تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 153832
ڈاؤنلوڈ: 3187


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 153832 / ڈاؤنلوڈ: 3187
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

۴ كلمہ ''ء ىا ت'' كو جمع لانے ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ مذكورہ عذابوں ميں سے ہر ايك حقانيت موسىعليه‌السلام كى علامت تھا_

_ آل فرعون پر نازل ہونے والے عذاب (طوفان و غيرہ)، يكے بعد ديگرے اور فاصلے كے ساتھ متحقق ہوئے_

فا رسلنا عليهم ...أيات مفصلت

كلمہ ''مفصلت'' ہوسكتاہے كہ ذكر شدہ عذابوں كيلئے حال ہو يا پھر يہ كہ آيات كيلئے صفت ہو، كلمہ ''فصل'' جدا كرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے جبكہ ''مفصلت ''،كا مصدر ''تفصيل'' جدا كرنے كے عمل كى شدت پر دلالت كرتاہے، بنابرايں كلمہ ''مفصلت'' سے مراد يہ ہے كہ وہ عذاب اور نشانياں ايك دوسرے سے جدا طور پر اور طولانى مدت كے فاصلے كے ساتھ واقع ہوئيں _

۵_ قدرتى عوامل اور دوسرے سب موجودات ،خدا كے اختيار ميں ہيں اور ان كے افعال اس كے ارادے سے وابستہ ہيں _فا رسلنا عليهم الطوفان والجراد و القمل و الضفادع والدم

۶_ فرعونى رسالت موسىعليه‌السلام كى حقانيت پر قائم متعدد آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود ، اسے قبول كرنے سے كتراتے رہے_فا رسلنا عليهم ...فاستكبروا

۷_ فرعونيوں كا تكبر اور گھمنڈ، آيات الہى اور رسالت موسيعليه‌السلام سے ان كے انكار كا باعث تھا،فا رسلنا عليهم ...فاستكبروا

استكبار يعنى اپنے آپ كو بڑا سمجھنا اور چونكہ فعل ''استكبروا'' حرف ''فاء'' كے ذريعہ ارسال آيات پر تفريع ہوا ہے لہذا اس معنى كا لازمہ (يعنى انكار كرنا اور قبول نہ كرنا) مراد ليا گيا ہے اور انكار كرنے اور قبول نہ كرنے كے بجائیے كلمہ استكبار كو استعمال كرنے كا مقصد انكار كرناہے، يعني: آل فرعون كے انكار كا سبب ان كا تكبر تھا_

۸_ تكبراور گھمنڈ، آيات الہى سے انكار كا باعث بنتاہے_أيات مفصلّت فاستكبروا

۹_ فرعونى مجرم اور مفسد لوگ تھے_و كانوا قوما مجرمين

۱۰_ فرعونيوں كاگناہ اور فساد، آيات الہى كے سامنے ان

۲۲۱

كے استكبار كا باعث تھاأيات مفصلت فاستكبروا و كانوا مجرمين

جملہ ''كانوا ...'' آيات الہى كے مقابلے ميں فرعونيوں كے تكبر كے سبب كو بيان كرتاہے_

۱۱_ گناہ اور فساد، مستكبرانہ احساسات كى پيداءش كى راہ فراہم كرتے ہيں اور آيات الہى سے انكار كا باعث بنتے ہيں _

فاستكبروا و كانوا قوما مجرمين

آفرينش:موجودات آفرينش ۵

آيات خدا: ۳آيات خدا كو جھٹلانے كے عوامل ۸، ۱۱;آيات خدا كے بارے ميں استكبار ۱۰;

الله تعالى :اللہ تعالى كاارادہ۵;اللہ تعالى كے عذاب ،۱، ۲

تكبر:تكبر كے آثار ۷، ۸;تكبر كے اسباب ۱۱

عذاب:ٹڈيوں كے ذريعے عذاب ۲; جوؤں كے ذريعے عذاب ۲; خون كے ذريعے عذاب ۲;طوفان كے

ذريعے عذاب ۲;مينڈكوں كے ذريعے عذاب ۲;

فرعوني:آل فرعون اور موسىعليه‌السلام ۶;آل فرعون پر عذاب كے اسباب; آل فرعون كا استكبار ۷;آل فرعون كا افساد ۶; آل فرعون كا كفر ،۱;آل فرعون كى ماہٹ دھرمى ۶; آل فرعون كے استكبار كے عوامل ۱۰; آل فرعون كے كفر كے عوامل ۷; آل فرعون كے عذاب كى كيفيت ۴;آل فرعون كے عذاب كا متعدد ہونا ۱، ۲، ۳، ۴ ; آل فرعون كے فساد كے اثرات ۱۰;آل فرعون كے گناہ كے اثرات ۱۰

فساد:فساد كے اثرات ،۱۱

قدرتى عوامل :قدرتى عوامل كا عمل ۵

كفر:آيات خدا كا كفر ۷;كفر كى دنيوى سزا ،۱;موسىعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ،۱، ۶، ۷

گناہ:گناہ كے اثرات ،۱۱

مجرمين: ۹

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں پر عذاب ۲;موسىعليه‌السلام كى حقانيت كى نشانياں ۳، ۶موسىعليه‌السلام كى داستان ۶

۲۲۲

آیت ۱۳۴

( وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُواْ يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ )

اور جب ان پر عذاب نازل ہوگيا تو كہنے لگے كہ موسى اپنے رب سے دعا كرو جس بات كا اس نے وعہ كيا ہے اگر تم نے اس عذاب كو دور كراديا تو ہم تم پرايمان بھى لائیں گے اوربنى اسرائیل كوتمھارے حوالے بھى كرديں گے(۱۳۴)

۱_ فرعوني، پنجگانہ آيات (طوفان و غيرہ) كا مشاہدہ كرنے كے بعد، رسالت موسىعليه‌السلام سے انكار پر مصرّ رہنے كى وجہ سے پہلے سے زيادہ سخت عذاب ميں مبتلا ہوئے_و لما وقع عليهم الرجز قالوا ى موسى ادع لنا ربك

