البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321265 / ڈاؤنلوڈ: 9576
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

تفصیل: اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ کلام جو حروف تہجی سے تدریجاً یکے بعد دیگرے وجود میں آتا ہے یقیناً ایک حا دث چیز ہے۔ ایسی صفت سے اللہ کا ازل اور غیر ازل میں متصف ہونا محال ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس کلام کے علاوہ بھی کوئی کلام موجود ہے جس کے تمام اجزاء یکجا موجود ہوں اشاعرہ حضرات ایسے کلام کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی دوسری صفات کی طرح ایک ذاتی صفت ہے اور غیر اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں اور کلام کو صرف کلام لفظی میں منحصر سمجھتے ہیں اور یہ کہ کلام لفظی متکلم سے اس طرح صادر ہوتا ہے کہ جس طرح کسی فاعل سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے اور حق یہ ہے کہ کلام الٰہی حادث و مخلوق ہے۔

دلیل: جملہ دو قسم کا ہوتا ہے (۱) خبریہ (۲) انشائیہ

(۱) جملہ خبریہ:/ جب ہم کس یبھی جملہ خبریہ میں غور و فکر او رتحقیق کرتے ہیں تو ہمیں اس میں صرف نو چیزیں نظر آتی ہیں اوریہ نوچزیں ایسی ہیں کہ جب بھی کسی چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنا چاہیں یا ایک چیز کی دوسری سے نفی کرنا چاہیں تو ان نو چیزوں کا ہونا لازمی ہے:

۱۔ جملے کے مفردات جن میں اس کے مودا اور ہیئت لفظیہ بھی شامل ہیں۔

۲۔ مفردات کے معانی اور ان کے مدلول۔

۳۔ جملے کی ہیئت ترکیبیہ۔

۴۔ وہ چیز جس پر ہیئت ترکیبیہ دلالت کرے۔

۵۔ خبر دینے والے شخص کا مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کاتصور کرنا۔

۶۔مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کے مدلول کا تصور۔

۷۔ نسبت کا خارج کے مطابق ہونا یا نہ ہونا۔

۸۔ مخبر کا اس مطابقت و عدم کا علم رکھنا یا شک کرنا۔

۹۔متکلم کامقدمات ارادہ کے بعد جملے کو خارج میں ایجاد کرنے کا ارادہ کرنا۔

۵۲۱

اشاعرہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کلام نفسی ان نو چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے بنا برایں کلام نفسی کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا باقی رہا جملے کامفاد تو وہ بھی کلام نفسی نہیں بن سکتا کیونکہ مشہور یہ ہے کہ جملہ خبریہ ایک چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنے یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنے کا نام ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس ثبوت یا سلب کے بیان کے قصد کا نام ہے ، کیونکہ ہم نے اپنے مقام پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جملہ خبریہ کی ہیئت ترکیبیہ اپنی وضع کے مطابق اس بات کی علامت ہے کہ متکلم نسبت کے بیان کا قصد کر رہا ہے اوریہی کیفیت دوسرے الفاظ کی بھی ہے جن کو کسی نہ کسی معنی کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔

ہم نے تحقیق سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وضع اس التزام کا نام ہے جس میں کسی خاص لفظ یا ہیئت کاتقرر کیا جائے تاکہا س سے ہر اس امر کی تفہیم ظاہر ہو سکے جسے متکلم کسی کوسمجھانا چاہئے یہ تھا جملہ خبریہ کا مفاداور مفہوم۔

جہاں تک جملہ انشائیہ کا تعلق ہے یہ بھی جملہ خبریہ کی مانند ہے جملہ خبریہ اور انشائیہ میں اتنا فرق ہے کہ جملہ انشائیہ میں پہلے سے کوئی خاص واقعہ موجود نہیں تھا جس کی نسبت کلامیہ مطابق یا مخالف ہو اس بیان کی روشنی میں جملہ انشائیہ میںسات چیزیں ہوا کرتی ہیں اور وہ وہی چیزیں ہیں جو جملہ خبریہ میں ہوتی ہیں البتہ صرف ساتویں اور آٹھویں چیز اس میں نہیں ہو گی اور یہ بات بھی بتا دی گئی کہ جو حضرات کلام نفسی کے قائل ہیں وہ ان نو چیزوں میں سے کسی چیز کو کلام نفسی نہیں سمجھتے۔

اب یہ سوال باقی رہ گیا ہے کہ جملہ انشائیہ کی ہیئت کامفاد (مدلول) کیا ہے ۔ علماء میں مشہور یہی ہے کہ جملہ انشائیہ کوا س لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے عالم انشاء کے مناسب کوئی معنی ایجاد کیا جائے اور علماء کے کلام میں مکرر بیان کیا جاتا ہے کہ انشاء لفظ کے ذریعے معنی ایجاد کرنے کا نام ہے ہم نے اصول فقہ کی بحثوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وجود انشائی کی کوئی اساس اور دلیل نہیں اگرچہ لفظ اور معنی میں ایک عارضی اتحادپایا جاتا ہے جس کا منشاء لفظ اور معنی کے درمیان وہ ربطہ ہے جو وضع کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ لفظ کا وجود اس کیلئے حقیقی و ذاتی ہے اور معنی کیلئے عارضی اور مجازی۔

