البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 321478 / ڈاؤنلوڈ: 9581
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئےاخر جواب تو وہی نکلا جو بابا اور نانا نے دیا تھااور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اپ کا یہ دانہ توڑ دیںتو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑا بلکہ خدا کے حکم سے جبرئیل امین ؑنے دوبرابر حصہ کیااور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے

بچوّں کے درمیان مساوات

نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیا تو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل کی رسول خدا (ص) تائید نہ کریںمیرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا:تو اپﷺ نے فرمایا: کیا سب کو دیدیے؟ کہا نہیںتو اپﷺ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرواور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش اؤمیں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(1)

والدین نظم و حقوق کا خیال رکھیں

امیر المؤمنین(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اسلام(ص)میرے گھر پر ارام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا اپ اٹھے اور کچھ دودھ لے کر ائے اور امام حسن (ع)کو پیش کیا،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لے کر پینا چاہا پیغمبر اسلام (ص)نے امام حسن(ع) کی حمایت کی اور امام حسین(ع) کو نہیں دیایہ منظر حضرت زہرا(س) دیکھ رہی تھیں،کہنے لگیں: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن(ع)سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا:نہیں بلکہ اس لئے حسن(ع) کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھامیں نے اس کی نوبت کا خیال کیا ہے

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص273

۴۱

ایک شخص رسول خداﷺ کی خدمت میں اپنے دو بچوّں کیساتھ حاضر ہوا،ایک بچےّ کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا تو اپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوّں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمہارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں(1)

بچےّ کو خدا شناسی کا درس دیں

بیٹے کے حقوق  کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: 

وَ امَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ الَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِهِ وَ شَرِّهِ وَ انَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وَلِيتَهُ مِنْ حُسْنِ الْادَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَ ی رَبِّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَعُونَةِ عَلَ ی طَاعَتِهِ فَاعْمَلْ فِي امْرِهِ عَمَلَ مَنْ يَعْلَمُ انَّهُ مُثَابٌ عَلَ ی الْاحْسَانِ الَيْهِ مُعَاقَبٌ عَلَ ی الْاسَاءَةِ الَيْه‏ (2)

یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ وہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تمہاری طرف نسبت دی جائے گی،اور تم ہی اس کا ولی ہوگا، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بناؤ اسے اصول دین کا سبق سکھاؤ اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگاؤ اور اس سلسلے میں اس کی مدد کرو تاکہ خدا کے نزدیک تم سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکو، اگر ان امور میں سستی کی تو تم نے عذاب الہٰی کو اپنے لئے  امادہ کیا ہے، پس ضروری ہے کہ اسے  کچھ اس طرح تربیت دو کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھیں تو تمہیں اچھے نام سے یاد کریں، اور تم بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکو

شیخ شوشتری(رض) جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے 80 سال کی عمر میں 283ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیںمجھ سے کہا بیٹا کیا اپنے خدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت ائے تو 3بار دل سے کہو:

--------------

(1):- بحار الانوار ،ج23،ص113

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه    ج2 ، ص 621  ، حقوق اسل امی،ص ۱۵۶

۴۲

(خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں)

کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت 7 مرتبہ پڑھ لیا کرومیں نے ایسا کیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگاایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرویہی ذکر تمیںس دنیا و اخرت دونوںمیں سرخ رو کریگااس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا(1)

کاشف الغطا اور بیٹے کی تربیت

حضرت ایةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچےّ کی تربیت کرنے کے لئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں، وہ یہ ہے: اپ چاہتے ہیں کہ اپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائےاور اخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتا رہےایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بستر کے قریب ائے اور بالکل ارام سے اسے بیدار کرنے لگے اور کہا عزیزم !اٹھو حرم مولا علی (ع)چلیں

بیٹے نے کہا:بابا اپ جائیں میں بعد میں اؤں گا کہا نہیں بیٹا میں منتظر رہوں گابیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئےایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا

اس وقت ایةاللہ کاشف الغطاء (رح) نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں بیٹاا ہے؟

کہا: بھیک مانگنے کے لئے

کہا:اسے  کتنے درہم ملتے ہونگے؟

بیٹا:شاید کچھ رقم ملتی ہوگی اور واپس جاتا ہوگا

کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟

بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا

--------------

(1):-  الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان،ص49

۴۳

یہاں جس نکتے کی طرف اپ بچےّ کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر اگئے اوراپنا مطلب کے لئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کے لئے سویرے سویرے یہاں اتا ہے جبکہ اسے سوفیصد  یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر اتا ہے؛ لیکن تیںر  تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالیٰٰ نے سحر خیزی کے لئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین (ع)کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!

اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے اخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا(1)

ہمیں بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہںد کہ ہمارے بچےّ بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم خود اس پر عمل پیرا ہوںچنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں  اپنے بیٹے کو لے ائی کہ اسے نصیحت کریں کہ وہ خرما نہ کھائےکیونکہ حکیموں نے اس کے لئے  منع کیا ہےیا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز اجائےاپ نے فرمایا:بہت اچھا اج اسے لے جائیں کل لے ائیںدوسرے دن جب ائی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی: بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمہاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ  کھجور کھا سکواور زیادہ کھیل کود کر سکواور خوش وخرم زندگی بسر کرسکو اور تمہاری ماں بھی تم پر راضی ہوسکےبچےّ نے اپ(ص) کی باتوں کو قبول کرلیا اور کہا: اب بات سمجھ میں ائی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤںاب میں دلیل سمجھ گیا جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر بھرے لہجے میں کہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو اپ بتا سکتے تھے

فرمایا: کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرو(2)

--------------

(1):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص208

(2):- الگوہای تربیت کودکان ونوجوانان ،ص316

۴۴

امام خمینی اور بچوّں کی تربیت

امام خمینی ؒ کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح) بچوّں پر بہت مہربان تھےہم گھر میں بڑے مہر ومحبت  کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی برا کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھےعملی طور پر ہمیں سمجھادیا گیا تھا کہ کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف نہیں کریں گےہم بھی فروعی کاموں میں ازاد لیکن اصولی کاموں میں سخت پابند تھےہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرےہمیشہ ہمیں پابند رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اوراداب اسلامی کی پابندی کریںاس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتےہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت اتی  تو سختی سے اعتراض کرتے تھےہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھےنماز کے وقت بھی اگر کھیلتے تو کبھی نہیں کہتے،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے اؤ وضو کریں نماز پڑھیںبلکہ خود اذان سے ادھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اوراپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کے لئے تیار ہوجاتےاور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں  وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے تھے اپ معتقد تھے کہ بچےّ ازادانہ کھیل کود کریںفرماتے تھے اگر بچےّ شرارت نہ کریں تو وہ بیمار ہیں ان کا علاج کرنا چاہئے

اپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح) سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی اور گہری  نیند سے نماز صبح کے لئے اٹھایا کرتی تھیجب امام خمینیؓ کو یہ معلوم ہوا تو پیغام بھیجا کہ: اسلام کی مٹھاس کو بچےّ کے لئے تلخ نہ کرو! یہ بات اس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انہیں نماز صبح کے لئے ضرور جگایا کریں اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین  کو سمجھا(1)

--------------

(1):- خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای افتاب،100

۴۵

بچوّں کومستحبات پر مجبور نہ کریں

والدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے اسے صبح سے لے کر رات تک مسجد میں قید رکھا،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا: بھائی مجھے بال بچےّ بھی پالنا ہے تم کسی اور بے کار ادمی کو تلاش کرو اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا

ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کے لئے جگایا کرتے تھےمیں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے اواز دیتے تھے، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سے ولا الضالین کہتا تھا(1)