كلمہ '' رجز'' كامعنى عذاب ہے اور اس ميں ''ال'' عہد ذكرى بھى ہوسكتا ہے كہ اس صورت ميں گزشتہ آيات ميں مذكور پانچ عذابوں كى طرف اشارہ ہوگا چنانچہ اس ميں ''ال'' عہد ذہنى بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں گزشتہ ذكر شدہ عذابوں كے علاوہ كسى اور عذاب كى طرف اشارہ ہوگا كہ جو اس لحاظ سے پہلے عذابوں سے زيادہ سخت ہے_ كہ انہوں نے حضرت موسىعليه‌السلام سے اسكے رفع ہونے كى درخواست كى مندرجہ بالا مفہوم اسى دوسرے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ فرعونيوں نے شديد عذاب ميں گرفتار ہونے كے بعد، حضرت موسىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ خدا سے دعا مانگو كہ وہ ہم سے عذاب ٹال دے_و لما وقع عليهم الرجز قالوا يموسى ادع لنا ربك

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام درگاہ خدا ميں عالى منزلت پر فائز ايك مستجاب الدّ عوہ پيغمبر تھے_ادع لنا ربك بما عهد عندك

حضرت موسىعليه‌السلام سے دعا كے بارے ميں آل فرعون كى درخواست كى مناسبت سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كى طرف سے ديئے گئے عہد سے مراد، درگاہ خدا ميں آپعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كو ديئے گئے خدا كے وعدوں ميں سے ايك، آل فرعون سے عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں آپعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہوناہے_ادع لنا ربك بما عهد عندك

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''موسيعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے عہد'' سے مراد صرف آل فرعون سے عذاب كے برطرف ہونے كے بارے ميں موسىعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہوناہے نہ كہ سارى دعائیں _ آل فرعون اپنے گزشتہ تجربات يا خود موسىعليه‌السلام كے قول كے ذريعے اس بات سے آگاہ تھے كہ خداوند متعال نے آپعليه‌السلام كو وعدہ ديا ہے كہ اگر وہ آل فرعون سے عذاب ٹلنے كے بارے ميں دعا كريں تو ان كى دعا قبول ہوگي_

۲۲۳

۵_ آل فرعون، عذاب ٹلنے كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كے ديئے گئے وعدے سے آگاہ تھے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۶_ آل فرعون نے حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كے نزديك ان كے(مستجاب الدعوہ ہونے) كى قسم دى كہ عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں خدا سے دعا مانگيں _ادع لنا ربك بما عهد عندك

فوق الذكر مفہوم ميں ''بما عہد'' ميں مذكور حرف ''باء'' قسم كيلئے ليا گيا ہے_

۷_ ، موسىعليه‌السلام كے خدا كے بارے ميں آل فرعون كا اعتقاد كہ وہ انسان كى زندگى اور جہان آفرينش ميں مؤثر ہے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۸_ آل فرعون، عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا كى تاثير سے آگاہ تھے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۹_ استجابت دعا، خدا كى ربوبيت كا جلوہ ہے_ادع لنا ربك

۱۰_ آل فرعون نے حضرت موسىعليه‌السلام كو وعدہ ديا اور قسم كھائی كہ ان سے شديد عذاب برطرف كرنے كى صورت ميں آپعليه‌السلام پر ايمان لے ائیں گے اور بنى اسرائیل كو آزاد كرديں گے_

لئن كشفت عنا الرجز لنؤ مننّ لك و لنرسلنَّ معك بنى إسرائيل

۱۱_ آل فرعون نے پانچ عذابوں (طوفان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے نازل ہونے كے بعد ،حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ كيا كہ اس عذاب كو برطرف كرنے كى صورت ميں ان پر ايمان لے ائیں گے اور بنى اسرائیل كو آزاد چھوڑديں گے_

فوق الذكر مفہوم كا اخذ ہونا اس بنياد پر ہے كہ كلمہ ''الرّجز'' كا ''ال'' عہد ذكرى ہو_ بنابراين كلمہ

۲۲۴

'الرّجز'' كے ذريعہ گذشتہ آيت ميں مذكور، پنجگانہ عذابوں كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۱۲_ رسالت موسىعليه‌السلام پر ايمان اور بنى اسرائیل كى آزادي، آل فرعون سے حضرت موسىعليه‌السلام كا ايك اہم تقاضا تھا_

لنؤمنن لك و لنرسلن معك بنى إسرائيل

۱۳_''و لما وقع عليهم الرجز'' ...روى عن ا بى عبدالله عليه‌السلام : ا نه ا صابهم ثلج ا حمر و لم يروه قبل ذلك فماتوا فيه (۱)

آيت''و لما وقع عليهم الرجز'' كے بارے ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ان پر سرخ برف برسى كہ جسے انہوں نے اس سے پہلے نہ ديكھا تھا چنانچہ وہ اسى عذاب ميں مرگئے

الله تعالى :اللہ تعالى كا وعدہ ،۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ،۹

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۱۲

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ، ۱۱، ۱۰;بنى اسرائیل كى نجات ۱۰، ۱۱، ۱۲

دعا:اجابت دعا ۹

عذاب:رفع عذاب كى درخواست ۲، ۴، ۵، ۶، ۱۰;عذاب كے مراتب، ۱;طوفان كے ذريعے عذاب ۱۱

فرعوني:آل فرعون اور موسىعليه‌السلام ۶، ۵، ۲ ; آل فرعون پر عذاب ۱، ۲، ۴ ; آل فرعون پر متعدد قسم كے عذاب ۱۱;آل فرعون سے رفع عذاب ۸، ۱۰ ; آل فرعون كا عقيدہ ۷; آل فرعون كا موسىعليه‌السلام سے عھد ۱۰، ۱۱ آل فرعون كى آگاہى ۸; آل فرعون كى خواہشات۲، ۶، ۱۰; آل فرعون كى قسم ۱۰; آل فرعون كى ہٹ دھرمى آل فرعون كے ايمان كى شرائط ۱۱، ۱۰

