحبابی کیلئے دوام ثابت ہو گا یا یہ کہا جائے کہ یہ امر وجوب پر تو دلالت کرتا ہے لیکن دوام پر دلالت نہیں کرتا اس صورت میں اس حق کا وجوب ، وجوب زکوٰۃ کی آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی۔

ان دونوں احتمالوں میں سے دوسرے احتمال کو پہلے احتمال پر کوئی ترجیح حاصل نہیں بلکہ پہلے احتمال کو ترجیح حاصل ہے اس کی دو دیلیں ہیں:

( i ) اہل بیت (ع) کی ایسی روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کے مطابق یہ حق بطور استحباب باقی ہے ، اس سے قبل ان روایات کاذکر کیا جا چکا ہے۔

( ii ) اگر یہ حق واجب ہوتا تو تمام صحابہ اور تابعین میں اس کو شہرت حاصل ہونی چاہئے تھی اور صرف عکرمہ ، ضحاک یا ان کے علاوہ ایک دو افراد ہی اس کے قائل نہ ہوتے۔

۴۴۹

گزشتہ بحث کا خلاصہ: قابل قبول قول یہ ہے کہ پھولوں اور فصلوں میں زکوٰۃ کے علاہو ایک مستحب حق ثابت ہے اور شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہی ہے بنابرایں اس آیہ کریمہ کا مدلول نسخ نہیں ہوا۔

۲۰۔( قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۶:۱۴۵

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا مگر جب کہ وہ مردہ یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت ہو تو بیشک یہ (چیزیں) ناپاک (اور حرام ) ہیں یا (وہ جانور) نافرمانی (کا باعث) ہو کہ (وقت ذبح) خدا کے سوا اور کسی کا نام لیا گیا ہو پھر جو شخص (ہر طرح) بے بس ہو جائے (اور)نافرمان و سرکش نہ ہو (اور اس حالت میں کھائے) تو البتہ تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،۔

علماء کی ایک جماعت کی یہ رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اس کا ناسخ رسول اللہ (ص) کا وہ فرمان ہے جس میں آپ (ص) نے آیت میں مذکور چیزوں کے علاوہ مزید کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ دوسری آیت کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی کیونکہ اس آیت میں صرف یہ خبر دی جا رہی ہے کہ یہ آیہ شریفہ میں مذکور چیزوں کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ہے اس سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت یہی چیزیں حرام تھیں۔

بنا برایں اس آیت کے نسخ ہونے کا دعویٰ بے معنی ہے کیونکہ جملہ خبر یہ میں کبھی بھی نسخ واقع نہیں ہوتا لامحالہ اس حصر کو حصر اضافی ماننا پڑے گا بایں معنی کہ اس آیت کے ذریعے ان چیزوں کی حرمت کی نفی کی جا رہی ہے جنہیں مشرکین اپنی طرف سے حرام قرار دیتے تھے جبکہ شریعت اسلام میں وہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور اس آیت سے پہلے مذکور آیات کے سیاق سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے یا حصر کو حصر حقیقی فرض کریں گے اور آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ مکہ آیت جس وقت نازل ہوئی تھی اس وقت صرف یہی چند چیزیں حرام تھیں اور نزول آیت کے بعد مزید کچھ چیزیں حرام قرار پائیں چونکہ احکام اسلام بتدریج نازل ہوا کرتے تھے۔

۴۵۰

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ایک چیز حرام قرار دینے کے بعد دوسری چیز حرام قرار دینا نسخ نہیں کہلاتا حصر اضافی اور حصر حقیقی میں سے عرف کے نزدیک حصر حقیقی زیادہ ظاہر ہے اگر حصر ، حصر اضافی ہو پھر نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۱۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ ) ۸:۱۵

''اے ایماندارو! جب تمہارا کفار سے میدان جنگ میں مقابلہ ہو تو (خبردار) ان کی طرف سے پیٹھ نہ پھیرنا،،۔

( وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ) : ۱۶

''اور (یاد رہے) اس شخص کے سوا جو لڑائی میں کترائے یا کسی جماعت کے پاس جا کر موقع پائے (اور) جو شخص بھی اس دن ان کفار کی طرف سے اپنی پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی (ہرپھر کے) خدا کے غضب میں آ گیا ، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور وہ (کیا) برا ٹھکانا ہے،،۔

بعض حضرات کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے تم سے (اپنے حکم کی سختی میں ) تخفیف کر دی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے تو اگر تم لوگوں میں سے ثابت قدم رہنے والے سو ہوں گے تو دو سو (کافروں) پر غالب رہیں گے اور (جنگ کی تکلیفوں کو) جھیل جانے والوں کا خدا ساتھی ہے،،۔