۵۲۲

یہی وجہ ہے کہ معنی کا حسن و قبیح لفظ تک سرایت کر جاتا ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کی وجہ سے معنی کو ایک وجود لفظی مل گیا ہے اگرچہ لفظ و معنی میں یہ اتحادپایا جاتا ہے لیکن یہ جملہ انشائیہ سے مختص نہیں جملہ خبریہ اور مفردات میں یہ اتحاد پایا جاتا ہے۔

جہاں تک لفظ سے قطع نظر معنی کے وجود کا تعلق ہے وہ دو ہی قسم کا ہو سکتا ہے۔

(۱) معنی کا حقیقی وجود ، جو اس کائناتی نظام میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح اس دنیا کے مختلف جواہر (اشیائ) اور اعراض (صفات) ہیں وجود کی اس قسم کے اپنے خاص علل و اسباب ہوا کرتے ہیں جن کا الفاظ سے کوئی ربطہ و تعلق نہیں ہوتا یہ ایک واضح بات ہے۔

(۲) معنی کا اعتباری اور قراردادی وجود یہ بھی اشیاء کا ایک قسم کا وجود ہے ، لیکن صرف عالم اعتبار اور فرض میں ہے ، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہر فرض و اعتبار ، فرض کرنے والے شخص کی ذات کے ذریعے قائم ہوا کرتا ہے اور اسی سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے۔ الفاظ خارجی پر ہرگز یہ موقوف نہیں باقی رہے لوگوں سے صادر ہونے والے عقود، جیسے بیع و شراء وغیرہ اور ایقاعات ، جیسے غلام آزاد کرنےاور طلاق دینا ، تصدیق اور تملیک و تملک کو جائز قرار دینا یہ چیزیں اگرچہ کسی شخص سے صیغہ عقد و ایقاع کے صادر ہونے پر موقوف ہیں اور معاملہ انجام دینے والے کے قول یا فعل کے بغیر تصدیق شارع بے اثر ہے لیکن شارع کی یہ تصدیق بقصد انشاء کسی لفظ کے صادر ہونے پر موقوف ہے مگر ہماری بحث لفظ کے اس مفاداور مفہوم سے ہے جو مرحلہ تصدیق شارع سے قبل ذکر کیا گیا ہو۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا وجود حقیقی اور وجود اعتباری لفظ پر موقوف نہیں۔ باقی رہا شارع یا عقلاء کا اس وجود اعتباری کی تصدیق کرنا۔ اگرچہ یہ تصدیق متکلم سے لفظ یا کسی دوسرے فعل کے صادر ہونے پر مووف ہے لیکن یہ اس معنی میں کہ لفظ اپنے معنی میں استعمال ہوا ہو اس معنی میں نہیں کہ لفظ سے معنی کو ایجاد کیا گیا ہے جہاں تک وجود لفظی کاتعلق ہے یہ ہر اس معنی کو شامل ہے جس پر کوئی لفظ دلالت کرے جملہ انشائیہ میں کوئی خصوصیت نہیں بنا برایں علماء میں مشہور قول ''انشاء لفظ کے ذریعے ایجاد معنی کا نام ہے،، کی کوئی حقیقت اور اساس نہیں۔

۵۲۳

صحیح قول یہ ہے کہ ہیئت انشائیہ کو اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے انسان باطنی امور میں سے کسی کااظہار کرے ۔ یہی باطنی شئی کبھی تو اعتبارات میں سے ہوتی ہے جیسے امر، نہی عقود اور ایقاعات ہیں اور کبھی صفات میں سے ایک صفت ہوتی ہے جیسے کسی چیز کی تمنا اور امید رکھنا پس جملوں کی ہیتیں باطنی امور میں سے کسی نہ کسی شئی کی علامت اور نشانی ہوتی ہیں یہ شئی جملہ خبر یہ ہیں مقصد بیان اور خبر ہےاور جملہا نشائیہ میں کوئی اور چیز ہوتی ہے۔

جو جملہ اس باطنی امر کو ظاہر کرتا ہے ، کبھی اسے جملوں میں ذکر کرنے کا مقصد اس باطنی شئی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی اور عامل اور مقصدہواہے یہ بات محل بحث و اختلاف ہے کہ جملہ کا دوسر مقصد میں استعمال ہونا حقیقت ہے یا مجاز اس بحث کا یہ موقع نہیں ہے تفصیلی معلومات کیلئے ہماری تعلیقات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کیا ''طلب ،، کلام نفسی ہے؟