كفر:كفر پر اصرار كى سزا ،۱

مستجاب الدعوہ: ۳،۶

مقربين: ۳

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۱۲;موسىعليه‌السلام كو قسم دينا ۶; موسىعليه‌السلام كى تكذيب ;موسىعليه‌السلام كى داستان ۲، ۱۰، ۱۱ ; موسى كى دعا كا قبول ہونا ۳، ۴، ۵، ۶، ۸; موسىعليه‌السلام كے مطالبات ۱۲;موسىعليه‌السلام كے مقامات ۳

____________________

۱)مجمع البيان ج/۴ ص ۷۲۳; نورالثقلين ج/۲ ص ۶۰ ح ۲۲۹

۲۲۵

آیت ۱۳۵

( فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ )

اس كے بعد جب ہم نے ايك مدت كے لئے عذاب كو بر طرف كرديا تو پھر اپنے عہد كو توڑ نے والوں ميں شامل ہوگئے(۱۳۵)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے (رفع عذاب كيلئے دعا كے بارے ميں ) آل فرعون كى درخواست قبول كرتے ہوئے عذاب كے برطرف ہونے كيلئے خدا سے دعا مانگي_فلما كشفنا عنهم الرجز

آيت كريمہ كا سياق يہ ظاہر كرتاہے كہ ''فدعا موسى فكشفنا عنہم الرجز'' كى طرح كا كوئي جملہ مقدر ہے جسے واضح ہونے كى وجہ سے كلام ميں نہيں لايا گيا_

۲_ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا قبول كرتے ہوئے آل فرعون سے عذاب ٹال ديا_فلما كشفنا عنهم الرجز

۳_ خدا كى طرف سے نازل كئےگئے عذابوں كو برطرف كرنا، صرف اسى ذات جل جلالہ كے دست قدرت ميں ہے_

فلما كشفنا عنهم الرجز

آل فرعون (كہ جنہوں نے موسىعليه‌السلام سے رفع عذاب كى درخواست كي) كے كلام (لئن كشفت) كے مقابلے ميں اس آيت كريمہ ميں عذاب كے برطرف كرنے كى نسبت خدا كى طرف دى گئي ہے، اس سے يہ مطلب ہاتھ آتاہے كہ نازل كئے گئے عذابوں كو برطرف كرنے كا اختيار خدا ہى كے ہاتھ ميں ہے_

۴_ بارگاہ خدا ميں دعا كرنا، رحمت كے حصول اور رفع مشكلات كيلئے مؤثر ہے_فلما كشفنا عنهم الرجز

۵_ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا قبول كرتے ہوئے آل فرعون سے عذاب ٹالنے كے بعد انہيں آگاہ كيا كہ وہ ايك محدود مدت تك عذاب ميں مبتلا نہيں ہوں گے_فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل هم بلغوه

۲۲۶

''إلى ا جل'' سے يہ مطلب حاصل ہوتاہے كہ خدا نے آل فرعون سے ہميشہ كيلئے عذاب برطرف نہيں كيا بلكہ اسكے لئے مدت معين كى لہذا اگر خدا كى طرف سے يہ مطلب ان تك ابلاغ نہ كيا جاتا تو مدت معيّن كرنے كا مطلوبہ اثر حاصل نہ ہوتا_

۶_ خداوند متعال نے آل فرعون سے عذاب برطرف كرتے ہوئے ان كى طرف سے اپنے وعدے وفا كرنے كيلئے مہلت معين كي_فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل

''إلى ا جل'' فعل ''كشفنا'' كے متعلق ہے، يعنى ہم نے ہميشہ كيلئے نہيں بلكہ ايك محدود مدت كيلئے عذاب برطرف كيا ہے، يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ ''إلى ا جل'' كا فعل ''كشفنا'' كے متعلق ہونا استمرار كشف كے لحاظ سے ہے تحقق كشف كے اعتبار سے نہيں ، اس ليئےہ كشف عذاب كے متحقق ہونے كيلئے مہلت كى بات نہ تھي_

۷_ آل فرعون كيلئے مقرر كى گئي مہلت، ايك محدود مہلت تھى كہ جس كے اختتام تك عام لوگ زندہ رہتے_

فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل هم بلغوه

جملہ ''ھم بلغوہ'' (يعنى اس مہلت كے اختتام تك وہ لوگ ضرور پہنچتے) كلمہ ''ا جل'' كيلئے وصف كے طور پر لايا گيا ہے اور اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ معيّن كى گئي مہلت اس قدر تھى كہ آل فرعون (سب كے سب يا عام طور پر) اس مہلت كے خاتمے تك زندہ رہتے، يعنى اس قدر طولانى نہ تھى كہ موجودہ نسل كے لوگ عادى موت كے ذريعے مرجائیں _

۸_ آل فرعون، حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ (تصديق رسالت اور بنى اسرائیل كى آزادى كے بارے ميں ) پكا عہد كرنے كے باوجود آپعليه‌السلام پر ايك لحظہ كيلئے بھى ايمان نہ لائے اور بنى اسرائیل كو بھى آزاد نہ كيا_

لما كشفنا عنهم الرجز ...إذا هم ينكثون

۹_ آل فرعون كا حضرت موسيعليه‌السلام كے ساتھ كئے گئے وعدوں كا پابند نہ ہونا اور عہدشكنى كرنا_إذا هم ينكثون

۱۰_ وعدہ وفا كرنے سے آل فرعون كا انكار ،تعجب آور اور غير متوقع تھا_فلما كشفنا إذا هم ينكثون

''إذا'' فجائی ہ ہے اور اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ آل فرعون كى طرف سے عہد شكنى ،غير متوقع تھى البتہ يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ اس كا غير متوقع ہونا ان لوگوں كے لحاظ سے ہے كہ جو آل فرعون كے عہد دينے پر شاہد تھے يا كسى اور ذريعے سے اس سے آگاہ تھے_