بچوّں کی تربتت اور والدین کی رفتار

یہ بھی واضح ہے کہ بچوّں کے لئے سب سے نزدیک ترین عملی نمونہ اس کے والدین ہیں، بچوّں کو زبان سے نصیحت کرنے، زبانی تعلیم دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے والدین کی رفتار سے وہ ادب سیکھتے ہیں اور یہی بہترین روش تعلیم بھی ہے:

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ ع انَّهُ قَالَ كُونُوا دُعَاةَ النَّاسِ بِاعْمَالِكُمْ وَ لَا تَكُونُوا دُعَاةً بِالْسِنَتِكُم‏ (2)

 امام صادق نے فرمایا:لوگو! تم ،لوگوں کو اپنے کردار کے ذریعے نیکی کی طرف دعوت دو نہ کہ  زبانی

شاعر کہتا ہے:اولاد بداخلاق ہو یا خوش اخلاق،یہ استاد اور معلم کے سکھانے اور تربیت دینے کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ماں  کی تربیت گاہ سے اسے ورثے میں ملا ہےاور یہ بھی معلوم ہے کہ اچھی اولاد کی تربیت نادان ماں کے لئے ممکن نہیں اسی طرح عورت اگر پاک دامن اور خوش خلق ہو تو یہ تاریک راتوں میں چمکنے والے درخشان ستاروں کی مانند ہے فرزندان ملت کی خوش بختی اور سعادت ایسی باشعور ماؤں کے ہاتھ میں ہے

--------------

(1):- قصص العلما،ص185

(2):-بح ار ال انو ار     5 ،ص198  ب اب 7- الهد اية و ال اضل ال و التوفيق

۴۶

کودک ہر انچہ دارد از اغوش مادر است             زشتخوی باشد و گر نیک محضر است

در دفتر معلم و اموزگار نیست             ان تربیت کہ زادہ دامان مادر است

فرزند خوب، مادر نادان نپرورد             این نکتہ نزد مردم دانا مقرّر است

زن چون عفیف باشد و دانا و نیکخوی             در تیرگی جہل چو تابندہ اختر است

در دست مادرانِ خردمندِ و باہنر             خوشبختی و سعادت ابناء کشور

بچوّں کےحضور میں دعا مانگیں

والدین کا بچوّں کے لئے نمونہ بننے کے لئے صرف برے کاموں سے بچنا کافی  نہیں ہے بلکہ اچھے اور نیک کاموں کو انجام دینا بھی ضروری ہے کیونکہ نیک کاموں کے بہت سارے نمونے اور مصداق ہیں،جیسے نماز پڑھنا کہ اگر ہم جلدی جلدی پڑھیں تو ہمارے بچےّ بھی جلدی جلدی پڑھیں گےاور اگر ہم اہستہ اہستہ پڑھیں تو وہ بھی اہستہ پڑھیں گے اسی طرح ہم صرف اپنی مشکلات کی دوری کے لئے دعا کرتے ہیں یا دوسروں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اس میں بھی نمونہ بن سکتے ہیں چنانچہ روایت ہے:

 عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ اخِيهِ الْحَسَنِ قَالَ رَايْتُ امِّي فَاطِمَةَ ع قَامَتْ فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ جُمُعَتِهَا فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّ ی اتَّضَحَ عَمُودُ الصُّبْحِ وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ تُسَمِّيهِمْ وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ فَقُلْتُ لَهَا يَا امَّاهْ لِمَ لَا تَدْعُوِنَّ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعُوِنَّ لِغَيْرِكِ فَقَالَتْ يَا بُنَيَّ الْجَارُ ثُمَّ الدَّارُ (1)

امام حسن(ع) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ  شب جمعہ کو میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ محراب عبادت میں اپ کھڑی ہیں مسلسل نمازیں پڑھی جارہی ہیں یہاں تک کہ صبح کا وقت اگیا اپ مؤمنین مردوں اور عورتوں کے حق میں نام لے لے کر دعا مانگتی رہیں لیکن اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگںا میں نے عرض کیا مادر گرامی !اپ نے کیوں اپنے لئے دعا نہیں  مانگںک؟ تو میری ماں نے کہا: بیٹا پہلے پڑوسی پھر اہل خانہ

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة، 7،ص112، ب اب استحب اب اختي ار ال انس ان الدع

۴۷

یہ ایک درس اور نمونہ ہے ہمارے لئے جو امام حسن مجتبیٰ (ع)کے ذریعے جناب فاطمہ(س) ہمیں دے رہی ہیں اور ہمیں بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کے لئے ایسا درس دیں جو اپنی دعاؤں میں دوسرے مؤمنین کو بھی یاد کریں تاکہ لاکھوں گنازیادہ ثواب زیادہ ملے

چنانچہ روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے کسی مؤمن بہن اور بھائی کے لئے ان کی غیر موجودگی میں دعا کرے، اس کے لئے پہلے اسمان سے ندا ائے گی کہ اے بندہ خدا اس کے عوض میں  اللہ تعالیٰٰ نے تمہیں ایک لاکھ کے برابر اجر عطا کیا، دوسرے اسمان سے اواز ائے گی دو برابر اجر عطا کیا ، تیسرے اسمان سے ندا ائے گی تین لاکھ کےبرابر اسی طرح ساتویں اسمان سے ندا ائے گی سات لاکھ  کے برابر اجر عطا کیا

بچوّں کی تربیت میں معلم کا کردار

ابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے 41ھ میں مسند خلافت پر انے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین ادمی کے طور پر  تعارف کرائے اس مکروہ ہدف کے حصول کے لئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل علی (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال و زر دیا گیا تاکہ اپ کے خلاف پیغمبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑم لیںاس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائےیہ عملی بھی ہوا اور بچےّ باتوں باتوں میں اپ پر لعن کرنے لگےعمر بن عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوّں کے ساتھ علی(ع) پر لعن کر رہا تھا اس وقت وہاں سے اس کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھے کا گزر ہواوہاں سے تو خاموش نکل گیا،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوا اور عمر ایا تو استاد نماز میں مشغول ہوا نماز کو طول دینا شروع کیا، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے

عمر نے پوچھا:حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟

تو استاد نے کہا: بیٹا کیا اج تم نے علی پر لعن کاا؟

کہا: ہاں

۴۸

کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہےکیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟

 کہا: کیا بدر اور اہل بدر کے لئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟

عمر نے کہا:میں اپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ اج کے بعد زندگی بھر ان پرلعن نہیں کرونگا کئی سال اسی طرح گزر گئےایک دن اس کا والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دے رہا تھالیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت ایا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا

کہا:بابا جان! میں نہیں جانتا کہ کیوں کر اپ کی فصاحت وبلاغت ادھر اکر ماند پڑ گئی اور زبان بند ہوگئی ؟!

کہا:میرے بیٹے! اس پر تم متوجہ ہوا؟!

