البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321034 / ڈاؤنلوڈ: 9574
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۶۔ سعیدبن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب تک آیہبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل نہ ہوئی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہوا ہے یا نہیں لیکن جب آیتبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل ہوئی تو انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہو گیا ہے :نمبر۶

۷۔ سعید نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب بھی جبرئیل نازل ہوتے اور بسم اللہ الرحمن پڑھتے ، آپ (ص) سمجھ جاتے کہ کوئی سورہ نازل ہو رہا ہے نمبر۱:

۸۔ ابن جریحنے روایت کی ہے :

''میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعید بن جبیر نے انہیں کہا : ولقد ایتنک سبعا من المثانی میں ، سبع مثانی سے مراد، ام القرآن (سورہ حمد) ہے نیز سعید بن جبیر نے کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے۔ جس طرح میں (سعید بن جبیر) نے تمہارے سامنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو پڑھا ہے اسی طرح ابن عباس نے اسے میرے سامنے پڑھا تھا اس کے بعد سعید بن جبیر نے پھر کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے ابن عباس نے کہا: اللہ نے صرف تمہارے لئےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو نازل فرمایا ہے تم سے قبل کسی اور کیلئے ایسی آیت نازل نہیں ہوئی ،،(۲)

ان کے علاوہ اور بھی اس مضمون کی روایات موجود ہیں جو شخص ان سے آگاہ ہونا چاہئے وہ کتب احادیث کی طرف رجوع کرے۔

____________________

نمبر۶ مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ حاکم نے کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

(۱) مستدرک الحاکم ج ۱ ، ص ۲۳۱

(۲) ایضاً ص ۵۵۰

۵۶۱

معارض روایات

طرفین کی ان تمام روایات کے مقابلے میں صرف دو روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔

(۱) قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے۔

''میں (انس بن مالک)نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے نہیں سنا،،(۱)

(۲) ابن عبداللہ بن مغفل یزید بن عبداللہ نے روایت کی ہے:

''میرے والد نے نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے مجھے سنا تو کہا :بیٹا خبردار! آئندہ ایسا نہ کرنا میں نے اصحاب پیغمبر (ص) میں اس عمل سے بدتر کوئی بدعت نہیں دیکھی میں نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کےساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیںسنا تم بھی نہ پڑھا کرو جب الحمدپڑھنا چاہو تو الحمدللہ رب العالمین سے شروع کیا کرو(۲)

جواب:

پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت اہل بیت اطہار (ع) کی روایات کے مخالف ہونے کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے قابل عمل و اعتماد نہیں۔

___________________

(۳) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۱۷۷ ، ۲۷۳ ، ۲۷۸ ۔ صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۱۲۔ سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ، اس مضمون کی ایک روایت عبداللہ بن مغفل سے بھی روی ہے۔

(۴) مسند احمد بن حبنل ، ج ۴ ، ص ۸۵ صحیح ترمذی ، ج ۲ ، ص ۲۳

۵۶۲

(۱) یہ روایت اہل سنت کی کئی ایسی روایات کے معارض ہے جو تواتر معنوع رکھتی ہیں خصوصاً وہ روایات جن کی سند صحیح ہے بھلا اس روایت کی تصدیق کیسے ممکن ہے اس کے علاوہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور اسم مسلمہ بھی یہ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سورہ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھا کرتے اور اسے سورہ کا جزء سمجھتے تھے اوریہ کہ ابن عمر کہا کرتے تھے: اگر بسم اللہ کاسورہ فاتحہ میں پڑھنا صحیح نہیں توپھر اسے کیوں لکھا گیا ہے امیر المومنین (ع) فرمایا کرتے تھے جو شخص قرات میں بسم اللہ کو ترک کرتا ہے اس نے اپنی قرات کو ناقص چھوڑا ہے نیز آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سبع مثانی میں شامل ہے(۱)

(۲) یہ روایت مسلمانوں میں پائی جانے والی اس شہرت کیخلاف ہے جس کے مطابق تمام مسلمان نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے دور خلافت میں بسم اللہ کو ترک کیا تو مسلمانوں نے اس سے کہا : تم نے سورہ فاتحہ کی کویت آیت چرالی ہے یا اسے بھول گئے ہو؟(۲) ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس امر کی کیونکر تصدیق کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے حضرات نے سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی۔

(۳) یہ روایت ، اس روایت کی مخالف ہے جسے انس بن مالک نے ہی نقل کیا ہے(۳) پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