۲۲۷

الله تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۳;اللہ تعالى كى مہلت ۶; اللہ تعالى كى رحمت كے اسباب ۴; اللہ تعالى كيقدرت۳

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۸

بلاء:رفع بلاء كے اسباب ۴

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۵;بنى اسرائیل كى نجات ۸

دعا:دعا كے اثرات ۴;رفع عذاب كى دعا ،۱، ۲

عذاب:رفع عذاب ۳

عہد:عہد پورا كرنے كى اہميت ۶

فرعونى :آل فرعون سے رفع عذاب ۲، ۵، ۶، ۸ ; آل فرعون كا كفر ۸; آل فرعون كو مہلت دينا ۶، ۷ ; آل فرعون كى خواہشات ،۱;آل فرعون كى عہد شكنى ۸، ۹، ۱۰ ;موسىعليه‌السلام كے ساتھ آل فرعون كا عہد ۸، ۹

مستجاب الدعوات: ۲، ۵

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۱;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۵ ;موسىعليه‌السلام كى دعا ،۱ ; موسىعليه‌السلام كى دعا قبول ہونا ۲، ۵

آیت ۱۳۶

( فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ )

پھر ہم نے ان سے انتقام ليا اور انھيں دريا ميں غرق كرديا كہ انھوں نے ہمارى آيات كو جھٹلايا تھا اور ان كى طرف سے غفلت برتنے والے تھے(۱۳۶)

۱_ خداوند متعال نے متعدد معجزات دكھانے اور اتمام حجت كرنے كے بعد ،آل فرعون كو سمندر ميں غرق كرديا_

فانتقمنا منهم فا غرقنهم فى اليمّ

كلمہ ''اليمّ'' لغت ميں ، سمندر اور بڑے دريا كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور اس ميں ''ال''

عہد كيلئے ہے چنانچہ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بحيرہ احمر ہے اور بعض كا كہنا يہ ہے كہ اس سے دريائے نيل كى طرف اشارہ ہے_

۲۲۸

۲_ خداوند متعال نے فرعونيوں كو سمندر ميں غرق كركے ان سے انتقام ليا_فانتقمنا منهم فا غرقنهم فى اليمّ

كلمہ''فا غرقنا'' ميں ''فاء'' تفسيريہ ہے، يعنى''ا غرقنا'' كلمہ''انتقمنا'' كا بيان اور اس كى تفسير ہے_

۳_ آل فرعون، حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ (اُن پر ايمان لانے اور بنى اسرائیل كو آزاد كرنے كے بارے ميں ) كئے گئے عہد كو توڑنے كى وجہ سے انتقام الہى كے اہل ٹھہرے_إذا هم ينكثون فانتقمنا منهم

جملہ''إذا هم ينكثون'' پر جملہ''فانتقمنا'' كى حرف ''فاء'' كے ذريعے تفريع ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ آل فرعون كى عہد شكنى ان سے انتقام الہى لينے كا سبب بنى تھے_

۴_ آل فرعون، آيات الہى كو جھٹلاتے ہوئے ان كى پرواہ نہيں كرتے تھے _با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم ميں ''عنھا'' كى ضمير كلمہ ''اى تنا'' كى طرف پلٹائی گئي ہے كہ اس صورت ميں ''غفلت'' لاپرواہى كے معنى ميں ہوگى نہ كہ بے خبرى كے معنى ميں ، اسلئے كہ اس سے پہلے كا جملہ ''كذبوا ...'' اس مطلب پر دلالت كرتا ہے كہ آل فرعون آيات الہى سے بے خبر نہ تھے_

۵_ آيات خدا سے بے اعتنائی ہى ان كے جھٹلائے جانے كا باعث بنتى ہے_با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

جملہ ''و كانوا ...'' جملہ ''كذبوا ...'' كيلئے تعليل ہوسكتاہے_

۶_ آل فرعون نے انتقام الہى سے غافل ہوتے ہوئے آيات خدا كو جھٹلايا_با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم اس بنياد پر ليا گيا ہے كہ ''عنھا'' كى ضمير كلمہ ''نقمت'' (''انتقمنا'' سے اخذ شدہ) كى طرف پلٹائی جائیے اور جملہ ''و كانوا ...'' فعل ''كذبوا'' كيلئے حال ہو كہ اس صورت ميں كلمہ ''غفلت'' اپنے حقيقى معنى (بے خبر ہونا) ميں استعمال ہوگا_

۷_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، آل فرعون كيلئے سمندر ميں غرق ہونے كا باعث بني_

فا غرقنهم فى اليمّ با نهم كذبوا بايا تنا و كانواعنها غفلين

''با نھم كذبوا'' ميں حرف ''باء'' سببيہ ہے اور يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ انتقام الہى كا سبب ، آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ہے_

۲۲۹

۸_ آيات الہى سے بے اعتنائی كرنے والے اور انہيں جھٹلانے والے لوگ، انتقام الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _فانتقمنا منهم با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

آيات خدا:آيات خدا سے روگردانى كے آثار۵;آيات خدا كى تكذيب ۴،۶;آيات خدا كى تكذيب كے اسباب ۵;آيات خدا كى تكذيب كى سزا ، ۷; آيات خدا كى تكذيب كرنے والے ۴، ۶، ۸

الله تعالى :اللہ تعالى كا انتقام ۲، ۳، ۶;اللہ تعالى كے انتقام كے عوامل ۸;اللہ تعالى كے عذاب

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۷;بنى اسرائیل كى نجات ۳

عذاب:عذاب كے اسباب۷

غفلت:انتقام خدا سے غفلت ۶

فرعوني:آل فرعون اور آيات خدا ۴;آل فرعون پر اتمام حجت ،۱; آل فرعون سمندر ميں ۱، ۲، ۳، ۷ ; آل فرعون سے انتقام ۲، ۳ ; آل فرعون كا دنيوى عذاب ۱، ۲، ۳، ۷ ; آل فرعون كا غرق ہونا ۱، ۲، ۳ ; آل فرعون كا كفر۳;آل فرعون كى عہد شكنى ۳;آل فرعون كى غفلت ۶;آل فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۷; آل فرعون كے غرق ہونے كے اسباب ۷;موسىعليه‌السلام كے ساتھ آل فرعون كا عہد ۳