بیٹے نے کہا:جی ہاں

باپ نے کہا:میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مردالٰہی (علی(ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جائے تو یہ سب ان کی اولادوں کے پروانے بن جائیں گے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں ائیں گے

جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیااس وقت اس نے یہ عدں کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار ایا تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا اور جب 99ھ میں یہ برسر اقتدار ایا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی ؑپر لعن طعن کو ممنوع قرار دیا اس لعن کے بدلےانّ الله یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے  کا حکم دیا

دینی تعلیم دینا واجب

روایت میں ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا: افسوس ہواخری زمانے کی اولادوں پر کہ ان کے والدین انہیں دینی تعلیم نہیں دیں گے، کسی نے سوال کیا اپ کی مراد مشرک والدین ہے ؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میری مراد مؤمن والدین ہیں جو اپنے بچوّں کو دینی تعلیم نہیں دلائیں گے اور اگر بچےّ کوئی چیز سیکھنا چاہیں تو منع کریں گے اور دنیا کی معمولی چیز انہیں دے کر اپنے اوپر راضی رہیں گے، میں ایسے والدین سے بیزار ہوں

۴۹

بچوّں کو تعلیم دینے کا ثواب

پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا: جب استاد بچےّ کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہلاتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچےّ اور اس کے والدین اور معلّم کو اتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے(1) امام صادق (ع)نے رسول خداﷺسے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسی ٰ(ع) ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گزرے تو عذاب ٹل چکا تھا

سوال کیا پروردگارا!کیا ماجراہے؟

وحی ائی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات مل گئی

امام حسین(ع) اور معلم کی قدردانی

عبد الرحمن سلمی نے امام حسین(ع)  کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام  نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے  اسےکچھ جواہرات ، اورکپڑے دیے  تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امامؑ  نے فرمایا: کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا (تعلیم)کے برابر ہوسکتا ہے؟(2)

والدین سے زیادہ استاد کا حق

سکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا، جب اس سے وجہ پوچھی تو کہا: میرےباپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھا کراسمان پر لے گیا(3)

--------------

(1):-   جامع احادیث شیعہ،ج15،ص9    (2):- مستدرک الوسائل،ج1،ص290

(3):- کشکول شیخ بہائی،ص27

۵۰

امام سجاد (ع)فرماتے ہیں: تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کی تو اسے محترم سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے اپنی اواز ان کی اواز  سے زیادہ اونچی نہ کرے اور اگر کوئی شخص ان سے کچھ پوچھے تو تم جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتم اس کا دفاع کرے، تم  ان کے عیوب پر پردہ ڈالے اور ان کی اچھائیاں ظاہر کرے ان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور ان کے دوستوں سے دشمنی کا اغاز نہ کرے  اگر تو ا یسا کرے گا تو خدا تعالیٰٰ کے فرشتے گواہی دینگے کہ تم نے ان کی  جانب توجہ دی ہے اور تم نے علم لوگوں کی توجہ مبذ ول کرانے کے لئے نہیں بلکہ خدا کے لئے حاصل کیا ہےاور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تم یہ جان لے کہ خدا تعالیٰٰ نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے لہذا اگر تو انہیں اچھی  طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالیٰٰ اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انہیں ڈرائے او ران پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالیٰٰ تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے(1)

والدین کی ظلم وستم اور فراری بچےّ

یہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جواس نے  اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرار ہونے سے پہلے لکھا تھا:بابا یہ پہاہ اور اخری خط ہے جسے غور سے پڑھ لو تو شاید اپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکا ہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھ لو کہ کس قدر خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تم سے متنفر ہوں دوبارہ تیرا منحوس چہرہ نہیں دیکھوں گی، تم اس قابل نہیں کہ تمہیں باپ کہہ کر پکاروںبلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کے لئے کبھی پیدا نہیں ہواتم ایک پلید اور کثیف بلا ہوتم نے مجھے بچپن سے لے کر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا،

--------------

(1):- مکارم الاخلاق،ص484

۵۱

میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیاجبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ایک بیٹی کے لئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تم نے میری ماں کو طلاق دی اور وہ مجھے اخری بار اپنی اغوش میں لے کرگرم انسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی  وہ زندہ ہے یا مردہ؟لیکن اس دن جب تم نے مجھے اواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں، کہ تیری ماں مر گئی ہےیہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تم نے مجھے ٹھوکر ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا !اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تمہارا اس وحشی رویے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی یہ رات کے ساڑھے گیارہ  بج چکے ہیں جب کہ تم اور تمہاری بیوی ابھی تک فلم ہال سے گھر واپس نہیں لوٹے کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کے لئے نکل جاؤں گیاور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میں موجود ہیں مگر لوگوں کو یقین نہیں ائے گا(1)

اولاد صالح  خدا کی بہترین نعمت

حسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امام صادق (ع) کی خدمت میں ایاامام(ع)نے فرمایا:کیوں غمگین ہو؟اگر خداتعالیٰٰ تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ میں تمہارے بارے میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہےامامؑ نے قران کی اس ایہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضر(ع) کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)نے سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی:فَارَدْنَا ان يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَاقْرَبَ رُحْمًا (2)

--------------

(1):-  الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص248

(2):-  الکہف،81

۵۲

"تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی اور  صلئہ رحم میں بھی اس سے بہترہو"

خدا تعالیٰٰ نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (70)ستّر پیغمبران الٰہی وجود میں ائے(1)

دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت غمگین ہوجاتے تھےایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے،تو وہ بہت غمگین ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑ دیابہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا: اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لےں تم غمگین ہوگئے ہو؟!کیا تمہارا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہوجاتا؟!اسحاق بے اختیار ان حکیمانہ باتوں کو سن کرمسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا(2)

 بیٹی کی عظمت

رسول خدا(ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کے لئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہواس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھےکیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل(ع) میں سے ایک غلام ازاد کیا ہواور اگر بچےّ کو خوش کیا تو خوف خدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہےاور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے(3)

--------------

(1):-   سفينة البح ار،ج1،ص108   

(2):- مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل

(3):- اثار الصادقین،ج15،ص310

۵۳

اسی لئے بیٹے سے زیادہ بیٹی کو اسلام نے  توجہ کا مرکز قرار دیا ہے:شاعر کہتا ہے:

بیٹا ہوسکتا نہیں بیٹی سے خدمت میں سوا     ہے یہ تاریخ کے صفحات پہ اب تک لکھا

بیٹوں نے زر کے لئے باپ کا کاٹا ہے گلا    ہاتھ سے بیٹی کے چھوٹا نہیں دامان وفا

پھوڑدیں بیٹوں نے جب شاہجہاں کی انکھیں    بیٹی ہی بن گئی اس سوختہ جاں کی انکھیں

ہوئی سو بار جہاں میں یہ حقیقت روشن   بیٹی کردیتی ہے ماں باپ کی تربت روشن

کون کہتا ہے  کہ بے وزن وبہا ہے بیٹی    ادمیت کے لئے حق کی عطا ہے بیٹی

کیا خبر کتنے نبیوں کی دعا ہے بیٹی   شمع اغوش رسول دوسرا ہے بیٹی

جس کے دامن میں یہ غنچہ ہو اسی سے پوچھو

قیمت اس گل کی رسول عربیﷺ سے پوچھو

بیٹی کیا چیز ہے یہ قلب نبی سے پوچھو     جذبہء الفت شاہ مدنی سے پوچھو

فاطمہ اور نہ خاتون جنان  کہتے تھے    اپنی بیٹی کو نبی پیار سے ماں کہتے تھے(1)

بچوّں پر  والدین کے حقوق

اللہ تعالیٰٰٰ نے انسانوں بلکہ ہر ذی روح کے لئے دنیا  میں  ماں  باپ سے زیادہ مہربان اور دلسوز مولمق کو  وجود نہیں بخشا خصوصا بنی نوع انسان  کے لئے ماں باپ کی محبت اور شفقت جو خدا تعالیٰٰٰ نے ان کے دلوں میں  ڈالی ہے، ناقابل بیان ہے، یعنی اسے  بیان کرنے سے زبان قاصر  ہے اب چونکہ یہ اپنی اولاد کے لئے اپنا ارام وسکون کھو بیٹھتے ہیں ؛ تو اس کے مقابلے میں اولاد پر بھی(هل جزاء الاحسان الّا الاحسان) کے مطابق  خدا وند حکیم نے  ان کا احترام واجب قرار دیاہے  بلکہ اپنی عبادت اور بندگی کا حکم دینے کے فورا بعد والدین پر احسان کرنے کا حکم دیاہے

