البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 277208
ڈاؤنلوڈ: 6797

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 277208 / ڈاؤنلوڈ: 6797
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

تفصیل: اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ کلام جو حروف تہجی سے تدریجاً یکے بعد دیگرے وجود میں آتا ہے یقیناً ایک حا دث چیز ہے۔ ایسی صفت سے اللہ کا ازل اور غیر ازل میں متصف ہونا محال ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس کلام کے علاوہ بھی کوئی کلام موجود ہے جس کے تمام اجزاء یکجا موجود ہوں اشاعرہ حضرات ایسے کلام کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی دوسری صفات کی طرح ایک ذاتی صفت ہے اور غیر اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں اور کلام کو صرف کلام لفظی میں منحصر سمجھتے ہیں اور یہ کہ کلام لفظی متکلم سے اس طرح صادر ہوتا ہے کہ جس طرح کسی فاعل سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے اور حق یہ ہے کہ کلام الٰہی حادث و مخلوق ہے۔

دلیل: جملہ دو قسم کا ہوتا ہے (۱) خبریہ (۲) انشائیہ

(۱) جملہ خبریہ:/ جب ہم کس یبھی جملہ خبریہ میں غور و فکر او رتحقیق کرتے ہیں تو ہمیں اس میں صرف نو چیزیں نظر آتی ہیں اوریہ نوچزیں ایسی ہیں کہ جب بھی کسی چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنا چاہیں یا ایک چیز کی دوسری سے نفی کرنا چاہیں تو ان نو چیزوں کا ہونا لازمی ہے:

۱۔ جملے کے مفردات جن میں اس کے مودا اور ہیئت لفظیہ بھی شامل ہیں۔

۲۔ مفردات کے معانی اور ان کے مدلول۔

۳۔ جملے کی ہیئت ترکیبیہ۔

۴۔ وہ چیز جس پر ہیئت ترکیبیہ دلالت کرے۔

۵۔ خبر دینے والے شخص کا مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کاتصور کرنا۔

۶۔مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کے مدلول کا تصور۔

۷۔ نسبت کا خارج کے مطابق ہونا یا نہ ہونا۔

۸۔ مخبر کا اس مطابقت و عدم کا علم رکھنا یا شک کرنا۔

۹۔متکلم کامقدمات ارادہ کے بعد جملے کو خارج میں ایجاد کرنے کا ارادہ کرنا۔

۵۲۱

اشاعرہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کلام نفسی ان نو چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے بنا برایں کلام نفسی کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا باقی رہا جملے کامفاد تو وہ بھی کلام نفسی نہیں بن سکتا کیونکہ مشہور یہ ہے کہ جملہ خبریہ ایک چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنے یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنے کا نام ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس ثبوت یا سلب کے بیان کے قصد کا نام ہے ، کیونکہ ہم نے اپنے مقام پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جملہ خبریہ کی ہیئت ترکیبیہ اپنی وضع کے مطابق اس بات کی علامت ہے کہ متکلم نسبت کے بیان کا قصد کر رہا ہے اوریہی کیفیت دوسرے الفاظ کی بھی ہے جن کو کسی نہ کسی معنی کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔

ہم نے تحقیق سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وضع اس التزام کا نام ہے جس میں کسی خاص لفظ یا ہیئت کاتقرر کیا جائے تاکہا س سے ہر اس امر کی تفہیم ظاہر ہو سکے جسے متکلم کسی کوسمجھانا چاہئے یہ تھا جملہ خبریہ کا مفاداور مفہوم۔

جہاں تک جملہ انشائیہ کا تعلق ہے یہ بھی جملہ خبریہ کی مانند ہے جملہ خبریہ اور انشائیہ میں اتنا فرق ہے کہ جملہ انشائیہ میں پہلے سے کوئی خاص واقعہ موجود نہیں تھا جس کی نسبت کلامیہ مطابق یا مخالف ہو اس بیان کی روشنی میں جملہ انشائیہ میںسات چیزیں ہوا کرتی ہیں اور وہ وہی چیزیں ہیں جو جملہ خبریہ میں ہوتی ہیں البتہ صرف ساتویں اور آٹھویں چیز اس میں نہیں ہو گی اور یہ بات بھی بتا دی گئی کہ جو حضرات کلام نفسی کے قائل ہیں وہ ان نو چیزوں میں سے کسی چیز کو کلام نفسی نہیں سمجھتے۔

اب یہ سوال باقی رہ گیا ہے کہ جملہ انشائیہ کی ہیئت کامفاد (مدلول) کیا ہے ۔ علماء میں مشہور یہی ہے کہ جملہ انشائیہ کوا س لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے عالم انشاء کے مناسب کوئی معنی ایجاد کیا جائے اور علماء کے کلام میں مکرر بیان کیا جاتا ہے کہ انشاء لفظ کے ذریعے معنی ایجاد کرنے کا نام ہے ہم نے اصول فقہ کی بحثوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وجود انشائی کی کوئی اساس اور دلیل نہیں اگرچہ لفظ اور معنی میں ایک عارضی اتحادپایا جاتا ہے جس کا منشاء لفظ اور معنی کے درمیان وہ ربطہ ہے جو وضع کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ لفظ کا وجود اس کیلئے حقیقی و ذاتی ہے اور معنی کیلئے عارضی اور مجازی۔

