تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 0%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

 تفسير راہنما

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني
زمرہ جات:

صفحے: 736
مشاہدے: 150506
ڈاؤنلوڈ: 3027


تبصرے:

جلد 1 جلد 2 جلد 3 جلد 4 جلد 5 جلد 6 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 150506 / ڈاؤنلوڈ: 3027
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد 6

مؤلف:
اردو

۳_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل كو اس وقت كى تمام قوموں اور ملتوں پر فضيلت عطا كي_

و هو فضلكم على العلمين

كلمہ ''العالمين '' كا ''ال'' عہد ہے اور عصر موسيعليه‌السلام كے عالمين كى طرف اشارہ ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل پر خدا كے خصوصى احسان اور فضل و كرم كو بيان كرتے ہوئے صرف اسى كو ان كيلئے لائق عبادت متعارف كرايا_قال ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

جملہ''و هو فضلكم'' حاليہ ہے اور جملہ ''اغير الله ...'' كيلئے تعليل ہے يعني: كيسے ممكن ہے كے غير خدا كو تمھارے لئے پرستش كے واسطے تلاش كروں حالانكہ دوسرى اقوام پر تمھارى برترى جيسى تمام نعمات اسى كى عطا كى ہوئي ہيں _

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بت پرستى كى طرف اپنى قوم كے رجحان كو نعمات خدا كى ناشكرى قرار ديا_

ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۶_ شرك كى طرف رجحان، نعمات خدا كى ناشكرى ہے_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۷_ خدا كى پرستش كے ذريعے اس كى نعمات كا شكر بجا لانے كى ضرورت_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

الله تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۲;اللہ تعالى كا فضل ۴;اللہ تعالى كى عبادت ۷;اللہ تعالى كى نعمات ۶،۷

بت پرستي:بت پرستى كے اثرات ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى بت پرستى ،۱;بنى اسرائیل كى برترى ۳، ۴ ;بنى اسرائیل كى تاريخ،۱ ;بنى اسرائیل كے رجحانات ۱، ۵; بنى اسرائیل كے فضائل ۴;عصر موسى كے بنى اسرائیل ۳

توحيد:توحيد عبادى ۲،۴

شرك:شرك كا رجحان ۶

شكر:شكر نعمت كى اہميت ۷

عبادت:عبادت خدا ۷ كفران:كفران نعمت ۵، ۶

۲۴۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۵;موسىعليه‌السلام اور توحيد عبادى ۴;موسىعليه‌السلام اور شرك عبادى ;موسىعليه‌السلام كا تعجب،۱ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ، ۱،۵ ;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت۱۴۱

( وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے نجات دى جو تمھيں بدترين عذاب ميں مبتدلا كر رہے تھے تمھارے لڑكوں كوقتل كر رہے تھے اور لڑكيوں كوخدمت كے لئے باقى ركھ رہے تھے اور اس ميں تمھارے لئے پروردگار كى طرف سے سخت ترين امتحان تھا (۱۴۱)

۱_ بنى اسرائی ل، آل فرعون كے زير تسلط ہميشہ سخت عقوبتوں ميں گرفتار رہے تھے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' مسلط كرنا كے معنى ميں آتاہے كلمہ''سَوئ'' كى كلمہ ''العذاب'' كى طرف اضافت ايك صفت كى موصوف كى طرف اضافت ہے، يعني: العذاب السوئ_

۲_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے آل فرعون كے تسلط اور ان كے جان ليوا شكنجوں سے نجات دلائی _و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

جملہ''هو فضلكم'' (اس نے تمہيں فضيلت بخشي) ميں فضيلت بخشنے كى نسبت صرف خدا كى طرف دى گئي ہے ليكن دوسرے جملے''ا نجيناكم'' (ہم نے تمہيں نجات دي) ميں نجات بخشنے كى نسبت ضمير ''نا'' (يعنى ہم) كى طرف دى گئي ہے اس موازنے سے سمجھا جا سكتاہے كہ خدا نجات بخشنے كے عمل ميں اسباب كى طرف بھى نظر ركھتاہے كہ مذكورہ بحث كى مناسبت سے اس كا سبب بعثت موسىعليه‌السلام ہے، بنابراين''ا نجيناكم'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے تمہيں نجات دي_۳

_ آل فرعون كے تسلط اور ان كے عذابوں سے نجات بنى اسرائیل كيلئے ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ايك يادگار واقعہ ہے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذابكلمہ ''إذ'' فعل مقّدر ''اذكروا'' كيلئے مفعول بہ ہے_

۲۴۲

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے آل فرعون كے رنج و آزار سے نجات بخشنے كے سلسلہ ميں بنى اسرائیل پر لطف خدا كا سہارا ليتے ہوئے انہيں خدائے يكتا كى پرستش اور شرك سے اجتناب كى ضرورت سے آگاہ كيا_

قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ مورد بحث آيت ميں مذكور مفاہيم حضرت موسىعليه‌السلام كے كلام سے لئے گئے ہوں اور ان كے اصلى مخاطبين وہى لوگ ہوں كہ جو سمندر عبور كرنے كے بعد بت پرستى كى طرف مائل ہوئے_

۵_ نعمات الہى كى طرف توجہ، انسان كيلئے توحيد پر قائم رہنے اور شرك و بت پرستى كے رجحان سے اجتناب كرنے كا باعث بنتى ہے_قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم

۶_ آل فرعون، بنى اسرائیل كے بيٹوں كو قتل كر ڈالتے اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_

يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

فعل ''يقتلون'' كا مصدر ''تقتيل'' (كثرت سے قتل كرنا) كے معنى ميں ہے، اور ''استحياء'' (زندہ چھوڑ دينا) كے معنى ميں ہے _

۷_ بيٹوں كا وسيع پيمانے پر قتل عام اور عورتوں كوزندہ چھوڑ دينا، بنى اسرائیل كيلئے آل فرعون كى طرف سے سخت ترين سزا تھي_يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