لفظ ''طلب،، کے جائے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''طلب،، کسی شئی کو حاصل کرنے کے درپے ہونے کا نام ہے ''طلب الضالتہ،، یعنی گمشدہ چیز کو تلاش کیا اور ''طلب الآخرۃ،، یعنی آخرت کی تلاش ، اسی صورت میں کہا جائے گا جب انسان ان دونوں (گمشدہ چیز اور آخرت) کو حاصل کرنے کے درپے ہو چنانچہ لغت کی کتاب ''لسان العرب،، میں ہے۔

''الطلب محاوله وجدان الشئی واخذه،،

(یعنی) ''مطلب کسی شئی کو حاصل اور دریافت کرنے کی کوشش کا نام ہے،،۔

اس اعتبار سے آمر (حکم دینے والے) پر ''طالب،، صادق آئے گا کیونکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مامور (جس کا حکم دیا گیا ہو) وجود میں آ جائے اس لئے آمروہی ہوتا ہے جو مامور کو متعلق امر (ماموربہ) کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے اور یہی طلب کا مصداق ہے ایسا نہیں کہ امر کوئی لفظ ہو جس کا معنی طلب ہو بنا برایں اس قول کی کوئی اساس باقی نہیں رہتی کہ امر کو طلب کیلئے وضع کیا گیا ہے اور نہ اس بات کی کوئی اساس باقی رہتی ہے کہ ''طلب،، کلام نفسی ہے جس پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

اشاعرہ نے درست کہا کہ ''طلب،، اور ہے ''ارادہ،، اور ہے لیکنان کی یہ بات درست نہیں کہ ''طلب،، ایک باطنی صفت کانام ہے اور یہ کہ اس صفت باطنی پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

۵۲۴

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

گزشتہ بیانات سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا ہو گا کہ جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ میں کلام کی کوئی ایسی قسم نہیں جو نفس انسانی سے وابستہ ہوتا کہ وہ کلام نفسی کہلائے یہ بات ضروری ہے کہ ہر متکلم کیلئے ایجاد کلام سے پہلے اس کلام کا تصور کرنا ضروری ہے اور تصور نفس انسانی میں ایک قسم کے وجود کا نام ہے جس کو وجود ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کلام نفسی کے قائل حضرات کی مراد، نفس انسانی میں موجود یہی کلام ہو تو یہ بات اپنے مقام پر درست ہے لیکن یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ بات صرف کلام سے مختص نہیں بلکہ ہر فعل اختیاری کا تصور ، نفس انسانی میں موجود ہوتا ہے۔ کلام کاتصور بھی اس لئے ضروری ہے کہ یہ متکلم کا ایک فعل اختیاری ہے۔

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

کلام نفسی کے قائل حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات میں کئی دلائل دیتے ہیں۔

(۱) ہر متکلم ، تکلم سے پہلے کلام کو اپنے نفس میں ترتیب دیتا ہے اور خارج میں موجود کلام اس بات کاانکشاف ہے کہ اسی نوعیت کا ایک کلام ، نفس بھی موجود ہے اوریہ ایک واجدانی چیز ہے جسے متکلم اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے چنانچہ شاعر ''اخطل،، نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔

ان الکلام لفی الفوادوانما

جعل اللسان علی الفواد دلیلا

''(یعنی) کلام (حقیقی) تو نفس انسانی میں ہوتا ہے زبان تو صرف اس کلام نفسی کی نشاندہی کرتی ہے،،۔

اس دلیل کا جواب گزر چکا ہے یعنی نفس میں کلام کی ترتیب اس کات صور اور اسے نفس میں حاضر کرنا ہے اور یہی وجود ذہنی ہے جو تمام اختیارای افعال میں پایا جاتا ہے چنانچہ کاتب اور نقشہ کش کیلئے ضروری ہے کہ کتابت اور نقشہ کشی سے پہلے نقشہ اور مکتوب کاتصور کرے اس کا کلام نفسی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

۵۲۵

(۲) نفس انسانی میں موجود مفاہیم پر کلام صادق آتا ہے اور یہ اطلاق صحیح اور حقیقت ہے اس میں کوئی مجاز گوئی بھی نہیں ہے چنانچہ ہر شخص یہ ہتا ہے کہ میرے نفس میں ایک کلام ہے جسے میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا ارشاد ربانی ہے۔

( وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۶۷:۱۳

''اور تم لوگ اپنی بات چھپا کر کہو یا کھلم کھلا وہ تو دل کے بھیدوں تک سے خوب واقف ہے،،۔

اس دلیل کا جواب بھی گزشتہ مطلب سے معلوم ہو گا بایں معنی کہ جس طرح کلام کے وجود خارجی پر کلام صادق آتا ہے اسی طرح کلام کے وجود ذہنی پر بھی کلام صادق آتا ہے بلکہ ہر چیز کے دو قسم کے وجود ہوتے ہیں وجود خارجی اور وجود ذہنی دونوں صورتوں میں چیز کی حقیقت ایک ہی رہتی ہے اور دونوں صعورتوں میں اس شئی کا نام صادق آتا ہے اوریہ مجاز گوئی بھی نہیں کہلائے گی۔