۵۲۲

یہی وجہ ہے کہ معنی کا حسن و قبیح لفظ تک سرایت کر جاتا ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کی وجہ سے معنی کو ایک وجود لفظی مل گیا ہے اگرچہ لفظ و معنی میں یہ اتحادپایا جاتا ہے لیکن یہ جملہ انشائیہ سے مختص نہیں جملہ خبریہ اور مفردات میں یہ اتحاد پایا جاتا ہے۔

جہاں تک لفظ سے قطع نظر معنی کے وجود کا تعلق ہے وہ دو ہی قسم کا ہو سکتا ہے۔

(۱) معنی کا حقیقی وجود ، جو اس کائناتی نظام میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح اس دنیا کے مختلف جواہر (اشیائ) اور اعراض (صفات) ہیں وجود کی اس قسم کے اپنے خاص علل و اسباب ہوا کرتے ہیں جن کا الفاظ سے کوئی ربطہ و تعلق نہیں ہوتا یہ ایک واضح بات ہے۔

(۲) معنی کا اعتباری اور قراردادی وجود یہ بھی اشیاء کا ایک قسم کا وجود ہے ، لیکن صرف عالم اعتبار اور فرض میں ہے ، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہر فرض و اعتبار ، فرض کرنے والے شخص کی ذات کے ذریعے قائم ہوا کرتا ہے اور اسی سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے۔ الفاظ خارجی پر ہرگز یہ موقوف نہیں باقی رہے لوگوں سے صادر ہونے والے عقود، جیسے بیع و شراء وغیرہ اور ایقاعات ، جیسے غلام آزاد کرنےاور طلاق دینا ، تصدیق اور تملیک و تملک کو جائز قرار دینا یہ چیزیں اگرچہ کسی شخص سے صیغہ عقد و ایقاع کے صادر ہونے پر موقوف ہیں اور معاملہ انجام دینے والے کے قول یا فعل کے بغیر تصدیق شارع بے اثر ہے لیکن شارع کی یہ تصدیق بقصد انشاء کسی لفظ کے صادر ہونے پر موقوف ہے مگر ہماری بحث لفظ کے اس مفاداور مفہوم سے ہے جو مرحلہ تصدیق شارع سے قبل ذکر کیا گیا ہو۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا وجود حقیقی اور وجود اعتباری لفظ پر موقوف نہیں۔ باقی رہا شارع یا عقلاء کا اس وجود اعتباری کی تصدیق کرنا۔ اگرچہ یہ تصدیق متکلم سے لفظ یا کسی دوسرے فعل کے صادر ہونے پر مووف ہے لیکن یہ اس معنی میں کہ لفظ اپنے معنی میں استعمال ہوا ہو اس معنی میں نہیں کہ لفظ سے معنی کو ایجاد کیا گیا ہے جہاں تک وجود لفظی کاتعلق ہے یہ ہر اس معنی کو شامل ہے جس پر کوئی لفظ دلالت کرے جملہ انشائیہ میں کوئی خصوصیت نہیں بنا برایں علماء میں مشہور قول ''انشاء لفظ کے ذریعے ایجاد معنی کا نام ہے،، کی کوئی حقیقت اور اساس نہیں۔

۵۲۳

صحیح قول یہ ہے کہ ہیئت انشائیہ کو اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے انسان باطنی امور میں سے کسی کااظہار کرے ۔ یہی باطنی شئی کبھی تو اعتبارات میں سے ہوتی ہے جیسے امر، نہی عقود اور ایقاعات ہیں اور کبھی صفات میں سے ایک صفت ہوتی ہے جیسے کسی چیز کی تمنا اور امید رکھنا پس جملوں کی ہیتیں باطنی امور میں سے کسی نہ کسی شئی کی علامت اور نشانی ہوتی ہیں یہ شئی جملہ خبر یہ ہیں مقصد بیان اور خبر ہےاور جملہا نشائیہ میں کوئی اور چیز ہوتی ہے۔

جو جملہ اس باطنی امر کو ظاہر کرتا ہے ، کبھی اسے جملوں میں ذکر کرنے کا مقصد اس باطنی شئی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی اور عامل اور مقصدہواہے یہ بات محل بحث و اختلاف ہے کہ جملہ کا دوسر مقصد میں استعمال ہونا حقیقت ہے یا مجاز اس بحث کا یہ موقع نہیں ہے تفصیلی معلومات کیلئے ہماری تعلیقات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کیا ''طلب ،، کلام نفسی ہے؟