جملہ''يقتلون ابناء كم و يستحيون نساء كم'' گزشتہ جملہ كيلئے تفسير ہوسكتاہے_ يعنى''سوء العذاب'' سے مراد وہى بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑناہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس كے ايك مصداق كو بيان كرنے كيلئے ہو يعنى آل فرعون نے تم پر جو عذاب مسلط كيے ان ميں سے ايك بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑنا ہے اس بنياد پر صرف دو عذابوں كو ذكر كرنا ان كے شديدتر ہونے كى وجہ سے ہے_

۸_ آل فرعون كے ہاتھوں اپنے بيٹوں كے قتل عام كى وجہ سے، بنى اسرائیل كى عورتيں زندگى كى خوشيوں سے محروم ہوچكى تھيں _يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

''عورتوں كو زندہ چھوڑنا، قوم بنى اسرائیل كيلئے ايك عذاب كے طور پر تھا جبكہ خود عورتيں بھى اس قوم كا حصّہ تھيں اور چونكہ صرف زندہ چھوڑ دينا عذاب شمار نہيں كيا جاسكتا لہذا كلمہ ''يستحيون'' كہ جو كلمہ ''يقتلون'' كے بعد ذكر ہوا ہے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتاہے كہ

۲۴۳

بيٹوں كو كچھ اس طرح قتل كيا جاتا كہ عورتيں يعنى قوم كى مائیں اپنے زندہ رہنے اور فرزندوں كو قتل ہوتا ديكھنے كى وجہ سے سخت رنج و عذاب ميں تھيں چنانچہ كلمہ ''ا بناء'' كے مقابلے ميں كلمہ ''نساء'' كا استعمال اس احتمال كى تائی د كرتاہے_

۹_ بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنے سے آل فرعون كا مقصد ،ان كا استثمار تھا _*

يسومونكم سوء العذاب ...يستحيون نساء كم

عورتوں كے زندہ چھوڑنے كو عذاب كے عنوان سے بيان كرنا ان كے استثمار كى ايك اور توجيہ ہے_

۱۰_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو فرعون كے جان ليوا عذابوں ميں گرفتار كرنے كے ذريعے ايك بڑيآزماءش ميں ڈالا_

يسومونكم سوء العذاب ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں بھى ہوسكتاہے اور نعمت كے معنى ميں بھى ''ذلكم'' كا مشار اليہ يا تو عذاب ہے يا اس سے نجات، مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو آزماءش كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشاراليہ خود عذاب جانا گيا ہے_

۱۱_ خداوند متعال نے عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل كو فرعون كے شديد عذاب اور شكنجوں سے نجات دلاتے ہوئے ايك بھارى آزماءش سے دوچار كيا_و إذ انجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں ہو اور ''ذلكم'' كے ذريعے عذاب سے نجات كى طرف اشارہ مقصود ہو_

۱۲_ آل فرعون كى عقوبتوں سے نجات، بنى اسرائیل كيلئے خدا كى ايك عظيم نعمت تھي_

و إذ ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو نعمت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشار اليہ عذاب سے نجات (كہ جسے ''ا نجيناكم'' سے استفادہ كيا گيا ہے) كونظر ميں ركھا گيا ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۳_ خداوند متعال مشكلات، نعمات اور انعامات كے ذريعے انسان كا امتحان ليتاہے_

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴_ انسان كى سختيوں كے ذريعے آزماءش، خدا كے مقام ربوبى كے ساتھ مربوط ہے اور يہ اس كے رشد و تربيت كيلئے ہوتى ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۲۴۴

۱۵_ تاريخ اور اس كے واقعات پر ارادہ خدا كى حاكميت قائم ہے_و إذا ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

آل فرعون :آل فرعون اور بنى اسرائیل ۱; آل فرعون كا استعمارى رويہ ۹; آل فرعون كا ظلم ۶;آل فرعون كى آدم كشى ۶، ۸;آل فرعون كى حاكميت ۱، ۳; آل فرعون كى عقوبتيں ۱، ۲، ۳، ۴، ۷;

الله تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۱۰، ۱۱، ۱۳ ;اللہ تعالى كا لطف ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۱۴; اللہ تعالى كى مشيّت ۱۵; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲;اللہ تعالى كے ا فعال ۲، ۱۰، ۱۱

امتحان:امتحان كے وسائل ۱۳، ۱۴;رنج و آزار كے ذريعے امتحان ۱۱;مشكلات كے ذريعے امتحان ۱۳، ۱۴ ; نعمت كے ذريعے امتحان ۱۳

بت پرستي:بت پرستى سے اجتناب كے عوامل ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل پر نعمتيں ۱۲;بنى اسرائیل كا امتحان ۱۰، ۱۱;بنى اسرائیل كى آزماءش ۱۰; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; بنى اسرائیل كى عقوبت ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۱۰، ۱۱ ;بنى اسرائیل كى عورتوں پر عذاب ۸;بنى اسرائیل كى عورتوں كا استثمار ۹;بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۶، ۷، ۹ ; بنى اسرائیل كى نجات ۳، ۴، ۱۱، ۱۲ ;بنى اسرائیل كى نجات كا منشاء ۲;بنى اسرائیل كے بيٹوں كا قتل ۶،۷،۸

تاريخ:تاريخ سے عبرت پانا ۳;تاريخ كا محرك ۱۵; تاريخى تبديليوں كا منشاء ۱۵

تربيت:تربيت كے اسباب ۱۴

توحيد:توحيد پر قائم رہنے كے اسباب ۵;توحيد عبادى كے اسباب ۴

ذكر:ذكر تاريخ ۳;ذكر نعمت كے اثرات ۵;نعمات خدا كا ذكر ۵

رشد:رشد كے اسباب ۱۴

شرك:شرك سے اجتناب كے عوامل ۴، ۵

فرعون:فرعون كى عقوبتيں ۱۰، ۱۱

موسىعليه‌السلام :

۲۴۵

بعثت موسىعليه‌السلام ۲;موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۴;موسىعليه‌السلام كاقصّہ ۲;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت ۱۴۲

( وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ )

اور ہمنے موسى سے تيس رتوں كا وعدہ ليا اور اسے دس مزيد راتوں سے مكمل كرديا كہ اس طرح ان كے رب كا وعدہ چالى راتوں كا وعدہ ہوگيا اورانھوں نے اپنے بھائی ہارون سے كہا كہ تم قوم ميں ميرى نيابت كرو اور اصلاح كرتے رہو اور خبردار مفسدوں كے راستہ كا اتباع نہ كرنا (۱۴۲)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو سمندر عبور كرانے كے بعد، موسىعليه‌السلام كو ايك خاص عبادت اور مناجات كيلئے بلايا_

و وعدنا موسى ثلثين ليلة

كلمہ ''ليلة'' كو استعمال كرنے ميں ، با وجود اس كے كہ دن اور رات كيلئے عام طور پر كلمہ ''يوم'' سے استفادہ كيا جاتاہے، اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ خدا نے موسىعليه‌السلام كو عبادت كيلئے بلايا تھا اور چونكہ موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں رہتے ہوئے بھى عبادت اور مناجات ميں مشغول رہتے تھے اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ وہ عبادت اور مناجات خاص تھي_

۲_ پہلے مرحلہ ميں موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كى مدت تيس راتيں متعين كى گئي_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام عبادت و مناجات كيلئے تيس راتيں گزارنے كے علاوہ مزيد دس راتيں مكمل كرنے كے بھى پابند ہوئے_و ا تممنها بعشر فتم ميقات ربه ا ربعين ليلة

''ميقات'' يعنى كسى كام كے انجام دينے كيلئے متعيّن كيا گيا وقت، ''ميقات ربہ'' يعنى وہ وقت كہ جسے خدا نے عبادت و مناجات كے انجام دينے كيلئے موسيعليه‌السلام كيلئے متعين كيا_

۴_ خداوند متعال كے ساتھ موسىعليه‌السلام كى خاص مناجات كل چاليس راتوں ميں مكمل ہوئيں اور مطلوبہ حد تك پہنچيں _

فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

فعل ''تمّ'' كلمہ ''بلغ'' كے معنى كو متضمن ہے، اس لحاظ سے كلمہ ''اربعين'' اسكے لئے مفعول بہ ہے، يعنى''فتمّ ميقات ربه بالغاً اربعين ليلة''

۲۴۶

۵_ چاليس راتوں كى عبادت اور مناجات، كامل اور ايك خاص اثر كى حامل عبادت و مناجات ہيں _

و ا تممنها بعشر فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

جملہ''ا تممنها'' ميں كلمہ ''اتمام'' كا استعمال نيز جملہ''فتم ميقت ربه'' ميں (مثلاً ''صار'' كى بجائیے) كلمہ ''تمّ'' سے استفادہ، اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ تيس راتوں كى عبادت ايك كامل اور تام عبادت نہ تھى اور چاليس راتوں كے گزرجانے كے بعد كامل اور تام ہوئي_ اس مطلب كى وضاحت كہ تيس ميں دس كے اضافہ سے چاليس راتيں ہوگئيں ''فتم ...اربعين'' ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے_

۶_ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ مناجات كيلئے انبياء كى خلوت نشيني_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت و مناجات كے واسطے معين كيے گئے وقت كى مقدار ميں خدا كيلئے ''بداء'' كا ظہور_

و ا تممنها بعشر

۸_ حضرت ہاورنعليه‌السلام ، حضرت موسىعليه‌السلام كے بھائی اور ان كے پيروكار تھے_و قال موسى لا خيه هرون

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے ا پنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو خدا كے ساتھ اپنى مناجات كے خاتمے تك بنى اسرائیل كى رہبرى كيلئے منصوب كيا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى امت كو حتى كہ مختصر مدت (مناجات كيلئے جدائی كے وقت) كيلئے بھى رہبر كے بغير نہيں چھوڑا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۱_ انبيائے الہى معاشرے كيلئے رہبر كے انتخاب كا حق ركھتے ہيں _و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام ، مقام نبوت كے علاوہ بنى اسرائیل كى سياسى قيادت اور امامت كا منصب بھى ركھتے تھے_

و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۳_ امتوں كى امامت اور قيادت ،نبوت و رسالت سے جدا منصب ہے_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي جملہ''اخلفنى فى قومي'' يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كو بنى اسرائیل كى امامت و رہبرى كيلئے باقاعدہ منصوب كيا اگر امامت و رہبرى اور پيغمبرى ميں كوئي تفاوت نہ ہوتا تو كيا ضرورت تھى كہ موسيعليه‌السلام اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام (كہ جو خود بھى نبى تھے) كو امامت كيلئے منصوب كريں _

۲۴۷

۱۴_ خدا نے موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ ان كى خاص عبادت و مناجات كى جگہ بنى اسرائیل سے دور ہونى چاہيے_

و وعدنا موسى ...اخلفنى فى قومي

موسىعليه‌السلام نے ميقات كى طرف جانے كى وجہ سے ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا، اس سے يہ مطلب سمجھ ميں آتاہےكہ وہ مدت ميقات كے دوران بنى اسرائیل كے درميان موجود نہ تھے بلكہ ان سے دور تھے_

۱۵_ بنى اسرائیل كے معاشرتى امور كى اصلاح، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بھائی اور خليفہ ہارونعليه‌السلام كو ديئے گئے دستور العمل كا حصّہ تھي_و ا صلح

چونكہ اصلاح كے بارے ميں حكم بنى اسرائیل كى سرپرستى كيلئے ہارونعليه‌السلام كے انتخاب كے بعد آياہے لہذا اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سے بنى اسرائیل كے اجتماعي، ثقافتى اور دوسرے امور كى اصلاح مراد ہے نہ يہ كہ ہارونعليه‌السلام كے اپنے ذاتى امور كى اصلاح_

۱۶_ انسانى معاشروں اور امتوں كيلئے ايك مصلح رہبر كى ضرورت ہوتى ہے_اخلفنى فى قومى و ا صلح