۴۵۱

نسخ کی صورت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلی آیت (۸:۱۵۔۱۶) میں جنگ سے پشت پھیرنے کو ہر حالت میں حرام قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسری آیت میں جنگ سے فرار ہونا اس صورت میں جائز قرار دیا گیا ہے جب کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہو اس نسخ کے قائل حضرات میں عطا بن ابی ریاح بھی شامل ہے(۱) ۔

جواب: دوسری آیت (تخفیف ) کے ذریعے پہلی آیت کی تقیید سے اس کا نسخ ہونا لازم نہیں آتا بلکہ ان دونوں آیات کے مفہوم سے اسلام کا ایک اصول اور قاعدہ مل جاتا ہے اور اول آیت میں مذکور حکم کی تاید ہوتی ہے بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کے مقابلے میں اس وقت تک ثابت قدم رہو جب تک تمہاری تعداد کفار کی تعداد سے نصف سے کم نہ ہو لیکن اگر تمہاری تعداد نصف کفار سے کم ہو تو اس وقت جنگ سے فرار کر کے اپنی جانیں بچائی جا سکتی ہیں ظاہر ہے یہ نسخ نہیں کہلاتا۔

عمرو بن عمر ، ابوہریرہ ، ابو سعید ، ابو نضرۃ ، ابن عمر کے غلام نافع ، حسن بصری ، عکرمہ ، قتادہ ، زید بن ابی حبیب اور ضحاک سے روایت کی گئی ہے کہ زیر بحث آیت میں موجود حکم (جنگ سے فرار کا حرام ہونا) صرف جنگ بدر سے مختص ہے اور جنگ بدر میں شریک مجاہدین کے علاوہ باقی مسلمانوں کیلئے جنگ سے فرار ہونا حرام نہیں ہے اور ابو حنیفہ کی رائے بھی یہی ہے(۲) لیکن یہ قول بھی باطل ہے:

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۴۵۔ تفسیر طبری ، ج ۹ ، ص ۱۳۵۔

(۲) تفسیر شوکانی ، ج ۲ ، ص ۲۸۰

۴۵۲

اس لئے کہ اگرچہ یہ آیت جنگ بدر کے موقعہ پر نازل ہوئی لیکن اس میں موجود حکم جنگ بدر سے مختص نہیں ہے کیونکہ اولاً ، آیت میں موجود الفاظ ''یاایھا الذین امنوا،، عام ہیں اور تمام مسلمانوں کو شامل ہیں ثانیاً : آیہ کریمہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی ہے(۱) دوران جنگ نازل نہیں ہوئی تاکہ یہ اہل بدر سے مختص ہو۔

ابن عباس(۲) ، تمام شیعہ امامیہ اور بہت سے علمائے اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) اور اس میں موجود حکم تا قیامت باقی ہے یہی قول صحیح ہے چنانچہ اس کی دلیل بھی بیان کی گئی ہے اور طرفین کی بہت سی روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

کلینی اپنی سند کے ذریعے محمد سے اور وہ حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''سمعته یقول الکبائر سبع : قتل المومن متعداً ، و قذف المحصنة ، و الفرار من الزحف ، و التعرب بعد الهجرة ، وأ کل مال الیتیم ظلماً ، وأکل الربابعد البینتة ، و کل ما أوجب الله علیه النار،، (۳)

''گناہان کبیرہ سات ہیں: جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنا۔ پاک دامن عورت پر زنا کا الزام لگانا جنگ سے فرار ہونا ہجرت کے بعد دوبارہ بدووں کی زندگی اختیار کرنا۔ ظلم سے یتیم کا مال کھانا۔ سود لینا۔ ہر وہ کام انجام دینا جس کی سزا خدا نے جہنم قرار دی ہو۔،،

ابوہریرہ ، رسول اللہ (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''واجتنبوا السبع الموبقات ۔قالوا: یارسول الله وماهن ؟ قال ۔ص ۔الشربالله ، و الحسر ، و قتل النفس الی حرم الله الا بالحق ، واکل الربا ، وأکل ما الیتیم ، والتولیی یوم الزحف ، و قذف المحصنات المومنات الغافلات،، (۴)

____________________

(۱) تفسیر شوکانی ، ج ۲ ، ص ۲۸۰

(۲) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۵۴ تفسیر طبری ، ج ۹ ، ص ۱۳۵