۲۳۰

آیت ۱۳۷

( وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُواْ يَعْرِشُونَ )

اور ہم نے مستضعفين كو شرق و غرب زمين كا وارث بناديا اوراس ميں بركت عطا كردى اور اس طرح بنى اسرائیل پر اللہ كى بہترين بات تمام ہوگئي كہ انھوں نے صبر كيا تھا اور جوكچھ فرعون اور اس كى قوم والے بنا رہے تھے ہم نے سب كو برباد كرديا اور ان كى اونچى اونچى عمارتوں كو مسمار كرديا(۱۳۷)

۱_ بنى اسرائیل ،ايك طويل عرصہ سے آل فرعون كے زير تسلط رہتے ہوئے، ناتوان و كمزور ہوچكے تھے_

و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون

''كان'' اور اس جيسے دوسرے حروف كے ہمراہ فعل مضارع كا استعمال، زمانہ ماضى ميں اس فعل كے استمرار پر دلالت كرتاہے، بنابرايں جملہ ''كانوا يستضعفون'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ آل فرعون كے ہاتھوں بنى اسرائیل كى زبوں حالى ايك طولانى سابقہ ركھتى ہے_

۲_ خداوند متعال نے آل فرعون كو نابود كرتے ہوئے مشرق سے مغرب تك ان كى تمام زمين بنى اسرائیل كے اختيار ميں دے دي_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشرق الا رض و مغربها

۳_ جو زمين خداوند متعال نے آل فرعون كى ہلاكت كے بعد بنى اسرائیل كے اختيار ميں دى وہ بہت ہى بابركت اور زرخيز تھي_و مشرق الارض و مغربها التى باركنا فيها

۴_ زمينوں كا بابركت اور زرخيز ہونا، خدا كے اختيار ميں ہے_مشارق الار ض و مغاربها التى باركنا فيها

۵_ آل فرعون كى ہلاكت اور ان كى زمين پر بنى اسرائیل كى حكومت كے بارے ميں قوم موسىعليه‌السلام كو دى گئي خدا كى بشارت كسى كمى و كاستى كے بغير متحقق ہوگئي_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى اسرائيل

''كلمہ'' كا معنى ''بات'' ہے اور صدر آيت نيز آيات ۱۲۸، ۱۲۹ كى روشنى ميں اس سے مراد آل فرعون كى ہلاكت اور بنى اسرائیل كى جانشينى كے بارے ميں خوشخبرى ہے، ''تمت'' يعنى بطور كامل محقق ہوئي_

۲۳۱

۶_ آل فرعون كى ہلاكت اور ان كى زمين پر بنى اسرائیل كى حاكميت، قوم موسيعليه‌السلام كو ديئے گئے خدا كے نيك وعدوں ميں سے ہے_و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل

كلمہ ''الحسني'' يعنى خوبصورت ترين اور يہ كلمہ ''كلمت'' كيلئے صفت ہے_

۷_ ظالمين كى نابودى اور مستضعفين كى حاكميت، سنن الہى ميں سے ہے_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون ...و تمت كلمت ربك الحسنى

خداوند متعال نے فعل ''اورثنا'' كے بعد ايك مختصر كلمہ ''بنى اسرائی ل'' كے بجائیے ان كى صفت يعنى ''القوم الذين ...'' كو ذكر كيا تا كہ اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوپائے كہ خدا كى حمايت ، صرف بنى اسرائیل ہى كے ساتھ مخصوص نہ تھى بلكہ سنت خدا يہ ہے كہ وہ مستضعفين كو مستكبرين پر فتح عطا كرتاہے_

۸_ مستبكرين كى ہلاكت اور مستضعفين كى حاكميت كى خوشخبرى بشريت كيلئے خدا كے خوبصورت كلمات ميں سے ہے_

و ا ورثنا القوم ...و تمت كلمت ربك الحسنى

۹_ خداوند متعال، مستضعفين كا حامى ہے_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون

۱۰_ عصر بعثت كے كافروں كى شكست اور ان كى سرزمين پر اسلام كى حاكميت كے بارے ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خدا كى بشارت_و تمت كلمت ربك

بنى اسرائیل كے مستضعفين كى فتح اور مستكبرين كى ہلاكت كے بارے ميں كلام كے دوران پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوكلمہ(ربك كے ذريعے) مخاطب قرار دينے (ربك) كا مقصد، اسلام اور مسلمين كى فتح اور كفر اور مستكبر كفّار كى شكست كے بارے ميں خوشخبرى دينا ہے_

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل فرعون كى حكومت كے دوران دشمنان دين كے مقابلے ميں صبر اور حوصلے والے لوگ تھے_و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

۱۲_ فرعون كے ظلم و ستم كے سامنے موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل كا صبر و حوصلہ، ان كى فتح اور ان كے

۲۳۲

دشمن كى ہلاكت كے بارے ميں وعدہ الہى كے متحقق ہونے كا باعث بنا_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

''بما صبروا'' ميں حرف ''باء'' سببيہ اور ''ما'' مصدريہ ہے يعني: ''تمت ...بسبب صبرھم''

۱۳_ مستضعفين كا صبر و حوصلہ، ان كى فتح كيلئے خدا كى امداد حاصل ہونے كى شرط ہے_تمت كلمت ربك ...بما صبروا

۱۴_ خدا كے ذريعے انسان كى تقدير معين ہونے ميں اس كى اپنى كاركردگى كو بھى عمل دخل حاصل ہے_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