دوسری روایت (جو ابن عبداللہ بن مغفل نے بیان کی ہے) کا جواب بھی پہلی روایت کے جواب سے معلوم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ یہ روایت ایسے امر پر مشتمل ہے جو حضرات دین اسلام کیخلاف ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ حمد و سورہ سے پہلےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا مستجب ہے اگرچہ جزء کے طور پر نہیں بلکہ تبرک کے طور پر سہی اور ابن مغفل کی روایت میں بسم اللہ کو بدعت قرار دیاگیا ہے اور اسے پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے۔

____________________

۱) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۴ ملا خطہ فرمائیں۔

۲) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۳) اس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۱۶ کی طرف رجوع کریں۔

۵۶۳

(۳) سیرت مسلمین

تمام مسلمانوں کی سیرت اس بات پر برقرار ہے کہ وہ سورہ برات کے علاوہ باقی تمام سوروں میں بسم اللہ پڑھتے ہیں اور یہ بھی تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) بھی بھی ہر سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اگر بسم اللہ جز سورہ نہ ہوتی تو رسول اللہ (ص) کو اس کی تصریح کرنا چاہئے تھی کیونکہ احکام بیان کرنے کے موقع پر آپ کاقرات کو بیان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے ۔ رسول اللہ (ص) جس سورہ کوبھی پڑھتے تھے اگر اس میں سے کچھ آیات اس سورہ کا جزء نہ ہوتیں اور اس کے باوجود آپ (ص) اس کی وضاحت نہ کرتے تو یہ آپ (ص) کی طرف سے جہالت اور تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہوتا جو بذات خود قبیح ہے اور وحی الٰہی کے بارے میں تو بطریق اولیٰ قبیح ہوتا اور اگر رسول اللہ (ص) نے بسم اللہ کے جز سورہ نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا جبکہ خبر متواتر تو کجا خبر واحد کے ذریعے بھی یہ بات نقل نہیں کی گئی۔

(۴) تابعین اور صحابہ کا قرآن

اس میں کوئی شک نہیں کہ (حضرت عثمان کے قرآن جمع کرنے سے پہلے اور بعد بھی) تابعین اور صحابہ کے پاس موجود قرآنی نسخے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھے اگر بسم اللہ سورہ کا جزء نہ ہوتی تو اسے تابعین اور صحابہ اپنے قرآنوں میں درج نہ کرتے کیونکہ صحابہ نے دوسروں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قرآن میں غیر قرآن کو شامل کیا جائے حتیٰ کہ بعض متقدمین نے تو قرآن کو نقطے ، حرکات اور اعراب دینے سے بھی منع فرمایا ہے اس کے باوجود اپنے قرآنوں میں بسم اللہ شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں موجود دوسری تکرار شدہ آیات کی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔

اس سے یہ احتمال بھی باطل ہو جاتا ہے کہ تابعین نے سوروں میں فاصلہ کی خاطر بسم اللہ کوقرآن میں درج کیا ہو یہ احتمال اور دعویٰ اس امر سے بھی باطل ہو جاتاہے کہ بسم اللہ کو سورہ حمد کے ساتھ توذکر کیاگیا ہے لیکن سورہ برات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا اگر بسم اللہ کو دو سوروں کے درمیان فاصلے کی خاطر ذکر کیا جاتا تو سورہ الحمد کے شروع میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ الحمد سے پہلے تو کوئی سورہ نہیں ہے کہ اس کے اور الحمد کے درمیان فاصلے کی خاطر بسم اللہ کو ذکر کرتے اس کے برعکس سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوناچاہئے تھا تاکہ سورہ برات اور اس سے پہلے کہ سورہ میں فاصلہ ہو اس سے ہمیںیقین ہوتا ہے کہ بسم اللہ سورہ الحمد کا جزء ہے اور سورہ برات کا جزء نہیں ہے۔

۵۶۴

منکرین کے دلائل

بسم اللہ کے جز ہونے کے منکرین نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تین دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ قرآن صرف خبر متواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے اور جس آیت کے جزء سورہ ہونے میں اختلاف ہو وہ قرآن کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے میں اختلاف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہب سم اللہ کا جزء قرآن ہوناثابت نہیں۔

جواب: اولاً ، بسم اللہ کا جزء قرآن ہونا اہل بیت (ع) کی متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ خبر متواتر رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا اہل بیت اطہار (ع) ہے اس لئے کہ اطاعت رسول (ص) کی طرح اطاعت اہل بیت (ع) بھی واجب ہے۔

ثانیاً : یہ جب بہت سے صحابہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہ متواتر روایات سے بھی ثابت ہے تو ایک چھوٹے سے ٹولے کا انکار ، جس کی بنیاد ایک غلط فہمی ہے، کیا ضرر پہنچا سکتا ہے۔

ثالثاً : یہ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) مقام بیان میں جب بھی قرآن کے کسی سورے کی تلاوت فرماتے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرماتے تھے آپ (ص) نے اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے یہ امرقطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جز ہے۔