(۳) الوافی ، ج ۳ ، باب تفسیر الکبائر ، ص ۱۷۴

(۴) صحیح بخاری ، ج ۳ ، ص ۱۹۵ ، باب فرمان خداوندی : ان الذین یا کلون اموال الیتامی۔ صحیح مسلم ، ج ۱ ، ص ۶۴

۴۵۳

''سات مہلک گناہوں سے اجتناب کرو۔ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ص) وہ سات مہلک گناہ کون سے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا: کسی کو خدا کا شریک ٹھہرانا ، جادو کرنا ، کسی نفس محترمہ کو ناحق قتل کرنا ، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا ، جنگ (واجب جہاد) سے فرار ہونا ، مومن اور پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا،،۔

۲۲۔( وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا ) ۸:۶۱

''اور اگر یہ کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو،،

ابن عباس ، مجاہد ، زید بن اسلم ، عطاء ، عکرمہ ، حسن اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

لیکن حق یہ یہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے اور نسخ نہیں ہوئی اس کی دلیل یہ ہے:

اولاً: آیہ سیف (جس میں جہاد کاحکم دیا گیا ہے) صرف مشرکین سے مختص ہے چنانچہ اس کا بیان اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (ص) نے ہجرت کے دسویں سال نجران کے نصاریٰ کے ساتھ صلح کی۔(۲) جبکہ سورہ برات (جس میں آیہ سیف ہے) ہجرت کے نویں سال نازل ہو چکا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آیہ سیف زیر بحث آیہ کریمہ کیلئے مخصص ہو گئی جس میں عام صلح کا حکم دیا گیا ہے۔

ثانیاً: مشرکین سے قتال اس صورت میں واجب ہے جب مسلمانوں میں اتنی طاقت ہو کہ مشرکین سے لڑ سکیں۔لیکن اگر ان میں مشرکین کو شکست دینے کی صلاحیت نہ ہو تو ان سے صلح کر لینے میں کوئی حرج نہیں جس طرح جنگ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ (ص) نے صلح کی تھی چنانچہ طاقت اور غلبہ کے امکان کی صورت میں قتال کے واجب ہونے کی تائید اس آیہ کریمہ سے بھی ہوتی ہے:

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۲ ، ص ۳۲۲

(۲) امتاع الاسماع للمقریزی ،ص ۵۰۲

۴۵۴

( فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّـهُ مَعَكُمْ وَلَن يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ) ۴۷:۳۵

''تو تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی دعوت نہ دو غالب ہو ہی اور خدا تو تمہارے ساتھ ہے اور ہرگز تمہارے اعمال (کے ثواب) کو کم نہ کرے گا،،۔

اس آیت میں عدم مصالحت کی وجہ مسلمانوں کی برتری اور ان کا طاقتور ہونا بیان کی جا رہی ہے۔

باب بیان الکبائر ۔ ابی داؤد ، باب التشدید فی اکل مال الیتیم ، ج ۲ ، ص ۹۳ ۔ سنن نسائی باب اجتناب اکل مال الیتیم ، ج ۲ ، ص ۱۳۱ سحر کی جگہ بخل کا ذکر ہے۔

۲۳۔( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمومنينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ) ۸:۶۵

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم مومنین کو جہاد کے واسطے آمادہ کرو(وہ گھبرائیں نہیں خدا ان سے وعدہ کرتا ہے کہ) اگر تم لوگوں میں کے ثابت قدم رہنے والے بیس بھی ہوں گے تو دوسو (کافروں پر) غالب آ جائیں گے اور اگر تم لوگوں میں (ایسے) سو ہوں گے تو ہزار (کافروں) پر غالب آ جائیں گے اس سبب سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں،،۔

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ) : ۶۶

''اب خدا نے تم سے (اپنے حکم کی سختی میں ) تخفیف کر دی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے تو اگر تم لوگوں میں سے ثابت قدم رہنے والے سو ہوں گے تو دو سو (کافروں ) پر غالب رہیں گے اور اگر تم لوگوں میں سے (ایسے) ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار (کافروں ) پر غالب رہیں گے اور (جنگ کی تکلیفوں کو) جھیل جانے والوں کا خدا ساتھی ہے،،۔

۴۵۵

بعض علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ شروع شروع میں مسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ کفار سے قتال کریں خواہ کفار مسلمانوں سے دس گنا زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے بعد آیت نمبر ۶۶ کے ذریعے یہ حکم نسخ ہو گیا اور مسلمانوں کو یہ رعایت دی گئی کہ مسلمانوں پر قتال اس صورت میں واجب ہے جب ان کے مقابلے میں کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ نہ ہو۔