لفظ ''طلب،، کے جائے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''طلب،، کسی شئی کو حاصل کرنے کے درپے ہونے کا نام ہے ''طلب الضالتہ،، یعنی گمشدہ چیز کو تلاش کیا اور ''طلب الآخرۃ،، یعنی آخرت کی تلاش ، اسی صورت میں کہا جائے گا جب انسان ان دونوں (گمشدہ چیز اور آخرت) کو حاصل کرنے کے درپے ہو چنانچہ لغت کی کتاب ''لسان العرب،، میں ہے۔

''الطلب محاوله وجدان الشئی واخذه،،

(یعنی) ''مطلب کسی شئی کو حاصل اور دریافت کرنے کی کوشش کا نام ہے،،۔

اس اعتبار سے آمر (حکم دینے والے) پر ''طالب،، صادق آئے گا کیونکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مامور (جس کا حکم دیا گیا ہو) وجود میں آ جائے اس لئے آمروہی ہوتا ہے جو مامور کو متعلق امر (ماموربہ) کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے اور یہی طلب کا مصداق ہے ایسا نہیں کہ امر کوئی لفظ ہو جس کا معنی طلب ہو بنا برایں اس قول کی کوئی اساس باقی نہیں رہتی کہ امر کو طلب کیلئے وضع کیا گیا ہے اور نہ اس بات کی کوئی اساس باقی رہتی ہے کہ ''طلب،، کلام نفسی ہے جس پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

اشاعرہ نے درست کہا کہ ''طلب،، اور ہے ''ارادہ،، اور ہے لیکنان کی یہ بات درست نہیں کہ ''طلب،، ایک باطنی صفت کانام ہے اور یہ کہ اس صفت باطنی پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

۵۲۴

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

گزشتہ بیانات سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا ہو گا کہ جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ میں کلام کی کوئی ایسی قسم نہیں جو نفس انسانی سے وابستہ ہوتا کہ وہ کلام نفسی کہلائے یہ بات ضروری ہے کہ ہر متکلم کیلئے ایجاد کلام سے پہلے اس کلام کا تصور کرنا ضروری ہے اور تصور نفس انسانی میں ایک قسم کے وجود کا نام ہے جس کو وجود ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کلام نفسی کے قائل حضرات کی مراد، نفس انسانی میں موجود یہی کلام ہو تو یہ بات اپنے مقام پر درست ہے لیکن یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ بات صرف کلام سے مختص نہیں بلکہ ہر فعل اختیاری کا تصور ، نفس انسانی میں موجود ہوتا ہے۔ کلام کاتصور بھی اس لئے ضروری ہے کہ یہ متکلم کا ایک فعل اختیاری ہے۔

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

کلام نفسی کے قائل حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات میں کئی دلائل دیتے ہیں۔

(۱) ہر متکلم ، تکلم سے پہلے کلام کو اپنے نفس میں ترتیب دیتا ہے اور خارج میں موجود کلام اس بات کاانکشاف ہے کہ اسی نوعیت کا ایک کلام ، نفس بھی موجود ہے اوریہ ایک واجدانی چیز ہے جسے متکلم اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے چنانچہ شاعر ''اخطل،، نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔

ان الکلام لفی الفوادوانما

جعل اللسان علی الفواد دلیلا

''(یعنی) کلام (حقیقی) تو نفس انسانی میں ہوتا ہے زبان تو صرف اس کلام نفسی کی نشاندہی کرتی ہے،،۔

اس دلیل کا جواب گزر چکا ہے یعنی نفس میں کلام کی ترتیب اس کات صور اور اسے نفس میں حاضر کرنا ہے اور یہی وجود ذہنی ہے جو تمام اختیارای افعال میں پایا جاتا ہے چنانچہ کاتب اور نقشہ کش کیلئے ضروری ہے کہ کتابت اور نقشہ کشی سے پہلے نقشہ اور مکتوب کاتصور کرے اس کا کلام نفسی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

۵۲۵

(۲) نفس انسانی میں موجود مفاہیم پر کلام صادق آتا ہے اور یہ اطلاق صحیح اور حقیقت ہے اس میں کوئی مجاز گوئی بھی نہیں ہے چنانچہ ہر شخص یہ ہتا ہے کہ میرے نفس میں ایک کلام ہے جسے میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا ارشاد ربانی ہے۔

( وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۶۷:۱۳

''اور تم لوگ اپنی بات چھپا کر کہو یا کھلم کھلا وہ تو دل کے بھیدوں تک سے خوب واقف ہے،،۔

اس دلیل کا جواب بھی گزشتہ مطلب سے معلوم ہو گا بایں معنی کہ جس طرح کلام کے وجود خارجی پر کلام صادق آتا ہے اسی طرح کلام کے وجود ذہنی پر بھی کلام صادق آتا ہے بلکہ ہر چیز کے دو قسم کے وجود ہوتے ہیں وجود خارجی اور وجود ذہنی دونوں صورتوں میں چیز کی حقیقت ایک ہی رہتی ہے اور دونوں صعورتوں میں اس شئی کا نام صادق آتا ہے اوریہ مجاز گوئی بھی نہیں کہلائے گی۔