فوق الذكر مفہوم ،مدد خدا كے سبب يعنى ''بما صبروا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۱۵_ فرعون اور اس كے ساتھى اپنى حكومت كے دوران، ہميشہ اونچى عمارتيں اور محلات بنانے كے درپے رہتے تھے_

و دمرنا ما كان يصنع فرعون و قومه و ما كانوا يعرشون

''ما كانوا'' ميں ''ما'' موصولہ ہے اور ''يعرشون'' كو دليل بناتے ہوئے اس سے مراد عرش و عريش (سائبان) ہے ''كان'' اور ''كانوا'' كے ہمراہ لائے گئے افعال ''يصنع'' اور ''يعرشون'' اس مطلب پر دلالت كرتے ہيں كہ آل فرعون ہميشہ محلات اور سائبان بنانے ميں لگے رہتے، يعنى ان كے بہت محلات تھے_

۱۶_ خداوند متعال نے آل فرعون كى ہلاكت كے بعد ان كے محلات كو بھى بالكل ويران كرديا_

و دمرنا ما كان يصنع فرعون و قومه و ماكانوا يعرشون

فعل ''دمرنا'' كا مصدر ''تدمير'' نابود كرنے كے معنى ميں آتاہے_

۱۷_ تاريخ بشر كى تبديلياں ،خداوند كے ارادے اور تدبير كے تحت ہى رونما ہوتى ہيں _

و ا ورثنا ...كلمت ربك ...و دمرنا

اسلام:اسلام كى حاكميت ۱۰

الله تعالى :اللہ تعالى كا ارادہ ۷; اللہ تعالى كا وعدہ ۶; اللہ تعالى كى امداد كى شرائط ۱۳; اللہ تعالى كى بشارت ۵، ۸، ۱۰ ; اللہ تعالى كى تدبير ۱۷; اللہ تعالى كى سنتيں ۷; اللہ تعالى كے افعال ۲، ۱۶; اللہ تعالى كے وعدے كاپورا ہونا ۱۲

انسان:

۲۳۳

انسان كى تقدير ۱۴

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل پر ظلم ۱;بنى اسرائیل كا صبر ۱۱; بنى اسرائیل كو بشارت ۵; بنى اسرائیل كو وعدہ۶; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۱، ۱۲ ; بنى اسرائیل كى جانشينى ۲، ۳، ۵; بنى اسرائیل كى حاكميت ۶، ۵ ;بنى اسرائیل كى زبوں حالي،۱ ; بنى اسرائیل كى فتح ۱۲;موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل ۱۱، ۱۲ ;

تاريخ:تاريخى تبديليوں كا سبب ۱۷

زمين:زمين كى بركت كا منشاء ۴

سرزمين:بابركت زمين ۳

صابرين: ۱۱صبر:صبر كے آثار ۱۲، ۱۳

ظالمين:ظالمين كى ہلاكت ۷

ظلم:ظلم پر صبر ۱۲

فتح :فتح كے عوامل ۱۲

فرعون:فرعون كا ظلم ۱۲;فرعون كا محلات بنانا ۱۵;فرعون كى آساءش طلبى ۱۵

فرعوني:آل فرعون اور بنى اسرائی ل،۱; آل فرعون كا علاقہ ۲، ۳، ۵، ۶ ; آل فرعون كا ظلم،۱ ; آل فرعون كا محلات بنانا ۱۵; آل فرعون كى آساءش طلبى ۱۵; آل فرعون كى ہلاكت ۲، ۳، ۶، ۱۶; آل فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۱۲; آل فرعون كے محلات كى ويرانى ۱۶

كافر:كافروں كى شكست ۱۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۱۰

مستضعفين:مستضعفين كا حامى ۹; مستضعفين كا صبر ۱۳; مستضعفين كى حاكميت ۷، ۸;مستضعفين كى فتح كى شرائط ۱۳

مستكبرين:مستكبرين كى ہلاكت ۸

۲۳۴

آیت ۱۳۸

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْاْ عَلَيا قوم يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُواْ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ )

اور ہم نے بنى اسرائیل كو دريا پار پہنچا ديا تو وہ ايك ايسى قوم كے پاس پہنچے جو اپنے بتوں كے گرد مجمع لگائے بيٹھى تھى _ ان لوگوں نے موسى سے كہا كہ موسى ہمارے لئے بھى ايسا ہى خدا بنا دو جيسا كہ ان كا خدا ہے انھوں نے كہا كہ تم لوگ بالكل جاہل ہو(۱۳۸)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو سمندر عبور كرايا_و جوزنا ببنى إسرائيل البحر

۲_ بنى اسرائیل نے وہى سمندر پار كيا جس ميں آل فرعون غرق ہوئے تھے_و جوزنا ببنى اسرائيل البحر

كلمہ ''البحر'' ميں ''ال'' عہد ذكرى ہے اور آيت ۱۳۶ ميں مذكور ''اليمّ'' كى طرف اشارہ ہے، يعنى ہم نے بنى اسرائیل كو وہى سمندر (كہ جس ميں آل فرعون كو غرق كيا) عبور كرايا_

۳_ قوم موسيعليه‌السلام كے سمندر عبور كرنے كا وقت، اسى سمندرميں آل فرعون كے غرق ہونے كے ساتھ متصل تھا_

فاغرقنهم فى اليم ...و جوزنا ببنى اسرائيل البحر

كلمہ ''و جوزنا ...'' آيت ۱۳۶(فانتقمنا منهم ...) پر عطف ہے_

۴_ سمندر عبور كرنے كے بعد بت پرست لوگوں كے ساتھ بنى اسرائیل كى ملاقات_فا تو عليا قوم يعكفون على ا صنام لهم

فعل ''اتوا'' چونكہ حرف ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا ''گزرنے'' كے معنى كو متضمن ہے_

۲۳۵

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بت پرستى كا وجود_يعكفون على ا صنام لهم

۶_ قوم موسيعليه‌السلام جن بت پرست لوگوں كے پاس سے گزري، ان كے پاس كئي بت تھے_على ا صنام لهم