یہ قسمیں صرف کلام سے مختص نہیں ہیں۔ چنانچہ انجینئر کو آپ یہ کہتے سنیں گے میرے نفس میں ایک عمارت کاتصور ہے۔ اسے میں نقشے پر اتاروں گا عبادت گزار انسان کہے گا میرے نفس میں یہ بات ہے کہ کل روزہ رکھوںگا۔

(۳) اللہ تعالیٰ کی ذات پر متکلم کا اطلاق صحیح ہے اور اسم فعال کی ہیئت اور وزن اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء فعل بطور صفت ذات کے ذریعے قائم ہے یہی وجہ ہے کہ الفاظ متحرک ساکن اور نائم اسی شخص پر صادق آتے ہیں جو حرکت ، سکون اور نوم (نیند) کی صفت سے متصف ہو یہ الفاظ اس شخص پر صادق نہیں آتے جو ان کو ایجاد کرے ظاہر ہے کلام لفظی سے اللہ کی ذات متصف نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قدیم ذات کا حادث صفت سے متصف ہونا محال ہے لا محالہ کلام قدیم کا التزام ضروری ہے تاکہ اللہ کی ذات پر متکلم صادق آ سکے۔

۵۲۶

جواب: صیغہ متکلم میں مبداء ، کلام نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ غیر خدا میں بھی کلام اس طرح متکلم کے ذریعے قائم نہیں جس طرح صفت موصوف کے ذریعے قائم ہوتی ہے۔ کیونکہ کلام اس کیفیت کو کہتے ہیں جو ہوا کی لہروں سے حاصل آواز کو عارض ہوتی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو ہوا کے ذریعے قائم ہے متکلم کے ذریعے نہیں صیغہ متکلم میں مبداء تکلم ہے اور تکلم ، ایجاد و معنی کے علاوہ قابل تصور کوئی اور چیز نہیں بنا برایں متکلم جس معنی میں اللہ کی ذات پر صادق آتا ہے اسی معنی میں غیر خدا پر بھی صادق آتا ہے۔

مستدل کا یہ کہنا ہے کہ اسم فاعل کا وزن ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے جس طرح صفت ، موصوف کے ذریعے قائم اورثابت ہوتی ہے یہ قول سراسر غلط ہے۔

اس لئے کہ ہیئت اسم فاعل تو صرف اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے لیکن اس قیام کی خصوصیات کہ آیایہ قیام بطور ایجاد ہے جس طرح ''ضارب،، ہے یا بطور حلول ہے جس طرح مریض ہے یہ خصوصیات ہیئت ضارب کے مفاد اور مدلول میں شامل نہیں موار دو مقامات کے اختلاف کے ساتھ یہ خصوصیات بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں اور کسی ضابطہ وکلیہ کے تحت نہیں آتیں۔

مثال کے طورپر علم اور نوم کے ایجاد کرنے والے پر عالم اورنائم صادق نہیں آتا لیکن قبض و بسط اور نفع و رضر کے ایجاد کرنے والے پر قابض باسط اور نافع و ضار صادق آتے ہیں بنا برایں موجد حرکت پر متحرک صادق نہ آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجد کلام پر متکلم بھی صادق نہ آئے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام نفسی محض ایک مفروضہ ہے۔ جس پر کوئی برہان اور وجدان دلالت نہیں کرتا۔

۵۲۷

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کے خاتمہ کے طور پر موضوع سے متعلق امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد الصادق (علیہما السلام) کی ایک روایت ذکر کی جائے کلینی اپنی سند سے ابی بصیر سے روایت کرتے ہیں میں نے امام صادق (علیہ السلام ) کو یہ فرماتے سنا۔

سمعت ابا عبدالله ۔ع ۔بقول : لم یزل الله عزل وجل ربنا ، والعلم ذاته معلوم ، و السمع ذاته ولا مسموع ، والبصر ذاته ولا مبصر ، والقدرة ذاته ولامقدور فلما احدث الاشیاء وکان المعلوم وقع العلم منه علی المعلوم ، والسمع علی السموع ، و البصر علی البصر ، والقدرة علی القدور ، قال : قلت: فلم یزل الله متحرکا؟ قال : فقال: تعالیٰ الله عن ذلک ، ان الحرکة صفة محدثة بالفعل ، قال : فقلت: فلم یزل الله متکلماً ؟ قال: فقال: ان الکلام صفة محدثة لیست بازلیة ، کان الله عزوجل ولا متکلم (۱)