ہاں !اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بسم اللہ سورہ کا بھی جزء ہے البتہ اس کے اثبات کیلئے فریقین کی روایات کثیرہ کے علاوہ وہ روایات کافی ہیں جن کاذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے اور بسم اللہ کا جزء ہونا صحیح خبر واحد سے ثابت ہو جاتا ہے ضرور ینہیں کہ وہ خبر متواتر ہو۔

۵۶۵

۲۔ دوسری دلیل وہ روایت ہے جو مسلم نے حضرات ابوہریرہ سے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تع الیٰ فرماتا ہے میں نے نماز کو اپنے اور بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا میں اسے پورا کروں گا جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتے تو خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد و ثناء کی ہے اور جب بندہ کہے : الرحمن الرحیم خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ستائش کی ہے اور جب بندہ کہے : مالک نعبد و ایاک نستعین تو خالق فرماتا ہے : یہ (ذکر) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرابندہ جو چاہے گا میں اسے دوں گا اور بندہ جب کہے : اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرا لمغضوب علیھم والضالین۔ تو خالق فرماتا ہے: یہ صرف میرےب ندے کا ہے اور اسے میں وہ کچھ دوںگا جو وہ مانگے گا،،(۱)

اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے ظاہری مفہوم کی رو سے آیہ کریمہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کاما بعد اس کے ماقبل کے برابر ہے لیکن اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کاجزء مان لیا جائے تو اس روایت کا معنی و مفہوم صحیح نہیں رہتا۔ اس لئے کہ سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے (جیسا کہ اس سے قبل معلوم ہو چکا ہے) اگر بسم اللہ کو سورہ کا جزء مان لیا جائے تو یہ آیہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے آخر تک دو ہی آیتیں ہوں گی۔ اس

طرح اس آیت سے پہلے کی آیات اس کے مابعد کی دو گنی ہوں گی اور آیت ایاک نعبد تک سورہ فاتحہ دو برابر حصو میں تقسیم نہیں ہو گی جو اس روایت کے منافی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۶ ، سنن ابوداؤد ، ج ۱ ، ص ۱۳۰ ، سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

۵۶۶

جواب: اولاً: اس روایت کا راوی علاء ہے جس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اس کو کمزور اور اس کی روایت کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

ثانیاً بفرض تسلیم اگر اس روایت کی دلالت درست ہو تو بھی یہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ یہ ان گزشتہ روایات سے معارض ہے جن کے مطابق سورہ فاتحہ بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے۔

ثالثاً : یہ روایت اس امرپر دلالت نہیں کرتی کہ سورہ فاتحہ الفاظ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ معنی کے اعتبارسے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بنا برایں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے مدلول کے اعتبار سے سورہ فاتحہ کابعض حصہ خداسے متعلق ہے اور بعض حصہ بندوں سے متعلق ہے۔

رابعاً: اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سورہ فاتحہ کو الفاظ کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے تو اس امر پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ تقسیم آیات کی تعداد کے اعتبار سے کی گئی ہو ۔ شاید یہ تقسیم کلمات (الفاظ) کے اعتبار سے کی گئی ہو اس لئے کہ مکرر الفاظ کو حذف کرنے کے بعد اور بسم اللہ کو شامل کر کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے پہلے بھی دس کلمے ہیں اور اس کے بعد بھی۔

۳۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے :

''سورہ کوثر تین آیات پر مشتمل ہے(۱) اور سورہ ملک تیس آیات پر(۲) ،،

اگر بسم اللہ سورہ کا جزء ہو تو یہ تعداد درست نہیں رہتی۔

جواب: سورہ کوثر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت صحیح السند مان لی جائے تو یہ انس کی اس گزشتہ روایت سے معارض ہے جو مقبولہ ہے جسے موطا کے علاوہ تمام صحاح نے روایت کیا ہے(۳)

____________________

(۱) کتب روایات میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔

(۲) مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۶۵ ۔ صحیح ترمذی ، ج۱۱ ، ص ۳۰ ، کنز العمال ، ج۱ ، ص ۵۱۶ ، ۵۲۵

(۳) تیسیرالوصول ، ج۱ ، ص ۱۹۹

۵۶۷

بنا برایں یا تو حضرت ابوہریرہ کی روایت ترک ہونی چاہئے یااس کی تاویل یہ کی جائے کہ سورہ کی تین آیات سے مرادوہ آیات ہیں جو صرف اس سورہ سے مختص ہیں اور یہ دوسرے سوروں میں موجود نہیں بخلاف بسم اللہ کے جو تمام سوروں میں مشترک موجود ہے اور یہی جواب سورہ ملک کے بارے میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