لیکن حق یہی ہے کہ آیہ اول میں موجود حکم نسخ نہیں ہوا کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ دونوں آیتوں (۶۵ اور ۶۶) کے نزول میں فاصلہ ہو اور یہ کہ دوسری آیت اس وقت نازل ہوئی ہو جب پہلی آیت پر عمل کرنے کا وقت پہنچ چکا ہو کیونکہ اگر آیہ اول پر عمل کرنے کاوقت آنے سے پہلے ناسخ آیت نازل ہو جائے تو اس وقت ضرورت سے قبل نسخ لازم آئے گا اس کا لازمہ یہ ہے کہ پہلی تشریع (حکم شرع) لغو اور بے فائدہ تھی۔

نسخ کے قائل حضرات یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ دونوں آیتوں کے نزول میں فاصلہ واقع تھا اور یہ کہ دوسری آیت تب نازل ہوئی جب پہلی آیت پر عمل کرنے کا وقت آچکا تھا مگر یہ کہ وہ خبر واحد کا سہارا لیں اور اس سے قبل متعدد مرتبہ بتایا جا چکا ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ اجماعاً ثابت نہیں ہوسکتا(۱) اس کے علاوہ دونوں آیتوں کا سیاق و سباق اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ دونوں آیتیں بلا فاصلہ نازل ہوئی ہیں۔

بنا براین ان دونوں آیات کا مفہوم یہ ہو گا کہ اگر مسلمانوں کی تعداد بیس اور کفار کی تعداد دو سو ہو تو کفارسے قتال مستحب ہے اور اگرا یک سو مسلمان دو سو کفار کو شکست دینے کا احتمال دیںتو ان سے قتال واجب ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے صفحہ ۲۷۸ پر رجوع کریں۔

۴۵۶

اس کے علاوہ اس نسخ کے قائل ہونےکا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ صدر اسلام کے مسلمان ، بعد والے مسلمانوں سے زیادہ طاقتور مضبوط اور ثابت قدم ہوں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ طاقتور بننے کے بعد مسلمانوں پر ضعف اور کمزوری طاری ہو جائے؟

ان دونوں آیتوں کے مفہوم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین کو قتال پر آمادہ کر رہا ہے اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرنے کا وعدہ فرما رہا ہے اگرچہ دشمن مسلمانوں سے دس گنا زیادہ ہو لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اکثر مسلمانوں کے دل کمزور ہیں اور اتنا سخت مقابلہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہے اس لئے اتنی کم تعداد کی صورت میں کفار سے قتال کو واجب قرار نہیں دیا اور ان پر رحم کرتے ہوئے اتنی رعایت دی کہ اگر کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو تو وہ مقابلے سے دستبردار ہو سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر مسلمان اسلام کی سربلندی کیلئے کفار کا مقابلہ کریں تو خدا ان کی مدد فرمائے گا۔

کفارکی تعداد دوگنی سے زیادہ نہ ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ مقابلے کو اس لئے واجب قرار دیا کہ کفار چونکہ دین سے جاہل ہیں اور جنگ میں ان کا اعتماد اور سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات پر نہیں ہوتا اس لئے وہ سختیاں برداشت نہیں کرتے اس کے برعکس مسلمانوں کا عقیدہ اور ایمان انہیں خطرات میں ثابت قدم رکھتا اور اسلام کی سربلندی کیلئے قیام کی دعوت دیتا ہے اس لئے کہ مسلمان کا عقیدہ یہ ہے کہ چاہے وہ فتحیاب ہو یا ظاہراً شکست کھا لے درحقیقت وہ کامیاب ہے اس حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے:

( وَلَا تَهِنُوا فِي ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ ۖ إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّـهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ) ۴:۱۰۴

''اور (مسلمانو!) دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو ، اگر لڑائی میں تم کو تکلیف پہنچتی ہے تو جیسی تم کو تکلیف پہنچتی ہے ان کو بھی ویسی ہی اذیت ہوتی ہے اور (تم کو یہ بھی تقویت ہے کہ ) تم خدا سے وہ امیدیں رکھتے ہو جو ان کو (نصیب ) نہیں اور خدا تو (سب سے ) واقف (اور) حکمت والا ہے،،۔

۴۵۷

۲۴۔( إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ) ۹:۳۹

''اگر (اب بھی) تم نہ نکلو گے تو خدا تم پر درد ناک عذاب نازل فرمائے گا،،۔

ابن عباس ، حسن اور عکرمہ سے منقول ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے (۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