''ا صنام'' صنم كى جمع ہے اور صنم كا معنى ''بت'' ہے

۷_ قوم موسيعليه‌السلام كے راستے ميں موجود ،بت پرست لوگ ايسے معبودوں كى پرستش كرتے تھے كہ جن كے وہ خود مالك تھے_ا صنام لهم

۸_ قوم موسى كے راستے ميں موجود، بت پرست لوگ اپنے بتوں كى پرستش پر جمے بيٹھے تھے اور ہميشہ انہى كى عبادت ميں مشغول رہتے تھے_يعكفون على اصنام لهم

''يعكفون'' كا مصدر ''عكوف'' ہے اور يہ كسى چيز كى طرف رخ كرنے اور ہميشہ اسى كے ساتھ چمٹے رہنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور يہاں آيت ميں موجود قرائن كى روشنى ميں اس سے مراد پرستش كے ساتھ چمٹے رہناہے، چنانچہ فعل مضارع (يعكفون) بھى استمرار پر دلالت كرتا ہے، بنابراين جملہ ''يعكفون علي ...'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ وہاں كے بت كدے پرستش كرنے والوں سے كبھى بھى خالى نہيں ہوتے تھے يا تو قوم كى طرف سے كچھ لوگ بتوں كى پوجا كرنے پر مامور ہوتے تھے يا پھر وہ خود ،بارى بارى ان كى پرستش كرنے آتے تھے_

۹_ بنى اسرائیل نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ جيسے ان لوگوں كے معبود (بت) ہيں ويسے ہى ہمارے لئے بھى ايك معبود بناؤ_

اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۰_ بنى اسرائیل نے بت پرستوں اور محسوس معبودوں كے سامنے ان كى فروتنى كا مشاہدہ كرنے پر اپنے لئے بھى ويسے ہى ايك محسوس و ملموس معبود كا تقاضا كيا_فا توا عليا قوم يعكفون على ا صنام لهم قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۱_ خراب ماحول اور برى تہذيب و ثقافت سے انسان كا اثر قبول كرنا_

فا توا عليا قوم ...قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۲_ بنى اسرائی ل، نعمات خدا كے مقابل ناشكرے لوگ تھے_

و جوزنا ببنى اسرائيل البحر ...قالوا ى موسى اجعل لنا الهاً

غير خدا كى پرستش كى طرف بنى اسرائیل كے مائل

۲۳۶

ہونے اور بحيرہ احمر كو معجزانہ انداز ميں عبور كرتے ہوئے آل فرعون سے ان كے نجات پانے كے درميان زيادہ وقت كا فاصلہ نہ تھا، اس سے يہ حقيقت معلوم ہوتى ہے كہ بنى اسرائیل ناشكرے تھے_

۱۳_ محسوس و ملموس معبود پر اعتقاد، انسان كى جہالت كى علامت ہے_كما لهم ء الهة قال إنكم قوم تجهلون

موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كو محسوس و ملموس معبود كے بارے ميں ان كى درخواست (كہ جو جملہ ''كما لھم ء الھة'' سے سمجھى جاتى ہے) پر جاہل كہہ كر پكارا_

۱۴_ قوم موسيعليه‌السلام حقيقى اور قابل پرستش معبود كى خصوصيات سے جاہل تھي_

قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة قال إنكم قوم تجهلون

۱۵_ نعمات خدا سے قوم موسيعليه‌السلام كى بے اعتنائی اور غير خدا كى پرستش كى طرف ان كى رغبت كا اصلى سبب، ان كى وسيع جہالت تھي_و جوزنا ببنى إسرائيل البحر ...قالوا ى موسي ...قال إنكم قوم تجهلون

جيسا كہ آيت كريمہ سے استفادہ ہوتاہے كہ غير خدا كى پرستش كى طرف بنى اسرائیل كا مائل ہونا، سمندر سے ان كے عبور كرنے كى نعمت كے متحقق ہونے كے بعد تھا، بنابراين كہا جاسكتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے انہيں جاہل كہنے ميں اس جہت كو بھى مد نظر ركھا تھا يعنى يہ نادانى ہے كہ انسان نعمات الہى كا مشاہدہ كرتے ہوئے بھى اس كے غير كى طرف رغبت پيدا كرے_ فعل مضارع ''تجھلون'' اس جہالت كى وسعت پر دلالت كرتاہے_

۱۶_ ايسى چيز كى پرستش كرنا كہ جس كا انسان خود مالك ہو، اسكى جہالت كى علامت ہے_

يعكفون على ا صنام لهم ...قال إنكم قوم تجهلون

موسىعليه‌السلام نے جن نكات كے پيش نظر انہيں جاہل كہا وہى ہيں كہ جو ''ا صنام لھم'' سے ہاتھ آتے ہيں يعنى يہ ايك جاہلانہ بات ہے كہ تم لوگ بت پرستوں كو ديكھتے ہو كہ وہ ايسى چيز كى پرستش ميں مشغول ہيں كہ جس كے وہ خود مالك ہيں ، اس كے باوجود تمہارا تقاضا يہ ہے كہ ان كے معبود كے مانند تمہارے پاس بھى ايك معبود ہونا چاہيئے_

۱۷_ معبود بنانے پر بندوں ميں سے كسى بندے (موسىعليه‌السلام ) كے قادر ہونے كا اعتقاد، بنى اسرائیل كى جہالت كى علامت ہے_اجعل لنا إلهاً ...قال إنكم قوم تجهلون جملہ ''اجعل لنا إلھا'' اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ بنى اسرائیل نے موسىعليه‌السلام (كہ جو خود ايك بشر ہيں ) سے تقاضا كيا كہ ان كيلئے ايك معبود مہيا كريں ، چنانچہ موسىعليه‌السلام نے بھى انہيں اسى جہت سے جاہل شمار كيا يعنى يہ ايك جاہلانہ بات ہے كہ تم يہ گمان كرو كہ بندگان خدا ميں سے كوئي