تحلیل آیتہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾

''سب تعریف خدا ہی کیلئے (سزاوار) ہے جو سارے جہان کا پالنے والا بڑا مہربان رحم والا ہے ، روز جزا کا حاکم ہے،،۔

قرات

اکثر علمائے قرات ''الحمد،، کی دال کو پیش اور ''للہ،، کے لام کو زیر دیتے ہیں بعض علمائے قرآت نے الحمد کی دال کو للہ کے لام کے تابع قرار دیا ہے اور اسے زیر دیا ہے اور بعض دوسرے علمائے قرات للہ کے لام کو الحمد کی دال کاتابع بنا کر اسے پیش دیتے ہیں لیکن یہ دونوں قرابتں غیر مشہور اور شاذ ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔

لفظ ''مالک،، کی قرات کے بارے میں بھی اختلاف ہے اس میں دو قول مشہور ہیں۔

۱) یہ فاعل کے وزن پر مالک پڑھا جائے۔

۲) کتف کے وزن پر ملک یوم الدین پڑھا جائے۔

بعض قاریوںنے فلس کے وزن پر ملک پڑھا ہے ان کے مقابلے میں بعض نے فعیل کے وزن پر ملیک اور حضرت ابو حنیفہ نے صیغہ ماضی کی صورت میں ملک پڑھا ہے لیکن پہلے دو اقوال کے علاوہ تین اقوال شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔

۵۶۸

قراتوں کی ترجیحات

پہلی دو مشہور قراتوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کونسی مقدم ہے:

(۱) بعض علمائے قرات کا کہنا ہے کہ ''مالک،، زیادہ بہتر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ''مالک،، کا مفہوم '' ملک،، کی نسبت عام ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاںآدمی اپنی قوم کامالک ہے۔

اس جملے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آدمی مملکیت اور مالکیت (جو اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی ہیں) کے علاوہ اپنی قوم پر حکومت اور سرپرستی کا حق بھی رکھتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا''ملک،، (بادشاہ) ہے تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آدمی اپنی قوم پر حکومت و سلطنت کا حق رکھتا ہے مگر مالکیت و ملکیت کا مفہوم نہیں سمجھا جائے گا پس مالک پڑھنا ملک پر مقدم ہو گا۔

(۲) اس کے مقابلے میں بعض علمائے قرات ''ملک،، کو ترجیح دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ مالک زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ملک زمانہ کی طرف مضاف ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے :ملک العصر (بادشاہ زمان) نیز کہا جاتا ہے :ملوک العصار المتقدمة (گزشتہ زمانے کے بادشاہ) چونکہ سورہ حمد میں ''ملک،، زمانہ (یوم) کی طرف مضاف استعمال ہوا ہے اس لئے ''ملک،، پڑھا جانا چاہئے ''مالک،، نہیں۔

ترجیحات کابے فائدہ ہونا

یہ وہ دو دلیلیں تھیں جو ''مالک،، اور ''ملک،، کے قائل علمائے قرات نے پیش کی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ بحث بے فائدہ ہے بلکہ بنیادی طورپر مشہور قراتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہاگر یہ قراتیں تمام کی تمام رسول اللہ (ص) سے بطور تواتر منقول ہوں توساری کی ساری قراتوں کو قرآن کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کی آیات اور اس کے کلمات (الفاظ) میں کوئی فرق نہیں اور اگر یہ قراتیں بطور تواتر ثابت نہ ہوں (چنانچہ حق بھی یہی ہے) اس صورت میں اگر ایک قرات کی ترجیح اور اس کے انتخاب سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس بحث میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۶۹

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحث و تحقیق سے ایک قرات کو ترجیح دینے اور اسے منتخب کرنے سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک ایک قرات کے انتخاب اورت رجیح سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم حاصل نہ ہو (اکثر اوقات دوسری قرات کے باطل ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا) یہ بحث بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ جبکہ یہ مسلم ہے کہ معروف و مشہور قراتوں میں سے کسی بھی قرات کوپڑھا جاسکتا ہے:

مشہور قراتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی بحث بے فائدہ ہے لفظ ''مالک،، اور ''ملک،، میں اس لئے کہ ''مالک،، ، ''ملک،، میں فرق و تفاوت اس جگہ ظاہر ہوتا ہے جہاں''ملک،، ایک اعتبار اورقرارددی حکومت و سلطنت کیلئے استعمال ہو جس میں سلطنت و حکومت کے مراتب بھی مختلف موارد اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں کبھی حاکمیت اورسلطنت کے ساتھ ملکیت بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی لفظ (ملک) خدا کیلئے استعمال ہو جس کی حکومت حقیقی ہے اور اس کاسرچشمہ پوری کائنات پر اللہ کا احاطہ ہے تو اسی احاطہ کی وجہ سے اللہ پر ''مالک،، اور ''ملک،، دونوں صادق آتے ہیں۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ملک کے زمانہ کی طرف اضافت جائز نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ''مالک،، جب اللہ کیلئے استعمال ہو تب ہی یہ زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جس طرح دیگر موجودات عالم کام الک ہے اسی طرح زمانہ کا بھی مالک ہے بنا برایں زمانہ کی طرف مضاف ہونے میں بھی ''مالک،، مثل ''ملک،، کے ہے اور اس اعتبار سے بھی ''ملک،، کو ''مالک،، پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔

بعض حضرت ''ملک،، کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ لفظ ''مالک،، ہو تو اس صورت میں ''یوم،، کی طرف اس کی اضافت ، اضافت لفظی ہو گی جو تعریف (معرفہ) کا فائدہ نہیں دیتی اور اضافت سے پہلے کی طرح یہ نکرہ رہے گا اس طرح لازم آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو ، جو جائز نہیں لیکن اگر یہ لفظ ''ملک،، ہو تو اس صورت میں ''ملک،، سلطان کے معنی میں ہو گا جو غیر مشتق کے حکم میں ہو گا اور اس طرح یوم کی طرف ملک کی اضافت ، اضافت معنویہ ہو گی اور یہ تعریف کافائدہ دے گی اس طرح یہ اعتراض لازم نہیں آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو۔

۵۷۰

دوسروں کا جواب:

تفسیر کثاف اور دیگر کتب میں اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ اسم فاعل کی اضافت اس صورت میں اضافت لفظی کہلاتی ہے جس وہ (اسم فاعل) حال یہ مستقبل کے معنی میں ہو لیکن اگر اسم فاعل ماضی یا دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال ہو تو ان دونوں صورتوں میں اسم فاعل کی اضافت ، اضافت معنوی ہوتی ہے اور اپنے مضاف الیہ سے کسب تعریف کرتی ہے جیسے اسم فاعل کے معنی ماضی ہونے کی مثال ہے:

( الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ) ۳۵:۱

''ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لئے (مخصوص ) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا ہے،،۔

اور اسم فاعل کے بمعنی دوام ہونے کی مثال ہے:

( تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) ۴۰:۲

(اس ) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہ) خدا سے ہے جو (سب سے) غالب بڑا واقف کار ہے۔

( غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ ) ۴۰:۳

''گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے،،۔

واضح ہے کہ پہلی آیت میں ''فاطر،، اور ''جاعل،، ماضی کے معنی میں اور دوسری آیت میں ''غافر الذنب،، اور ''قابل التوب،، دوام کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گئے ہیں اور اللہ کی صفت واقع ہوئے ہیں۔

سورہ فاتحہ میں ''مالک،، کی اضافت بھی ایسی ہی ہے کیونکہ لفظ ''مالک،، کا معنی ہے روز قیامت اللہ کی مالکیت دائمی اور ابدی ہے بنا برایں ''مالک،، کی اضافت ''یوم،، کی طرف ، اضافت معنی ہو گی اور کسب تعریف کے بعد لفظ اللہ کی صفت واقع ہو سکے گی۔

۵۷۱

اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اضافت چاہے لفظی ہو یا معنوی ، نکرہ کو معرفہ نہیں بنا سکتی بلکہ اضافت صرف تخصیص کافائدہ دیتی ہے اور لفظ کے مفہوم اور اس کے مصادیق کے دائرے کوتنگ کر دیتی ہے تعریف و تعیین تو دوسرے قرائن و شواہد کے ذریعے سمجھی جائے گی۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جم لہ ''غلام لزید،، اور ''غلام زید،، میں کوئی فرق نہیں جس طرح ''غلام لزید،، صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح ''غلام زید،،بھی صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے پس جس طرح اضافت معنوی کے نتیجے میں تخصیص حاصل ہوتی ہے اسی طرح اضافت لفظی میں بھی تخصیص حاصل ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اضافت لفظی کی تخصیص اضافت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اضافت کے بغیر حاصل ہوئی ہے اضافت لفظی سے صرف تخفیف حاصل ہوئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مضاف کسی معرفہ کی صفت واقع نہ ہو سکے اس لئے کہ اگر تخصیص کی وجہ سے معرفہ کی صفت قرار پانا صحیح ہو تو مانحن فیہ (اضافت لفظی) میں مضاف کی تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اگر معرفہ کی صفت بننے کا مجوز وہ تعریف (معرفہ ہونا) ہو جو خارجی شواہد سے حاصل ہو تو اس میں دونوںا ضافتیں مشترک ہیں بنا برایں اضافت لفظی اور اضافت معنوی میں جتنا فرق بیان کیا جاتا ہے وہ سب بے نتیجہ ہے۔