یہ قسمیں صرف کلام سے مختص نہیں ہیں۔ چنانچہ انجینئر کو آپ یہ کہتے سنیں گے میرے نفس میں ایک عمارت کاتصور ہے۔ اسے میں نقشے پر اتاروں گا عبادت گزار انسان کہے گا میرے نفس میں یہ بات ہے کہ کل روزہ رکھوںگا۔

(۳) اللہ تعالیٰ کی ذات پر متکلم کا اطلاق صحیح ہے اور اسم فعال کی ہیئت اور وزن اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء فعل بطور صفت ذات کے ذریعے قائم ہے یہی وجہ ہے کہ الفاظ متحرک ساکن اور نائم اسی شخص پر صادق آتے ہیں جو حرکت ، سکون اور نوم (نیند) کی صفت سے متصف ہو یہ الفاظ اس شخص پر صادق نہیں آتے جو ان کو ایجاد کرے ظاہر ہے کلام لفظی سے اللہ کی ذات متصف نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قدیم ذات کا حادث صفت سے متصف ہونا محال ہے لا محالہ کلام قدیم کا التزام ضروری ہے تاکہ اللہ کی ذات پر متکلم صادق آ سکے۔

۵۲۶

جواب: صیغہ متکلم میں مبداء ، کلام نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ غیر خدا میں بھی کلام اس طرح متکلم کے ذریعے قائم نہیں جس طرح صفت موصوف کے ذریعے قائم ہوتی ہے۔ کیونکہ کلام اس کیفیت کو کہتے ہیں جو ہوا کی لہروں سے حاصل آواز کو عارض ہوتی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو ہوا کے ذریعے قائم ہے متکلم کے ذریعے نہیں صیغہ متکلم میں مبداء تکلم ہے اور تکلم ، ایجاد و معنی کے علاوہ قابل تصور کوئی اور چیز نہیں بنا برایں متکلم جس معنی میں اللہ کی ذات پر صادق آتا ہے اسی معنی میں غیر خدا پر بھی صادق آتا ہے۔

مستدل کا یہ کہنا ہے کہ اسم فاعل کا وزن ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے جس طرح صفت ، موصوف کے ذریعے قائم اورثابت ہوتی ہے یہ قول سراسر غلط ہے۔

اس لئے کہ ہیئت اسم فاعل تو صرف اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے لیکن اس قیام کی خصوصیات کہ آیایہ قیام بطور ایجاد ہے جس طرح ''ضارب،، ہے یا بطور حلول ہے جس طرح مریض ہے یہ خصوصیات ہیئت ضارب کے مفاد اور مدلول میں شامل نہیں موار دو مقامات کے اختلاف کے ساتھ یہ خصوصیات بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں اور کسی ضابطہ وکلیہ کے تحت نہیں آتیں۔

مثال کے طورپر علم اور نوم کے ایجاد کرنے والے پر عالم اورنائم صادق نہیں آتا لیکن قبض و بسط اور نفع و رضر کے ایجاد کرنے والے پر قابض باسط اور نافع و ضار صادق آتے ہیں بنا برایں موجد حرکت پر متحرک صادق نہ آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجد کلام پر متکلم بھی صادق نہ آئے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام نفسی محض ایک مفروضہ ہے۔ جس پر کوئی برہان اور وجدان دلالت نہیں کرتا۔

۵۲۷

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کے خاتمہ کے طور پر موضوع سے متعلق امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد الصادق (علیہما السلام) کی ایک روایت ذکر کی جائے کلینی اپنی سند سے ابی بصیر سے روایت کرتے ہیں میں نے امام صادق (علیہ السلام ) کو یہ فرماتے سنا۔

سمعت ابا عبدالله ۔ع ۔بقول : لم یزل الله عزل وجل ربنا ، والعلم ذاته معلوم ، و السمع ذاته ولا مسموع ، والبصر ذاته ولا مبصر ، والقدرة ذاته ولامقدور فلما احدث الاشیاء وکان المعلوم وقع العلم منه علی المعلوم ، والسمع علی السموع ، و البصر علی البصر ، والقدرة علی القدور ، قال : قلت: فلم یزل الله متحرکا؟ قال : فقال: تعالیٰ الله عن ذلک ، ان الحرکة صفة محدثة بالفعل ، قال : فقلت: فلم یزل الله متکلماً ؟ قال: فقال: ان الکلام صفة محدثة لیست بازلیة ، کان الله عزوجل ولا متکلم (۱)