ان حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت میں تمام مسلمانوں پر جنگ کیلئے روانہ ہونا واجب قرار دیا گیا ہے اور دوسری آیت کے مطابق تمام پر جنگ کیلئے روانہ ہونا واجب نہیں۔

لیکن یہ قول تب صحیح ہو سکتا ہے جب شروع میں جنگ کیلئے جانا سب پر واجب ہو جبکہ اس سے پہلے کی آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنگ کیلئے روانہ ہونا ان لوگوں پر واجب تھا جنہیں جنگ کیلئے جانے کی دعوت دی جائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ) ۹:۳۸

''اے ایماندار تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کیلئے نکلو تو تم لدھر ہو کے زمین کی طرف جھکے پڑتے ہو کیا تم آخرت کے بہ نسبت دنیا کی (چند روزہ) زندگی کو پسند کرتے ہو تو (سمجھ لو) کہ دنیاوی زندگی کاسازو سامان آخرت کے (عیش و آرام کے) مقابلہ میں بہت ہی تھوڑا ہے،،۔

( إِلَّا تَنفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) : ۳۹

____________________

۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۱۶۹ قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس بات کی نسبت ضحاک کی طرف بھی دی ہے ج ۸ ، ص ۱۴۲

۴۵۸

''اگر (اب بھی ) تم نہ نکلو گے تو خدا تم پر درد ناک عذاب نازل فرمائے گا اور (خدا کچھ مجبور تو ہے نہیں) تمہارے بدلے کسی دوسری قوم کو لے آئے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور خدا ہر چیزپر قادر ہے،،۔

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جسے جہاد کرنے کا حکم دیا جائے اور وہ سستی کر کے جہاد پر نہ جائے تو وہ اس ترک واجب کی وجہ سے عذاب کا مستحق ہو گا اس کا تمام مسلمانوں پر جہادکے واجب ہونے سے کوئی ربطہ نہیں۔

اس بیان سے یہ دعویٰ بھی باطل ثابت ہو گا کہ اس سورہ کی دوسری آیت:

(انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ) ۹:۴۱

''(مسلمانو!) تم ہلکے پھلکے (نہتے) ہو یا بھاری بھر کم (مسلم بہرحال جب تم کو حکم دیا جائے) فوراً چل کھڑے ہو اور اپنی جانوں سے اور اپنے مالوں سے خدا کی راہ میں جہاد کرو،،۔

بھی اس آیت :( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) کے ذریعے نسخ ہوئی ہے(۱)

اس کے علاوہ ہم متعدد بار اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کسی حکم میں عام کو اس کے بعض افراد سے مختص کر دینا نسخ نہیں کہلاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دوسری آیت کے نسخ نہ ہونے کی دلیل ہے:

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،

کیونکہ اس آیت کا مدلول یہ ہے کہ شروع میں تمام مسلمانوں پر جہاد کیلئے جانا واجب نہیں تھا بھلا یہ آیت زیر بحث آیت کیلئے کیسے ناسخ بن سکتی ہے۔

____________________

(۱) قرطبی نے اپنی تفسیر میں نام لئے بغیر دوسروں کی طرف نسبت دی ہے ، ج ۸ ، ص ۱۵۰ ، اور طبرسی نے مجمع البیان میں سدی کی طرف نسبت دی ہے ج ۳ ، ص ۳۳

۴۵۹

۲۵۔( عَفَا اللَّـهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ ) ۹:۴۳

(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) خدا تم سے درگزر فرمائے تو تم نے انہیں (پیچھے رہ جانے کی) اجازت ہی کیوں دی تاکہ (تم اگر ایسا نہ کرتے تو ) تم پر سچ بولنے والے (الگ) ظاہر ہو جاتے اور تم جھوٹوں کو (الگ) معلوم کر لیتے،،۔

( لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ ) : ۴۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) جو لوگ (دل سے) خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے جہاد (نہ) کرنے کی اجازت مانگنے کے نہیں (بلکہ وہ خود جائیں گے) اور خدا پرہیز گاروں سے خوب واقف ہے،،۔

( إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ) : ۴۵

''(پیچھے رہ جانے کی اجازت) تو بس وہی لوگ مانیں گے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے،، ابن عباس ، حسن ، عکرمہ اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیات ، اس آیہ کریمہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:(۱)

( إِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ ) ۲۴:۶۲

''تو جب یہ لوگ اپنے کسی کام کیلئے تم سے اجازت مانگیں تو تم ان میں سے جس کو (مناسب خیال کر کے) چاہو اجازت دے دیا کرو،،۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۰

۴۶۰