--------------

(1):- کتاب والفجر،ص۱۴۰

۵۴

والدین کا چہرہ دیکھنا عبادت

اس بارے میں رسول گرامی اسلام ﷺ سے روایت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللهِ ص مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ الَ ی وَالِدَيْهِ نَظَرَ رَحْمَةٍ الَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ بِكُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُورَةً قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَ انْ نَظَرَ الَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ الْفِ مَرَّةٍ (1)

ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے  والدین کے چہرے  پر مہربان اور احسان کے ساتھ نظررحمت کرے گا، اس کے لئے  خدا تعالیٰٰٰ ہر  ایک نگاہ  کے بدلے  ایک مقبول حج لکھ  دیتا ہے کسی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اگر دن میں سو مرتبہ  نظر کرے  تب بھی؟! تو اپ ﷺ نے فرمایا: اگر ایک لاکھ مرتبہ دیکھے تو  بھی ایک لاکھ حج مقبول اس کے لئے لکھ دیگا

بچوّں پر باپ کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ ابِيكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهُ اصْلُكَ فَانَّكَ لَوْلَاهُ لَمْ تَكُنْ فَمَهْمَا رَايْتَ مِنْ نَفْسِكَ مَا يُعْجِبُكَ فَاعْلَمْ انَّ ابَاكَ اصْلُ النِّعْمَةِ عَلَيْكَ فِيهِ فَاحْمَدِ اللهَ وَ اشْكُرْهُ عَلَ ی قَدْرِ ذَلِكَ وَ لَا قُوَّةَ الَّا بِالله (2)

اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمہاری اصل اور جڑ ہے اور تم اس کی فرع اورشاخ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے اور خدا کی تھک پر نعمتوں کے موجب وہ تھے، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو

--------------

(1):-مستدرك‏ الوس ائل،ج 15 ، ص 204    جملة من حقوق الو الدين

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه،ج2 ، ص621ب اب الحقوق ،ص 618

۵۵

اور کوئی بھی طاقت خدا  کی طاقت سے زیادہ نہیں  ہے اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کے مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش  کرنے کے لئےہمارے والدین  دن رات زحمتیں اٹھاتےہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیںاسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری  بھی ضرور کریںلیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقّہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے:

عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ ابِيهِ قَالَ قُلْتُ لِابِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ الَّا فِي خَصْلَتَيْنِ انْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ اوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه (1)

حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر (ع) سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا: صرف دو صورتوں میں ممکن  ہے: پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر ازاد کردے، یا اگر باپ کسی کا مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے

باپ کا احترام واجب

قران مجید کی ایتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا تاکید کے ساتھ حکم دیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اوراحترام نہ کرنے کا گناہ اور برا اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے: 

عَنْ ابِي عَبْدِ اللهِ قَالَ انَّ يُوسُفَ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ الشَّيْخُ يَعْقُوبُ دَخَلَهُ عِزُّ الْمُلْكِ فَلَمْ يَنْزِلْ الَيْهِ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا يُوسُفُ ابْسُطْ رَاحَتَكَ فَخَرَجَ مِنْهَا نُورٌ سَاطِعٌ فَصَارَ فِي جَوِّ السَّمَاءِ فَقَالَ يُوسُفُ يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذَا النُّورُ الَّذِي خَرَجَ مِنْ رَاحَتِي فَقَالَ نُزِعَتِ النُّبُوَّةُ مِنْ عَقِبِكَ عُقُوبَةً لِمَا لَمْ تَنْزِلْ الَ ی الشَّيْخِ يَعْقُوبَ فَلَا يَكُونُ مِنْ عَقِبِكَ نَبِيٌّ  (2)

---------------

(1):-  بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶

(2):-الك افي ، ج 2 ، ص 311    

۵۶

چنانچہ امام صادق(ع) سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب (ع) مصر میں وارد ہوئے تو حضرت یوسف (ع)بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے نکلے جب نزدیک ہوئے تو مرتبہ و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ اپ سواری سے نیچے نہیں اترے(اگرچہ یہ بعید نظر اتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے  میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین (ع)نے کہا: اے یوسفؑ!  ہاتھ کھولیےاور جب یوسفؑ نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور اسمان کی طرف رہا ہونے لگاتو حضرت یوسف(ع)نے سوال کیا :جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا: یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیااور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترےاسی لئے سلسلہ نبوت اپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا پیغمبر اسلام ﷺ کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا: میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا: ماں کا حق باپ کےحقوق سے دوگنا زیادہ ہے(1)

فریضہ است زحق بر تو احترام پدر              پس از خداو پیمبر بُوَد مقام پدر

اگر چہ حرمت مادر نگاہ باید داشت             بحکم شرع بود واجب احترام پدر

بچوّں پر ماں کے حقوق

وَ امَّا حَقُّ امِّكَ فَانْ تَعْلَمَ انَّهَا حَمَلَتْكَ حَيْثُ لَا يَحْتَمِلُ احَدٌ احَدا وَ اعْطَتْكَ مِنْ ثَمَرَةِ قَلْبِهَا مَا لَا يُعْطِي احَدٌ احَدا وَ وَقَتْكَ بِجَمِيعِ جَوَارِحِهَا وَ لَمْ تُبَالِ انْ تَجُوعَ وَ تُطْعِمَكَ وَ تَعْطَشَ وَ تَسْقِيَكَ وَ تَعْرَ ی وَ تَكْسُوَكَ وَ تَضْحَ ی وَ تُظِلَّكَ وَ تَهْجُرَ النَّوْمَ لِاجْلِكَ وَ وَقَتْكَ الْحَرَّ وَ الْبَرْدَ لِتَكُونَ لَهَا فَانَّكَ لَا تُطِيقُ شُكْرَهَا الَّا بِعَوْنِ اللهِ وَ تَوْفِيقِه‏ (2)

--------------

(1):-ترجمه رس الة الحقوق،ص۱۳۹

(2):-من‏ل ايحضره‏ الفقيه ، ج2 ، ب اب الحقوق  ص621

۵۷

تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتااور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی  کہ اج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایااور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمہاری حفاظت کرتی رہیاور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہیاور خود برہنہ رہی لیکن تیرے لباس کا بندوبست کرتی رہی اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور ارام کی پروا نہیں لیکن تمہاری نیند اور ارام وسکون کا خیال ورتمہیں گرمی اور سردی سے بچاتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے،  پس تم کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزاری نہیں کرسکتےہو مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے

امام سجاد(ع)کے کلام میں باپ کے حقوق  پر  ماں کے حقوق کو مقدم کیا گیاہے، شاید اس کی وجہ  یہ  ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ  کردار ہوتا ہےاور وہ زیادہ زحمتیں اور مشقتیں  برداشت کرتی ہےاور یہ دین مبین اسلام کا طرّہ امتیاز ہے  وگرنہ  دوسرے  مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں  ہیں

عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دیا ہے وہ مغربی دنیا میں اس کا تصور بھی  نہیں کر سکتا وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو گھر چھوڑ جاتا ہےاور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی گزارنے کی فکر میں رہتا ہےاور ایسا رویہ گھریلو ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہےکئی کئی سال گزرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں اتی اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر (old house)منتقل کریں

افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشرے میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہےجہاں والدین گھر کے چشم و چراغ ہیں وہاں اہستہ اہستہ انہیں گھر سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیںاور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کر دیا ہے

قران مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہےیعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہےان حقوق کو ہم چند قسموں میں بیان کریں گے

۵۸

حق احسان

متعدد ایات میں یکتا پرستی کی طرف دعوت کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان کرنے کا بھی حکم ایا ہے:

وَاعْبُدُوا اللهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا(1)

 خدا کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھرھاؤ اور والدین کیساتھ احسان کرودوسری جگہ فرمایا:

قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانًا (2)

 کہہ دیجئے کہ اؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہےخبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا

وَاذْ اخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي اسْرَائِيلَ لا تَعْبُدُونَ الا اللهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ احْسَانا وَذِي الْقُرْبَی وَالْيَتَامَی وَالْمَسَاكِينِ(3)

"اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا"

اور احسان سے مراد کچھ محدود چیزیں نہیں بلکہ سب نیک اور شائستہ کام مراد ہیں جو انسان کسی دوسرے کے لئے انجام دیتا ہےاولاد پر والدین  کا بہت بڑا حق ہے

احسان کرنابہترین عبادت

قَالَ قُلْتُ لِابِي عَبْدِ اللهِ ع ايُّ الْاعْمَالِ افْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ (4)

--------------

(1):- نساء ۳۶

 (2):- انعام ۱۵۱

(3):- بقرہ ۸۳

(4):-وس ائل‏ الشيعة    ،ج  15، ص 19

۵۹

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع)سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ تو  امام نے فرمایا:نماز کا اول وقت  پر  پڑھنا، والدین کے ساتھ نیکی کرنا  اور  خدا  کی راہ  میں  جہاد  کرنا

کافروالدین پربھی احسان!

عَنِ الْفَضْلِ بْنِ شَاذَانَ عَنِ الرِّضَا ع فِي كِتَابِهِ الَ ی الْمَامُونِ قَالَ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ وَاجِبٌ وَ انْ كَانَا مُشْرِكَيْنِ وَ لَا طَاعَةَ لَهُمَا فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ وَ لَا لِغَيْرِهِمَا فَانَّهُ لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ (1)

فضل بن شاذان ؓ امام رضا (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ اپ نے مامون کو خط لکھا جس میں والدین کی اطاعت کو واجب قرار دیا، اگرچہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ؛ سوائےمعصیت خدا  کے کیونکہ معصیت الہٰی  میں مخلوق  کی اطاعت جائز نہیں ہے

عَنْ ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ ثَلَاثٌ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لِاحَدٍ فِيهِنَّ رُخْصَةً ادَاءُ الْامَانَةِ الَ ی الْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ الْوَفَاءُ بِالْعَهْدِ لِلْبَرِّ وَ الْفَاجِرِ وَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ بَرَّيْنِ كَانَا اوْ فَاجِرَيْنِ (2)

امام صادق (ع)سے روایت ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں خدا نے کسی کے لئے بھی رخصت نہیں دی ہے:

1.  امانت کا واپس کرنا اگرچہ انسان فاسق ہو یا نیک ہو 2.   وعدہ وفا کرنا خواہ اچھا انسان ہو یا برا

3.  والدین کے ساتھ احسان کرنا، خواہ اچھے ہوں یا برے ہوں

 خصوصا  ماں کا حق اولاد کے اوپر زیادہ ہے جیسا کہ  امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک شخص رسول خدا (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک ایسا جوان ہوں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں لیکن میری ماں اس کام کی طرف ہرگز مائل نہیںرسول اکرم(ص) نے فرمایا: واپس جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے ایک رات ماں کی خدمت کرنا خدا کی راہ میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے(3)

--------------

(1):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 16 ، ص 155

(2):-وس ائل‏ الشيعة    ، ج 21 ، ص490

(3):- جامع السعادات،ج2،ص261

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۳۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ حضرت عائشہ قبرستان کی طرف سے آئیں میں نے سے پوچھا: ام المومنین آپ کہاں سے آ رہی ہیں ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر سے آ رہی ہوں میں نے کہا : کیا رسول خدا (ص) نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : ہاں ! آنحضرت (ص) نے پہلے منع فرمایا تھا پھر آپ (ص) نے زیارت قبور کا امر فرمایا تھا،،

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں اس روایت کو اثرم نے بھی اپنے سنن میں ذکر کیا ہے۔

مولف: شیخ محمد حامد فقی اپنے حاشیہ کتاب پر لکھتے ہیں : اس روایت کو ابن ماجہ ، حاکم اور بغوی نے شرح السنتہ میں بھی ذکر کیا ہے۔

۴۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) قبرستان میں تشریف لائے اور فرمایا:

'دصاحبان ایمان کو ہمارا اسلام ہو ، انشاء اللہ ہم بھی تم سے آ ملیں گے،،

ابوہریرہ کہتے ہیں : اس روایت کو احمد مسلم اور نسائی نے بھی ذکر کیا ہے احمد نے عائشہ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اس جملے کا اضافہ ہے : ''خدا یا ہمیں ان مرحومین کے اجرسے محروم نہ فرما اور ہمیں ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈال،،

۵۔ بریدہ سے مروی ہے:

''رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کویہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یہ کہا کریں :''السلام علیکم اهل الدیارمن المومنین و اسلمین و انا ان شآء الله بکم لاحقون ، نسال الله لنا ولکم العافیة،، ۔

''ان گھروں میں بسنے والے مومنو اور مسلمانو! ہمارا تم پر سلام ہو ، انشاء اللہ ہم تم سے آ ملیں گے ہم تمہارے لئے اور اپنے لئے خداسے عافیت کے طلب گار ہیں،،۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں اس روایت کو احمد ،مسلم اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے(۱)

____________________

(۱) المنتقی ٰ ، ج ۲ ، ص ۱۱۶

۶۶۱

۶۔ ابن عمر رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''من حج فزار قبری بعد وفاقی کان کمن زارنی فی حیاتی،،

''جو آدمی حج بیت اللہ سے مشرف ہو اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،

اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے سنن میں نقل کیا ہے۔

۷۔ نیز رسول خدا (ص) سے مروی ہے:

''جو شخص میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت میرے اوپر واجب ہو جاتی ہے،،

اس روایت کو ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

۸۔ انس نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے۔

''جو شخص (میری معرفت رکھتے ہوئے) مدینہ میں میری زیارت کرے ، روز قیامت میں اس کے اعمال کا گواہ ہونگا یا اس کی شفاعت کروں گا ،،(۱)

۹۔ ابوہریرہ رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''جو آدمی اپنے کسی دوست کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ جائے تو (مرحوم) دوست سلام کا جواب دیتا ہے اور جب تک زیارت کرنے والا شخص اس کی قبر پر بیٹھا رہے مرحوم مانوس رہتا ہے ،،(۲)

____________________

(۱) بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے ، کنز العمال ، فضل زیارت القبور ، ج ۸ ، ص ۹۹

(۲) اس روایت کو ابو الشیخ اور دیلمی نے نقل کیا ہے۔

۶۶۲

۱۰۔ ''جو شخص بھی کسی جاننے والے کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کرے مرنے والا اسے پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے،،۔

اس روایت کو تمام ، خطیب ، ابن عساکر اور ابن بخار نے نقل کیا ہے صاحب کنز العمال کہتے ہیں ، اس روایت کی سند عمدہ ہے کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۹۹ اور ص ۱۲۵ میں اور اس کے بعد اس میں اس مضمون کی تقریباً اسی روایات نقل کی ہیں ، جو حضرات ان روایات سے آگاہ ہوناچاہئے وہ ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''جو شخص بھی مجھے سلام کرے خداوند میری روح کو میری طرف لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں،،(۱)