''خداوند لم یزل و لایزال اس وقت بھی علم ذاتی رکھتاتھا جب کسی معلوم کی ذات نہ تھی ۔ سمع اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھا جب کوئی مسموع نہ تھا بصارت اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھی ، جب کسی مبصر (دکھائی دینے والا) کی ذات نہ تھی اور قدرت خدا اس وقت بھی عین ذات تھی جب کسی مقدور کی ذات نہ تھی۔ اللہ نے جب اشیاء کو خلق فرمایا اور معلومات وجود میں آ گئیں تو علم معلوم پر ، سمع مسموع پر ، بصارت مبصر پر اور قدرت مقدور پر منطبق ہوتی گئی ابو بصیر کہتے ہیں میں نے عرض کی : اللہ ازل سے متحرک بھی ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا اللہ کی شان اس سے بالاتر ہے اور حرکت صفات فعلی میں سے ہے جو حادث ہے ، قدیم نہیں۔ ابوبصیر کہتے ہیں: میں نے کہا : کیا اللہ ازل سے متکلم ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا کلام بھی ایک حادث صفت ہے اللہ کی ذات موجود تھی لیکن متکلم نہیں،،۔

۵۲۸

سورة الفاتحة مکیته و اباتها سبع

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

نزلت بعد المدثر

۵۲۹

تفسیر سورہ فاتحہ

٭مقام نزول

٭ سورہ فاتحہ کے فضائل

٭فاتحتہ الکتاب کی آیات

٭سورہ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

٭سورہ فاتحہ کا خلاصہ

٭بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تحلیل

٭ لغت ، اللہ ، الرحمن ،ا لرحیم

٭اعراب

٭ تفسیر

۵۳۰

مقام نزول:

علما مفسرین میں مشہور یہی ہے کہ سورۃ مکی ہے اوربعض کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے اور پہلا قول صحیح ہے ، اس کی دو دلیلیں ہیں:

اول: سبع مثانی سے مراد سورۃ فاتحہ ہے اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ حجرہ میں فرمایا ہے کہ ''سبع مثانی،، سورۃ حجر سے پہلے نازل کی گئی ہے۔

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تمہیں سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

سورہ حجر کے بارے میں سب کا افاق ہے کہ یہ مکی ہے جب مکی ہے تو اس سے پہلے نازل شدہ سورۃ کو بطریق اولیٰ مکی ہونا چاہئے:

ثانی: نماز کی تشریع مکہ معظمہ میں ہوئی تھی جو تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے اور اسلام میں ایسی کوئی نماز نہیں ہے جس میں سورۃ فاتحہ شامل نہ ہو چنانچہ اس کی تصریح خود رسول اللہ (ص) نے فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا:

''لاصلوٰة اللابفاتحته الکتاب،،

''سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں،،

نمبر ۱ اس بات کی متعدد روایات میں تصریح کی گئی ہے ان میں صدوق اور بخاری کی روایات شامل ہیں جن کا ہم بعد میں ذکر کریں گے۔

____________________

نمبر۱: البخاری ، ج ۶ ، ص ۱۰۳ ، باب فاتحہ الکتاب۔

۵۳۱

اس حدیث کو امامیہ اور غیر امامیہ دونوں نے نقل کیا ہے۔

بعض علماء کاعقیدہ یہ ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کو اس کی عظمت و فضیلت کی وجہ سے دو مرتبہ ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ میں نازل کیا گیا ہے۔

بذات خود اس قول کا احتمال ضرور ہے لیکنیہ دلیل سے ثابت نہیں ہے اور بعید نہیں کہ اسی ، دومرتبہ نازل ہونے کی وجہ سے اس کا نام ''سبع مثانی،، رکھا گیا ہو۔

ایک اور احتمال یہ ہے کہ ''سبع مثانی،، کی وجہ تسمیہ یہ ہو کہ اس کو ہر نمز میں دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے ایک مرتبہ پہلی رکعت میں اور دوسری مرتبہ دوسری رکعت میں۔

سورہ فاتحہ کے فضائل

اس سورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے سورۃ حجر کی اس آیت میں اسے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا اور ارشاد فرمایا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس کے علاوہ ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی ہے کوئی دوسرا سورہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا نماز وہ عمل ہے جو دین کا ستون ہے اور مسلمان اور کافر کے درمیان طرہ امتیاز ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد ہم اس مختصر سورہ میں موجود معارف اور علوم الہیٰ کا ذکر کریں گے

۵۳۲

صدوق نے اپنی سند سے حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے اور آپ (ع) نے امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بسم اللہ الرحمن الرحیم ،، فاتحتہ الکتاب کا جزء ہے اور فاتحتہ الکتاب بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: میں نے رسول اللہ (ص) کویہ فرماتے سنا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے محمد (ص):

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۔ ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ذریعے خاص کر مجھ پر احسان فرمایا اور اسے قرآن کریم کا ہم پلہ قرار دیا فاتحتہ الکتاب عرش الٰہی کے گرانبہا خزانوں میں سے ہے،،

بخاری نے ابی سعید بن معلی سے روایت کی ہے ابی سعید کہتے ہیں۔

''میں حالت نماز میں تھا کہ رسول اللہ (ص) نے مجھے بلایا۔ اس وقت میں نے رسول اللہ (ص) کو جواب نہیں دیااور پھر عرض کی: یا رسول اللہ (ص) اس وقت) میں نماز پڑھ رہا تھا آپ (ص) نے فرمایا: کیا اللہ نے نہیں فرمایا:

( اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ ) ۸:۲۴

''جب تم کو (ہمارا) رسول (محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ایسے کام کیلئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کاباعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کر لو،،۔

اس کے بعدآپ (ص) نے فرمایا:کیا تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں بتاؤں کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کونسا ہے آپ (ص) نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ص)! آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کے بارے میںبتائیں گے آپ (ص) نے فرمایا وہ الحمدللہ رب العمین ہے جو سبع مثانی اور قرآن کریم ہے جو مجھے دیا گیا ہے:

۵۳۳

فاتحتہ الکتاب کی آیات

مسلمانوں میں مشہور قول کے مطابق سورۃ فاتحہ کی آیات سات ہیں بلکہ اس قول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں حسین بن جعفی سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات چھ ہیں عمروبن عبید سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات آٹھ ہیں لیکن یہ دونوں شاذو نادر قول ہیں اور طرفین کی روایات (جن کے مطابق سورہ فاتحہ کی آیات سات ہیں) کے خلاف ہیں:

اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ گزشتہ آیت میں سبع مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے البتہ جو حضرات بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورہ فاتحہ کا جز سمجھتے ہیں وہ صراط الذین انعمت علیھم سے لے کر آخر تک کو ایک آیت سمجھتے ہیں اور جو لوگ بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورۃ فاتحہ کاجز نہیں سمجھتے وہ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین کو ایک مستقل آیت قرار دیتے ہیں۔

سورۃ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

سورہ فاتحہ کے دو اہم مقاصد ہیں:

(۱)عبادت اور پرستش کے قابل صرف اللہ کی ذات ہے۔

(۲) قیامت اور حشر و نشر کی اہمیت بیان کرنا اور یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کی خاطر رسول اللہ (ص) کوب ھیجا گیا اور قرآن کو نازل کیا گیا۔

دین اسلام میں تمام انسانوں کو اللہ کی ذات اور توحید و یگانگی کی دعوت دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی )بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،۔

۵۳۴

خدا کے سوا کوئی ذات پرستش کے لائق نہیں ، ہر بشر اور صاحب ادراک کو چاہئے کہ صرف خدا کے سامنے خشوع و خضوع سے پیش آئے اور اسی کی طرف توجہ کرے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر عقلمند ایسی ذات سے تواضع سے پیش آتا ہے اور اس کی عبادت اور کرتا ہےاور اپنی احتیاجات میں اسی کی طرف رخ کرتا ہے جس میں کوئی کمال پایا جاتا ہو اورہر ناقص کی فطرت ہے کہ وہ کامل کے سامنے متواضع رہے یا وہ اس کی اس لئے پرستش و تواضع کرتا ہے کہ اس نے اس پر احسان کیا ہے ، یا ناقص ، نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے میں اس کامحتاج ہوتا ہے یا کامل ذات کے قہر و غضب اور اس کی سلطنت کی وجہ سے اس کی مخالفت اور معصیت سے احتراز کرتا ہے۔

پس عبادت اور خشوع و خضوع کے اسباب یہی ہیں اور ہر عاقل کو یہ صفات صرف اللہ کی ذات میں نظر آئیں گی لہٰذا حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اس لئے کہ تمام صفات کمال اللہ کی ذات میں مجتمع ہیں اور اس کی ذات میں کسی نقص اور خامی کا شائبہ تک نہیں عالم ظاہر اور عالم باطن موجود اور تدریجاً وجود میں آنے والی موجدات کا منعم بھی اللہ ہے اور پوری کائنات کا تکوینی اور تشریعی مربی اللہ ہے ۔ اللہ ہی کی ذات ہے جو وسیع اور ناقابل زوال رحمت سے متصف ہے اللہ ہی مالک مطلق اور مخلوق کا حاکم اعلیٰ ہے جس کا کوئی شریک اور فریق نہیں۔

بنا برایں اپنے کمال ، انعام ، رحمت اور سلطنت کی بنیاد پر معبود حقیقی اللہ کی ذات ہے ایک عاقل انسان اسی کی طرف توجہ کرتا ہے اسی کی عبادت کرتا ، اسی سے مدد مانگتا اور اس پر توکل کرتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز ممکن الوجود ہے اورممکن الوجود ذاتی طورپر محتاج ہوا کرتی ہے عبادت اسی ذات کی ہو سکتی ہے اور مدد اسی سے مانگی جا سکتی ہے جو مستغنی اوربے نیاز ہے۔

۵۳۵

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ) ۳۵:۱۵

''لوگو تم سب کے سب خدا کے (ہر وقت) محتاج ہو اور (صرف) خدا ہی (سب سے) بے پرواہ سزاوار حمد (وثنا) ہے،،۔