اس مقام پر ایک بحث باقی رہتی ہے کہ جہاں تک مقام اثبات اور وقوع کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مصاف باضافت لفظیہ صفت مشبہ ہو تو معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوس کتا ہے لیکناگر صفت مشبہ کے علاوہ کوئی اور مشتق مضاف واقع ہو تو اس صورت میں ''سیبویہ،، نے ''خلیل،، اور ''یونس،، سے یہ بات نقل کی ہے کہ اکثر کلام عرب(۱) میں ایسے مشتقات جو مضاف ہوں ، معرفہ کی صفت واقع ہوئے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی مضاف

____________________

۱) تفسیر ابی حیان ، ج ۱ ص ۲۱

۵۷۲

باضافت لفظیہ معرفہ کی صفت قرار پایا ہے، اسی قبیل سے ہے۔ یعنی صفت مشبہ کے علاوہ کوئی مشتق ہے جو مضاف واقع ہوا ہے اور معرفہ کی صفت قرار پایا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مضاف باضافت لفظی معرفہ کی صفت واقع ہوا ہے اسے اسی پر محمول کیا گیا ہے چنانچہ ''مانحن فیہ،، (مالک یوم الدین) میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

باقی رہا صاحب ''کشاف،، کا یہ کہنا کہ ''مالک یوم الدین،، میں اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہواہے اور جب اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی اضافت ، لفظی نہیں معنوی ہوتی ہے یہ قول واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کا یہ احاطہ اور مالکیت دائمی و ابدی ہے لیکن آیت میں ''مالک،، کو ''یوم الدین،، کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور ''یوم الدین،، وجود کے اعتبارسے متاخر ہے بنا برایں لامحالہ اسم فاعل ، مستقبل کے معنی میں ہو گا اور اضافت ، اضافث لفظی ہو گی۔

اسم فاعل مضاف کےبارے میں یہ فرق بھی درست نہیں کہ اگر اسم فاعل بمعنی ماضی ہو تو معرفہ کی صفت بن سکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کے حدوث اور تحقق کا لازمہ یہ ہے کہ وہ متعین اور معلوم ہو یہ فرق اس لئے صحیح نہیں کہ کسی بھی شئی کا حدوث مستلزم علم نہیں ہوا کرتا عین ممکن ہے کہ ایک چیز درواقع متحقق ہو لیکن سب کو معلوم نہ ہو کسی چیز کے معرفہ بننے کا دارو مدار یہ ہے کہ وہ فی الحال متکلم و مخاطب کو معلوم ہو صرف بذات خود اس کامتحقق ہونا کافی نہیں ہے خلاصہ یہ کہ کلام عرب میں وہی قواعد قابل اتباع ہیں جو فصیح عربوں نے استعمال کئے ہوں اور بے معنی توجیہات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر نحوی حضرات کیا کرتے ہیں۔

۵۷۳

الحمد:

حمد وہ مفہوم ہےجو ملامت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور حمد ہر اس اچھائی پر کی جاتی ہے جو انسان کے ارادہ و اختیار سے صادر ہو خواہ تعری فکرنے والے پر احسان ہو یا نہ ہو '' شکر،، کفران (ناشکری) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور اسے نعمت و احسان کے بدلے میں ادا کیا جاتا ہے ''مدح،، مذمت کے مقابلے میں آتا ہے اس میں یہضروری نہیں ہے کہ یہ کسی اختیاری عمل کےب دلے میں انجام پائے چہ جائیکہ یہ احسان کے بدلے میں ہو لفظ ''الحمد،، میں الف لام جنس ہے اس لئے کوئی خاص اور معہود حمد پیش نظر نہیں اللہ ، رحمن اور رحیم کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔

الرب:

یہ لفظ ''ربب،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے مصلح ، مالک اور مزتی اور اسی سے ''ربیبہ،، (پروردہ) بنایا گیا ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ کے علاوہ کسی کیلئے استعمال ہو تو اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ''رب السفینتہ،، (کشتی کامالک) ''رب الدار،، (گھر کا مالک)

العالم:

یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ جس طرح ''رھط،، اور ''قوم،، ہیں کبھی اس کا اطلاق ایک حقیقت کی متعدد اشیاء کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات اور عالم حیوانات ہیں کبھی یہ ایسی چیزوں کے مجموعہ کیلئے بولا جاتا ہے جن کا زمانہ یا مکان کے اعتبار سے آپس میں کوئی ربط و تعلق ہو جیسا کہ عالم صبا (بچپن) عالم ذر ، عالم دنیا اور عالم آخرت ہے کبھی تمام موجودات عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اس کی جمع کبھی واؤ اور نون کے ساتھ آتی ہے، جیسے ''عالمون،، اور کبھی فواعل کے وزن پر جیسے ''عوالم،، ہے لغت عرب میں عالم کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ نہیں جس کا مفرد فاعل کے وزن پر ہو اور اس کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ آئے۔