۱۷_ مفسدين كى راہ و روش كى پيروى سے اجتناب كرنا، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے خليفہ ہارونعليه‌السلام كيلئے ايك معين شدہ فريضہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كا بنى اسرائی لى معاشرہ ايك مفسد گروہ اور اس كے غلط نظريات اور طرز عمل سے محفوظ نہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۹_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى غيبت ميں بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش كے بارے ميں فكرمند تھے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۰_ لوگوں كے معاشرتى امور كى اصلاح اور مفسدين كے افكار كى پيروى سے اجتناب، انبياء اور رہبران الہى كے اہم فرائض ميں سے ہے_و ا صلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۱_ برائی كے خلاف مبارزہ كرنا اور مفسدين كو ناكام بنانا، انبيائے الہى كے بنيادى فرائض ميں سے ہے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴۸

۲۲_ مفسدين، لوگوں پر حكومت كرنے كے اہل نہيں ہيں _و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۳_ مفسدين كے راہ و رسم اور ان كے افكار كى پيروى كرنا، اصلاح معاشرہ سے مانع ہے_و اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله: ''و وعدنا موسى ثلثين ليلة و اتممناها بعشر'' قال: بعشر ذى الحجة ...(۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''و وعدنا موسى ...'' ميں مذكور كلمہ ''بعشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے مراد ذى الحجہ كى دس راتيں ہيں

۲۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ...''و وعدنا موسى ثلثين ليلة'' إلى ''ا ربعين ليلة'' اما ان موسى لم يكن يعلم بتلك العشر و لا بنو اسرائيل .(۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''و ا تممناھا بعشر'' ميں مذكور كلمہ ''عشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل نہيں جانتے تھے كہ ميقات الہى كے وقت دس راتيں اضافہ كى جائیں گي

اعداد:تيس كا عدد ۲، ۳، ۴;چاليس كا عدد ۴، ۵;دس كا عدد ۳، ۴

الله تعالى :اللہ تعالى ميں بداء ۷;اللہ تعالى كى دعوت، ۱

امامت:مقام امامت ۱۳امتيں :امتوں كى ضروريات ۱۶

انبياء:انبياء كى تعليمات ۲۱; انبياء كى خلوت نشيني۶;انبياء كى عبادت۶ ;انبياء كى مسؤوليت ۱۲، ۲۰ ;انبياء كى مناجات ۶;انبياء كے اختيارات ۱۱

برائی :برائی كے خلاف مبارزہ ۲۱

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۱۵، ۱۸ ; بنى اسرائیل كے رہبر ۱۲; بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش ۱۹; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ،۱ ;عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل ۱۸

چاليس:

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۵ ح ۶۷، نور الثقلين ج/۲ ص ۶۱ ح ۲۳۵_

۲)تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۶ ح ۷۰ تفسير برھان ج/۲ ص ۳۳ ح ۴_

۲۴۹

چاليس كے عدد كے آثار ۵

رہبري:اہميت رہبرى ۱۰، ۱۶;دينى رہبرى كى مسؤوليت ۲۰;رہبر بنانا ،۱۱;مسؤوليت رہبرى ۱۵، ۱۷

عبادت:رات كى عبادت كے اثرات ۵;كامل عبادت ۵

فلسفہ سياسي: ۲۲

معاشرہ:اصلاح معاشرہ ۱۵;اصلاح معاشرہ كى اہميت ۲۰ ; اصلاح معاشرہ كے موانع ۲۳;معاشرہ كى ضروريات ۱۶

مفسدين:عصر موسيعليه‌السلام كے مفسدين ۱۸;مفسدين اور حكومت ۲۲;مفسدين سے روگردانى ۲۰، ۱۷;مفسدين كى اطاعت كے اثرات ۲۳; مفسدين كى نااہلى ۲۲; مفسدين كے ساتھ مبارزہ ۲۱

مناجات:رات كے وقت مناجات كے اثرات ۵;كامل مناجات ۵

موسىعليه‌السلام :امامت موسىعليه‌السلام ۱۲;اوامر موسيعليه‌السلام ۱۵;برادر موسىعليه‌السلام ۸; رات كے وقت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۴; موسىعليه‌السلام اور ہارون ۹، ۱۵، ۱۷ ; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۷، ۹، ۱۰، ۱۴، ۱۵ ، ۱۷، ۱۹ ; موسىعليه‌السلام كى پريشانى ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۱۷; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳، ۴ ; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى كى جگہ ۱۴; موسىعليه‌السلام كى ذمہ داري،۳; موسى كى سياسى رہبرى ۱۲; موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱۴ ; موسىعليه‌السلام كى مناجات ،۱;موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۱۴; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱۲; ميقات موسىعليه‌السلام ،۱ ۱۴ ; ميقات موسىعليه‌السلام كى مدت ۲، ۳ ; ميقات موسىعليه‌السلام كے مراحل ۴; ميقات ميں موسى كى عبادت ۲، ۳، ۷ ;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۲، ۳، ۴، ۷، ۹ ;نبوت موسى ۱۲

موسىعليه‌السلام كے پيروكار: ۸

نبوت:مقام نبوت ۱۳

ہارونعليه‌السلام :ہارونعليه‌السلام اور موسىعليه‌السلام كا بھائی چارہ ۸;ہارون كا انتصاب ۹;ہارون كى داستان ۸، ۹، ۱۵، ۱۷; ہارون كى ذمہ دارى ۱۵، ۱۷;ہارون كى قيادت ۹، ۱۰

۲۵۰

آیت ۱۴۳

( وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكّاً وَخَرَّ موسَى صَعِقاً فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ )

تو اس كے بعد جب موسى ہمارا وعدہ پورا كرنے كے لئے ائے اور ان كے رب نے ان سے كلام كيا تو انھوں نے كہا كہ پروردگار مجھے اپنے جلوہ دكھا دے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہيں ديكھ سكتے ہو البتہ پہاڑ كى طرف ديكھو اگر يہ اپنى جگہ پر قائم رہ گيا تو پعر مجھے ديكھ سكتے ہو_ اس كے بعد جب پہاڑ پر پروردگار كى تجلى ہوئي تو پہاڑ چور چوڑ ہوگيا اور موسى بيہوش ہوكر گرپڑے پھر جب انھيں ہوش آيا تو كہنے لگے كہ پروردگار تو پاك و پاكيزہ ہے ميں تيرى بارگاہ ميں توبہ كرتا ہوں اور ميں سب سے پہلا ايمان وانے والا ہوں (۱۴۳)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام خدا كے ساتھ مناجات كى جگہ تشريف لے گئے اور يوں دعوت خدا كو بلا تاخير قبول كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا

''لميقتنا '' كا لام ''عند'' كے معنى ميں ہے، بنابراين''جاء موسى لميقتنا'' كا معنى يہ ہوگا كہ موسيعليه‌السلام كيلئے جو وقت معين كيا گيا وہ اسى وقت كسى تاخير كے بغير حاضر ہو گئے_

۲_ خداوند متعال نے مناجات كيلئے معيّن كى گئي جگہ ميں موسىعليه‌السلام كى موجودگى كے وقت، ان كے ساتھ كلام كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۳_ مناجات كى دعوت كے وقت خدا كا موسيعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا ان كو ديئے گئے الہى وعدوں ميں سے تھا_

۲۵۱

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۴_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، اُن كى رشد و تربيت كيلئے تھا_و كلّمه ربّه

۵_ مناجات كى جگہ خدا كے ساتھ كلام كرنے كے وقت موسىعليه‌السلام نے رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كي_

قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

۶_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، آپعليه‌السلام كيلئے رؤيت خدا كى درخواست كرنے كا باعث بنا_

و كلّمه ربّه قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

چونكہ موسىعليه‌السلام كى طرف سے رؤيت كى درخواست كى بات آپ كے ساتھ خدا كے ہم كلام ہونے كے بعد بيان كى گئي(و لما ...كلّمه ربّه قال ...) لہذا كہا جاسكتاہے كہ حضرت موسى خدا كا كلام سننے كى وجہ سے جمال حق كے ديدار كے مشتاق ہوگئے_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كا خدا كى طرف سے يہ جواب آيا كہ رؤيت خدا، ناممكن ہے_قال لن تراني

۸_ خداوند متعال، آنكھوں كے ذريعے ديكھے جانے سے منزا ہے_قال لن تراني

۹_ انسان، حتى كہ انبياء بھى خداوند متعال كو اپنى آنكھوں كے ذريعے ديكھنے سے ناتوان ہيں _قال لن تراني

۱۰_ علم انبياء كى محدوديت_قال رب ا رني ...قال لن تراني

چونكہ موسىعليه‌السلام رؤيت خدا (ہر معنى كہ جو اُن كى نظر ميں تھا) كے ناممكن ہونے سے آگاہ نہ تھے چنانچہ انہوں نے خدا سے اس بارے ميں درخواست بھى كي، اس سے انبياء كے علم كى محدوديت كا پتہ چلتاہے_

۱۱_ خداوند متعال نے رؤيت كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كے جواب ميں ان سے كہا: اپنے سامنے كے پہاڑ كى طرف ديكھو اور اس پر تجلى خدا كے اثر كا مشاہدہ كرو_قال لن ترانى و لكن انظر إلى الجبل

كلمہ''الجبل'' ميں ''ال'' عہد حضورى ہے، يعني:انظر إلى هذا الجبل

۱۲_ خدا نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اگر پہاڑ ہمارے جلوے كے اثر ميں اپنى جگہ پر قائم رہے تو تم بھى مجھے ديكھ لوگے_و لكن انظر إلى الجبل فان استقر مكانه فسوف تراني

۱۳_ كوہ طور، خداوند كى تجلى كے اثر كى وجہ سے چكنا چور ہوگيا_فلما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۲۵۲

''جعلہ'' كى ضمير فاعل كلمہ ''رب'' كى طرف بھى پلٹائی جاسكتى ہے يعني:جعل الرب بتجليله الجبل دكا'' اور جملہ ''تجلى ربہ'' سے اخذ ہونے والے مصدر كى طرف بھى پلٹ سكتى ہے يعني:''جعل تجليه الجبل دكا'' ''دك'' مصدر ہے اور چكنا چور ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مدكوك يعنى پسا ہوا) كے معنى ميں ہے_

۱۴_ مادى موجودات پر تجلى خدا ممكن ہے_فلما تجلى ربه الجبل

۱۵_ تجلى خدا، اگر موسىعليه‌السلام كے جسم پر بھى پڑتى تو وہ بھى پاش پاش ہوجاتا_و لكن انظر إلى الجبل ...و لما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، تجلى خدا كے اثر كى وجہ سے پہاڑ كے منہدم ہونے كو ديكھ كر بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا و خرّ موسى صعقا

''خرّ'' كا مصدر ''خرور'' گرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور كلمہ ''صَعْق'' بے ہوش ہونے كے معنى ميں آتاہے دو جملوں يعنى ''تجلى ربہ'' اور ''جعلہ دكاً'' كے بعد جملہ ''خرّ موسى صعقا'' كو لانے ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ موسىعليه‌السلام كے بے ہوش ہونے ميں پہاڑ پر تجلى خدا كے پڑنے اور اس كے منہدم ہونے كو عمل دخل حاصل تھا_

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام ، پہاڑ كے منہدم ہونے كى گڑ گڑاھٹ سننے كى وجہ سے بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

جعله دكاً و خرّ موسى صعقا

''صَعق'' ايسے شخص كو كہا جاتاہے كہ جو ڈراونى آواز سن كر بے ہوش ہوجائیے (لسان العرب)

۱۸_ انبياء پر بھى بے ہوشى طارى ہونے كا امكان ہے_و خرّ موسى صعقا

۱۹_ موسىعليه‌السلام نے ہوش ميں آنے كے بعد تسبيح خدا ميں مشغول ہوكر ذات حق كو ديكھنے دكھانے سے منزہ جانا_

فلما ا فاق قال سبحنك

كلمہ ''سبحان'' نقص و عيب سے پاك و منزہ سمجھنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت كے مورد كى مناسبت سے موسىعليه‌السلام نے خدا كو جس عيب و نقص سے منزہ جانا وہ امكان رؤيت ہے_

۲۰_ ذات خدا كے بارے ميں كسى غلط توہّم كے ذہن ميں آنے پر اس كى تقديس اور تنزيہ ضرورى ہے_