''خداوند لم یزل و لایزال اس وقت بھی علم ذاتی رکھتاتھا جب کسی معلوم کی ذات نہ تھی ۔ سمع اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھا جب کوئی مسموع نہ تھا بصارت اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھی ، جب کسی مبصر (دکھائی دینے والا) کی ذات نہ تھی اور قدرت خدا اس وقت بھی عین ذات تھی جب کسی مقدور کی ذات نہ تھی۔ اللہ نے جب اشیاء کو خلق فرمایا اور معلومات وجود میں آ گئیں تو علم معلوم پر ، سمع مسموع پر ، بصارت مبصر پر اور قدرت مقدور پر منطبق ہوتی گئی ابو بصیر کہتے ہیں میں نے عرض کی : اللہ ازل سے متحرک بھی ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا اللہ کی شان اس سے بالاتر ہے اور حرکت صفات فعلی میں سے ہے جو حادث ہے ، قدیم نہیں۔ ابوبصیر کہتے ہیں: میں نے کہا : کیا اللہ ازل سے متکلم ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا کلام بھی ایک حادث صفت ہے اللہ کی ذات موجود تھی لیکن متکلم نہیں،،۔

۵۲۸

سورة الفاتحة مکیته و اباتها سبع

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

نزلت بعد المدثر

۵۲۹

تفسیر سورہ فاتحہ

٭مقام نزول

٭ سورہ فاتحہ کے فضائل

٭فاتحتہ الکتاب کی آیات

٭سورہ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

٭سورہ فاتحہ کا خلاصہ

٭بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تحلیل

٭ لغت ، اللہ ، الرحمن ،ا لرحیم

٭اعراب

٭ تفسیر

۵۳۰

مقام نزول:

علما مفسرین میں مشہور یہی ہے کہ سورۃ مکی ہے اوربعض کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے اور پہلا قول صحیح ہے ، اس کی دو دلیلیں ہیں:

اول: سبع مثانی سے مراد سورۃ فاتحہ ہے اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ حجرہ میں فرمایا ہے کہ ''سبع مثانی،، سورۃ حجر سے پہلے نازل کی گئی ہے۔

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تمہیں سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

سورہ حجر کے بارے میں سب کا افاق ہے کہ یہ مکی ہے جب مکی ہے تو اس سے پہلے نازل شدہ سورۃ کو بطریق اولیٰ مکی ہونا چاہئے:

ثانی: نماز کی تشریع مکہ معظمہ میں ہوئی تھی جو تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے اور اسلام میں ایسی کوئی نماز نہیں ہے جس میں سورۃ فاتحہ شامل نہ ہو چنانچہ اس کی تصریح خود رسول اللہ (ص) نے فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا:

''لاصلوٰة اللابفاتحته الکتاب،،

''سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں،،

نمبر ۱ اس بات کی متعدد روایات میں تصریح کی گئی ہے ان میں صدوق اور بخاری کی روایات شامل ہیں جن کا ہم بعد میں ذکر کریں گے۔

____________________

نمبر۱: البخاری ، ج ۶ ، ص ۱۰۳ ، باب فاتحہ الکتاب۔

۵۳۱

اس حدیث کو امامیہ اور غیر امامیہ دونوں نے نقل کیا ہے۔

بعض علماء کاعقیدہ یہ ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کو اس کی عظمت و فضیلت کی وجہ سے دو مرتبہ ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ میں نازل کیا گیا ہے۔

بذات خود اس قول کا احتمال ضرور ہے لیکنیہ دلیل سے ثابت نہیں ہے اور بعید نہیں کہ اسی ، دومرتبہ نازل ہونے کی وجہ سے اس کا نام ''سبع مثانی،، رکھا گیا ہو۔

ایک اور احتمال یہ ہے کہ ''سبع مثانی،، کی وجہ تسمیہ یہ ہو کہ اس کو ہر نمز میں دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے ایک مرتبہ پہلی رکعت میں اور دوسری مرتبہ دوسری رکعت میں۔

سورہ فاتحہ کے فضائل

اس سورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے سورۃ حجر کی اس آیت میں اسے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا اور ارشاد فرمایا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس کے علاوہ ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی ہے کوئی دوسرا سورہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا نماز وہ عمل ہے جو دین کا ستون ہے اور مسلمان اور کافر کے درمیان طرہ امتیاز ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد ہم اس مختصر سورہ میں موجود معارف اور علوم الہیٰ کا ذکر کریں گے

۵۳۲

صدوق نے اپنی سند سے حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے اور آپ (ع) نے امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بسم اللہ الرحمن الرحیم ،، فاتحتہ الکتاب کا جزء ہے اور فاتحتہ الکتاب بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: میں نے رسول اللہ (ص) کویہ فرماتے سنا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے محمد (ص):

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۔ ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ذریعے خاص کر مجھ پر احسان فرمایا اور اسے قرآن کریم کا ہم پلہ قرار دیا فاتحتہ الکتاب عرش الٰہی کے گرانبہا خزانوں میں سے ہے،،

بخاری نے ابی سعید بن معلی سے روایت کی ہے ابی سعید کہتے ہیں۔

''میں حالت نماز میں تھا کہ رسول اللہ (ص) نے مجھے بلایا۔ اس وقت میں نے رسول اللہ (ص) کو جواب نہیں دیااور پھر عرض کی: یا رسول اللہ (ص) اس وقت) میں نماز پڑھ رہا تھا آپ (ص) نے فرمایا: کیا اللہ نے نہیں فرمایا:

( اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ ) ۸:۲۴

''جب تم کو (ہمارا) رسول (محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ایسے کام کیلئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کاباعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کر لو،،۔

اس کے بعدآپ (ص) نے فرمایا:کیا تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں بتاؤں کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کونسا ہے آپ (ص) نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ص)! آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کے بارے میںبتائیں گے آپ (ص) نے فرمایا وہ الحمدللہ رب العمین ہے جو سبع مثانی اور قرآن کریم ہے جو مجھے دیا گیا ہے:

۵۳۳

فاتحتہ الکتاب کی آیات

مسلمانوں میں مشہور قول کے مطابق سورۃ فاتحہ کی آیات سات ہیں بلکہ اس قول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں حسین بن جعفی سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات چھ ہیں عمروبن عبید سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات آٹھ ہیں لیکن یہ دونوں شاذو نادر قول ہیں اور طرفین کی روایات (جن کے مطابق سورہ فاتحہ کی آیات سات ہیں) کے خلاف ہیں:

اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ گزشتہ آیت میں سبع مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے البتہ جو حضرات بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورہ فاتحہ کا جز سمجھتے ہیں وہ صراط الذین انعمت علیھم سے لے کر آخر تک کو ایک آیت سمجھتے ہیں اور جو لوگ بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورۃ فاتحہ کاجز نہیں سمجھتے وہ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین کو ایک مستقل آیت قرار دیتے ہیں۔

سورۃ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

سورہ فاتحہ کے دو اہم مقاصد ہیں:

(۱)عبادت اور پرستش کے قابل صرف اللہ کی ذات ہے۔

(۲) قیامت اور حشر و نشر کی اہمیت بیان کرنا اور یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کی خاطر رسول اللہ (ص) کوب ھیجا گیا اور قرآن کو نازل کیا گیا۔

دین اسلام میں تمام انسانوں کو اللہ کی ذات اور توحید و یگانگی کی دعوت دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی )بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،۔

۵۳۴

خدا کے سوا کوئی ذات پرستش کے لائق نہیں ، ہر بشر اور صاحب ادراک کو چاہئے کہ صرف خدا کے سامنے خشوع و خضوع سے پیش آئے اور اسی کی طرف توجہ کرے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر عقلمند ایسی ذات سے تواضع سے پیش آتا ہے اور اس کی عبادت اور کرتا ہےاور اپنی احتیاجات میں اسی کی طرف رخ کرتا ہے جس میں کوئی کمال پایا جاتا ہو اورہر ناقص کی فطرت ہے کہ وہ کامل کے سامنے متواضع رہے یا وہ اس کی اس لئے پرستش و تواضع کرتا ہے کہ اس نے اس پر احسان کیا ہے ، یا ناقص ، نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے میں اس کامحتاج ہوتا ہے یا کامل ذات کے قہر و غضب اور اس کی سلطنت کی وجہ سے اس کی مخالفت اور معصیت سے احتراز کرتا ہے۔

پس عبادت اور خشوع و خضوع کے اسباب یہی ہیں اور ہر عاقل کو یہ صفات صرف اللہ کی ذات میں نظر آئیں گی لہٰذا حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اس لئے کہ تمام صفات کمال اللہ کی ذات میں مجتمع ہیں اور اس کی ذات میں کسی نقص اور خامی کا شائبہ تک نہیں عالم ظاہر اور عالم باطن موجود اور تدریجاً وجود میں آنے والی موجدات کا منعم بھی اللہ ہے اور پوری کائنات کا تکوینی اور تشریعی مربی اللہ ہے ۔ اللہ ہی کی ذات ہے جو وسیع اور ناقابل زوال رحمت سے متصف ہے اللہ ہی مالک مطلق اور مخلوق کا حاکم اعلیٰ ہے جس کا کوئی شریک اور فریق نہیں۔

بنا برایں اپنے کمال ، انعام ، رحمت اور سلطنت کی بنیاد پر معبود حقیقی اللہ کی ذات ہے ایک عاقل انسان اسی کی طرف توجہ کرتا ہے اسی کی عبادت کرتا ، اسی سے مدد مانگتا اور اس پر توکل کرتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز ممکن الوجود ہے اورممکن الوجود ذاتی طورپر محتاج ہوا کرتی ہے عبادت اسی ذات کی ہو سکتی ہے اور مدد اسی سے مانگی جا سکتی ہے جو مستغنی اوربے نیاز ہے۔

۵۳۵

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ) ۳۵:۱۵

''لوگو تم سب کے سب خدا کے (ہر وقت) محتاج ہو اور (صرف) خدا ہی (سب سے) بے پرواہ سزاوار حمد (وثنا) ہے،،۔