جب اللہ تعالیٰ نے آیات : الحمدللہ رب العالمین ۔ الرحمن الرحیم ۔ مالیک یوم الدین کے ذریعے ثابت کر دیا کہ حمد و ثناء کے لائق صرف اسی کی ذات ہے تو اس نے اپنے بندوں کو تلقین کی کہ وہ دل و جان سے کہیں : ایاک نعبد و ایاک نستعین اس کے بعد اللہ تعالیٰ ، بعثت انبیاء ، انزال کتب اور اتمام حجت کے بعد مختلف لوگوں کے حالات بیان فرما رہا ہے اور اس طرح اس نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کر دیا ہے۔

(۱) یہ وہ لوگ ہیں ، خدا کی رحمت و نعمت جن کے شامل حال ہے جنہوں نے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کی اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔

(۲) وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہو گئے اور ادھر ادھر منحرف ہوئے اگرچہ یہ لوگ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے حق کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں لیکن حق سے عناد اور دشمنی نہیں رکھتے ان کا گمان یہی ہے کہ دین حق وہی ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس راستے کو انہوں نے اپنایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔

(۳) وہ لوگ ہیں جن کو حب جاہ و مال نے حق سے دشمنی اور عناد پر آمادہ کر دیا چاہے انہوں نے حق پہچان کر اس کا انکار کیا ہو یا سرے سے حق کو نہ پہچانا ہو یہ وہ لوگ ہیں جو درحقیقت اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ) ۴۵:۲۲

''بھلا تم نے اس شخص کوبھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے،،۔

گمراہوں کی اس قسم کا کفر پہلے سے زیادہ شدید ہے اور وہ اپنی گمراہی کی وجہ سے عقاب کے مستحق ہوں گے اس کے علاوہ حق سے عناد اور دشمنی کی وجہ سے بھی وہ معاقب ہوں گے۔ چونکہ بشرحب مالو مقام کی خواہشات سے خالی نہیں ہوسکتا اور جب تک ہدات الٰہی شامل حال نہ ہو گمراہی میں مبتلا ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتا چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

۵۳۶

( وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۲۱

''اور اگر تم پر خدا کافضل (وکرم) اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوء بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا مگر خدا تو جسے چاہتا ہے پاک و صاف کر دیتا ہے اور خدا بڑا سننے والا واقف کار ہے،،۔

چونکہ گمراہی کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ نے اپنے بندوں کو یہ تلقین فرمائی کہ وہ اللہ سے ہدایت طلب کریں اور دعا کے طور پر عرض کریں :اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

ان آیات میں بندے اپنے رب سے اس ہدایت کا مطالبہ کرتے ہیں جو مومنین سے مختص ہے ، ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے۔

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،۔

نیز وہ اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرمائے جنہیں اس نے نعمتیں بخشی ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ) ۱۹:۵۸

''یہ انبیاء لوگ جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی تھی ، آدم کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کر لیا تھا اور ابراہیم و یعقوب کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدا کی نازل کی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدہ میں زار و قدار روتے ہوئے گرپڑتے تھے،،۔

اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں ان دونوں فرقوں کے راستے پر نہ چلائے جو ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے ہوں:

( الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )

۵۳۷

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ

پہلے اللہ نے ان اوصاف کے ذریعے اپنی ذات اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی جن کات علق اس کی ذات اور افعال سے ہے اور یہ کہ وہ تمام عالم کا پروردگار ہے اور اس کی عام رحمت اس سے ہرگز جدا نہیں ہو سکتی اور روز محشر حکومت اسی کی ہو گی یہ اس سورہ کا پہلا مقصد تھا۔

اس کے بعد عبادت اور استعانت کو اپنی ذات میں منحصر کر دیا بنا برایں ذات الٰہی کے علاوہ کوئی اور اس قابل نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے یااس سے مدد طلب کی جائے یہ اس آیت کا دوسرا مقصد تھا اس کے بعد اللہ نے لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کریں جو انہیں ابدی زندگی لازوال نعمتوں اور اس نور کی رہنمائی کرے جس کے بعد کوئی ظلمت نہ ہو یہ سورہ مبارکہ کا تیسرا مقصد تھا پھر ذات الٰہی نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ یہ صراط مستقیم ان لوگوں سے مخصوص ہے جن پر اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نعمتیں نازل فرمائی ہیں اوریہ صراط مستقیم ان لوگوں کی راہ سے مختلف ہے جن پر غضب نازل ہوا اوران لوگوں کی راہ سے بھی مختلف ہے جو راہ راست سے بھٹک چکے ہیں یہ سورہ مبارکہ کا چوتھا مقصد تھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کی تحلیل