۵۷۴

الملک:

یہ لفظ احاطہ اور سلطنت کے معنی میں آتا ہے البتہ احاطہ ، سلطنت اور ملکیت کبھی تو حقیقی اور خارجی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ موجودات عالم کا محیط و مالک ہے کیونکہ ہر موجود و مخلوق اپنے خالق اور موجد سے قائم اور وابستہ ہے اور اپنی علت موجدہ سے وابستگی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ہر ممکن اپنے حدوث و پیدائش اور بقاء میں اپنے موثر کا محتاج ہے اور احتیاج و نیاز اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی۔

( وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ) ۴۷:۳۸

''اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے) محتاج ہو،،

کبھی مالکیت و سلطنت ، اعتباری اور قراردادی ہوتی ہے جس طرح لوگوںکوچیزوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے زید اپنے پاس موجود چیزوں کا صرف اس معنی میں مالک ہے کہ ان چیزوں کی ملکیت اور اختیار فرض کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملکیت کے اسباب میں سے کوئی سبب وجود میں آئے جس طرح عقد ، معاملہ ، ارث اور آزاد علاقوں سے لکڑیاں وغیرہ جمع کرنا ہے۔

فلاسفروں کے نزدیک ملکیت اس حالت اور کیفیت کو کہا جاتا ہے جو ایک چیز کے احاطہ کرنے سے حاصل ہو یہ نو اعراض میں سے ایک عرض ہے جسے مقولہ جدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمامے کا سر کو اور انگوٹھی کا انگلی کو گھیر لینے سے ایک صورت حاصل ہوتی ہے۔

الدین:

یہ جزاء اور حساب کے معنی میں آتا ہے ۔ سورہ فاتحہ میں ان دونوں میں سے جس معنی کا بھی ارادہ کیا جائے مناسب ہے کیونکہ حساب ، جزاء کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوتا ہے اور روز حساب یوم جزاء ہی کا نام ہے۔

۵۷۵

تفسیر:

خالق کائنات نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حمد و ثناء کی حقیقت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے اس لئے کہ :

(۱) کسی بھی فعل کے حُسن اور اس کے کمال کا منشاء فاعل کاحسن اور کمال ہوا کرتا ہے بایں معنی کہ اگر فاعل اچھا اور حسن ہے تو اس سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں اگر فاعل برا ہے تو اس سے برے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مل مطلق ہے اس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کا ہر فعل بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے۔

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ) ۱۷:۸۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے،،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوقات میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ذاتی عیب و نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا لامحالہ ان کے افعال بھی نقص و عیب سے خالی نہیں ہوں گے معلوم ہوا خالص حسن اور اچھے افعال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہیں اور غیر خدا سے خالص حسن اچھے افعال کا صادر ہونا محال ہے اسی لئے حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اور غیر خدا کا لائق حمد ہونا محال ہے۔

اس حقیقت کی طرف سورہ فاتحہ میں جملہ : الحمدللہ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے گزشتہ مباحث سے معلوم ہو چکا ہے کہ لظ ''اللہ،، نام ہے اس ذات مقدس کا جو تمام صفات مال کی جامع ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''ایک مرتبہ میرے والد بزرگوار امام محمدباقر (علیہ السلام) کا ایک خچر گم ہو گیا۔ اس موقع پر آپ (ع) نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرا خچر میری طرف لوٹا دے تو میں اللہ کا ایسا شکر ادا کروں گا جس پر وہ راضی ہو جائے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ (ع) کا خچر زین و لگام سمیت لا کر آپ (ع) کے حوالے کر دیا گیا آپ (ع) نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور صرف اتنا فرمایا : الحمدللہ۔ پھر فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کوئی حمد و ثناء نہیں چھوڑی اور تمام تعریفوں کو اللہ کی ذات سے مختص کیا ہے حمد وثناء کی تمام قسمیں اس جملے میں داخل ہیں(۱)

____________________

۱) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۹۔ اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۵۷۶

نیز آپ (ع) نے فرمایا:

اگر اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بڑی یا چھوٹی نعمت سے نوازے اور بندہ الحمدللہ کہے تو اس سے اللہ کا شکر ادا ہو جاتا ہے(۱)

(۲) عقول ، نفوس ، ارواح و اشباح غرض ہر ممکن کا کمال اول اس کا اپنا وجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ممکن کا وجود ، اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کا خالق و موجد ہے۔