قال رب ا رني ...قال سبحنك

۲۱_ رؤيت خدا سے موسيعليه‌السلام كى محروميت اس كے محال ہونے كى دليل ہے ، نہ يہ كہ وہ ديدار خدا كى اہليت نہ ركھتے

۲۵۳

ہوں _قال سبحنك چونكہ موسىعليه‌السلام نے رؤيت كى درخواست كرنے اور پہاڑ پر تجلى خدا كے ڈالے جانے اور اس كے منہدم ہونے كے بعد خدا كى تسبيح كى اس سے يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ ان كى محروميت كى وجہ رؤيت خدا كا محال ہوناہے نہ يہ كہ وہ اس مقام كے اہل نہ تھے_

۲۲_ موسىعليه‌السلام نے تجلى خدا كے اثر (پہاڑ كے چكنا چور ہونے) كو ديكھ كر رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كو ناروا سمجھا اور بارگاہ الہى ميں توبہ كي_فلما ا فاق قال سبحنك تبت اليك

۲۳_ كسى ناروا عمل كى انجام دہى سے آگاہ ہونے كے فوراً بعد خدا كے حضور توبہ كرنا ضرورى ہے

قال رب ا رنى ...قال سبحانك تبت اليك

۲۴_ موسىعليه‌السلام نے حقيقت جاننے كے بعد، اسے فوراً قبول كرتے ہوئے اس كا اعتراف كيا_قال ...و ا نا ا ول المؤمنين آيت كے پہلے حصہ كى روشنى ميں كلمہ ''المؤمنين'' كا متعلق جملہ (با نك لا تري) ہے جملہ''ا نا ا ول المؤمنين'' ميں كلمہ ''ا ول'' مقدم ہونے كے معنى كے علاوہ تاخير نہ كرنے كا معنى بھى فراہم كرتاہے، اس لئے كہ كسى شخص كے اول مؤمن ہونے كا دعوى اسى صورت ميں صحيح ہوگا كہ وہ ظاہر ہونے والى حقيقت كو فوراً قبول كرتے ہوئے اس پر ايمان لائے و گرنہ اس بات كا احتمال موجود ہوتاہے كہ كوئي دوسرا شخص اس دوران ايمان لے ائے اور يوں وہ اول مؤمن نہ ہوپائے_

۲۵_ رؤيت خدا كے ناممكن ہونے پر موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں سے سب سے پہلے ايمان لانے والے شخص تھے_

و ا نا ا ول المؤمنين

۲۶_ انبيائے الہي، حقائق پر ايمان لانے اور ان كا اقرار كرنے كے سلسلہ ميں پہل كرتے ہيں _و ا نا ا ول المؤمنين

۲۷_عن الصادق عليه‌السلام : ...''فلما تجلى ربه للجبل'' ...و إنما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سم الخياط ...و ''خر موسى صعقا'' اى ميّتا ''فلما ا فاق'' و ردّ عليه روحه (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: سوئي كے سوراخ سے نكلنے والى روشنى كى مانند جلوہ خدا كا ايك قليل پرتو پہاڑ پر متجلى ہوا ...اور موسىعليه‌السلام سكتہ كى حالت ميں گر پڑے، يعنى مرگئے ...اور پھر ہوش ميں ائے، يعنى خدا نے ان كى طرف روح پلٹا دي_

____________________

۱) تفسير برہان ج۲، ص ۳۴، ج۳; بحار الانوار ج۴ ص ۵۵، ح ۳۴_

۲۵۴

۲۸_حفص بن غياث قال: سا لت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل: ''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' قال: ساخ الجبل فى البحر (۱)

حفص بن غياث كہتے ہيں كہ امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' كے بارے ميں پوچھا، توآپعليه‌السلام نے فرمايا: وہ پہاڑ (تجلى خدا كے بعد) سمندر ميں گر پڑا

آنكھ:نگاہ كى محدوديت ۹

الله تعالي:اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۸، ۱۹، ۲۰; اللہ تعالى كاموسىعليه‌السلام سے تكلم ۲، ۳، ۴، ۵، ۶;اللہ تعالى كا وعدہ ۳; اللہ تعالى كيتجلى كے آثار ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۲۲;اللہ تعالى كى دعوتيں ۱، ۳ ;اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۷، ۹، ۱۹، ۲۱، ۲۴، ۲۵;اللہ تعالى كى رؤيت كى درخواست ۵، ۶، ۱۱ ;اللہ تعالى كى رؤيت كى شرائط ۱۲;اللہ تعالى كى كوہ طور پر تجلى ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۶، ۱۷،۲۲ ; اللہ تعالى كى موجودات پر تجلى ۱۴; اللہ تعالى كے اوامر، ۱۱

انبياء:انبياء اور بے ہوشى ۱۸;انبياء اور خطا ۲۲، ۲۴ ;انبياء اور رؤيت خدا، ۹;انبياء كا ايمان ۲۶;علم انبياء كى محدوديت ۱۰

ايمان:ايمان لانے ميں پہل كرنے والے ۲۶

توبہ:توبہ كى اہميت ۲۳;توبہ كے موارد ۲۳;ناپسنديدہ عمل سے توبہ ۲۳

حق:حق كا اقرار ۲۶

كوہ طور:كوہ طور كا منہدم ہونا ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۲۲;كوہ طور كى گڑ گڑاہٹ ۱۷

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور تجلى خدا ۱۵، ۲۲ ;موسىعليه‌السلام اور رؤيت خدا ۲۱، ۲۲; موسىعليه‌السلام كا ايمان ۲۴، ۲۵; موسى كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۲، ۲۴ ; موسىعليه‌السلام كى بے ہوشى ۱۶، ۱۷، ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تسبيح ۱۹;موسىعليه‌السلام كى توبہ ۲۲;موسىعليه‌السلام كى خواہشات ۵، ۶، ۷، ۱۱ ; موسىعليه‌السلام كى طرف سے حق قبول كرنا ۲;موسىعليه‌السلام كے رشد كے عوامل ۴;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۱، ۲، ۵