جب اللہ تعالیٰ نے آیات : الحمدللہ رب العالمین ۔ الرحمن الرحیم ۔ مالیک یوم الدین کے ذریعے ثابت کر دیا کہ حمد و ثناء کے لائق صرف اسی کی ذات ہے تو اس نے اپنے بندوں کو تلقین کی کہ وہ دل و جان سے کہیں : ایاک نعبد و ایاک نستعین اس کے بعد اللہ تعالیٰ ، بعثت انبیاء ، انزال کتب اور اتمام حجت کے بعد مختلف لوگوں کے حالات بیان فرما رہا ہے اور اس طرح اس نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کر دیا ہے۔

(۱) یہ وہ لوگ ہیں ، خدا کی رحمت و نعمت جن کے شامل حال ہے جنہوں نے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کی اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔

(۲) وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہو گئے اور ادھر ادھر منحرف ہوئے اگرچہ یہ لوگ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے حق کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں لیکن حق سے عناد اور دشمنی نہیں رکھتے ان کا گمان یہی ہے کہ دین حق وہی ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس راستے کو انہوں نے اپنایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔

(۳) وہ لوگ ہیں جن کو حب جاہ و مال نے حق سے دشمنی اور عناد پر آمادہ کر دیا چاہے انہوں نے حق پہچان کر اس کا انکار کیا ہو یا سرے سے حق کو نہ پہچانا ہو یہ وہ لوگ ہیں جو درحقیقت اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ) ۴۵:۲۲

''بھلا تم نے اس شخص کوبھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے،،۔

گمراہوں کی اس قسم کا کفر پہلے سے زیادہ شدید ہے اور وہ اپنی گمراہی کی وجہ سے عقاب کے مستحق ہوں گے اس کے علاوہ حق سے عناد اور دشمنی کی وجہ سے بھی وہ معاقب ہوں گے۔ چونکہ بشرحب مالو مقام کی خواہشات سے خالی نہیں ہوسکتا اور جب تک ہدات الٰہی شامل حال نہ ہو گمراہی میں مبتلا ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتا چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

۵۳۶

( وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۲۱

''اور اگر تم پر خدا کافضل (وکرم) اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوء بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا مگر خدا تو جسے چاہتا ہے پاک و صاف کر دیتا ہے اور خدا بڑا سننے والا واقف کار ہے،،۔

چونکہ گمراہی کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ نے اپنے بندوں کو یہ تلقین فرمائی کہ وہ اللہ سے ہدایت طلب کریں اور دعا کے طور پر عرض کریں :اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

ان آیات میں بندے اپنے رب سے اس ہدایت کا مطالبہ کرتے ہیں جو مومنین سے مختص ہے ، ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے۔

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،۔

نیز وہ اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرمائے جنہیں اس نے نعمتیں بخشی ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ) ۱۹:۵۸

''یہ انبیاء لوگ جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی تھی ، آدم کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کر لیا تھا اور ابراہیم و یعقوب کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدا کی نازل کی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدہ میں زار و قدار روتے ہوئے گرپڑتے تھے،،۔

اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں ان دونوں فرقوں کے راستے پر نہ چلائے جو ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے ہوں:

( الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )

۵۳۷

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ

پہلے اللہ نے ان اوصاف کے ذریعے اپنی ذات اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی جن کات علق اس کی ذات اور افعال سے ہے اور یہ کہ وہ تمام عالم کا پروردگار ہے اور اس کی عام رحمت اس سے ہرگز جدا نہیں ہو سکتی اور روز محشر حکومت اسی کی ہو گی یہ اس سورہ کا پہلا مقصد تھا۔

اس کے بعد عبادت اور استعانت کو اپنی ذات میں منحصر کر دیا بنا برایں ذات الٰہی کے علاوہ کوئی اور اس قابل نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے یااس سے مدد طلب کی جائے یہ اس آیت کا دوسرا مقصد تھا اس کے بعد اللہ نے لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کریں جو انہیں ابدی زندگی لازوال نعمتوں اور اس نور کی رہنمائی کرے جس کے بعد کوئی ظلمت نہ ہو یہ سورہ مبارکہ کا تیسرا مقصد تھا پھر ذات الٰہی نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ یہ صراط مستقیم ان لوگوں سے مخصوص ہے جن پر اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نعمتیں نازل فرمائی ہیں اوریہ صراط مستقیم ان لوگوں کی راہ سے مختلف ہے جن پر غضب نازل ہوا اوران لوگوں کی راہ سے بھی مختلف ہے جو راہ راست سے بھٹک چکے ہیں یہ سورہ مبارکہ کا چوتھا مقصد تھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کی تحلیل