۲۳۷

بندہ، پرستش كے لائق معبود بنا سكتا ہے_

۱۸_ جھوٹے معبودوں كى طرف رجحان كے ذريعے نعمات خدا پر ناشكرا ہونا، انسان كى جہالت كى علامت ہے_

و جوزنا ببنى إسرائيل البحر ...قال إنكم قوم تجهلون

آل فرعون :آل فرعون سمندر ميں ۲،۳;آل فرعون كا غرق ہونا ۳، ۲

الله تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۱

انسان:انسان كى طبيعت كا لچكدار ہونا ،۱۱;انسان كے ابعاد، ۱۱

باطل معبود:باطل معبودوں كا مملوك ہونا ۷; باطل معبودوں كى طرف رغبت ۱۸

بت پرست:زمانہ موسىعليه‌السلام كے بت پرست ۵، ۶

بت پرستي:زمانہ موسىعليه‌السلام ميں بت پرستى ۵، ۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور باطل معبود ۱۵;بنى اسرائیل اور بت پرست ۴، ۶، ۹، ۱۰; بنى اسرائیل اور سچے معبود ۱۴;بنى اسرائیل اور موسىعليه‌السلام ۹; بنى اسرائیل پر نعمات ۱۲، ۱۵; بنى اسرائیل كا عقيدہ ۱۷; بنى اسرائیل كا محسوسات كى طرف رجحان ۱۰; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴ ; بنى اسرائیل كى جہالت ۱۴، ۱۵، ۱۷; بنى اسرائیل كى خواہشات ۱۰، ۹ ; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ۱، ۲، ۳، ۴ ;بنى اسرائیل كے رجحانات ۱۵; بنى اسرائیل كى ناشكرى ۱۲، ۱۵

جہالت:جہالت كے اثرات ۱۵;جہالت كى علامات ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۱۸

جہلاء: ۱۴

عبادت:غير خدا كى عبادت ۱۶

عقيدہ:محسوس معبود پر عقيدہ ۱۳

كردار:كردار پر ماحول كے اثرات ۱۱

كفران:كفران نعمت كے آثار ۱۸

۲۳۸

معبود:محسوس معبود پر عقيدہ ۱۳

نقصان دہ چيز كى پہچان:ثقافتى لحاظ سے نقصانات كى پہچان ۱۱

آیت ۱۳۹

( إِنَّ هَـؤُلاء مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

ان لوگوں كا نظام برباد ہونے والا اور ان كے اعمال باطل ہيں (۱۳۹)

۱_ بت پرستى ايك فاسد ائین ہے اور بت پرست بے ہودہ كردار كے مالك ہوتے ہيں _

إن هؤلاء متبرّ ما هم فيه و بطل ما كانوا يعملون

گزشتہ آيت كے قرينہ كى روشنى ميں ''ما ھم فيہ'' سے مراد بت پرستى ہے اور ''ما كانوا يعملون'' سے بتوں كى پرستش اور بت كدوں ميں اعتكاف بيٹھنا مراد ہے، كلمہ ''متبر'' مصدر ''تتبير'' سے اسم مفعول ہے اور ''ہلاك شدہ'' كے معنى ميں ہے اور كسى ائین كى ہلاكت سے مراد اس كا فاسد ہونا ہے_

۲_ فاسد ائین كى پيروى كرنے والوں اور بے نتيجہ اعمال انجام دينے والوں كى تقليد، جہالت و نادانى كى علامت ہوتى ہے_

إنكم قوم تجهلون ان هؤلاء متبّر ما هم فيه

جملہ''ان هؤلائ'' جملہ ''إنكم قوم تجھلون'' كيلئے تعليل ہے يعنى تم لوگ اس وجہ سے نادان ہو كہ ايك فاسد ائین كى پيروى كرنا چاہتے ہو_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام نے ائین بت پرستى كے فاسد ہونے كى وضاحت كرتے ہوئے بنى اسرائیل (كہ جو اس ائین كے آرزومند تھے) كو ان كى جہالت سے آگاہ كيا_قال إنكم قوم تجهلون إن هؤلاء متبرّ ما هم فيه و بطل ما كانوا يعملون

۴_ بت پرستوں كے اعمال، بارگاہ خدا ميں باطل اور بے ثمر ہيں _و بطل ما كانوا يعملون

۲۳۹

باطل عقيدہ:باطل عقيدہ كى پيروى كرنے والوں كى تقليد ۲

بت پرست:بت پرستوں كے اعمال ۴

بت پرستي:بت پرستى كا بے ثمر ہونا،۱ ;بت پرستى كا فاسد ہونا ،۱ ، ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۳;بنى اسرائیل كى جہالت ۳

تقليد:مذموم تقليد ۲

جہالت:جہالت كى علامات ۲

عمل:باطل عمل ۴;ناروا عمل ۴

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۳;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۳;موسىعليه‌السلام كى داستان ۳

آیت ۱۴۰

( قَالَ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـهاً وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ )

كيا ميں خدا كے علاوہ تمھارے لئے دوسرا خدا تلاش كروں جب كہ اس نے تمھيں عالمين پر فضيلت دى ہے(۱۴۰)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے غير خدا كے لائق عبادت ہونے سے انكار كرتے ہوئے بت پرستى كى طرف اپنى قوم كے رجحان پر حيرت كا اظہار كيا_قال ا غير الله ا بغيكم إلهاً

''ا غير الله '' ميں ہمزہ، انكار اور تعجب كيلئے ہے اور ''كم'' كے ساتھ لام مقدر ہے، كلمہ ''إلھا'' فعل ''ا بغي'' كيلئے مفعول ہے جبكہ''غير الله ''

كلمہ ''إلھا'' كيلئے صفت يا حال ہے يعني:''ا ا بغى لكم إلها غير الله ''

۲_ غير از خدا كوئي شخص اور كوئي چيز بھى پرستش اور الوہيت كے لائق نہيں _قال ا غير الله ا بغيكم إلهاً

۲۴۰