۱۲۔ ابن عمر حجرا سود کو چھونے اور اس کو چومنے کے بارے میں کہتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حجرا سود کو مس کرتے اور بوسہ دیتے تھے سائل نے ابن عمر سے پوچھا: کیا آپ یہ احتمال نہیں دیتے کہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہم زحمت میں مبتلا ہو جائیں گے ؟ اور بے بس ہو جائیں گے ۔ ابن عمر نے جواب دیا: اس قسم کے احتمالات اور شاید والی باتوں کو ترک کریں میں نے خود رسول اکرم (ص) کو دیکھا ہے کہ آپ (ص) حجرا سود کو سینے سے لگاتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے،،

____________________

(۱) سنن بیہقی باب زیارت قبر النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ، ج ۵ ، ص ۲۴۵۔

۶۶۳

اس روایت کوبخاری نے اپنی صحیح میں مسدد سے نقل کیا ہے۔

۱۳۔ ابن عباس کی روایت ہے :

میں نے رسول اکرم (ص) کو دیکھا کہ حجرا سود پر سجدہ کیا کرتے تھے،،(۱)

۱۶۔ داؤد ابن ابی صالح کی روایت ہے

''ایک مرتبہ مروان آیا اور اس نے ایک آدمی کو اپنا چہرہ قبر پر رکھے ہوئے دیکھا چنانچہ مروان نے اس کو گردن سے پکڑا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ، مروان نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ ابو ایوب انصاری ؓ ہیں ۔ ابو ایوب نے مروان سے کہا: میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ہوں نہ کہ حجرا سود کے پاس آیا ہوں۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم اس وقت دین پر گریہ نہ کرو جب زمام حکومت اس کے اہل کے ہاتھ میں ہو بلکہ اس وقت دین پر گریہ کرو جب دینی حکومت نااہلوں کے ہاتھ میں چلی جائے(۲)

۱۷۔ حافظ ابن عسا کر نقل کرتے ہیں:

''جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) تشریف لائیں اور اپنے والد گرامی رسول اکرم (ص) کی قبر پر آ کر رکیں اور آپ (ص) کی قبر کی مٹی ہاتھ میں لی اور اسے آنکھوں سے لگا کر گر یہ فرمایا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب السجود علیہ علی الحجر ، ج ۵ ، ص ۷۴۔۷۵

(۲) اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد ۴ ص ۵۱۵ میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ، ذہبی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ابن تیمیہ نے حجرا سود کو بوسہ دینے اسے مس کرنے اور اس پر رخسار رکھنے کے بارے میں روایات کو منتقی ٰ کی ج ۲ ، ص ۲۶۱ ، ۲۶۳ میں نقل کیا ہے۔

۶۶۴

۱۸۔ حافظ ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کی قبر پر آیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا اس کے بعد رسول خدا (ص) سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: یارسول اللہ (ص) آپ (ص) پر نازل ہونے والی آیات میں سے ایک آیت یہ تھی ''اگر لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے (گناہ کا مرتکب ہونے) کے بعد تیرے پاس آئیں اور آپ (ص) ان کیلئے طلب مغفرت کریں تو خدا ان کے گناہوں کو بخش دے گا،، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ (ص) میرے لئے مغفرت طلب کریں اتنے میں قبر سے آواز آئی خدا نے تیرے گناہ معاف کر دیئے یہ سارا واقعہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش آیا،،۔

۱۹۔ نیز ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ جناب بلال ، رسول اللہ (ص) کی قبر پر آئے اور روتے ہوئے اپنا چہرہ خاک قبر پر رکھ دیا اتنے میں امام حسن اور امام حسینہ (علیہما السلام) تشریف لے آئے ، جناب بلال نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کی دست بوسی کی،،(۱)

ضمیمہ (۱۸) ص ۴۷۷

آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

اسی کتاب کے ص پر مذکور تہمت (شیعہ خاک کربلا کو سجدہ کرتے ہیں) میں آلوسی نے آیہ شریفہ:

کلواواشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر کی تفسیر کے موقع پر یہ الزام لگایا ہے کہ شیعہ روزوں میں طلوع آفتاب تک کھانے پینے کو جائز سمجھتے ہیں۔

____________________

(۱) الغدیر ، ج ۵ ، ۱۲۷۔۱۲۸

۶۶۵

میں نہیں سمجھتا کہ آلوسی کے پاس اس نسبت (الزام) کی کیا دلیل ہے جب کہ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں مقیم تھا عراق کو شروع سے اب تک شیعوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور عتبات مقدسہ (زیارات ائمہ) بھی بغداد کے نزدیک ہیں اور شیعوں کے علاوہ دوسرے فرقوں کے ماننے والے وہاں کم ہیں اس کے علاوہ خود آلوسی شیعہ کتابوں سے بخوبی آشنا بھی ہے درحقیقت شیعوں کی طرف اس قسم کی نسبتوں ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور انہیں الزام تراشیوں نے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے اور بعید نہیں کہ اس میں خارجی ہاتھ کارفرما ہو۔

ضمیمہ (۱۹) ص ۴۷۷

مولف اور حجازی عالم میں بحث

سن ۱۳۵۳ھ میں زیارت بیت اللہ سے شرفیاب ہوا اس دوران مسجد نبوی میں میری ملاقات ایک فاضل عالم دین سے ہوئی جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور ان سے (سجدہ گاہ) چھین لیتا تھا میں نے اس سے کہا:

شیخنا ! کیا رسول خدا (ص) نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: توپھر تم ان مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھینتے ہو جبکہ یہ شہادتیں پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں انہوں نے تربت (خاک کربلا) کو بت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدرے تفصیلی بحث کی جائے اس نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں۔

چنانچہ ہم دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخر کار اس نے اپنے اس عمل کی معذرت طلب کی اور اپنے رب سے استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا: درحقیقت اب تک میں غلطی فہمی کا شکار رہا ہوں۔

۶۶۶

اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ (دینے میں قیام کے دوران) مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے میں نے بھی آمادگی ظاہر کی اور اس طرح ہر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل تشکیل پاتی تھی مدینہ میں تقریباً دس راتیں ہماراقیام رہا اس دوران مختلف مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے آخر کار اس حجازی نے ان اعتقادات اور خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اوراس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ ''ام القریٰ ،، میں شائع کرے گا تاکہ ان لوگوں کیلئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں رکھےت اور اشتباہ و غلط فہمی کے شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی بھیجے گا۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا شاید حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہوں۔

ضمیمہ (۲۰) ص ۴۷۷

تربت سید الشہداء کی فضیلت

ابویعلی ٰ اپنی مسند میں اور ابن ابی شیبہ اذرسعید نے منصور سے اور اس نے اپنی سنن میں مسند علی سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ (ص) کی آنکھوںسے آنسو جاری تھے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (ص) کیا آپ (ص) کسی سے خفا ہو گئے ہیں آپ (ص) کے آنسو کیوں جاری ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی کچھ دیر قبل جبرئیل میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ نہر فرات پر میرا نواسہ حسین (ع) شہید کیا جائے گا اس کے بعد انہوںنے پوچھا: کیا آپ (ص) حسین (ع) کی تربت سونگھیں گے؟ میں (ص) نے کہا: ضرور سونگھوں گا چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنے ہاتھ میں مٹی لا کر مجھے دے دی جس کے بعد میں گریہ کئے بغیر نہ رہ سکا،،

۶۶۷

طبرانی نے کبیر میں جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے:

ایک دن رسول خدا (ص) لیٹے آرام فرما رہے تھے یکایک آپ رنجیدہ خاطر بیدار ہوئے اس وقت آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی تھی جسے آپ چوم رہے تھے ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ (ص) یہ کیسی مٹی ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ آپ (ص) کانواسہ سرزمین کربلا پر شہید کر دیا جائے گا میں نے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھا دے جس پر میرا نواسہ (ع) شہید کیا جائے گا یہ وہی مٹی ہے جو جبرئیل نے لا کر دی ہے۔