____________________

۱)توحيد صدوق، ص ۱۲۰، ح ۲۳، ب ۸: تفسير برھان ج/۲ ص ۳۴ ح ۲_

۲۵۵

آیت ۱۴۴

( قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ )

ارشاد ہوا كہ موسى ہم نے تمام انسانوں ميں اپنى رسالت اور اپنے كلام كے لئے تمھارا انتخاب كيا ہے لہذا ب اس كتاب كو لے لو اور اللہ كے شكر گذار بندوں ميں ہوجاؤ(۱۴۴)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنے زمانے كے تمام لوگوں سے برتر اور خدا كے برگزيدہ تھے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينا'' كے معنى ميں استعمال ہوتاہے (مفردات راغب) اور چونكہ ''اصطفيتك'' حرف ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا اس ميں برترى كا معنى بھى پايا جاتاہے_

۲_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو ان كے خلوص كى وجہ سے تمام لوگوں پر برترى دى اور چنا_

قال ى موسى إنّى اصطفيتك على الناس

چونكہ ''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينے كے معنى ميں آتاہے لہذا جملہ ''اصطفيتك'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام ايك خالص انسان تھے اور ان كا يہى خلوص ان كو انتخاب كرنے كا باعث بناہے_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے انتخاب اور دوسروں پر ان كو برترى دينے كا اظہار، مناجات كى جگہ پر موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

۴_ رؤيت كے بارے ميں موسىعليه‌السلام كى درخواست كا منفى جواب دينے كى وجہ سے خداوند متعال نے ان كى دل جوئي كي_

قال لن ترني ...قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

ايسے معلوم ہوتاہے كہ موسىعليه‌السلام كى درخواست رد كرنے كے بعد خدا كى طرف سے خصوصى نعمات كا ذكر آپعليه‌السلام كى دل جوئي كے واسطے ہے يعني: اگرچہ تمھارے لئے رؤيت خدا ممكن نہيں ، ليكن خدا نے تمہيں ايسى نعمات عطا كى ہيں كہ جن سے دوسرے محروم ہيں _

۵_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو، اپنى رسالت عطا كركے اور ان كے ساتھ ہم كلام ہوكر، اس زمانے كے تمام لوگوں پر برترى بخشي_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي

۲۵۶

''برسالتي'' اور ''بكلامي'' ميں حرف ''باء'' استعانت كيلئے ہے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، لوگوں كيلئے خدا كى طرف سے متعدد پيغامات ليكر ائے تھے_برسلتي

كلمہ ''رسالات'' كو جمع لانے ميں ہى مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۷_ بعض انسانوں كى لياقت اور صلاحيت، خدا كى طرف سے پيغمبرى اور رسالت كيلئے ان كے منتخب ہونے كا باعث بنتى ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس برسلتي

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا: ميرے پيغامات حاصل كرو اور انہيں سيكھو اور اپنے اعمال و كردار كو ان كى اساس پر استوار كرو_فخذ ما ء اتيتك

فعل ''خذ'' كا مصدر ''ا خذ'' لينے كے معنى ميں آتاہے اور خدا كے پيغامات لينے سے مراد ،انہيں سيكھنا اور ان پر عمل كرنا ہے_

۹_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ رسالت كى نعمت حاصل ہونے اور ميرا كلام سننے كے اہل ہونے پر ميرے شكر گزار رہو_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي ...و كن من الشكرين

۱۰_ خدا كے پيغامات وصول كرنے اور ان پر عمل كرنے اور اس كى نعمات پر شكر گزار رہنے كے بارے ميں حكم، مناجات كے وقت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ...فخذ ما ء اتيتك و كن من الشكرين

۱۱_ چاليس راتوں كى مناجات كے ذريعے موسىعليه‌السلام كى تطہير، تورات حاصل كرنے كيلئے مقدمہ تھي_

ى موسى إنى اصطفيتك ...فخذ ماء اتيتك

چونكہ خدا نے موسىعليه‌السلام كے ساتھ اپنے وعدے كى داستان اور اُن كى چاليس راتوں كى مناجات كے آخر ميں اپنے پيغامات (تورات) عطا كرنے كى بات كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ وعدہ اور وہ مناجات تورات عطا كرنے كى وجہ سے تھيں _

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كى ہم كلامى اور پيغمبرى كيلئے ان كا انتخاب، اُن كيلئے خدا كى عظيم نعمات ہيں _

على الناس برسلتى و بكلمي ...و كن من الشكرين

۱۳_خدا كے پيغامات ياد كرنا اور اعمال و كردار ميں انہيں بروئے كار لانا، نعمت دين پر خدا كى شكر گزارى ہے_

فخذ ماء اتيتك و كن من الشكرين

۲۵۷

الہى پيغامات عطا كرنے كے بعد سپاس گزارى كى بات اس حقيقت كو ظاہر كرتى ہے كہ وہ پيغامات نعمت تھے لہذا انہيں عطا كرنے پر خدا كا شكر بجا لانا ضرورى ہے چنانچہ ان پيغامات كو ياد كرنے كے بارے ميں حكم يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ اس نعمت كا شكر انہيں ياد كرنے اور اپنانے كے ذريعے ادا ہوتاہے_

۱۴_ دين اورالہى تعليمات، بشر كيلئے خدا كى نعمت ہيں _برسلتي ...و كن من الشكرين

۱۵_ نعمات خدا كے ملنے پر شكر گزارى ضرورى ہے_و كن من الشكرين

۱۶_ نعمات خدا كا شكر بجا لانے والے، بارگاہ خدا ميں ايك عظيم مقام پر فائز ہوتے ہيں _و كن من الشكرين

حضرت موسىعليه‌السلام جيسے ايك عظيم پيغمبر كو شكر گزارى كے بارے ميں خدا كا حكم اس حقيقت كى نشاندہى كرتاہے كہ شاكرين كا مقام بہت بلندہے_