دوسرا کمال وہ امور اور صفات ہیں جو کسی کی فضیلت اور امتیاز کاباعث بنتی ہیں اگر یہ صفات مخلوق کے ارادہ و ا ختیار سے باہر ہوں تو یہ بھی یقیناً اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی جس طرح نباتات کا نشوونما پانا ، حیوانات کا اپنے فائدے اور نقصان کوسمجھنا اور انسان کا اپنے مقصد کو بیان کرنے پر قادر ہونا ہے اور جو افعال مخلوق کے ارادے اور اختیار سے صادر ہوں اگرچہ یہ اختیاری افعال کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کامنشاء اور منبع بھی اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کار خیر کی توفیق دیتی اور راہ حق کی رہنمائی فرماتی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

''ان الله اولی بحسنات العبدمنه،، (۲)

''بندے کی نیکیوں میں بندے کی نسبت اللہ کا حصہ زیادہ ہے،،

اس حقیقت کی طرف جملہ ''رب العالمین،، کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے۔

(۳) ہر اچھا فعل جو اللہ سے صادر ہوتا ہے اس کا فائدہ اللہ کو نہیں ہوتا کیونکہ اللہ وہ کامل مطلق ہے جس کا مزید کامل ہونا یا کمال کو طلب کرنا محال ہے اور اللہ کا ہر فعل محض احسان ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے جو اچھا کام خیر خدا سے صادر ہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات ظاہراً دوسروں پر احسان سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ احسان اپنے اوپر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ) ۱۷:۷

''اگر تم اچھے کام کروں گے تو اپنے فا ئدے کیلئے اچھے کام کرو گے،،

۵۷۷

پس معلوم ہوا خالص احسان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے کوئی دوسرا نہیںا س حقیقت کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) میں ا شارہ کیا جاتا ہے۔

اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کسی بھی ذات کے اختیاری فعل پر اس کی حمد وثناء کبھی اس کی نعمتوں کے شوق و رغبت اور خوف و عقاب سے ہٹ کر صرف اس ذات کی خوبی کے ادراک کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کبھی محسن کے انعام و احسان اور رغبت و خوف کے پیش نظر اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے کبھی انعام و احسان کی رغبت و لالچ میں کسی کی تعریف کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے خوف کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ حمد کی پہلی وجہ کی طرف جملہ( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے یعنی ہم اللہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہ حمد کا مستحق ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے۔

حمد کی دوسری وجہ کی طرف جملہ ''( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اللہ ہی نے اپنے بندوں کو خلقت و ایجاد کی نعمت سے نوازا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں کمال تک پہنچایا ہے۔

حمد کی تیسری وجہ کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رحمت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کی نعمتوں کی طرف رغبت اور اس سے طلب خیر کی متقاضی ہے۔

____________________

۱) اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹

۵۷۸

حمد کی چوتھی وجہ کی طرف جملہ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جس کی طرف سب لوگوں کی باز گشت ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ روز قیامت وہ دن ہے جب اللہ کا عدل و انصاف اور رحم و کرم ظاہر ہو گا اور یہ دونوں ایسی حسین و جمیل نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے جس طرح دنیا میں خلق کرنا ، تربیت دینا اور لوگوں پر احسان کرنا اللہ کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کی وجہ سے وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے اسی طرح روز آخرت اس کی بخشش و مغفرت ، اطاعت گزاروں کو ثواب دینا اور گناہ گناروں کو سزا دینا یہ سب اس کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کے بموجب وہ حمد و ثناء کے لائق ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جملہ ''الرحمن الرحیم،، تاکید کی خاطر مکرر نہیں لایا گیا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ اس جملے میں حمد کے اللہ سے مختص ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے بسم اللہ میں بطور تبرک( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کا ذکر کرنا کافی نہ تھا اس لئے بعد میں اس کا لانا ناگزیر تھا۔

تحلیل آیت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

''خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،،

۵۷۹

لغت

العبادۃ

لغت میں ''عبادت،، تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(۱) اطاعت ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) ۳۶:۶۰

''اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا ، وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے،،

آیت میں شیطان کی جس عبادت کی نہی کی گئی ہے اس سے مرد اس کی اطاعت ہے۔

(۲) خشوع و خضوع چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ) ۲۳:۴۷

''آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گار ہے ،،۔

اسی لئے ہر جگہ کو ''معبد،، کہا جاتا ہے جہاںل وگوں کی آمدورفت زیادہ ہو اور وہ لوگوں کے قدموں تلے دبتی رہے۔

(۳) پرستش و پوجا کرنا چنانچہ ارشادہوتا ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ) ۱۳:۳۶

''کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں،،۔

جب لفظ ''عبادت،، عام طور پر بولا جائے اور یہ ہر قسم کے قرینہ اور شاہد کے بغیر ہو تو اس سے عبادت کا آخری معنی ذہن میں آتا ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689