اسی روایت کو ابن شیبہ نے معمولی اختلاف کے ساتھ ام سلمہ سے روایت کیا ہے ابن ماجہ ، طیالسی اور ابو نعیم نے بھی تقریباً اس مضمون کی روایت نقل کی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۱) ص ۴۷۹

مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

حسن بن منصور کہتے ہیں جب ابلیس سے کہاگیا کہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے خالق سے مخاطب ہو کر کہا:

''میرے دل سے سجدہ کی اہمیت اٹھا لے تاکہ تیرے غیر کیلئے سجدہ کر سکوں اگر تو نے آدم کیلئے سجدہ کا حکم دیا ہے تو اپنے غیر کیلئے سجدہ کرنے سے منع بھی تو فرمایا ہے۔

خالق نے فرمایا: میں تمہیں ابدی عذاب دوں گا ابلیس نے کہا : کیا تو مجھے عذاب دیتے وقت دیکھے گا نہیں ؟ خالق نے فرمایا : کیوں نہیں ابلیس نے کہا تیرا دیدار مجھے عذاب کے دیکھنے پر آمادہ کر رہا ہے تو جو چاہے مجھے عذاب دے ۔(۲)

مولف : ابن روز بہان جیسے اہل مکاشفہ کو اس قسم کا خلاف عقل و قرآن و ضرورت دین مکا شفہ مبارک ہو۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۱۰۵ ۔۱۰۶

(۲) تفسیر ابن روز بہان ، ص ۲۱ ، طبع ہند۔

۶۶۸

ضمیمہ (۲۲) ص ۴۷۹

ابلیس اور خدا کا مکالمہ

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

ابلیس نے کہا : پالنے والے ! مجھے آدم کا سجدہ معاف کر دے میں تیری ایسی عبادت کروں گا جو نہ کسی مقرب فرشتے نے کی ہو گی اور نہ کسی نبی مرسل نے خالق نے فرمایا: مجھے تیری عبادت کی احتیاج نہیں عبادت وہ ہوتی ہے جس کو (جیسے) میں چاہوں وہ نہیں جسے تو چاہے(۱)

نیز امام صادق علیہ السلام نے ایک زندیق سے اس کے اس سوال ، ''خدا نے ملائکہ کو آدم ؑ کیلئے سجدہ کا کیسے حکم دیا ؟،، کے جواب میں فرمایا:

''جو خدا کے حکم پر سجدہ کرے گویا اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا ہے پس آدم (ع) کیلئے سجدہ خدا کیلئے سجدہ تھا کیونکہ یہ سجدہ خدا کے حکم پر کیا گیا تھا،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر الصافی تفسیر قول خداوندی فسجدوالاابلیس ، ص ۲۶

(۲) البحار ، باب سجود الملائکہ و معناہ ، ج ۵ ، ص ۳۷

۶۶۹

ضمیمہ (۲۳) ص ۴۸۰

اسلام اور شہادتیں

سماعہ ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

اسلام ، کلمہ لاالہ الا اللہ اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی تصدیق کا نام ہے اسی سے مسلمان کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اس سے نکاح جائز ہوتاہے اور یہ ارث کا موجب بھی بنتا ہے(۱)

ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے ، آپ (ص) نے فرمایا:

''میں اس وقت تک جہاد کروں گا جب تک کفار لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیں اور مجھ پر اور اس کتاب پر ایمان نہ لائیں جسے میں لے کر آیا ہوں جب لوگ ان دونوں باتوں پرایمان لے آئیں تو میری طرف سے ان کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ اسلامی قوانین کی رو سے کسی مسلمان کا قتل اور اس کا مال ضبط کرنا جائز ہو اس کے بعد ہر شخص کے اعمال اور اس کا ثواب و عقاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو جابر اور عبداللہ بن عمر نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے(۲)

صاحب تیسیرالوصول عبداللہ بن عمر کی روایت کے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اس روایت کو مسلم اور بخاری نے بھی نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) الوافی الایمان اخص من الاسلام ، ج ۳ ،ص ۱۸

(۲) صحیح مسلم باب الامرقتال الناس حتیٰ یقولوا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ج ۱ ، ص ۳۹

(۳) تیسیرا لوصول ج ۱ ، ص ۲۰

۶۷۰

اس روایت کو ترمذی نے ابوہریرہ سے بھی نقل کیا ہے۔

باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوالا الہ الا اللہ ، ج ۱۰ ص ۶۸ ۔ اس روایت کو نسائی نے انس سے بھی نقل کیا ہے کتاب التحریم الدم ، ج ۲ ، ص ۱۶۱ ۔ باب علی مایقاتل الناس ، ص ۲۶۹۔

اس کو احمد نے اپنے مسند کے ج ۲ ، ص ۳۴۵ ، ۵۲۸ پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور ج ۳ ، ص ۱۹۹ ، ۲۲۴ پرانس سے نیز ج ۵ ، ص ۲۴۶ پر معاذ بن جبل سے اور ص ۴۳۳ پر اسی مضمون کی روایت کو عبیداللہ بن عدی سے روایت کیا ہے۔

صاحب تیسرا لوصول ، ج ۱ ، ص ۲۰ پر عبیداللہ کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس کو مالک نے بھی نقل کیا ہے۔

ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''مجھے اس وقت تک لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہیں اور جو شخص لا اللہ الا اللہ کہے میری طرف سے اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ برحق کوئی قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے پاس ہو گا،،(۱)

اسم کو مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی ، احمد اور طیالسی نے بھی روایت کی ہے۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب قتل من ابی قبول الفرائض ، ج ۸ ، ص ۵۰

۶۷۱

اوس بن اوس ثقفی کی روایت ہے:

''ہم مسجد مدینہ کے گنبد کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسول خدا (ص) مسجد میں داخل ہوئے پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے رسول خدا (ص) سے سرگوشی میں ایک بات کہی جسے ہم نہ سمجھ سکے البتہ آنحضرت (ص) نے اس کو جواب دیا: جاؤ !ا نہیں کہو اس کو قتل کر دیں اس کے بعد آپ (ص) نے اس شخص کو دوبارہ بلایا اور فرمایا: شاید وہ شخص کلمہ شہادتین پڑھتا ہو۔ اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں وہ شہادتین پڑھتا ہے آپ (ص) نے فرمایا: (اگر ایسا ہے) تو جاؤ اور انہیں کہو اسے آزاد کر دیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ توحید الٰہی اور میری رسالت کی شہادت نہ دیں جب شہادتین کا اقرار کر لیں تو ان کا خون اور مال محترم ہو جاتا ہے مگریہ کہ کسی کو برحق قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے ان کے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو ابوداؤد طیالسی ، احمد ، دارمی اور طحاوی نے نقل کیا ہے(۱)

ضمیمہ (۲۴) ص ۴۸۲

عبادت اور اس کے عوامل

محمد بن یعقوب نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بندے تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عقاب کے خوف سے عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے ، اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ثواب کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں ، یہ مزدوروں کی عبادت ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو محض حب خدا کی خاطر عبادت کرتے ہیں یہ آزاد انسانوں کی عیادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے،، شیخ صدوق نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) کنز العمال فی حکم الاسلام ، طبعتہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، ج ۱ ، ص ۳۷۵

۶۷۲

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

''ایک قوم ایسی ہے جو ثواب کے شوق و رغبت میں عبادت کرتی ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قسم وہ ہے جو دوزخ کے خوف سے عبادت کرتی ہے ، یہ غلاموں کی عبادت ہے اور تیسری قوم وہ ہے جو شکر خدا کی خاطر عبادت کرتی ہے خدا کے آزاد بندوں کی عبادت یہی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۵) ص ۴۸۴