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : ا وحى الله عزوجل إلى موسى : يا موسى ا تدرى لم اصطفيتك بكلامى دون خلقي؟ قال: يا رب و لم ذاك؟ قال: فا وحى الله تبارك و تعالى إليه ا ن يا موسى : إنى قلبت عبادى ظهرا لبطن فلم اجد فيهم ا حدا ا ذل لى نفساً منك (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے: كہ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كى طرف وحى بھيجى اے موسىعليه‌السلام كيا تم جانتے ہو كہ ميں نے اپنے بندوں ميں سے اپنے ساتھ ہم كلام ہونے كيلئے تمہارا انتخاب كيوں كيا؟ موسىعليه‌السلام نے جواب ديا: پروردگارا اس كى وجہ كيا تھي؟ خداوند متعال نے فرمايا: اے موسىعليه‌السلام ميں نے تمام بندوں كى چھان بين كى اپنے سامنے تجھ سے زيادہ كسى كو خاضع و تابع نہيں پايا

اخلاص:اخلاص كے آثار ۲

اعداد:چاليس كا عدد ،۱۱

الله تعالى :اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۴;اللہ تعالى كا موسىعليه‌السلام سے تكلم ۳، ۸، ۹، ۱۰ ; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲، ۱۴،۱۵،۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۸، ۹، ۱۰

انبياء:انبياء كے انتخاب كے اسباب ۷

انتخاب:انتخاب كے اسباب ۲،۷

____________________

۱) علل الشرايع ، ص ۵۶، ح۲ ، ب ۵۰،نورالثقلين ج۲ ص ۶۷ح ۲۵۵_

۲۵۸

تورات:نزول تورات كے اسباب ۱۱

دين:تعليمات دين پر عمل ۸، ۱۰، ۱۳;تعليمات دين كو سيكھنا ۸، ۱۰، ۱۳;نعمت دين ۱۳، ۱۴

رسالت:نعمت رسالت ۹

شكر:شكر نعمت ۹، ۱۰;شكر نعمت كى اہميت ۱۵;شكر نعمت كے موارد ۱۳

شاكرين:۹شاكرين كے مقامات ۱۶

كردار:كردار كى اساس ۸

لياقت:لياقت كے اثرات ۷

مناجات:رات كے وقت مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام پر نعمات ۱۲; موسىعليه‌السلام كا اخلاص ۲;موسىعليه‌السلام كا تزكيہ ۱۱; موسىعليه‌السلام كا چناؤ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۴، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; موسيعليه‌السلام كى بعثت ۱۲; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۶;موسيعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۱۱; موسىعليه‌السلام كى دل جوئي ۴;موسىعليه‌السلام كى لياقت ۹; موسىعليه‌السلام كى مسؤوليت ۸، ۹ ; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱،۲،۳،۵;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۳، ۱۰;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام كا چناؤ :۱، ۲

آیت ۱۴۵

( وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ )

اور ہم نے توريت كى تختيوں ميں ہر شے ميں سے نصيحت كا حصّہ اور ہر چير كى تفصيل لكھ دى ہے لہذا سے مضبوطى كے ساتھ پكڑ لو اور اپنى قوم كو حكم دو كہ اس كى اچھى اچھى باتوں كو لے ليں _ ميں عنقريب تمھيں فاسقين كے گھر دكھلادوں گا(۱۴۵)

۱_ خداوند متعال نے مناجات كے مقام پر موسى عليه‌السلام كو مكتوب الواح عطا كيں _ و كتبنا له فى الا لواح ...فخذها

''الا لواح'' ميں ''ال'' عہد ذكرى ہے اور گزشتہ آيت ميں مذكور ''ما اتيتك'' كى طرف اشارہ ہے_

۲۵۹

۲_ موسىعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں مندرج تحريروں كا كاتب ،خود خداوند متعال تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۳_ موسىعليه‌السلام كو ملنے والى الواح ميں ہر طرح كى نصيحت كا ذكر موجود تھا_و كتبنا له فى الا لواح من كل شيء موعظة

كلمہ ''موعظة'' فعل ''كتبنا'' كيلئے مفعول ہے اور ''من كل شيئ'' كلمہ ''موعظة'' كيلئے صفت ہے، مورد كى مناسبت سے ''كل شيئ'' سے مراد ہر نصيحت آموز چيز ہے، بنابراين جملہ''كتبنا له ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے موسيعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں ہر نصيحت آموز چيز كى نصيحت لكھ دى ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى الواح (تورات) عصر موسىعليه‌السلام كے لوگوں كى ہدايت كے متعلق تمام ضروريات كو پورا كرتى تھيں _و كتبنا ...تفصيلا لكل شيئ

۵_ تورات كا نزول ،مكتوب الواح كى شكل ميں تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۶_ پند و نصيحت، تورات كى بنيادى تعليمات ميں سے ہے_و كتبنا ...موعظة و تفصيلاً

كلمہ ''تفصيلاً'' پر كلمہ ''موعظة'' كے مقدم ہونے ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ تورات كے مواعظ كو اس كى دوسرى تعليمات كى نسبت ايك خاص مقام حاصل ہے_

۷_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت موسىعليه‌السلام كو، الواح كو سيكھنے سمجھنے اور ان پر عمل كرنے كے سلسلہ ميں سنجيدگى كى دعوت_فخذها بقوة

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اپنى قوم كو الواح پر تحرير شدہ معارف اور احكام كو سيكھنے كا حكم دو_

و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۹_ قوم موسيعليه‌السلام ، الواح ميں تحرير شدہ معارف اور احكام كو اچھى طرح ياد كرنے اور ان پر بطريق احسن عمل كرنے كى ذمہ دار تھي_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

مندرجہ بالا مفہوم اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ''احسنها'' كى ضمير كلمہ ''قوة'' كى طرف پلٹائی جائیے، اس بنياد پر فعل ''يا خذوا'' كا مفعول ايك محذوف ضمير ہے كہ جو كلمہ ''ا لواح'' كى طرف پلٹتى ہے يعني:''يا خذوا الا لواح باحسن القوة'' _

۱۰_ معارف الہى كو اچھى طرح سيكھنے اور احكام دين پر بطريق احسن عمل كرنے ميں سنجيدگى سے كام لينا، لوگوں كے ذمہ ايك اہم فرض ہے_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۲۶۰