لغت

اسم: لغت میں اسم کامعنی علامت ہے اور اس کا ھمزہ ، حمزہ وصل ہے اور لفظ کا لازمی جز نہیں ہے ویسے تو اس میں بہت سی لغات ہیں لیکن ان میں سے چار لغات مشہور ہیں ''اسم ،، ، ''اسم،، ، ''سم،، اور ''سم،، اسم کو دراصل ''سمو،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی بلندی ہے اس میں مناسبت یہ ہے کہ اسم کی وجہ سے اس کا معنی بلند ہو جاتا ہے اور خفار (پوشیدگی) سے ظہور میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے سامع کے ذہن میں لفظ کو سن کر اس کا معنی حاضر ہو جاتا ہے یا اس مناسبت سے یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ لفظ وضع کی وجہ سے گمنامی سے نکل آتا اور استعمال میں آنے لگتا ہے۔

۵۳۸

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اسم ، سمہ (علامت) سے مشتق ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ اسم کی جمع اسماء اور تصغیر ''سمی،، ہے اور جب اس کی طرف کسی چیز کو نسبت دی جاتی ہے تو ''سموی،، اور ''اسمی،، بولا جاتا ہے اور اگر اسے متعدی بنائیں تو ''سمیت ،، یا ''اسمیت،، کہا جاتا ہے اگر اسم ، سمہ سے بنا ہوتا تو اس کی جمع ''اوسام،، اور تصغیر ''وسیم،، آتی ہے اور نسبت کے وقت ''وسمی،، اور متعدی بنانے کی صورت میں ''وسمت،، اور ''اوسمت،، پڑھا جاتا۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ''اسم،، ''سمہ،، سے نہیں بنا بلکہ ''سمو،، سے بنا ہے۔

اللہ: یہ لفظ ذات مقدس الٰہی کا مخصوص نام ہے اور زمانہ جاہلیت میں بھی عرب ، ذات الٰہی کو اسی نام سے جانتے تھے۔

چنانچہ مشہور عرب شاعر لبید کہتا ہے۔

الا کل شی ماخلا الله باطل و کل نعیم لامحالة زائل

''اللہ کے علاوہ ہر شے باطل ہے ، اور آخر کارہر نعمت زائل ہو جانے والی ہے،،

خود اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے۔

( وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ ) ۳۱:۲۵

'' اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہہ دیں گے اللہ نے،،۔

بعض علماء کا یہ خیال قطعی طورپر غلط اللہ (لفظ انسان کی طرح) اسم جنس ہے ، جس کاایک ہی فرد پایا جاتا ہے ہم اس مقام پر اپنے مدعی کے اثبات میں چار دلائل پیش کرتے ہیں:

۵۳۹

(۱) تبادر ، یعنی جب بھی لفظ اللہ بولا جاتا ہے بغیر کسی دوسرے قرینہ اور علامت کے ذات الٰہی ذہن میں آتی ہے جس میں کوئی بھی شخص شک نہیں کر سکتا اگر کوئی شخص یہ احمال دے کہ ممکن ہے کہ اصل نعمت میں لفظ اللہ اسم جنس ہو اور بعد میں اس لفظ کو ذات الٰہی سے مختص کر دیا گیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ قائد کلیہ یہ ہے کہ شک کی صورت میں اس احتمال کو کالعدم فرض کیا جاتا ہے چنانچہ میں نے علماصول میں اس قائدے کو ثابت کیا ہے۔

(۲) لفظ اللہ اپنے معنی میں صفت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ العالم اللہ ، الخاق اللہ بایں معنی کہ لفظ اللہ کے ذریعے عالم اور خالق کی صفت بیان کی جائے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لفظ اللہ اسم مشتق نہیں ہے اور جب اسم جامد ہو گا تو لامحالہ یہ علم ہو گا۔ کیونکہ جن حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے وہ مشتق والے معنی کی صورت میں اس کی تفسیر کرتے ہیں۔

(۳) اگر لفظ اللہ علم نہ ہوتا اور اسم جنس ہوتا تو کلمہ لاالہ الا اللہ سے توحید ثابت نہ ہوتی جس طرح لاالہ الا الخالق ، لاالہ الاالرزاق وغیرہ سے توحید ثابت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی لاالہ الا الرزاق یا الا الہ الاالخالق کہے تو وہ مسلمان نہیں کہلائے گا۔

(۴) حکمت وضع کا تقاضا ہے کہ جس طرح دوسرے مفاہیم کیلئے کسی نہ کسی لفظ کو وضع کیا گیا ہے اسی طرح ذات واجب الوجود کیلئے بھی کوئی نہ کوئی لفظ وضع کیا جانا چاہئے اور لغت عرب میں لفظ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں جس کو واجب الوجود سے مختص کیا گیا ہو اس سے ثات ہوتا ہے کہ لفظ اللہ ہی ہے جس کو واجب الوجود کیلئے مختص کیا گیا ہے۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ کسی بھی لفظ کو کسی معنی کیلئے وضع کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ واضع (وضع کرنے والا) لفظ کابھی تصور کرے اور اس معنی کا بھی تصور کرے جس کیلئے لفظ کو وضع کرنا چاہتا ہے اور غیر خدا کیلئے خدا کا تصور کسی طرح بھی ممکن نہیں اس طرح ذات واجب الوجود کیلئے کسی لف کا وضع کیا جانا بھی محال ہو گا۔

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689