الامربین الامرین : لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

حسن بن علی الوشاء نے امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے راوی کہتا ہے:

''میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا: کیا خدا نے ہر کام کو بندے کے سپرد کر دیا ہے آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی ذات سے بالاتر ہے میں نے کہا: کیا خدا بندوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : یہ عدل الٰہی کے منافی ہے راوی کہتا ہے : اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے: اے فرزند آدم تیری نیکیوں میں ، تیری نسبت میرا حصہ زیادہ ہے اور تیری برائیوں میں تیرا حصہ زیادہ ہے تو نے اسی قوت کے ذریعے برائی کو انجام دیا ہے جو میں نے تجھے دی ہے ،،(۲)

____________________

(۱) الوسائل ، مقدمنہ العبادات ، باب مایجوز قصدہ من غایات النیتہ ح ، ص ۱۰

(۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹ :

۶۷۳

ضمیمہ (۲۶) ص ۴۸۷

شفاعت کے مدارک

ایک روایت میں ہے:

''ہر نبی کی کوئی نہ کوئی دعا ہوا کرتی ہے ۔ انشاء اللہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنی دعا کو راز میں رکھوں گا اور روز محشر اپنی امت کی شفاعت کی دعا کروں گا،،

یہ روایت مندرجہ ذیل مدارک میں موجود ہے:

صحیح بخاری کتاب الدعوات ، باب ۱ ، ج ۷ ، ص ۱۴۵۔

صحیح مسلم باب اختباء النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) دعوۃ الشفاعتہ لامتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰۔۱۳۱ انس اور جابر سے بھی مروی ہے: مالک نے موطا میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے باب ماجاء فی الدعاء ، ج ۱ ص ۱۶۶ طبعتہ مصطفےٰ محمد المشروحہ

ابن ماجہ نے اپنے سنن میں بھی نقل کیا ہے ، باب ذکر الشفاعۃ ، ج ۲ ، ۳۰۱ طبعتہ مطیعۃ العلمینہ مصر۔ احمد نے اپنی سند میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ، ج ۲ ، ص ۲۷۵ ، ۳۱۳ ، ۳۸۱ ، ۳۹۶ ، ۴۰۹ ، ۴۲۶ ، ۴۳۰ ، ۴۸۶ ، ابوسعید خدری سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۲ ، انس سے بھی مروی ہے ، ج ۳ ، ص ۱۳۴ ، ۲۰۸ ، ۲۱۸ ، ۲۰۹ ، ۲۵۸ ، ۲۷۶ ، ۲۹۲ ، جابر سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۳۸۴ ، ۳۹۶ ، ابوذر سے بھی منقول ہے ، ج ۵ ، ص ۱۴۸

خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کتاب کی اشاعت کی نعمت سے نوازا ہمیں امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمان اور غیر مسلمان مستفیض ہوں گے اور یہ قرآن اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کا باعث بنے گی اللہ تعالیٰ سے اس تفسیر کی تکمیل کی دعا کرتے ہیں جو ہماری آخری آرزو ہے۔

واللہ ولی التوفیق مولف

تمام شد

تصحیح کتاب شریف البیان تاریخ ۹۰ئ/۱/۳۰ ، ۱۴۱۰/۷/۲ ھ : نثار حیدر نقوی نورپور شاہاں اسلام آباد

۶۷۴

فہرست

عرض مترجم ۳

مقدمہ ۶

البیان فی تفسیر القرآن ۶

قرآنی مکتب ۷

فضائل قرآن ۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب ۱۶

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب ۲۹

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں ۳۳

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر ۳۶

اعجاز قرآن ۳۹

اعجاز کے معنی ۴۰

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال ۴۱

نبوّت اور اعجاز ۴۳

معجزہ اور عصری تقاضے ۴۸

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ ۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب ۵۳

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ ۵۶

قرآن اور معارف ۶۰

آیات میں ہم آہنگی ۷۶

قرآن اور نظام قانون ۸۲

۶۷۵

قرآن کے معانی میں پختگی ۹۴

قرآن کی غیب گوئی ۹۵

قرآن اور اسرار خلقت ۹۹

اعجازِ قُرآن اور اوہام ۱۰۸

پہلا اعتراض ۱۰۹

جواب: ۱۰۹

دوسرا اعتراض ۱۱۱

جواب: ۱۱۱

تیسرا اعتراض ۱۱۲

جواب: ۱۱۲

چوتھا اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۴

پانچواں اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۵

چھٹا اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۱

ساتواں اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۲

آٹھواں اعتراض ۱۲۴

جواب: ۱۲۵

نواں اعتراض ۱۲۶

۶۷۶

جواب: ۱۲۶

قرآن کا مقابلہ ۱۲۸

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات ۱۳۷

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت ۱۳۷

جواب: ۱۵۰

جواب: ۱۵۴

جواب: ۱۵۷

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت ۱۶۱

قاریوں پر ایک نظر ۱۶۳

تمہید ۱۶۴

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی ۱۶۷

۲۔ ابن کثیر مکّی ۱۷۰

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی ۱۷۲

۴۔ ابو عمرو بصری ۱۷۸

۵۔ حمزہ کوفی ۱۸۲

۶۔ نافع مدنی ۱۸۷

۷۔ کسائی کوفی ۱۹۰

۸۔ خلف بن ہشام بزار ۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق ۱۹۳

۱۰۔ یزید بن قعقاع ۱۹۵

قراءتوں پر ایک نظر ۱۹۷

۶۷۷

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح ۲۰۰

تواتر قراءت کے دلائل ۲۰۶

جواب: ۲۰۶

جواب: ۲۰۷

جواب: ۲۰۸

تتمہ ۲۰۹

قراءتیں اور سات اسلوب ۲۱۰

۱۔ حجیت قراءت ۲۱۵

جواب: ۲۱۶

جواب: ۲۱۶

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے ۲۱۹

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟ ۲۲۱

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو ۲۲۹

ii ۔ روایات میں تضاد ۲۳۰

سات حروف کی تاویل و توجیہ ۲۳۲

۱۔ قریب المعنی الفاظ ۲۳۲

۲۔ سات ابواب ۲۳۸

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی ۲۴۱

۴۔ فصیح لغات ۲۴۱

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت ۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف ۲۴۴

۶۷۸

جواب: ۲۴۵

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی ۲۴۶

جواب: ۲۴۷

۸۔ اکائیوں کی کثرت ۲۴۸

جواب: ۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں ۲۴۹

جواب: ۲۴۹

۱۰۔ مختلف لہجے ۲۴۹

جواب: ۲۵۰

مسئلہ تحریف قرآن ۲۵۲

۱۔ معنی تحریف کی تعریف ۲۵۳

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ ۲۵۶

۳۔ نسخ تلاوت ۲۵۸

تحریف، قرآن کی نظر میں ۲۶۳

تحریف اور سنت ۲۶۹

نماز میں سورتوں کی اجازت ۲۷۴

خلفاء پر تحریف کا الزام ۲۷۶

قائلین تحریف کے شبہات ۲۸۲

پہلا شبہ: ۲۸۲

جواب: ۲۸۳

دوسرا شبہ: ۲۸۵

۶۷۹

جواب: ۲۸۷

تیسرا شبہ ۲۹۰

جواب: ۲۹۰

وضاحت: ۲۹۰

روایات تحریف ۲۹۰

روایات کا حقیقی مفہوم ۲۹۴

جواب: ۲۹۹

جواب: ۲۹۹

چوتھا شبہ ۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات ۳۰۲

جواب ۳۰۳

جمع قرآن کی روایات ۳۰۴

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد ۳۱۴

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔ ۳۱۴

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟ ۳۱۴

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟ ۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟ ۳۱۵

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟ ۳۱۵

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟ ۳۱۵

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟ ۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟ ۳۱۶

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689