لغت

اسم: لغت میں اسم کامعنی علامت ہے اور اس کا ھمزہ ، حمزہ وصل ہے اور لفظ کا لازمی جز نہیں ہے ویسے تو اس میں بہت سی لغات ہیں لیکن ان میں سے چار لغات مشہور ہیں ''اسم ،، ، ''اسم،، ، ''سم،، اور ''سم،، اسم کو دراصل ''سمو،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی بلندی ہے اس میں مناسبت یہ ہے کہ اسم کی وجہ سے اس کا معنی بلند ہو جاتا ہے اور خفار (پوشیدگی) سے ظہور میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے سامع کے ذہن میں لفظ کو سن کر اس کا معنی حاضر ہو جاتا ہے یا اس مناسبت سے یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ لفظ وضع کی وجہ سے گمنامی سے نکل آتا اور استعمال میں آنے لگتا ہے۔

۵۳۸

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اسم ، سمہ (علامت) سے مشتق ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ اسم کی جمع اسماء اور تصغیر ''سمی،، ہے اور جب اس کی طرف کسی چیز کو نسبت دی جاتی ہے تو ''سموی،، اور ''اسمی،، بولا جاتا ہے اور اگر اسے متعدی بنائیں تو ''سمیت ،، یا ''اسمیت،، کہا جاتا ہے اگر اسم ، سمہ سے بنا ہوتا تو اس کی جمع ''اوسام،، اور تصغیر ''وسیم،، آتی ہے اور نسبت کے وقت ''وسمی،، اور متعدی بنانے کی صورت میں ''وسمت،، اور ''اوسمت،، پڑھا جاتا۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ''اسم،، ''سمہ،، سے نہیں بنا بلکہ ''سمو،، سے بنا ہے۔

اللہ: یہ لفظ ذات مقدس الٰہی کا مخصوص نام ہے اور زمانہ جاہلیت میں بھی عرب ، ذات الٰہی کو اسی نام سے جانتے تھے۔

چنانچہ مشہور عرب شاعر لبید کہتا ہے۔

الا کل شی ماخلا الله باطل و کل نعیم لامحالة زائل

''اللہ کے علاوہ ہر شے باطل ہے ، اور آخر کارہر نعمت زائل ہو جانے والی ہے،،

خود اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے۔

( وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ ) ۳۱:۲۵

'' اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہہ دیں گے اللہ نے،،۔

بعض علماء کا یہ خیال قطعی طورپر غلط اللہ (لفظ انسان کی طرح) اسم جنس ہے ، جس کاایک ہی فرد پایا جاتا ہے ہم اس مقام پر اپنے مدعی کے اثبات میں چار دلائل پیش کرتے ہیں:

۵۳۹

(۱) تبادر ، یعنی جب بھی لفظ اللہ بولا جاتا ہے بغیر کسی دوسرے قرینہ اور علامت کے ذات الٰہی ذہن میں آتی ہے جس میں کوئی بھی شخص شک نہیں کر سکتا اگر کوئی شخص یہ احمال دے کہ ممکن ہے کہ اصل نعمت میں لفظ اللہ اسم جنس ہو اور بعد میں اس لفظ کو ذات الٰہی سے مختص کر دیا گیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ قائد کلیہ یہ ہے کہ شک کی صورت میں اس احتمال کو کالعدم فرض کیا جاتا ہے چنانچہ میں نے علماصول میں اس قائدے کو ثابت کیا ہے۔

(۲) لفظ اللہ اپنے معنی میں صفت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ العالم اللہ ، الخاق اللہ بایں معنی کہ لفظ اللہ کے ذریعے عالم اور خالق کی صفت بیان کی جائے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لفظ اللہ اسم مشتق نہیں ہے اور جب اسم جامد ہو گا تو لامحالہ یہ علم ہو گا۔ کیونکہ جن حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے وہ مشتق والے معنی کی صورت میں اس کی تفسیر کرتے ہیں۔

(۳) اگر لفظ اللہ علم نہ ہوتا اور اسم جنس ہوتا تو کلمہ لاالہ الا اللہ سے توحید ثابت نہ ہوتی جس طرح لاالہ الا الخالق ، لاالہ الاالرزاق وغیرہ سے توحید ثابت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی لاالہ الا الرزاق یا الا الہ الاالخالق کہے تو وہ مسلمان نہیں کہلائے گا۔

(۴) حکمت وضع کا تقاضا ہے کہ جس طرح دوسرے مفاہیم کیلئے کسی نہ کسی لفظ کو وضع کیا گیا ہے اسی طرح ذات واجب الوجود کیلئے بھی کوئی نہ کوئی لفظ وضع کیا جانا چاہئے اور لغت عرب میں لفظ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں جس کو واجب الوجود سے مختص کیا گیا ہو اس سے ثات ہوتا ہے کہ لفظ اللہ ہی ہے جس کو واجب الوجود کیلئے مختص کیا گیا ہے۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ کسی بھی لفظ کو کسی معنی کیلئے وضع کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ واضع (وضع کرنے والا) لفظ کابھی تصور کرے اور اس معنی کا بھی تصور کرے جس کیلئے لفظ کو وضع کرنا چاہتا ہے اور غیر خدا کیلئے خدا کا تصور کسی طرح بھی ممکن نہیں اس طرح ذات واجب الوجود کیلئے کسی لف کا وضع کیا جانا بھی محال ہو گا۔

۵۴۰